تیسرا اصول : نقوش چھوڑ جائیں
آپ کا مقام کیا ہے؟
آپ کا وجود اس دنیا میں اس لیے نہیں کہ صرف کھانے پینے میں زندگی گزار دیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وہی ہے جس نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے اور یہاں تم کو بسایا ہے (سورہ ہود: 61)۔ اب ہونا یہ چاہیے کہ آپ اپنی آنکھوں میں اونچے، اور مقدس خواب سجائیں۔ انہیں پورا کرنے کے لیے اپنی زندگی نچھاور کریں۔ کیا آپ کوئی حقیر اوربے وزن شے ہیں کہ اپنے وجود کو کوسنے اور شکوہ و شکایت کرنے میں لگے رہیں۔ آئیے ۔ آپ کارزارِ زندگی میں ایک طاقتور شخصیت بن سکتے ہیں۔
زمین کو آباد کرنے والے بنیں۔ آپ جہاں رہیں،آپ کی ذات دوسروں کے لیے مفید ہو۔ ایسے ٹھوس نتائج چھوڑ جائیں جو لوگوں کی زندگیوں کے لیے مفید ہوں۔ آپ کامیابی کی وہ منزلیں سر کریں جو دوسروں کے اندر گہرے اثرات چھوڑ جائیں، لوگ اسے دیکھے اور محسوس کیے بغیر نہ رہ سکیں۔ آپ کے چھوڑے ہوئے نقوش آپ کے مرنے کے بعد بھی دوسروں کو خوشی کی نوید سناتے رہیں۔
مصطفیٰ صادق الرافعی نے کہا تھا “دنیا میں اگر تم کچھ اضافہ نہیں کر سکتے تو تم خود دنیا پر ایک بوجھ ہو”۔ آپ کی ذات روے زمین پر ایک مفید اضافہ ہو تاکہ آپ کی وفات کے بعد بھی آپ کی ذات خوشیاں بانٹتی رہے اور جب اللہ کے سامنے پیش کیے جائیں تو آپ کی جھولی بھی خوشیوں سے بھر دی جائے۔
ایک فرد ایک کارواں:
کنفیوشس کا قول ہے : آ پ اگر آپ حسنِ انتظام میں ممتاز کارکردگی کا مظاہرہ کرنا چاہتے ہوں تو قطب تارے کا کردار ادا کریں ۔ وہ اپنی جگہ رہتا ہےاو ر دوسرے ستارے اس کے ارد گرد گھومتے ہیں۔ جو شخص باقی رہنے والے اثرات اور یادوں کا پاکیزہ گلدستہ چھوڑ جانا چاہتا ہو، جو یہ چاہتا ہو کہ مرنے کے بعد لوگ اس کی یاد میں دو آنسو بہائیں اس کا کردار بھی مرکزی ہوتا ہے۔
مرکزی کردار ادا کرنے کے لیے ذیل کی چار باتیں ضروری ہیں:
۱۔ بڑی امیدیں بڑے عزائم :
وہی لوگ باقی رہنے والے نقوش چھوڑ جاتے ہیں جن کے مقاصد عظیم ہوں، جن کی آنکھوں میں بلندیوں کو سر کرنے کے لیے زبر دست عزائم روشن ہوں، جو امید کی لَو کو بجھنے نہ دیں، اور اونچی سے اونچی چوٹی تک پہنچ جانے کا عزم رکھتے ہوں۔ جوربیعہ بن کعب الاسلمی رضی اللہ عنہ کی طرح اول مقام سے کم پر راضی نہ ہوں۔ جب نبیﷺ نے ان سے پوچھا کہ کیا چاہتے ہو تو انہوں نے اپنی تمنا کا اظہار یوں کیا کہ جنت میں آپﷺ کی رفاقت چاہتا ہوں۔ جو عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کا حوصلہ رکھتے ہوں جنہوں نے کہا کہ : میرے پاس آرزووں سے بھر پور دل ہے، اس نے گورنری کی تمنا کی تو وہ اسے مل گئی، خلافت کی تمنا کی تووہ بھی مل گئی، اور اب مجھے جنت کی آرزو ہے اور مجھے امید ہے کہ وہ بھی ملے گی۔
آپ کے عزائم اور ارادے اس وقت تک شعلہ جوالہ نہیں بن سکتے جب تک آپ اپنی ذات کے اندر موجود مایوسی، شکست خوردگی اور بے حوصلگی کی کشتی کو جلا نہ دیں۔ آپ تاریخ کے ایک عظیم سپاہی طارق بن زیاد بن سکتے ہیں جو اپنے لشکر کے ساتھ سمندر عبور کرنے کے بعد دشمن کی زمین پر اترے اور پھر انہوں نے کشتیوں کو جلانے کا حکم دیا اور جنگ شروع کرنے سے پہلے اپنے سپاہیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا : تم دیکھ رہے ہو کہ کشتیاں جل رہی ہیں، ان سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ تمہارے پیچھے سمندر ہے اور سامنے دشمن۔ اب تمہارے سامنے دو ہی راستے ہیں یا تو جنگ جیت لو یا موت کو گلے لگاو‘‘۔ اس کے بعد ان کے جذبوں میں حرارت پیدا ہوئی، ارادے نے جوش مارا، امیدنے انگڑائی لی اور پھر وہ میدانِ جنگ فتح کرتے چلے گئے۔ مایوسی اور شکست خوردگی کی کشتی کو آگ لگا دیجیے تاکہ امید اور عزائم کی کرن اور بلند ارادے کی روشنی جگمگا اٹھے : اللہ سے مانگتے ہو تو جنت الفردوس مانگو کہ یہ جنت کا سب سے افضل اور سب سے اونچا مقام ہے (البخاری 2790)۔
۲۔ کچھ خواب مستقبل کے ہیں؟
آپ کے خواب آپ کو کہاں تک لے جانا چاہتے ہیں۔ اپنے ذہن و دل کے دریچے کھولیں، خیالات کے پروں کو آزاد چھوڑ دیں اور تصور کی آنکھوں سے دیکھیں کہ کیا آپ دوسروں کی زندگی میں خوشیاں بکھیر رہے ہیں۔ آ پ کے علم میں یہ اسپینی مقولہ ہونا چاہیے کہ “اگر آپ ہوائی قلعے نہیں بنا سکتے تو زمینی قلعے کیسے بنائیں گے”۔ تخیل کی بلند پروازی چاہتے ہیں تو کاغذ اور قلم اٹھائیں۔ پھر کوئی پرسکون گوشہ تلاش کریں۔ تنہائی میں خود سے پوچھیں : میں اپنی زندگی میں کیا کرنا چاہتا ہوں؟ میں کیا بننا چاہتا ہوں؟سوچیں، خیالات کے پروں کو آزاد چھوڑ دیں۔ جواب میں جلدی نہ کریں۔ دونوں سوالات کو بار بار دہرائیں۔ خیالات کی دنیا میں کھو جائیں۔ اس کے بعد لکھنا شروع کردیں:
–بہت ہی واضح اور تفصیلی اندا ز میں اپنا ہدف طے کریں۔
–آپ کا ہدف عملی ہو نا چاہیے ۔
–ایسا ہدف طے کریں جس کے قابلِ محسوس نتائج برآمد ہوں، جو قابلِ پیمائش ہو اور جسے پورا کیا جا سکے۔
–ہدف کو حاصل کرنے کے لیے وقت متعین کریں۔
خواب دیکھنا بہت ضرروری ہے۔ آپ جو لمبا سفر طے کرنا چاہتے ہیں یہ اس کی پہلی منزل ہے۔ خواب دیکھنا شروع کریں اور اسے اپنے وجود پر طاری کر لیں۔ یہ قول یاد رکھیں “بڑی بڑی کامیابیوں تک پہنچنے کے لیے ہم صرف کام ہی نہ کریں بلکہ خواب بھی دیکھیں، صرف منصوبے نہ بنائیں، ان کے پورا ہونے پر یقین بھی رکھیں”۔
بہت ضروری ہے کہ آپ ایسے صبر اور ایسی ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں جو عزم و ثبات کی منہ بولتی تصویر ہو۔ آپ اس مایوس شخص کی طرح نہ بنیں جس کے پاس صبر کے سوا کوئی چارہ نہ ہو اور پھر وہ صبر کے دامن میں پناہ لینے پر مجبور ہو جائے۔ اس طرح ڈٹ جانے کے بعد آپ خود دیکھیں گے کہ آپ کے خواب حقیقت کا روپ اختیار کرنے لگے ہیں۔ نور الدین محمود زنگی کو دیکھیں ۔ بیت المقدس پر صلیبیوں کا قبضہ تھا، اس کے باوجود انہوں نے حلب میں ایک زبردست منبر بنوایا بہت شان دار اور زینت سے بھرپور منبر ۔ اس کے بعد یہ کہا کہ یہ ہم نے اس لیے بنایا ہے کہ اسے بیت المقدس میں رکھا جائے۔ ان کی یہ تمنا ان کے شاگرد صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں پوری ہوئی۔ خواب دیکھنے کے لیے درہم و دینار خرچ کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ یہ تو کامیابی کے سراغ میں نکلنے والوں کے لیے لذت و کشش سے بھر پور ایک مہم ہے۔
۳۔ سفر طویل ہے پر مراحل ہیں کئی:
کامیابی کے سراغ میں نکلنے والوں کی آنکھوں میں عظیم خواب چمکتے ہیں۔ منزل کا بھرپور ادراک حاصل کریں پھر اسے متوازن اندا ز میں مختلف مراحل میں تقسیم کریں۔ آپ کو اچھی طرح اندازہ ہو جائےگا کہ اس وقت آپ کہاں کھڑے ہیں۔ اس مرحلے تک پہنچ کر آپ خود محسوس کریں گے کہ کچھ بھی نا ممکن نہیں۔ اب تو آپ مہم جوئی کے لیے تیار ہیں۔ اکیسویں صدی میں کامیابی کا سراغ لگانے کے لیے اپنے اندر عزم و ارادہ کی ایک چنگاری اور بھر پور جذبہ محسوس کریں گے۔
آسانیوںسےپوچھ نہ منزل کاراستہ اپنےسفرمیںراہ کےموتی تلاش کر
ذرےسےکائنا ت کی تفسیرپوچھ لے قطرےکی وسعتوںمیںسمندرتلاش کر
۴۔ شخصیت کا ارتقا:
ٹھوس کامیابی کی تلاش میں نکلنے والے اپنی شخصیت کی تعمیر سے غافل نہیں ہوتے۔ ہمیشہ وہ اپنی شخصیت کے ارتقاء کے لیے فکر مند رہتے ہیں، ان کی دل چسپی ا ور ان کے طرزِ عمل میں مسلسل بہتری آتی رہتی ہے۔ وہ اپنی کمیوں پر نظر رکھتے ہیں۔ اور بہتری کے لیے سیکھنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ ابراہیم الحربی امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں کہتے ہیں “میں نے ان کی صحبت میں بیس سال گزارے۔ گرمی، سردی، دھوپ، چھاوں، رات، دن ہر طرح کی کیفیت میں انہیں دیکھا۔ ان سے جب بھی ملا ان کا آج ان کے کل سے بہتر تھا”۔
جسے بلندی و رفعت چاہیے آگے بڑھے اور ایسے نقوش چھوڑ جائے جو دوسروں کی زندگیوں کے لیے خوشی کی نوید ہوں۔ اکیسویں صدی میں کامیابی کے سراغ میں نکلنے والوں کی شخصیت زبانِ حال سے یہ اعلان کرتی ہے :
آنے والے قافلوں کے رہنما بن کر چلو۔
چوتھا اصول : آخرت کی کامیابی
انسان کی بلندی کی معراج اور اس کا بلند ترین مقام یہ ہے کہ وہ دنیا کی کامیابی کو آخرت کی کامیابی کا ذریعہ بنائے۔ دنیوی کامیابی اس کے لیے آخرت کی کامیابی کا زینہ بن جائے۔ فرمایا: دوڑ کر چلو اُ س راہ پر جو تمہارے رب کی بخشش اور اُس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے، اور وہ خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی( آل عمران : 133)۔ دنیا کی کامیابی کی طرف صرف اس ہدف کے ساتھ دوڑو کہ آخرت کی منزل سے کامیابی کے ساتھ ہمکنار ہو سکو ۔ فرمایا: آخر کار ہر شخص کو مرنا ہے اور تم سب اپنے اپنے پورے اجر قیامت کے روز پانے والے ہو کامیاب دراصل وہ ہے جو وہاں آتش دوزخ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے۔ رہی یہ دنیا، تو یہ محض ایک ظاہر فریب چیز ہے۔(آل عمران : 185)۔ کیوں کہ آخرت کی منزل ہمیشہ باقی رہنے والی ہے، اس کو فنا نہیں ہے، فرمایا: آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے(الاعلیٰ : 17 )۔ انسان اس میں کامیاب ہو جائے یہی حقیقی سعادت ہے۔ جب انسان کی موت کا وقت آجائے، جاں کنی کے عالم میں ہو اور اپنی زندگی،پوری زندگی اور آنے والے وقت پر نظر ڈالے تو اس کے سامنے صرف وہی رہ جاتا ہے جو اس نے اپنی آخرت کے لیے بھیجا ہے۔ آخرت کا تصور ایک نظر نہ آنے والی قوتِ محرکہ ہے جو دنیوی کامیابی کے سفر کا سلسلہ آخرت تک پھیلا دیتی ہے۔
مسابقت:
دنیا سے محبت، خواہشات کی تکمیل کی چاہت اور وقتی نعمتوں کی لذت کبھی کبھی انسان کو آخرت کے راستے میں بڑھنےسے روکتی اور اس کے دل و نظر سے آخرت کی عظمت کو دور کر دیتی ہے۔ فرمایا: اےلوگو جو ایمان لائےہو،تمہیںکیاہوگیا کہ جب تم سے اللہ کے راستے میںنکلنےکےلیےکہاگیاتوتم زمین سے چمٹ کر رہ گئے؟کیا تم نےآخرت کے مقابلہ میں دنیا کی زندگی کوپسندکرلیا؟ ایسا ہے تو تمہیں معلوم ہو کہ دنیوی زندگی کا یہ سب سروسامان آخر ت میں بہت تھوڑا نکلےگا (التوبہ : 38)۔ مقابلے کی بھر پور تیاری ضروری ہے۔ا ور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ اللہ نے آپ کے لیے جو اجر تیار کر رکھا ہے اس کا تصور آپ کے لیے لذت آگیں نہ ہو، دنیا کی کامیابی سے آگے بڑھ کر اس کامیابی کو پالینے کی تڑپ نہ ہو جو باقی رہنے والی ہے ! آخرت کی کامیابی!!
اگر دوسروں سے آگے نکلنا ہے تو یکسوئی، تیزر فتاری اور راہ کی رکاوٹوں کو عبور کرجانے کا حوصلہ ضروری ہے۔ دنیا کی لذتوں کی حسرت اور آخرت فراموشی آپ کے قدموں کی بیڑی نہ بن پائیں۔ یاد رکھیں ہرن کی رفتار کتے سے زیادہ تیز ہوتی ہے لیکن اگر اسے کتے کی موجودگی کا احساس ہو جائے تو بار بار اس کی نظر کتے کی طرف اٹھتی ہے ۔ اس کی وجہ سے اس کی رفتار سست پڑ جاتی ہےا ور کتا اسے پکڑ لیتا ہے۔پس اے کامیابی کےدیوانے آگے بڑھ، پیچھے پلٹ کر نہ دیکھ۔
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں
یہ چار بنیادی حقائق ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر آپ کامیابی کا سراغ لگا سکتے ہیں۔ مضبوطی کے ساتھ آسمان کی بلندی کو پا لینے کے لیے آگے بڑھ سکتے ہیں۔
(جاری)
مشمولہ: شمارہ نومبر 2019