پہلے ہم قرآن فہمی کے ان لوازم کے بارے میں چند معروضات رکھنا چاہتے ہیں جن کا اشارہ اس عنوان ہی میں ہے۔ اس تعلق سے اصولی بات یہ کہ جب کوئی قرآن حکیم کا طالب علم اس کتاب سے مطلوبہ استفادہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اُس کے لیے بعض شرائط و آداب تو وہ تھے جن کا ذکر پہلے کیا جاچکا ہے لیکن ان آداب و شرائط کے علاوہ بعض وہ امور ہیں جن کا براہِ راست تعلق قاریِ قرآن اور طالب ہدایت بالقرآن کی علمی و عقلی اہلیت، قلبی کیفیت اور موزوں ترین علمی ماحول کی فراہمی اور روحانی فضا قائم کرنے سے ہوتا ہے کہ جس کیفیت قلبی اور نورانی ماحول میں ا یک بندۂ خدا ا پنے رب سے ہم کلام ہو کر گویا اپنے رب کے حضور براہ راست زانوے تلمذ تہہ کرتا ہے۔ حالاں کہ طالبِ علمِ قرآن صرف ہدایت الٰہی کی غرض سے ہی قرآن کریم کو کھول رہا ہوتا ہے، نیز پاکیزگیِ نیت اور جسمانی طہارت کی شرط بھی پوری کرتا ہے اور تعوذ و تسمیہ کا اہتمام بھی کرتا ہے پھر بھی ان تمام شرائط کے علاوہ اُسے مزید سات امور کا خاص طور سے اہتمام کرنا ہے، وہ اس طرح ہیں کہ:
)۱( اس کو قرآن کریم ہی سے ہدایتِ حق کے حصول کا یقین کامل ہو یعنی وہ یہ محکم یقین رکھتا ہو کہ اب ’الحق‘ اور ’صراط مستقیم‘ کے حصول اور وصول الی اللہ کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ ہے نبی خاتم محمد ﷺ پر نازل ہونے والا یہ کلام یعنی قرآن مجید۔ کہا جاسکتا ہے کہ ایک غیر مسلم اس شرط کو کیوں کرپورا کرسکتا ہے۔ اس کا جواب بلا شبہ نفی میں ہے۔ یاد رہے کہ ہم یہاں قرآن فہمی کے لوازمات پر گفتگو کررہے ہیں جس کے لیے یہ پہلی شرط واضح طور پر ایک مسلم ہی پورا کرسکتا ہے، وہ بھی وہ مسلم جو ایمان ویقین کی دولت سے واقعی مالا مال ہو۔ ہاں بےشک قرآن سے نصیحت و ہدایت حاصل کرنے کے قرآن کے دروازے تمام انسانوں کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔
)۲( اُسے یہ بھی یقین کامل ہو کہ وہ جب تک اس نورانی کیفیت اور روحانی ماحول سے آراستہ و پیراستہ نہیں ہوگا تب تک اس کو مطلوبہ مقصد حاصل نہیں ہوگا۔ کیوں کہ قرآن کریم اللہ عز و جل کا کلام عالی شان ہے اور کسی انا پرست و متکبر یا ہدایت سے بے نیاز شخص کو اس کے معارف کی بو اور بھنک بھی نہیں ملتی۔ قرآن مجید کی متعدد آیات بشمول سورہ مدثر آیات ۱۱ تا ۲۵، سورہ القلم آیات ۱۰ تا ۲۱، سورہ عبس آیات ۱۱ تا ۱۶ وغیرہ، اس حقیقت کو بتاتی ہیں۔ ہم یہاں صرف سورہ عبس کی مذکورہ آیات پیش کررہے ہیں جن میں فرمان باری تعالیٰ ہے:
کَلَّا اِنَّھَا تَذْکِرَۃ ۔فَمَنْ شَآئَ ذَکَرَہٗ ۔فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ ۔مَّرْفُوْعَۃٍ مُّطَھَّرۃٍ۔ بِاَیْدِیْ سَفَرَۃٍ ۔ کِرَامٍم بَرَرَۃٍ۔
یعنی ’’ہر گز نہیں، یہ ا یک یاد دہانی ہے تو جو چاہے اس سے نصیحت حاصل کرے۔ یہ مکرم، عالی شان اور پاکیزہ صحیفوں میں ہے جو معزز و نیکو کار کاتبوں کے ہاتھوں میں رہتے ہیں‘‘۔
یہاں اللہ تعالیٰ اپنے کلام کی جو شان بیان کررہا ہے اور اس میں جو شانِ بے نیازی جھلک رہی ہے، اس کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔
)۳( وہ ذہنی طور پر بھی ہر طرح سے حاضر ہو اورقلبی طور پر بھی، یعنی وجدانی و شعوری طور پر قرآن کریم کی آیات پر تدبر کے ذریعہ ہدایت الٰہی کا طالب ہو۔ مزید برآںاُس نے قرآن مجید کا مطالعہ کرنے سے پہلے اپنے علم و عقل پر مبنی سارے خیالات و افکار اور سارے تحفظات کو خیرباد کہہ دیا ہو ،حتیٰ کہ تمام مفسرین کی آراء کو انسانی آرا مانتے ہوئے، صرف رب کریم ہی سے سب کچھ لینے کا طالب ہو جو اُسے قرآن مجید ہی سے براہ راست مل سکتا ہے۔
)۴( وہ قرآنی طرز استدلال اور اسالیب قرآنی سے خوب واقف ہو نیز اس کو عربی زبان کی اتنی شد بد ہو کہ ناظرہ اور بغیر معانی کے قرآن کریم پڑھ کر آیات کے بنیادی معنی و مفاہیم تک پہنچ سکتا ہو۔
)۵( وہ مستند کتب تفسیر سے واقف ہو اور اُن سے براہ راست استفادہ کرسکتا ہو خواہ ترجموں ہی کے ذریعہ سہی اور وہ اپنے فہم و تدبر کے ساتھ ساتھ کسی تفسیر کے عالم سے بھی اپنی خامی و خوبی پر مہر استناد ثبت کرانے پر یقین رکھتا ہو۔ آج کل ان تمام شرائط کی ادائیگی مطالعۂ قرآن کے حلقوں میں سرگرم شرکت سے ہوسکتی ہے۔ حالاں کہ اسی سلسلۂ بحث کاماقبل مذکور تیسرا نکتہ اور اس نکتہ میں بظاہر تضاد نظر آتا ہے جبکہ اُس نکتہ میں کسی آیت پر فوری تدبر کے لیے تمام تفسیروں سے خالی الذہن ہو کر قرآن فہمی کا مطالبہ کیا گیا ہے اور یہاں مطلوبہ قرآن فہمی کے حصول اورکلام اللہ سے بھرپور استفادہ کے لیے مختلف مفسرین کی آرا کا علم اہم بتایا جا رہا ہے کیوں کہ یہ اس کے علم کو متنوع رایوں سے مالا مال (enrich) کرائیں گی اور وہ متعدد رایوں میں سے سب سے بہتر رائے کا انتخاب کرنے کے پوزیشن میں ہوسکے گا۔ البتہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ کسی رائے پر مطمئن نہ ہو جس کے لیے وہ غور و تدبر اور اپنے رب سے دعا جاری رکھے۔ موجودہ شرط کا مقصد یہ ہے کہ مطلوبہ قرآن فہمی کے لیے طالبِ علمِ قرآن نہ تو نبیِ اکرم ﷺ کے علاوہ کسی غیر نبی کو حق و باطل کی اصلی کسوٹی سمجھے اور نہ اپنے فہم و عقل ہی پر مطمئن ہوجائے بلکہ متوازن راہ اختیار کرے جس میں حسبِ مراتب آداب ملحوظ رکھتے ہوئے ہر ایک مفسر کی کاوش کو محض ایک انسانی کاوش سمجھے، اصل خدائی مراد نہ سمجھے کہ یہ حقِ آگہی صرف نبی اکرمﷺہی کو ملا ہے۔
)۶( قرآن مجید سے مطلوبہ ہدایت اور قرآن فہمی کے حصول کے لیے قرآن مجید کے طالب علم کو اس کتاب کے بنیادی عقائد اور علمی فریم اورزمانۂ نزول قرآن اور عرب کی روایات وغیرہ کا علم ہونا بھی ضروری ہے اور حضور نبی اکرم محمد ﷺپر گزرنے والے حالات و واقعات یعنی اس قرآنی تحریک کا اصولی و اجمالی علم ہونا بھی ضرور ی ہے۔ مزید برآں ہر سورہ اور مجموعۂ آیات کا ایک پس منظر بھی ہوتا ہے، لہٰذا ان تمام چیزوں کا اجمالی علم حاصل کرنے کے لیے اولاً تو قرآن مجید پر تدبر کرنے سے پہلے کئی بار صرف ترجمۂ قرآن پڑھنا ضروری ہے۔ ثانیاً پہلی قرآنی تحریک کا ایک مستند خاکہ جو سیرت نبوی کی مستند کتابوں میں موجود ہے وہ بھی ذہن میں مستحضر رکھنا ہوگا۔ ثالثاً کسی آیت یا مجموعۂ آیات پر غور و تدبر سے پہلے اس سورہ کا مرکزی موضوع اور زیر بحث آیات کا مجموعی پس منظر معلوم ہونا بھی ضروری ہے۔ ان ذیلی نکات کے ذریعہ یہ کہنامقصود ہے کہ قرآن حکیم کا مطالعہ خلاء میں نہیں ہوتا اور نہ ایک دوآیات لے کر بلا نظم قرآن کی رعایت کے اور سابقہ و لاحقہ آیات کو جانے بغیر قرآنی آیات میں اللہ تعالیٰ کی مراد تک پہنچا جاسکتا ہے، بلکہ قرآن مجید کی آیات اپنے زمان و مکان میں مخاطبین اولین کے مزاج اور تصورات اور ان کے شکوک و شبہات وغیرہ کی رعایت کے ساتھ نازل ہوئی ہیں۔ قرآن کے قاری کو بھی خود کو ذہنی اور تخیلاتی طور پر (virtually) اُس علمی و نفسیاتی نیز زمانی و مکانی ماحول میں لے جا کر زیر بحث آیات کو سمجھنا ہوگا۔
)۷( قرآن مجید سے مطلوبہ استفادہ کے لیے آخری شرط ہمارے نزدیک یہ ہے کہ قرآن کریم سے قاری قرآن بلکہ طالب علم قرآن کا ایک زندہ و تابندہ تعلق (living relation) رکھنا بھی ضروری ہے۔ مزید برآں اس راہ میں اس کو محنت و مشقت سے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ خوشی خوشی لگاتار خود کو ریاض کا عادی بنانا چاہیے جس میں مداومت ہو اور مایوسی کا شائبہ تک نہ ہو۔ ایک بارکیا دس بار بھی بات سمجھ میں نہ آئے تو بھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور رب کریم سے دعا کرتے رہنا چاہیے۔ ایسے مخلص اور پر عزم لوگوں کو ہی قرآن مجید کے خزانۂ علم و ہدایت سے کچھ بیش بہا موتی ملتے ہیں جبکہ بہت سے لوگ تو خزف ریزوں کو ہی موتی سمجھ بیٹھتے ہیں اور اپنے علم کا ڈھنڈورا پیٹتے رہتے ہیں۔
مذکورہ بالا شرائط و آدابِ مطالعۂ قرآن جس کامقصود قرآن فہمی کا حصول ہے، ان پر نظر ڈالنے سے بعض لوگ یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ ان شرائط کی ادائیگی تو صرف عربی زبان سے واقف افراد بلکہ علماء کرام ہی کرسکتے ہیں۔ یہ رائے مبالغہ آمیزی اور قدرے زیادتی پر مبنی ہے کیوں کہ ہم نے عربی زبان کی محض شد بد کو ضروری بتایا ہے وہ بھی اس حد تک کہ قرآنی آیات کا مفہوم ذہن میں آجائے جس کے لیے عربی کی ابتدائی کتابیں کافی ہیں۔ رہی بات کتب تفسیر کے مطالعہ کی تو بر صغیر ہند و پاک میں معروف تفسیروں کا اردو ترجمہ دستیاب ہے اور متعدد اردو تفسیریں بھی حسب ذو ق خریدی جاسکتی ہیں، مستعار لی جاسکتی ہیں یا لائبریری میں جاکر پڑھی جاسکتی ہیں۔ قرآن فہمی بذات خود ایک بڑا علمی کام اور مذہبی فریضہ ہے اوراس کے لیے وقت کو اسی طرح فارغ کرنا ضروری ہے جس طرح ہم معاشی تگ و دو کے لیے کرتے ہیں، کیوں کہ یہ ہماری روحانی غذا کا مسئلہ ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ہم سے اس بارے میں بھی سوال ضرور کرے گا کہ دنیوی علوم کے حصول کے لیے تم نے بھرپور جد و جہد اور محنت کی مگر اپنی عاقبت بنانے اور میری کتاب کو سمجھنے کے لیے تمہارے پاس کوئی پلان اور وقت نہیں تھا، بقول باری تعالیٰ بَلْ تُوْثِرْوْنَ الْحَیوٰۃَ الدُّنْیَا وَ الاْٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰی (الاعلیٰ: ۱۶) یعنی ’’بلکہ تم حیاتِ دنیا کو آخرت پر ترحیح دیتے ہو جبکہ آخرت بہتر بھی ہے اورہمیشہ باقی رہنے والی بھی۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی کتاب ہدایت سے خاطر خواہ اور بیش از بیش تعلق کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2020