علامہ اقبال جمہوریت کوسرمایہ داروں کے ذہن کی پیداوار خیال کرتے ہیں تاکہ وہ اس کی آڑ میں اپنی تجارت کوکسی رکاوٹ کے بغیر فروغ دیں، اورزیادہ سے زیادہ دولت جمع کرکے خوب عیش ومستی کر یں ۔
اقبال جمہوریت کوملوکیت کی تبدیل شدہ صورت خیال کرتےہیں کیونکہ اس کا ظاہر حسین وجاذب نظر ہے لیکن اس کا باطن تاریک اوربڑا ہی خوفناک ہے ؎
خیر ہے سلطانی جمہور کا غوغا کہ شر؟ – توجہان کے تازہ فتنوں سے نہیں ہے با خبر
ہوں، مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے – جوملوکیت کا ایک پرتوہوکیا اس سے خطر
ہم نے خودشاہی کوپہنایا ہے جمہوری لبا س – جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس وخود نگر
کاروبار شہر یاری کی حقیقت اور ہے – یہ وجود میروسلطاں پر نہیں ہے منحصر
مجلس ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو – ہے وہ سلطاں غیر کی کھیتی پہ ہوجس کی نظر
تونے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظا م – چہرہ روشن ، اندرون چنگیز سے تاریک تر
(ابلیس کی مجلس شوریٰ)
اقبال کے نزدیک جمہوریت نادانوں کی حکومت ہے جہاں جاہل اورعالم انتخاب حکومت میں برابر کی حیثیت رکھتے ہیں؎
جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں – بندوں کوگنا کرتے ہیں، تو لا نہیں کر تے
جمہوریت میں مذہب ایک انفرادی معاملہ ہے ، ریاست کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ، جبکہ ریاست اور مذہب میں جدائی ممکن نہیں، کیونکہ مذہب کی روسے خدا ہی حاکم اعلیٰ ہے اورسارے بندوں کو اسی کے قانون کی اطاعت کرنی ہے ، جبکہ جمہوریت میں اس کے بالکل برعکس ہے ، ا س میں عوام ہی حاکم اورقانون ساز ہوتے ہیں، علامہ اقبال نے ہر اس سیاسی نظام کومسترد کردیا جہاں مذہب کوقیادت کا مقام حاصل نہیں ہے ؎
جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو – جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
نظم اور نثر دونوں میں علامہ اقبال نے جمہوریت کے نقص کو اجاگر کیا ہے ایک جگہ آپ فرماتے ہیں کہ اگر کوئی یہ خیال کرے کہ جمہوریت مکمل سیاسی سکون کی ضامن ہے تووہ دنیا کی تاریخ سےبالکل نابلد ہے ، حقیقت اس کے بالکل بر عکس ہے ، یہاں ایسی تمام خواہشات اورشکایات کوپھر سے ابھرنے کا موقع ملتا ہے جنہیں شخصی حکومت کے دورمیں دبایا پورانہ کیا گیا ہو، یہ ایسی آرزؤں اورتمناؤں کی موجدہوتی ہے جوبسا اوقات ناقابل عمل ہوتی ہے ۔
در اصل جمہوریت اسلام کے بالکل برخلاف تصور حکومت ہے ، جوفرق روشنی اورتاریکی میں ہے ، رات اوردن میں ہے ، نیکی اور بدی میں ہے ، جھوٹ اورسچائی میں ہے وہی فرق جمہوریت اوراسلام میں ہے ، یہاں عوام کی حکومت، عوام کیلئے ، عوام کے ذریعے سے عوام کی، بہبود کیلئے اوراسلام کے شورائی نظام میں اللہ کی حاکمیت، اللہ کی حکومت، اللہ کے قانون کے ذریعے سے ، اللہ کے ماننے والوں کے لئے۔
جمہوریت کی نمائش کی گئی ہے ،واقعہ یہ ہے کہ اہلِ مغرب نے ایک نظام چلا کر ساری دنیا کومبہوت کردیا ، لیکن حالت کیا ہے آپ یقین کریں کہ بڑے بڑے دولت مندوں کی بڑی بڑی لابی ہوتی ہیں اوران کے پاس تشہیر واشاعت کے ذرائع ہوتے ہیں جب جس طرح چاہیں فحاشی وعریانیت کوپھیلانا ہے پھیلا دیتے ہیں اوروہ اس میں بڑے ماہر ہوتے ہیں۔
اسلام کا اپنا ایک سیاسی نظام ہے ، جوسب سے جدا گانہ ہے اس کی اساس ایک نظام پر ہے جس کی شکل ایمانی ہے بنیاد علم وتقویٰ ہےاوراہلِ استنباط اورشورائیت ہے ، خلیفہ کیلئے جس شخص کا انتخاب ہوگا وہ تمام امور میں اس بات کا پابند ہوگا کہ اہل استنباط سے مشور ہ کرے اوراہل استنباط قوم کے بااعتماد لوگ ہوں گے جوکتاب وسنت کی روشنی میں فیصلہ کریں گے ۔حکمراں کوعادل ہونا چاہئے،وہ شریعت کا پابند ہو ، اللہ کے قانون اور شریعت کوجاری کرنے والا ہو اور شوریٰ کا پابند ہو اور شوریٰ کیلئے ضروری ہے کہ وہ لوگ اللہ کے قانون کے تابع ہوں اور اجتہاد پر مبنی ہو ، اجتہاد کے لئےضروری ہے کہ اہل علم، اہل استنباط اوراہل الرائے اس کے ممبر ہوں ۔
در حقیقت سارے ازم میں اسلام کا اپنا ایک منفرد سیاسی نظام ہے جوجمہوریت سے بالاتر ہے اورجو مشاور ت کے اصول پر مبنی ہے اوریہ شورائی نظام تمام مادی نظامات سے بالکل جدا ہے ، یہ ایک خدا پرستانہ نظام ہے جس میں حاکمیت الٖہ کا تصور مرکزی حیثیت رکھتا ہے اوراس میں مادہ اور روح دونوں کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے ، بصورت دیگر ریاست کے امور وعقل اوروحی دونوں کی رہنمائی میں انجام دیے جاتے ہیں جبکہ جمہوریت کے سیاسی فلسفہ میں روحانیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا وہ ایک غیر روحانی سیاسی نظام ہے جس میں عوام ہی حاکم اورقانون ساز ہوتے ہیں۔
اسلام کے سیاسی نظام میں حاکمیت الٰہ کا تصور بنیادی حیثیت کا حامل ہے اس میں کسی انسان کو خواص ہویا عوام یہ حق حاصل نہیں کہ وہ حاکم بن کر دوسرے انسانوں پر حکومت کرے ، حکومت کرنے کا حق صرف رب ذو الجلال کو حاصل ہے جوخالق ومالک اور پروردگار ہے، وہی اصلی حاکم ہے اوربقیہ سارے انسان اس کے بندے اورتابع فرمان ہیں ۔ جن لوگوں کے ہاتھوں میں سیاسی نظام کی باگ ڈور ہوئی ہے ان کی حیثیت نگراں اورمنتظم کی ہے ان کافرض منصبی یہ ہے کہ وہ خود حاکم کائنات کی مرضی کے مطابق چلیں اور لوگوں کوبھی چلائیں اورعدل وانصاف قائم رکھیں اوردیانت وامانت کے ساتھ اس کا حق ادا کریں کیونکہ حکومت ایک امانت ہے اوروہ اس کے امین ہیں۔ اسلامی نظام حکومت میں انفرادی آزادی کوبھی بہت اہمیت دی گئی ہے لیکن مطلق آزادی نہیں کیونکہ وہ فکری اور عملی انار کی ہے جس سے معاشرہ فساد کا آماجگاہ بن جائے، آج جمہوری ملکوںمیں اس بے قید آزادی کے خطرناک نتائج اور اندوہناک مظاہرہ پیش آتے رہتے ہیں۔اسلامی نظام میں مسلم وغیر مسلم ہر شخص کومذہب وعقیدہ ، تنظیم واجتماع اور کسب معاش کی پوری آزادی اوریکساں مواقع حاصل ہیں ، متانت اورتہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے اظہار خیال اوراختلاف رائے کا حق بھی سب کوحاصل ہے اس میں آقا اورغلام ، مالک اور نوکر اورمر دو عورت کی کوئی تفریق نہیں ہے ۔
علامہ شبلی نعمانی نے اپنی تصنیف الفاروق میں ایک واقعہ کا ذکر کیا ہے کہ ایک عورت کوجب اس کے شوہر نے مارا تو اس نےکھلے عام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر اپنے شوہر کی شکایت کی (سورہ مجادلہ) ایک بار کسی بات پر حضرت عمرؓ کی اہلیہ نے ان کوپلٹ کر جواب دیا تو انہوں نے کہا : اب تمہارا یہ رتبہ ہوگیا ، وہ بولیں تمہاری بیٹی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دو بدوا یسی باتیں کرتی ہے ۔یہ اظہار رائے کی آزادی ہی تھی کہ ایک مرتبہ فاروق اعظم خلیفۂ دوم نے منبر پر کھڑے ہوکر کہا’’ سنو اور مانو‘‘ تو ایک شخص نے بے باکی کے ساتھ کہا، نہیں، پہلے آپ یہ بتائیے کہ آپ نے جولباس زیب تن کیا ہے وہ کیسے بنا؟ جب امیر المؤمنین کے عبداللہ بن عمر نے ان کی طرف سے تسلی بخش جواب دے دیا تو اس شخص نے کہا، ہاں اب کہو، ہم سنیں گے اورمانیں گے ۔
عہد اسلامی میں ہر شخص کوتہذیب وشائستگی کے دائرے میں رہتے ہوئے یہ حق حاصل تھا، ایک مرتبہ امیرالمؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ تقریر کررہے تھے کہ ایک شخص کھڑا ہوگیا اوربولا’’ اے عمر خدا سے ڈرو‘‘ حاضرین مجلس کو یہ بات گراں گزری اورایک شخص نے اس کو خامو ش کرانےکی کوشش کی توخلیفہ نے کہا ، اس کو کہنے دو ، اگر یہ لوگ نہ کہیں تو ان کا کیا فائدہ اور ہم ان کی نہ مانیں تو ہماری کیا ضرورت ۔ (کتاب الخراج ، قاضی ابویوسف۔ سیرت العمرین )جمہوریت میں سب لوگ امیر ،غریب گورا ، کالا اورمذہب، جنس اور رنگ ونسل کے اعتبار سے برابر ہیں ، کوئی امتیاز نہیں، ہر شخص اپنی قابلیت اورسعی وجہد سے حکومت کے اعلیٰ سے اعلیٰ منصب پر فائز ہوسکتا ہے، لیکن مساوات کے یہ سارے دعوے کھوکھلے اورمحض کاغذ کی زینت ہیں، عملی دنیا میں ایک دعویٰ بھی پورا نہیں ہوسکا ، یہ بات گوا ہ ہے کہ بیشتر جمہوری ملکوں میں سماج کے کمزور طبقات اوراقلیتوں کے ساتھ غیر مساویانہ سلوک کیا جاتا ہے ، اکثریتی طبقہ اقلیتی طبقہ کے ساتھ ناروا سلوک کرتا ہے انکو حقیر اور کم تر سمجھ کر ہر طرح کی زیادتی کو جائز سمجھتا ہے ، ان کی جان ومال ، عزت وآبرو کی کوئی قیمت نہیں، ان کی ملی تشخص اور تہذیبی امتیازات کوختم کرنے کا منصوبہ بناتا ہے ہمارے ملک ہندوستان میں دلتوں اور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والا امتیازی سلوک جمہوریت کی نظر ی مساوات کی قلعی کھولنے کیلئے کافی ہے ۔
اسلام کا تصور مساوات ا س عیب سے بالکل پاک ہے وہ ایک متوازن تعلیم ہے جومنافقت سے بالکل پاک ہے اورسارے انسان پیدائش کے اعتبار سے برابر ہیں، قرآن میں اللہ رب العالمین کا فرمان ذیشا ن ہے ’’ اے لوگو! اپنے اس رب کی نافرمانی سے بچو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جو ڑا بنایا اوران دونوں سے بہت سے مرد اورعورتیں (دنیا میں) پھیلا دیئے ۔‘‘ (سورہ نساء:۱) اسلام میں ہر شخص یکساں عزت واحترام کا مستحق ہے چاہے وہ سفید ہو یا سیاہ ، عورت ہو یا مرد، عجمی ہویا عربی ، مالک ہو یا نو کر ، پیغمبر اسلام محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ملاحظہ کیجئے اوراپنے ایمان کوتازہ کیجئے بیہقی کی روایت ہے ’’ اے لوگو! تم سب کارب ایک ہے ، کسی عربی کوکسی عجمی پر اورکسی عجمی کوکسی عربی پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر اور کسی گورے کوکسی کالے پر کوئی فضیلت نہیں ہے مگر تقویٰ کے لحاظ سے ، اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جوتم میں زیادہ پر ہیزگار ہو۔
انسانی مساوات کی یہ اعلیٰ اسلامی تعلیم کوئی نظری معاملہ نہیں بلکہ ایک تاریخی حقیقت ہے ، دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور عہدِ خلافت راشدہ میں جواسلامی معاشرہ تشکیل پایا اور وجود میں آیا اس میں پیدائشی اعتبار سے کوئی پست وبلند نہیں تھا، امیر وغریب ، آقا وغلام ، مالک اورنوکر سب آپس میں بھائی تھے ، سب کیلئے دینی ودنیاوی ترقی کے راستے یکساں کھلے تھے ۔ مساوات کی اسلامی تعلیم میں سب سے اہم اور نمایاں چیز قانونی مساوات ہے ، سارے لوگ خواہ ان کا تعلق سماج کے کسی طبقہ سے ہو ، قانون کی نظر میں سب برابر ہیں ۔ اسلامی تاریخ میں اس کی مثال بھری پڑی ہے ۔ قبیلہ قریش کی ایک لڑکی فاطمہ بنت قیس نے چوری کی تو مسلمانوںنے اسامہ بن زید کے ذریعےسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سفارش کرائی کہ عورت کے ہاتھ نہ کاٹے جائیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ملاحظہ کیجئے ۔ آپ نے فرمایا ’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے اگر فاطمہ بنت محمد نے چوری کی ہوتی تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ دیتا ۔‘‘ ( صحیح مسلم،صحیح بخاری، کتاب الحدود) تاریخ کے صفحات اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہیں، اسلامی نظام حکومت کے عملی اورنظری پہلو اوراس کے اصول اور قاعدے سب سے زیادہ عمدہ اورعدل پر مبنی ہیں ایسے بے شمار واقعات اسلامی تاریخ کے صفحات پر نقش ہیں ۔ آج علمبردار ان جمہوریت قانون کی نظریں مساوات کا بہت چرچا کرتے ہیں ،لیکن کیا وہ کوئی ایسا واقعہ پیش کرسکتے ہیں۔
جمہوریت میں حکومت کی تشکیل براہ راست عوام کے ذریعے ہوتی ہے جن ملکوں بالخصوص ایشیا اور افریقہ کے عوام کے زیاد ہ ترلوگ بے علم ہوتے ہیں ایسے لوگوں سے یہ توقع رکھناکہ وہ سیاسی بیداری کا ثبوت دیں گے اورایسے لوگوں کومنتخب کریں گے جوسیاسی فہم وبصیرت اورقانون ساز ی کی صلاحیت کے قابل ہوں ، نادانی کی بات ہوگی اورآج ان ملکوں کے جمہور ی تجربات سے بالکل واضح ہے ۔ جمہوری طرز انتخاب میںعوام جونمائندے چنتے ہیں ان کے لئے کسی طرح کی علمی قابلیت اوراخلاق وسیرت کی خوبی لازمی نہیں ہے آج کے جمہوری حکومتوں میں ناخواندہ لوگ اور سیرت واخلاق سے عاری افراد بھی اکثر وبیشتر مجلس قانو ن ساز کے رکن منتخب ہوجاتے ہیں ۔ یہ ہے جمہوریت کا تماشہ کہ جہاں مختلف مناسب اور عہدے پر تقرری کے لئے ایک خاص لیاقت ضروری ہے لیکن سیاست ایک ایسا شعبہ ہے جہاں کوئی لیاقت مطلوب نہیں، حالانکہ تمام شعبے سے یہ شعبہ مثل دماغ کے ہے جہاں صاحب علم افراد کی ضرورت ہے اورجوصاحب کردار بھی ہو ورنہ حکومت کی کارکردگی متاثر ہوگی۔
جمہوری طرز حکومت میں سماج کے وہ افراد جوعلم وتجربہ اورکردار کی خوبیاں تو رکھتے ہیں لیکن سرمایہ کی قلت اورکسی سیاسی جماعت یا کسی سیاسی شخصیت سے وابستہ نہ ہونے کی وجہ سے ملکی سیاست سے کنارہ کش ہوجاتے ہیں ایسے حالات میں ملک با صلاحیت اورصاحب کردار افراد سے محروم ہوجاتا ہے اورملک کی زمام اقتدار ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں چلی جاتی ہے جونا اہل ہی نہیں ہوتے بلکہ پرےدرجے کے خود غرض ، مفاد پرست ہوتے ہیں اورملک تباہی وبربادی کے دہانے پر پہنچ جاتا ہے ۔جمہوریت کا طرز انتخاب مسرفانہ ہے ، جس سے ملک کی دولت ضائع ہوتی ہے ، اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہےکہ انتخاب میں وہی لوگ حصہ لے سکتے ہیں جو خود سرمایہ دار ہوں یا کسی سرمایہ دار یا سیاسی جماعت کی انہیں حمایت حاصل ہو جس سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ حکومت وہی لوگ چلاتے ہیں جوسرمایہ دار ہوتے ہیں اورایسے لوگوں کو اپنے مفادات کے علاوہ کسی دوسری بات سے بالکل دلچسپی نہیں ہوتی۔
جمہوری نظام حکومت کے برخلاف دین اسلام کا شعبہ سیاست جوشورائی نظام پر مبنی ہے ان سب خرابیوں سے پاک اورعیبوں سے مبرا ہے ، یہاں وہی لوگ انتخاب میں حصہ لے سکتے ہیں جواس کے اہل ہوں ، صحیح مسلم میں حـضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے کہ ’’میں نے رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ مجھے حکومت کے کسی عہدے پر مامور کیا جائے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوئے فرمایا، ابوذر، یہ ایک بھاری امانت ہے اورتم ایک کمزور آدمی ہو، قیامت کے دن یہ امانت باعث رسوائی ہوگی، مگر اس کے لئے نہیں جواس کوحق کےساتھ اُٹھائے اوراس کی ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا کرے ۔‘‘ ( صحیح مسلم ، باب کراہۃ الامارہ)
در حقیقت امت مسلمہ کے تمدنی مسائل کا حل اسلام کے شورائی نظام میں ہے نہ کہ جمہوریت میں ، اور نہ کسی سیاسی نظام میں۔ اسلام کا شورائی نظام جوخدا کے قانون یعنی آخری کتاب قرآن کریم اورمسلمانوں کے اہل الرائے کے مشورہ پر مبنی ہے، قانون الٰہی اورمشاورت سے انحراف کا دوسرا نام آمریت اوراستبدادی حکومت ہے ۔ اسلام کا شورائی نظام ساری دنیا میں جمہوریت سے بدر جہا ںبہتر ہے اوران تمام نقائص سے بالکل پاک ہے ۔ آج دنیا کواسی نظام کی سخت ضرورت ہے۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2016