خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ
سوال: کیا خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی؟ اور کیا اس کے لیے دعائے مغفرت کی جا سکتی ہے؟ بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس نے ایک حرام کام کیا ہے، اس لیے نہ اس کی نماز جنازہ پڑھنی چاہیے نہ اس کی دعائے مغفرت کرنی چاہیے۔
جواب: اس دنیا میں ہر انسان آزمائش کی حالت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی کو اپنی نعمتوں سے نواز کر آزماتا ہے تو کسی کو ان سے محروم کرکے۔ اگر کوئی شخص صحت سے محروم ہو اور کسی شدید مرض میں مبتلا ہو، یا اسباب زندگی سے محروم ہو اور وہ تنہا یا اس کے بچے بھی بھکمری کا شکار ہوں تو اسے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے اور مایوس ہوکر خود کشی کا اقدام کرنے کے بارے میں نہیں سوچنا چاہیے۔ زندگی اللہ کی امانت ہے۔ اسلام نے جسم و جان کی حفاظت کا حکم دیا ہے۔ اس لیے کسی شخص کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ دوسرے کو قتل کردے، یا خود اپنے آپ کو ہلاک کرلے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَلَا تُلْقُوا بِأَیدِیكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ (البقرة: ۱۹۵) ’’اوراپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَا تَقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ (النساء: ۲۹)
’’اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ یقین مانو کہ اللہ تمھارے اوپر مہربان ہے۔‘‘
مفسرین نے اس آیت کی تفسیر میں دوسرے کو قتل کرنے اور خود کو ہلاک کرنے، دونوں مفہوم مراد لیے ہیں۔ (ملاحظہ کیجیے: تفسیر قرطبی، تفسیررازی، تفسیر آلوسی وغیرہ)
احادیث میں بھی خود کشی کرنے والے کے لیے وعید سنائی گئی ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے: مَن قَتَل نَفسَهٗ بِشَیءٍ فِی الدُّنیَا عُذِّبَ بِه یَومَ القِیَامَةِ (بخاری: ۶۰۴۷، مسلم: ۱۱۰)
’’جس شخص نے خود کو کسی چیز سے ہلاک کیا، روزِ قیامت اس کو اسی سے عذاب دیا جائے گا۔‘‘
اس کے باوجود خودکشی کرنے والے مسلمان کو ایمان سے خارج نہیں سمجھا جائے گا۔ اس نے ایک بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے، اسے قیامت میں اس کی سزا ملے گی، لیکن اس کا شمار مسلمانوں میں ہو گا اور جیسے کسی مسلمان کا انتقال ہونے پر اس کی تجہیز و تکفین دوسرے مسلمانوں پر لازم ہوتی ہے، اسی طرح اس کے ساتھ معاملہ کیا جائے گا۔ اسے غسل دیا جائے گا، کفن پہنایا جائے گا،اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور اس کے لیے دعائے مغفرت کی جائے گی۔
عہد نبوی میں ایک شخص نے خود کشی کرلی۔ اللہ کے رسول ﷺ کو اس کی خبر دی گئی۔ لیکن آپؐ نے اس کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھائی۔ (مسلم: ۹۷۸) البتہ صحابۂ کرام نے اس کی تجہیز و تکفین میں حصہ لیا اور اس کی نماز جنازہ پڑھی۔ امام ابو حنیفہؒ، امام مالکؒ، حسن بصریؒ، نخعیؒ، قتادہ ؒ اور جمہور علما کہتے ہیں کہ ایسے شخص کی نمازِ جنازہ پڑھی جائے گی۔
خفیہ نکاح کی شرعی حیثیت
سوال: ایک لڑکی اپنے ایک دوست نوجوان سے محبت کرتی ہے۔ وہ اس سے نکاح کرنا چاہتی ہے۔ لیکن اس کے والدین تیار نہیں ہیں۔ طے ہوتا ہے کہ دونوں خفیہ طریقے سے یا کورٹ جاکر نکاح کر لیں۔ بعد میں لڑکی جب اپنے والدین کو راضی کرلے گی تو دوبارہ علانیہ نکاح کا دکھاوا کر لیا جائے گا۔ اس صورتِ حال میں کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں:
کیا والدین کی مرضی کے بغیر لڑکی کا نکاح درست ہوگا؟
کیا خفیہ طریقے سے نکاح جائز ہے؟
کیا کورٹ میرج شریعت کی نگاہ میں معتبر ہے؟
کیا ایک بار نکاح ہوجانے کے بعد دوبارہ نکاح کا دکھاوا کرنا درست ہے؟
براہِ کرم ان سوالات کے جوابات سے نوازیں۔
جواب: نکاح کے درست ہونے کے لیے کیا والدین کی مرضی ضروری ہے؟ اس سلسلے میں فقہا کا اختلاف ہے۔ امام شافعیؒ اسے ضروری قرار دیتے ہیں، جب کہ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک بالغ لڑکا یا لڑکی اپنی مرضی سے نکاح کر سکتے ہیں۔ امام شافعیؒ ان احادیث سے استدلال کرتے ہیں جن میں ولی کی مرضی کے بغیر نکاح کو اللہ کے رسول ﷺ نے باطل قرار دیا ہے۔ (ابو داؤد: ۲۰۸۴،۲۰۸۵، ترمذی: ۱۱۰۱،۱۱۰۲) جب کہ امام ابوحنیفہؒ ان آیات و احادیث کو دلیل میں پیش کرتے ہیں جن میں نکاح کے درست ہونے کے لیے عورت کی رضا مندی کی بات کہی گئی ہے۔ (البقرة: ۲۳۰، ۲۳۲، ۲۳۴، مسلم: ۱۴۲۱)
فقہاکے اختلاف سے قطع نظر موجودہ دور میں دانش مندی کا تقاضا ہے کہ لڑکی اپنے والدین یا ولی کی مرضی سے نکاح کرے۔ وہ زمانہ کے سرد و گرم سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں، اپنی اولاد کے بہی خواہ ہوتے ہیں۔ لڑکی خود سے والدین کی مرضی کے خلاف نکاح کا اقدام کرے تو بسا اوقات وہ دھوکے کا شکار ہو سکتی ہے، یا بعد میں ازدواجی زندگی میں کوئی تنازع پیدا ہونے پر اس کی حمایت کرنے والا کوئی نہیں رہتا۔
نکاح کے انعقاد کے لیے ضروری ہے کہ کم از کم دو بالغ مسلما ن مردوں (یا ایک مرداور دو عورتوں) کی موجودگی میں ایجاب و قبول ہو۔ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو یہ نکاح معتبر ہے۔ اگرچہ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے کہ نکاح کا اعلان کیا جائے۔ (ترمذی: ۱۰۸۹، ابن ماجہ: ۱۸۹۵) تاکہ سماج میں لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ فلاں نوجوان اور فلاں دوشیزہ، جو اب تک اجنبی تھے، اب رشتۂ نکاح میں بندھ گئے ہیں۔ اس لیے حتّٰی الامکان خفیہ طریقے سے نکاح کرنے سے بچنا چاہیے۔
کورٹ میرج کی بھی یہی حیثیت ہے کہ اگر دو بالغ مسلمان مردوں کو گواہ بنا کر ایجاب و قبول ہوتا ہے تو شرعی طور پر نکاح ہوجائے گا۔
ایک بار نکاح ہوجانے کے بعد دوبارہ نکاح کا دکھاوا کرنے کی ضرورت نہیں۔ ایسا کرنے سے بچنا چاہیے۔ والدین بعد میں رضا مند ہوجائیں تو ان سے بتا دینا چاہیے کہ ہم نکاح کر چکے ہیں۔ دوبارہ نکاح کا دکھاوا کرکے کبھی ایسی پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں کہ کوئی شریف انسان زندگی بھر منھ دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔ مثال کے طور پر خفیہ طریقے سے نکاح کر لیا گیا اور زوجین کے درمیان ازدواجی تعلق قائم ہوگیا۔ اس کے تین چار ماہ بعد علانیہ نکاح کی رسم انجام دی گئی۔ اس صورت میں عین ممکن ہے کہ ازدواجی تعلق کے بعد استقرار حمل ہوگیا ہو اور علانیہ نکاح کے چار پانچ ماہ بعد ہی بچے کی پیدائش ہوجائے۔ایسی صورت میں سماج میں طرح طرح کی باتیں بنتی ہیں۔
رفاہی کاموں میں چندہ دینے والوں کی کمائی کی تحقیق
سوال: ایک زمین خریدی گئی ہے، جس کا مقصد وہاں دعوہ سینٹر، میٹر نٹی ہاسپٹل اور دیگر رفاہی کام انجام دینا ہے۔ تین چار کروڑ روپے کا پروجکٹ ہے۔ اس کی تکمیل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ کمیٹی کی میٹنگ میں بعض ارکان کی طرف سے یہ بات کہی گئی کہ پیسہ صرف حلال کمائی کرنے والوں سے ہی لیا جائے۔ جن افراد کا پیسہ غلط طریقوں سے کمایا گیا ہو، ان سے پیسہ نہ لیا جائے۔
براہِ کرم رہ نمائی فرمائیں۔ کیا یہ شرط طے کرنا درست ہے، یا آنکھ بند کرکے ہر ایک سے چندہ لیا جا سکتا ہے؟ اسی طرح یہ بھی بتائیں کہ کیا وطنی بھائیوں سے بھی اس پروجکٹ میں مالی تعاون لیا جا سکتا ہے؟
جواب: یہ بات درست ہے کہ دینی، دعوتی یا رفاہی کاموں کے لیے کوئی پروجکٹ شروع کیا جائے تو کوشش کرنی چاہیے کہ اس میں صرف حلال پیسہ ہی لگے۔ یہ رویہ صحیح نہیں کہ پروجکٹ بڑا ہو تو ہر طرف سے، ہر طرح کا پیسہ، چاہے وہ حلال ہو یا حرام طریقے سے کمایا گیا ہو، جمع کرنے کی کوشش کی جائے۔
لیکن اس معاملے میں بہت زیادہ کھود کرید بھی نہیں کرنی چاہیے کہ چندہ دینے والے ہر شخص سے دریافت کیا جائے کہ تمھاری کمائی کیسی ہے؟ اور کیا تم یہ چندہ اپنی حلال کمائی سے دے رہے ہو؟ عام حالات میں مسلمان چندہ دہندگان سے حسن ظن رکھنا چاہیے کہ وہ دینی اور رفاہی کاموں میں اپنی حلال کمائی ہی لگائیں گے۔ البتہ اگر کسی شخص کے بارے میں یقینی طور پر معلوم ہو کہ اس کا پورا کاروبار ناجائز چیزوں کا ہے اور اس کی پوری کمائی حرام ہے تو اس سے مالی تعاون لینے سے گریز کرنا چاہیے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص یہ بتاکر دے کہ یہ رقم فلاں حرام مد کی ہے، تو اسے بھی نہیں لینا چاہیے۔
اسی طرح مذکورہ بالا احتیاط کے ساتھ دینی اور رفاہی کاموں میں برادرانِ وطن سے بھی مالی تعاون قبول کیا جا سکتا ہے۔ فقہا نے یہاں تک لکھا ہے کہ برادرانِ وطن میں سے کوئی شخص اگر اپنی خوشی سے مسجد کی تعمیر میں اپنی طرف سے کچھ مالی تعاون کرنا چاہتا ہے تو اسے قبول کیا جا سکتا ہے۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2022