اکیسویں صدی میں کامیابی کا سراغ

(8)

۶۔سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں

میری ان کوششوں کا مقصد ہے کہ افراد اپنے رویوں اور حوصلوں کے اعتبار سے باہم شیر وشکر بن کر رہیں ، ایک ایسی فضا تیار کریں جو ہر کسی کے لیے باعثِ خوشی ہو، جہاں ہر کسی کو عزت واحترام ملے اور جو اکیسویں صدی میں ایک کامیاب نسل تیار کرنے کے لیے سازگار ہو۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم نے قوت کے بہت سے وسائل کو کھودیا ہے۔ مغلوبیت اور پستی کی وجہ سے تعلقات کی پختگی کے حقیقی مفہوم سے بھی ہم دور ہوچکے ہیں۔ جو انسان دوسروں سے خوشگوار تعلقات نہیں پیدا کرسکتا وہ پائیدار کامیابی سے محروم رہتا ہے۔ ہماری ایک مشکل یہ بھی ہے کہ ہمارے درمیان ایسے افراد کی کثرت ہے جو بہت زیادہ دوسروں پر انحصار کرتے ہیں، وہ کامیابی چاہتے ہیں پر قدم قدم پر سہاروں کا منہ دیکھتے ہیں۔

انسانوں کے مزاج اور طرزِ زندگی کے درمیان اختلاف کو میں قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ ان اختلافات کے باوجود ہم بنیانِ مرصوص جیسی ٹیم بن کر ایک ایسی نسل تیار کرسکتے ہیں جو خدمت اور تعمیر کے جذبہ سے سرشار ہو، جو انانیت پر قابو پاسکے، اور اپنی غلطیوں سے سیکھ کر انھیں درست کرنا جانتی ہو؛ ایک ایسی نسل جو بااعتماد، کھلے ذہن وفکر کی حامل، اور باہمی الفت ومحبت اور قربانی کی بہترین تصویر ہو، وہ نسل جو صاحبِ نظر ہو اور کامیابی کی طرف بڑھنا جانتی ہو۔

تعمیر کا محور

ٹیم ایسے افراد کےمجموعے کا نام ہے جو ایک عمومی ہدف کو حاصل کرنے کے لیے سرگرداں ہوں اور بہتر سے بہتر نتائج کے حصول کے لیےجان توڑ کوشش کریں۔ ٹیم اپنے افراد کی مخفی قوتوں کو باہر لاتی ہے اورہر فرد منفرد نوعیت کا کردار ادا کرتا ہے۔

کسی بھی انسان سے تعامل کے لیے ضروری ہے کہ آپ کے اندر پاکیزہ انسانی تعلقات کو برتنے کی بھر پور صلاحیت ہو، انسانوں کے طبعی اختلافات کا گہرا شعور ہو، اور اس بات کا اندازہ ہو کہ ان اختلافات اور رنگا رنگی کےباوجود کس طرح ایک ایسی ٹیم تشکیل دی جائے جو بنیانِ مرصوص یعنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ہو۔ بنیانِ مرصوص جیسی ٹیم کا مرکزی کردار اپنی قوت کے عناصر کو پروان چڑھانا اور کمزوری کو طاقت میں بدلنا ہے۔

تعمیر کا علم بردار قائد

بنیانِ مرصوص جیسی ٹیم کی قیادت کا کردار بھی اہم ہوتا ہے۔ مثل ہے کہ شیروں کی فوج کی قیادت خرگوش کے ہاتھ میں ہو، اس سے بہتر یہ ہے کہ خرگوشوں کی فوج کی قیادت کوئی شیر کرے۔ کامیابی کے سراغ میں نکلنے والے یہ کہتے ہیں کہ اچھا تو یہ ہے کہ شیروں کی فوج ہو اور قیادت بھی شیر ہی کرے۔

قائد وہ شخص ہوتا ہے جو اپنے ارد گرد کے افراد کی دل چسپیوں اور سرگرمیوں کو صحیح رخ دینے کے لیے اپنی قوت وصلاحیت کا استعمال کرتا ہے۔ ٹیم کی تشکیل آپ کو اس بات کا بہترین موقع فراہم کرتی ہے کہ افراد کی بہترین صفات کو نمود کا موقع دیں اور مشکلات حل کریں۔

قائد کو تعمیر کا علم بردار بننے کے لیے اپنے اندر درج ذیل اکیس صفات پروان چڑھانی ہوں گی:

۱۔ وجدان سے مالامال: وہ افراد سے اس طرح مضبوط تعلقات استوار کرتا ہے کہ ان کے دلوں میں اپنے لیے جگہ بنالے اور محبت اور اخوت کی فضا کو پروان چڑھائے، اور ان کے اور ان کے اہلِ خانہ کی مشکلات کو حل کرنے میں مدد دے۔

۲۔ رحیم وشفیق: وہ لوگوں سے محبت کرنے والا، نرم دمِ گفتگو، کشادہ دل اور معاف کرنے والا ہوتا ہے۔ لوگوں کا عذر قبول کرتا ہے اور لوگوں سے غیر مشروط محبت کرتا ہے۔

۳۔ نگاہ دار: ٹیم پر گہری نظر رکھتا ہے، ان کے مسائل اور احساسات کو محسوس کرتا ہے۔

۴۔ خدمت پیشہ: اس کا سوال یہ ہوتا ہے کہ میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں۔ ٹیم کےافراد کے لیے وقت فارغ کرتا ہے۔ وہ اس قدر گھل مل کر رہتا ہے کہ لوگوں کے درمیان اس کی کوئی الگ شناخت نہ ہو۔

۵۔ قیادت ساز: وہ حاشیہ برداروں کی ٹولی بنانے کے بجائے قائدین کی انجمن تیار کرتا ہے۔ وہ حضرت عمرؓ کی مثال اپنے سامنے رکھتا ہے۔ حضرت عمرؓ نے اپنے ساتھیوں سے ایک بار کہا کہ تم سب اپنی اپنی خواہشات کا اظہار کرو۔ سب نے اپنی اپنی خواہش بیان کی۔ اس کے بعد حضرت عمرؓ نے کہا: لیکن میری تمنا ہے کہ میرا گھر ابو عبیدہؓ اور سالمؓ مولیٰ ابو حذیفہؓ جیسے افراد سے بھرا ہوا ہو۔

۶۔ صاحبِ بصیرت: وہ اپنے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ڈٹ جاتا ہے، اس کے سامنے بہترین مستقبل کا نقشہ ہوتا ہے۔

۷۔ حوصلہ افزائی کرنے والا: وہ افراد کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور نئی راہیں تلاش کرنے والوں کی مدد کرتا ہے۔

۸۔ پرجوش وسرگرم: کاموں کو دل چسپ بناتا ہے۔ لوگ ٹیم کا حصہ بن کر کام انجام دینےمیں لطف محسوس کرتے ہیں۔ افراد سے مشورہ کرتا ہے۔

۹۔ مواقع کا خالق: وہ لوگوں کو مواقع فراہم کرتا ہے، انھیں فیصلے کی آزادی دیتا ہے۔

۱۰۔ اختیارات دینے والا: وہ افراد کو کام کرنے کے لیے آزادی اور اختیارات دیتا ہے۔ لوگوں کو قائدانہ کردار ادا کرنے کا موقع دیتا ہے۔

۱۱۔ صلاحیتوں کا دلدادہ: وہ اجتماعی کاموں میں افراد کی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کرتا ہے، خود نئی راہیں سوچتا ہے اور دوسروں کو اس پر ابھارتا ہے۔ لوگوں کو اپنی رائے کے اظہار کا موقع دیتا ہے، انھیں یہ احساس دلاتا ہے کہ ان کے خیالات وجذبات قیمتی ہیں۔

۱۲۔ امکانات کا متلاشی: وہ سیکھنے کے مواقع فراہم کرتا اور غلطیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے، ان غلطیوں کی روک تھام کی کوشش کرتا ہے۔ وہ افراد کو اپنے اہداف خود طے کرنےکا موقع دیتا ہے۔

۱۳۔ نتائج کا عاشق: وہ افراد کو اپنی نشو ونما کی دعوت دیتا ہے۔ خود اس کی کارکردگی میں تدریجی ارتقاء کو لوگ محسوس کرتے ہیں۔

۱۴۔ قدر شناس: وہ دوسروں کی سچی تعریف کرتا ہے۔ ان کی کارکردگی کی ستائش کرتا ہے اور اپنے وعدوں اور معاہدوں کا احترام کرتا ہے۔

۱۵۔ وضاحت کار: وہ اپنےوژن اور اہداف کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ ان کےکاموں کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ لوگوں کو باخبر رکھنے کے فن میں وہ مہارت رکھتا ہے۔

۱۶۔ مفکر: وہ ٹیم کے بنیادی پیغام کو واضح کرتا ہے۔ بلندیوں کو چھو لینے کے لیے قوتِ فکر کا استعمال کرتا ہے۔ وہ حالات کو بدلنے کے لیے یکسوئی کے ساتھ غور وفکر کرتا ہے۔

۱۷۔ تحریک افروز: وہ لوگوں کی تربیت کرتا اور انھیں حرکت و عمل پر ابھارتا ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ لوگوں کی خوابیدہ صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جا سکتا ہے، اس کے لیے وہ مسلسل تدابیر اختیار کرتا ہے۔

۱۸۔ اثر انگیز: وہ ٹیم کی بات سنتا ہے۔ ان کے جذبات واحساسات کو سمجھتا ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ فرد کی کامیابی کے بغیر ٹیم کی کامیابی ممکن نہیں ہے۔ وہ صبر اور ضبطِ نفس کا پیکر ہوتا ہے۔

۱۹۔ واضح اور شفاف: اس کے اصول واقدار واضح ہوتے ہیں ، وہ ان کی پابندی کرتا ہے۔ اس کا وژن اور منصوبہ واضح ہوتا ہے۔ اس کا پیغام صاف ہوتا ہے۔ وہ لوگوں کی سنتا ہے اور وضاحت کے ساتھ اپنی بات رکھتا ہے۔

۲۰۔ بہادر: وہ پوری بہادری کے ساتھ اپنی کمزوری اور غلطی کا اعتراف کرتا ہے۔ غلطیوں کی نشان دہی پر وہ ناراض نہیں ہوتا۔ وہ اتنا بہادر ہوتا ہے کہ غلطی کے امکان کے باوجود لوگوں کو کوشش پر ابھارتا ہے۔ خود سے کم مرتبہ افراد سے بھی سیکھتا ہے۔ وہ ہنستا مسکراتا رہتا ہے۔ اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتا ہے اور کسی کو برا بھلا نہیں کہتا۔ یہ بھی اس کی بہادری ہے کہ کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتا اور خود درد سہہ لیتا ہے۔

۲۱۔ پر امید: وہ امید نہیں ہارتا۔ وہ نتائج کے لیے جلد بازی سے کام نہیں لیتا۔ وہ یہ جانتا ہے کہ بیج بونے کے بعد اچھی فصل آنے تک انتظار کرنا ضروری ہے۔

۷۔ تخلیقیت کا جذبہ

تخلیقیت کا جنون یہ ہے کہ آپ جمود کو توڑ ڈالیں اور حاضر وموجود پر قانع رہنے کے بجائے بھرپور اور نمایاں کار کردگی کا مظاہرہ کریں۔ آپ کی کاوشیں پتھروں کی درمیان چمکنے والے لعل وگہر کی طرح نمایاں نظر آئیں۔ روٹینی کاموں سے ہٹ کر کچھ نیا کر دکھائیں اور اس راہ میں آنے والی مشکلات کو عبور کر چلیں۔

نیا کرنے کا جنون انسان کو نئی راہ اختیار کرنے پر آمادہ کرتا ہے، دوسروں کے درمیان گم ہوکر اپنی صلاحیتیں کھو دینے کے بجائے امتیازی کار کردگی اور تیز رفتار پیش قدمی کو اپنا شیوہ بناتا ہے۔ یہ جنون فضاؤں میں یہ پیغام سنتا ہے کہ آگے بڑھو، مقابلہ کرو جیت تمہاری ہوگی۔

جوانوں یہ صدائیں آرہی ہیں آبشاروں سے

چٹانیں چور ہوجائیں جو ہو عزم سفر پیدا

ہزاروں میل کے لمبے سفر کا پہلا قدم اس وقت اٹھتا ہے جب جادہ پیمائی کا شوق انسان کو حرکت پر آمادہ کرے۔

تخلیقیت کا جنون انسان کو نئی، مفید اور انوکھی چیزوں کو ڈھونڈ نکالنے پر آمادہ کرتا ہے۔ یہ کامیاب افراد کی ایک مشترک خصوصیت ہے۔ آپ کے اندر بھی یہ خوبی موجود ہے۔ اسے بیدار کیجیے۔ آپ سلمان فارسیؓ کے قافلے کے فرد ہیں جنھوں نے غزوۂ خندق کے موقع پر خندق کھود کر دشمن کا سامنا کرنے کا ایک نرالا مشورہ دیا تھا۔ آپ کا تعلق حضرت خالد ؓبن ولیدکی صف سے ہے جنھوں نےجنگِ موتہ میں دو لاکھ جنگجوؤں کے مقابلے میں ولولہ انگیز صلاحیت کا مظاہرہ کیا، انھوں نے گھوڑوں کے ذریعے غبار اڑا کر اور زور دار بگل کے ذریعے آوازے بلند کر کے رومی فوج کو اس وہم میں مبتلا کیا کہ اسلامی لشکر کے لیے بھاری کمک پہنچ چکی ہے۔ اور رومیوں نے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا۔ کیا آپ کو جنگِ قادسیہ کی یہ بات معلوم نہیں کہ جب مسلمانوں کے گھوڑے ایرانی فوج کے ہاتھیوںکو دیکھ کر بدکنے لگے تو انھوں نے گھوڑوں کی تربیت اس طرح کی کہ مٹی کا ہاتھی بنایا اور گھوڑوں کو اس کے قریب رکھا تاکہ ہاتھیوں کا خوف ان سے جاتا رہے۔ اور اس میں انھیں کامیابی بھی ملی۔ آپ محمد الفاتح کو کیوں بھولتے ہیں جنھوں نے ایک انوکھی تدبیر اختیار کی۔ جب صلیبیوں نے بحری راستے کو بڑی بڑی زنجیروں کی مدد سے بند کردیا اس وقت انھوں نے خشکی کے راستے سے کشتیوں کو منتقل کرنے کی ایک منفرد تدبیر اختیار کی۔ جداگانہ انداز اختیار کرنے کا یہ جنون آپ کے اندر بھی پوشیدہ ہے۔ ہر فرد کے اندر پوشیدہ ہے۔ امام شافعی نے اسی جنون کی وجہ سے اصولِ فقہ کو مدون کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنی کتاب الرسالہ تیار کی۔ اسی شوق نے امام بخاری کو صحیح اور ضعیف احادیث کو الگ کرنے کا بیڑا اٹھانے پر آمادہ کیا اور انھوں نے صحیح بخاری لکھی۔ اب آپ کی باری ہے کہ اس سفر کو جاری رکھیں اور اکیسویں صدی کو کامیابی کے جوہر سے سجا دیں۔

یہ دس باتیں یاد رکھیں

ذیل کی دس باتوں کو یاد رکھیں۔ یہ آپ کے جذبے کو تازگی عطا کرنے اور ذہن کو الجھنوں سے نجات دینے والی ہیں۔ ان سے اپنی صلاحیتوں پر آپ کا اعتماد مضبوط ہوگا اور تخلیقیت کا بھرپور جوہر دکھا سکیں گے۔

  1. آپ اپنی صلاحیتوں میں منفرد ہیں : کہا جاتا ہے کہ افریقہ کے ایک کسان کے پاس زرعی زمین تھی۔ ایک بار اسے معلوم ہوا کہ لوگ ہیروں کے خزانے کی تلاش میں نکل رہے ہیں اور کئی لوگ اس میں کامیاب بھی ہو چکے ہیں۔ اس سے انھوں نے کافی دولت بنا لی ہے۔ اس نے اپنا کھیت بیچ دیا اور ہیروں کی تلاش میں نکل پڑا۔ اس نے سارے جتن کر ڈالے یہاں تک کہ اپنا سارا مال بھی خرچ کر دیا لیکن اسے کچھ نہیں ملا۔ مفلسی کے عالم میں دریا میں ڈوب کر اس کی موت بھی ہوگئی۔ جس شخص نے اس سے کھیت خریدا تھا اسے کھیتی کے لیے کھدائی کے دوران ایک انوکھے قسم کا پتھر ملا۔ اس نے اسے لاپروائی سے ایک طرف پھینک دیا۔ کچھ دنوں کے بعد اسے ایک ایسے شخص نے دیکھا جسے ہیرے کی پہچان تھی۔ اسے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کھیت کی گہرائی میں بہت سے ہیرے موجود ہیں۔ آپ کے خیال میں دنیا میں ایسے کتنے لوگ ہیں جن کا حال پہلے کسان جیسا ہے؟ یاد رکھیں آپ ایک منفرد شخصیت کے مالک ہیں ، نہ تو تاریخ میں کوئی آپ جیسا ہوا اور نہ ہی مستقبل میں کوئی آپ جیسا دنیا میں آئے گا۔ تخلیقیت آپ کی ذات کا حصہ ہے، اس جوہر کو باہر نکالیں تاکہ لوگ اسے محسوس کر سکیں۔ آپ کسی اور کی چال چلنا چاہیں تو یہ بڑے گھاٹے کا سودا ہوگا۔ آپ تو آپ ہیں ، اس حقیقت کو یاد رکھیں۔ کسی اور کی چال چلنے کی کوشش آپ کو ایک ایسی جنگ میں دھکیل دے گی جس میں آپ کا جوہرِ تخلیق تباہ ہو جائے گا۔ اگر ارادہ مضبوط ہو تو آپ ہٹلر کی فوج سے بھی زیادہ طاقت ور انسان ہیں۔ آپ کا سب سے طاقتور ہتھیار آپ کی ذات کی منفرد صلاحیتیں اور خصوصیات ہیں۔
  2. آپ کی معلومات محدود ہیں : جس لمحہ آپ کے اندر یہ احساس پیدا ہو جائےکہ آپ بڑے علم والے ہیں اور سب کچھ سمجھتے ہیں اسی وقت آپ کی پستی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ علم اور کامیابیوں کی کتنی ہی منزلیں طے کر لیں ، آپ بہت سی باتوں سے ناواقف ہیں۔ یہ احساس آپ کے اندر کچھ اور سیکھنے کا جذبہ ابھارتا ہے اور اس راہ میں کچھ نیا کرنے کے لیے بیتاب کرتا ہے۔
  3. مضبوط مددگار کی ضرورت: جدت پسند شخص کو مددگار کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ جب تنہائی ستانے لگے اور اکیلے پن کا احساس ہو تو کسی ایسے فرد کے ساتھ وقت گزاریں جو آپ کے کاموں میں مددگار بھی ہو اور آپ کو حوصلہ بھی عطا کرے اور آپ کے آئیڈیاز کو نکھارنے میں آپ کا ساتھ بھی دے۔ تخلیقیت سے بھر پور افراد سے آگہی حاصل کریں اور ان کی ہم نشینی اختیار کریں۔
  4. امت کی تکلیف اور پریشانی کا احساس: امت کی تکلیف کا ایسا سچا احساس جو آپ کو امت کے لیے تڑپا دے، جو جمود کو توڑ دینے پر ابھارے، اور روٹینی چیزوں سے ہٹ کر کچھ انقلابی اقدامات پر آمادہ کرے۔
  5. میدانِ کار کا واضح تصور: آپ کس میدان میں اپنا جوہر دکھانا چاہتے ہیں ، اس کی نشاندہی کریں۔ اس وقت مذکورہ میدان میں آپ کی کیا صورتِ حال ہے اس کا اندازہ کریں ، منزل متعین کریں۔ ایسی صورت میں آپ امتیازی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں گے۔ ہدف واضح ہو تو راستہ بھی واضح ہوتا ہے۔ جب حضرت زید بن ثابتؓنے سریانی زبان سیکھنے کا فیصلہ کیا تو سترہ دنوں میں اس ہدف کو پورا کر لیا۔
  6. حریت پسند بنیں : اپنے خالق کے سوا کسی کی غلامی نہ کریں۔ آپ کیا چاہتے ہیں یہ خود طے کریں۔ آپ مجبور محض نہیں ہیں ، یہ نہ بھولیں۔ مجبور شخص ممکن ہے کامیاب ہو جائے، لیکن کوئی تخلیقی کام نہیں کر سکتا۔ آپ اسی وقت تخلیقیت کے جوہر دکھا سکتے ہیں جب آزادی اور حریت پسندی آپ کا شیوہ ہو۔ آپ کسی اور کی سوچ کے اسیر نہ بنیں۔ آپ اپنی مرضی سے تصرف کریں۔ بے شک تقلید بھی ہو سکتی ہے لیکن شعوری تقلید اور اندھی تقلید میں فرق ہے۔
  7. صاحبِ حوصلہ بنیں : خیالی دنیا میں جینے کے بجائے اونچے خواب دیکھنے والا شخص بہتر مستقبل کے لیے پوری قوت صرف کرتا ہے، وہ نامعلوم اندیشوں کو پیروں کی زنجیر نہیں بناتا۔ اس کے تخیل کی بلند پروازی تخلیقی جوہر کو نکھارتی اور اقدامات پر آمادہ کرتی ہے۔ حالات سے کشمکش اور بلند پروازی کی کوشش میں اسے لطف آتا ہے۔
  8. وقتی گوشہ نشینی: وہ شور وہنگامہ اور فضول چیزوں سے دور رہتا ہے، کچھ وقت میدان سے باہر گزارتا ہے۔ وہ اللہ کے سامنے سر بسجود ہو کر اپنی عاجزی اور بے بسی کو محسوس کرتا اور اس سے فریاد کرتا ہے۔ وہ اپنے ذہن و دل کو غذا فراہم کرتا اور ماحول پر غور و فکر کرتا ہے۔ امام ابن تیمیہؒکو یاد کرتا ہے جو کھلی فضا میں نکل جاتے تھے اور مٹی پر سربسجود ہو کر اللہ سے گڑگڑاتے تھے: اے اللہ، اے ابراہیم علیہ السلام کے معلم مجھے علم عطا فرما، اے سلیمان علیہ السلام کو فہم عطا کرنے والے مجھے فہم عطا فرما۔
  9. مختلف پہلووں پر نظر: تخلیقیت کے بہت سے رنگ ہوتے ہیں۔ کسی بھی معاملے کے صرف ایک زاویہ کو مرکز توجہ بنائیں تو تخلیقیت کے بجائے جمود، اور سستی پیدا ہوتی ہے۔
  10. پہاڑ جیسا صبر: ذہنی وداخلی کشمکش، دوسروں کے ساتھ فکری کشمکش اور افکار کی پیکرسازی کے لیے غیر معمولی ہمالیائی صبر کی ضرورت ہوتی ہے۔ جدت پسند شخص کے اندر ایسا صبر ہونا چاہیے جو مایوسی کے سامنے ڈٹ سکے، ایسا صبر جو اپنے ساتھ اللہ پر بھروسا بھی لاتا ہے اور کامیابی کی شعاعِ امید بھی۔

اولو العزم افراد کے افکار زمانے کو راستہ دکھاتے ہیں۔ ہر تخلیقی شاہکار کے پیچھے ایسے کامیاب انسان کا کردار ہوتا ہے جو اپنے خیالات سے بے پناہ محبت کرتا اور اس کے لیے یکسو ہو کر منزلِ مقصود کو پا لینے تک جدوجہد جاری رکھتا ہے۔

مشمولہ: شمارہ اپریل 2020

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223