اوکھلا نئی دہلی میں مرکز جماعت اسلامی ہند، جو دعوت نگر کے نام سے مشہور ہے، ایک چھوٹی سی بستی ہے۔ یہ قدرتی ماحول کے اعتبار سے بہت پاکیزہ اور علم وعمل کے لحاظ سے نہایت معتبر ہے۔ اس کو ایک ایسا بقعہ نور کہا جا سکتا ہے جہاں سے اسلامی تعلیمات اور دعوت اسلامی کی کرنیں پھیل کر نہ صرف ہندوستان بلکہ ایک حد تک پوری دنیا کومنور کر رہی ہیں۔ اس خطے میں مشہور علما، مصنفین، مقررین، شعرا اور مدیران اخبارات و رسائل جلوہ افروز ہیں۔ قرب و جوار کی آبادی بھی حسب توفیق یہاں سے فیض یاب ہوتی رہتی ہے۔
میرے پیش نظر یہاں کسی عالم، فاضل، خطیب شاعر یا مصنف کے اوصاف حمیدہ بیان کرنا نہیں ہے جن کے نام اور کام اخبارات ورسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں اور جن کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ میں ایک ایسے باغ بان کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو نام و نمود سے دور اپنے کام میں مگن رہتا ہے۔ وہ ہماری ان قدروں کا محافظ ہے جو شاہراہ زندگی کے روشن چراغ ہیں۔
اس باغ بان کا نام عظیم اللہ ہے۔ اس کے ایک پیر میں لنگ ہے۔ وہ روز اپنی ایک پرانی سائیکل پر سوار ہو کر کئی میل کا سفر کرتا ہوا وقت مقررہ پر اپنے باغیچے میں پہنچ جاتا ہے۔ اس کے آنے کا وقت ہمیں معلوم ہے، جانے کے وقت کا اندازہ نہیں ہے۔ البتہ وہ دن چھپے تک اپنے باغیچے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ وہ اپنے کام میں منہمک رہتا ہے۔ وہ باغیچے کو بناتا، سنوارتا اور ماحول میں خوشبوئیں بکھیرتا ہے۔ جو قطعہ زمین باغ بانی کے لیے اس کے سپرد ہے اُس کو اُس نے گل زار بنا رکھا ہے۔ وہ کیاریاں بناتا، پودے لگاتا، اُن میں کھاد ڈالتا اور سینچائی کرتا ہے۔ پودے جیسے جیسے بڑے ہوتے ہیں اس کی خوشی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ وہ پودوں کے قریب جاتا ہے۔ پتوں کو چھوتا اور نہارتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ پودوں سے باتیں کر رہا ہے۔ جب پودوں پر پھول آتے ہیں تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں رہتا۔ باغ کے کنارے کنارے جو ہرے بھرے بڑے بڑے پودے اگائے گئے ہیں، اُن کو ٹھیک ٹھاک کرنا، یعنی ان کی تہذیب کی ذمہ داری اس کی ہے۔ ان کی پرورش اور نگہ داشت اور نظم وضبط کوئی اس سے سیکھے۔ بدنظمی اس کو بالکل گوارا نہیں ہے۔ جس پتے یا شاخ نے اپنے دائرے سے ہاتھ پیر باہر نکالے، اس نے انھیں پیار سے قطع کر دیا۔ اس کو پودوں سے بہت محبت ہے۔ اس کے کئی بیٹے بیٹیاں ہیں، لیکن صبح سے شام تک اس کو باغیچے میں دیکھ کر یہ کہنا مشکل ہے کہ اسے زیادہ پیار اپنے نسبی بیٹے بیٹیوں سے ہے یا پھر ان پودوں سے جن کی دیکھ ریکھ اس کے ذمے ہے۔
وہ اپنے کام میں اتنا مصروف رہتا ہے کہ اسے اپنی خبر تک نہیں رہتی۔ نہ اسے شہرت کی پروا اور نہ دولت کی طلب۔ اس کی دولت و شہرت اس کا باغیچہ ہے۔ خدا کا شکر ہے اس کے باغیچے میں کبھی کوئی بیماری داخل نہیں ہوئی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کے خلوص و محنت اور پودوں کی محبت نے باغیچے کو بیماری سے بہت دور رکھا ہے۔
باغ کے داروغہ کو کبھی اسے ہدایت دیتے ہوئے یا نگرانی کرتے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔ جولوگ اس کے پاس سے گزرتے ہیں اس کے کام سے متاثر اور خوش ہوتے ہیں۔ وہ اپنی تعریف سے بے نیاز ہے۔ وہ میدان میں گھاس ا گاتا ہے جس سے لان بڑا خوب صورت نظر آتا ہے۔ وقت پر پانی دینا اور اضافی گھاس کو وقت پر کاٹنا اس کی ذمہ داری ہے، جسے وہ خوش دلی سے انجام دیتا ہے۔ سخت گرمی کے موسم میں جب دوسرے میدانوں میں گھاس جل جاتی ہے، اس کے علاقے میں گھاس زندہ رہتی ہے اور اپنا رنگ جماتی ہے۔ اس لیے کہ وہ گھاس کو پیاسا نہیں چھوڑتا۔ عظیم اللہ کوموسم کی کوئی پروا نہیں۔ موسم سرما کی ٹھنڈک میں وہ اپنا کام کرتا رہتا ہے اور موسم گرما میں جب کہ مئی جون میں سورج اپنی تمازت بکھیرتا ہے اس کے جسم سے پسینہ بہتا رہتا ہے مگر وہ پودوں کی پرورش اور نگہداشت میں مصروف رہتا ہے۔
در اصل جولوگ اپنی مفوضہ ذمہ داریوں میں اتنے مصروف رہتے ہیں، اپنے کاموں میں اتنی دل چسپی لیتے ہیں کہ ہر مشغلہ ان کے لیے لذت بخش بن جائے، وہی کام یابی کے مستحق قرار پاتے ہیں، بلکہ کام یابی خود بڑھ کر ان کے قدم چومتی ہے۔ ناموافق ماحول اور حالات میں سرفرازی ان کا مقدر ہے۔ ہماری قوم انھی صفات سے محروم ہے۔ اب اس شکایت میں ہم کتنے حق بجانب ہیں اس کا فیصلہ آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔
عظیم اللہ سے مجھے بڑی محبت ہے۔ اس میں ایک اور خوبی ہے جس کو بہ آسانی دیکھا اور محسوس کیا جاسکتا ہے۔ وہ ہے اس کی نماز سے محبت۔ موذن کی آواز جیسے ہی اس کے کان میں پڑتی ہے وہ اپنا کام چھوڑ دیتا ہے، جیسے اسے ان پیارے خوب صورت پودوں اور پیڑوں سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ ہاتھ پیر جھاڑ کر وضو خانے کی طرف لپکتا ہے، وضو سے فارغ ہو کر دوگانہ نماز پڑھی اور اول صف میں بیٹھ گیا۔ نماز سے فارغ ہوکر دو لقمے پیٹ میں ڈالے اور پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔
اس کی محنت، اس کا انہماک، دل چسپی اور پابندیٔ وقت نہ صرف قابل تعریف ہیں بلکہ قابل تقلید بھی ہیں۔ یہ بھی اللہ کافضل ہے کہ اسے بیمار ہوتے نہیں دیکھا گیا۔
وہ ہے تو ایک باغ بان، ایک مالی، لیکن وہ کوئی معمولی آدمی نہیں ہے۔ وہ ہماری قدروں کا امین ہے۔ وہ طلبہ، اساتذہ، مقررین، مصنفین، ایڈیٹر حضرات اور علما کے لیے رول ماڈل ہے۔ اللہ اس کی عمر دراز کرے۔ جب میں اسے دیکھتا ہوں تو مجھے اللہ کے پیارے رسول ﷺ کی وہ حدیث یاد آجاتی ہے جس میں آپؐ نے فرمایا: إن الله یحب إذا عمل أحدكم عملا أن یتقنه۔
‘‘اللہ تعالی اس شخص کو بہت پسند کرتا ہے کہ جب وہ کوئی کام کرے تو اس کا حق ادا کرے۔’’
چمن بندی سے پہلے اس حقیقت پر نظر ڈالو
کہ مالی کس طرح کرتا ہے شاخوں سے ثمر پیدا
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2022