تکبر کبراور بڑائی کو کہتے ہیں۔ یہ وہ بیماری ہے ، جس کی وجہ سے انسان خود کو بڑا سمجھنے لگتاہے اور دوسروں کو حقیر و ذلیل۔نبی کریمﷺ نے فرمایا:
ولکن الکبر من بطرائ الحق و غمط الناس ﴿مسلم﴾
‘تکبر کرنے والا وہ ہوتاہے جو حق کو قبول نہ کرے بل کہ اس کو پس پشت ڈال دے اور لوگوں کو حقیر جانے۔’
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ سب سے پہلا تکبر کرنے والا شیطان ہے، جس نے آدمؑکے مقابلے میں اپنے کو بالاتر سمجھا اور کہا: میں آدم سے بہتر ہوں، وہ مٹی سے بناہے اور میں آگ سے بناہوں اور وہ جنت سے نکال دیاگیا اور ہمیشہ کے لیے دوزخی ٹھہرایاگیا۔
وَ اذْ قُلْنَا لِلْمَلاَ ئٓکَۃِ اسْجُدُواْ لِاٰدَمَ فَسَجَدُوآْ الاَّ ٓ ابْلِیْسَ أَبَی وَاسْتَکْبَرَ وَکَانَ مِنَ الْکَافِرِیْنَ ﴿بقرہ:۳۴﴾
‘جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیاکہ آدم کے آگے جھک جاؤ تو سب جھک گئے مگر ابلیس نے انکار کیا۔ وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑگیا اور نافرمانوں میں شامل ہوگیا۔ ’
اسی جرم کی پاداش میں گزشتہ قوموںکو ہلاک وبرباد کردیاگیا۔ محض اس وجہ سے کہ انھوںنے اپنے نبی اور رسول کی باتوں کو ماننے سے انکار کیا۔ غرور و تکبر سے کام لیا۔ استکبار کاارتکاب کیا۔ جس کی وجہ سے اللہ رب العالمین نے ان کو دنیا سے نیست و نابود کردیا۔ جیساکہ حضرت نوحؑنے اپنی قوم کو دعوت دیتے ہوئے کہا:
أَصَابِعَہُمْ فِیْ آذَانِہِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِیَابَہُمْ وَأَصَرُّوا وَاسْتَکْبَرُوا﴿نوح:۷﴾
‘جب بھی میں نے ان کو بلایا،تاکہ تو انھیں معاف کردے، انھوںنے اپنی انگلیاں اپنے کانوں میں ڈال لیں اور اپنے کپڑے اوڑھ لیے اور اڑگئے اور سخت سرکشی کی۔’
اسی طرح دوسری قوموں پر جیسے قوم عاداور قوم ثمود پر عذاب آیا۔ معلوم ہواکہ تکبر ایسا مہلک مرض ہے، جو انسان کو ہلاکت و بربادی کے دہانے پر پہنچادیتاہے۔ اسی طرح قرآن میں قارون کا وہ قصہ مشہور ہے کہ اسے اللہ رب العالمین نے کس قدر مال واسباب سے نوازا تھا اور جب اس سے پوچھاگیاکہ تونے یہ مال واسباب کہاں سے حاصل کیے تو اس نے بڑے تکبرانہ لہجے میں جواب دیتے ہوئے کہا:
أَوَلَمْ یَعْلَمْ أَنَّ اللَّہَ قَدْ أَہْلَکَ مِن قَبْلِہٰ مِنَ القُرُونِ مَنْ ہُوَ أَشَدُّ مِنْہُ قُوَّۃً وَأَکْثَرُ جَمْعاً وَلَا یُسْأَلُ عَن ذُنُوبِہِمُ الْمُجْرِمُونَ ﴿قصص:۷۸﴾
‘اس نے کہاکہ مال وجائیداد مجھے اپنے علم اور صلاحیت کے ذریعے ملی ہے، کیا اسے یہ بات معلوم نہیں تھی کہ اللہ نے اس سے پہلے بہت سی ایسی قوموں کو ہلاک کردیاجو اس سے زیادہ طاقتور اور زیادہ مال و جائداد والی تھیں۔’
اسی طرح فرعون بادشاہ نے سرکشی کی اورتکبر کیاتو اللہ نے اس کو بھی سخت عذاب سے دوچار کیا جس نے انا ربکم الاعلیٰ کانعرہ لگارکھاتھا۔ اِس جرم کی پاداش میں اللہ نے اس کو ہلاک کردیا اور رہتی دنیا تک اس کو یادگار کے طورپر رکھاتاکہ لوگ جانیں کہ تکبر کا انجام کیا ہوتاہے۔ غرضے کہ تکبر ایک سخت اورمہلک بیماری ہے۔ اس کی کتاب وسنت میں بڑی مذمت آئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلاَ تَمْشِ فِیْ الأَرْضِ مَرَحاً انَّکَ لَن تَخْرِقَ الأَرْضَ وَلَن تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولاًo کُلُّ ذَلِکَ کَانَ سَیٍّئُہ’ عِنْدَ رَبِّکَ مَکْرُوہاًo ﴿بنی اسرائیل:۳۷-۳۸﴾
‘زمین میں اکڑکر نہ چلاکر، نہ تو زمین کو پھاڑسکتا ہے اور نہ اونچائی میں پہاڑ کو پہنچ سکتا ہے۔ ان سب کاموں کی بڑائی تیرے رب کے نزدیک سخت ناپسند ہے۔’
اسی لیے لقمان نے اپنے بیٹے کو بہت ساری وصیتیں کی تھیں۔ ان وصیتوں میں آپ ؑنے تکبر سے بچنے کی بھی تلقین کی تھی۔
وَلَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَلَا تَمْشِ فِیْ الْأَرْضِ مَرَحاً انَّ اللَّہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ ﴿لقمان :۱۸﴾
‘اپنا منہ لوگوں سے نہ موڑو انھیں حقیر سمجھ کر یا اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر لوگوں سے تکبر کا رویہ نہ اختیار نہ کر بلکہ نرمی برت اور خوش خلقی سے پیش آ۔’
رسول کریمﷺ کے سامنے ایک مرتبہ تکبر کاذکر آگیا تو آپﷺ نے اس کی سخت مذمت فرمائی اور فرمایاکہ ایسے خود پسند مغرور لوگوں سے اللہ ناراض ہوتاہے۔ اس پر ایک صحابی نے کہا: یا رسول اللہ! جب میں کپڑے دھوتا ہوں تو خوب سفید ہوجاتے ہیں تو مجھے بہت اچھے لگتے ہیں اسی طرح جوتے میں اچھا تسمہ اچھا لگتاہے۔ تو آپﷺ نے فرمایا: یہ تکبر نہیں ہے تکبر اس کا نام ہے کہ حق کا انکار کرے اور لوگوں کو حقیر تصور کرے۔تکبر کی مذمت بیان کرتے ہوئے نبی کریمﷺ نے فرمایا:
لایدخل الجنۃ احدٌ فی قلبہٰ مثقال حبۃٍ من خدولٍ من کبرٍ ﴿مسلم﴾
‘کسی شخص کے اندر رائی کے دانے کے برابر بھی کبر ہوگا، وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ ’
تکبر کرنے سے دنیا میں بھی سزا ملتی ہے۔ رسولﷺ نے فرمایا: من جر لقرجہ’ خیلائَ لم پنظر اللہُ اِلیہِ یومَ القیامۃِ ﴿بخاری﴾
‘جس نے بھی تکبر سے اپنے کپڑے کو گھسیٹا ﴿ ٹخنوں سے نیچے تک لٹکاکر چلتے وقت زمین پر گھسیٹتارہا﴾، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھیں گے۔’
معلوم ہواکہ تکبر سے ہمیشہ نقصان ہوتاہے۔ مغرور آدمی اپنے آپ کو لوگوں سے بڑا سمجھتاہے مگر حقیقت واضح ہوجانے کے بعد بہت جلد ذلیل ہوجاتاہے۔ لوگ اسے دشمن تصور کرنے لگتے ہیں۔ سماج میں اس کا کوئی وقار نہیں رہتا۔ اس کی آبرو ختم ہوجاتی ہے۔ اس لیے اگر کوء ی عزت و وقار چاہتاہے تو اسے تواضع و خاکساری اختیار کرنا ہوگا اور تکبر سے بالکل دور رہنا ہوگا۔
اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ہے کہ ‘سب انسان ایک آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے بناء ے گء ے ہیں اور مٹی میں تواضع وخاکساری ہے۔ تکبر وغرور نہیں ہے۔ لہٰذا س کا علاج صرف اور صرف یہی ہوسکتاہے کہ انسان اپنی حقیقت کو سوچے تو وہ خود ہی سمجھ سکتاہے کہ میں کیا تھا اور کیا ہوگیا اور کیا ہوجاء وںگا۔ غرور و تکبر ادعاء ے عظمت و احساس کبریاء ی صرف اللہ رب العالمین و قادر مطلق کے لیے زیبا ہے وہی اس کا ہر طرح مستحق ہے۔ باقی سب اس کی مخلوق ،دست نگر اور محتاج ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے کہ اللہ تعالیٰ فرمایاہے:
الکبریاء ر داء ی والعظمۃُ ازاری ضمن نازعنی واحداً منھما قذفتہ فی النار﴿ابوداؤد﴾
‘کبریاء ی میری چادر ہے اور عظمت میرا ازار ہے، جو شخص ان دونوں میں سے کوء ی مجھ سے چھینے گا میں اسے جہنم میں داخل کروںگا۔’
دعاہے کہ اللہ ہم تمام مسلمانوں کو تکبر جیسی مہلک بیماری سے بچاء ے۔ ‘‘
مشمولہ: شمارہ جون 2011