نوٹ: امسال عیدالفطر (۹؍اگست ۲۰۱۳) کے موقع پر محترم امیر جماعت اسلامی ہند، مولانا سید جلال الدین عمری نے مسجداشاعت اسلام نئی دہلی میں جوخطبہ دیاتھا اسے یہاں ’’اشارات‘‘کے تحت شائع کیاجارہاہے۔ {
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدُآءَ بِالْقِسْطِ وَلَایَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی اَلاَّ تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَاَقُرَبُ لِلتَّقْوٰی وَاتَّقُوْااللّٰہَ اِنّ اللّٰہَ خَبِیْرٌبِمَا تَعْمَلُوْنَ )المائدۃ:۸(
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کے لیے کھڑے ہونے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو۔کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جائو۔ عدل کرو ، یہی بات تقویٰ سے زیادہ قریب ہے۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو ، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اْس سے پوری طرح باخبر ہے۔ ‘‘
خواتین و حضرات!
میں آپ تمام بھائیوں اور بہنوں کو دل کی گہرائیوں سے عیدکی مبارک باد پیش کرتاہوں۔دعاہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو اس طرح کی بہت سی خوشیاں عطافرمائے۔
رمضان المبارک میں ہم سب نے باجماعت فرض نمازوںکا اور تراویح کا اہتمام کیا، قرآن مجید کی کثرت سے تلاوت کی، اسے سمجھنے کی بھی کسی حد تک کوشش کی، زکوۃ اداکرنے والوں نے زکوۃ اداکی،جن پر زکوۃ فرض نہیں تھی انھوں نے بھی حسب استطاعت صدقہ وخیرات کا ثواب حاصل کیا، بعض خوش نصیب اصحاب نے شب قدر کی تلاش میں شب بیداری بھی کی۔ اللہ تعالی ہماری ان عبادتوں کو قبول فرمائے۔
نیکی کی راہ میں ہماری ان کوششوںکوہلال عیدکے ساتھ ختم نہیں ہوجاناچاہیے۔ جواعمال رمضان کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں ان کی طرف رمضان کے بعد بھی ہماری توجہ اوراہتمام ہوناچاہیے۔ اس ماہ مبارک میں ہم نے اللہ تعالیٰـ کے بندے ہونے اور اس کے احکام کے پابند رہنے کا جو ثبوت دیاہے اور عبادت واطاعت کی جوپاکیزہ زندگی گزاری ہے ،اسے جاری رہنا چاہیے۔
محترم حضرات وخواتین!
موجودہ دورنے مادی لحاظ سے جوغیرمعمولی ترقی کی ہے ، اس کا ایک پہلو یہ ہے کہ اس میں تعلیم عام ہورہی ہے، جہالت اور ناخواندگی ختم ہورہی ہے۔ بعض ممالک نے صد فی صد تعلیم کا ہدف پالیاہے۔ خودہمارے ملک میں بھی تعلیم کا اوسط تیزی سے بڑھ رہاہے۔ اس کے ساتھ آج کی دنیا کوشائستہ بااخلاق،مہذب اور پابند قانون ہونے کا دعویٰ ہے۔ یہاں آزادی ٔ فکر وعمل، مساوات، عدل وانصاف اورانسان کے بنیادی حقوق کا چرچابھی ہے اِن حقوق کو تسلیم بھی کیاجاتاہے۔ لیکن اس کے باوجود اس وقت دنیامیں جدھر دیکھئے،ان حقوق پرشب خوں مارا جارہاہے اور یہ حقوق بری طرح پامال ہورہے ہیں۔ہر طرف ظلم وناانصافی کا دور دورہ ہے۔ ظلم ہے کم زوروںپر- یہ نہ بھولیے کہ دنیا میں کم زوروںہی پر ظلم ہوتاہے اور ہوسکتاہے -ظلم ہے اقلیتوںپر، غریبوں اور ناداروںپر، ان کے معصوم بچوںاور عورتوںپر۔ان کے حقوق پامال ہورہے ہیں اور ان کا جس قدر استحصال ہوسکتاہے، ہورہاہے۔ خود ہمارے ملک میں دیکھئے کتنے ہی بے گناہ دہشت گردی کے بے بنیاد الزام میں جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند ہیں۔ انھیں اپنی بے گناہی ثابت کرنے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔ کم زور افراد اور طبقات ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے بھی ہیں تو ان کی آواز بالعموم صدابہ صحرا ثابت ہوتی ہے اور مشکل ہی سے سنی جاتی ہے۔ وہ انصاف چاہتے ہیں ،لیکن انصاف نہیں حاصل کرپاتے۔ طاقت ور طبقات کم زور گروہوں کو ان کا حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ افراد کی طرح قوموںکی آزادی کا بھی اعلان کیا جاتاہے، لیکن انھیں آزادی سے اپنے معاملات کے بارے میں فیصلہ کا حق نہیں دیاجاتا۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس دنیا میں ہرسوظلم کے بادل کیوں چھائے ہوئے ہیں ؟اس کا جواب یہ ہے کہ انسان اس حقیقت کو فراموش کرچکاہے کہ اس کائنات کا ایک خالق اور مالک ہے اورانسان اس کی مخلوق ہے۔ ایک وقت آنے والا ہے اور وہ لازماً آئے گا، جب کہ اسے اپنے مالک کے سامنے حاضرہوکر اپنے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہوگا وہ اپنے کیے کی جزایاسزاپاکررہے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس دنیاکا پیداکرنے والا ظلم کو سخت ناپسند کرتاہے اور اسے دیرتک برداشت نہیں کرتا۔جن قوموںنے ظلم کی راہ اختیار کی، زیادہ مدت نہیں گزری کہ وہ خالق کائنات کے عذاب کی زدمیں آگئیں۔ قرآن مجید اس طرح کی بعض قوموں کے ذکر کے بعد کہتاہے:
وَکَذٰلِکَ اَخْذُ رَبِّکَ اِذَا اَخَذَ القُرَیٰ وَہِیَ ظَالِمَۃٌ اِنَّ اَخْذَہٗ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ (ہود:۱۰۲(
’’اور اس طرح ہوتی ہے تیرے رب کی پکڑ،جب وہ بستیوںکو پکڑتاہے جنھوںنے ظلم کی راہ اختیارکی تھی۔ بے شک اس کی پکڑ بڑی دردناک اور شدیدہوتی ہے۔‘‘
عملی سوال یہ ہے کہ دنیا سے جوروظلم کیسے ختم ہواورعدل وانصاف کیسے قائم ہو؟اللہ تعالیٰ نے اس امت کو ہدایت کی کہ وہ یہ نازک فرض انجام دے۔ ارشاد ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ، (اے لوگوجوایمان لائے ہو، اللہ کے لیے مضبوطی سے کھڑے ہوجاؤ)اللہ کے لیے، اس کی رضا اور خوشنودی کے لیے ، اس کی اطاعت وفرماںبرداری کے لیے ، اس کی ہدایات کی پابندی کے لیے’شُہَدُآئَ بِالْقِسْطِ ‘ (عدل وانصاف کی شہادت دینے والے بن کر کھڑے ہوجاؤ)جہاں بھی ظلم ہو،ناانصافی ہو، حق تلفی ہو ، وہاں تم حق وانصاف کے شاہد بن کر کھڑے ہوجاؤ۔ ’’وَلَایَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَی اَلاَّ تَعْدِلُوْا‘یادرکھوکبھی معاملہ حریف قوم سے بھی پیش آسکتاہے، لیکن ( کسی کی عداوت اور دشمنی تمہیں اس قدربرانگیختہ نہ کردے کہ تم عدل وانصاف کا دامن چھوڑبیٹھو) ایسا نہ ہوکہ ظلم وتعدّی تمہاری سیرت وکردارکوداغ دارکرنے لگے۔ اِعْدِلُوْا ھُوَاَقُرَبُ لِلتَّقْویٰ (المائدۃ:۸) (انصاف کرو،یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے)تم نے تقویٰ اور خداترسی کی راہ اختیارکی ہے اور اسی کی دنیا کودعوت دیتے ہو۔ تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ ہرحال میں انصاف پرقائم رہو۔ اللہ سے ڈرو کہ تمہاراکوئی عمل اس سے پوشیدہ نہیں ہے۔وہ دیکھ رہاہے کہ تم عدل وانصاف کی شہادت دیتے ہویا تمہارے قول وعمل سے ناانصافی کوتقویت پہنچ رہی ہے۔
ایک اور جگہ اہل ایمان کو ہدایت ہے۔
کُوْنُوْا قَوّٰ مِیْنَ بِالْقِسْطِ(عدل وانصاف پر مضبوطی سے جمنے والے بن جاؤ۔) تمہارایہ عمل وقتی اور ہنگامی نہیں، بلکہ مستقل اور دائمی ہو۔ عدل وانصاف تمہاری پہچان بن جائے۔ ’شُہَدَآئَ لِلّہ‘ِ، تمہاری شہادت اور گواہی صرف اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لیے ہو، اس میں کوئی دوسری غرض شامل نہ ہو۔’وَلَوْعَلَیٰٓ اَنْفُسِکُمْ اَوِالْوَالِدَیْنِ وَالاَ قْرَبِیْنَ عدل وانصاف کے لیے قدم جمائے مضبوطی سے کھڑا ہونااور اس کی شہادت دینا آسان نہیں ہے۔ اس میں کبھی ذاتی نقصان برداشت کرناپڑسکتاہے اور کبھی اس کی زدمیں ماں باپ اور قریب ترین خونی رشتہ دار آسکتے ہیں۔ تمہارا منصب یہ ہے کہ اس اندیشے سے بے نیاز ہوکر انصاف کی گواہی دو۔ ’اِنْ یَّکُنْ غَنِیّاً اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِہِمَا‘معاملہ کسی تونگرکا ہو تواس کی تونگری سے خوف کھاکراور اگرکسی غریب کا ہو تو اس کی غربت پر رحم کھاکرانصاف نہ چھوڑبیٹھو۔ اللہ تم سے زیادہ ان سے قریب ہے۔ وہ ان کے حالات سے باخبر ہے۔ وہ اپنی حکمت کے تحت ان کے ساتھ معاملہ کرے گا۔ ’فَلاَ تَتَّبِعُوْا الْہَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا‘خواہش نفس عدل کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے ۔ یاد رکھو ، اس کی اتباع تمہیں انصاف سے نہ بازرکھنے پائے۔ فرمایا:وَ اِنْ تَلْوٗ اَوْ تَعْرِضُوْا فَاِنّ اللّٰہَ کَانَ بِمَاتَعْمَلُوْنَ خَبِیْراً۔(النساء:۱۳۵) اگرتم نے زبان کو لچکا کر غلط بیانی سے کام لیا یا اعراض اور انحراف کا رویہ اختیارکیاتوسمجھ لوکہ خدادیکھ رہاہے ، تمہارے ایک ایک عمل سے باخبر ہے۔
یہ ہدایت اہل ایمان کو کی گئی کہ وہ عدل وانصاف کے لیے مضبوطی سے کھڑے ہوں، اس میں اپنوں اور غیروں کے درمیان ہرگزفرق نہ کریں ، عدل کے لیے ہر طرح کے مفادات اورتعلقات کوقربان کرنے اور نقصان برداشت کرنے کے لیے تیاررہیں۔ اس راہ کی کسی بھی آزمائش میں ان کے قدموںمیں لغزش نہ آنے پائے۔ اس ارشاد کا خطاب کسی فردیاگروہ سے نہیں، بلکہ تمام اہل ایمان سے ہے کہ وہ سب مل کر اور ایک دوسرے کے تعاون سے اس پاکیزہ مقصدکوپواراکریں۔
لیکن افسوس ،تاریخ عالم کا اس سے بڑا المیہ اور کیاہوگا کہ امت اپنی اس ذمہ داری کو فراموش کرچکی ہےچنانچہ دنیا کی قوموں میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جو ذاتی ، گروہی، قومی یاسیاسی مفادات سے بلند ہوکر صرف اللہ کی رضا کے لیے قیام عدل کی ذمہ داری اداکرے اور اس کے لیے ہر طرح کا نقصان برداشت کرے۔ سوال یہ ہے کہ پھر ظلم کا خاتمہ کیسے ہو اور عدل وانصاف کیسے قائم ہو؟
پوری نوع انسانی اور اس کے کسی طبقہ کے سامنے یہ سوال ہویانہ ہو ،لیکن سوال موجود بہر حال ہے اور اپنا جواب چاہتاہے۔ اللہ تعالی کی پیداکردہ یہ وسیع کائنات ششدرہے۔ یہ نیلگوںآسمان، جس کی طنابیں ہمارے چاروںطرف کھنچی ہوئی ہیں اور جس کے سایے میں ساری مخلوق جی رہی ہے ،حیرت زدہ ہے ۔ یہ پرنورشمس وقمر،یہ جھلملاتے ستارے حیرت واستعجاب کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ یہ کرۂ ارض اپنے تمام سازوسامان کے ساتھ سوال کررہاہے کہ جس امت کو عدل وانصاف قائم کرنے اور ظلم و ناانصافی مٹانے کا حکم دیاگیاتھا،وہ کیوں اس فریضے سے غافل ہے؟
جس امت سے کہاگیاتھاکہ عدل وقسط کے قیام کے لیے اور اس کی شہادت کے لیے کمربستہ ہوجائے وہ آج خود اپنے لیے انصاف کی طالب ہے، وہ دوسروں کو اپنی مظلومیت کی داستان سناکر انصاف کی فریادکررہی ہے، اسے اپنے اوپر ہونے والی زیادتیوںکا غم کھائے جارہاہے اور ان ہی کورفع کرنے کے لیے وہ سرگرداں ہے، اس کی توجہ ان مظالم کی طرف نہیں ہے جوانسانیتِ عامّہ پر ہورہے ہیں۔ اس کا تعارف ہی ایک ایسی قوم کی حیثیت سے ہونے لگاہے، جومحض اپنے حقوق کے لیے لڑرہی ہے، جسے اس بات کی فکرنہیں ہے کہ اسی دنیا میں عام انسانوںکے بھی حقوق پامال ہورہے ہیں۔
یہ امت جوکروڑوںکی تعدادمیں ہے، اگرقیام عدل کے لیے کمربستہ ہوجائے اور ہر خوف وخطر اور طمع اورلالچ سے بے نیاز ہوکر انصاف کی شہادت دینے لگے ،اگر اس مقصد کے حصول کے لئے اس کے اندرایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا جذبہ ابھر آئے اور وہ حصول انصاف کے لیے متحداور صف بستہ ہوجائے تویقینا دنیا کا نقشہ بدل سکتاہے۔ اُمت جہاں اقتدار میں ہوبغیر کسی تفریق کے ہر مظلوم کو انصاف فراہم کرے تودنیا کے لیے وہ نمونہ بن جائے گی، جہاں اقتداراُسے حاصل نہیں ہے وہاں اُسے چاہیے کہ قیام عدل کی جدوجہد کرے محض اپنے لیے انصاف کے مطالبہ پر قناعت نہ کرے، بلکہ جس کسی پر بھی ظلم ہو اور جو بھی انصاف سے محروم ہواس کی حمایتمیں کھڑی ہوجائے توتوقع ہے کہ امت پر ہونے والے ظلم کے خلاف ہزارہاآوازیں اسی دنیا میں بلندہونے لگیںگی اور پھر کسی کمزورفرد یا طبقے کوہدف جوروستم بنانا آسان نہ ہوگا۔دنیا اسی اقدام کی منتظر ہے۔
کانپتا ہے دِل ترا اندیشہ طوفاں سے کیا
ناخدا تو، بحر تو، کشتی بھی تو، ساحل بھی تو
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2013