سود کی حرمت

سود کالعدم کردیا گیا ہے

وَرِبَا الْجَاهِلِیةِ مَوْضُوعٌ، وَأَوَّلُ رِبًا أَضَعُ رِبَانَا رِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فإنه موضوع کله۔ [1]

’’جاہلیت کا سود ختم کردیا گیا، اور ہمارے سود میں سے پہلا سود جسے میں ختم کررہا ہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے۔ اب یہ سارا کا سارا سود ختم ہے۔‘‘

نبی کریم ﷺ نے اپنے آخری حج کے موقع پرکئی خطبے دیے تھے جن میں زیادہ تر باتیں مشترک تھیں۔ حدیث کی کتابوں میں 9 ذی الحجہ کے دن میدان عرفات میں، 10 ذی الحجہ کو مکہ میں اور 12 ذی الحجہ کو منیٰ میں دیے گئے خطبوں کا ذکر آیا ہے۔یہ تمام حجۃ الوداع کے خطبےکے نام سے مشہور ہیں۔ عموماً ان میں کسی نئی بات کی تعلیم نہیں دی گئی ہے بلکہ ان خطبوں میں نبی کریم ﷺ نے اپنی 23 سالہ تعلیمات کا خلاصہ بیان کر دیا تھا۔ ان میں نبی کریم ﷺ نے قیامت تک موجود رہنے والی آخری امت کو دین اسلام کی اہم ترین باتوں کی نصیحت فرمائی۔ اسی موقع پر آپ ﷺ نے درج بالا پیغام بھی دیا۔

سود سے متعلق قران کریم کی آیتیں مختلف نبوی زمانہ میں نازل ہوئیں۔ البتہ سابقہ سود کے کالعدم قرار دیے جانےکا جو اعلان درج بالا حدیث میں ہے وہی بات قران کریم کی اس موضوع پر آخیر زمانہ میں نازل آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیان کی۔ ’’اے لوگو جو ایمان لائےہو اللہ تعالیٰ کا تقوی اختیار کرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو، اگر تم واقعی ایمان لائے ہو۔‘‘ [2] یہ آیت قران کریم کی احکامات کے سلسلے کی آخری آیتوں میں سے ایک ہے۔ اس کی وجہ سے کچھ لوگوں کو یہ غلط فہمی ہو گئی ہے کہ سود کی حرمت بہت بعد میں نازل ہوئی ہے۔ لیکن درست بات یہ ہے کہ سود کی ناپسندیدگی سے متعلق قرآنی آیات اس سے قبل نازل ہو چکی تھیں۔ ویسے بھی دنیا کے دیگر علاقوں کی طرح سود عربوں کے نزدیک ہمیشہ ناپسندیدہ چیز رہا ہے۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ خانہ کعبہ کی تعمیر نو میں جو نبی کریمﷺ کی نوجوانی کا زمانہ ہے، یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ اس میں جو لوگ بھی رقم لگائیں گے اسے ناپاک آمدنیوں سے پاک ہونا چاہیے۔ اور ان ناپاکیوں میں سود کو شامل کیا گیا تھا۔ یعنی سود سے حاصل آمدنی اس کام میں خرچ نہیں کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔دراصل قرآن کی متذکرہ آیت اور درج بالا حدیث میں سود کی بچی ہوئی رقم کے خاتمہ کا اعلان کیا گیا ہے۔دوسرے لفظوں میں سود کے حرام ہو جانے کے بعد یہ سوال باقی تھا کہ جو سود کی رقم لوگوں کے ذمہ واجب الادا ہے اس کا کیا ہوگا؟ یہاں صریح طور پر اسے کالعدم قرار دے دیا گیا۔

نبی کریم ﷺ نے جاہلیت کے سود کو ختم کرنے کے ساتھ سابقہ دور کے قتل کے تمام جھگڑوں کو بھی باطل قرار دیا تھا اور یہ فرمایا تھا ’’سب سے پہلا خون جو باطل کیا جاتا ہے وہ ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کے بیٹے کا ہے۔‘‘ (ربیعہ بن حارث آپﷺ کا چچیرا بھائی تھا جس کے بیٹے عامر کو بنو ہذیل نے قتل کر دیا تھا)۔ اس طرح آں حضرت ﷺ نےان دونوں معاملات یعنی سود کی بقا یارقم اور خون کا بدلالینے کے جاہلی طریقوں کے خاتمہ کی ابتدا اپنے خاندان سے متعلق معاملات سے کی۔ظاہر سی بات ہے کہ یہ دونوں مطالبے دور جاہلیت کے مسلمہ حقوق تھے جن سے نبی کریمﷺ نے اپنے خاندان کے افراد کوروک دیا۔ دراصل اصلاح کا جو کام اپنی ذات اور اپنے گھر سے کیا جاتا ہے وہ بہت موثر ہوتا ہے۔

سود کبیرہ گناہوں میں شامل ہے

اجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوبِقَاتِ، قَالُوا: یا رَسُولَ اللهِ وَمَا هُنَّ؟ قَالَ: ’الشِّرْكُ بِاللهِ، وَالسِّحْرُ، وَقَتْلُ النَّفْسِ الَّتِی حَرَّمَ اللهُ إِلَّا بِالْحَقِّ، وَأَكْلُ الرِّبَا، وَأَكْلُ مَالِ الْیتِیمِ، وَالتَّوَلِّی یوْمَ الزَّحْفِ، وَقَذْفُ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ الْغَافِلَاتö۔ [3]

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو: صحابہ کرام نے دریافت کیا کہ وہ کیا ہیں ؟ آپ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، جادو کرنا، جس نفس کو اللہ نے حرام کیا ہے اسے بغیر حق کے قتل کرنا، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جنگ کے میدان سے پیٹھ پھیر کر بھاگنا اوربھولی بھالی پاک دامن مومنہ عورتوں پر تہمت لگانا۔‘‘

اسلامی شریعت میں نامطلوب کاموں کی درجہ بندی ہے۔ کچھ کی حیثیت صغیرہ یعنی چھوٹے گناہوں کی ہے اور کچھ بڑے گناہ ہیں جنھیں کبیرہ گناہ کہا جاتا ہے۔ درج بالا حدیث کبیرہ گناہوں سے متعلق ہے جن میں چند بڑے گناہوں کو ہلاکت میں ڈالنے والےقرار دیا گیا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ وہ ناپسندیدہ کا م ہیں جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے اور اس کا نتیجہ دنیا میں تباہی اور آخرت میں عذاب الٰہی ہے۔ ان گناہوں میں سود کھانا بھی شامل ہے۔

سود کھانے کی ممانعت کی شدت یہ ہے کہ قران کریم نے اسے اللہ اور اس کے رسول سے جنگ قرار دیا ہے۔[4] قران کریم میں یہ تعبیر کسی اور گناہ کے لیے اختیا ر نہیں کی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بھی کئی احادیث، جن میں درج بالا شامل ہے، سود کے سلسلے میں شدید ناپسندیدگی کے الفاظ اور اس کے سخت عواقب بیان کیے ہیں۔

سود کی کراہت اور اسلام میں اس کی ممانعت کی شدت کا اندازہ درج بالا حدیث سے اس طرح ہوتا ہے کہ اسے جن گناہوں کے ساتھ بیان کیا گیا ہے وہ سخت ترین ہیں۔ یعنی یہ غور طلب ہے کہ بقیہ چھ کام کیا ہیں جنھیں اس موقع پر نبی کریم ﷺ نے ہلاکت خیز کہا ہے اور جن سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے، وہ کس نوعیت کے ہیں؟ پہلی چیز شرک ہے کہ جسے قران کریم نےظلم عظیم کہا ہے،جوناقابل معافی ہے۔ دوسرا جادو ہے جو ایک شیطانی فعل ہے جس سے باز رہنے کا اسلامی شریعت میں واضح حکم ہے۔ تیسرا ناحق کسی انسان کا قتل ہے جو اللہ تعالیٰ کی قرار دی گئی حرمت نفس انسانی کو پامال کرنے کے مترادف ہے۔ اسی طرح دیگرتین امور بھی ہیں، یعنی یتیم کا مال ہڑپ کر جانا، میدان جنگ میں پیٹھ دکھانا اور وہاں سے فرار ہو جانا اور کسی پاک دامن خاتون پر اس کی عصمت سے متعلق تہمت لگانا انتہائی درجہ گھناؤنے ہیں۔

سود میں ملوث ہونا عذاب الٰہی کو دعوت دینا ہے۔

مَا ظَهَرَ فِی قَوْمٍ الزِّنَا والرِّبَا ؛ إلَّا أحَلُّوْا بِأنفسِهِمْ عَذَابَ اللهِ۔ [5]

’’جب کسی قوم میں زنا اور سود عام ہو جاتے ہیں تو وہ اپنی جانوں پر اللہ کا عذاب حلال كرلیتے ہیں۔‘‘

اس حدیث میں نبی کریم ﷺ نے سود کو زنا کی طرح ایک بڑا گناہ کہا ہے۔ اس بات کی اہمیت یہ ہے کہ زنا کی خباثت سےہر انسان جو سلیم الطبع ہو، واقف ہوتا ہے لیکن سود کے سلسلے میں بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ درست ہے یا کم از کم ناگزیر ہے۔

درج بالا حدیث اس موضوع پر دیگر روایات سے اس معنی میں مختلف ہے کہ ا س میں سود کے اجتماعی مفاسد کا ذکر ہے جب کہ دوسری احادیث میں افراد کا ذکر ہے جن سے اللہ سود کھانے کے سبب ناراض ہوتا ہے اور انھیں دنیا اور آخرت میں سزا دیتا ہے۔کسی قوم کے سود اور زنا میں عام طور پرمبتلا ہونے کا وبال خود دنیا کی زندگی میں عذاب الٰہی کی صورت میں ظاہر ہوگا، یہ بات اس حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ ذکر اس قوم کا ہو رہا ہے جس میں یہ دو خرابیاں وبائے عام بن جاتی ہیں۔ ہم جب اپنے زمانے کے حالات پر غور کرتے ہیں تو اقوام عالم کوان دو برائیوں میں مشغول پاتے ہیں۔ آج ہمارے ارد گرد جو فساد فی الارض برپا ہے اسے ہم درج بالا حدیث کے تناظرمیں سمجھ سکتے ہیں۔

اس حدیث میں یہ بات نہیں کہی گئی ہے کہ ان دو برائیوں کے عام ہو جانے کی نتیجہ میں قوموں کی تباہی لازماً آتی ہے بلکہ کہا گیا ہے کہ ایسی قومیں اپنے اوپر عذاب الٰہی کوروا کر لیتی ہیں۔ دراصل قوموں پر عذاب کے سلسلے میں قران کریم نے یہ اصول بتایا کہ یہ ان کے اپنے کرتوت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ سورہ رعد آیت 11 میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے، اور اللہ کسی قوم کی سزا کا ارادہ کر لیتا ہے تو وہ بدلا نہیں کرتا اور اس کے سوا ان کا کوئی مددگار نہیں ہو سکتا۔‘‘ اس آیت میں قوموں کی حالت بدلنے سے مرادان کی اچھی حالت کو بری حالت میں تبدیل کرنا ہے۔ دراصل یہ آیت قوموں پر اللہ کے عذاب سے متعلق اللہ کی سنت کو بیان کرتی ہے۔ درج بالا حدیث کو اس آیت قرانی کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔

یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ سود کے سلسلے میں قران کریم اور احادیث میں اس کے لین دین کے طریقے یامقصد کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ سود اپنی ہر شکل میں قبیح ہے۔ شرح سود کم ہو یا زیادہ، سادہ ہو یا بڑھتا چڑھتا سود(simple or compound interest)، کاروباری ضرورت کے لیے لیا گیا ہو یا غیر کاروبار ی حاجات کے لیے، بینک کا ہو یا کسی مہاجن کا، اس سب پر قران و حدیث میں ذکر کردہ سود اور افراد و اقوام پر اس کے عواقب کا اطلاق ہوتا ہے۔

سود کی قسمیں

كلُّ قرضٍ جرَّ منفعةً فهو وجهٌ من وجوه الرّبا۔ [6]

(ہر قرض جو نفع کا باعث بنے سود کی ایک قسم ہے۔)

علما کے درمیان یہ بحث موجود ہے کہ درج بالا قول نبی کریم ﷺ کا ہے یا صحابی رسول فضالہ بن عبیدؓ کا قول ہے،یعنی یہ حدیث رسولﷺ ہے یا صحابی رسول کا اثر۔ اس بات کا امکان ہے کہ یہ حدیث نہیں بلکہ صحابی کا اثر ہو۔

اسلامی تعلیمات میں قرض نفع کا باعث نہیں ہو سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں قرض کی بیع نہیں ہو سکتی۔ قرض سے مراد ہر وہ مال ہے جو واجب الادا (Liability)ہو۔ مثلاً دو افراد کے درمیان ادھار لین دین کا معاملہ ہو جس میں رقم یا شئے بعد میں ادا کرنی ہو تو بیع مکمل ہو جانے کے بعد اس ادھار رقم یا شئے میں کوئی بھی اضافہ سود ہو گا۔ البتہ اس سے مراد مشروط اضافہ ہے کیوں کہ بغیر شرط کے اگر قرض چکانے والا فریق اپنی مرضی سے کچھ زیادہ دے دے تو یہ سود نہیں ہوگا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے متعدد مواقع پر قرض سے زائد رقم یا شئے احسان کے طور پر ادا کی ہے۔

سود کا دنیوی انجام

الرِّبَا وَإِنْ كَثُرَ فَإِنَّ عَاقِبَتَهُ إِلَى قُلٍّ۔ [7]

’’سود خواہ کتنا ہی بڑھ جائے انجام کار قلت ہی ہوگا۔‘‘

قران کریم میں اللہ تعالیٰ نے سود کے مقابلہ میں صدقہ کو پیش کیا ہے۔ سود کو کالعدم قرار دیا اور صدقہ کی تلقین کی۔ چناں چہ ارشاد باری تعالیٰ ہے‘‘اللہ تعالیٰ سود کومٹاتا ہے اور صدقہ کو بڑھاتا ہے۔‘‘[8] سود کے مٹانے یا درج بالیٰ حدیث کی زبان میں اس کے انجام کار قلیل ہو جانے کے دو مفہوم ہیں۔ ایک یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کا حرام کردہ ہے اس لیے اس پر اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے اور اس کی برکت زائل ہو جاتی ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ انسانی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں مجموعی طور پر انسانی سماج اخلاقی نقصانات کے ساتھ مادی نوعیت کی تباہی سے دوچار ہوتا رہا ہے اور ہو رہا ہے۔

سود کے لیے عربی لفظ جو قران و سنت میں استعمام ہوا وہ ’ربوا‘ ہے جس کا معنی زیادتی، بڑھوتری اور اضافہ ہے۔ بنیادی طور پر اس کا اطلاق قرض پر راس المال سے زیادہ مشروط ادائیگی کو کہتے ہیں۔ یہ زائد ادائیگی رقم کی شکل میں بھی ہو سکتی یا ہےیا غیر مالیاتی فائدہ (Non-Monetary Benefit کی صورت میں۔ عموماً اس اضافی ادائیگی کا سبب وقت ہے۔ یعنی قرض کی واپسی میں جو تاخیر ہوتی ہے اس کےمعاوضہ کے لیے سود لیا جاتا ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ کسی بھی اضافہ کا کوئی وجہ جواز(Justification) ہونا چاہیے یعنی اضافہ کا سبب ایک اہم سوال ہے۔ اس سبب کواصطلاح میں عوض (counterpart) بھی کہا جاتا ہے۔ اسلامی اصطلاح میں وقت اضافہ کا جائز سبب نہیں ہے۔ سبب جائز نہ ہو تو وہ اضافہ ناجائز ہو گا۔

یہ بات ظاہر ہے کہ یہ اضافہ قرض دینے والے کے لیے آمدنی کا ذریعہ ہے۔ اسلامی تصورات کے لحاظ سے یہ بات اہم ہے کہ آمدنی کے جائز ذرائع کے بارے میں رائے قائم کی جائے۔ اس سلسلے میں نبی کریم ﷺ کی احادیث سے مدد ملتی ہے۔ ایک ایسی حدیث درج ذیل ہے۔ ایک صحابی بتاتے ہیں کہ آپﷺ نے ناجائز ذرائع آمدنی کے سلسلے میں ایک اصولی بات بتائی۔

النَّهْی عَنْ بَیعِ مَا لَیسَ عِنْدَكَ وَعَنْ رِبْحِ مَا لَمْ یضْمَنْ۔[9]

(جو چیز تمھارے پاس نہ ہو اس کا بیچنا جائز نہیں، اور نہ اس چیز کا نفع جائز ہے جس کے تم ضامن نہیں۔)

ایک دوسری حدیث میں یہی بات نبی کریم ﷺ نے دوسرے لفظوں میں فرمائی ہے۔

الخراج بالضمان۔[10]

(آمدنی ضمانت کے ساتھ ہے۔)

کسی کے کسی شے کےضامن ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کا اس چیز کے خراب ہونے سے نقصان ہوتا ہو۔ دوسرے لفظوں میں نفع یا آمدنی حاصل کرنے کا حق ضمانت سے مشروط ہے۔ اس طرح قرض دینے والے کو راس المال کا حق حاصل ہے لیکن وقت اس کا عوض نہیں ہے کیوں کہ وہ اس کی ملکیت نہیں ہے۔

سود کی تعریف بیان کرتے ہوئے اسلام کے علما نے اس بات پر بحث کی ہے کہ کیا چیز جائز عوض ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ نے اپنی ایک تقریر میں جو بات کہی ہے وہ مفید ہے۔

Riba means any increase over and above the principal amount payable in any transaction which is not covered by any corresponding labour, expertise, risk or commodity. (11)

’’سود راس المال پر وہ اضافہ ہے جس کاعوض کسی لین دین میں مزدوری، مہارت، خطرہ یا شئے نہ ہو۔‘‘

البتہ افراط زر کی وجہ سےوقت کے گزرنے کے ساتھ زر کی قوت خرید میں جو کمی واقع ہوتی ہےاس کی تلافی کے لیے سونے یا اشیا استعمال کی چیزوں(Package of Goods) کی قوت خرید کے اشاریہ (Indexation)پر مبنی اضافہ کی گفتگو چند حلقوں کی طرف سے آتی رہی ہے۔ یہ ایک اجتہادی موضوع ہے۔ ابھی تک فقہائے کرام اور اسلامی معاشیات کے ماہرین کی رائے اس کے خلاف ہے۔

حوالہ جات

صحیح مسلم : 2941، صحیح سنن ابی داود للالبانی : 1905، ابن ماجہ : 1850، الفتح الربانی : 21؍588]

سورة البقرة آیت278

عن ابی ہریرة، رواہ بخاری: 2766

سورة البقرة آیت 279

عن ابن مسود، أخرجه أحمد، أبو یعلى وإبن حبان

عن فضالة بن عبید أخرجه البیهقی فی الكبرى (5/ 571) برقم (10933

عن عبداللہ بن مسعود، رواہ مسند احمد: جلد دوم: حدیث نمبر 2082

سورة البقرة آیت 276

عن عمرو بن شعیب ، عن ابیه، رواہ ابن ماجہ، حدیث نمبر 2188

عن عائشة، رواہ أبو داود، حدیث نمبر 3509

https: //www.youtube.com/watch?v=pzxlfmJX2tw

مشمولہ: شمارہ اپریل 2025

مزید

حالیہ شمارے

اپریل 2025

شمارہ پڑھیں
Zindagi-e-Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223