ماہ نومبر کے فکری مباحثے کے حوالے سے
ماہ نومبر کا شمارہ پیش نظر ہے۔ مدیر شمارہ فکری مباحثے کی ’’تخلیق‘‘ پر قابل مبارکباد ہیں کہ اس سے قارئین کرام میں عموما اور تحریکی حلقے میں خصوصا سوچنے سمجھنے کا کلچر مزید عام ہوگا۔
راقم کا ایک مشورہ فکری مباحثے کولے کر یہ ہے کہ جہاں غورو فکر کا کلچر بہت قیمتی ہے وہیں اس پر بھی غور ہونا چاہیے کہ اس فکری زور آزمائی کے نتیجے میں کچھ نئی تدابیر اور کچھ نئے استدلال یا طریق استدلال کی عمارتیں نئے لٹریچر کی شکل میں کھڑی کی جائیں۔ اس ضمن میں اگر ہم فکری مباحثے کا دائرہ وسیع تر کریں اور مغربی مفکرین کی مقبول اور سیمائنل تحریروں کا بھی جائزہ لیا جائے تو شاید نئے زاویے اور نئی تدابیر سامنے آسکتی ہیں۔
استاذ احمد ریسونی کی پر مغز تحریر پر چند طالب علمانہ نکات بطور حاصل مطالعہ پیش خدمت ہیں۔
1) قرآن مجید سے استنباط کے لیے جہاں اصطلاحات قرآنی کی بڑی اہمیت ہے، وہیں قرآن جن حقیقتوں،قوانین و احکامات کو پیش کرتا ہے وہ سورج کی طرح روشن ہیں۔
جیسے اس سوال کا جواب بہت اہم ہے کہ اللہ تعالی کے واضح احکامات کا واقعاتی اظہار کیسے ہوگا۔ کیا ان بڑی حقیقتوں کا انکار ممکن ہے؟
ضروری ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کا قرآن مجید کو لےکر کیا طرز عمل تھا۔ اس کتاب کی روشنی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی امت کی تعمیر فرمائی جس نے ایک قلیل مدت میں نہ صرف یہ کہ دنیا کا نقشہ بدل دیا بلکہ پوری دنیا کو نئی تہذیب اور انسانوں کو حقیقی آزادی سے روشناس کروایا۔ دوسری طرف خلافت راشدہ میں قائم اسلامی ریاست تلے ساری دنیا کو عدل و انصاف کی ٹھنڈی چھانومہیا کرنے والوں کا طرز حکومت کا اعتراف نہ صرف انصاف پسندوں نے بلکہ اسلام دشمن مفکرین تک نے کیا ہے۔ یہ کوئی دیوانے کی بڑ یا کسی فلسفی کا خواب نہیں بلکہ ناقابل تردید تاریخی حقیقت ہے۔
اسلام کے جوہر اسی وقت کھلتے ہیں جب وہ اقتدار میں ہو۔ سید قطب ؒ
2) اسلام کا مقصود قرآن و سنت کی روشنی میں ایک مکمل اور ہمہ جہت نظام کا قیام ہے۔ ایک ایسا نظام جس میں اسلامی شخصیت کی تعمیر ہوسکے۔
شخصیت کی تعمیر میں جہاں فرد کا اپنا کردار اہم ہے وہیں شخصیت کی تعمیر میں خاندان و معا شرے کا تعلیم اور حکومت کا بھی بہت اہم رول ہے۔ یہ سارے عوامل اسلام کے زیر سایہ ہوںگے تو وہی نتائج پھر ظاہر ہوںگے جس کی برکتوں سے تمام دنیا مستفیض ہوسکے گی۔
ورنہ انسان کی بیچارگی کا ذرا تصور کیجیے کہ وہ بدلنا چاہتا ہولیکن ایک ظالم اور جابر نظام اس کی ہر کوشش کو ناکام بنادیتا ہو اور انسانی معاشرے کو اباحیت اور بے مقصد یت میں غرق کردینا چاہتا ہو۔
اسی لیے شخصیت کی تعمیر میں جہاں ہم فرد کے فیصلے اور خاندان و معاشرے کے رول کو تسلیم کرتے ہیں اسی طرح حکومت بھی ان سب سے زیادہ بااختیار ادارہ ہے۔
3) جہاں اسلامی ریاست کی اہمیت گھٹانا حکیمانہ رویہ نہیں ہے وہیں ’’مجرد‘‘ سیاسی تبدیلی ہی کو منزل بنا لینا بھی دوسری چھپی ہوئی خطرناک انتہا ہے جس سے شیخ تحریکات کو متوجہ فرمارہے ہیں۔ اس بڑے خطرے کی زبردست نشاندہی شیخ نے فرمائی ہے۔ اس سنگین خطرے سے سرسری گزر جانا مناسب نہیں ہے۔
شیخ کی نظر میں ایسی تحریکات بدلتے ہوئے پاور ڈائنامکس کو سمجھ ہی نہیں پاتیں کہ ان کی آنکھیں سیاسی جلوؤں سے خیرہ ہوتی ہیں۔
تصور کیجئے ایسے معاشرے کی جہاں چند صالح و متقی حضرات ایک انتہائی کرپٹ اور اقدار سے عاری معاشرے کو سیاسی طور سے لیڈ کرنا چاہتے ہوں!
ایسے اقدامات اپنے آپ کو غیر ضروری تھکا مارنا اور دلدل میں پھنس جانے کے مترادف ہے۔
شیخ کی نظر میں کامیاب حکمت عملی ’’موجودہ ‘‘سیاسی کشمکش کے بجائے دیگرتمام ممکنہ مراکز قوت کی طرف لپکنا ہے۔
4) شیخ نے بڑے پتے کی بات یہ کہی کہ جس جہاں کی تعمیر کا خواب ہم دیکھتے ہیں کیا اس خواب کو ملت کی موجودہ بے وزنی اور زبوں حالی کے باوجود حاصل کرسکتے ہیں؟ یا کیا ملت کو نظرانداز کرکے ایک چھوٹے سے گروہ کا سیاسی نظام بدل دینا عقل میں سماتاہے؟
شیخ کی آخری بات جو بہت طاقت ور اور امید افزا ہے وہ یہ کہ اس ملت میں جذبہ اور صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے ضرورت ان کو صحیح سمت چینلا ئز اور مرتکز کرنے کی ہے۔
ڈاکٹرمحمد سلمان مکرم، اورنگ آباد
ماہ اکتوبر کے فکری مباحثے کے حوالے سے
مضمون میں جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے،وہ تمام باتیں صرف اہم ہی نہیں بلکہ تحریک اسلامی کی ناگزیر ضرورت بھی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ تحریک اسلامی کو ان تمام باتوں پر سنجیدگی کے ساتھ مزید غور کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تمام باتیں جو بظاہر بہت پرکشش ہیں، غور و فکر کیے بغیر اگر انہیں جوں کا توں قبول کر لیا جائے تو اس میں ایک یہ خطرہ بھی ہے کہ تحریک اسلامی اپنے راستے سے بھٹک کر روایتی قسم کی ایک رفاہی تنظیم بن کر نہ رہ جائے۔ توحید، رسالت اور آخرت کی بنیاد پر صالح معاشرے کی تعمیر،ہمیشہ سے تمام انبیاء کرام کا واحد مشن رہا ہے۔ اس مشن کو کسی درجہ میں بھی کنارے کرکے،اگر تحریک خدمت خلق کو ہی کامیابی کا ذریعہ سمجھ لیتی ہے تو ہو سکتا ہے کہ قومی اعتبار سے مسلمانوں کا تھوڑا بہت کچھ بھلا ہو جائے لیکن بطور تحریک تو اس کا وجود ہی ختم ہو چکا ہوگا۔ قرآن و حدیث میں کہیں بھی انبیاء کرام کے اس مشن کے تعلق سے کسی بھی مصلحت پسندی کی قطعی کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔ تحریک کو یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ اسلام کے نام پر اگر خدمت خلق کے کام بھی کیے جائیں گے تو اسے بھی بس ایک حد تک ہی برداشت کیا جائے گا۔ کئی لوگ سوچتے ہیں کہ عدل و انصاف کے قیام کا یہ انبیائی مشن ہی ہمارے تمام مسائل کی جڑ ہے۔ جس کی وجہ سے آج پوری دنیا ہمیں نیست و نابود کرنے پر آمادہ ہے۔ اس مشن کے تعلق سے تھوڑی نرمی اختیار کی جائے تو دنیا بھر میں ہم مسلمانوں کے خلاف جو ماحول بنا ہوا ہے اس میں بہت حد تک کمی آسکتی ہے۔ اپنے اخلاق و کردار اور خدمت خلق کے ذریعہ ہم لوگوں کو مزید اپنے قریب کر سکتے ہیں۔ اس طرح تمام پریشانیوں سے ہمیں نجات مل سکتی ہے۔ حالانکہ اگر سنجیدگی کے ساتھ تھوڑا بھی غور کیا جائے تو سچائی یہ ہے کہ ہمارے موجودہ حالات کی وجہ ہمارا اس مشن پر عمل کرنا نہیں بلکہ اس کا اول سبب اس مشن کو فراموش کر دینا ہے۔ وہ قوم جو خالق کائنات کی ہدایات اور اس کے پیارے رسول ﷺ کی رہ نمائی چھوڑکر ادھر ادھر بھٹک رہی ہو اس کا انجام اور کیا ہو سکتا ہے۔
ہم مسلمانوں کے ان بدترین حالات کا دوسرا بنیادی سبب اسلامی تحریکوں کی غلط پالیسیاں ہیں۔ اقتدار کے حصول کا سیدھا اعلان کرکے ایک طرف یہ تحریکیں اٹھنے سے پہلے ہی تمام اہل اقتدار اور ان کے حواریوں کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیتی ہیں اور دوسری طرف مسلمان قوم کی بیجا محبت بلکہ کئی بار تو قوم پرستی کا مظاہرہ کرکے عوام الناس اور دوسری تمام قوموں کو اپنا دشمن بنا لیا جاتا ہے۔ غفلت کا شکار وہ مسلمان قوم جس کی محبت میں یہ تمام دشمنیاں مول لی جارہیں تھیں،خاموش تماشائی بن کر سب کچھ دیکھتی رہتی ہے۔ تحریک اسلامی ہر طرح کے گروہی تعصبات سے پاک،صرف اور صرف انسانوں کی بھلائی کے لیے جدو جہد کرنے والے ان مخلص مومنین کی جماعت ہوا کرتی ہے جو اللہ کے ساتھ اپنا سودا کرچکے ہوتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ بعض تحریکوں نے خود کو مسلمانوں کے مفاد کے لیے کام کرنے والی ایک ایسی قومی تنظیم بنا لیا ہے جس میں اپنے پرائے، کسی معقول انسان کے لیے کوئی کشش نہیں ہے۔
مضمون میں دعوت کی وضاحت کرتے ہوئے شہادت اور خدمت کی جو تشریح کی گئی ہے وہ مزید وضاحت طلب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دعوت دین کے لیے ہماری زندگیوں سے بھی عملی شہادت کا ثبوت ملنا چاہئیے۔ لیکن اس کا یہ مطلب کہاں ہوا کہ ملک و انسانیت کی بھلائی کے لیے اسلام جس اجتماعی نظام کی بات کرتا ہے اس سے چشم پوشی اختیار کرلی جائے۔ ویسے بھی یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ انبیائی مشن کے لیے جدوجہد کیے بغیر مسلمانوں کی زندگیاں عملی شہادت کا نمونہ بن جائیں۔
اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تحریک اسلامی، نیکی بھلائی اور خدمت خلق کے لیے کام کرنے والی ایک جماعت ہوا کرتی ہے لیکن خدمت سے مراد اگر صرف یہ لیا جائے کہ عوام الناس کے لیے رفاہی قسم کے ادارے قائم کیے جائیں تو میرے نزدیک خدمت خلق کا یہ ایک ناقص تصور ہوگا۔ خدمت خلق کے لیے اجتماعی طور پر اسکول کالج اور ہاسپٹل جیسےادارے قائم کرنا، یہ کام تودوسرے لوگ بھی کر لیا کرتے ہیں۔ اس کےمقابلے میں اسلام اس بات پر کہیں زیادہ زور دیتا ہےکہ اجتماعی اور انفرادی طور پر مسلمانوں کے اخلاق و کردار کو اس قدر بلند کر دیا جائے کہ ان کی زندگیاں دوسروں کے لیے خیر کا ذریعہ بن جائیں،تاکہ وہ انسانیت کی اصلاح اور بھلائی کا بھاری بوجھ اٹھا سکیں۔ بیشک انسانوں کی اصلاح اور انسانیت کی بھلائی کے لیے کام کرنا ایک مشکل کام ہے۔ لیکن ساتھ ہی میں یہ بھی کہنا چاہوںگا کہ صبر و حکمت اور مومنانہ بصیرت سے اگر کام لیا جائے تو اس مشکل کام کو ہم بڑی حد تک آسان بنا سکتے ہیں۔ اس سب کے باوجود ہمیں نہیں بھولنا چاہیے کہ امتحانات، آزمائشوں اور مشکلات سے گزرے بغیر جنت کی طرف کوئی راستہ نہیں جاتا۔ اہل اقتدار کی مخالفتوں اور مکارانہ چالوں کے باوجود اگرحق کی آواز عوام الناس کو متاثر کر رہی ہے تو ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہم صحیح سمت کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اگر عوام الناس بھی ہماری بات سننے پر آمادہ نہیں ہیں تو ہمیں اپنے طریقۂ کار پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ وقت و حالات کو بدلنا ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ ہمارا کام صرف اتنا ہے کہ جتنا بھی اور جو کچھ بھی ہم کر سکتے ہیں اس کے لیے اپنی انتہائی کوششیں صرف کر دیں۔
ڈاکٹرنوشادعلی
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2019