تحریکِ اسلامی کا ہدف اور طریقۂ کار

ہندستان کے تناظر میں

مرزا سبحان بیگ

قرآن و سنت کی روشنی میں کسی بھی خطئہ زمین کی اسلامی تحریک کا ہدف اور محرک متعین ہے۔ اسلامی تحریک کا محرک ہے رضائے الٰہی اور فلاح آ خرت کا حصول، اور ہدف ہے اقامت دین۔ اِس کے تین ذیلی اہداف ہیں: فرد کا ارتقا، معاشرے کی تعمیر اور ریاست کی تشکیل، یہ تینوں اہداف مرکزی ہدف ’‘اقامت دین ’‘سے مربوط ہوتے ہیں اور باہم بھی ایک دوسرے کا لازمی نتیجہ ، ایک دوسرے کے معاون و مدد گار اور ایک دوسرے کی ترقی اور بقائ کا ذریعہ ہیں۔ ان کے درمیان کوئی لازمی زمانی ترتیب نہیں ہے اور نہ تینوں کی تکمیل کا عمل کبھی ختم ہونے والا ہے۔ کیونکہ خوب سے خوب تر کی طرف ترقی کاامکان ہمیشہ باقی رہتاہے۔ تینوں اہداف کے لیے کام کرنے کی راہ ‘دعوت’ہے۔ دعوت کے بھی درج ذیل تین نکات ہیں:

﴿۱﴾ غیر مسلموں کو دعوت اسلام ﴿احقاقِ حق اورابطالِ باطل کے ساتھ﴾

﴿۲﴾ مسلمانوں کو دعوتِ اصلاح ﴿ہمہ گیر اصلاح﴾

﴿۳﴾ دین حق کا غلبہ و نفاذ  ﴿اسلامی ریاست و اقتداراس کاآخری مرحلہ ہے﴾

اوّل الذکر دو کام اوّل روز سے راست اور مسلسل کرنے کے ہیں ۔ تیسرا کام یعنی اسلامی ریاست کی تشکیل ﴿بغرض غلبہ و نفاذ ِ دین ﴾ اول روز ہی سے راست اور مسلسل کرنے کا نہیں ہے اور نہ اُس کے متعدد مراحل ہوتے ہیں کہ ایک کے بعد دوسرا مرحلہ کب اور کیسے آئے گایہ طے کیا جاسکے۔ البتہ اسلامی ریاست تشکیل پاجانے کے بعداسلام کے معاشی ، معاشرتی ، قانونی و تعزیری احکام مرحلہ وار اور بتدریج نافذ ہوتے ہیں۔ ریاست کی تشکیل کا توایک ہی مرحلہ ہوتا ہے جو پہلے دو کاموں کے کرنے کے دوران میں آتا ہے۔ جب داعی یا داعی گروہ ان کاموں کو پختہ ایمان ،پختہ کردار اورعوامی خدمت اور ظالم و مظلوم دونوں کی مدد ﴿حدیث کے مطابق﴾ اور مخلصانہ انتھک جد و جہد کے ساتھ انجام دیتا ہے اور اِس راہ میں ہر طرح کی قربانی پیش کرتااور مشکلات و مصائب جھیلتا ہے۔ یہ مرحلہ کبھی عزیز ِ مصر کے یوسفؑ کو اقتدار سونپ دینے کی شکل میں آتا ہے تو کبھی موسیٰؑ کی سلطنت ِ فرعون سے بھی اسرائیل کو نکال لے جانے کی شکل میں آتا ہے۔ کبھی حضورﷺ  کے لیے بیعت ِ عقبہ اولیٰ اور بیعت ِ عقبہ ثانی کے ذریعہ مدینہ میں اسلامی ریاست کے قیام کی راہ کُھل جانے کی شکل میں آتا ہے ۔ یہ مرحلہ آتا ہے تو داعی یا داعی گروہ بغیر کسی تاخیر کے دشمن اور مخالف طاقتوں کی پرواکیے بغیر اس مرحلے یا موقعے سے فائدہ اٹھالیتا ہے۔ جیسا کہ یوسفؑ ، موسیٰؑ اور حضور کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

یہ مرحلہ اللہ کی مشیت کے تحت آتا ہے۔چنانچہ داعی یاداعی گروہ کو یہ سوال پریشان نہیں کرتاکہ یہ مرحلہ کب آئے گا۔بلاشبہ آج ملت سیاسی بے وزنی اور پسماندگی سے دوچار ہے۔اِس کا مظہرملک میں رائج باطل نظام کے تحت چلنے والے اور اس کے محافظ قانون ساز اداروں میں ملت کی معمولی حصہ داری اور غیر موثرنمائندگی کوقرار دیاگیاہے۔ لیکن داعی گروہ کے سوچنے کاانداز مختلف ہوتا ہے۔ وہ تو اپنی ملت ہی کی نہیں ہم وطنوں کی بھی بلکہ پوری انسانیت کی ہر طرح کی بے وزنی اور پسماندگی و درماندگی کو الگ الگ نہیں دیکھتا۔بل کہ سب کو انبیائ کی طرح ایک ہی آنکھ سے دیکھتا اور انبیائی بصیرت سے کام لیکر ایک ہی حل تجویز کرتا ہے ۔ وہ ایک طرف برادرانِ ملت کو دو ٹوک بتاتا ہے کہ : تمہاری یہ حالت صرف اور صرف مذکورہ راہِ حق سے ہٹ جانے کے سبب ہوئی ہے ، تمہارے ہر مسئلے کا حل اُس راہ پر گامزن ہوجانے میں ہے۔ تمہاری یہ آدھا تیتر آدھا بٹیر والی زندگی دراصل اسلام سے منافقت ہے جو اللہ کو سخت نا پسند ہے اور ایسا مسلمان دنیا میں بھی رسوا ہوتا ہے اور آخرت میں بھی رسوا ہوگا۔

جہاں تک دُنیوی کامیابی کا تعلق ہے وہ تو اللہ کے قانونِ فطرت کے مطابق اس گروہ یا فرد کو ملتی ہے جو اپنی اختیا ر کردہ راہ پر پختہ یقین رکھتا ہے اور اخلاص کے ساتھ اس پر چلتا ہے۔ چونکہ اہل کفر و شرک کا دو متضاد راہوں میں سے صرف ایک کفر و شرک کی راہ پر پختہ ایمان و یقین ہوتا ہے، دوسرے خدا اور آخرت کی راہ کی نہ انھیں کوئی پروا ہوتی ہے اور نہ راہِ حق اختیار نہ کرنے کی صورت میں انجام ِ بد سے دوچار ہونے کااندیشہ و خوف ہوتا ہے۔ اس لیے وہ باطل راہوںپر پورے یقین، اور یکسوئی کے ساتھ چلتے ہیں اور دُنیوی کامیابی حاصل کر لیتے ہیں۔ لیکن ضعیف الایمان اور منافق مسلمانوں کا معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہوتا ہے، نتیجتاً دُنیوی ناکامی ان کے حصہ میں آتی ہے اور آخرت کی تباہی الگ سے ۔ چنانچہ اگر مسلمان آخرت کے ساتھ دنیا کی بھی فلاح و کامرانی چاہتے ہیں تو وہ انھیں اسی وقت ملے گی جب وہ ہر قسم کے طاغوت کا انکار کرکے صرف اللہ کے الہٰ واحد ہونے پر کامل اور پختہ ایمان کا اپنے قول و فعل سے ثبوت پیش کریں گے۔ اللہ کے ساتھ طاغوت پر بھی ایمان اور اللہ کی راہ کو چھوڑ کر یا اس کے ساتھ طاغوت کی راہ پر بھی چلنا ، ان کی موجودہ پریشانیوں میں اضافہ ہی کریگا اور آخرت الگ خراب ہوگی ۔

دوسری طرف برادرانِ وطن کے تعلق سے داعی گروہ کا رویہّ یہ ہوتا ہے کہ وہ انہیں حکمت اور موعظتِ حسنہ کے ساتھ اللہ کے راستے کی طرف پکارتا رہتا ہے۔ وہ ان کے سامنے ملکی سماج پر مسلّط تمام چھوٹے بڑے سماجی، معاشی ، مذہبی و سیاسی طواغیت کی نشاندہی کرتا ہے جنہوں نے ملک میں فساد اور بگاڑ برپا کررکھا ہے اور جوپیداوار ہیں رائج الوقت افکار و نظریات اور  نِظام ہائے زندگی کے۔ وہ کسی بھی غیرالٰہی نظریہ اور نظام میں بظاہر کچھ خیر ہونے کی بنا پر اس کو غنیمت نہیں قرار دیتاکہ اس سے لوگوں کے اندر کراہت و نفرت پیدا ہونے کی بجائے اس نظریہ و نظام سے اُنسیت برقرار رہے اور وہ بے چوںو چراں ان طواغیت کی اطاعت کرتے رہیں۔ اور طاغوت انہیں بآسانی اپنی غلامی میں جکڑے اور جہالت و تاریکی کے راستے پر ڈھکیلتے رہیں۔ داعی گروہ جانتاہے کہ باطل پر چل کر لوگ بھلے ہی کچھ راحت حاصل کرلیں لیکن مجموعی طور پر ناکامیاں ہی ان کے حصّے مین آئیں گی اور آخرمیںنارِجہنّم میں گرنا یقینی ہوگا۔ یا داعی گروہ ان کی کمر پکڑ پکڑ کر حق کے راستے پر لانے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ اس پر چل کر دُنیوی فلاح و کامرانی سے ہمکنار ہوتے ہوئے اللہ کی جنّت میں پہنچ جائیں۔ اسی کے ساتھ وہ اُنہیں ظلم کے خلاف رنگ و نسل اور عقیدہ و مذہب کے کسی فرق وامتیاز کے بغیر جدوجہد کرنے پرابھارتا رہتا ہے۔ اس ساری سعی و جہد کے دوران میں وہ شبہ کے لیے کوئی گنجایش نہیں چھوڑتا کہ اس کی یہ تڑپ اور سعی و جہد اپنے لیے یا اپنی ملّت کے لیے ملک پر حکومت و اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہے۔ وہ ان سے بڑے درد اور سوز کے ساتھ کہتا ہے : ہم تو یہ سب کچھ تم سے کسی اجر کی توقع رکھے بغیر صرف اس لیے کر رہے ہیں کہ ہمارے رسولﷺکے ارشاد ’’الخلق عیال اللہ ‘‘ کے مطابق اور ابنِ آدم ہونے کے ناتے تم ہمارے بھائی ہو۔ ہم تو صرف یہ چاہتے ہین کہ ملک اور عوام پر تمہاری چلے نہ ہماری اورنہ تمہاری یا ہماری قوم ، برادری یا خاندان کی چلے۔ بل کہ صرف اللہ کی چلے جو تمہارا اور ہم سب کا خالق و مالک ہے۔

یہ ہے وہ راہ جسے اختیار کرنے کی کسی بھی دور اور کسی بھی ملک کی تحریک ِاسلامی پاپند ہے۔ یہ راہ قرآن و سنّت کی متعین کردہ ہے، جس پر مضبوطی کے ساتھ جمے رہنے پر بشارت اور چھوڑ کر کوئی اور راہ اختیار کرلینے پر ہلاکت کی خبر سنائی گئی ہے ۔ بلاشبہ یہ راہ مکمل طور پر پر امن اور تعمیری ہے مگر بڑی ہی طویل اور صبر آزما ہے۔ اس راہ کو اختیار کرتے ہوئے سعی و جہد کا نتیجہ خصوصاًاسلامی ریاست و اقتدار کی شکل میں اللہ کی مشیت کے تحت کبھی جلد ظاہر ہوجاتا ہے اور کبھی صدیوں کی جدوجہد کے بعد بھی ظاہر نہیں ہوتا ۔ اس راہ پر چلتے ہوئے منزل مقصود خواہ کتنی ہی دور نظر آئے لیکن بقول مولانا مودودیؒ ’’چونکہ منزلِ حق وہی ہے اس لیے ہم اس کی طرف چلتے ہوئے مرجانا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں بہ نسبت اس کے کہ جانتے بوجھتے غلط مگر آسان راہوں میں اپنی قوّت صرف کریں یا نادانی کے ساتھ جنّت الحمقائ کے حصول میں اپنی قوّت ضائع کریں۔

مذکورہ بالا گفتگو یا بحث میں ’‘ہندوستان میں تحریک ِ اسلامی کا ہدف اور طریقہ کار‘‘کا جواب واضح طور سے آگیا ہے ، اور درج ذیل سوالات اور الجھنوں کا حل بھی مل جاتا ہے:

﴿۱﴾ اقامتِ دین کے تینوں ذیلی اہداف بالخصوص تیسرا ہدف اسلامی ریاست کی تشکیل کا معاملہ کس مرحلے میں ہے ؟ آئندہ کتنے مراحل ہوںگے اور ایک کے بعد دوسرا مرحلہ کب اور کیسے آئے گا ؟

﴿۲﴾  ملت کی پسماندگی اور بے بسی ﴿خواہ معاشی و اقتصادی ہو یا معاشرتی و سیاسی﴾ کا حل کیاہے اور اہلِ ملک کو مشکلات سے نجات دلانے میں تحریک کا رول کیاہے؟

﴿۳﴾  سیکولر جمہوریت کی بنیاد پر ملک میں رائج نظام ِ حکومت کی موجودگی میں اقامت ِ دین کی راہ کیا ہے؟

سیکولر جمہوریت، ہندستان اور تحریکاتِ اسلامی؟

۱-کسی بھی نظریے یا نظام کے متعلق اصل بات دیکھنے کی یہ نہیں ہوتی ہے کہ وہ کب،کیسے اور کہاں وجود میں آ ئی تھی، بلکہ دیکھنے کی بات یہ ہوتی ہے کہ وہ فی الواقع کیا ہے اور فی الوقت انسایت کے لیے نفع بخش ہے یا مضرت رساں ؟ اکثر کہا جاتا ہے کہ جمہوری نظریہ و نظام یورپ میں عیسائیت اور جاگیرداری نظام کے جبر وظلم کے ردّعمل اور بادشاہت کی ضد میںوجود میں آیاتھا۔ اس سے عام آدمی یہ تاثر لیتا ہے کہ گو یا یہ ایک انقلاب تھا جو غیر شعوری اور طبعی طور پر یورپ کے عام لوگوں کے ذریعہ برپاہوا اور ہر اعتبار سے بالکل نیا انقلاب تھا۔ بلاشبہ انقلاب تو عوام ہی کے ذریعہ برپاہوتا ہے خواہ انہیں اس کا شعور ہو یانہ ہو۔ لیکن اصل محرّک ہوتے ہیں ذی اثر، ذی شعور، ذی علم اور نظریہ ساز چند افراد ۔اس انقلاب کے ذریعے وہی کرسئیِ اقتدار تک پہنچتے ہیں۔ انقلاب کبھی تو اپنے عہد میں واقعی مختلف پہلوئوں سے بالکل نیا یا منفرد ہوتا ہے یا صرف سابق نظام کی شکل بدل جاتی ہے یا جزئی تبدیلی آتی ہے۔ جو ہر ی اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہوتا ہے۔ چنانچہ پوری انسانی تاریخ میں سوائے انبیائ کرام اور ان کے مخلص پیروئوں کے ذریعہ برپاکیے گئے انقلاب اور اس کی بنیاد پر قائم نظام کے تمام انقلابات اور نظاموں کی حقیقت یہی رہی کہ ایک جاہلیت اور جاہلی نظام سے دوسری جاہلیت اور جاہلی نظام جنم لیتا رہا جسے قبول اور اختیار کرنے کے نتیجے میں انسان کی جھولی میں ہمیشہ کڑوے کسیلے پھل اور کانٹے ہی آئے۔

یورپ کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس پر ہمیشہ جاہلیت ہی مسلط رہی۔’’جاہلیت‘‘ سوائے اس کے کیا ہے کہ انسان اس حقیقت کا انکار کرے کہ اللہ تعالیٰ ہی انسان اور کائنات کا واحد اِلہٰ اور رب ہے، اور انسانی زندگی کے ہر پہلو میں اُسی کی مرضی چلنی چاہیے۔ خواہ اس پہلو کا تعلق پوجا،پرشتش اور روحانیت و اخلاق سے ہو یا معیشت و معاشرت اور سیاست و عدالت سے۔ یورپ پر پہلے یونانی اور رومی جاہلیت، پھر قرونِ وسطیٰ میں یونانی اور رومی کے ساتھ مسیحیت کی جاہلیت مسلط رہی۔ مسیحیت کی جاہلیت یہ تھی کہ موسیٰ ؑاور عیسیٰ ؑکی تعلیمات میں تحریف کرلی گئی۔ چنانچہ چند شرک آلود مذہبی رسموں کی ادائی اور’’پرسنل لائ‘‘کی حدتک چند قوانین و ضوابط پر عمل ہوتا تھا۔ رہی سیاست و حکومت تو وہ حقیقی مذہب اور خدا سے بالکل آزاد رہی لیکن اہلِ اقتدار اور ’‘مذہب‘‘کے علمبردار وں کو ایک دوسرے کا آشیروادبھی حاصل رہا۔ نشأۃِثانیہ کے بعد اور آج بھی وہ اسی جاہلیت کے راستے پر گامزن ہے۔ البتہ آج کی جاہلیت میں بے لگام آزادیِ اظہارِرائے، بد ترین اباحیت پسندی، جنس زدگی اور عریانی و فحاشی کا مزید اضافہ ہوگیا اور کہیں کہیں الحادنے بھی جگہ بنالی ہے۔ علاوہ ازیں ایک فرد کی بادشاہت یا ڈکٹیٹرشپ کی جگہ ایک یا چند پارٹیوں نے لے لی ، جسے جمہوریت یا عوام کی حکومت کا خوبصورت نام دیا گیاہے۔ جمہوریت میں ہر چار پانچ سال بعد الیکشن کے ذریعہ عوام کا ہر بالغ و عاقل فرد ، خواہ وہ دانشور اور باکردار ہو یا احمق، گنوار اور بدکردار، مساوی حقِ رائے دہی کے اصول کے تحت اپنا نمائندہ منتخب کرتا ہے کہ وہ نمائندہ خدا اور خدائی ہدایت سے بے نیاز ہوکر اس کے لیے قانون سازی کرے اور اس پر حکمرانی کرے۔

یورپ نے قرونِ وسطیٰ میں اسلام سے ٹکرائو کے وقت مسلمانوں سے بہت کچھ سیکھا اور حاصل کیا، لیکن دین ِ حق کو اپنانے کی بجائے وہ پرانی جاہلیت ہی پر جما رہا جبکہ اس پر اسلام کی صاف ستھری اور حیات بخش تعلیم اوراہلِ اسلام کی اخلاقی خوبیاں اورعلمی و فنّی صلاحتیں اور کارنامے روزِروشن کی طرح عیاں ہوگئے تھے۔ نشأۃِثانیہ کے دوران میں اس کے علمائ و مفکّرین نے یونانی اور رومی لٹریچر کا تو گہرا مطالعہ کیا لیکن اسلام اور اسلامی تاریخ سے استفادہ نہیں کیا، اور کچھ تبدیلیوں اور اضافوں کے ساتھ پرانی جاہلیت ہی پر جدید یورپ کی بنیاد رکھی۔

۲۔کہا جاتا ہے کہ اس نظامِ جمہوریت میں خیر کے ایسے پہلو بھی ہیں جو اسلام سے مماثلت رکھتے ہیں۔ مگر واقعہ یہ ہے کہ اس میں جو کچھ خیر ہے وہ اس کے شر کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ پھر یہ کہ دنیا میں ایسی کون سی چیز اور نظریہ ہے جو کچھ نہ کچھ خیر اپنے اندرنہ رکھتا ہو ۔ باطل کو بھی خیر کا سہارا لینا ہی پڑتا ہے ۔شراب اور شرک کی مثال دی جاسکتی ہے ۔ قرآن نے خود شراب کے متعلق کہا کہ اس میں کچھ فائدے ہیں لیکن اس کا گناہ اور نقصان اس کے فائدوں سے بہت زیادہ ہے۔ اسی طرح شرک بہرحال اللہ کے وجود کا قائل ہے، اس کی اُلوہیت اور ربوبیت کا بھی قائل ہے ،لیکن ساتھ ہی اس کے حقوق و اختیارات میں سے غیر اللہ کو بھی شریک کرتا ہے ۔ پھر کیا خیا ل ہے ان دونوں امّہات الخبائث کے بارے میں ؟

۳۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ نظام جمہوریت مذہب مخالف نہیں بلکہ غیر جانبدار ہے ۔لیکن صحیح بات یہ ہے کہ یہ صِرف اُس مذہب کا مخالف نہیں ہے جو انسان کی سیاسی و سماجی و معاشی اور اقتصادی زندگی سے کوئی واسطہ نہ رکھتا ہو۔ ایسے تمام مذاہب کے تئیں وہ غیر جانبدار رہتا ہے لیکن ساتھ ہی ان کے حدود اربعہ کو متعین کرنے کا کلّی حق اور اختیار اپنے پاس رکھتا ہے، اوران حدود سے تجاوز کرنے کی مذہب کو قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ سیاسی و اجتماعی زندگی میں خدا اور خدائی ہدایت سے کلّیتاً بے نیازی اس نظام کا ﴿خواہ ملحدانہ ہوکہ غیر ملحدانہ﴾ بنیادی اور لازمی وصف ہے، جس کے خلاف وہ اسلامی نظام حیات کو زبان تک کھولنے کی اجازت نہیں دیتا، اس لیے وہ اسلام کا مخالف ہی نہیں معاند بھی ہے۔

اوپر کی بحث اور جوابات کی روشنی میں، بلا شبہ اس نظام میں حاکمیت الہٰ کی نفی موجود ہے اورکسی اور مذہب کے خدا کا انکار ہو یانہ ہو لیکن اسلام کے خدا کا کھلم کھلا اور پورے شعور کے ساتھ انکار ہے اور اس کی جگہ خود لے لینے کا اثبات ہے۔ صدیوں سے یہ انکار اور اثبات چلا آرہا ہے ۔ عموماً طاغوت ہتھکنڈے ہی ایسے استعمال کرتا ہے کہ لوگ اسے طاغوت کے بجائے معصوم سمجھتے ہوئے اس کی اتباع اور بندگی پر برضا و رغبت آمادہ ہوجائیں ۔ کہاجاتاہے کہ جس نظریے یانظام میں خدا کا انکار تو ہو لیکن غیر شعوری ہو اسے طاغوتی قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ ہم فرض کر لیتے ہیں کہ جمہوری نظر یہ اور نظام میں خدا کا اور وہ بھی اسلام کے خدا کا انکار شعوری طور پر نہیں کیا گیا،لیکن غیر شعوری انکار کی صورت میں بھی طاغوت طاغوت ہی رہے گا ،اس کی خاصیت بدل نہیں جائے گی۔

۴۔کہا جاتا ہے کہ People’s Sovereignty انسانی حاکمیت کے مماثل نہیں ہے۔مگر یہ سب الفاظ کے پیچوں میں الجھنے والی باتیں ہیں جو بصارت اور بصیرتِ مومن کی ضد ہیں۔ People’s Sovereignty انسانی حاکمیت نہیں ہے تو کس کی حاکمیت ہے؟ دستور ہند میں سابقہ WEاور لاحقہ SOVEREIGNانسان کے ایک خاص مقام کو متعین کرتا ہے، اور وہ مقام ہے سیاسی و سماجی ، معاشی و اقتصادی اور اجتماعی زندگی میں اللہ کی جگہ لیتے ہوئے پوجا و پرستش اور روحانیت سے متعلق شعبہ زندگی میں اللہ کو الہٰ بنا رہنے کی اجازت دینا ۔ ’‘مقتدر اعلیٰ ’‘ کے معنی ہیں ایسا باا قتدار و باا ختیار جس کے اوپر کوئی باا قتدار و بااختیار نہ ہو ۔ ’‘خود مختار، اندرونی وبیرونی تسلط سے آزاد‘‘ کے بھی معنی وہی ہیں۔ دونوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنا یا سمجھنا اور نظریاتی و عملی تفریق کرنا قطعاً غلط ہے۔ اندرونی و بیرونی تسلط سے مراد اگر صرف انسانی تسلط لیا جائے تو اس سے آزاد صرف اسلامی ریاست ہی ہوتی ہے اور وہ اپنے بارے میں ایسا کہتی اور کہہ سکتی ہے وہ   ’‘خدائی‘‘ تسلط سے آزاد نہیں ہوتی اور نہ ہی وہ اپنے بارے میں ایسا کہتی یا کہہ سکتی ہے ۔لیکن سیکولر جمہوری ریاست نے چونکہ انسان کو تواپنے اندر رکھا لیکن خدا کا دیس نکالا کردیا تو اس کے لیے اندرونی و بیرونی تسلط میںخدائی تسلط بھی شامل ہے۔

۵۔جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہندوستانی سیکولر جمہوریت مغربی سیکولر جمہوریت سے بالکل مختلف ہے، سخت مغالطے میں ہیں یا عوام کو مغالطہ دینا چاہتے ہیں ۔ دونوں میں کوئی جوہری فرق نہیں ہے۔ دونوں کی پرواز اسی ایک فضائ میں ہے، جس کی چند جھلکیاں اوپر گزر چکی ہیں۔ دستور ہند کے Preambleاور دفعات ۲۵، ۲۹ اور ۳۰ کے تحت دی گئی بنیادی حقوق کی ضمانت، ضمیر اور مذہب کی آزادی نیز مذہبی و تعلیمی اداروں کے انتظام و انصرام کی آ زادی کو ہندستانی سیکولر جمہوری نظام کی منفرد اور مستقل خصوصیت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور بار بار اسے دہرایا جاتا ہے۔ لیکن انہی دفعات کے تحت درج شرائط و قیود کو ، اور دفعات۲۹ ﴿۲﴾، ۳۸ ﴿۱﴾ ،۱۴۱،۱۴۴، ۲۴۵ ، ۲۴۸، ۳۶۸﴿۱۳﴿۴﴾کے ساتھ ﴾ اور ۴۲ویں ترمیم نیز Directive Principlesکے تحت دفعہ ۴۴ کو یکسر بھلادیا یا نظر انداز کردیا جاتا ہے ، جو یہ تمام آزادیاں اور ضمانتیں چھین لیتی ہیں۔ زمینی حقیقت بھی اس کی تصدیق کرتی چلی آرہی ہے۔ اس حقیقت کو بھی نظرانداز کردیا جاتا ہے کہ اس قسم کی آزادیاں اور ضمانتیں انگریزوں کے دور حکومت میں بھی حاصل تھیں، خصوصاً مذہبی آزادی والی دفعہ کے الفاظ تو وہی الفاظ ہیں جن کا ذکر انگریزوں کے زمانے کے ۱۹۳۵ کے مشہور ایکٹ میں پایا جاتا ہے۔  مذہبی آزادی والی دفعہ ۲۵ کے تحت ہی کیے گئے عدالتِ عالیہ کے متعدد فیصلے مذہب کے حدود اربعہ کو متعین کرتے ہیںاور پرسنل لائ اور دیگر مذہبی امور میں ریاست و عدالت کی مداخلت کو مطابق دستور قرار دیتے ہیں ۔ مثلاً : گائے کا ذبیحہ مسلمانوں کا کوئی مذہبی کام نہیں ہے ۔ ﴿دفعہ ۴۸ گائے کے ذبیحہ کو ممنوع قرار دیتی ہے۔﴾گرودوارا کے انتظام کے لیے ارکان کا انتخاب مذہبی عمل نہیں ہے ۔ کسی مندر یا مٹھ ﴿معبد﴾ کے وسائل کے انصرام کوModifyکرنے کے لیے کسی شخص یا اشخاص کا سرکار کی جانب سے متعین کرنا مذہبی معاملات میں مداخلت بے جا نہیں ہے۔ پہلی بیوی کی حیات میں دوسری بیوی سے نکاح کرنا مذہبی عمل نہیں ہے ۔

عورتوں کی تصویر کشی مذہب اسلام کا حصہ نہیں ہے ۔ کسی شخص کو مرتد قرار دینا ، خارج از ملت قرار دینا مذہب کا حصہ نہیں ہے ۔طلاق وغیرہ سے متعلق اسلامی شریعت کے خلاف متعدد فیصلے ہوئے ہیں۔ دفعہ ۹۲ ﴿۲﴾ کے تحت کیے گئے سپریم کورٹ کے متعدد فیصلے ہیںجو دفعہ ۲۹ ﴿۱﴾ اور ۳۰ ﴿۱﴾ کو بے اثر بنادیتے ہیں۔

یکساں سول کوڈ والی دفعہ ۴۴ پر عمل درآمد کے سلسلے میں حکومت کو وقتاً فوقتاً ہدایات دی جاتی ہیں۔ واضح ہو کہ آج تک ملک کی کسی بھی سیاسی پارٹی نے ، خواہ ہندتو وادی پارٹی ہوکہ کانگریس یا کوئی اور سیکولر پارٹی ، مسلمانوں کے اس مطالبہ کی حمایت نہیں کی کہ اس دفعہ کو دستور ہندسے نکال دیا جائے یا کم از کم مسلمانوں کو اس سے مستشنیٰ قرار دیا جائے ۔ درحقیقت ملک کی سب ہی سیاسی و سماجی جماعتیں یکساں سول کوڈکے نفاذ کے حق میں ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ ہندتووادی پارٹیاں جبراً اور دیگر پارٹیاں مسلمانوں کی مرضی سے اس کا نفاذ چاہتی ہیں اور جبر و رضا کی یہ ایک سوچی سمجھی پالیسی ہے ۔ یہ محض تعصب کے سبب نہیں بلکہ نیشل سیکولر جمہوری نطام اختیار کرنے کا منطقی نتیجہ ہے۔

۶۔یہ حقیقت بھی فراموش کردی جاتی ہے کہ اگرچہ ہر شخص جس نے آزادیِٔ ہند کی تاریخ کا تھوڑا بھی مطالعہ کیا ہے، جانتا ہے کہ سیکولر جمہوری نظام کا فیصلہ کانگریس نے آزادی سے بہت پہلے کر لیا تھا ۔ ایسا نہیں ہے کہ آزادی کے بعد دستور مرتب کرتے وقت ملک کے ارباب َحل و عقد کے ذہنوں میں اس کا خیال آیا اور بڑے غور و فکر کے بعد انھوں نے تمام مذاہب اور تہذیبوں کی رعا یت کرتے ہوئے ملک کے لیے سیکولر جمہوری نظام کو مناسب سمجھا ۔ انھوں نے جس مذہب کی اور جس حد تک رعایت کی اس کا ذکر بصراحت اوپر کیا جا چکا ہے ۔ انھوں نے انگریزوں کے چلے جانے کے بعد انہی کے سیکولرزم پر ملک کے نظام کی بنا رکھی، نیز قانونی ، عدالتی اور تعلیمی نظام بھی انہی سے مستعار لیا ، جب کہ ان کے سامنے اسلام بھی تھا ، اسلامی نطام کی خوبیوں سے بھی وہ وا قف تھے، جیسا کہ آزادی کے فوراً بعد گاندھی جی نے ان سے کہا تھاکہ اب کانگریس کو تحلیل کر دیا جائے اور ابوبکر ؓو عمر ؓ کی خلافت کے طرز پر حکومت چلائی جائے۔ آزاد ہند کے لیے متبادل کے طور پر اسلامی نظام کو لوگ مثلاً مولانا مودودیؒ اور جماعت اسلامی پیش بھی کر رہے تھے ۔ گاندھی جی نے جماعت کے ایک اجتماع ﴿پٹنہ، ۱۹۴۶﴾ میں شرکت بھی کی اور جماعت والوں اور ان کی باتوں کو بہت پسند کیا ، اور غیر مسلموں کے اعتراض کا جواب یہ دیا کہ اگر جماعت والوں نے آئندہ مدعو کیا تو وہ پھر ان کے اجتماع میں جائیں گے اور پیدل چل کر جانے میں خوشی محسوس کریں گے ۔ بانیِ تحریک اسلامی نے تو کھل کر بڑے ہی پر سوز اور حکیمانہ انداز میں ان سے کہا تھا :

’‘’’خدا را دنیا کی بگڑی ہوئی قوموں سے وہ نہ لیجیے جن کی وجہ سے وہ خود بھی خراب ہو رہی ہیں اور دنیا کو بھی خراب کرنے کی جرأت کررہی ہیں۔ ان کی بجائے آپ پہلے یہ تین اصول مان لیجیے جن کو ہر زمانے میں خدا کے نیک بندے لیکر آئے ہیں ۔ ﴿۱﴾ لادینی کے مقابلے میں خدا کی بندگی اور اطاعت ﴿۲﴾ قوم پرستی ے مقابلے میں انسانیت ﴿۳﴾ جمہور کی حاکمیت کے مقابلے میں خدا کی حاکمیت اور جمہور کی خلافت ۔ جنہیں آپ کے بزرگ بھی اسی طرح پیش کرتے تھے جس طرح ہمارے بزرگوں نے پیش کیا تھا۔ پھراپنے بزرگوں کی تعلیمات میں تلاش کیجئے کہ ان اصولوں کے مطابق ایک ریاست ، زمانہ حال کی ایک ترقی پذیر ریاست کا نظام چلانے کے لیے کوئی مفصل ہدایت ملتی ہے یا نہیں ۔رام چندر جی ، کرشن چندر جی ، بودھ مہاراج ، گرونانک اور دوسرے تمام رشیوں اور منیوں کی تعلیم اور ان کی سیرتوں کا جائزہ لیجئے ۔ ویدوں ، پرانوں ، شاستروں اور گرنتھوں کو دیکھئے ۔ اگر ان میں کوئی ہدایت آپ کو ملے تو ہم کہیں گے آپ ہندوستان کی ریاست کا نظام اسی پر قائم کیجیے۔ہم اس نظام کی مزاحمت نہیں کریں گے ، اسے کام کرنے کا موقع دیں گے ۔ اور بغیر تعصب کے یہ دیکھیں گے کہ آپ خدا پرست انسانیت اور خدا پرستانہ جمہو ریت کی جو عملی تعبیر پیش کرتے ہیں وہ کہاں تک دنیا کے لیے رحمت اور برکت کی موجب ثابت ہوتی ہے ۔ لیکن اگر آپ اپنے ہاں ایسا کوئی مفصل ہدایت نامہ نہ پائیں تو اس کے معنیٰ یہ نہیں ہیں کہ وہ خدا نے آپ کے ہاں بھیجا نہیں تھا بلکہ اس کے معنیٰ صرف یہ ہیں کہ اپنی طویل تاریخ کے انقلابات میں اسے یا اس کے ایک بڑے حصہ کو آپ کھوبیٹھے ہیں ۔ وہی چیز اس خدا کی بھیجی ہوئی ہم آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ اس سے اپرائیے نہیں ، یہ آپ ہی کی کھوئی ہوئی چیز ہے جو ایک دوسرے ذریعہ سے آپ کے پاس واپس آئی ہے ۔ آپ اسے پہچاننے کی کوشش کریں ، اسے چانچیں پرکھیں اور برت کر دیکھیں کہ اس میں واقعی آپ کی فلاح ہے یا

نہیں‘‘ ۔ ﴿جماعت اسلامی کی دعوت ۔ صفحہ ۹۲، ۰۳﴾

لیکن جس طرح نشأۃِثانیہ کے بعد یورپ کو اسلام اور مسلمانوں سے اس کے تعصب اور یہودیوں کے سازشی کردار نے اللہ کی صراطِ مستقیم پر آنے سے روکا، اسی طرح آزادی کے بعد کانگریس کومحض اسلام اور مسلمانوں سے ان کے تعصب اور انگریزوں کے سازشی کردار نے اسلامی نظام سے باز رکھا اور باہر کے سات سمندر پار یورپ کے سیکولرجمہوری نظام کی گود میں ڈالدیا۔ مسیحیت اور یہودیت کے گٹھ جوڑ نے یورپ کی نشأۃِثانیہ کے رخ کو اسلام کی طرف جانے نہیں دیا۔ اسی طرح ہندوستان مین انگریزوں، یہودیوں اور ہندتوا ذہن کے گٹھ جوڑ نے آخر تک تحریک آزادی کے رخ کو اسلام کی طرف جانے نہیں دیا۔ چنانچہ انہوں نے سیکولر جمہوری نظام کی بِنا ڈالی اور اہلِ ملک کو اسلام اور اسلامی نظام سے دور رکھنے کا مستقل انتظام کرڈالا۔ اس ہوشیاری اور چالاکی کے ساتھ کہ آج بھی ہند کا ’‘ملّا‘‘ ہی نہیں‘’مسلم دانشور‘‘بھی ایک سجدے کی اجازت کو اسلام کی آزادی سمجھتا ہے اور اسلام اور مسلمانوں کے تئیں ان کی ’’ہمدردی، خیرخواہی اور فراخدلی‘‘کی تعریف کرتے اس کی زبان نہیں تھکتی۔

۷۔یہ بھی خام خیالی ہے کہ یہ نظام عوام کو اس امر کی اجازت دیتا اور موقع فراہم کرتا ہے کہ اگر وہ چاہیں تو بذریعہ الیکشن وہ یا ان کے نمائندے اسے تبدیل یا ختم کرسکتے ہیں۔ کوئی بھی نظام ایسا موقع فراہم ہونے نہیں دیتا جو اس کے وجود کو نقصان پہنچانے یا ختم کرنے کا باعث بنے۔ واضح ہوکہ دنیا میں نہ پہلے کبھی جمہوریت کی دو ڈھائی سو سالہ تاریخ میں الیکشن کے ذریعے کوئی انقلاب برپا ہوانہ نظام تبدیل ہوا۔ الیکشن موجودہ اقتدار کو بدلنے یا برقرار رکھنے کے لیے ہوتا ہے، نظام بدلنے کے لیے نہیں۔

۸۔اس نظام کے باطل اور اسلام سے متصادم ہونے کے سبب اس کی مجالس قانون ساز میں داخل ہونا عقیدہ، توحید کے لازمی تقاضے حاکمیت الہٰ کے منافی ہے۔ یہ شرکت اس کی حکمرانی کو امرواقعہ ﴿Defacto﴾ کے بجائے امرجائز ﴿Dejure﴾ تسلیم کرنے کے ہم معنی ہوگی، قطع نظر اس سے کہ آپ کا مقصد اور نیت کیا ہے۔ اس کے اندر داخل ہونا بغیر اس کے ممکن نہیں ہے کہ پہلے اس کے بنیادی نظر یے کو تسلیم کیا جائے اور اس کے بنیادی نظریے کو قبول کرنا اسلام کے بنیادی نظریے سے انکار کے ہم معنی ہے۔ واضح ہوکہ پارلیمنٹ اور اسمبلیاں اس نظام اور اس کے دستور کے تحت حکومت چلانے کے لیے ہوتی ہیں نہ کہ اس کو بدلنے کے لیے، جس وفاداری کے لیے ہر پارٹی کو رجسٹر یشن کے وقت اور ہر شخص کو الیکشن میں امیدوار بنتے وقت حلف لینا پڑتا ہے۔ اس کے خلاف کوئی پارٹی یا امیدوار الیکشن جیتنے سے پہلے نہ بعد میں، نہ پارلیمنٹ و اسمبلی کے اندر نہ باہر زبان و قلم پر ایک لفظ لا نہیں سکتا، حتٰی کہ اگر آپ کا مقصد صرف ’’اسلام اور مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ‘‘ ہے تو اس کا بھی اظہار آپ نہیں کرسکتے۔

کسی کو یہ اندیشہ نہیں ہونا چاہئے کہ یہاں پورے ملک میں ہندوتوادی قوتیں اس نظام کی جگہ کوئی فسطائی و آمرانہ نظام قائم کردیں گی، جس کے نتیجے میں تحریک ِ اسلامی کو کام کرنے کی جو کچھ آزادی حاصل ہے وہ جاتی رہے گی اور مسلمان بھی شدید مشکلات و مصائب سے دوچار ہونگے۔ ﴿اس لیے تحریک اسلامی کو الیکشنی سیاست میں راست حصہ لینا چاہیئے تاکہ تحریک کے لیے کام کی راہیں مسدود نہ ہونے پائیں نیز اسلام اور مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ ہوسکے﴾۔ یہاں کی سماجیلیڈرشپ ﴿جو تحریک آزادیِ ہند سے لے کر آج تک ’’اعلیٰ ذات ’‘ والے طبقے کے ہاتھوں میں رہی ہے تقریباً تمام غیر مسلم پارٹیوں و تنظیمون کو راست یا بالواسطہ کنٹرول کرتی ہے﴾ وہ بھلا اس نظام کی جگہ کسی فسطائی یا آمرانہ نظام کو کیوں آنے دے گی؟ اس نے اس نظام ﴿متحدہ قومیت اور سیکولر جمہوریت﴾ کو تحریک ِ آزادی ہند کے دوران خوب سوچ سمجھ کر تجویز کیا تھا ۔ پھر یہ کہ اس نظام میں فسطائیت اور آمریت کو حسبِ ضرورت تمام باشندگان ملک پر بھی اور کسی ایک گروہ پر بھی استعمال کرنے کی گنجائش موجودہے۔ اس پر آزادیِ ہند کی تاریخ گواہ ہے۔ وہ ’’لیڈرشپ‘‘ اس حقیقت سے بھی خوب واقف ہے کہ فی زمانہ فسطائیت یا آمریت کی عمر بہت کم ہوتی ہے، ایسے نظام کو بالآخر عوامی تحریک اکھاڑ پھینک دیتی ہے۔ اس لیڈر شپ نے موجودہ نظام کو برقرار رکھنے اور عوام کو حق سے دور رکھنے کے لیے حکمت عملی اپنائی ہے:

مصنوعی دشمنوں سے غیر مسلم عوام کو خوف، نفرت یا کم از کم بیزاری کا عارضہ لاحق رہے، اس کے لیے مختلف تدابیر اختیارکرنا۔عالمی سطح پر اسلام اور مسلمانوں کی مخالف یا دشمن طاقتوںکا ساتھ دینا ﴿امریکہ کی موجودہ نام نہاد ’’مخالف دہشت گردی جنگ‘‘ کی تائید﴾غیر مسلم دلت اور پسماندہ طبقات کے لیے ریزرویشن۔ ان طبقات پر ان کی قیادتوں کی گرفت کو مضبوط کرنا اور ان قیادتوں کے ذریعہ انہیں اسلام اور مسلمانوں سے دور رکھنا۔مسلمانوں کو مسلسل خوف اور دہشت کی حالت میں رکھنا۔ ایسے حالات پیدا کرتے رہنا کہ جان، مال، عزّت و آبرو کا تحفظ ’’مذہب‘‘ پر چلنے کی آزادی ، پرسنل لائ کا تحفظ جیسے مسائل ہی میں وہ اور ان کی قیادت الجھ کر رہ جائے۔ ان مسائل سے اوپر اٹھ کر کچھ سوچنے اور کرنے کی وہ پوزیشن میں نہ رہیں۔ ہندوتوا کے نام پر سیاسی وغیرہ سیاسی گروہ پیدا کیے جائیںاور زندہ رکھے جائیں، جو زبان و قلم سے اور عمل سے بھی مسلم دشمنی کا مظاہرہ کرتے رہیں تا کہ مسلمان ان سے ڈرکر زیرِبحث نظام اور اس کے نام پر بنی سیکولر پارٹیوں کے ساتھ تعاون کرنے پر مجبور ہوں۔

ملک کی کل ۱۵ فی صد مسلم آبادی پورے ملک میں کھچڑی کے دانوں کی طرح بکھری ہوئی ہے۔ چند ایک حلقوں کو چھوڑ کر کہیں بھی ان کی غالب اکثریت نہیں ہے۔ لہٰذا صرف اپنے بل بوتے پر وہ کسی امیدوار کو الیکشن میں کامیابی نہیں دلاسکتے۔ جب کبھی وہ ایساسمجھنے لگیں تو مذکورہ ہندوتواوادی گروہ ووٹوں کو متحدہ کرکے مسلمانوں کے تائید کردہ امیدوار، خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم، کو ہرادیتے ہیں۔ دراصل نیشنل ڈیموکریٹک اسٹیٹ میں کسی اقلیتی گروہ کا الیکشن میں کوئی رول نہیں ہوتا ہے خواہ وہ کتنی ہی متحد ہو۔ حتٰی کہ اگر جدا گانہ انتخابات ہوں یا پوری اقلیت کے لیے سیٹوں کا ریزرویشن بھی رکھ دیا جائے تو کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ مثلاً اگر مسلمانوں کی آبادی کے لحاظ سے جداگانہ انتخابات یا سیٹوں کے ریزرویشن کی صورت میں موجودہ پارلیمنٹ کے۰ ۵۵ ممبران میں ان کی تعداد ۱۰۰۱ سے زیادہ نہیں ہوسکتی ۔ جبکہ غیرمسلم ممبران کی تعداد ۰۵۴ ہوگی۔ وہاں اگراسلام اور مسلمانوں کے مفاد کو نقصان پہنچانے والا کوئی قانون بنتا ہے یا پالیسی بنتی ہے اور اس کی مخالفت میں سو کے سو مسلم ممبران متحد ہو بھی جائیں تو حمایت میں متحدہونے والے ۰۵۴ غیر مسلم ممبران ہوں گے۔چنانچہ مسلمانوں کی کسی بھی سیاسی پارٹی کو مسلمانوں ہی کے ووٹوں پر انحصار کرنا ہوگا اور اگر وہ اپنانام اور عنوان بدلتی ہے تو بری طرح ناکام ہوجاتی ہے۔ اور اگر اصولی سیاست اور اسلام اور مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ جیسے ایجنڈے کے ساتھ کوئی مسلم جماعت الیکشنی سیاست میں عملاً دلچسپی لیتی ہے تو نتیجہ میں وہ عناصر مزید طاقتور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ مثلاً ۱۹۸۴ میں ہندوتووادیوں کی سیاسی پارٹی جن سنگھ کے صرف دو ممبران پارلیمنٹ منتخب ہوئے لیکن جب ۱۹۸۵ میں مذکورہ ایجنڈے ساتھ الیکشن کے میدان میں ﴿مسلمان اترے صرف سیکولر امیدوار کو کامیاب کرانا اور ہندوتو وادی امیدوار کو ہرانا کی حد تک، بذریعہ ووٹ﴾ تو ۱۹۸۹ میں ہندوتو وادیوں کی پارٹی بی۔جے۔پی۔ کے ممبران پارلیمنٹ کی تعداد ۸۶ ہوگئی، ۱۹۹۱ میں ۱۲۰، ۱۹۹۶ میں ۱۶۱ اور ۱۹۹۹ میں ۱۸۲ ہوگئی ۔ نہ صرف مرکز میں اقتدار حاصل کرلیا بلکہ کئی ریاستوں میں بھی بر سرِ اقتدار آگئی۔

۹۔جہاں تک اسلام کا نام لیے بغیر اور اسلام کی بنیادی تعلیم توحید، رسالت و آخرت ﴿صحیح اور مکمل تصور کے ساتھ﴾ کو خارج کرکے ’’امن و انصاف کا قیام، اچھائیوں کا فروغ اور برائیوں کا ازالہ وغیرہ‘‘پر مشتمل منشور کے ساتھ الیکشن میں حصہ لینے کا تعلق ہے،یہ قدم انبیائی طریقئہ کار سے انحراف ہوگا، نیز حکمت عملی کے لحاظ سے بھی یہ قدم قطعاً غلط او ر نقصان دہ ہوگا۔ اس تجویز کے مؤیدین ذرا ان باتوں پر سنجیدگی کے ساتھ غور فرمائیں:

یہ فعل آ ر۔ ایس۔ ایس کی نقّالی سمجھا جائے گا۔ اس کا فائدہ آر۔ ایس۔ایس کو تو ضرور ملے گا لیکن اسلام کے ہاتھ خالی ہی رہیں گے بلکہ رکاوٹوںمیں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ یہ خام خیالی ہوگی کہ مذکورہ پارٹی کبھی ملّت کی واحد نمائندہ پارٹی ہوسکے گی۔ متعدد ملّی پارٹیاں وجود میں آجائیںگی۔ اگر مذکورہ پارٹی ملت کے ساتھ برادرانہ وطن کی بھی نمائندگی کا عزم لے کر کھڑی ہوتی ہے تو نتیجہ نکلے گا ’‘نہ خداہی ملا نہ وصالِ صنم‘‘ ۔ نتیجۃً برادرانِ وطن میں دعوت کی راہیں مسدود ہوجائیں گی اور ملّت کی اصلاح کی راہیں بھی مسدود ہوتی چلی جائیں گی،مساجد کے دروازے جو کچھ کھلے ہیں وہ بھی بند ہوجائیں گے۔ وسائل بھی محدود سے محدود تر ہوتے چلے جائیں

گے۔

۱۰۔یہ بات بھی بغیر سوچے سمجھے کہی جاتی ہے کہ الیکشن میں حصہ لے کر تحریک اسلامی کو اپنی دعوت پیش کرنے کا بہتر موقع اور ایک بڑا پلیٹ فارم حاصل ہوگا۔ کہنے والے کو یا تو اس بات کا تجربہ ومشاہدہ نہیں ہے کہ عام حالات اور غیر الیکشنی اوقات میں میدان کار نہ تنگ ہوتا ہے نہ سامعین کی کمی ہوتی ہے، نیز یہ کہ الیکشن کا پرشور اور بحرانی زمانہ دعوتِ اسلامی کی ٹھوس، سنجیدہ اور فکرآزما باتوں کو سننے سنانے کے لیے موزوں بالکل نہیں ہوتا، یا وہ ٹھوس اور پرمشقت دعوتی کام کے بجائے کوئی آسان اور شارٹ کٹ راستہ چاہتا ہے۔

۱۱۔بعض حضرات دیگر ممالک کی اسلامی تحریکوں کو بطور نمونہ پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے لیے نمونہ ہ صرف حضور  ﷺہیں اور آپ ﷺکے بعد خلفائے راشدین و صحابہ کرام ؓ ہیں۔ دوسرے یہ کہ ہر ملک کے حالات مختلف ہیں ۔ پھر یہ کہ جن ممالک کی تحریکات کی مثال یا نمونہ پیش کیا جاتا ہے وہ سب مسلم ممالک ہیں جن کی تقریباً ساری آبادی مسلم ہے،اور جہاں کے عوام کا دین اسلام ہے، بھلے ہی فاسق، فاجر و جابر حکمرانوں نے انہیں دبا رکھا ہے۔ مثلاً پاکستان ، بنگلہ دیش ، الجزائر، ملائشیا ، سوڈان، مصر ، ترکی اور فلسطین۔ الجزائر میں تحریک اسلامی اور دیگر اسلام پسندوں کو انتخابات میں اکثریت حاصل ہوئی لیکن حکومت سازی سے انھیں باز رکھا گیا۔ بعض رہنما جلا وطن ہوگئے یا کردئے گئے ، بعض ہزاروں افراد کے ساتھ جیلوں میں ڈالدیے گئے۔ اسلام اور اسلام پسندوں کی حالت خراب کرنے کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ ملائشیا اور سوڈان کی تحریکات سے علیحدگی اختیار کرکے کچھ لوگوں نے ’‘دوسروں‘‘کے ساتھ مل کر الیکشن میں حصہ لیا، حکومت میں شریک ہوئے اور کچھ ہی عرصے بعد آٹے میں بال کی طرح نکال پھینک دئے گئے۔ ترکی میں تحریک اسلامی الیکشن میںکامیابی حاصل کر لینے کے بعد حکومت بنانے میں تو کامیاب ہوگئی لیکن جلد ہی اسے حکومت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ بالآخر ’‘معتدل اسلام‘‘ والی پارٹی ہی الیکشن میں کامیاب ہوکر اپنے بل بوتے پر حکومت بنانے اور قائم رکھنے میں کامیاب ہوسکی۔ آج ملک کی صدارت اور وزارت عظمیٰ دونوں ’‘اعتدال پسند‘‘ پارٹی کے پاس ہے۔ شرعی احکام پر چلنے کی آزادی بحال ہو رہی ہے۔ لیکن اگر کسی کا خیال ہے کہ معاملہ نماز ، روزہ وغیرہ اور ’‘پرسنل لائ ’‘کی آزادی سے آگے بھی بڑھے گا تو بس یہ خیال ہی ہے۔ فلسطین کے ایک چھوٹے سے نیم آزاد علاقہ میں الیکشن میں اکثریت حاصل کرلینے کے بعد حماس کو حکومت تو بنانے دیا گیا،لیکن‘’کھڑے بھی نہ ہونے پائے تھے کہ گرا دیئے گئے‘‘اور آج حماس اور وہاں کے مسلمانوں کی کیا حالت ہے ہمارے سامنے ہے۔ چنانچہ یہ بھی خام خیالی ہوگی اگر کوئی یہ کہے کہ محض الیکشن کی راہ سے اسلام کی بنیاد پر آزاد و خود مختار فلسطین کو وجود میں لانے اور قائم کرنے میں حماس کامیاب ہو جائے گی۔ کیا بیت المقدس کے بغیر اور پورا خطئہ زمین جس پر اسرائیل آباد ہے اس کے بغیر آزادا ور خودمختار فلسطین کا تصور ممکن ہے؟

۲۱۔         بعض افراد یہ جذباتی نعرہ بلند کرتے ہیں: ’‘ملت آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی اگر آپ نے ملت کی موجودہ زبوں حالی کو دور کرنے کے لیے الیکشن میں راست حصہ نہیں لیا‘‘۔ حالانکہ انہیں اللہ معاف کرے گا یا نہیں اس کی فکر دامن گیر ہونی چاہیئے، نیز اس بات کی فکر ہونی چاہیئے کہ تحریکِ اسلامی کی بچی کھچی آئندہ نسل آپ کو معاف نہ کرے جب وارثت میں کچھ نہ پاکر اسے تحریکِ اسلامی کو ازسرنو زندہ کرنے کے لیے غیر معمولی جتن کرنا پڑے ۔

مشمولہ: شمارہ اپریل 2010

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau