قرآن کی متعدد آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کی شناعت بیان کی ہے جو حقائق سننے کے باوجود اپنی صلاحیتوں کے ذریعے سے ان کو نہیں آزماتے اور عقل کے اندھے ہوکر اپنے عناد وانکار پر اڑے رہتے ہیں :
وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیْراً مِّنَ الْجِنِّ وَالاِنسِ لَہُمْ قُلُوبٌ لاَّ یَفْقَہُونَ بِہَا وَلَہُمْ أَعْیُنٌ لاَّ یُبْصِرُونَ بِہَا وَلَہُمْ آذَانٌ لاَّ یَسْمَعُونَ بِہَا أُوْلَ ئِکَ کَالأَنْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ أُوْلَ ئِکَ ہُمُ الْغَافِلُونَ ﴿الاعراف:۹۷۱﴾
’’اور یہ حقیقت ہے کہ بہت سے جن اور انسان ایسے ہیں جن کو ہم نے جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے۔ ان کے پاس دل ہیں مگر وہ ان سے سوچتے نہیں۔ ان کے پاس آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں۔ ان کے پاس کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں۔ وہ جانوروں کی طرح ہیں، بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے، یہ وہ لوگ ہیں جو غفلت میں کھوئے ہوے ہیں۔‘‘
گویا قرآن کے الفاظ میں ایسا شخص قابلِ ملامت ہے جو معلومات کو سن کر رد وقبول کے لیے اپنی عقلی صلاحیتوں کو رو بہ عمل نہیں لاتا ہے۔
قرآن کی صحت وصداقت جانچنے کے اور بھی طریقے پائے جاتے ہیں۔ان میں ایک مسلمہ طریقہ’’ استنفادِ بدیل ‘‘ ﴿Exhausting the Alternatives﴾کا ہے۔بنیادی طور پر ہم قرآن کا یہ دعویٰ دیکھتے ہیں کہ وہ وحیِ الٰہی ہے، اور اگر ایسا نہیں ہے تو کیا ہے؟دوسرے الفاظ میں قرآن اپنے قاری کو چیلنج کرتا ہے کہ اس کے علاوہ کوئی توجیہ پیش کرے، ورق اور سیاہی سے تیار شدہ یہ کتاب کہاں سے آئی ہے؟اگر یہ اللہ کی وحی نہیں ہے تو اس کا مصدر کیا ہے؟حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آج تک کوئی اس مظہرہ کی اطمینان بخش متبادل توجیہ پیش نہیں کرسکاہے۔
غیر مسلموں کی طرف سے قرآن کے منزل من اللہ نہ ہونے کے سلسلے میں جو توجیہات عرض کی گئی ہیں ان کو دو بڑے عنوانوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ مخالفین کی تمام ہرزہ سرائیاں ان دائروں سے باہر کم ہی نکلتی ہیں۔ مخالفین کا ایک گروہ جو متعدد اصحابِ علم، سائنس دانوں اور تعقّل زدہ لوگوں پر مشتمل ہے، کہتاہے کہ بڑے طویل عرصہ تک قرآن اور محمد ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کرکے ہم اس نتیجے پر پہونچے ہیں کہ درحقیقت محمدﷺ ایک عبقری ﴿Genius﴾انسان تھے،جن کو اپنے بارے میں﴿نعوذ باللہ﴾ یہ وہم ہوگیا تھا کہ وہ ایک نبی ہیں۔اس کی وجہ ان کی عقل میں فتوراور نامساعد حالات میں ان کی پرورش وپرداخت ہے۔ ایک جملہ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ محمد ﷺ حقیقتاً ایک فریب خوردہ﴿Fooled﴾ انسان تھے۔ اس گروپ کے بالمقابل مخالفین کا دوسرا گروہ ہے جس کا کہنا ہے کہ دراصل محمد ایک جھوٹے انسان تھے۔طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہ دونوں گروہ آپس میں بھی کبھی قرآن کے متعلق اتفاقِ رائے نہیں کر سکے ہیں۔اسلام اور اسلامی تاریخ پر لکھے گئے بہت سارے مغربی مصادر ومراجع میں ان دونوں مفروضات کا تذکرہ ملتا ہے۔ وہ پہلے پیراگراف میں محمدﷺ کو ایک فریب خوردہ ،مختل الحواس انسان کی شکل میں پیش کریں گے اور معاًاگلے اقتباس میں انھیں جھوٹا، کذاب کے القاب سے نوازتے دکھائی دیں گے۔حالانکہ اندھی مخالفت کے زور میں یہ حضرات علمِ نفسیات کی ابجدی حقیقت کوبھی دانستہ یا نادانستہ فراموش کر جاتے ہیںکہ کوئی انسان بیک وقت محبوس العقل اور جھوٹاشاطر﴿Imposter﴾ نہیں ہو سکتا ہے۔
مثال کے طور پر اگر کوئی شخص مخبوط العقل ہے اورا پنے آپ کو نبی سمجھ بیٹھا ہے تو اس کا معمول یہ نہیں ہوگا کہ وہ رات کے آخری پہر میں جاگ کر اگلے دن کے لیے لائحہ عمل تیار کرے تاکہ اس کی نبوت کا ڈھونگ جاری رہ سکے۔ اگر وہ مختل العقل ہے تو وہ ہرگز ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ وہ اپنی دانست میں سچا نبی ہوگا اور اسے کامل یقین ہوگا کہ آئندہ کل جو بھی ناگہانی سچویشن رونما ہوگی، وحیِ الٰہی ہر موقعہ پر اس کی دادرسی کردے گی۔ اور واقعہ ہے بھی کہ قرآن کریم کا ایک بڑا حصہ کفار ومشرکین کے سوالات واعتراضات کے جواب میں نازل ہوا ہے۔مختلف خلفیوں﴿Back Grounds﴾ کے حامل مخالفین الگ الگ سطحوں پر آپﷺ سے سوالات دریافت کرتے تھے اور اللہ کی جانب سے وحی کے ذریعے آپﷺ کو اس سے باخبر کیا جاتا تھا۔ لہٰذا اگر آنحضورﷺ کو دماغی خلل﴿Mind Delusion﴾ کا شکار باور کر بھی لیا جائے تو فطری طور پر ان کا رویہ جھوٹے شخص کا سا نہیں ہو سکتا۔غیر مسلم مخالفین علمی سطح پرکبھی اس بات کااقرار نہیں کر سکتے کہ یہ دونوں از قبیلِ اضداد صفتیں کسی ایک آدمی میں یکجا ہو سکتی ہیں۔کوئی بھی انسان یا تو فریب خوردہ ہوگا یا جھوٹا، بیک وقت دونوں ہرگز نہیں ہو سکتا۔ جس چیز پر میں زور دینا چاہتا ہوں وہ یہ کہ متعلقہ دونوں صفات دو متضاد شخصیتوں کا مظہر ہیںاور ایک شخص میں ان کا پایا جانا صرف خوابوں کی دنیا میں ممکن ہے۔
آنے والے منظرنامے کے ذریعہ آپ جان لیں گے کہ کس طرح غیرمسلم مخالفین ،کولہو کے بیل کی مانند ایک دائرے میں گھومتے گھومتے خود اپنے کھودے ہوئے اعتراضات کے گڈھوں میں آگرتے ہیں۔اگر آپ ان میں سے کسی سے پوچھیں کہ تمھارے فہم کے مطابق یہ قرآن کہاں سے آیا ہے؟وہ جواب دے گا کہ یہ ایک مخبوط العقل انسان کی خیال آفرینی کا کرشمہ ہے۔ اب آپ اس سے پوچھیں : ’’اگر یہ کسی پاگل ذہن کی پیداوار ہے تو اس میں یہ علمی باتیں کہاں سے آ گئیں؟اس کو تو تم بھی مانو گے کہ قرآن میں ایسی معلومات کا تذکرہ ہے جو اس وقت عربوں کو نہیں معلوم تھیں‘‘، اب وہ لاشعوری طور پر اپنے جواب میں تبدیلی کرتے ہوئے کہے گا:’’ہو سکتا ہے کہ محمدﷺ مخبوط العقل نہ ہوں، اور انھوں نے یہ معلومات بعض غیر ملکی اجنبیوں سے سن کر ان کو اپنی طرف منسوب کر دیا ہو، اور اس بہانے جھوٹ موٹ نبوت کا دعوی بھی کر دیا ہو‘‘۔اس نقطہ پر آکر آپ اس سے پوچھیں :’’اگر تمھارے مطابق محمد ﷺ جھوٹے نبی تھے تو کیا وجہ ہے کہ انھیں اپنے آپ پر اس درجہ اعتماد کیوں تھا؟کیوں ان کے تمام تصرفات سے فی البدیہہ جھلکتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو سچا نبی متصور کرتے تھے؟‘‘اس نقطہ پر پہونچ کروہ تنگ نائے میں پھنسی بلی کی طرح اپنے سابقہ موقف کی طرف پلٹی مارتے ہوئے کہے گا :’’ممکن ہے کہ وہ فی الواقع جھوٹا نہ ہو، بلکہ مخبوط العقل ہو جو کہ خود کی نبوت میں یقین کرتاتھا‘‘یہاں آکر بحث وتمحیص کا دائرہ گھوم کر پھر وہیں آرکتا ہے جہاں سے اس کی ابتدا ہوئی تھی۔
جیسا کہ میں پیچھے ذکر کر چکا ہوں کہ قرآنِ کریم میں ایسے بہت سارے علمی حقائق مذکور ہیں کہ جن کو اللہ عالم الغیب کے علاوہ کسی اور کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا ہے۔علی سبیل المثال: کون تھا جس نے محمدﷺ کو سدِ ذی القرنین کے متعلق بتایا جبکہ وہ جزیرۃ العرب کی حدود سے باہر شمال میں ہزاروں کیلو میٹر کی دوری پر واقع ہے، ؟کون تھا جس نے علمِ جنین کے بارے میں بالکل درست معلومات سے محمدﷺ کو آگاہ کیا تھا؟ان حقائق کی کثرت کو دیکھتے ہوئے بھی جو لوگ ان کو ذاتِ الٰہی کا فیضان نہیں ماننا چاہتے، آٹومیٹیکلی ان کے پاس صرف ایک آپشن باقی رہ جاتا ہے۔ یعنی کسی گمنام اور مجہول شخص نے یہ بیش بہا معلومات کا خزانہ، محمدﷺ کی جھولی میں ڈال دیا تھا، جس کا خاطر خواہ استحصال کرتے ہوئے محمد ﷺ نے نبوت کا دعوی کر دیا۔ لیکن اس غلط مفروضہ کو بڑی آسانی کے ساتھ محض ایک مختصر سے سوال کے ذریعہ رد کیا جا سکتا ہے:اگر بموجب اس مفروضہ کے محمدﷺ ایک جھوٹے نبی تھے، تو آخر انھیں اپنے جھوٹ پر اتنا بھروسا کیوں تھا؟کیوں کر انھوں نے ایک بت پرستانہ ماحول میں رائج مذہبی عقائد ورسوم پراس درجہ بیباکی و شجاعت کے ساتھ تیز وتند تنقیدیں کیں، جس کا تصور بھی کسی نفاق پرست جھوٹے مدعیِ نبوت سے نہیں کیا جا سکتا؟۔ یہ بے مثال خود اعتمادی وبیباک شجاعت صرف اور صرف سچی وحیِ الٰہی کی سرپرستی میں میسر آ سکتی ہے۔
یہاں میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں، اسلامی تاریخ کے ادنیٰ طالب علم کو بھی یہ بات معلوم ہوگی کہ آنحضرت ﷺ کا ایک چچا ابولہب دینِ اسلام کی دعوت کا کٹر مخالف تھا۔ اسلام سے اس کی دشمنی کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ وہ ملعون راستا چلتے آپﷺ کا پیچھا کیا کرتا تھا، جہاں آپﷺ رک کر کسی کو وعظ وتبلیغ فرماتے یہ فوراً جا پہنچتا اور بڑی شدومد کی ساتھ آپﷺ کی تردید کرنے لگتا۔ الغرض زندگی کے ہرہر شعبے میں محمد ﷺ کی لائی ہوئی تعلیمات کے برعکس کرنا اس کی زندگی کا شیوہ تھا۔ اسی ابو لہب کی موت سے تقریباً دس سال پہلے آنحضرتﷺ پر ایک چھوٹی سورت نازل ہوئی۔ یہ مکمل سورت ابو لہب سے متعلق تھی اور یہی اس کا نام بھی پڑا۔ اس سورت نے پوری وضاحت اور قطعیت کے ساتھ ابو لہب کو جہنمی یا دوزخی قرار دیاہے۔دوسرے الفاظ میں معلوم تاریخ میں پہلی بار کسی انسان کو مدتِ امتحان ختم ہونے سے پہلے ہی نتیجہ بتا دیا گیا۔قرآن جو کلامِ ربانی ہے اس میں اگر کسی کے بارے میں صراحت کے ساتھ اہلِ جہنم ہونے کا تذکرہ آجائے تو اس کا سیدھا مفہوم یہ ہوگا کہ اب ایسے شخص کو قبولِ ایمان کی توفیق نہیں ہوگی اور ہمیشہ ہمیش کے لیے وہ ملعون ومردودہی رہے گا۔
ابو لہب اس سورت کے نزول کے بعد دس سال تک زندہ رہتا ہے اور اس طویل مدت میں وہ اسلام کی بیخ کنی کے لیے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں رکھتا۔اس قدر اسلام دشمنی کے باوجود اس سے کبھی یہ نہ بن سکا کہ وہ بر سرِ عام یہ اعلان کر دیتا:
’لوگو!ہم سب نے سنا ہے کہ محمدﷺ کی وحی کے دعوے کے مطابق ،میں کبھی اسلام قبول نہیں کروںگااور میرا انجام دوزخ مقدر ہو چکا ہے، لیکن دیکھو میں آج اسلام میں داخلہ کا اعلان کرتا ہوں اورجان لو کہ میرا مسلمان ہو جانا محمد ﷺ کے لائے ہوئے قرآن کی روشنی میں ناممکن تھا، اب تم لوگ فیصلہ کرو کہ ایسی خدائی وحی کے بارے میں کیا کہوگے؟‘
وہ اگر ایسا اعلان کر دیتا تو یقین مانیے نہ صرف قرآن کی صداقت مشکوک ہو جاتی ،بلکہ اسلام کی بیخ کنی کا اس کا دیرینہ خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہو جاتا۔لیکن وہ ایسا نہ کر سکا، حالانکہ اس کی شر پسند طبیعت سے ایسے ردِ عمل کی بجا طور پر امیدکی جا سکتی ہے ، لیکن ایسا نہیں ہوتا، پورے دس سال گزر جاتے ہیں اور وہ اپنی طبعی موت مر کر ہمیشہ کے لیے واصلِ جہنم ہو جاتا ہے لیکن اس پوری مدت میں اس کے اندر قبولِ اسلام کا کوئی داعیہ پیدا نہیں ہوپاتا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر محمدﷺ اللہ کے سچے رسول نہیںتھے تو انھیں یقینی طور پر کیسے معلوم ہوا کہ ابو لہب قرآن کی پیشین گوئی کو حرف بہ حرف درست قرار دیتے ہوئے بالآخر کفر پر ہی مرے گا؟محمد ﷺ کو یہ خود اعتمادی کہاں سے حاصل ہو گئی کہ وہ اپنے مشن کے کٹر مخالف کو کامل دس سال اس بات کا موقعہ دیے رہیں کہ اگر وہ چاہے تو ان کے دعویٔ نبوت کو جھوٹا ثابت کر دکھائے؟اس کا بس یہی جواب ہے کہ آپﷺ فی الواقع اللہ کے سچے رسول تھے۔ انسان وحیِ الٰہی کے فیضان سے سرشار ہوکر ہی اس قسم کا پرخطر چیلینج پیش کر پاتا ہے۔
محمد ﷺ کااپنی صداقت پر یقین اور اس کی تبعیت میں اللہ کی نصرت وحفاظت پر اعتماد کس بلندی کو پہنچا ہوا تھا، ہم اس کی دوسری مثال پیش کرتے ہیں۔ ہجرت کے موقعے پر آپﷺ نے مکہ کو خیر باد کہہ کر حضرت ابوبکر ؓکے ساتھ مشہور پہاڑ’’ ثور‘‘ کے ایک غار میں پناہ لی تھی۔ کفارِ مکہ آپﷺ کے خون کے پیاسے بن کر پوری طاقت کے ساتھ آپﷺ کی تلاش میں سرگرداں تھے۔ ایسی ہولناک صورتِ حالات میں یہ ہوتا ہے کہ تلاش کرنے والی ایک پارٹی قدموں کے نشانات کا پیچھا کرتے ہوئے ٹھیک اسی غار کے بالمقابل پہنچ جاتی ہے جس میں آپﷺ پناہ گزیں تھے۔ بس لمحہ کی دیر تھی کہ کوئی اس غار میں جھانک کر دیکھ لے اور اسلامی تاریخ کوئی دوسرا رخ اختیار کر نے پر مجبور ہو جاتی۔ حضرت ابو بکرؓبھی حالات کی سنگینی سے خوف زدہ ہو جاتے ہیں۔ یقین جانیے اگر محمدﷺ اپنے دعوے میں جھوٹے ہوتے اور آپ کی رسالت محض ایک دھوکا ہوتی، تو ایسی صورت میں آپ کا فطری ردِ عمل یہ ہونا چاہیے تھا کہ آپ ﷺ اپنے ساتھی سے کہتے:
’اے ابوبکرؓ ذرا غار کے پچھلی طرف جاکر تو دیکھو، کیا وہاں کوئی جائے فرار ہے؟یا فرماتے:ابو بکرؓ! وہاں کونے میں دبک کے بیٹھ جاؤ اور بالکل آواز نہ کرو۔‘
آپﷺ نے ایسا کچھ نہیں فرمایا، اس وقت آپﷺ نے حضرت ابوبکر ؓسے جو کہا وہ آپﷺ کے توکل علی اللہ کا غماز اور اپنی نبوت کی سچائی پر کامل یقین کا مظہر تھا۔ قرآن نے اس وقت کی نازک صورتِ حال میں آپ کا ردِ عمل ﴿Reaction﴾اس طرح ذکر کیا ہے:
ثَانِیَ اثْنَیْْنِ ِذْ ہُمَا فِیْ الْغَارِ اِذْ یَقُولُ لِصَاحِبِہِ لاَ تَحْزَنْ اِنَّ اللّہَ مَعَنَا﴿التوبہ: ۴۰﴾
’جب وہ صرف دو میں کا دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غم نہ کر، اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘
اب مذکورہ بالا مثالوں کی روشنی میں فیصلہ کیجیے کہ کیا کسی جھوٹے ،دھوکے باز مدعیِ نبوت کو ایسی پرخطر صورت حال میں اپنے جھوٹ پر اس درجہ اعتماد ہو سکتا ہے؟حقیقت یہ ہے کہ یقین وتوکل کی یہ کیفیت کسی کاذب فریبی کو میسر آ ہی نہیں سکتی۔ جیسا کہ پیچھے ذکر آیا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ قرآن کو وحیِ الٰہی نہ ماننے والے اپنے آپ کو ایک خالی دائرہ ﴿Vacant Circle ﴾میں گھرا پاتے ہیں اور ان سے کوئی معقول جواب نہیں بن پاتا۔ کبھی وہ محمد ﷺ کو ایک دیوانہ شخص گردانتے ہیں اور کبھی جھوٹا دھوکہ باز۔ ان کی عقل میں اتنی موٹی بات بھی نہیں آتی کہ دیوانگی اور مکاری متضاد صفات ہیں اور کسی ایک آدمی میں ان کے اجتماع کی بات کہنا بذاتِ خود پاگل پن کی علامت ہے۔
سات سال پہلے کی بات ہے، میرے ایک وزیر دوست میرے گھر تشریف لائے تھے۔ ہم جس کمرے میں گفتگو کررہے تھے، وہاں قریب میز پر قرآن مجید رکھاہوا تھا، جس کے بارے میں وزیر موصوف کو علم نہیں تھا۔ دورانِ گفتگو میں نے قرآن کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: میں اس کتاب پر ایمان رکھتاہوں۔‘‘ وزیر صاحب نے ازراہِ تفنن کتاب پر ایک اچٹتی سی نظر ڈال کر فرمایا: ’’میں آپ کو بتاسکتا ہوں کہ اگر یہ کتاب بائبل نہیں ہے تو ضرور بالضرور کسی انسان کی تصنیف کردہ ہے۔‘‘ میں نے ان کے دعوے کے جواب میں صرف اتنا کہا: ’’چلئے میں آپ سے اس کتاب میں موجود چند باتوں کا تذکرہ کرتا ہوں۔ اور تین یا چار منٹوں میں ، میں نے ان کے سامنے قرآن کے چند علمی حقائق پیش کردیے۔ ان چند منٹوں نے اس کتاب کے تعلق سے ان کے نظریہ میں بڑی تبدیلی پیدا کردی ، انھوں نے کہا: ’’آپ کی بات سچ ہے، اس کتاب کو کسی انسان نے نہیں بلکہ شیطان نے لکھا ہے۔‘‘
میری نظر میں اس قسم کا احمقانہ لیکن افسوسناک موقف اختیار کرنے کی کچھ وجوہات ہیں: اولاً یہ ایک جلدی میں تراشاہوا سستا عذر ہے، اس کے ذریعہ کسی بھی لاجواب کردینے والی سچویشن سے چھٹکارا پایاجاسکتا ہے۔ بائبل کے عہد نامہ میں بھی اسی قسم کاایک واقعہ درج ہے۔ قصّے کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ اپنی معجزاتی قوت سے ایک مردہ آدمی کو زندہ کردیتے ہیں۔ اس آدمی کی موت چار دن پہلے واقع ہوچکی تھی، لیکن حضرت عیسیٰ کے ’قم‘ کہہ دینے سے وہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔ اس حیرتناک منظر کامشاہدہ بعض یہودی بھی کررہے تھے، اس واضح معجزہ کو سر کی آنکھوں سے دیکھ کر بھی ان کا جو تبصرہ تھا وہ قابل عبرت ہے۔ انھوں نے کہا: ’’یا تو یہ شخص ﴿حضرت عیسیٰؑ ﴾ بذات خود شیطان ہے یا شیطان اس کی مدد کررہا ہے۔‘‘ اس قصے کو دنیا بھر کے عیسائی کلیساؤں میں بار بار ذکر کیاجاتا ہے اور عیسائی حضرات موٹے موٹے اشک بہاتے ہوئے اس قصے کو سنتے ہیں اور کہتے ہیں: ’’اگر ہم اس جگہ ہوتے تو یہودیوں کی سی حماقت ہم سے سرزد نہ ہوئی ہوتی۔‘‘ لیکن رونے کا مقام ہے کہ بعینہٰ یہی لوگ تین چار منٹ میں چند قرآنی علمی معجزات کو جان لینے کے بعد وہی طرز عمل اختیار کرتے ہیں جو ان کے نبی کے تعلق سے یہودیوں نے کیاتھا، یعنی یہ شیطان کا کام ہے یا اس کتاب کی تیاری میں شیطان کا تعاون شامل رہا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ یہ حضرات جب مباحثہ کے دوران کسی تنگ زاویے میں پھنس جاتے ہیں اور کوئی معقول ومقبول جواب انھیں سجھائی نہیں دیتا تو پھر ان کی جانب سے اسی طرح کے سستے اور ریڈیمنڈ اعزار کا سہارا لیا جاتاہے۔
اس قسم کے کمزور فکری موقف کی دوسری مثال ہمیں کفارِ مکہ کے یہاں بھی دکھائی پڑتی ہے۔ اسلامی دعوت کے سامنے علمی وعقلی سطحوں پر ہزیمت اٹھانے کے بعد انھوں نے بھی اسی نوعیت کے عذر تراشنے شروع کردیے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ شیطان ہی ہے جو محمدﷺ کو قرآن کی تعلیم دیتا ہے۔ لیکن قرآن کریم نے اس طرح کی ساری افواہوں ، عذر تراشیوں اور الزامات کی پرزور تردید کی ہے۔ اس سلسلے کی ایک خاص آیت یہ ہے:
وَمَاھُوَ بِقَوْلِ شَیْطَانِ رَجِیْمٍoفَأَیْنَ تَذْھَبُوْنَoاِنْ ھُوَ اِلاَّ ذِکْرٌ لِّلْعَالَمِیْنَo﴿التکویر۲۵-۲۷﴾
’’یہ کسی شیطان مردود کا قول نہیں ہے، پھر تم لوگ کدھر چلے جارہے ہو؟ یہ تو سارے جہاں والوں کے لیے ایک نصیحت ہے۔‘‘
اور اس طریقے سے قرآن نے، ان خیالی مفروضات کی قلعی کھولی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم میں بے شمار ایسے دلائل وشواہد موجود ہیں جو اس مفروضے کی، پوری وضاحت کے ساتھ تردید کرتے ہیں۔ مثلاً قرآن کی چھبیسویں سورت میں ارشاد فرمایاگیا ہے:
وَمَا تَنَزَّلَتْ بِہِ الشَّیَاطِیْنُoوَمَایَنْبَغِیْ لَھُمْ وَمَا یَسْتَطِیْعُوْنَo اِنَّھُمْ عَنِ السَّمْعِ لَمَعْزُوْلُوْنَo ﴿الشعراء:۲۱۰-۲۱۲﴾
’’اس ﴿کتاب مبین﴾ کو شیاطین لے کر نہیں اُترے ہیں، نہ یہ کام ان کو سجتا ہے، اور نہ وہ ایسا کر ہی سکتے ہیں، وہ تو اس کی سماعت تک سے دُور رکھے گئے ہیں۔‘‘
اور ایک دوسری جگہ یہ تعلیم دی جاتی ہے:
فَاِذَا قَرَأَتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْبِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ۔ ﴿النحل:۹۸﴾
’’جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطانِ رجیم سے خدا کی پناہ مانگ لیا کرو۔‘‘
اب ان آیات پر غور کرکے بتایاجائے کہ کیا شیطان اس طرح کی کتاب خود تیار کرسکتا ہے؟ کیا شیطان اتنا ہی سادہ لوح ہے کہ وہ اپنے قارئین سے التماس کرے گا کہ دیکھو میری کتاب پڑھنے سے پہلے تم اللہ سے اس بات کی دُعا ضرور کرو کہ وہ میرے کیدوشر سے تمھاری حفاظت فرمائے۔ اس طرح کی حرکت آخری درجہ کی خود فریبی وحماقت ہے جس کی توقع انسان سے تو کی جاسکتی ہے مگر شیطان سے نہیں۔
مسئلہ کا دوسرا رُخ یہ ہوسکتا ہے کہ شاید شیطان ہی نے انسانوں کوگمراہ کرنے کے لیے اس قسم کی ہدایت شامل کردی ہے ، تاکہ سادہ لوح سامعین اس پر فریب نصیحت کے بعد اس کی کتاب کے دجل وفریب کا آسانی کے ساتھ شکار ہوتے رہیں۔ لیکن یہاں پر ایک انتہائی خطرناک سوال رونما ہوجاتاہے کہ کیا حکمت الٰہی کے تحت اس قسم کی آخری درجہ کی فریب دہی کااختیار شیطان کو تفویض کیاگیا ہے؟ اور کیا اس طرح کے مفروضے کو مان لینے کے بعد کسی بھی موجودہ مذہب ودین کی صداقت شبہات کے دائرہ میں نہیں آجاتی ہے؟ بہت سے عیسائی دینی رہنما اس بارے میں صراحت کے ساتھ توقف کاپہلو اختیار کرلیتے ہیں۔ جب کہ عیسائیوں کی اکثریت اس بات کااعتقاد رکھتی ہے کہ شیطان ایسا نہیں کرسکتا کیونکہ اگر وہ کرنا بھی چاہے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی اجازت نہیں دیں گے۔ یہ ایک حقیقت بھی ہے کہ اگر شیطان کو اس قسم کی دراندازیوں اور چالبازیوں پر قادر مان لیا جائے گا تو دنیا کے تمام ادیان ومذاہب کا نفس وجود بھی شک وانکار کے گھیرے میں آجاتا ہے۔ لیکن قرآن کے سلسلے میں اکثر غیر مسلم حضرات کا رویہ عملی طور پر یہی عکاسی کرتا ہے کہ ان کے نزدیک شیطان وہ سبھی کچھ کرسکتا ہے۔ جو صرف اللہ کی قدرت کاملہ سے متوقع ہے۔ کیوںکہ یہ لوگ قرآنی حقائق کے تئیں اپنی حیرت وپسندیدگی کا اقرار کرنے کے باوجود، اس کو شیطانی کارنامہ قرار دینے پر مصر نظر آتے ہیں۔
اللہ کا لاکھ شکر ہے کہ مسلم معاشرہ اس شیطانی مرض سے محفوظ ہے۔ ہمارے نزدیک شیطان کو کچھ استثنائی قوتیں حاصل تو ہیں لیکن ان قوتوں کا تقابل، اللہ کی قدرت کاملہ سے کرنا ایسا ہی ہے کہ سمندر کے مقابلے پانی کی چند بوندیں، یہی اسلام کا عقیدہ ہے اور اس کا اعتراف کیے بغیر کوئی شخص مسلمان نہیں رہ سکتا۔ اب ایک دوسرے پہلو سے غور کیجئے، عام آدمی تک کے احاطۂ معلومات میں یہ بات ہے کہ شیطان سے غلطیوں کا صدور ہوتا ہے اور یہ کہ وہ معصوم عن الخطا نہیں ہے۔ اس عام معلومات کا لازمی تقاضا بنتا ہے کہ وہ اپنی تصنیف کردہ کتاب کو بھی غلطیوں اور تناقضات سے بھردے، جب کہ قرآن صراحت کے ساتھ اعلان کرتا ہے کہ اس کے اندر کسی قسم کا تناقض نہیں کیونکہ وہ منزل من اللہ ہے۔
اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلاَفاً کَثِیْراً۔ ﴿النساء:۸۲﴾
’’کیا یہ لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اس میں بہت کچھ اختلاف بیانی پائی جاتی ہے۔‘‘
عام طورسے غیر مسلموں کے پاس اور بھی کچھ اعذار ہیں جن کی بنیاد پر، قرآن کو انسانی قوت مخیلہ کی اختراع قرار دیا جاتا ہے۔ غیر مسلموں کی جانب سے کیے گئے اسلام کے گہرے مطالعہ اوربحث وتحقیق کا جو حاصل عموماً نظر آتا ہے وہ چند باہم متناقض مفروضات کا پلندہ ہے۔ بیشتر مفروضوں کا بنیادی تھیم یہی ہوتا ہے کہ دراصل محمدﷺ کو ایک نفسیاتی بیماری لاحق تھی، اس بیماری کا نام اسطوری لمس یا خود پسندی کا جنون (Mythomania) ہے۔ اس بیماری میں مبتلا شخص اپنے ہر جھوٹ کو دل کی گہرائیوں سے سچ سمجھتا ہے۔ غیر مسلموں کاکہنا ہے کہ محمدﷺ بھی دراصل ایک ایسے ہی انسان تھے، ان کو اپنے بارے میں نبی ہونے کا واہمہ ہوگیاتھا۔ ان حضرات کے اس نظریہ کو بفرض محال کچھ دیر کے لیے تسلیم کربھی لیاجائے تو بڑی دشواری یہ پیدا ہوجاتی ہے کہ اس مرض میں مبتلا انسان کبھی بھی زندگی کی سچائیوں اور روز مرہ کے واقعات سے خود کو ایڈجسٹ نہیں کرپاتا، لیکن محمدﷺ کے کیس میں ہم پاتے ہیں کہ ان کی لائی ہوئی کتاب پوری کی پوری حقائق پر مبنی اور واقعات کامرقع ہے۔ اور قرآن کا مبنی برحقیقت وصداقت ہونا، ہر انسان خود بخود بحث وتحقیق کرکے جان سکتا ہے۔
اس مرض میں مبتلا انسان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی خیالی دنیا میں رہنے والا گوشہ نشیں بن جاتا ہے۔ وہ جیتے جاگتے سماج کی گہماگہی کا سامنا نہیں کرپاتا، اس لیے خاموشی کے ساتھ اس سے کنارہ کشی اختیار کرلیتا ہے۔ جدید نفسیاتی طب بھی ایسے شخص کاعلاج یہی تجویز کرتی ہے کہ اسے تسلسل کے ساتھ حقائق کی دنیا سے دوچار کرایا جاتا رہے۔ مثال کے طور پر اگر ایسا نفسیاتی مریض اپنے آپ کو انگلینڈ کا بادشاہ خیال کرتا ہے، تو اس کا معالج اس کی تردید میں یہ نہیں کہے گا کہ ’’تم بادشاہ نہیں ہو، بلکہ حقیقت میں تمہیں دماغی شکایت ہے‘‘۔ ایسے مریض کے طریقۂ علاج کی رو سے فوراً تردید کے بجائے اس کے سامنے حقائق پیش کیے جائیں گے۔ مثلاً اس سے کہا جائے گا: اگر تم ہی انگلینڈ کے بادشاہ ہو تو بتاؤ آج ملکہ کہاں قیام پذیر ہوں؟ اور تمھارے وزیر اعظم کا اسمِ گرامی کیا ہے؟ اور تمھارے شاہی پہرے دار بھی نہیں معلوم کہاں ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کا مریض ان سوالوں کے جواب میں صعوبت محسوس کرتے ہوئے الٹے سیدھے جواب دے گا، مثلاً آج ملکہ اپنے مائیکے گئی ہیں۔ وزیر اعظم کاانتقال ہوگیا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اور آخر کار ان حقائق کی کوئی معقول توجیہہ نہ پاکر وہ اس مضحکہ خیز مرض سے شفا پاجاتا ہے اور جیتے جاگتے واقعات کے سامنے سپرڈالتے ہوئے مان لیتا ہے کہ حقیقت میں وہ انگلینڈ کا بادشاہ نہیں ہے۔ ﴿جاری﴾
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2011