اس مضمون کے ذریعہ کوشش کی گئی ہے کہ دستور جماعت کی روشنی میں مرکزی ، ریاستی اور مقامی ذمہ داروں کے مطلوبہ اوصاف پر بطور یاددہانی روشنی ڈالی جائے تاکہ ارکان جماعت رائے دہی کے مواقع پر متعلقہ ذمہ داریوں کے لیے مطلوبہ اوصاف سامنے رکھیں اور دوسری جانب جو احباب منتخب و مقرر ہوںوہ متعلقہ اوصاف کے مطابق اپنی شخصیت سنواریں۔حضور اکرم ﷺ نے اجتماعی امور کی ذمہ داریوں کو امانت قرار دیا ہے۔ اس سلسلہ میں قرآن نے یہ رہنمائی کی کہ امانتوں کو اہل امانت کے سپرد کیا جائے ۔(النساء :۵۸)۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی دستوری ذمہ داریوں کو شعور و ادراک کے ساتھ انجام دیں تاکہ یہ امانتیں صالح ترین اور اہل ترین افراد کے حوالے کی جائیں۔
تحریک اسلامی کاامتیاز
جماعت اسلامی ہنداس ملک کی وہ عظیم اجتماعیت ہے جو قرآن و سنت کی بنیاد پر اپنے نظم و نسق کو چلاتی ہے۔ ہر چار سال کے وقفہ پر صلاحیت و صالحیت کی بنیاد پر انتخابات اور تقررات کا موقع فراہم کرتی ہے تاکہ شورائی انداز میں نظم کی تجدید ہوتی رہے۔ تحریک اسلامی میں رائے دہی کی بنیاد پر تجدید و تبدیلیٔ امارت کو تحریک کی فعالیت اور خلافت جمہور کے تصورکے فروغ کے لیے ناگزیر سمجھاگیا ہے۔اس پورے عمل کا مقصود یہ ہے کہ مشاورت کے ذریعہ تحریکی امانتوں کو اہل ترین افراد کے حوالے کیا جائے تاکہ تحریک اسلامی کا قافلہ نئے عزائم کے ساتھ اپنی منزل کی جانب پیش قدمی کرسکے۔یہ اللہ کا فضل ہے کہ یہاں منصبی ذمہ داریوں سے رخصت ہوتے ہوئے اطمینان و راحت محسوس کی جاتی ہے، جبکہ نئے ذمہ داران احساس ذمہ داری کی وجہ سے غمگین ہوا کرتے ہیں۔ نہ آنے والے جشن مناتے ہیں نہ جانے والے غم کا اظہار کرتے ہیں۔یہاں منصب کو وزرک الذی انقض ظہرک (کمر توڑ بوجھ) سمجھا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں عہدے و مناصب کے لیے رسہ کشی تو دور کی بات، طلب و تمنا کی گنجائش بھی نہیں رہتی۔مولانا نعیم صدیقی صاحب ’’تحریکی شعور‘‘ میںرقمطراز ہیں: ’’ریلوے کے ایک ڈیویژن کا کسی اسٹیشن پر خاتمہ ہوتا ہے اور وہاں سے نیا ڈیویژن شروع ہوتا ہے۔۔بعض اوقات انجن بھی۔ بڑی تبدیلی ریل کے گارڈ کی تبدیلی ہوتی ہے۔ پیچھے سے کئی گھنٹے کی ڈیوٹی دے کر آنے والا گارڈ بڑی خوش و خرم حالت میں نئے آنے والے تازہ دم گارڈ کو سرخ سبز جھنڈیوں، بتی، سیٹی اور چابیوں کے علاوہ کاغذات کا چارج دیتا ہے اور سلام کہہ کر اس طرح باہر کو لپکتا ہے ’’جیسے کہ جان بچی اور لاکھوں پائے‘‘اور نئے گارڈ کے انتظام میں گاڑی اپنے مقررہ وقت پر، مقررہ راستے اور رخ پر اور اپنی مقررہ منزل کی جانب روانہ ہوجاتی ہے۔نہ جانے والے گارڈ کو کوئی صدمہ ہوتاہے کہ میرے ساتھ زیادتی ہوئی ہے یا وہ سوچتاہے کہ کسی کو جرأت کیوں ہوئی کہ مجھ سے چارج لے، میں اس سے سمجھوں گا۔ نہ آنے والے گارڈ میں کوئی شائبۂ فخرکہ بڑا مرتبۂ کمال ہاتھ آیا۔ نہ جانے والے سے اظہار افسوس کرنے والوں کا کوئی ہجوم، نہ آنے والے کے لیے تحسین و تبریک کے نعرے۔ نہ مسافروں میں کوئی ہل چل، نہ کسی طرح کا کوئی جلوس، نہ اخباری بیان بازی، نہ تصویریں اٹھا اٹھا کر کسی کی حمایت اور نہ کسی کی مخالفت۔۔۔۔۔حضورصلی اللہ علیہ و سلم کے دوررحمت و سعات اور خلفاء راشدین کے عہد خیر و برکت میں یہی صورت تھی۔ جو شخص موزوں تر ہوا، عوام نے اس کی بیعت کی اور دینی اصولوں کے مطابق سیاست و معیشت کا سارا نظام بخوبی چلتا رہا۔ کبھی کوئی مخالفانہ مظاہرہ نہیں ہوا۔ نہ کوئی جلوس نکلا، نہ واہیات نعرے گونجے، نہ کوئی کھسر پھسر ہوئی۔ سچی اسلامی جمہوریت کا منشا ہی یہ ہے کہ وقتاً فوقتاًجزوی یا جامع تبدیلی کو تو آنا ہی ہوتا ہے۔ مگر وہ آئے تو پُر امن طریق سے آئے ، آراء اور دلائل کے بل پر آئے۔مسکراتی فضا میں آئے، رواداری کی شان اور اتحاد و یگانگت کا رنگ لے کر آئے۔‘‘(تحریکی شعور۔از ۔نعیم صدیقی)
رفع درجات اور فرق مراتب بطور امتحان
تحریک اسلامی کے لیے اجتماعیت ناگزیر ہے، جس کے لیے تنظیمی ہیئت کی تشکیل ہوتی ہے۔ کارکنان ، ارکان ، مقامی نظماء ،امرائے مقامی، مقامی ذمہ داران، مقامی شوریٰ، علاقائی ذمہ داران ، امرائے حلقہ ،ریاستی ذمہ داران و ریاستی شوریٰ، امیر جماعت ،مرکزی ذمہ داران ، مرکزی شوریٰ و مجلس نمائندگان،پر مشتمل جماعت اسلامی کا نظم قائم ہے۔قرآن مجید میں مطلوبہ جدوجہد کے لیے بنیان مرصوص (سیسہ پلائی ہوئی دیوار)کی مثال دی گئی ہے۔ دیوار یا عمارت کے لیے مختلف اجزاء کا باہمی وجود ناگزیر ہوتا ہے۔ اسی طرح اسلامی اجتماعیت میں بھی باہمی تعاون و اشتراک کا نظام ضروری ہے۔ اس سلسلہ میںمختلف افراد کو مختلف دیگر افراد پر منصبی فوقیت حاصل ہوتی ہے۔اس سلسلہ میں قرآن کی رہنمائی یہ ہے کہ یہ رفع درجات اور فرق مراتب بطور آزمائش ہوتے ہیں۔ہر فرد ذمہ دارہے اور جس شخص کو جس سطح کی ذمہ داری ہوتی ہے، اسی لحاظ سے جوابدہی بھی ہوگی۔ذمہ داری کی بحسن و خوبی ادائیگی پر انعام بھی شایان شان ہوگا اور عدم ادائیگی پر مواخذہ بھی اسی درجہ کا ہوگا۔سورۂ انعام کی آخری آیت میں کہا گیا:
وَھُوَ الَّذِیْ جَعَلَکُمْ خَلٰٓئِفَ الْاَرْضِ وَرَفَعَ بَعْضَکُمْ فَوْقَ بَعْضٍ دَرَجٰتٍ لِّیَبْلُوَکُمْ فِیْ مَآ اٰتٰئکُم۔۔۔۔۔۔
’’وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا، اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلہ میں زیادہ بلند درجے دیے، تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے۔۔۔ ‘‘ (الانعام: ۱۶۵)
اسلامی اجتماعیت کا یہ پہلو خود اس بات کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہاں عہدے و مناصب اصل میں بھاری ذمہ داریاں ہیںجن کے حصول کی خواہش اورامیدصرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جو آخرت کی جوابدہی سے غافل ہیں۔
قیادت کی عظمت
فرق مراتب کی گفتگو کے ساتھ یہ بات بھی سامنے رہنی چاہیے کہ اسلامی اجتماعیت میں قیادت کو بنیادی اہمیت حاصل ہے ۔ اس لیے کہ امارت کے بغیر اجتماعیت قائم نہیں ہو سکتی۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: وَ لا جَماعَۃَ اِلّا بِالاِماَرَۃ (اور جماعت امارت کے بغیر نہیں)اسی لیے قرآنِ مجید نے ا ﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کے ساتھ اولوالامر کی اطاعت بھی لازم کردی ہے(النساء۔۵۹)۔اسی کی تشریح میں نبی ﷺ نے امیر کی اطاعت یا نافرمانی کو اپنی اور خدا کی اطاعت یا نافرمانی کامصداق ٹھہرایا ہے۔ قرآنِ مجید کے مطالعہ سے قیادت کے سلسلے میں جو اصولی بات سامنے آتی ہے وہ یہ کہ دنیا میں جتنے بھی انبیاء و رسل آئے، وہ تمام منجانب اﷲ منصبِ قیادت پر فائز تھے (اور ہم نے ان کو امام بنادیا۔۔۔۔ الانبیاء۔۷۳)۔ حضرت ابراہیم ؑ کی قیادت کا ذکرخصوصیت کے ساتھ سورۂ بقرہ میں ان الفاظ میں کیا گیا: اِنّیْ جَاعِلُکَ لِلنّاسِ اِمَاماً (بے شک میں تمہیںلوگوں کا پیشوا بناؤں گا۔البقرہ۔۲۴)۔ قرآنِ مجید نے صالح قیادت کا ذکر کرنے کے ساتھ باطل قیادت سے نبرد آزما ہونے کا حکم بھی دیا جو حق کے مقابل کھڑی ہو: (اور کفر کے علمبرداروں (لیڈروں)سے جنگ کرو۔۔۔۔التوبہ۔۱۲)۔ سورۂ بنی اسرائیل میں قیادت کی اہمیت کو بیان کرنے کے لیے یہ بات کہی گئی کہ قیامت کے روز لوگوں کو ان کے لیڈروں کے ساتھ بلایا جائے گا: (پھر خیال کرو اس دن کا جب کہ ہم ہر انسانی گروہ کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے۔بنی اسرائیل۔۷۱) ۔ اسی مفہوم کو اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے جو بیہقی میں منقول ہے، جسے حضرت عمرؓ نے روایت کیا ہے:’’قیامت کے روز اﷲ کے بندوں میں اﷲ کے نزدیک مقام و مرتبہ کے لحاظ سے سب سے بہتر عادل و نرم خو حاکم ہوگا، اور قیامت کے روز اﷲ کے بندوں میں اﷲ کے نزدیک سب سے بدتر انسان ظالم اور سخت گیر حاکم ہوگا‘‘۔ اس سے بڑھ کر بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ ؓ کی وہ روایت بھی منقول ہے جس میں نبی ﷺ نے امامِ عادل کو ان سات قسم کے لوگوں میں شمار کیا ہے جو عرشِ الٰہی کے سائے میںمامون و محفوظ رہیں گے جس روز اﷲ کے سائے کے علاوہ کوئی اور سایہ نہ ہوگا۔
مشاورت کی اہمیت
اسلامی اجتماعیت میں قیادت کے ساتھ مشاورت کا تعلق لازم و ملزوم ہے۔اسلامی اجتماعیت کی بنیادی پہچان اسکی شورائیت ہے۔شوریٰ کے بغیر اسلامی اجتماعیت کا تصورہی نہیںکیا جاسکتا۔امارت و نظامت کے انتخاب اور تقرر کے لیے بھی شوریٰ ناگزیر ہے اورامیر کی امداد و مشورہ کے لیے بھی مشاورت ضروری ہے۔قرآن مجید میں اﷲ تعالیٰ نے خود حضور اکرم ﷺ کو ’وَشَاوِرْھُمْ فِیْ اْلَامْر‘ (آلِ عمران:۱۵۹)کہہ کرمشاورت کا حکم دیاہے اور اسے مسلمانوںکا امتیازی وصف قرار دیا ہے ’وَ اَمْرُھُمْ شُوْریٰ بَیْنَھُمْ‘ (الشوریٰ: ۳۸) (ان کے معاملات آپس کے مشورے سے چلتے ہیں)۔اس ضرورت کی تکمیل کے لیے تحریک اسلامی میں مجلس نمائندگان، مرکزی، ریاستی و مقامی (۲۰؍ارکان سے زائد ہونے پر)مجالس شوریٰ کا نظم قائم ہے۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ دستور جماعت میں اساسی مناصب ہی کا تذکرہ کیا گیا ہے، جبکہ دوسرے ذمہ داران کے لیے الگ سے کسی وضاحت کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ہے۔ اس سے یہ بات از خود سمجھ لی جاسکتی ہے کہ امیر جماعت اورقیم جماعت کے علاوہ جو مرکزی ذمہ داران مقرر ہوں گے ، ان کے لیے رہنما اصول وہی ہوں گے جو بنیادی طور پر امیر جماعت ،قیم جماعت اور مرکزی شوریٰ کے حوالے سے کہے گئے ہیں۔اسی طرح امیر حلقہ کے علاوہ حلقہ کے دیگر ذمہ داران کے لیے رہنما اصول وہی پیش نظر رہنے چاہئیں جو امیر حلقہ اور ریاستی شوریٰ کے حوالے سے کہے گئے ہیں، اسی طرح امیر مقامی کے لیے جو مطلوبہ اوصاف ہیں، کم و بیش وہی اوصاف دیگر مقامی ذمہ داران سے مطلوب ہیں۔
ذمہ داروں کے مشترکہ اوصاف
دستور جماعت میں درج ذیل سات ذمہ داریوں کے لیے انتخاب اور تقرر کے ضمن میںرہنمائی کی گئی ہے: (۱) مجلس نمائندگان ، (۲) امیر جماعت، (۳) مرکزی مجلس شوریٰ، (۴) قیم جماعت، (۵) امیر حلقہ،(۶) حلقہ کی مجلس شوریٰ اور (۷) امیر مقامی ۔
ان سب ذمہ داریوں کے لیے درج ذیل مشترک مطلوبہ اوصاف کا تذکرہ کیا گیا ہے: (۱) عہدوں کی خواہش کی نفی،(۲) دین کا علم و فہم(۳) تقویٰ،( ۴) امانت داری، (۵) معاملہ فہمی، (۶) تحریک اسلامی کی مزاج شناسی اور اس سے وابستگی، (۷) دستور جماعت کی پابندی اور (۸) راہ خدا میں استقامت (۹) بہ حیثیت مجموعی بہتر ہونا۔
عہدے اور مناصب کی خواہش یا امیدواری کی نفی:
دستور جماعت میں مرکز سے لے کر مقام تک ، تمام ذمہ داریوں کے لیے بنیادی شرط یہ قرار دی گئی کہ وہ مجلس نمائندگان کی رکنیت ، امارت، مرکزی مجلس شوریٰ کی رکنیت، قیمی، حلقہ کی امارت، حلقہ کی مجلس شوریٰ کی رکنیت، مقامی امارت، یا کسی اور جماعتی منصب کا امیدوار یا خواہش مند نہ ہو۔ذمہ داریوں کے حوالے سے تحریکی مزاج میں سب سے پہلی چیز ’عدمِ امیدواری‘ ہے۔ اسلامی اجتماعیت میں امیدواری ناجائزہے۔ منصب کے خواہشمند کے لیے آخری صف میں بھی جگہ نہیں۔احادیث میں یہ بات صراحت کے ساتھ مذکور ہے کہ اقتدار کی طلب و حرص اسلام میں ممنوع ہے۔ جو شخص قیامت کی باز پرس سے باخبر ہو اور پھر بھی منصب کی خواہش کرے اس سے بڑھ کر نادان کون ہوسکتاہے؟۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے یوں فرمایاکہ تم میںجو امیر ہوگا اس کے لیے یقیناً قیامت کے روز طویل اور سخت محاسبہ ہوگا(کنز العمال)۔مولانا مودودی علیہ الرحمۃ نے اس جانب ابتدائی مراحل ہی میں متنبہ فرمادیا تھا کہ : ’’امیر کے انتخاب میں آپ کو جن امور کا لحاظ رکھنا چاہیے وہ یہ ہیں کہ کوئی شخص جو امارت کا امیدوار ہو، اسے ہر گز منتخب نہ کیجیے، کیوں کہ جس شخص میں اس کار عظیم کی ذمہ داری کا احساس ہوگا وہ کبھی اس بار کو اٹھانے کی خودخواہش نہ کرے گا اور جو اس کی خواہش کرے گا وہ دراصل نفوذ و اقتدار کا خواہش مند ہوگا نہ کہ ذمہ داری سنبھالنے کا۔ اس لیے اللہ کی طرف سے اس کی نصرت و تائید کبھی نہ ہوگی۔‘‘(روداد جماعت اسلامی ہند، حصہ اول)۔
جو لوگ عہدے کے خواہش مند یا امید وار ہوتے ہیں اور احساس برتری کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیںوہ حقیقت میں احساس کمتری کا شکار ہوتے ہیں۔ کیوں کہ انہیں یہ فکر دامن گیر رہتی ہے کہ وہ نمایاں نہیں ہورہے ہیںاور دوسرے احباب ان سے بہتر سمجھے گئے ہیں۔ لہٰذا وہ اپنی حرکات و سکنات سے اس بے چینی کوظاہر کرتے رہتے ہیں۔جبکہ احساس کمتری سے آزاد اشخاص کے لیے کسی عہدے یا منصب کی ضرورت نہیں ہوا کرتی۔ وہ خود شناس ہوتے ہیں۔اجتماعی ذمہ داریوں کے معاملہ میں احساس جوابدہی کی وجہ سے اللہ سے ڈرتے ہیں، اور جس حال میں اللہ نے انہیں رکھا ہے، اس سے مطمئن رہتے ہیں۔ایک اور پہلو سے اس بات کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ تحریک اسلامی میں افضلیت کی بنیاد ’’تقویٰ‘‘کو قرار دیا گیا ہے۔جو لوگ عہدوں کے خواہش مند ہوتے ہیں وہ خود کو متقی سمجھنے لگتے ہیں، جبکہ اللہ نے وضاحت کے ساتھ یہ بات فرمادی کہ ’’اپنے نفس کی پاکی کے دعوے نہ کرو، وہی بہتر جانتا ہے کہ واقعی متقی کون ہے۔‘‘(النجم: ۳۲)۔
اسلامی اجتماعیت میں جہاں امیدواری کی گنجائش نہیں وہیں اجتماعی فیصلوں کے تحت ذمہ داری عائدہونے پر راہِ فرار کی اجازت بھی نہیں۔جس شخص پر اجتماعی ذمہ داری ڈالی جائے اس کے لیے ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اس ذمہ داری کی ادائیگی میں خود کو اس طرح تھکادے کہ اﷲ کا وعدۂ نصرت اس کے ذمے ہوجائے۔ عدم امیدواری کا ایک دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ منصب ایک امانت ہے،جسے ایک اسلامی قائد کسی بھی وقت لوٹانے کے لیے تیار رہتا ہے۔یہ بات اوپر درج ہوچکی ہے کہ تحریکِ اسلامی میں تبدیلیٔ امارت کے موقع پر جانے والا شخص ہنسی خوشی جاتا ہے اور آنے والا شخص احساسِ ذمہ داری کی وجہ سے روتا ہوا آتا ہے۔ان تمام تشریحات سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ امانتیں طلب نہیں کی جاتیں،بلکہ سپرد کی جاتی ہیں۔
دین کا علم و فہم:
اسلامی تحریک ایک نظریاتی تحریک ہے، جو اسلام کو بہ حیثیت مجموعی فرد، معاشرہ اور ریاست پر قائم کرنا چاہتی ہے۔ اس نصب العین کے حامل افراد کے کردار کی بنیاد ہی علم و فہم دین ہے۔ یہ اصولی بات ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے تمام انبیاء کو قیادت سے سرفراز کرنے کے لیے علم سے بھی نوازا : وَ کُلًّاآتَیْنٰہُ حُکْماًوَّ عِلْماً (الانبیاء۔۷۹) اور ہم نے ان میںسے ہر ایک کو حکمت اور علم سے نوازا تھا۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’قیادت کرنے سے پہلے علم حاصل کرو‘‘۔اس اصول کے تحت علمی استعداد میں اطمینان بخش حد تک اضافہ کرنا ہر ذمہ دارِ تحریک کے لیے ضروری ہے۔دستور جماعت میں اس ضرورت کو مختلف سطحوں کے لیے مختلف تعبیرات کے ساتھ پیش کیا گیا ہے جس سے اس کی مطلوبہ کیفیات کو بخوبی سمجھاجاسکتا ہے۔ مثلاً امیر جماعت کے لیے ’’علم کتاب و سنت‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، امیر حلقہ کے لیے ’’علم دین‘‘استعمال کیا گیا ہے اور امیر مقامی کے لیے ’’دینی معلومات‘‘کی تعبیر مستعمل ہوئی ہے۔واضح رہے کہ یہی وہ تین بنیادی سطحیں ہیں جو قیادت پر مامور ہوتی ہیں، جبکہ دیگر چار ذمہ داریوں (نمائندگان، مرکزی و ریاستی شوریٰ اور قیمی )کے لیے اس ضرورت کو ’’فہم دین‘‘کی تعبیر سے واضح کیا گیا ہے۔اس تجزیہ سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جو لوگ راست طور پر جماعت کی امارت کی ذمہ داری پر مامور ہوں ، ان کے لیے یہ لازمی ہے کہ وہ اسلام کے جامع علم کے حامل ہوں، البتہ فرق مراتب کے لحاظ سے امیر جماعت، امیرحلقہ اور امیر مقامی سے متعلقہ سطحوں کے حوالے سے یہ چاہا گیا ہے کہ وہ اسی کے شایان شان اپنے معیار کو بلند کریں۔ظاہر ہے جس سطح کے علم کی ضرورت امیر جماعت کے لیے ہوگی ، اس میں اور حلقہ کی امارت اور مقامی امارت کے لیے مطلوب معیار میں فطری فرق واقع ہوگا۔اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ امرائے مقامی ’’علم دین ‘‘کی سطح کو نہیں پہنچ سکتے اور نہ یہ مراد ہے کہ امرائے حلقہ’’علم کتاب و سنت‘‘ کے معیار کو نہیں پہنچ سکتے۔ دستور کا منشاء صرف فرق مراتب کا اظہار معلوم ہوتا ہے۔جہاں تک ’’فہم دین ‘‘کا معاملہ ہے، یہ مطلوب کیفیت ان احباب کے لیے ضروری سمجھی گئی ہے جو اس نظام جماعت میں بالواسطہ تعاون کے مکلف ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ امیر کے علم اور شوریٰ کے فہم سے مطلوب فیصلے بآسانی ممکن ہیں ۔واضح رہے کہ یہاں پر بھی کم از کم مطلوب کیفیت کی نشاندہی کے لیے ’’فہم دین‘‘کی تعبیر استعمال کی گئی ہے۔ جبکہ تحریک کا ہر فرد علم و فہم میں بلند سے بلند تر کی کوشش کرسکتا ہے۔’’فہم دین ‘‘کی اصطلاح بھی ایک جامع اصطلاح ہے جس کی بنیاد علم ہی ہے۔ دینی معلومات میں جب اضافہ ہوتا ہے تو وہ علم بنتاہے، علم اور فہم ایک دوسرے کے متقاضی ہوتے ہیں، علم کے ساتھ فہم کی ضرورت ہوتی ہے اور فہم کو تقویت علم سے حاصل ہوتی ہے۔ ان سب کے ارتقاء کے ساتھ علمِ کتاب و سنت کا حصول ممکن ہوتا ہے۔ مراتب کے لحاظ سے اگر کہا جائے تو سب سے پہلے’ علمِ کتاب و سنت‘ کا معیار ہے ، پھر علم دین اور فہم دین اور آخر میں دینی معلومات کو متصور کیا جاسکتا ہے۔
تقویٰ:
تحریک اسلامی کے تمام ہی افراد کے لیے بالعموم اور مشاورت و قیادت کی ذمہ داریوں پر مامور افراد کے لیے بالخصوص ’’تقویٰ‘‘ کوضروری قرار دیا گیا ہے۔مقام سے لے کر مرکز تک تمام ہی ذمہ داران اس بات کے مکلف ہیں کہ وہ تقویٰ کی آبیاری کے لیے مستقل طور پر فکر مندرہیں۔تقویٰ ایمان کی مضبوطی کا منطقی نتیجہ ہے۔تقویٰ، قرآن مجید کی ایک جامع اصطلاح ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے درمیان افضلیت کا معیار ’’تقویٰ ‘‘کو قرار دیا ہے۔تقویٰ کے اصطلاحی معنی بچنے کے ہیں۔متقی وہ ہے جو خدا کو حاضر و ناظر جان کر اس کی نافرمانیوں اور معصیتوںسے بچتے بچاتے زندگی گزارتاہے۔حضرت عمرؓ اور حضرت ابی ابن کعبؓ کی گفتگو کے حوالے سے تقویٰ اس تنگ راستے سے دامن بچا کر گزرنے کا نام ہے جس کے دونوں جانب خاردار جھاڑیاں ہوں۔متقیوں کا تعارف کراتے ہوئے قرآن نے کہا کہ ان کا ایمان پختہ ہوتا ہے، وہ نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں، صدقہ و خیرات کرتے ہیں، حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرتے ہیں، اپنے عہدو پیمان کو پورا کرتے ہیں، تنگی و مصیبت اور جنگ کے موقع پر صبر کرتے ہیں، کھلے اور چھپے انفاق کرتے ہیں، غصہ کو پی جاتے ہیں، لوگوں کو معاف کرتے ہیں، احسان کا معاملہ کرتے ہیں، جب ان سے کوئی فحش حرکت سرزد ہوجائے یا وہ اپنے نفس پر ظلم کر بیٹھیں تو اللہ کو کثرت سے یاد کرتے ہیں اور جانتے بوجھتے گناہوں کو نہیں دہراتے ۔حضورؐ نے تقویٰ کا مرکز دل کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ تقویٰ یہاں ہوتا ہے۔اس اندرونی قوت کا مظاہرہ ان اوصاف سے ہوتا ہے جنہیں قرآن نے کھول کھول کر بیان کر دیا ہے۔
مولانا مودودیؒ نے تقویٰ کی تشریح کرتے ہوئے ایک تقریر میں کہا کہ ’’تقویٰ حقیقت میں کسی وضع و ہیئت اور کسی خاص طرز معاشرت کا نام نہیں ہے بلکہ دراصل وہ نفس کی اس کیفیت کا نام ہے جو خدا ترسی اور احساس ذمہ داری سے پیدا ہوتی ہے اور زندگی کے ہر پہلو میں ظہور کرتی ہے۔ حقیقی تقویٰ یہ ہے کہ انسان کے دل میں خدا کا خوف ہو، عبدیت کا شعور ہو، خدا کے سامنے اپنی ذمہ داری و جواب دہی کا احساس ہو، اور اس بات کا زندہ ادراک موجود ہو کہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے، جہاں خدا نے ایک مہلت عمر دے کر مجھے بھیجا ہے اور آخرت میں میرے مستقبل کا فیصلہ بالکل اس چیز پر منحصر ہے کہ میں اس دیے ہوئے وقت کے اندر اس امتحان گاہ میں اپنی قوتوں اور قابلیتوں کو کس طرح استعمال کرتا ہوں‘‘ (تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں)۔
امانت داری/امانت و دیانت:
تحریک اسلامی میں ذمہ داریاں ’‘امانت‘‘ ہوا کرتی ہیں۔ان امانتوں کا پاس و لحاظ رکھنے کے لیے امانت داری ضروری وصف ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے پہلے ہی سے صادق و امین کے نام سے جانے جاتے تھے۔آپ ﷺ نے اس شخص کو ایمان سے خارج قرار دے دیا جس کے اندر امانت داری نہیں پائی جاتی۔منافق کی یہ خصلت بیان کی گئی کہ وہ امانت میں خیانت کرتا ہے۔مؤمنوں کی یہ امتیازی صفت قرار دی گئی کہ وہ ’’اپنی امانتوں اور اپنے عہدوپیمان کا پاس رکھتے ہیں‘‘(المؤمنون:۸)۔حضورؐ نے فرمایا کہ جو شخص مسلمانوں کے اجتماعی امورکا ذمہ دار ہو اور وہ ان کے ساتھ خیانت کرے تو خدا اس پر جنت حرام کردے گا۔(متفق علیہ)
مجلس نمائندگان ، قیم جماعت اور مجالس شوریٰ کے ضمن میں ’’امانت داری‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، جبکہ امیر جماعت، امیر حلقہ اور امیر مقامی کے لیے ’’امانت و دیانت‘‘کے الفاظ مستعمل ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ فرق بھی اتفاقی نہیں ہے۔ امانت داری میں عموم پایا جاتا ہے ،جو ’معاون کردار‘ supportive roleکے لیے کافی ہے، جبکہ قیادت پر فائز احباب کے لیے اضافی طور پر دیانت داری کی تعبیربھی شامل کی گئی ہے۔ دیانت داری کے معنی سا لمیت (Integrity)کے بھی آتے ہیں۔چونکہ امراء کے تصرف میں جماعت کا بیت المال ہوتا ہے ، اور وہ راست طور پر جملہ امور کی سرپرستی کے بھی مکلف ہوتے ہیں، اسی لیے اضافی تعبیر استعمال کی گئی ہے۔خلاصہ یہ ہے کہ امرائے جماعت کو امانت داری کے ضمن میں دوسروں سے زیادہ حساس ہونا چاہیے۔
معاملہ فہمی:
دستور جماعت میں تمام ذمہ داروں کے لیے معاملہ فہمی ضروری قرار دی گئی ہے، جب کہ قیادت کے لیے اس سے متصل اوصاف تدبر و اصابت رائے اور قوت فیصلہ کا اضافہ کیا گیا ہے۔ قرآنِ مجید میں اولوالامر کے لیے انہیں صفات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ معاملہ فہم ہوتے ہیں، حالات سے باخبر رہتے ہیں، اُن پر غور و خوص کے بعداپنی دینی بصیرت سے نہ صرف صحیح نتیجے پر پہنچتے ہیںبلکہ واضح موقف اختیار کرتے ہوئے فیصلے کی قوت بھی رکھتے ہیں۔’’یہ لوگ جہاں کوئی اطمینان بخش یا خوفناک خبر سن پاتے ہیں اسے لے کرپھیلا دیتے ہیں، حالانکہ اگر یہ اسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمہ دار اصحاب تک پہنچائیںتو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجائے جو ان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیںکہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کر سکیں۔ ‘‘ (سورۂ النساء، آیت:۸۳ )۔معاملہ فہمی ، تدبر و اصابت رائے کے لیے قرآنی تعبیر’’تاویل الاحادیث‘‘ بھی قابل غور ہے ۔اللہ نے بطور خاص حضرت یوسف علیہ السلام کو اس صلاحیت سے نوازا تھا۔مولانا مودودیؒ نے تاویل الاحادیث کی تشریح میں لکھا ہے کہ ’’تاویل الاحادیث کا مطلب محض تعبیر خواب کا علم نہیں ہے جیسا کہ گمان کیا گیا ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے معاملہ فہمی اور حقیقت رسی کی تعلیم دے گا اور وہ بصیرت تجھ کو عطا کرے گا جس سے تو ہر معاملہ کی گہرائی میں اترنے اور اس کی تہ کو پالینے کے قابل ہوجائے گا۔‘‘(تفہیم القرآن،جلد دوم، حاشیہ ۔۶)
اصحاب شوریٰ کے لیے معاملہ فہمی کی ضرورت واضح ہے ، کیوں کہ اس کے بغیر مشاورت کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔غور فکر کرنے اور نتیجہ پر پہنچنے کے لیے کسی بھی معاملہ کے مثبت و منفی پہلؤوں کا ادراک معاملہ فہمی کہلاتا ہے۔اس خصوصیت کا امرائے جماعت میں بدرجۂ اتم پایا جانا مطلوب ہے۔
تحریک اسلامی کی مزاج شناسی اور اس سے وابستگی:
اس نکتے کے تحت دو باتیں بیان کی گئی ہیں۔ ایک تحریک اسلامی کے مخصوص مزاج سے واقفیت، دوسری اس تحریک سے والہانہ وابستگی۔جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے، مولانا مودودیؒ کے حوالے سے یہ بات روداد میں درج ہے کہ ’’تحریک اسلامی اپنا ایک خاص مزاج رکھتی ہے اور اس کا ایک مخصوص طریق کار ہے جس کے ساتھ دوسری تحریکوں کے طریقے کسی طرح جوڑ نہیں کھاتے۔ جولوگ اب تک مختلف قومی تحریکوں میں حصہ لیتے رہے ہیںاور جن کی طبیعتیںانہی کے طریقوں سے مانوس رہی ہیں انہیں اس جماعت میں آکر اپنے آپ کو بہت کچھ بدلنا ہوگا۔ جلسے جلوس، جھنڈے اور نعرے یونیفارم اور مظاہرے ریزرویشن اور اڈریس بے لگام تقریریں اور گرماگرم تحریریں اور اس نوعیت کی تمام چیزیں ان تحریکوں کی جان ہیں مگر اس تحریک کے لیے سمِّ قاتل ہیں۔‘‘(روداد۔اول۔صفحہ ۳۵۔۳۴)۔ آغاز جماعت میں مولانا مودودیؒ نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا: ’’جماعت کے اندر جماعت بنانے کی کوشش کبھی نہ ہونی چاہیے۔ سازشیں، جتھ بندیاں، نجویٰ، کنویسنگ، عہدوں کی امیدواری، حمیت جاہلانہ اور نفسانی رقابتیں، یہ وہ چیزیں ہیں جو ویسے بھی جماعتوں کی زندگی کے لیے سخت خطرناک ہوتی ہیں، مگر اسلامی جماعت کے مزاج سے تو ان چیزوں کی کوئی مناسبت ہی نہیں ہے ۔ اسی طرح غیبت اور تنابز بالالقاب اور بدظنی بھی جماعتی زندگی کے لیے سخت مہلک بیماریاں ہیں جن سے بچنے کی ہم سب کو کوشش کرنی چاہیے۔‘‘
تحریک اسلامی کی مزاج شناسی کے لیے مزید تشریحات رودادوں میں درج ہیں۔اسی طرح دستور جماعت میں بیان کردہ عقیدہ ، نصب العین اور طریق کار کی تشریحات سے واقفیت، اور ہر نئی میقات میں وضع کی جانے والی جماعت کی پالیسی کا شعور و ادراک بھی اس تحریک کے مزاج کو سمجھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔
جہاں تک تحریک اسلامی سے وابستگی کا معاملہ ہے، دستور جماعت میں ارکان جماعت کے لیے معیار مطلوب کے حوالے سے درج ہے کہ ہر رکن جماعت کو کوشش کرنی ہوگی کہ وہ ’’اپنی دوڑ دھوپ اور سعی و جہد کو اقامت دین کے نصب العین پر مرتکز کر دے اور اپنی زندگی کی حقیقی ضرورتوں کے سوا ان تمام مصروفیتوں سے دست کش ہو جائے ، جو اس نصب العین کی طرف نہ لے جاتی ہوں۔‘‘ یہ بات بھی فطری ہے کہ جس تحریک کے لیے کسی کو ذمہ دار مقرر کیا جاتا ہے اس کی اس تحریک سے والہانہ وابستگی ہونی چاہیے۔ اس تحریک کا مقصد اس کا اپنا مقصد بن جائے ۔قرآن مجید نے سورۂ توبہ، آیت نمبر ۲۴ میں بڑی وضاحت کے ساتھ ترجیحات کی جانب رہنمائی کی ہے کہ ہماری زندگیوں میں جو محبّت غالبہونی چاہیے وہ اللہ ، رسول اور جہاد فی سبیل اللہ سے محبت ہے۔ باقی ساری محبتیں (والدین، اولاد، بھائی بند، ازواج، اہل خاندان، مال، تجارت اور گھر بارسے)جو فطری و ضروری ہیں، ان تین محبتوں کے تابع ہونی چاہئیں۔
دستور جماعت کی پابندی:
جماعت اسلامی ہندکا اپنا ایک دستور ہے اور اس کے تمام ارکان اس دستور کے پابندہیں۔چنانچہ جماعت کی رکنیت کے لیے درج شرائط میںکہا گیا کہ ’’دستور جماعت کو سمجھ لینے کے بعد عہد کرے کہ وہ اس دستور اور اس کے مطابق نظم جماعت کی پابندی کرے گا۔‘‘امیر جماعت کے فرائض و اختیارات کے ذیل میں کہا گیا کہ ’’اس دستور کا خود پابند رہے اور اس کے مطابق نظم جماعت کو قائم رکھنے کی پوری کوشش کرے۔‘‘دستور جماعت میں تمام ذمہ داروں کے لیے فرائض ،اختیارات اور حدود و قیود بیان کیے گئے ہیں۔ ان کے مطابق کام انجام دینا ہی دستور جماعت کی پابندی کرناہے۔البتہ دستور کی پابندی کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ تمام ہی ذمہ داران دستور کی تمام اہم تفصیلات سے اچھی طرح واقف ہوں، بالخصوص اپنی ذمہ داریوں کو ذہن نشین کرنا توبے حد ضروری ہے۔
راہِ خدا میں استقامت:
استقامت ، اپنے محاذ پر ڈٹ جانے کا نام ہے خواہ حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔ ایک صحابی نے نصیحت کی گزارش کی تو آپؐ نے بس اتنا فرمایا کہ ’’کہو کہ میں ایمان لایا اور اس پر جم جاؤ‘‘۔قرآن نے کہا کہ جن لوگوں نے کہا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اس پر جم گئے ان کے لیے نہ خوف ہوگا نہ رنج ہوگا۔(الاحقاف:۱۳) ایک دوسری جگہ یہ خبر دی گئی کہ ان پرفرشتے نازل ہوتے ہیں اور جنت کی خوش خبری سناتے ہیں، اور دنیا و آخرت میں بھلائیوں کا مژدہ سناتے ہیں۔(فصلت:۳۰)۔اسی استقامت کا ہم معنی لفظ ’صبر ‘ہے جس کا تذکرہ قرآن میں ہے۔ ذمہ داران جماعت کے لیے مطلوبہ اوصاف میں سے اس وصف کو تتمہ بھی کہا جاسکتا ہے۔مطلوب کیفیت یہی ہے کہ اجتماعیت میں خواہ کوئی متزلزل ہو جائے، ذمہ دار ہمیشہ صبر و استقامت کا پہاڑ ہوتا ہے۔وہ جانتا ہے کہ یہ راہ پھولوں کا سیج نہیںکہ آسانی سے سر ہوجائے۔بلکہ باطل پرستوں سے اعلانِ براء ت کرنے، آگ میں کود جانے، بے آب و گیاہ دشت و صحرا میں بھٹکنے، وادیٔ غیرِ ذی زرع میں اپنے اہل و عیال کو چھوڑنے، لختِ جگر پر چھری چلادینے کی راہ ہے۔ یہ راہ طائف کے پتھر کھانے، وطنِ عزیز سے ہجرت کرنے کی راہ ہے۔ دل برداشتہ ہوئے بغیر ثُمَّ اسْتَقَامُوْا کا مظاہرہ کرنا ناگزیر ہے۔’’بہار ہو کہ خزاں لاالہ الا اللہ‘‘ ذمہ داران اوروابستگان کا نغمہ ہوا کرتا ہے۔
بہ حیثیت مجموعی بہتر ہونا:
مطلوبہ اوصاف کے تذکرہ کے ساتھ یہ اضافہ کہ ’’کسی بھی ذمہ داری کے لیے متعلقہ افراد میں بہ حیثیت مجموعی بہتر ہونا‘‘فطری ہے۔ اس لیے کہ تمام ہی اوصاف ہر فرد میں یکساںطور پر نہیں پائے جاسکتے۔ لہٰذامجموعی لحاظ سے یہ دیکھا جائے گا کہ ان امور کی روشنی میںبہ حیثیت مجموعی متعلقہ حلقہ ٔ انتخاب یا تقرر میںموزوں تر احباب کون ہیں۔شریعت نے نماز کی امامت کے لیے تدریج سکھائی سب سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ قرآن کا علم رکھنے والا کون ہے، اگر کوئی اس پہلو سے نظر نہ آئے تو پھر دیکھا جائے کہ حدیث کا علم رکھنے والا کوئی ہے، پھر حافظ قرآن کو ترجیح دی جائے گی،بصورت دیگر عمر کا لحاظ کیا جائے گا۔اگر قرآن کا علم رکھنے والے ایک سے زائد ہوں تو یہ دیکھا جائے گاکہ ان میں اضافی ’علم حدیث ‘ اورحفظ قرآن کے حامل کون ہیں۔ان سب میں کم و بیش یکساں ہوں تو امامت ان میں سے بڑی عمر والے کے حوالے کی جائےگی۔ اسی طرح تحریکی حلقوں میں بھی دیکھا جائے گا کہ امانتیں اہل ترین افراد کے حوالے کی جائیں۔البتہ منتخب و مقرر ہونے والوں کی یہ اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوںکے ضمن میں بیان کیے گئے اوصاف کو یاد رکھیں اپنے اندر جن اوصاف کی کمی پائی جائے ، انہیں پیدا کرنے اور پروان چڑھانے کی سعی کریں۔
مخصوص ذمہ داریوں کے لیے مطلوبہ اوصاف
مشترکہ اوصاف کے بعد ان اوصاف کا تذکرہ ضروری ہے جو مختلف ذمہ داریوں کے لیے مخصوص ہیں۔
(الف) مجلس نمائندگان :
مجلس نمائندگان ،ملک بھر سے منتخب علاقائی و غیر علاقائی نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہے اس کے اختیارات یہ ہیں: امیر جماعت کا انتخاب اور معزولی، امیر جماعت کے استعفیٰ کی بابت فیصلہ، مرکزی مجلس شوریٰ یا اس کے کسی رکن کا انتخاب اور معزولی، امیر جماعت اور مرکزی مجلس شوریٰ کے درمیان اختلافی امور کی بابت فیصلہ، دستور جماعت میں ترمیم سے متعلق مرکزی مجلس شوریٰ کی سفارشوں اور مجلس نمائندگان اور امیر جماعت کی تجاویز پر غور و فیصلہ اور میقاتی پروگرام کی روشنی میں گزشتہ دوسالہ کاموں کا جائزہ مجلس نمائندگان کے لیے کسی رکن جماعت کو منتخب کرنے کے لیے مشترکہ مطلوبہ اوصاف کے علاوہ ’’فہم دین‘‘کی اضافی خصوصیت بیان کی گئی ہے۔فہم دین کی تشریح کی جاچکی ہے۔
(ب) امیر جماعت:
امیر جماعت کا انتخاب مجلس نمائندگان کرتی ہے جس کی حیثیت جماعت کے رہنما کی ہوتی ہے۔نظم جماعت اور تحریک کو چلانے کی آخری ذمہ داری امیر جماعت پر ہوتی ہے۔وہ جماعت کی پالیسی کی تشکیل اور تمام اہم معاملات کے فیصلوں کے لیے مرکزی مجلس شوریٰ سے مشورہ کرتا ہے۔امیر جماعت کے اختیارات میں کل ۲۹؍ نکات بیان کیے گئے ہیں، بعض امور یہ ہیں:جماعت کے جملہ انتظامی معاملات کی انجام دہی، جماعت کے املاک میں تصرف ، ارکان کے داخلے کی منظوری، علاقائی نظام اور تنظیمی حلقے قائم کرنا، مجلس نمائندگان اور مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس طلب کرنا اور ان کی صدارت کرنا، قیم ،امرائے حلقہ اور امرائے مقامی کا تقر ر کرنا، حلقوں کی مجالس شوریٰ کے فیصلوں کی توثیق کرنا، بیت المال کے متعلق قواعد و ضوابط مرتب کرنا، جملہ اصحاب منصب کے استعفوں کے بارے میں فیصلہ کرنا،(مکمل تفصیلات دستور میں درج ہیں)۔امیر جماعت کے لیے مطلوبہ اوصاف میں علم کتاب و سنت، تقویٰ، امانت و دیانت ، معاملہ فہمی، تحریک اسلامی کی مزاج شناسی اور اس سے وابستگی ، دستور جماعت کی پابندی اور راہ خدا میں استقامت کے علاوہ ’’دینی بصیرت‘‘، ’’تدبر و اصابت رائے‘‘، ’’عزم و حزم‘‘، ’’قوت فیصلہ‘‘، ’’حلم و بردباری‘‘، ’’متعلقہ ذمہ داریوں کو انجام دینے کی صلاحیت‘‘ اور آخر میں ’’بہ حیثیت مجموعی جماعت میں سب سے بہتر ہو‘‘کا اضافہ کیا گیا ہے۔
’’دینی بصیرت‘‘علم کتاب و سنت ، تاریخ اقوام و ملل سے واقفیت، قوموں کے عروج و زوال کے ضمن میں اللہ کی سنت سے آگاہی، اور حالات حاضرہ کے قریبی مشاہدہ سے پیدا ہوتی ہے۔علامہ اقبال کے بقول:صاحب امروز وہی ہے جو (اپنی ہمت سے) زمانے کے سمندر سے گوہر فردا نکا لنے کا ہنر رکھتا ہو۔ دینی بصیرت ،ماضی ، حال و مستقبل کے دینی تجزیے کا نام ہے۔امیر جماعت کی شخصیت جہاں بیںہونی چاہیے جو تحریک کو دور رس مقاصد کے حصول کے لیے مستعد رکھ سکے اورجملہ متوسلین میںبصیرت پیدا کرسکے۔
’’ عزم اور حزم‘‘کے الفاظ پکے ارادے اور مستقل مزاجی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ اجتماعیت میں خواہ کوئی دل شکستہ ہو جائے لیکن ایک قائد ہمیشہ پر عزم اور پر امید ہوتاہے۔جیسا کہ نبی ﷺ سے مخاطب ہو کر اﷲ تعالیٰ نے انبیاء کرام کے اس وصف کا ذکر کیا:’’پس اے نبی ﷺ آپ صبر کیجیے جیسا کہ اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا تھا۔‘‘( الاحقاف ۔۳۵ )۔
’’حلم اور بردباری ‘‘۔۔۔تواضع و انکساری ، صبر و تحمل ، قوت برداشت اور اعلیٰ ظرفی کا نام ہے۔قرآن نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بطور خاص ’’حلیم‘‘کے لقب سے یاد کیا ہے(التوبہ:۱۱۴، ھود:۷۵)۔اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ولاد ت کی بشارت ’’بغلام حلیم‘‘کے الفاظ سے دی گئی ۔ صاحب تفہیم القرآن نے حلیم کی تشریح میں لکھا ہے کہ ’’حلیم اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے مزاج پر قابو رکھتا ہو، نہ غصے اور دشمنی اور مخالفت میں آپے سے باہر ہو، نہ محبت اور دوستی اور تعلقِ خاطرمیں حد اعتدال سے تجاوز کرجائے‘‘۔امیر جماعت کے لیے حلم و بردباری کی اہمیت توضیح کی متقاضی نہیں ہے۔ جماعت کی رہنمائی اور اس کے نظم کو چلانے کے لیے اور جملہ فرائض و اختیارات کو انجام دینے کے لیے حلم و بردباری ناگزیر ہے۔
’’متعلقہ ذمہ داریوں کو انجام دینے کی صلاحیت‘‘میں وہ تمام باتیں شامل ہیں جو دستور میں امیر جماعت کے فرائض اور اختیارات کے تحت بیان کی گئی ہیں، لہٰذا ان ذمہ داریوں کے استحضار سے مطلوبہ صلاحیت کااندازہ کیا جاسکتا ہے۔
(ج) مرکزی مجلس شوریٰ:
مرکزی مجلس شوریٰ، امیر جماعت کی امداداور مشورے کے لیے تشکیل پاتی ہے جس سے امیر جماعت ان تمام اہم معاملات میں مشورہ لیتے ہیں جن کا جماعت کی پالیسی یا اس کے نظم پر قابل لحاظ اثر پڑتا ہے۔مرکزی مجلس شوریٰ کا انتخاب مجلس نمائندگان میں سے ہوتا ہے اور وہ مجلس نمائندگان کے بھی بدستور رکن رہتے ہیں ۔مرکزی مجلس شوریٰ کے ہر معمولی اجلاس کاایجنڈا یہ ہوتاہے۔ جماعت کی سالانہ رپورٹ، سال گزشتہ کے بجٹ کی روشنی میں مرکزی بیت المال کی آمد و صرف کی رپورٹ ،آئندہ سال کا بجٹ ،بشرط ضرورت آیندہ کے لیے جماعتی پروگرام اور جماعت کی پالیسی پروگرام یا دیگر جماعتی امورکے متعلق وہ تجاویز جو امیر جماعت یا کسی رکن مرکزی مجلس شوریٰ کی طرف سے پیش ہوں۔ان کے علاوہ جماعت کے دستور سے متعلق اگر کچھ تجاویز ہوں تو مرکزی مجلس شوریٰ کے اجلاس میں ان سے متعلق سفارشیں مرتب کی جائیں گی تاکہ انہیں مجلس نمائندگان میں پیش کیا جاسکے۔جہاں تک مطلوبہ اوصاف کا معاملہ ہے ، مرکزی مجلس شوریٰ کے ارکان کے لیے وہی اوصاف مطلوب ہیں جو مجلس نمائندگان کے ارکان کے لیے درج ہیں۔ فرق صرف حلقۂ انتخاب کا ہے کہ مرکزی مجلس شوریٰ کے لیے جن افراد کے حق میں رائے دی جائے وہ بہ حیثیت مجموعی مجلس نمائندگان کے ارکان میں بہتر ہوں۔
(د) قیم جماعت:
جماعت کے تمام مرکزی شعبوں کے نظم و نسق کی نگرانی کرنے ، جماعت کے عام نظم کو ٹھیک ٹھیک قائم رکھنے اور تنظیمی حلقوں سے ربط اور ان پر نگاہ رکھنے اور حالات کے مطابق انہیں ہدایات دیتے رہنے کے لیے جماعت کا ایک قیم ہوتا ہے جسے امیر جماعت مرکزی مجلس شوریٰ کی آراء کے پیش نظر مقرر فرماتے ہیں۔مشترکہ اوصاف کے علاوہ قیم جماعت کے لیے’’تدبر و اصابت رائے‘‘’’ قوت فیصلہ‘‘،’’ حلم و بردباری ‘‘اور ’’تنظیمی صلاحیت ‘‘کا اضافہ کیا گیا ہے ۔امیر جماعت تحریک کی سرپرستی اور رہنمائی پر فائز ہوتے ہیں، تنظیمی لحاظ سے ان کی معاونت کے لیے قیم کا تقرر عمل میں آتا ہے۔ اس لحاظ سے جماعت کے نظم و نسق کی نگرانی قیم جماعت پر عائد ہوجاتی ہے۔ اس تناظر میں ان چاروںاوصاف کی ضرورت فطری ہے کہ وہ مختلف امور میںتدبر کی صلاحیت کاحامل ہو، اصابت رائے اور فیصلہ کی قوت رکھتا ہو۔ تنظیمی داؤ و پیچ ، اور پیچیدگیوں کے درمیان حلم اور بردباری کی بھی ضرورت ہوتی ہے ،اور قیمی کے فرائض کو انجام دینے کے لیے تنظیمی صلاحیت بھی ناگزیر ہے۔
(ہ) امیر حلقہ:
امیر جماعت ہر تنظیمی حلقہ کے لیے حلقہ کی مجلس شوریٰ سے مشاورت کے بعد، ارکان کی آراء اور مصالح جماعت کے پیش نظر امیر حلقہ کا تقرر فرماتے ہیں۔ امیر حلقہ، مرکز کی ہدایات کے تحت اپنے حلقہ کی جماعتوں کے نظم و نسق اور ارکان حلقہ کی تربیت و رہنمائی کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ وہ تمام اہم معاملات میں اپنے حلقہ کی مجلس شوریٰ سے مشورہ بھی لیتا ہے۔مشترکہ اوصاف کے علاوہ امیر حلقہ کے لیے اضافی طورپر ’’بردباری‘‘، ’’دعوتی جدوجہد‘‘ اور ’’تنظیمی صلاحیت‘‘کا تذکرہ کیا گیاہے۔امیر حلقہ کے فرائض کے تناظر میں ان تینوں صفات کی غیر معمولی اہمیت ہے۔حلقہ کی جملہ سرگرمیوں کی سرپرستی و رہنمائی، ارکان کی تربیت کے لیے بردباری ناگزیر ہے۔ تنظیم کو کامیابی کے ساتھ آگے بڑھانے اور نظم و نسق پر گرفت قائم رکھنے کے لیے تنظیمی صلاحیت بھی ضروری ہے۔امیر حلقہ کے لیے دعوتی جدوجہد کی شرط بھی با معنی ہے۔ حلقہ بھر میں دعوت دین کے کام کو مستعدی کے ساتھ انجام دینے کے لیے دعوتی نمونہ قائم کرنا بھی ضروری ہے۔ اسی لیے امیر حلقہ اور امیر مقامی کے ذیل میں اس کو ایک مطلوبہ وصف کے طورشامل کیا گیا ہے تاکہ پورے وابستگان میں اس کام کو بحسن و خوبی انجام دیا جاسکے۔دوسری جانب دعوتی جدوجہد کو ضروری قرار دیا گیا ہے تاکہ تحریکی قیادت مرجع خلائق بنے اور نہ صرف برادران ملت کے لیے قیادت فراہم ہو بلکہ برادران وطن کے لیے بھی ۔
(و) حلقہ کی مجلس شوریٰ :
دستور کے مطابق، ہر امیر حلقہ کے لیے حلقے کی ایک مجلس شوریٰ ہوتی ہے جواہم معاملات میں امیر حلقہ کو مشورہ دیتی ہے۔اس کے سالانہ اجلاس میں سالانہ رپورٹ، سال گزشتہ کے بجٹ کی روشنی میں حلقہ کے بیت المال کی آمد و صرف کی رپورٹ اور آئندہ سال کا بجٹ غور و فیصلہ کے لیے پیش ہوتے ہیں۔حلقہ کی مجلس شوریٰ کے ارکان کے لیے وہی اوصاف مطلوب ہیں جو مجلس نمائندگان اورمرکزی مجلس شوریٰ کے ارکان کے لیے درج ہیں۔ فرق صرف حلقۂ انتخاب کا ہے کہ حلقہ کی مجلس شوریٰ کے لیے جن افراد کے حق میں رائے دی جائے وہ بہ حیثیت مجموعی حلقہ کے ارکان میں بہتر ہوں۔
(ز) امیر مقامی :
مرکز اورحلقہ کی قیادت جماعت کی علمی، فکری اور عملی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتی ہے، البتّہ تحریک کے کاموں کے نفاذ، سرگرمیوں کے اہتمام، اہداف کے حصول اور داخلی نظم کے استحکام کی راست ذمہ داری امیر مقامی پر ہوتی ہے۔مرکز اورحلقہ کی متحرک، باوقارو ذہین قیادت کے باوجود اگر مقامی قیادت مضمحل ہوتو تحریکی رفتار متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی،کیوں کہ نظمِ جماعت کو مستحکم کرنے میں اہم ترین رول ایک امیرِ مقامی کو ادا کرنا ہوتا ہے۔اگر مقامی قیادت مثالی ہو، متحرک و مستعد ہو، دلنواز و پرسوز ہو تو وہ اپنے حلقۂ اثر میں نظامِ سمع و طاعت قائم کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہوجاتی ہے۔
دستور جماعت کی روشنی میںامیر مقامی، امیر حلقہ کی ہدایت کے تحت جماعت کے نظم و نسق اور ماتحت ارکان کی تربیت و رہنمائی کا ذمہ دار ہوتا ہے اور جماعت کے کام مقامی ارکان کے مشورے سے انجام دیتا ہے۔امیر مقامی کے لیےیہ عمومی شرط لگائی گئی ہے کہ وہ بہ حیثیت مجموعی مقامی ارکان میں سب سے بہتر ہو۔امیر مقامی کے ضمن میں دستور کی رہنمائی میں سب سے نمایاں فرق ’’تقویٰ ‘‘کو مقدم کرنا ہے، جبکہ’’ دینی معلومات‘‘ کا تذکرہ اس کے بعد ہےجبکہ امیر جماعت اور امیر حلقہ کے لیے علم کو مقدم کیا گیا ہے۔ اس نمایاں فرق کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ مقامی قیادت کے لیے جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ ’’دینداری‘‘ہے۔ امیر مقامی کو دعوتی کام بھی انجام دینا ہے اور رفقاء کی تربیت بھی کرنی ہے،جس کے لیے سب سے زیادہ اخلاق و کردار ، زہد و تقویٰ کی ضرورت ہوتی ہے، جس کے ساتھ دینی معلومات کا حامل ہونا مطلوب ہے۔ہوسکتا ہے کہ ایک شخص مقامی سطح پر علم میں آگے ہو لیکن زہد میں کمزور ہو، سیرت و کردار کے لحاظ سے بلند نہ ہوتو ایسی صورت میںتحریکی قیادت کاوقار باقی نہ رہ سکے گا ۔
امیر مقامی کے لیے دینداری کی ترجیح کے بعد دوسری اضافی صفت ’’بردباری‘‘ ہے۔مقامی قیادت کے لیے ’’بردباری ‘‘کا اضافہ، لوگوں سے ان کے قریبی تعلقات و معاملات کے پیش نظر کیا گیا ہے۔ ’’بردباری ‘‘تواضع و انکساری ، صبر و تحمل ، قوت برداشت اور اعلیٰ ظرفی کا نام ہے۔بسا اوقات رفقاء کے تساہل، غیروںکے طعن و تشنیع ، سمع و طاعت میں کمی کی وجہ سے اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ مقامی ذمہ دار ان مایوسی کی طرف مائل ہوجائیں۔اس موقع پر بردباری ہی وہ صفت ہے جو امرائے مقامی کو سنبھال سکتی ہے اور ان میں صبر و ثبات اور مزاج میں ٹھہراؤ پیدا کرسکتی ہے۔
تیسری چیز ’’دعوتی جدوجہد ‘‘ہے، جو امیر حلقہ اور امیر مقامی کے لیے ان کی ذمہ داریوں کے تناسب کے ساتھ مطلوب ہے۔جماعت چاہتی ہے کہ امرائے مقامی کا تعلق راست طور پر عامۃ الناس کے ساتھ قائم ہو۔ امراء کو مرجع خلائق بنایا جائے۔ وہ نہ صرف ملت کی قیادت کریں بلکہ عام انسانوں کے لیے بھی رہنما بنیں۔دعوت اس تحریک کا بنیادی کام ہے، ایسا ہو نہیں سکتا کہ اس کام سے ذمہ داران مستثنیٰ قرار دے دیے جائیں۔ اور جب امرائے حلقہ اورامرائے مقامی اس اہم فریضہ کو انجام دیتے ہوئے محسوس ہوں گے، تو لازماً جملہ وابستگان بھی دعوتی کام مزید مستعدی کے ساتھ انجام دیں گے۔
چوتھی اضافی خصوصیت ’’تنظیمی صلاحیت ‘‘ہے۔مقامی نظم کو چلانے کی راست ذمہ داری امیر مقامی پر ہوتی ہے جس کے لیے تنظیمی صلاحیت ضروری ہے۔تنظیمی صلاحیت سے مراد تنظیم کو چلانے کے لیے درکار تمام تر صلاحیتیں ہیں جن میں نشستوں کا اہتمام، مشاورت کے آداب کا لحاظ، اجتماعات کے اہتمام کے عوامل سے واقفیت، تشہیر کے طریقوں کا استعمال ،عوام و خواص سے روابط ،افراد سے کام لینے کا طریقہ ، وغیرہ کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے۔ اس صلاحیت میں اگر کمی پائی جائے تو منصوبے کے بہت سارے کام مکمّل ہونے سے رہ جاتے ہیں۔
توجہ طلب پہلو
اخیر میں ان توجہ طلب پہلؤوں کی نشاندہی بھی ضروری ہے جن کی اصلاح ناگزیر ہے۔ کیوں کہ محاسن کے ساتھ معائب پر بھی نظر ہونی چاہیے تاکہ ان سے بچا جاسکے۔ خامیاں اور کمزوریاں ہر انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہیں۔ ذمہ داران ان سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ اس لحاظ سے جو کمزوریاں شیطان کے وسوسوں سے پیدا ہوسکتی ہیں ان میں خود کو بڑا سمجھنا، مامورین پر بے جا تحکم جتلانا، دوسروں کو حقیر سمجھنا، وغیرہ شامل ہیں۔ اس سلسلے میں مولانا مودودیؒ کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے: ’’امرائے جماعت حکم چلانے کا طریقہ سیکھیں۔ امیر کے لیے ہر گز یہ حلال نہیں کہ وہ اپنے آپ کو کوئی بڑی چیزسمجھنے لگے اور اپنے تابع رفقاء پر بے جا تحکم جتلانے لگے۔ اسے حکم چلانے میں کبریائی کی لذت نہ لینی چاہیے۔ اسے اپنے رفقاء سے نرمی اور ملاطفت کے ساتھ کام لینا چاہیے‘‘ (تحریک اور کارکن)۔ ایک اور موقع پر آپ نے کہا’’امیرِ جماعت کا کام یہ ہے کہ وہ اپنے اندر ساتھیوں کو لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اور ان کے اوپر اس طرح حکم چلانے کی کوشش نہ کرے جس سے ان کے اندر ضد یا بددلی پیدا ہو۔بلکہ دلی رفاقت، دلی محبت اور دلی خلوص کے جذبے سے ان کو متأثر کرے اور ارکانِ جماعت اس کے حکم کے منتظر نہ رہیں بلکہ اس کامنشا سمجھ کر ہی تعمیل کے لیے آمادہ ہوں‘‘ (امیر و مامور)۔ عاجزی و انکساری کا نمونہ سیدِ انسانیت ﷺ کے یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں: ’’میں بھی ایک بشر ہوں، میں بھی بھولتاہوں جس طرح تم لوگ بھولتے ہو، بس جب میں بھول جاؤںتو مجھے یاد دلا دیا کرو‘‘۔ حضرت ابوبکرصدیق ؓ اور حضرت عمرفاروق ؓ سے بھی اسی طرح کے جملے منقول ہیں۔
ان کمزوریوں کے علاوہ ذمہ دارانِ تحریک میں خشک مزاجی بھی ایک کمزوری ہے، جبکہ خوش مزاجی اور تبسم و ملنساری ایک تحریکی قائد کی پہچان ہوتی ہے۔رفقاء سے دوری بھی قیادت میں ایک عیب ہے جس سے تمام ذمہ داران کو محفوظ رہنا چاہیے۔انہیں نبی کریم ﷺ کی طرح اپنی شخصیت کو ہردلعزیز بنانا ہوگا کہ مامورین ان کے اطراف فرطِ محبت میں ہمیشہ ساتھ ساتھ رہیں۔ ایک ذمہ دار کو چڑچڑے پن اور غصے سے بھی اجتناب کرنا چاہیے اور عفو و درگزر سے کام لینا چاہیے۔ تاکہ ذمہ داران اپنے مامورین کو قدر کی نگاہ سے دیکھیںاور ان کی ہر پہلوسے خیر خواہی کا مظاہرہ کریں۔
علامہ اقبالؔؒ کی زبانی اس گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کی امامت کے لیے جس سبق کو ہمیں یاد کرنا ہے وہ صداقت، عدالت اور شجاعت کا سبق ہے۔نرم دمِ گفتگو اور گرم دمِ جستجو ہونا ایک قائد کی پہچان ہے۔وہ گفتار و کردار میں اﷲ کی برہان ہوتا ہے۔ایک میرِ کارواں کے لیے جو رختِ سفر انہوں نے تجویز کیا ہے وہ نگہ بلند، سخن دلنواز اور جاں پر سوز ہے۔ اور قیادت کی ناکامی سے اگر کوئی کارواں سے ٹوٹتا ہے اور کوئی حرم سے بدگماں ہوتا ہے تو اس کا سبب میرِ کارواں میں خوئے دلنوازی کی کمی ہے۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تحریک اسلامی کے قافلہ کو صلاحیت و صالحیت سے لبریز قیادت و مشاورت عطا کرے اور جملہ وابستگان کو بنیان مرصوص اور رحماء بینھم کی اسپرٹ کے ساتھ سمع و طاعت کا مظاہرہ کرنے کی توفیق و صلاحیت سے نوازے۔ آمین
مشمولہ: شمارہ مئی 2015