آج امت کا بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضے کی ادائی سے غافل ہیں، اور امت کا ایک اور بہت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے کام کو بے محل، بے ضابطہ اور بے سلیقہ کررہے ہیں ۔
سماج کا دینی اوراخلاقی وجود امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے قائم رہتا ہے۔ امر بالمعروف سے سماج کو نیکیوں اورخوبیوں کی غذا حاصل ہوتی ہے۔ نہی عن المنکر سے سماج کی برائیوں اور خرابیوں سے حفاظت ہوتی ہے۔انسانی سماج کے لیے امر بالمعروف نظام تغذیہ (food and nutrition system) کی طرح ہے اور نہی عن المنکر نظام مدافعت (immunity system)کی طرح ہے۔اگر سماج میں یہ دونوں فریضے فعال ہوجائیں اور سماج کے سبھی افراد ان دونوں فریضوں کو تن دہی سے انجام دینے لگیں تو بہت کم وقت میں کسی بھی غلط رواج کو سماج سے نکال باہر کیا جاسکتا ہے اور کسی بھی خوبی کو سماج کا رواج بنایا جاسکتا ہے۔ دور رسالت میں انجام پانے والی عظیم ترین اور تیز ترین سماجی تبدیلی میں ان دونوں فریضوں کی کارفرمائی کا یقینابہت اہم رول تھا۔
امت کا فریضہ
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی امتیازی حیثیت یہ ہے کہ اس فریضے کا تعلق امت سے ہے۔قرآن مجید میں اسے خاص طور سے امت کے فریضے کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔یہ فریضہ فرد سے زیادہ امت کی ضرورت ہے۔ اس فریضے کی ادائیگی پر امت کی بقا کا انحصار ہے۔ یہ فریضہ امت کی تمام خصوصیات اور امتیازات کی حفاظت کا ضامن ہے۔اس فریضے سے غفلت برتنے والا اپنے آپ میں خواہ کتنا ہی نیک پرہیزگار اور عبادت گذار ہو، وہ امت کا ذمہ دار فرد بننے کے شرف سے محروم رہتا ہے۔امت کا فرد ہونے کی حیثیت سے ضروری ہے کہ امت کے اندر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا کام کیا جائے اور اس کام کو امت میں فروغ دیا جائے۔اگر پوری امت اس کام سے غافل ہوگئی ہو تو پھراتنا کافی نہیں ہے کہ کچھ لوگ اٹھ کر یہ کام کرنے لگیں، بلکہ ضروری ہے کہ پوری امت کو دوبارہ اس کام پر آمادہ کیا جائے۔ کیوں کہ حقیقت میں یہ پوری امت کے کرنے کا کام ہے۔امت کا کوئی ایک فرد بھی اگراس کام سے غفلت برتے گا تو وہ اپنے تئیں امت کو کم زور کرنے والا بنے گا۔
خیر امت بنانے والا فریضہ
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اس فریضے کو انجام دینے کی بنا پر ہی اسلامی امت کو خیر امت کہا گیا، كُنتُمۡ خَیۡرَ أُمَّةٍ أُخۡرِجَتۡ لِلنَّاسِ تَأۡمُرُونَ بِٱلۡمَعۡرُوفِ وَتَنۡهَوۡنَ عَنِ ٱلۡمُنكَرِ وَتُؤۡمِنُونَ بِٱللَّهِ۔ (تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے سامنے تیار کیا گیا ہے، معروف کا حکم دیتے ہو، منکر سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔) [سورۃ آل عمران: 110]
حقیقت یہ ہےکہ اس فریضے کی انجام دہی سے کسی امت کے خیر امت ہوجانے کا بہت گہرا اور واضح رشتہ ہے۔ جس امت کے اندر تمام لوگ نیکیوں کو فروغ دینے اور برائیوں کا ازالہ کرنے کے لیے کوشاں رہنے لگیں، اس میں بے شک نیکیوں کا بول بالا ہوگا اور برائیوں کا نام ونشان نہیں رہ جائے گا۔ایسی امت کے خیر امت ہونے میں پھر کیا کسر رہ جائے گی۔ بنی اسرائیل فضلیت یافتہ امت کے مقام سے ذلت کی پستی میں گرے اور لعنتوں کا شکار ہوئے،تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ اس فریضے سے غافل ہوگئے،جس کے نتیجے میں ان کے یہاں برائیوں نے جڑ پکڑ لی، قرآن کا بیان ہے: لُعِنَ الَّذِینَ كَفَرُوا مِن بَنِی إِسْرَائِیلَ عَلَىٰ لِسَانِ دَاوُودَ وَعِیسَى ابْنِ مَرْیمَ ذَٰلِكَ بِمَا عَصَوا وَّكَانُوا یعْتَدُونَ۔ كَانُوا لَا یتَنَاهَوْنَ عَن مُّنكَرٍ فَعَلُوهُ لَبِئْسَ مَا كَانُوا یفْعَلُونَ (بنی اسرائیل میں سے جنھوں نے کفر کیا ان پر داؤد اور عیسی ابن مریم کی زبان سے لعنت ہوئی۔ یہ اس وجہ سے کہ انھوں نے نافرمانی کی اور وہ حد سے آگے بڑھ جایا کرتے تھے۔ جو برائی وہ کرتے اس سے ایک دوسرے کو منع نہیں نہیں کرتے۔ نہایت ہی بری بات تھی جو یہ کرتے تھے۔)[سورۃ المائدة:78, 79]
غلط ادائی کے خراب اثرات
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا یہ فریضہ راست امت سے تعلق رکھتا ہے، اس لیے اس کی ادائی میں غلط روی کے برے اثرات سیدھے امت پر پڑتے ہیں ۔ دیگر فرائض کی انجام دہی میں غلطی کا نقصان فرد یا کچھ افراد پر واقع ہوتا ہے۔ غلط طریقے سے نمازادا کرنے سے خاص اس نمازی کی نماز ادا نہیں ہوتی ہے، غلط جگہ زکات دینے سے زکات کے اصل مستحقین محروم رہ جاتے ہیں، روزے اور حج میں غلطی کرنے کا کفارہ خود اس فرد پر عائد ہوتا ہے۔ تاہم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کی ادائی غلط طریقے سے ہونے لگے تو اس کا خمیازہ پوری امت کو بھگتنا پڑتا ہے۔آگے کی سطور میں کچھ بڑی خرابیوں کی طرف اشارہ کیا جائے گا جو اس فریضے کی غلط انجام دہی کی وجہ سے پوری امت کو لاحق ہوتی ہیں ۔
1 تعلقات میں بگاڑ آجاتا ہے
کسی غلطی پر ٹوک دیے جانے سے آزردہ خاطر ہوجانا عام بات ہے۔ خوش دلی کے ساتھ تنقید سننا اور اس کی روشنی میں اپنی اصلاح کرلینا آسان بات نہیں ہوتی ہے۔ سب کے سامنے ٹوک دیے جانے سے اپنی توہین محسوس ہوتی ہے، ٹوکنے والے کے لہجےمیں سختی ہو تو بات دل میں نشتر بن جاتی ہے، اگر یہ احساس ہوکہ ٹوکنے والے نے معاملے کو نہیں سمجھا اور بدگمانی سے کام لیا تو دل میلا ہوجاتا ہے۔ غرض سامنے والے پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا مثبت اثر ہو، اس کے لیے بڑی احتیاط اور بہت اہتمام کی ضرورت ہوتی ہے۔ علامہ ابن تیمیہ نے ایک بزرگ کا قول نقل کیا ہے: ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام وہی کرے جو اس کی اچھی سمجھ رکھتا ہو کہ کس چیز کا حکم دینا ہے اور کس چیز سے روکنا ہے، جو حکم دینے اور روکنے کے عمل کو نرمی سے انجام دے اورجو حکم دینے اور روکنے کے کام میں بردباری کا دامن تھامے رہے۔‘‘(لا یأمر بالمعروف وینهى عن المنكر إلا من كان فقیها فیما یأمر به، فقیها فیما ینهى عنه، رفیقا فیما یأمر به، رفیقا فیما ینهی عنه، حلیما فیما یأمر به، حلیما فیما ینهی عنه)
یہ تینوں باتیں بہت اہم ہیں، دین کی سمجھ ہوگی تو آدمی غلطی نہیں کرے گا، نرمی ہوگی تو دل نہیں توڑے گا، بردباری ہوگی تو رد عمل پر صبر کرے گا۔اور اس طرح جذبات کی رعایت اور تعلقات کی حفاظت کرتے ہوئے اس عظیم فریضے کو انجام دیا جاسکے گا۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ضروری فریضہ ہے،تعلقات بچانے کی خاطر اس فریضے کو چھوڑ دینا جائز نہیں ہے، تعلقات بچاتے ہوئے اس فریضے کو انجام دینا مطلوب ہے۔
2 اختلافات میں شدت آجاتی ہے
دین کے اصولوں پر اتفاق ہوجانے کی صورت میں امت تشکیل پاتی ہے، اور اس کے بعد امت میں فروعی اختلافات کا ہونا ایک فطری امر ہوتاہے۔ ان اختلافی امور پر علمی گفتگو ہوتی رہے تو امت کے لیے خیرکے پہلو سامنے آتے ہیں اور اختلافات کے اندر سے بھی رہنمائی کا سامان حاصل ہوتا ہے۔ لیکن جب ایسا ہو کہ کسی اختلافی مسئلے میں ہر فریق دوسرے فریق کے موقف کو منکر قرار دے کر اس سے روکنے کی کوشش کرے، نہی عن المنکر کے جذبے سے اس پر نکیر کرے، اپنے ہاتھ اور زبان سے اسے مٹانے کے درپے ہوجائے تو اس اختلاف میں شدت آجاتی ہے۔ اور یہ شدت اپنے آپ میں ایک بڑی برائی ہے۔
مولانا مودودیؒ نے ڈاڑھی کی مثال سے اس اصول کی عملی تشریح کی ہے، مولانا لکھتے ہیں :
’’ڈاڑھی کے معاملے میں جو شخص حکم کا یہ منشا سمجھتا ہو کہ اسے بلا نہایت بڑھنے دیا جائے، وہ اپنی اس رائے پر عمل کرے، اور جو شخص کم سے کم ایک مشت کو حکم کا منشا پورا کرنے کے لیے ضروری سمجھتا ہو وہ اپنی رائے پر عمل کرے، اور جو شخص مطلقا ڈاڑھی رکھنے والے کو (بلا قید مقدار) حکم کا منشا پورا کرنے کے لیے کافی سمجھتا ہو، وہ اپنی رائے پر عمل کرے، ان تینوں گروہوں میں سے کسی کو بھی یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ استنباط واجتہاد سے جو رائے اس نے قائم کی ہے، وہی شریعت ہے اور اسی کی پیروی سب لوگوں پر لازم ہے۔ ایسا کہنا اس چیز کو سنت قرار دینا ہے جس کے سنت ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے، اور یہی وہ بات ہے جس کو میں بدعت کہتا ہوں ۔‘‘(سید مودودیؒ، رسائل ومسائل [تدوین نو] اول ص۴۴۴، ۴۴۳)
امت میں اس وقت بہت چھوٹے چھوٹے اختلافات میں بھی جو سنگین قسم کی شدت پائی جاتی ہے، اس کی وجہ اختلافی مسائل میں نہی عن المنکر کا غلط اور بے جا استعمال ہے۔ اس سلسلے میں علمائے سلف نے بہت اچھا اصول دیا ہے، وہ یہ کہ ایسے اختلافی مسائل جن میں اختلاف کی گنجائش موجود ہے، انھیں منکر نہیں مانا جائے گا اور اس لیے ان پر نکیر نہیں کی جائے گی۔ یہ بہت اہم اصول ہے۔ اس اصول کو برتنے کی صورت میں امت کی توانائیاں فروعی اختلافات کی نذر ہونے کے بجائے حقیقی منکرات کے خلاف متحد ہوسکتی ہیں ۔ ورنہ صالحین اور مصلحین کی جماعتیں آپس کے چھوٹے مسائل میں باہم دست وگریباں رہتی ہیں، اور سماج میں برائیاں بے روک ٹوک پھیلتی رہتی ہیں ۔
اگر کسی اختلافی مسئلے میں کوئی یہ سمجھتا ہے کہ سب کو ایک رائے پر جمع کرنے میں اجتماعیت کا فائدہ ہے، تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ بہت نرمی کے ساتھ اپنی بات رکھی جائے۔امام نووی کہتے ہیں : ’’جس معاملے میں اختلاف ہے اس میں نکیر نہیں کی جائے گی، البتہ اگر وہ از راہ خیر خواہی اسے اختلاف سے باہر نکلنے کی دعوت دیتا ہے، تو یہ اچھی اور پسندیدہ بات ہے، اور اسے نرمی کے ساتھ انجام دینا چاہیے۔‘‘(إن المختلف فیه لا إنكار فیه لكن إن ندبه على جهة النصیحة إلى الخروج من الخلاف فهو حسن محبوب مندوب إلى فعله برفق.)
3 اجتہاد کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے
امت کی فکری زندگی اجتہاد پر منحصر ہوتی ہے۔ اجتہاد نہیں ہو تو امت فکری جمود کا شکار ہوجاتی ہے، اور پھر وہ نئے زمانے کے چیلنجوں کا سامنا نہیں کرپاتی ہے۔اگر اجتہاد کرنے والوں کو امت کے عوام وخواص کی طرف سے یہ اندیشہ رہے کہ ان کی اجتہادی رائے کو نہ صرف یہ کہ قبول نہیں کیا جائے گا، بلکہ اسے منکر قرار دے کر ان کے اوپر نہی عن المنکر کا فائر کھول دیا جائے گا،تو امت کے مجتہد علماء بھی اپنی اجتہادی رائے پیش کرتے ہوئے گھبرانے لگیں گے۔ اجتہاد کا عمل کشادہ فضا اور حوصلہ افزا ماحول کا تقاضا کرتا ہے۔ اسی لیے امت کے علماء سلف نے یہ شان داراصول دیا ہے کہ اجتہادی مسائل کو جن میں اجتہاد کی گنجائش موجود ہے، منکر قرار دے کر ان پر نکیر نہیں کی جائے گی۔اللہ کے رسول ﷺ نے اجتہاد کرنے والے کے غلط اجتہاد پر بھی اجر و ثواب کی بشارت دی ہے۔ امام غزالی کہتے ہیں’’ہر وہ معاملہ جس میں اجتہاد کی بنا پر رائے تشکیل پاتی ہے اس میں نکیر نہیں کی جائے گی۔‘‘(فكل ما هو محل اجتهاد فلا حسبة فیه)
مولانا مودودیؒ نے اس اصول پر زور دیتے ہوئے بتایا کہ اس اصول سے لاپروائی کرتے ہوئے،نہی عن المنکر کے بے محل استعمال نے کتنا نقصان پہنچایا۔ مولانا لکھتے ہیں :
میں یہ تصریح کردینا چاہتا ہوں کہ میں اصولاً اس بات کا قائل ہوں، اور اس اصول پر مجھے شدت کے ساتھ اصرار ہے کہ آدمی صرف حکم منصوص کی خلاف ورزی سے ہی گناہ گار قرار پاسکتا ہے۔ قیاس واستنباط سے نکالے ہوئے احکام کی خلاف ورزی کسی کو گناہ گار نہیں بناتی، بجز اس شخص کے جو اس قیاس واستنباط کا قائل ہو۔ اسی طرح مجھے اس بات پر بھی اصرار ہے کہ حرام صرف وہ ہے جسے خدا اور رسول ﷺ نے بالفاظ صریح حرام کہا ہو، یا جس سے صاف الفاظ میں منع کیا ہو، یا جس میں مبتلا ہونے والے کو سزا کی وعید سنائی ہو، یا نصوص کے اشارات واقتضاءات سے جن کی حرمت مستنبط ہونے پر اجماع ہو۔ رہیں وہ چیزیں جو قیاس واجتہاد سے حرام ٹھیرائی گئی ہوں اور جن میں دلائل شرعیہ کی بنا پر دو یا دو سے زیادہ اقوال کی گنجائش ہو، تو وہ مطلقا حرام نہیں ہیں، بلکہ صرف اس شخص کے لیے حرام ہیں جو اس قیاس واجتہاد کو تسلیم کرے۔ میرے نزدیک اس حقیقت سےاغماض برتنا ان اہم اسباب میں سے ایک ہے جن کی بنا پر امت کے مختلف گروہوں نے ایک دوسرے کی تضلیل وتفسیق کی ہے۔(سید مودودیؒ، رسائل ومسائل [تدوین نو] اول ص۴۱۴)
4 تنوع کا حسن مجروح ہوتا ہے
دین وشریعت میں بہت زیادہ تنوع رکھا گیا ہے۔ تنوع اسلامی شریعت کا حسن ہے۔ تنوع کی صورت میں ایک کام انجام دینے کے ایک سے زیادہ صحیح طریقے ہوتے ہیں ۔ان سب طریقوں کو صحیح سمجھنے اور انھیں کشادہ جگہ دینے سے شریعت کے حسن کا یہ پہلو برقرار رہتا ہے۔ لیکن اگر ایک صحیح طریقے کو اختیار کرنے والا دوسرے صحیح طریقوں پر سخت نکیر شروع کردے، گویا کہ وہ منکر ہوں تو اختلاف تنوع جو امت کے اتفاق کا ایک خوب صورت مظہر ہے اختلاف تضاد میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ اختلاف تنوع کے مسائل کو جب غلط طور سے نہی عن المنکر کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو وہاں بھی شدید اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں جہاں نرم اختلافات کی بھی کوئی وجہ نہیں ہوتی ہے۔ اسی لیے علماءسلف نے یہ اصول دیا کہ تنوع کے مسائل میں ایک دوسرے پر نکیر نہیں کی جائے گی۔
5 کشادگی تنگی میں بدل جاتی ہے
دین میں بہت زیادہ آسانی اور کشادگی رکھی گئی ہے۔ اس آسانی اور کشادگی کی حفاظت کرنا ضروری ہے۔تاکہ دین کے حسن کا یہ پرکشش پہلو پوری آب وتاب کے ساتھ برقرار رہے۔نادانی اور شدت پسندی کے نتیجے میں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی دین کو مشکل اور تنگ سمجھ لیتا ہے۔وہ آسانی اور کشادگی سے فائدہ اٹھانے والوں کے ساتھ نہی عن المنکر والا معاملہ کرتا ہے۔یہ رویہ جب زیادہ عام ہوتا ہے تو لوگ دین میں موجود آسانی اور کشادگی سے بہرہ مند ہونے سے محروم ہوجاتے ہیں ۔ اور جو اس آسانی اور کشادگی سے فائدہ اٹھانا چاہے وہ تنقید وتشنیع کا نشانہ بن جاتا ہے۔ حالاں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے صاف ہدایت کی ہے یسروا والا تعسروا، آسانی کا راستہ دکھاؤ دشواری کا راستہ نہ دکھاؤ۔ صحابہ کرام ؓ کی سیرت کا وہ پہلو ہمارے سامنے ہمیشہ رہنا چاہیے، جسےحضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ سفر پر ہوتے کچھ روزہ رکھتے اور کچھ روزہ نہیں رکھتے، روزہ رکھنے والے روزہ نہیں رکھنے والوں پر نکتہ چینی نہیں کرتے اور روزہ نہیں رکھنے والے روزہ رکھنے والوں پر نکتہ چینی نہیں کرتے۔
6 دینی احکام کی درجہ بندی متاثر ہوجاتی ہے
شریعت کے احکام کے مختلف درجات ہیں، کچھ فرض اور واجب ہیں، کچھ مسنون ہیں، کچھ مستحب ہیں تو کچھ مباح ہیں ۔ اسی طرح ممنوعات میں کچھ حرام ہیں تو کچھ مکروہ ہیں ۔ان مراتب کا لحاظ ضروری ہے۔امر بالمعروف کے تحت ان باتوں پر زور دیا جائے جن کی حیثیت فرض اور واجب کی ہے۔ نہی عن المنکر کے تحت ان باتوں پر زور دیا جائے جو حرام ہیں ۔ جن چیزوں کی حیثیت کے اندر نرم گوشہ پایا جاتا ہے، ان کے تعلق سے ہمارا رویہ بھی قدرے نرم ہونا چاہیے۔ اس فرق کا لحاظ کرنا اس لیے ضروری ہے کہ ہماری توانائیاں ان نیکیوں کے فروغ میں اور ان برائیوں کے ازالے میں خاص طور سے صرف ہوں جن کا فروغ یا ازالہ دین میں تاکیدکے ساتھ مطلوب ہے۔ اور ایسا نہیں ہو کہ مستحب کے فروغ میں یامکروہ کے ازالے میں ہم اتنی شدت دکھائیں کہ شریعت کے مقاصد ہی فوت ہوجائیں ۔ علامہ ابن عابدین نے نماز کے آداب بتاتے ہوئے لکھا ہے : ’’نماز کے کچھ آداب ہوتے ہیں، ان کو چھوڑنے والے کو برا بھلا نہیں کہا جائے گا، لیکن ان کا کرنا افضل ہے۔ ‘‘ (ولها آداب) تركه لا یوجب إساءة ولا عتابا ۔۔۔ لكن فعله أفضل. ان آداب میں انھوں نے یہ بھی بتایا کہ اقامت کے دوران حی علی الصلاۃ کہنے پر اٹھا جائے۔ معلوم ہوا کہ یہ مسئلہ آداب سے تعلق رکھتا ہے، جس کے چھوڑنے والے کو ملامت نہیں کی جائے گی۔ لیکن عملی صورت حال یہ ہے کہ اس معاملے میں بعض لوگ بہت سختی برتتے ہیں گویا کہ یہ منکر ہو جس کو بدلنا لازم ہو۔
امر بالمعروف آسان اور نہی عن المنکر مشکل اور احتیاط طلب کام ہے
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک ہی فریضے کی دو شقیں ہیں ۔ امر بالمعروف کا کام نہی عن المنکر کے مقابلے میں آسان ہے، اور اس راستے میں دشواریوں کا سامنا عام طور سے نہیں کرنا پڑتا ہے۔ جو لوگ برائیوں میں ملوث اور ان کے عادی ہوتے ہیں وہ بھی خوش دلی کے ساتھ نیکیوں کا درس سن لیتے ہیں، بلکہ بسا اوقات نیکیوں کے درس کی مجلس خود بڑھ کر آراستہ کرتے ہیں ۔ جب کہ نہی عن المنکر کا کام مشکل ہوتا ہے، اس راہ میں قدم قدم پر دشواریوں مخالفتوں اور آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، نیز اس کام میں ذرا سی غلطی خراب نتائج سے دوچار کرسکتی ہے۔
آپ صرف توحید کی دعوت دیں گے تو ہوسکتا ہے شدید ردعمل سامنے نہیں آئے، لیکن اگر آپ نے شرک کے خلاف آواز اٹھائی تو شدید ردعمل کا سامنے آنا یقینی ہے۔ حلال کمائی کی تبلیغ میں کوئی رکاوٹ سامنے نہیں آئے گی، لیکن حرام کمائی سے روکنے چلیں گے تو بہت سے لوگ آپ کو روکنے چلے آئیں گے۔ شادی کی تقریب میں کچھ اچھے کاموں کا اضافہ آپ آسانی سے کرسکتے ہیں لیکن اس تقریب سے کچھ غلط رسوم ورواج کو نکالنا آسان نہیں ہوتا ہے۔
اسی لیے دیکھا جاتا ہے کہ بعض اصلاحی جماعتیں صرف امر بالمعروف پر اکتفا کرتی ہیں، نہی عن المنکر کا بیڑا نہیں اٹھاتی ہیں ۔ بعض مسلم حکومتیں بھی دین کی خدمت کے حوالے سے امر بالمعروف کے کام کی حوصلہ افزائی تو کرتی ہیں مگر نہی عن المنکر کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں ۔ امر بالمعروف بہت اہم کام ہے۔ قرآن میں ہر جگہ اسے نہی عن المنکر سے پہلے ذکر کیا گیا ہے تاہم نہی عن المنکر کے بغیر وہ ادھورا اور نامکمل رہتا ہے۔
دوسری طرف یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ کچھ جوشیلے لوگ نہی عن المنکر کے جذبے سے اٹھتے ہیں تو غلط سمت میں چل پڑتے ہیں یا غلط طریقہ اختیار کرتے ہیں ۔ جس سے الٹا نقصان ہوتا ہے اور کبھی تو جس منکر کو مٹانے اٹھے تھے اس سے بڑا منکر وجود میں آجاتا ہے۔
فقہی اور اصلاحی لٹریچر کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ علماء ومصلحین نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ وہ امر بالمعروف کے ضابطے بنائیں، تاہم انھوں نے نہی عن المنکر کے لیے ضابطے بنائے، کیوں کہ امر بالمعروف کے کام میں کسی بڑی غلطی کا اندیشہ نہیں رہتا ہے، لیکن نہی عن المنکر کے کام میں بہت سی بڑی غلطیوں کا اندیشہ رہتا ہے، اور ان غلطیوں کے نتیجے میں بڑے مفاسد اور نقصانات رونما ہوسکتے ہیں ۔
کہیں حکم وانکار اور کہیں تعلیم و ارشاد چاہیے
انکار کا مطلب ہے ٹوکنا اورنکیر کرنا، جب کہ ارشاد کا مطلب ہےرہنمائی کرنا اور مشورہ دینا۔ علامہ عز بن عبدالسلام اس سلسلے میں ایک اہم اصول سمجھاتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کسی کام کے حرام یا حلال ہونے میں اختلاف ہو، اور کوئی شخص اسے حرام مانتے ہوئے اسےکرتا ہو تو اس پر نکیر کی جائے گی، لیکن اگر حلال مانتے ہوئے اسےکرتا ہو اور اس کی دلیل قابل لحاظ ہو تو اس پر نکیر کرنا جائز نہیں ہے، البتہ اگر کوئی شخص نہ حرام سمجھتا ہو نہ ہی حلال سمجھتا ہو پھر بھی اسے کرتا ہو تو اس پر نکیر تو نہیں کی جائے گی البتہ اسے مشورہ دیا جائے گا کہ وہ ایسا نہیں کرے، اس مشورے میں پھٹکار یا نکیر شامل نہیں رہے گی۔ (أرشد إلى اجتنابه من غیر توبیخ ولا إنكار)۔
انکار اور ارشاد کے درمیان فرق برتنے سے ایک صحت بخش ماحول کی تشکیل ہوسکتی ہے۔ ارشاد کی صورت میں آپ اپنے مخاطب سے یہ نہیں کہتے ہیں کہ تم ایسا نہ کرو،تم بالکل غلط کررہے ہو، بلکہ آپ کہتے ہیں میرے لحاظ سے یہ رائے زیادہ مناسب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے اختلافی اور اجتہادی امور نیز فروعی معاملات میں نکیر کرنے کے الٹا نقصانات سامنے آتے ہیں، جب کہ ارشاد کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے آدمی اپنا موقف بھی بیان کردیتا ہے اور متوقع نقصانات سے بھی محفوظ رہتا ہے۔
مولانا مودودیؒ نے بھی حکم دینے اور تعلیم دینے کے درمیان فرق کیا ہے، وہ لکھتے ہیں :
یہ بات خوب ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ حدود حلال وحرام اور چیز ہیں، اور وہ مذاق اور چیز ہے جو اسلامی ذہنیت کی نشوونما سے ابھرتا ہے۔ان دونوں چیزوں کو خلط ملط نہیں کیا جاسکتا۔ ہم ایک اسلامی نظا م میں جس چیز کو ضابطے کے طور پر حکما نافذ کرسکتے ہیں، وہ صرف حدود حلال وحرام ہیں ۔ رہا وہ مذاق جو اسلامی ذہنیت کے ارتقا سے ہم میں پیدا ہوتا ہے، تو اول تو ضروری نہیں ہے کہ وہ تمام اہل ایمان میں متفق علیہ ہو۔ دوسرےاگر وہ متفق علیہ بھی ہوتب بھی ہمیں اس کو شریعت قرار دینے کا حق نہیں ہے۔ شریعت تو صرف ان احکام کا نام ہے جو کتاب وسنت میں منصوص ہوں ۔ منصوصات سے ماورا جو اجتہادی یا ذوقی امور ہوں، ان کو رائج کرنے کے لیے استدلال، تعلیم، تربیت وغیرہ کے ذرائع استعمال کیے جاسکتے ہیں مگر ان کا حکم نہیں دیا جاسکتا۔(سید مودودیؒ، رسائل ومسائل [تدوین نو] اول ص۴۱۶)
نشانہ انسان کو نہیں اس کی برائی کو بنائیں
نہی عن المنکر کی خوبی یہ ہے کہ اس کا نشانہ برائی ہوتی ہے، جب کہ تکفیر (کافر قرار دینا) تفسیق (فاسق قرار دینا) تبدیع (بدعتی قرار دینا) تضلیل (گم راہ قرار دینا) جیسی باتوں کی خرابی یہ ہے کہ ان کا نشانہ فرد کی ذات ہوجاتی ہے، اور اس سے بڑی خرابی یہ ہے کہ ان کے نتیجے میں سخت قسم کی فرقہ بندی وجود میں آتی ہے۔
صحیح طریقہ یہ ہے کہ کفر کے انجام سے خود ڈریں اور دوسروں کو ڈرائیں، اسی طرح فسق، ضلالت اور بدعت وغیرہ جیسی بڑی برائیوں کے برے انجام سے بھی خود ڈریں اور دوسروں کو ڈرائیں ۔
افراد اور گروہوں پر اس طرح کے لیبل چسپاں کرنے سے جنگ کا میدان تبدیل ہوجاتا ہے، جنگ برائیوں کے بجائے انسانوں سے شروع ہوجاتی ہے، اور انسانوں کے ساتھ جنگ خود بڑی برائی ہے۔
اہل اسلام میں سے کسی کو کافر کہنا تو غلط ہے ہی لیکن اہل اسلام کے علاوہ جو لوگ کفر میں ملوث ہیں انھیں بھی کافر کہنا خلافِ حکمت ہے۔ کافر کہنے سے داعی اور مدعو کا رشتہ ختم ہوجاتا ہے اور ہم دردی و خیر خواہی کی بجائے براءت و بیزاری کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ دعوت کے سفر میں براءت کا مرحلہ اگر آتا ہے تو بہت بعد میں آتا ہے۔
ملت کی موجودہ تکلیف دہ صورت حال یہ ہے کہ ملت کے تمام افراد اس پر متفق ہیں کہ بدعت، فسق اور گمراہی سے بچنا لازم ہے، لیکن ان کی کوششیں بدعت، فسق اور گمراہی کے خلاف لگنے کے بجائے امت کے اندر فرقہ بندی کو مضبوط کرنے میں لگ رہی ہیں ۔ اس طرح کے لیبل کے ساتھ پروان چڑھنے والی فرقہ بندی اتنی بڑی برائی ہے کہ اس کے ہوتے بدعت، فسق اور گمراہی کے خلاف مہم چھیڑنا بہت دشوار ہوجاتا ہے۔
نیک جذبہ غلط رویے کی اجازت نہیں دیتا ہے
بعض اوقات کسی شرعی مسئلے میں اہل علم کے درمیان دو رائیں ہوجاتی ہیں ۔ ایسے میں ہر رائے کو اس کی دلیل کی روشنی میں دیکھا جائے اور دلائل کی بنا پر کسی رائے کو راجح یا مرجوح مانا جائے، یہی صحیح طریقہ ہے۔لیکن کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آدمی اپنی رائے کو دینی غیرت کا تقاضا بتاتا ہے اور دوسرے کی رائے کو دینی غیرت کے منافی بتاتا ہے۔وہ دین کے سلسلے میں اپنے آپ کو غیور اور دوسرے کو بے غیرت مانتے ہوئے بات کرتا ہے۔ یہ بیمار رویہ علمی ماحول کو بالکل راس نہیں آتا ہے۔علمی اختلاف پر نظر اس حسن ظن کے ساتھ ڈالنا چاہیے کہ دین کے لیے غیرت و حمیت تمام اہل علم کے اندر ہے، البتہ علمی نقطہ نظر میں اختلاف ہوا ہے، جس میں فیصلہ کرنے کے لیے دل کے اندر جھانک کردیکھا نہیں جاتا ہے بلکہ دلائل کی جانچ اور پرکھ کرنا مطلوب ہوتاہے۔علمی مجالس میں اسے معیوب سمجھا جاتا ہے کہ آدمی دلیلوں کا محاکمہ کرنے کے بجائے دلوں کا محاکمہ کرنا شروع کردے۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہ غلط رویہ نہی عن المنکر کے جذبے سے سرشار ہوکراختیار کیا جاتا ہے۔
یوروپین کونسل فار افتا اینڈ ریسرچ ممتاز علماء کی ایک کونسل ہے جو مغرب میں مسلمانوں کو درپیش مسائل پر غور و خوض کرتی ہے۔ ایک مرتبہ اس کی کانفرنس میں یہ مسئلہ زیر بحث تھا کہ اگر کوئی لڑکی اسلام قبول کرلیتی ہے اور اس کا شوہر اسلام قبول نہیں کرتا ہے تو کیا دونوں کا نکاح ختم کرنا ضروری ہے یا دونوں رشتہ زوجیت میں ساتھ رہ سکتے ہیں ۔ کونسل کے جلیل القدر علماء اس مسئلے پر دلائل کے ساتھ تبادلہ خیال کررہے تھے، اور ان کے درمیان رائے کا اختلاف تھا، اتنے میں ایک صاحب جوش میں اٹھے اور انھوں نے مخالف رائے رکھنے والوں پر دینی بے غیرتی کا الزام رکھا اور کہا کہ یہ کسی طرح جائز نہیں ہوسکتا کہ لڑکی مسلمان ہوجانے کے بعد غیر مسلم شوہر کے ساتھ رہے، یہ دینی غیرت کا تقاضا ہے۔ خیر سے انھیں سمجھایا گیا کہ یہاں موجود سبھی لوگ دینی غیرت رکھتے ہیں، یہ ایک علمی اور فقہی مسئلہ ہے اور اس پر علمی اور فقہی دلائل کی روشنی میں گفتگو اور فیصلہ ہونا چاہیے۔
یہ ایک مثال ہے، مسلمانوں میں یہ بے اعتدالی بہت عام ہے کہ وہ مختلف سنجیدہ علمی موقف کو بھی منکر قرار دیتے ہیں، اور اس کی تائید کرنے والے کی دینی غیرت پر نشانہ سادھ لیتے ہیں ۔
حالیہ دنوں میں بعض علماء اسلام نے اپنی تحقیق واجتہادکے مطابق مسلمانوں کی رہنمائی کے لیے فتوے دیے، بعض کا تعلق کورونا کی وبا کے دوران دینی تقاضوں کی انجام دہی سے تھا، اور بعض کا تعلق کورونا سے حفاظت اور اس کی ویکسین لینے سے تھا، اس پر کچھ لوگوں نے علمی طریقے کے بجائے جذباتی رویہ اختیار کیا اور ان کی رائے سے اختلاف کرنے پر بس نہیں کیا بلکہ ان کے جذبہ دینداری پر بھی فقرے کسے اور دین سے ان کی وفاداری کو مشکوک ٹھہرایا۔ کسی بھی علمی مجلس میں اس رویے کو درست اور صحت مند نہیں سمجھا جاتا ہے۔
یہ نرمی کا راستہ ہے شدت پسندی کا نہیں
علامہ ابن تیمیہؒ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اس فریضے کے سلسلے میں ایک زبردست اصول کی طرف اشارہ کیا، اور وہ یہ کہ ’’امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا راستہ نرمی کا راستہ ہے، اسی لیے کہا گیا: تمھارا بھلائی کی دعوت دینا بھلے طریقے سے ہو، اور تمھارا برائی سے روکنا خود ایک برائی نہ بن جائے۔‘‘(والرفق سبیل الأمر بالمعروف والنهی عن المنكر ولهذا قیل: لیكن أمرك بالمعروف بمعروف ونهیك عن المنكر غیر منكر۔)
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ منکرات سے روکتے ہوئے انسان شدت پسند اور سخت گیر ہوجاتا ہے۔ اس کے الفاظ دل کو زخمی کرنے والے اور لہجہ زخموں پر نمک چھڑکنے والا ہوجاتا ہے۔ وہ یہ طے کرلیتا ہے کہ یا تو برائی کرنے والا برائی سے باز آجائے ورنہ اپنی خیر منائے۔ کبھی نوبت مارپیٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ امت میں شدت پسندی کی ایک بڑی وجہ نہی عن المنکر کے کام کو نرمی کے بجائے سختی سے کرنا ہے۔
اس فرض کو بھی خوب صورتی سےادا کریں
آخری بات یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک دینی فریضہ ہے، اور دین سراپا حسن ہے۔ دین کا ہر فریضہ اس طرح انجام دینا ہے کہ اس کا حسن وجمال نمایا ں ہوکر سامنے آئے۔ خاندان میں اکا دکا ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کی بات بے بات پر روک ٹوک کی وجہ سے لوگ انھیں پسند نہیں کرتے، مسجد میں ایک دو حضرات لوگوں کو سختی سے جھڑکنے اور مسجد کی فضا مکدر کرنے کے لیے پہچانے جاتے ہیں ۔ کچھ لوگوں کا اسٹیریو ٹائپ عیب جوئی اور نکتہ چینی کرنا ہوجاتا ہے۔یہ درست رویہ نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ آپ خوب صورت انداز سے نصیحت کرنے اور بات سمجھانے کے لیے جانے جائیں، اور آپ کی نصیحتوں کی وجہ سے لوگ آپ سے محبت کرنے لگیں ۔
غرض یہ کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کی ادائی اس امت کی حقیقی بقا کے لیے بہت ضروری ہے، تاہم اس فریضے کو غلطیوں سے بچانا بھی امت کی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔
مشمولہ: شمارہ مارچ 2021