رچرڈ فالک کی رپورٹس کے بعد

محمد آصف اقبال

رچرڈ فالک وہ شخص ہیں جنھوں نے فلسطین میں انسانی حقوق کے متعلق جب رپورٹ تیار کی اور اس پر بحث کی بات کی گئی تو اس کو ملتوی کر دیا گیاجس پر فلسطینی حکومت کے مشیر محمد فرج الغول نے غزہ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ رچرڈ فالک کی رپورٹ اہمیت کے لحاظ سے گولڈ سٹون رپورٹ کی سفارشات سے کم نہیں ہے۔رچرڈ فالک کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل نے فلسطینی شہریوں اور شہری عمارتوں کو ٹارگٹ کیا۔فرج الغول نے کہا کہ کیا اسرائیل کے بائیکاٹ، اسرائیل میں سرمایہ کاری کے خاتمے اور اسرائیل پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ فلسطینی قومی مفادات کے مخالف ہے۔واضح رہے کہ فلسطینی اتھارٹی نے انسانی حقوق کونسل میں رچرڈ فالک کی رپورٹ پر بحث کیے جانے کو ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کا دعویٰ ہے کہ رواں ماہ میں منعقد ہونے والی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس میں رچرڈ فالک رپورٹ پر بحث کیا جانا فلسطینی قومی مفادات کے خلاف ہے۔

﴿palestine-info-urdu.com،almoltaqa.ps،omidworld.org﴾۔

اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق سے متعلق کمیٹی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی یہودی بستیوں کی جاری تعمیرات کی وجہ سے اسرائیل کا فلسطینی زمین پر قبضہ غالباً ناقابل واپسی ہو جائے گا۔یہ رپورٹ رچرڈ فالک نے اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں پیش کی ہے۔رپورٹ میں انھوں نے کہا ہے کہ ایسا ہونے سے امن مذاکرات جس کے نتیجے میں ایک آزاد فلسطین ریاست کا قیام عمل میں آنا ہے محض ایک فریب کے سوا کچھ نہیں ہے۔انھوں نے کہا کہ اقوامِ متحدہ، امریکہ اور اسرائیل فلسطینیوں کے حقوق کے تحفظ میں ناکام ہو گئے ہیں۔رپورٹ میں رچرڈ فالک نے کہا ہے کہ غربِ اردن اور مشرقی یروشلم میں بڑے پیمانے پر یہودی بستیوں کی تعمیر حقیقت میں فلسطین کی زمین پر توسیع ہے۔واضح رہے کہ ۱۹۶۷کی جنگ کے بعد اسرائیل نے غربِ اردن اور مشرقی یروشلم کے علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ جس کے بعد اْس نے اْن علاقوں میں سو سے زائد تعمیرات میں پانچ لاکھ یہودیوں کو بسایا ہے۔ عالمی قوانین کے مطابق اس طرح کی بستیاں غیر قانونی ہیں، لیکن اسرائیل اس سے اختلاف رکھتا ہے۔انھوں نے کہا کہ یہ اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں کے ان مفروضوں کو غیر مستحکم کرتا ہے جن کے مطابق ۱۹۶۷میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینی علاقوں پر کیا جانے والا قبضہ عارضی ہے۔انھوں نے کہا کہ یہ مفروضے حالیہ امن مذاکرات کی بنیاد ہیں جن کا مقصد اسرائیل کے ساتھ ایک آزاد فلطسینی ریاست کا قیام ہے۔رچرڈ فالک نے کہا کہ اب یہ ایک فریب دیکھائی دے رہا ہے۔رچرڈ فالک نے میڈیا کو بتایا کہ اْن کا مینڈیٹ اسرائیلی قبضے کے حوالے سے رپورٹ دینا تھا نہ کہ اسرائیل فلسطین کے تنازعے کے صحیح یا غلط پہلووں پر بتانا تھا۔ ﴿urduwire.com﴾۔

دوسری جانب اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ رچرڈ فالک کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹ تعصب پر مبنی ہے اور اس کا مقصد سیاسی ایجنڈے کی تکمیل ہے۔حکام نے رچرڈ فالک کی رپورٹ میں فلسطینیوں کو دہشت گرد قرار نہ دینے پر انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔اسرائیل نے مشرقی یروشلم میں یہودی بستیوں کی تعمیرات کو دس ماہ تک منجمد رکھنے کے بعد مزید توسیع نہیں کی ہے جس کی وجہ سے امریکہ کی کوششوں سے جاری ہونے والے امن مذاکرات تعطل کا شکار ہو گئے ہیں۔ امریکہ ان مذاکرات کی بحالی چاہتا ہے۔ واضح رہے کہ ۷۶۹۱کی جنگ کے بعد اسرائیل نے غربِ اردن اور مشرقی یروشلم کے علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ جس کے بعد اْس نے اْن علاقوں میں سو سے زائد تعمیرات میں پانچ لاکھ یہودیوں کو بسایا ہے۔ عالمی قوانین کے مطابق اس طرح کی بستیاں غیر قانونی ہیں لیکن اسرائیل اس سے اختلاف کرتا ہے۔ ﴿bbc.co.uk/urdu﴾۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بین کی مون نے عالمی ادارے کے فلسطینی امور کے ایک ماہر رچرڈ فالک کے اس بیان کی مذمت کی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ۱۱/ستمبر کو دہشت گردی کے حملوں میں امریکا ہی کا ہاتھ کار فرما تھا۔رچرڈ فالک مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے خصوصی نمائندے ہیں اور وہ ۱۹۶۷ سے اسرائیل کے زیر قبضہ چلے آ رہے فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی صورت حال کو رپورٹ کرنے کے ذمے دار ہیں۔ بان کی مون نے ان کے بیان کو ناقابل قبول قرار دے کر اس کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ فالک کا بیان نائن حملوں کے قریباً تین ہزار سے زیادہ ہلاک شدگان کی توہین ہے۔کویت کی خبررساں ایجنسی نے منگل کو اطلاع دی ہے کہ فالک نے نائن الیون حملوں سے متعلق بیان امریکی کانگریس میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کیامور پر بحث سے قبل دیا ہے﴿alarabiya.net﴾۔

رچرڈ فالک اپنے عہدے سے استعفیٰ کے سلسلے میں کہتے ہیں:‘فلسطینی اتھارٹی نے اس دعوے کے ساتھ مجھ سے اپنے منصب سے علیحدہ ہونے کامطالبہ کیا ہے کہ میں اپنی ذمہ داریاں اداکرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔’﴿sananews.net/urdu﴾۔ مڈل ایسٹ اسٹڈی سینٹر کی رپورٹ کے مطابق رچرڈ فالک نے فلسطینی اتھارٹی کے مطالبے پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ وہ اپنے عہدے سے علیحدہ ہونے کا ارادہ نہیں رکھتے اور غیر جانبدارانہ طریقے سے اپنے فرائض سرانجام دیتے رہیں گے۔ فلسطینی اتھارٹی کو چاہیے کہ وہ ان پر غیر ضروری دباؤ نہ ڈالے۔ واضح رہے کہ رچرڈ فالک نے غزہ جنگ کے متعلق اپنی رپورٹ میں واضح کیاتھاکہ اسرائیلی فوج نے فلسطینی عوام او رشہری عمارتوں کو ٹارگٹ کیا۔ فلسطینی اتھارٹی نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کونسل میں اس رپورٹ پر بحث کو اس دعوے کے ساتھ ملتوی کردیا کہ اس سے فلسطینی مفادات کو نقصان ہوگا۔ اقوام متحدہ کے اہلکار رچرڈ فاک نے ۱۱/۹کے حادثے کو امریکی منصوبہ قرار دیا ہے۔ فلسطین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تفتیش کے لیے مقرر خصوصی تفتیشی افسر رچرڈ فالک نے اپنے بلاگ میں لکھا ہے کہ ۱۱/۹کا حادثہ امریکی حکومت کا تیار کردہ تھا اور یہ اس حادثے کے حقائق پر امریکی حکام نے جانتے بوجھتے ہوئے پردہ ڈالا ہے۔ انھوں نے اپنے بلاگ میں مغربی ذرائع ابلاغ کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ ۱۱/۹کے حادثے کے بعد جاری کئے گئے سرکاری بیانات میں واضح تضادات موجود تھے، جنہیں نظر انداز کر دیا گیا اور سچ کو چھپانے کی بھر پور کوشش کی گئی ﴿hamarasamaj.com﴾۔

واضح رہے کہ رچرڈ فالک بہ ذات خود ایک امریکی یہودی ہیں لیکن وہ اسرائیل کی چیرہ دستیوں کے خلاف آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔وہ امریکا کی پرنسٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی قانون کے پروفیسر ایمریطس ہیں۔انہوں نے بیس کتابیں لکھی ہیں یا وہ ان کے معاون مصنف ہیں اورتقریباً بیس کتب کے وہ مدیر یا معاون مدیر ہیں۔اس سب کے باوجود توجہ طلب پہلو ہے کہ جب ایک یہودی نے غیر جانب داری کا رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنی ذمے داری کو بہ خوبی انجام دینے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ اس کو اپنے عہدے سے برطرف کرنے کی کوششیں کی جانے لگیں۔ سوال یہ ہے کہ حقیقت کو حقیقت بیان کرنے کی جرأت کے عوض اگر اتنی بڑی سزا دی جائے توپھر کیوں تنقید و آزادی کے علمبرداراپنے اوپر آنچ آتے ہی دوسروں کی تمام آزادیاں سلب کرلیتے ہیں!!

مشمولہ: شمارہ جولائی 2011

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau