بسااوقات بھوک کومٹانے کے لیے ایک چور چوری ، ایک ڈاکو ڈکیتی، ایک راہزن رہزنی اور ایک جیب کترا جیب کترنے کا کام انجام دیتاہے۔ اسی آگ کوبجھانے کے لیے اُس معصوم بچے کو بھٹیوںمیںجوت دیاجاتاہے، جس نے ابھی تک شعور کی منزلیں طے نہیں کی ہیں۔ شکم کے اِسی شعلے کوسرد کرنے کے لیے ہی مظلوم خواتین قحبہ گری کرنے پرمجبورہیں۔ پیٹ کی اِسی آگ کوبجھانے کے لیے آج کل کوکھ کوبھی کرایہ پر دیا جارہا ہے۔ سرشٹی چیریٹیبل ٹرسٹ کے مینیجنگ ڈائرکٹرگورومورتی کے مطابق بیوائیں اورطلاق شدہ خواتین اس میں پیش پیش ہیں۔ تاہم شادی شدہ خواتین بھی اپنے شوہروں کی اجازت سے اس میدان میں قدم رکھ رہی ہیں۔ سچ کہا جاتا ہے’پیٹ بڑاپاپی ہے‘۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس نے اس پیٹ کو بنایا ہے، اس نے اس پیٹ کوبھرنے کی ذمے داری بھی اپنے اوپر لے رکھی ہے:
اِنَّ اللَّہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ ﴿ الذاریات: ۵۸﴾
’’اللہ توخود ہی سب کاروزی رساں قوت والا اورزورآورہے و‘‘
البتہ یہ شرط لگادی ہے کہ تم کوہاتھ پیرمارنے پڑیں گے:
فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلَاۃُ فَانتَشِرُوا فِیْ الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّہِ ﴿الجمعۃ: ۱۰﴾
’’پھر جب نماز ہوچکے توزمین میں پھیل جاؤ یاور اللہ کا فضل﴿روزی﴾ تلاش کرو‘‘
اور ہاتھ پیر مارنے کے لیے بھی یہ اصول بتایا ہے:
کُلُواْ مِمَّا فِیْ الأَرْضِ حَلاَلاً طَیِّباً o ﴿البقرۃ:۱۴۸﴾
’’زمین کی پاک اور حلال چیزوںمیں سے کھاؤ‘‘
جواس اصول کو اپنائے گا، وہ اِن شاء اللہ بھوکا نہیں رہے گا۔بہ حیثیت مسلمان ہم کواس بات کا بھی یقین ہے کہ حرام کمائی جہنم کا ایندھن بننے کا سبب بنے گی۔جولوگ اس بات پریقین نہیں رکھتے، اُنھیںبھی یہ تو معلوم ہے کہ حرام کمائی والے ہرطرح کی پریشانیوںمیں گھرے رہتے ہیں، بہ ظاہر ٹیپ ٹاپ اورشان وشوکت نظرآتی ہے۔لیکن اندرسے ذرا بھی سکون نہیںہوتا۔عالی شان کوٹھیوںمیں نیند کی گولی کھائے بغیرنیند نہیںآتی۔ جبکہ ایک مزدور فٹ پاتھ پراخباربچھاکر چین کی نیند سوتاہے ۔
شرعی طور پر کوکھ کی خریدوفروخت کی حقیقت جاننے سے پہلے اس سلسلے میں حکومت کے رویے پر افسوس کرنے کو جی چاہتاہے ۔حکومت مسلسل اپنی ترقیوں کے راگ الاپ رہی ہے۔میزائل پرمیزائل کاکامیاب تجربہ ہوتاجارہاہے، سٹلائٹ خلاؤںمیں بھیجے جارہے ہیں، سائنس اورٹکنالوجی کی ترقی کی دوڑمیں یورپ کوپیچھے چھوڑنے کی کوششیں ہورہی ہیں؛ لیکن اسی ترقی کی طرف گامزن ملک کے لوگ ننگے بھوکے کولہوکے بیل کی طرح جُتے ہوئے نظرآتے ہیں۔ فاقہ مستی کے شکارکتنے ایسے لوگ ہیں، جنھوں نے اپنے بیٹے اوربیٹیوںکوکوڑیوں کے دام بیچ دیاہے۔ کیایہ حکومت کی ذمے داری نہیں ہے کہ وہ اپنے ملک میں بسنے والے لوگوںکی خبرگیری کرے؟ اب آیئے اس سلسلے میں شرعی نقطۂ نظرجاننے کی کوشش کریں۔اس مسئلے کی دوصورتیں ہیں:
۱- شوہرکے مادۂ منویہ اور اس کی بیوی کے بیضۃ المنی کو کسی اجنبیہ کے رحم میں رکھ کراس کی افزایش کی جائے۔
۲- شوہر کے مادۂ منویہ اوراس کی ایک بیوی کے بیضۃ المنی کی اُسی کی دوسری بیوی کے رحم میں آبیدگی کی جائے۔
یہ دونوں صورتیںدرج ذیل وجوہات کی بنیاد پرحرام ہیں:
﴿۱﴾ اختلاطِ نسب
اسلام نے نسب کی حفاظت کوبڑی اہمیت دی ہے۔ حتیٰ کہ متبنیٰ﴿لے پالک﴾ بیٹے کے سلسلے میں خود آنحضرت ﷺاورصحابہ کویہ حکم دیاگیا :
ادْعُوہُمْ لِآبَآئِہِمْ ہُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّہِo ﴿ الأحزاب: ۵﴾
’’لے پالکوں کو ان کے ﴿حقیقی﴾ باپوںکے نام سے بلاؤ، اللہ کے نزدیک پوراانصاف یہی ہے‘‘
یہاں بھی یہی مسئلہ درپیش ہوتاہے ۔کیوںکہ مادۂ منویہ اوربیضۃ المنی جب اجنبیہ کے رحم میں پرورش پائے گاتوظاہرہے کہ حمل کی مشقتوںکو توبرداشت کرنے والی کوئی اور ہوگی اور پیدا ہونے والا بچہ کسی اورکی طرف منسوب ہوگا۔
دوسری صورت میں جب کہ مادۂ منویہ اوربیوی کا بیضۃ المنی اسی مرد کی دوسری بیوی کے رحم میں رکھاجائے،ماں کی طرف سے نسب مختلط ہوگا۔ کیوںکہ قیاس کا تقاضا تویہ ہے کہ بچے کی ماں وہ ہو ، جس کابیضۃ المنی ہے۔ کہ یہی حمل قرار پانے کی بنیادی وجہ ہے، لیکن دوسری طرف قرآن کہتا ہے:
حَمَلَتْہُ أُمُّہ’ کُرْہاً وَوَضَعَتْہُ کُرْہاًo ﴿الأحقاف: ۵۱﴾
’’اس کی ماں نے اُسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کرکے اسے جنا‘‘
دوسری جگہ ہے:
اِنْ أُمَّہَاتُہُمْ اِلَّا اللَّائِیْ وَلَدْنَہُمْ o ﴿المجادلۃ: ۲﴾
’’بچے کی مائیں وہی ہیں، جنھوں نے ان کو جنا ہے‘‘
پھر یہ بات بھی یقینی نہیں ہے کہ بچہ اسی بیضۃ المنی کے اختلاط کی وجہ سے ہواہے ، جو اس کی دوسری بیوی کے رحم سے لیاگیاہے۔ بل کہ ہوسکتاہے کہ اسی کے بیضے سے یہ حمل قرارپایاہو۔
﴿۲﴾ زناسے مشابہت
اصل زنا تو یہ ہے کہ ایک اجنبی مرد کا ایک اجنبی عورت کے ساتھ جسمانی تعلق قائم ہوجائے۔ یہاں صورۃًتویہ چیز نہیں پائی جاتی۔ لیکن نتیجے کے اعتبار سے زنا کے مشابہ شکل ضرور پائی جاتی ہے۔ کیوںکہ زنا کے ذریعے ایک اجنبی مرد کا مادۂ منویہ ایک اجنبی عورت کے رحم میں جاتاہے۔ یہاںبھی اجنبی مردکا مادۂ منویہ اجنبیہ کے رحم میںجاتاہے۔ لہٰذا شکلاً یہ زناسے مشابہ ہوا اور قرآن ہمیں اس سے دور رہنے کا حکم دیتاہے :لاتقربوا الزنا ﴿الاسرائ :۲۳﴾ ’’زنا کے قریب مت جاؤ’’
﴿۳﴾ بچے اور والدہ کے درمیان تفریق
کوکھ کی کرایہ داری سے بچے اور اس کی ماں کے درمیان تفریق کی شکل پائی جاتی ہے۔ کیوںکہ بچے کی پیدایش جس خاتون کے بطن سے ہوئی ہے، اس سے اس بچے کوچھین لیاجاتاہے اور شریعتِ اسلامی نے اسے نادرست قرار دیاہے۔ چنانچہ آپ ﷺ کا ارشاد ہے: ’’لایفرق بین والدۃ وولدھا‘‘لڑکے اور اس کی والدہ کے درمیان تفریق نہ کی جائے۔ ﴿ سنن کبریٰ للبیھقی، حدیث نمبر: ۱۸۸۲۰﴾۔
﴿۴﴾ محرم و نامحرم کا مسئلہ
رحم کی بیع وشرائ سے ایک محرم ونامحرم کا مسئلہ بھی سامنے آجاتاہے۔ کیوںکہ اگر اجنبی مرد کے مادۂ منویہ کی اجنبیہ کے رحم میں آبیدگی کی جائے تو اس اجنبی مرد کی بیوی کے حق میں یہ بچہ نامحرم ہوگاکہ اس بچے کا اس خاتون سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔پھر بچہ جب بڑاہوجائے گاتو اجنبی مرد کے ساتھ اختلاط لازم آئے گا۔
﴿۵﴾ وراثت کا مسئلہ
اگر مرد کا مادۂ منویہ اسی کی دوسری بیوی کے رحم میںرکھاجائے تواس بچے کا نسب تواس مرد سے ثابت ہوگا، کیوںکہ حدیث پاک میں ہے: للولدللفراش وللعاھر الحجر ’’بچہ بستر والے کے لیے ہے اور زانی کے لیے تو پتھر ہے’’﴿ بخاری: حدیث نمبر:۶۸۱۸ ﴾ اور جب نسب ثابت ہوگا تو اس مرد کا وہ بچہ وارث بھی ہوگا، لیکن اگر کسی اجنبیہ کے رحم میں رکھاجائے تویہ زنا سے مشابہت ہونے کی وجہ سے وہ بچہ وراثت سے محروم رہے گاکہ زناسے پیدا ہونے والے بچے کا نسب زانی سے ثابت نہیںہوتا اورجب نسب ثابت نہیں ہواتو پھر وراثت کیسی؟
﴿۶﴾ مامتا کاخون
جوعورت کسی بچے کو اپنے پیٹ میںچھے سے نوماہ یا اس سے زیادہ رکھے، حمل کی مشقتوںکوبرداشت کرے، اس عورت کی حیثیت محض ایک کرایہ دار کی ہوکر رہ جائے گی اور اس کرایے داری کی وجہ سے خود اس کی اپنی اولاد کے ساتھ محبت میں کمی آجائے گی اور یہ ان بچوںکے حق میں ظلم ہوگا اور ظلم ایک امرِحرام ہے۔
﴿۷﴾ عورت ذات کے ساتھ کھلواڑ
عورت کی ذات متاعِ حیات ہے، متاعِ شراء نہیں۔ مغرب نے آزادیِ نسواںکاپُرفریب نعرہ لگاکرعورتوںکاخوب استحصال کیا۔ ہرگھٹیاکام پرلگاکریہ پٹی پڑھانے کی کوشش کی کہ یہی ہے حقیقی آزادی اور اس طرح ان کوننگاکرکے دنیا کے سامنے لاکھڑاکیا۔ رحم کی اس خریداری میں اس عورت ذات کے ساتھ کھلواڑ ہے۔ کیونکہ اس طرح اس سے ماںکی مامتااوربیٹے کاپیار چھین لینا چاہتاہے۔
اس کے علاوہ اور بھی بہت سارے مفاسد ہیں، جن سے خود معاشرے کے اندروسیع پیمانے پرفساد برپاہونے خدشہ ہے،اورجب معاشرہ بگڑے گا توظاہرہے کہ ہم بھی اس کی لپیٹ میں ضرورآئیں گے۔ اس لیے ہرسلیم الفطرت شخص پرلازم ہے کہ معاشرے کوبگاڑ سے بچانے کے لیے اس سلسلے میں اپنی آواز بلندکرے۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2010