قدرے تاخیرسے موصول شدہ ماہ جون کے شمارے میں مطبوعہ ڈاکٹر تابش مہدی کا مضمون ﴿مولانا صدرالدین اصلاحیؒ ﴾ پیش نظر ہے۔ مضمون نگار نے والد مرحوم کے حصول تعلیم کاتذکرہ کرتے ہوئے تحریرکیاہے:
’’ان کے دینی رجحان کی وجہ سے والدین نے ضلع کے ایک مدرسہ ، مدرسۃ الاصلاح میں داخلہ کرادیا اور ۱۹۳۷ میں وہیں سے انھوں نے سند فراغ حاصل کی۔ا س کے بعد قرآن، حدیث اور فقہ کی اعلیٰ اور معیاری تعلیم کے لیے سرپرستوں کے ایما سے ایشیا کی ممتاز اسلامی یونیورسٹی دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا، لیکن حالات مساعد نہ ہونے کے سبب وہاں زیادہ دنوں تک ٹھہر نہ سکے۔‘‘ ﴿ص:۵۵﴾
مضمون نگار کے مذکورہ بالا بیان میں دارالعلوم دیوبند میں تعلیم حاصل کرنے کی بات توصحیح ہے، البتہ اس کا بقیہ حصہ درست نہیں۔ مولانا محمد سلیمان قاسمی فرخ آبادی نے ماہ نامہ ذکریٰ رام پور کے ۱۹۳۷ کے سال نامہ میں مرحوم سے لیا ایک انٹرویو شائع کیاتھا۔ مناسب ہوگاکہ ذیل میں انٹرویو کا وہ حصہ نقل کردیاجائے، جس میں ان کے دیوبند جانے کاذکر ہے۔ انھوںنے نومبر ۱۹۲۸ میں مدرسۃ الاصلاح پر عربی دوم میں اپنے داخلے کے تذکرے کے بعد بتایا:
’’۱۹۳۲ میں، میں خاموشی سے دیوبند چلاگیا کہ وہ بڑا مدرسہ ہے وہیں تعلیم حاصل کروںگا۔ میں وہاں آٹھ مہینے رہا۔ اصول الشاشی، قدوری، نفحۃ الیمن وغیرہ پڑھیں اور امتحان بھی دیا۔ لیکن دل نہیں لگا۔ ﴿کیوںکہ﴾ پارٹیاں تھیں جو ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتی تھیں، کارٹون شائع ہوتے تھے۔ ضلعی عصبیت ، مارکاٹ، گالم گلوچ، پوسٹر بازی وغیرہ۔ یہ فضا مجھے راس نہ آئی۔‘‘ ﴿ص:۳۴،۳۵﴾
چنانچہ آٹھ ماہ قیام کے بعد مرحوم ‘ایشیا کی ممتازاسلامی یونیورسٹی’ سے بے زار ہوکر واپس آگئے اور ’ضلع کے مدرسہ‘ سے ہی سند فراغت حاصل کی۔
مضمون نگار اسی صفحہ پر مزید رقم طراز ہیں:
’’چوں کہ لکھنے پڑھنے کا ذوق تھا، رسائل میں مضامین بھی شائع ہونے لگے تھے، اس لیے مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ سے مراسلت کا سلسلہ شروع کیا۔ ایک دو مضامین ماہ نامہ ترجمان القرآن حیدرآباد میں بھی شائع ہوئے۔ مولانا مودودیؒ کو ان کے اندر کی مخفی صلاحیتوں کاادراک ہوچکاتھا، اس لیے مولانا نے دارالاسلام کے قیام کے بعد ان کو بھی اپنی رفاقت میں لے لیا اورجب جماعت اسلامی کی تشکیل عمل میں آئی تو وہ اس میں بھی شامل ہوگئے۔‘‘
موصوف کا یہ بیان بھی پوری طرح درست نہیں ہے۔ والد مرحوم کے مضامین ‘رسائل’ میں نہیں صرف ‘ترجمان القرآن’ میں شائع ہونا شروع ہوئے تھے۔ ان کا سب سے پہلامطبوعہ مضمون ’نکاح کتابیہ‘ کے عنوان سے ترجمان القرآن کے مارچ ۱۹۳۷ کے شمارہ میں شائع ہواتھا۔ اسی سال جولائی تا اگست تک کے تین شماروں میں ان کا دوسرا مضمون ’’مسلمان اور امامت کبریٰ‘‘ شائع ہواتھا۔ اس وقت وہ مدرسۃ الاصلاح کے آخری سال کے طالب علم تھے۔ پہلے مضمون کی اشاعت کے بعد سے ان کے اور مولانا مودودیؒ کے درمیان مراسلت کا سلسلہ شروع ہواتھا۔ مولانا مرحوم مارچ ۱۹۳۸کے وسط میں دارالاسلام ، پٹھان کوٹ منتقل ہوئے۔ دو ماہ بعد والد مرحوم بھی وہاں پہنچ گئے۔ اکتوبر ۱۹۳۸ میں جب جماعت اسلامی کے نقش اول، ادارۂ دارالاسلام کی تشکیل ہوئی تو مرحوم اس کے پانچ تاسیسی ارکان میں سے ایک تھے۔ ۱۹۴۱ میں جماعت کی تشکیل کے وقت والد مرحوم رنگون میں تھے۔ تاسیسِ جماعت کی اطلاع دیتے ہوئے مولانا مرحوم نے انھیں مطلع کیاکہ ادارۂ دارالاسلام کے تاسیسی رکن ہونے کی بناپر انھیں جماعت کا رکن بنالیاگیا ہے۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2010