اختراعی سوچ کا اجتماعی ماحول

الله تعالیٰ بصیرت اور سمجھ بوجھ کو مومنین کی بنیادی خصوصیت کے طور پر بیان کرتا ہے۔

قُلْ هَذِهِ سَبِیلِی أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِیرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِی [یوسف: 108]

“تم ان سے صاف کہہ دو کہ میرا راستہ تو یہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، میں خود بھی پوری روشنی میں اپنا راستہ دیکھ رہا ہوں اور میرے ساتھی بھی۔”

بصیرت کا حصول الله تعالی کی نشانیوں میں گہرے غور و فکر کا مطالبہ کرتا ہے۔

قرآن مجید غور و فکر اور سوچنے (thinking)کی صلاحیت کو مومنین کی بنیادی ضرورت اور ایمان کے حصول کی بنیادی شرط قرار دیتا ہے۔

قرآن مجید بصیرت کے حصول کو ہر مومن کے لیے لازمی شرط قرار دیتا ہے یعنی یہ صرف علما یا کسی مخصوص گروہ ہی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہر مومن کی بنیادی ضرورت ہے تاکہ وہ پوری روشنی میں اپنے زندگی کا راستہ دیکھ سکے اور اپنے ایمان اور مقصد حیات اور ذمہ داریوں کا واضح نقشہ اور ان کا گہرا شعور رکھتا ہو۔

قرآن مجید غور و فکر (thinking)کو مقصدی عمل بتاتا ہے جس کا ایک اہم مقصد بصیرت اور روشنی کا حصول ہے۔ یعنی سوچنے سمجھنے اور غور و فکر کرنے کا واضح مقصد ایمانیات اور مقصد حیات کا شعور ہو۔ غور و فکر اور سوچ بوجھ کی قیمتی صلاحیت آوارگی اور بربادی کا شکار نہ ہو۔

مقصد کا یہ تعین غور و فکر کو ایک منضبط اور منظم عمل (process) میں بدل دیتا ہے جو ساری زندگی جاری رہتا ہے اور عقل و شعور میں اضافے کا سبب بنتا ہے۔ جس طرح ہر وقت اور ہر لمحہ ایمان ضروری ہے اسی طرح ہر وقت اور ہر لمحہ ایمان کا شعور، عقلمندی اور بصیرت ضروری ہے اور اس میں ہر وقت اضافہ اور افزونی بھی مطلوب ہے۔

غور و فکر کے عمل کو قرآن مجید ہدایت کے حصول کے لیے لازمی شرط قرار دیتا ہے۔

وَهَذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِیمًا قَدْ فَصَّلْنَا الْآیاتِ لِقَوْمٍ یذَّكَّرُونَ [الأنعام: 126]

“یہ راستہ تیرے رب کا سیدھا راستہ ہے اور اس کے نشانات ان لوگوں کے لیے واضح کردیئے گئے ہیں جو نصیحت قبول کرتے ہیں۔”

کتاب ہدایت ان لوگوں کے لیے ہے جو اس میں غور و فکر کریں گے۔

غور وفکر کی صلاحیت سے انسان علم حاصل کرتا ہے نئے علوم کی دریافت کرتا ہے اور جس طرح الله تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے کا عمل ایک ذریعہ ہے اسی طرح علم بھی الله تعالیٰ سے قربت کا باعث ہے۔

یرْفَعِ اللَّهُ الَّذِینَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِینَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِیرٌ [المجادلة: 11]

“تم میں سے جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں اور جن کو علم بخشا گیا ہے، اللہ ان کو بلند درجے عطا فرمائے گا، اور جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ کو اس کی خبر ہے۔”

قرآن مجید سمجھ بوجھ اور تفقہ کو قیادت کی بنیادی شرط قرار دیتا ہے تاکہ ہر مسلمان کو بصیرت کی روشنی ملے-

وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِینْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِیتَفَقَّهُوا فِی الدِّینِ وَلِینْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَیهِمْ لَعَلَّهُمْ یحْذَرُونَ [التوبة: 122]

“اور یہ کچھ ضروری نہ تھا کہ اہل ایمان سارے کے سارے ہی نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصہ میں سے کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جاکر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تاکہ وہ (غیر مسلمانہ روش سے) پرہیز کرتے۔”

ثبات حق کے نتیجے میں الله تعالیٰ مومنین کو فرقان عطا کرتا ہےجس سے حق و باطل کی تمیز اور دلائل و براہین کی وہ قوت حاصل ہوتی ہے جو غلبہ حق کے لیے ضروری ہے۔

یاأَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ یجْعَلْ لَكُمْ فُرْقَانًا وَیكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیئَاتِكُمْ وَیغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیمِ [الأنفال: 29]

“اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم خدا ترسی اختیار کروگے تو اللہ تمھارے لیے کسوٹی بہم پہنچا دے گا اور تمھاری برائیوں کو تم سے دور کرے گا اور تمھارے قصور معاف کرے گا۔ اللہ بڑا فضل فرمانے والا ہے۔”

الله تعالیٰ مومنین کو ایسا نور عطا فرماتا ہے جس کی روشنی میں وہ زندگی کا سفر طے کرتے ہیں اور ہر قسم کی گم راہی اور ظلمت و ضلالت سے محفوظ پوری روشنی و اطمینان اور الله تعالیٰ کی رحمت میں زندگی گزارتے ہیں۔

یاأَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَآمِنُوا بِرَسُولِهِ یؤْتِكُمْ كِفْلَینِ مِنْ رَحْمَتِهِ وَیجْعَلْ لَكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِهِ وَیغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِیمٌ [الحدید: 28]

“اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اللہ تمھیں رحمت کا دہرا حصہ عطا فرمائے گا اور تمھیں وہ نور بخشے گا جس کی روشنی میں تم چلو گے، اور تمھارے قصور معاف کردے گا، اللہ بڑا معاف کرنے والا اور مہربان ہے۔”

بصیرت و اطمینان، نور و فرقان اور تفقہ یہ عظیم الشان نعمتیں مومنوں سے غور و فکر اور تذکر و تدبر کا تقاضا کرتی ہیں اور ہر مومن سے تقاضا کرتی ہیں۔

قرآن مجید ان تمام رویوں کی نشان دہی کرتا ہے جو غور و فکر کے عمل میں مانع ہوتے ہیں جیسے غفلت، آباپرستی، شخصیت پرستی، جذباتیت و جہالت، جمود، خواہشات نفس کی پیروی، ظن و گمان، غرور و تکبر، ضد اور ہٹ دھرمی، شکوک و شبہات، مایوسی، مثالیت پسندی اور عجلت وغیرہ۔

قرآن مجید ایسے عظیم مقاصد انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر مومنوں کے سامنے رکھتا ہے جس میں غور و فکر اور عقلمندی لازمی تقاضا ہے جیسے فریضۂ دعوت دین، عدل کا قیام، تنفیذ دین، تمدن کی تعمیر، انفاق فی سبیل لله، حکمت و تزکیے کا حصول، اعتدال کا حصول، شریعت پر عمل وغیرہ –

قرآن مجید کی روشنی میں اور سرکار دوعالم سیدنا محمدﷺ کی تربیت یافتہ قرن اول کی پوری امت بصیرت و نور سے معمور تھی۔ تقریبًا 1،24000 صحابہ کرامؓ انسانیت کے قائد اور لیڈر تھے جنھوں نے سارے عالم کو نور سے منور کردیا –

دین میں غور و فکر اور علم و بصیرت کا یہ تقاضا ہے کہ امت مسلمہ عمومًا اور تحریک اسلامی خصوصًا فہم و تدبر اور آئیڈیاز کی افزائش میں تمام انسانوں کی رہبری و قیادت کرے۔

امت مسلمہ کا ہر فرد اور تحریک اسلامی کا ہر کارکن نہ صرف یہ کہ بصیرت سے سرفراز ہو بلکہ اپنی اپنی آبادیوں میں فہم و تدبر اور رہ نمائی و رہبری میں انسانوں کی پیشوائی کرے، نور بصیرت عام کرے اور انسانوں کو روشنی اور فہم سے بہرہ ور کرے۔ خواہشات کے اندھیروں اور گم راہیوں میں ٹامک ٹوئیاں کھاتی انسانیت کے سامنے صحیح راستے کو روشن کرے۔ لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے تحریک اسلامی کی طرف متوجہ ہوں۔ تحریک کے پاس ہمیشہ روشن کل کی نوید ہو اور انسانوں کو پورے نور بصیرت کے ساتھ وہ راستہ دکھائے۔ تحریک ہر وقت روشنیوں اور حل کے ساتھ ہو۔ انسانوں کو تحریک کے پاس جذبات و احساسات کی گرمی بھی ملے اور آئیڈیاز کی تازگی بھی! تحریک اسلامی کی صحبت میں انسانوں کو اپنی عقل جلاپاتی اور بڑھتی ہوئی محسوس ہو۔ مایوسی اور مسائل کے بوجھ دور ہوتے محسوس ہوں۔ انسانوں کے مسائل تحریک اسلامی کے لیے نئے اختراعات (innovations) اور نئی تخلیقات کا ذریعہ بن جائیں۔ تحریک اسلامی نئے آئیڈیاز اور اختراعی حلوں کا سرچشمہpower house)) بن جائے۔ نئے آئیڈیاز کے ساتھ بصیرت سے معمور قائدین کی کھیپ کی کھیپ تحریک اسلامی کی تحریک سے سامنے آئے۔

اسلامی تعلیمات ایسی ہی مضبوط اور قائدانہ پوزیشن پر امت مسلمہ اور تحریک اسلامی کو کھڑا کرتی ہیں۔

تحریک اسلامی کے کلچر میں اختراعی سوچinnovative) culture) )کی افزونی کے ضمن میں غور و فکر کی غرض سے چند تجاویز پیش خدمت ہیں۔

علمی کوششوں کی قدردانی اور حوصلہ افزائی

تحریک اسلامی جس تبدیلی اور بدلاؤ کی دعوت دیتی ہے اس کا پہلا میدان علم و تحقیق اور آئیڈیاز کا میدان ہے۔

انسانی سماج میں رائج نظریات پہلے آئیڈیا کی سطح پر طلوع ہوتے ہیں۔ انسانی مسائل اور بحرانوں کا حل پیش کرتے ہیں۔ بحث و مباحثے کا موضوع بنتے ہیں۔ سماج کے ذہین افراد کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں اور ان سب امتحانوں میں کھرا اترنے کے بعد ہی تہذیب و تمدن اور اداروں اور نظاموں کی شکل اختیار کرتے ہیں۔ اس پورے عمل میں

آئیڈیاز کی نمو (idea generation)

آئیڈیاز کی ترسیلidea propagation) )

اور آئیڈیاز کی تنفیذidea implementation))

نمایاں مراحل ہیں۔ یہ تینوں کام متوازی اور یکساں توجہ چاہتے ہیں اور ہر مرحلے میں مختلف النوع صلاحیتوں والے افراد کا تقاضا کرتے ہیں۔ ہر تحریکی فرد ان تینوں مراحل میں سے کسی نہ کسی مرحلے میں اپنی خدمات انجام دے سکتا ہے۔ قیادت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صرف فیلڈ ورک (activism) ہی کو کام نہ سمجھے بلکہ علمی کام کو بھی خاطر خواہ اہمیت دے۔

عمومًا جو لوگ علمی کام کرسکتے ہوں اگر ان کو اس کام سے ہٹاکر تنفیذ کے کام پر لگادیا جائے تو وہ خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔ قیادت کا یہ بڑا اہم کام ہے کہ وہ عادلانہ رویہ اختیار کرے اور افراد کی صلاحیتوں ہی کے اعتبار سے ان سے کام لے۔

اس ضمن میں یہ بھی ضروری ہے کہ ہر کارکن میں بصیرت پروان چڑھے۔اس کے لیے لازم ہے کہ ہر فرد کا انفرادی علمی منصوبہ ہو اور قرآن و سنت اور اسلامی علوم سے راست استفادے کی استعداد مسلسل بڑھتی رہے۔ زمانے کی سمجھ اور مسائل کا علم ہو، اس ضمن میں قلیل مدتی (short term) اور طویل مدتی (long terms) کورس چلائے جائیں۔

ہر کارکن لیڈرشپ کے فن سے اچھی طرح واقف ہو۔ تحریک کے ہر کارکن کو لیڈرشپ ٹریننگ سے گزارا جائے۔

تحریکی ماحول علم دوست ماحول ہو۔جس طرح کا ماحول ہوگا اسی طرح کے افراد کو اپنی جانب متوجہ بھی کرے گا۔

مقاصد پر مضبوط نگاہیں، طریقۂ کار میں جدت

قیادت کی نگاہیں جہاں مقاصد پر گڑی ہوئی ہوں وہیں مقاصد کو حاصل کرنے کے جدید اور نئے طریقوں کی مسلسل تلاش بھی ہو۔ جہاں اچھی روایات کی پاسداری ہو وہیں نئے آئیڈیاز قبول کرنے کی آمادگی بھی ہو۔ تحریک کا ماحول سکھانے کا بھی ہو اور سیکھنے کا بھی ہو۔

مقاصد کے بجائے جب طریقے (process) محبوب بن جاتے ہیں تو تحریکات میں جمود در آتا ہے اور ترقی کے لیے مطلوب تغیر مشکل سے مشکل تر ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے تحریکات زمانے کا ساتھ نہیں دے پاتیں۔

اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طریقے اور رواج باقی رہ جاتے ہیں اور مقاصد نگاہوں سے اوجھل ہوجاتے ہیں۔

تحریکی کاموں میں اختراعیت و تخلیقیت نمایاں وصف ہو۔کاموں اور امور کو انجام دینے میں ہر دن نیا دن ہو اور ہر دن نیا آئیڈیا جنم دے۔

آج کے دور میں تخلیقیت اور اختراعات ہی کی طرف دنیا متوجہ ہوتی ہے اور تخلیقیت ہی مؤثر ترین (impact full) نتائج پیدا کرتی اور لوگوں کو متوجہ کرتی ہے۔

نئے تجربات کرنے کا حوصلہ فراہم کیا جائے۔ سرگرمیوں کو زیادہ سے زیادہ مؤثر بنانے کے لیے نئے نئے تجربات کیے جائیں۔

تنظیم نئے تجربات کے مطابق ہو نہ کہ نئے تجربات تنظیم کے مطابق! نئے تجربے میں اگر قباحت اور مقاصد سے ٹکراؤ کا کوئی پہلو نہ ہو تو اسے صرف اس بنیاد پر رد نہ کیا جائے کہ وہ نیا ہے اور پہلے تو کبھی اس طرح نہیں کیا گیا وغیرہ۔

نئے تجربات میں ناکامی کا امکان ہر وقت موجود ہوتا ہے۔ ناکامی کا عادلانہ تجزیہ ہو اس سے سیکھا جائے لیکن یہ ہرگز کوئی مجرمانہ فعل نہ گردانا جائے جس کے بعد الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع ہوجائے۔

ٹیکنالوجیوں اور خصوصًا مواصلاتی ٹیکنالوجیوں کو اختیار کرنے میں تحریک اسلامی نہ صرف یہ کہ سب سے آگے ہو بلکہ کمیونی کیشن کے نئے ذرائع دریافت کرنے میں تحریکی افراد نئی ایجادت کریں یہ تحریک کی بڑی دعوتی ضرورت ہے-

مشاورت کے میدان میں تحریک اسلامی سب سے آگے ہو۔

مشاورت اور اختراعی عمل میں گہرا تعلق ہے۔ مشاورت کا دائرہ جتنا زیادہ وسیع ہوگا آئیڈیاز کا تنوع اور تخلیقیت اتنی زیادہ بڑھے گی۔افراد کے تنوع سے تخلیقی عمل کی تاثیر بڑھتی جاتی ہے۔ مختلف ماحول، مختلف ذہن، مختلف تجربات، مرد و خواتین، مختلف عمر کے افراد آئیڈیاز کی اختراعیت کو مزید بڑھاتے ہیں۔ الحمدللہ تحریک اسلامی کو اس معاملے میں امتیاز حاصل ہے۔

آج کا دور اجتماعی دریافتوں کا دور ہے۔ جیسے انٹرنیٹ کی دریافت، ویکی پیڈیا، ویکسینس، نئی ادویات وغیرہ۔ اب موجد افراد نہیں گروہ ہوتے ہیں۔ ہر کارکن کی عبقریت (genius) اور ہر سطح پر عبقریت کے نتیجے میں اجتماعی اختراعیت (collective genius) کا حصول ہونا چاہیے۔

اس مقصد کے حصول کے لیے ہر کارکن میں قرآن و سنت سے راست استفادے کی استعداد، زمانہ شناسی، مسائل کی واقفیت، فنی مہارت اور اختراعات کے لیے ماحول اور تربیت و ٹریننگ کی فراہمی بنیادی ضروریات ہیں۔

اس ضمن میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تحریک اسلامی مشاورت کو برتنے میں سب سے آگے ہو، بلکہ تحریک اسلامی دنیا کو مشاورت کی نئی روایات اور مصنوعات( products) فراہم کرے۔ وہ مشاورت کے دائرے (base) مسلسل بڑھاتی رہے یہاں تک کہ پوری امت مسلمہ اور ملک کے تمام باشندے ہماری مشاورت کے دائرے میں آجائیں خصوصًا کوئی ذہین اور باشعور فرد ہمارے مشاورتی دائرے سے چھوٹنے نہ پائے۔ اس سے نہ صرف ہمارے آئیڈیاز بہت اختراعی ہوں گے بلکہ ان کو قبول عام بھی حاصل ہوگا۔ مشاورت کے دائرے کو بڑھانے اور مؤثر کرنے میں نئے تجربات اور نئے طریقے اختیار کرنے ہوں گے۔

مشاورت کے دائرے کو ایسی وسعت دینے کے لیے مزاجوں اور رویوں میں بدلاؤ سب سے مقدّم چیز ہے۔ نئے افراد کو کشادہ فضا اور اہمیت، سنجیدہ علمی ماحول، نتیجہ خیز مکالمہ، سیکھنے سکھانے کا ماحول اور احساسات اور جذبات کی گرم جوشی کا احساس ہو۔

احتساب

قیادت کو اپنا احتساب ان معنوں میں کرنا چاہیےکہ

جب آپ سے کوئی اعتراض کرتا ہے تو آپ کا کیا رویہ ہوتا ہے? خصوصًا اس وقت جب کہ اعتراض کرنے والا عمر میں کم اور جماعت میں نیا ہو؟

آپ کی تجویز پر تنقید کی صورت میں آپ کا رویہ کیسا ہوتا ہے؟

نئے تجربات اور نئی رائے کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟

نئے تجربات میں ناکامی پر آپ کیا رویہ اپناتے ہیں؟

علمی کام کی آپ قدر کرتے ہیں یا نہیں؟ یا محض فیلڈ ورک ہی کو کام سمجھتے ہیں؟

کیا ہر ایکٹیویٹی میں اختراعیت اور تخلیقیت کو اپناتے ہیں؟

اصول پسندی کے ساتھ عملی حکمت پر بھی نگاہ رکھتے ہیں یا مثالیت پسندی کے شکار ہیں؟

آسان بنانا

غور و فکر کے مقاصد میں جہاں فہم و ادراک میں بڑھوتری، علم کا حصول (اسی کو اللّہ کا فضل قرار دیا گیا ہے)، بہتر نظریہ سازی، جہالت اور کم علمی کا ازالہ، حق تک رسائی، اطمینان کا حصول، صحیح رائے تک پہنچنے کی کوشش، دانشمندانہ فیصلے لینا داخل ہے وہیں غور و فکر کا ایک اہم مقصد چیزوں اور امور کو آسان بنانا ہے۔

لوگوں کے لیے امور و معاملات کو آسان بنانا دین کا بنیادی اصول ہے۔

وَلَقَدْ یسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ [القمر: 17]

“ہم نے اِس قرآن کو نصیحت کے لیے آسان ذریعہ بنا دیا ہے، پھر کیا ہے کوئی نصیحت قبول کرنے والا؟”

حضوراکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

یسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا، ‏‏‏‏‏‏وَبَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا۔

“آسانی کرو اور دشوار نہ بناؤ اور خوش خبری دو اور بے زار نہ کرو۔ “(صحیح بخاری)

منصوبوں کو قابل عمل بنانے کے لیے ان کو آسان کرنا شرط لازم ہے۔ ورنہ منصوبے صرف کاغذات کی زینت بن کر رہ جاتے ہیں اسی طرح منصوبے وہی قابل عمل ہوتے ہیں جو آسان ہوں۔ منصوبے سمجھنے میں آسان ہوں، نفاذ میں آسان ہوں، اپنے مقاصد میں آسان ہوں۔

منصوبوں کو آسان سے آسان تر بنانا ایک مستقل عمل (process) ہے اور منصوبوں کو آسان تر بنانے کا عمل مسلسل (continuous process) جاری رہنا چاہیے۔

منصوبوں اور امور کو آسان تر بنانا ہر مرحلے پر تازہ فہم چاہتا ہے۔ فہم میں جتنا اضافہ ہوگا چیزیں اتنی آسان ہوں گی۔ فہم میں اضافے کے لیے قرآن مجید و سنت مطہرہ کا فہم جو انسان کے فہم میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ نئے مشاہدات، نئے دلائل، صورت حال سے مسلسل باخبری، مطالعہ، معلومات میں مسلسل اضافہ، انفرادی غور و فکر، اجتماعی غور و فکر یعنی مشاورت (brain storming) اور احساسات وہ کچھ اہم پہلو ہیں جو فہم میں اضافہ کرتے ہیں۔

اسی طرح مسلسل تدبر (self reflection) میں تحریر، تقریر، افہام و تفہیم وغیرہ وہ چیزیں ہیں جو تدبر میں معاون ثابت ہوتی ہیں اور تدبر کے نتیجے میں فہم میں تازگی پیدا ہوتی ہے اور ہر تازہ فہم امور و معاملات کو مزید آسان بناتا چلا جاتا ہے۔

عرب شاعر نے اس کو خوب بیان کیا ہے

إِذا لَمْ تَسْتَطِعْ شَیئًا فَدَعْهُ    وَجَاوِزْهُ إِلى ما تَسْتَطِیعُ

“جو کچھ تمھاری استطاعت سے باہر ہو اسے چھوڑ دو، اور اس سے آگے بڑھ کر جو استطاعت میں ہو اسے کرلو۔”

ہر تازہ فہم انسانی استطاعت کو مزید بڑھاتا ہے

دنیا میں جو بھی اختراعات اور ایجادات ہورہی ہیں وہ دراصل انسانی فہم میں اضافے کے سبب سے ہورہی ہیں۔ اور ہر ایجاد چیزوں کو مزید آسان بنارہی ہیں۔

منصوبوں کو آسان کرنے میں مشکلات کو دور کرنا، ممکنہ خطرات کا ازالہ، ذمہ داریوں کا تعین وغیرہ جیسے امور شامل ہیں۔

ہر آسانی کے ساتھ نئے چیلنج وابستہ ہوتے ہیں اسی لیے نئے چیلنجوں کا سامنا کرنا نیز پیش آمدہ نقصانات کا اندازہ اور تدارک کرنا (risk assessment & risk management ) بھی نہایت ضروری ہے۔

غور و فکر اور فہم و بصیرت کا مقصد حق تک رسائی ہے۔ دراصل سوچ کا مکمل سفر انسان کو حق تک پہنچاتا ہے اور انسان اطمینان اور یقین کی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔

غور و فکر کا ادھورا دائرہ انسان کو مضطرب رکھتا ہے اور سوچ کے دائرے میں مزید سفر کا تقاضا کرتا ہے تاکہ انسان اپنی منزل مقصود پر پہنچ سکے اور اطمینان اور یقین کی نعمت بے بہا سے شاد کام ہوسکے۔

مشمولہ: شمارہ فروری 2023

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223