اللہ نے انسان کوجن نعمتوں سے نوازا ہے، ان میں ایک بڑی نعمت بچے بھی ہیں۔ قرآن کریم میں متعددجگہوں پر ااس کا تذکرہ ہے۔ ایک جگہ بنی اسرئیل پر اپنی نعمتوں کاتذکرہ کرتے ہوے فرمایا:
وَأَمْدَدْنَاکُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِیْنَ وَجَعَلْنَاکُمْ أَکْثَرَ نَفِیْرا﴿بنی اسرائیل:۶﴾
’’اور ہم نے تمھیں مال و اولاد سے مدد دی اور تمہاری تعداد پہلے سے بڑھا دی۔‘’
ایک دوسری جگہ اسے اپنی اہم نعمتوں میں شمار کیاہے :
وَاللّٰہُ جَعَلَ لَکُم مِّنْ أَنفُسِکُمْ أَزْوَاجاً وَجَعَلَ لَکُم مِّنْ أَزْوَاجِکُم بَنِیْنَ وَحَفَدَۃً وَرَزَقَکُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ ﴿النحل:۷۲﴾
’’اور اللہ ہے جس نے تم ہی میں سے تمہاری ہم جنس بیویاں بنائیں اسی نے ان بیویوں سے تمہیں بیٹے پوتے عطا کئے اور اچھی اچھی چیزیں کھانے کو دیں۔‘’
بچے ہی در اصل کسی ملک اور قوم کی امیدوں کا مرکزہوتے ہیں۔ مستقبل اپنی شناخت کے لیے ان کا محتاج ہوتا ہے ۔قوموں اور ملکوں کی بلندی اور عروج کا یہی ضامن ہوتے ہیں۔
اَلْمَالُ وَ الْبَنُونُ زِیْنَۃَ الْحَیَاتِ الدُّنْیَا ﴿ بنی اسرائیل:۴۶﴾
’’مال واولاد دنیا وی زندگی کے سامان آرائش ہیں۔‘’
ایسی صورت میں ضروری ہے کہ بچوں کے سلسلے میں صحیح اور سنجیدہ رویہ اختیار کیا جائے۔ غلط رویہ جہاں خود ان بچوں کے لیینقصان دِہ ہے، وہیں ان کے سرپرستوں کے لییبھی بہت سارے فوائد سے محرومی کا سبب ہے ۔
نزول قرآن کے زمانے میں لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان غیر مساویانہ سلوک روا رکھا جاتا تھا۔حتیٰ کی بعض شقی القلب لوگ بچیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے۔ قرآن کی یہ آیت ان کی اسی شقاوت قلبی کی طرف اشارہ کرتی ہے:
وَاِذَا الْمَوْؤُودَۃُ سُئِلَتْ oبِأَیِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ ﴿تکویر: ۸،۹﴾
’’یاد کرو جب کہ زندہ درگور کی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گاکہ اسے کس جرم میں مارا گیا۔‘’
حق حیات
دنیا میں ہر بچہ اپنے ساتھ اپنا حق حیات لے کر آتا ہے۔ یہ ماں باپ یا سماج کانہیں، بل کہ اس کے خالق کاعطا کردہ ہے۔ اسی لیے اسے حق سے محروم کرنا ایک جرم ہے:
انَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَیْْنَ بِالْعَیْْنِ وَالأَنفَ بِالأَنفِ وَالأُذُنَ بِالأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ فَمَن تَصَدَّقَ بِہِ فَہُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہُ وَمَن لَّمْ یَحْکُم بِمَا أنزَلَ اللّہُ فَأُوْلَ ئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ ﴿المائدہ: ۴۵﴾
’’تورات میں ہم نے یہو دیوں پر یہ حکم لکھ دیاتھا کہ جان کے بدلے جان، آنکھ کے بدلے آنکھ ،کان کے بدلے کان،دانت کے بدلے دانت اور زخموں کا بدلہ ان کے برابر ہے جس نے قصاص کو معاف کر دیاتو وہ ا س کے لیے کفارہ ہے اورجواللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہ کریں وہی ظالم ہیں ۔‘’
زمانہ جاہلیت میں بچی کی پیدایش باعث شرم سمجھی جاتی تھی۔ کسی کو یہ پسند نہیں تھا کہ وہ کسی ایسی اولاد کاباپ بنے جسے دوسرے کی زوجیت میں دیناپڑے۔ اِسے قرآن نے یوں بیان کیا ہے:
وَاذَا بُشِّرَ أَحَدُہُمْ بِالأُنثَی ظَلَّ وَجْہُہُ مُسْوَدّاً وَہُوَ کَظِیْمٌ o یَتَوَارَی مِنَ الْقَوْمِ مِن سُوئ ِ مَا بُشِّرَ بِہِ أَیُمْسِکُہُ عَلَی ہُونٍ أَمْ یَدُسُّہُ فِیْ التُّرَابِ ﴿النحل:۵۹،۵۸﴾
’’جب ان میں سے کسی کو بیٹی پیدا ہونے کی خوشخبری دی جاتی تو اس کے چہرے پر کلونس چھاجاتی اور بس خون کا گھونٹ پی کر رہ جاتا لوگو ںسے چھپتا پھرتا کہ اس بری خبر کے بعدکیا کسی کو منھ دکھائے، سوچتا کہ ذلت کے ساتھ بیٹی کو لیے رہے یا مٹی میں دبا دے۔‘’
بعض شقی القلب ایسے بھی تھے جو ان معصوم بچیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے- انھی میں بعض ایسے بھی تھے جو بچیوں کی پیدایش اپنے اوپر ایک بوجھ تصور کرتے تھے۔ عصر حاضر کے حالات بھی کچھ اس سے مختلف نہیں ہیں۔ما ضی میں زندہ درگور کرکے اور چاقو چھری وغیرہ سے قتل کیا جاتاتھا۔ اب میڈیکل سائنس نے ترقی کر لی ہے تو رحم مادر ہی میں دوائوں اور انجکشن کے ذریعے انھیں قتل کر دیا جاتا ہے ۔ اسی سے متعلق ایک مسئلہ ضبط ولادت ﴿Birth control﴾کا ہے، جسے اب تحدید نسل ﴿Family Planing﴾کے خوبصورت پردے میں حکومتی اور غیر حکومتی تنظیموں اور اداروں کے ذریعے زورو شور کے ساتھ پھیلایا جارہا ہے اور معاشی تحفظ اورقابل سکونت جگہوں کی کمی کے نام پر کم سے کم پیدائش پر زور دیا جا رہا ہے ۔ اسلام ان سب نظریات غلط قرار دیتا ہے اور عقل بھی ان کے غلط ہونے کا تقاضا کر تی ہے۔اسلام نے بچی کی پیدائش کو باعث شرف قرار دیا ہے۔ اس کی بہترین تربیت کرنے اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے پر آخرت میں بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا :
من عال ثلاث بنات فأدبہن وزوجہن واحسن الیہن فلہ الجنۃ ﴿ابو داو،د ،کتاب الادب ،باب فی فضل من عال یتامیٰ﴾
’’جس نے تین بچیوں کی پرورش کی ، ا ن کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا ،ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے ۔‘’
ایک جگہ آپ ﷺ نے فرمایا :
من عال جاریتین حتیٰ تبلغا جائ یوم القیامۃانا وھو ھٰکذا وضم اصا بعہ ﴿مسلم ،ابوابالبروالصلہ، باب فضل احسان الی البنات ﴾
’’جو شخص دو بچیوں کی جوانی کو پہنچنے تک پرورش کرے گا، قیامت کے روز میں اور وہ اس طرح ہو ں گے یہ ارشاد فرماتے ہوے آپ نے اپنی انگلیوں کو ملایا۔‘’
انسانی جان کے احترام کے لیے اسلام نے قانونی دفعات بھی طے کیں:
وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّہُ اِلاَّ بِالحَقِّ وَمَن قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَاناً فَلاَ یُسْرِف فِّیْ الْقَتْلِ اِنَّہُ کَانَ مَنْصُوراً﴿بنی اسرائیل:۳۰﴾
’’کسی جان کا مارنا جسے اللہ نے حرام قرار دیا ہو ہرگز ناحق قتل نہ کرو جو مظلوم کی صورت میں مارا جائے ہم نے اس کے وارث کو اختیار دیاپس وہ قتل میں زیادتی نہ کرے بے شک اس کی مدد کی جاے گی ۔‘’
اسی طرح ضبط ولادت کی وکالت کرنے والوں کی اسلام سختی کے ساتھ مخالفت کر تا ہے۔ دراصل یہ نظریہ ان لوگو ںکا ہے، جن کااس کائنات کے مقتدر اعلیٰ پر ایمان نہیںہے۔ وہ دنیا کے تمام مسائل کا حل اپنے خود ساختہ نظریوں میں تلاش کرتے ہیں۔حا لانکہ خالق کائنات دنیا کو پیداکرنے کے بعد اس سے الگ تھلگ ہو کر نہیں بیٹھ گیا۔
وَمَا کُنَّا عَنِ الْخَلْقِ غَافِلِیْن﴿مومنون:۱۷﴾ ’’ہم مخلوقات سے غافل نہیں ہیں۔‘’
وہ جانتا ہے کہ دنیا میں سکونت کی کتنی گنجایش ہے۔ اسی اعتبار سے نسل انسانی میں اضافہ کرتا ہے :
اِنَّا کُلَّ شَیْْئ ٍ خَلَقْنَاہُ بِقَدَرٍ ﴿قمر:۴۹﴾‘’ہم نے ہر چیز کو ایک مقرر انداز سے پیدا کیا ۔‘’
وَان مِّن شَیْْئ ٍ اِلاَّ عِندَنَا خَزَائِنُہُ وَمَا نُنَزِّلُہُ اِلاَّ بِقَدَرٍ مَّعْلُومٍ﴿حجر :۲۱﴾
’’اورہر چیز کے خزانے ہمارے پاس ہیں ہم ہر چیزکو اس کے مقرر انداز سے اتارتے ہیں۔‘’
چناںچہ دنیا میں پھیلی ہوئی بے شمار مخلوقا ت میں مختلف جوڑوں کے اند ر توالد و تناسل کی اس قدر گنجایش ہے کہ اگر صرف ایک جوڑے کوپوری قوت کے ساتھ آگے بڑھنے کا موقع مل جائے تو چند برسوں میں صرف اسی ایک مخلوق سے پوری زمین پٹ جائے گی۔ ﴿اسلام اور ضبط ولادت، مولانا مودودیؒ ﴾ مگر پوری دنیا کا نظام ایک فطر ی طریقے سے اللہ کے ضابطے کے تحت چل رہا ہے۔ لوگ اپنے اندازوں اور تخمینوں کا حساب لگاتے ہیںکہ موجودہ آبادی دو ارب ہے تو آیندہ پچاس برسوں میں چار ارب ہو جائے گی۔ لہٰذ ابھی سے ان کے آنے کا راستہ بند کر دیاجاے۔ افسوس کہ کتنی بڑی خود غرضی اور مفاد پرستی ہے کہ یہ انسان خود تو پیدا ہو گیا مگر اپنی عیش کوشی کے لیے اپنے جیسے دوسرے انسانوں کو پیدا نہیں ہونے دینا چاہتا۔ شاید اسے نہیں معلوم کہ جس کا پیدا ہونا نوشتہ تقدیر میں لکھا جا چکا ہے، وہ تو پیدا ہو کر ہی رہے گا۔ اللہ کے رسولﷺنے فرمایا:
فانہ لیست نسمۃ کتب اللہ ان تخرج الاوہی کائنۃ ﴿بخاری کتاب القدر ،باب وکان امراللہ قدرا مقدورا﴾
’’جس کا پیدا ہونانوشتہ تقدیر میںلکھا جا چکا ہے وہ تو پیداہو کر ہی رہے گا ۔‘’
اور یقینا جو ہستی آج تک پید اہونے والے انسانوں کے لیے گنجایش نکالتی رہی ہے، وہ آیندہ بھی نکالتی رہے گی:
وَمَا مِن دَآبَّۃٍ فِیْ الأَرْضِ اِلاَّ عَلَی اللّٰہِ رِزْقُہَا وَیَعْلَمُ مُسْتَقَرَّہَا وَمُسْتَوْدَعَہَا کُلٌّ فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ ﴿ہود: ۶﴾
’’زمین میں چلنے پھرنے والاکوئی جاندار ایسا نہیںجس کا رزق اللہ کے ذمہ نہ ہو اور وہ زمین میں اس کے رہنے اور سونپے جانے کی جگہ کو جانتا ہے سب کچھ ایک صاف دفتر میں درج ہے۔‘’
اسی طرح جب انسان رزق دینے کا ذمے دار خود کو سمجھ لیتا ہے تو دوسروں کی پیدایش اپنے رزق میں تنگی کا باعث قرار دیتا ہے اور یہ وہ غلطی ہے، جس کا نتیجہ بچوں کے قتل اور ضبط ولادت کی شکل میں نمودار ہوتاہے۔ حالانکہ اللہ رب العزت محض خالق ہی نہیں،بل کہ رازق بھی ہے رزق دینے کی ذمے داری خود اس نے لے رکھی ہے۔ قرآن میں متعدد جگہوں پر اس کی وضاحت ہے:
اللَّہُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ ثُمَّ رَزَقَکُم ﴿روم ۴۰﴾
’’وہی اللہ ہے جس نے تمھیں پید ا کیا پھر تمھیں رزق دیتا ہے ۔‘’
طہ o مَآ أَنزَلْنَا عَلَیْْکَ الْقُراٰنَ لِتَشْقٰی oاِلَّا تَذْکِرَۃً لِّمَن یَخْشٰی ﴿طہ:۱-۳﴾
’’ہم تم سے رزق کا مطالبہ نہیں کرتے بلکہ ہم خودتمھیں رزق دیتے ہیں۔‘’
وَکَأَیِّن مِن دَآبَّۃٍ لَا تَحْمِلُ رِزْقَہَا اللَّہُ یَرْزُقُہَا وَ۱ِیَّاکُمْ ﴿عنکبوت:۶۰﴾
’’کتنے ہی چلنے پھرنے والے جاندا ر ہیں جو اپنا رزق حاصل نہیں کرسکتے ہم انھیں بھی رزق دیتے ہیں اور تمھیں بھی ۔‘’
اِنَّ اللَّہَ ہُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّۃِ الْمَتِیْنُ ﴿الذاریات:۵۸ ﴾
’’یقینا اللہ خوب نوازنے والا طاقت ور اور زبردست ہے ’’
وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْہَا مَعَایِشَ وَمَن لَّسْتُمْ لَہُ بِرَازِقِیْن ﴿الحجر:۲۰﴾
’’اور ہم نے اس میں ﴿زمین﴾سامان رزق فراہم کیا اور جنھیں تم رزق دینے والے نہیں ہو‘’
حقیقت یہ ہے کہ خالق کائنات نے جتنے اسباب رزق فراہم کر دیے ہیں، انھیں ابھی تک کام میںلایا ہی نہیں گیا اور اپنی سستی اور دیگر مصلحتوں پر پردہ ڈالنے کے لیے رزق کی تنگی کا ہوا کھڑا دیا گیا۔اس وقت انسان دنیا کے جتنے حصوں پر کاشت کرتا ہے، اس کے مقابلے میں کئی گنا زمینیں خالی پڑی ہوئی ہیں، جنھیں کام میں لاکر اس مصنوعی تنگی کو دور کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ بحرالکاہل،بحر ہند اور بحر اٹلانٹک کے لاکھوں جزیرے غیر آباد پڑے ہیں۔ اسی طرح افریقہ کا صحرائے اعظم، عر ب کا ریگستان، افغانستان وبلوچستان کے صحرائے ہلمند،ہندستان کا ریگستان تھار، چین کا صحرائے گوبی،جنوبی افریقہ کا صحرائے کلہاری، براعظم آسٹریلیا کے طویل وعریض ریگزار ، ان کے علاوہ دریائے مسی ،سی ،پی ،کے جنگلات، چوڑی چکلی دلدلیں ، سائبیریااور کناڈا میں ٹنڈرا کے میدان اور پانچوں بر اعظم کے کوہستانی سلسلے اور پلیٹووغیرہ۔ اقوام عالم اپنا وہ سرمایہ جو بے تحاشا حربی قوت کو بڑھانے اور دیگر ملکوں کو تباہ کرنے میں صرف کررہے ہیں، اگران ریگستان کو نخلستان بنانے میں صرف کریں تو پوری دنیا گل گلزار بن سکتی ہے۔
﴿ضبط ولادت عقل کی نظر میں ،مصطفی حسن رضوی ﴾
حق حضانت
والدین کی یہ ذمے داری ہے کہ بچے کو دودھ پلانے کا نظم کریں۔ بہتر طریقہ تو یہ ہے کہ ماں ہی دودھ پلائے۔ ماں کے دودھ کے اجزائ میںبچے کے نظام ہضم کے عین مطابق تناسب وتغیر پیدا ہوتا رہتا ہے۔ مزید برآں کہ یہ دودھ ہر طرح کی بیرونی کثافتوں اور جراثیمی آلودگیوں سے پاک ہوتا ہے۔ ماں کا دودھ جہاں ایک طرف بچے کی صحت اور تندرستی کے لیے انتہائی مفید ہے، وہیں یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ بچے کے اخلاق و عادات پر اس کا بہت گہرا اثر پڑتا ہے۔ چنانچہ ماہرین نفسیات کے نزدیک ماں کو حمل کے دوران پرسکون اور خوشگوار ماحول فراہم کیا جائے۔ تاکہ ماں کی سوچ اور تصور اس کے بچے پر بہتر اثر انداز ہو۔ لیکن اگر کسی وجہ سے ماں یہ خدمت انجام نہیں دے سکتی تو باپ کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ بچے کو دودھ پلوانے کا نظم کرے اور اس پر آنے والے مصارف کو برداشت کرے:
وَعلَی الْمَوْلُودِ لَہ‘’ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوف ﴿بقرہ: ۲۳۳﴾
’’بچہ جس کا ہے ﴿باپ ﴾ اس پر دودھ پلانے والی کاکھانااورکپڑ ا دستور کے موافق واجب ہے۔‘’
حق تربیت
بچے کی جسمانی تخلیق کی ساری ذمے داری قدرت نے اپنے ذمّے لی ہے۔ انسان نہ اس کی قدرت رکھتا ہے اور نہ اسے اس کا مکلف بنایا گیا ہے قدرت ہی ماں کے پیٹ میں اس کے تمام اعضائ وجوارح کی تکمیل کرتی ہے اور اس کے نوک پلک درست کرتی ہے:
وَاللّہُ أَخْرَجَکُم مِّن بُطُونِ أُمَّہَاتِکُمْ لاَ تَعْلَمُونَ شَیْْئاً وَجَعَلَ لَکُمُ الْسَّمْعَ وَالأَبْصَارَ وَالأَفْئِدَۃَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُون﴿النحل :۷۸﴾
’’اور اللہ نے تمھیں تمہارے ماؤں کے پیٹوں سے نکالا اس حال میں کی تم کچھ نہ جانتے تھے اور تمہارے کان آنکھ اور دل بنائے اس لیے کہ تم شکر گزار بنو۔‘’
پھر اس امانت کو والدین کے حوالے کرتا ہے تاکہ وہ اس کی روحانیت کی تکمیل کرے اور اسے تربیت کے بیش قیمت زیور سے آراستہ کرکے اسے انسان کامل بنائے ۔
بچوںکی تربیت کا یہ عمل دور جدید کی ایجاد نہیں ہے۔ بلکہ یہ وہ فریضہ ہے جسے پچھلے انبیائ کرام بھی ادا کرتے رہے اور خود نبی اکرم ﷺ نے اس کی ادائی کا حکم دیا ہے اور امت مسلمہ پر بھی اسے فرض کیا گیا ہے۔ حضرت اسماعیل ؑ کے اوصاف بیان کرتے ہوے اللہ رب العزت نے ازشاد فرمایا:
یَأْمُرُ أَہْلَہ‘’ بِالصَّلَاۃِ وَالزَّکَاۃِ ﴿مریم: ۵۵﴾
’’وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوۃ کا حکم دیا کرتے تھے ۔‘’
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَہْلِیْکُمْ نَاراً وَقُودُہَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ ﴿تحریم: ۶﴾
’’خود کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ جس کے ایندھن انسان اور پتھر ہیں ’’
اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا :
اکرموا اولادکم واحسنوا ادبہم﴿ابن ماجہ ، ابواب الادب، باب البر والاحسان الی البنات ﴾
’’ اپنی اولاد کی عزت کرو اور انھیںاچھے ادب سے آراستہ کرو ’’
ماں کی گود اولین درسگاہ اور گھر کی چہار دیواری پہلا مدرسہ ہواکرتا ہے۔ لہٰذا جیسا ماں کا اخلا ق و مزاج اور گھر کا ماحول ہوگا، ویسا ہی اثر بچے کی شخصیت پر بھی مرتب ہوگا۔بچے کا ذہن کورے کاغذ کے مانند ہوتا ہے والدین اور گھر کا حول مل کر اس پر تحریریں اور نقوش ثبت کرتے ہیں۔رسول اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا :
کل مولود یولد علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ وینصرانہ وینجسانہ ﴿بخاری،کتاب الجنائز، ما قیل فی اولاد المشرکین ﴾
’’ہر بچہ فطرت اسلامی پر پیداہوتا ہے پھر اس کے والدین اسے یہودی ،نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں ۔‘’
علامہ اقبالؒ نے کہا :
موجودہ دور میں یہ لازم ہے کہ صرف بچپن ہی میں نہیں بل کہ جب تک بچے باقاعدہ کسی مدرسے، اسکول یا کالج میں تعلیم حاصل کریں والدین کو ایسی تربیت کا نظم کرنا چاہیے، جس سے ان کے ذہنوں میں اسلامی اقدار اور مزاج پیوستہ ہوں اور برابر ان کو مضبو طی ملتی رہے ۔ تاکہ مختلف سمتوں سے آنے والے مادیت اور اسلام بیزاری کے سیلاب ان کو بہا نہ لے جائیں۔
والدین کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ اسباب عیش اور دولت دنیا اپنی اولاد کے لیے چھوڑ جائیں۔ عام انسانوں کو یہ فکر ہوتی ہے کہ ہمارے مرنے کے بعد ہماری اولاد پریشان حالی، تنگ دستی اور مفلسی کا شکار نہ ہو۔بنیادی طور سے یہ فکر غلط نہیں ہے ۔ بلاشبہ اپنی اولاد کو آسودہ اور خوشحال چھوڑجانا اس سے بہتر ہے کہ وہ محتاج اور فقیر ہوں۔رسول اللہ ﷺ نے ایک صحابی سعد بن وقاص ؒ کو مخاطب کرتے ہوے فرمایا :
انک ان تذر ورثتک اغنیائ خیر من عیالۃ یتکففون الناس ﴿بخاری، کتاب الجنائز ﴾
’’تم اپنے ورثا کو آسودہ حال چھوڑو۔ یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ محتاج ہوں اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں ۔‘’
لیکن یہ اصل میراث نہیں۔ایک مومن کی زندگی کی جدوجہد کا مرکز اولاد کے لیے صرف سامان تعیش اور اسباب حیات فراہم کرنا نہیں، بلکہ ان کے لیے چھوڑی جانے والی اصل میراث یہ ہے کہ ان کے ایمان اور یقین باللہ کا کتنا سرمایہ ہے اور ان کی زندگی میں اطاعت الٰہی کا معیارکیا ہے۔ اولاد کے سلسلے میں ایک مومن کی سوچ اور فکر کا یہی مرکز ہوتا ہے۔ کیونکہ دنیوی میراث سے اولاد صرف چند دن ہی فائدہ اٹھاسکتے ہیں،جب کہ اخروی میراث ہمیشہ نفع دینے والی ہے۔چنانچہ اسی فکر کو لیے ہوے انبیائ کرام دنیا سے رخصت ہوے اور اپنی اولاد کو اسی میراث کی وصیت کی:
وَوَصَّی بِہَا اِبْرَاہِیْمُ بَنِیْہِ وَیَعْقُوبُ یَا بَنِیَّ اِنَّ اللّہَ اصْطَفَی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلاَ تَمُوتُنَّ اَلاَّ وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ oأَمْ کُنتُمْ شُہَدَائ اِذْ حَضَرَ یَعْقُوبَ الْمَوْتُ اذْ قَالَ لِبَنِیْہِ مَا تَعْبُدُونَ مِن بَعْدِیْ قَالُواْ نَعْبُدُ اِلَ ہَکَ وَا ہَ آبَائِکَ اِبْرَاہِیْمَ وَاِسْمَاعِیْلَ وَاِسْحَاقَ الَ ہاً وَاحِداً وَنَحْنُ لَہُ مُسْلِمُونَ ﴿بقرہ: ۱۳۲تا۱۳۳﴾
’’اسی کی وصیت کی ابراہیمؑ اور یعقوبؑ نے اپنی اولاد کو کہ ہمارے بچو اللہ تعالی نے تمہارے لیے اس دین کو پسند فرمالیا ہے۔ چنانچہ تمھاری موت اسلام ہی کی حالت میں ہو، کیا یعقوب کے انتقال کے وقت تم موجود تھے؟ جب انھوں نے اپنی اولاد سے کہا: میرے بعد تم کس کی عبادت کروگے تو سب نے جواب دیاکہ آپ کے معبود کی اور آپ کے آباواجداد ابراہیمؑ، اسماعیلؑ اور اسحاقؑ کے معبود کی جو کہ معبود ایک ہی ہے اور ہم اس کے فرمانبردار رہیں گے۔‘’
غلط رویوں سے بچیں
لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان امتیازی سلوک کرناانتہائی بد تہذیبی کی علامت ہے۔ اسلام کے نزدیک لڑکے اور لڑکیاں یکساں طور پر والدین کی محبت اور شفقت کے مستحق ہیں۔ اس میں کسی بھی طرح کا امتیاز ان کے ساتھ ظلم ہے۔ اسی طرح ان میں سے کسی ایک کو اپنا نور نظر بنا لینا اور دوسروں کو نظر انداز کرتے ہوے اسے ہی اپنی عنایتوں کا مستحق ٹھہرا لینا غلط ہے۔ اللہ کے رسولﷺ نے اولاد کے ساتھ انصاف کا برتاؤ کرنے تاکید فرمائی ہے:
اعدلوا بین انبائکم اعدلوا بین انبائکم ﴿بخاری ،کتاب الاجارہ ،باب فی الرجل یفضل بعض ولدہ فی النحل﴾
’’ اپنی اولاد کے ساتھ انصاف کرو اپنی اولاد کے ساتھ انصاف کرو ۔‘’
ایک دوسری حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک بیٹے کو کوئی تحفہ دینا اور دوسرے کو بغیر کسی وجہ کے اُس سے محروم کردینا اللہ کے رسول ﷺ نے ناپسند فرمایا :
عن جابرؒ قال قالت امرئ ۃبشیر انحل ابنی غلامک واشہد لی رسول اللہ ﷺفاتی رسول اللہﷺ فقالت ابنتہ فلان سئلتنی ان انحل ابنہا غلاما فقالت لی اشہد رسول اللہ ﷺ فقال لہ اخوۃ فقال نعم فکلہم اعطیت مثل مااعطیت فقال لا فلیس یصلح ہذا وانی لا اشہد الّا علی الحق۔ ﴿ابودائود ، کتاب الاجارہ ،باب فی الرجل یفضل بعض ولدہ فی النحل﴾
’’حضرت جابرؒ سے روایت ہے حضرت بشیر ؒ کی زوجہ نے مطالبہ کیا کہ آپ میرے بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کر دیجیے اور اس پر اللہ کے رسولﷺ کو گواہ بنا لیجیے۔ چنانچہ وہ اللہ کے رسولﷺ کے پاس آے اور کہا کہ فلاں کی بیٹی نے مجھ سے مطالبہ کیا کہ میں اس کے بیٹے کو ایک غلام ہدیہ کروں اور اس پر اللہ کے رسولﷺ کو گواہ بنائوں۔ آپ ﷺ نے پوچھا :کیا اس کے کچھ بھائی بھی ہیں؟ انھوں نے کہا: ہاں پوچھا: ان سب کو اسی طرح دے دیا ہے، جس طرح اس کو دیا ہے۔ انھوں نے کہا: نہیں آپ ﷺنے فرمایا: ایسا کرنا درست نہیں اور میں سوائے حق کے کسی پر گواہ نہیں بنتا ۔‘’
بچے اپنے نفقہ کے ذمہ دار نہیں
آج کتنے معصوم بچے ایسے ہیں جن کا بچپن کھوگیا۔جن کام بستے میں چند کتابیں لے کر اسکول جانا اور گھروں میںکھیلتے کودتے ہوے اس کی رونق بڑھانا تھا، وہ آج ہوٹلوں اور قہوہ خانوں میںچندپیسوں کی خاطر مزدوری کرتے ہیںاور کوئلے کی کانوں اور ندیوں کے کنارے پتھر توڑتے ہیں ۔
گرچہ اب برسوں بعد لوگوں کو بچوںکی فطرت اور ان کی اہمیت کا اندازہ ہوا ہے اور فلاح اطفال کے لیے مہمیں اور اسکیمیں شروع کی گئی ہیں، لیکن یہ ہنوز نامکمل ہیں۔ آج بھی بچہ مزدوری کا رواج بہت زیادہ ہے۔ جبکہ اسلام نے تقریبا چودہ سو برس قبل ہی بچوں کو کمزور طبقہ انسانیت میں شمار کیا۔ تاکہ انھیں ہر طرح کی محبت اور شفقت کا مستحق سمجھا جائے:
الاَّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَآئ وَالْوِلْدَانِ لاَ یَسْتَطِیْعُونَ حِیْلَۃً وَلاَ یَہْتَدُونَ سَبِیْلا ﴿النساء:۹۸﴾
’’سواے جو مرد ، عورتیں اور بچے بے بس ہیں اور نکلنے کا کوئی راستہ اور ذریعہ نہیں پاتے ۔‘’
اسلام کے نزدیک بچے مزدوری اور بے گاری کے لیے نہیں، بل کہ وہ تو معصوم کلیاں اور ننھے پودے ہیں،جن پر دست درازی روا نہیں۔ وہ دست شفقت کے مستحق ہیں۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا :
من لم یرحم صغیرنا ومن لم یؤ قر کبیرنا فلیس منا﴿ترمذی،ابواب البروالصلہ ،باب ماجائ فی رحمۃ الصبیان ﴾
’’جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کا احترام نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ۔‘’
بچپن میں جبکہ بچے کے اعضاءانتہائی نرم ونازک ہوتے ہیں، ایسے میں ان سے پرمشقت کام کروانا ان کی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے اسلام کے نذدیک ہر ایک اتنا ہی ذمہ دار ہے جتنی اس کی استطاعت ہے :
لاَ تُکَلَّفُ نَفْسٌ اِلاَّ وُسْعَہَا ﴿بقرہ :۲۳۳﴾
’’اللہ کسی پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا ۔‘’
بچوں کے نفقہ کا اولین ذمے دار باپ ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ بچوںکو اس سے فارغ رکھے اور اپنی ذمے داری کو پورا کرے :
نفقۃ الاولاد الصغار علی الاب ﴿ہدایہ: ۲، ص:۴۲۴﴾
’’اولا د کے خرچ کاذمہ دار باپ ہے ۔‘’
معاشرے میں ایسے حالات بھی پیش آتے ہیںجب بچپن ہی میں والدین کا سایہ سر سے اٹھ جاتا ہے ایسی صورت میں بچوں کے کفالت کی ذمے داری ان کے قریبی اعزہ واقارب پر ہے:
فالنفقۃ لکل ذی رحم محرم اذا کان صغیرا فقیرا ﴿ہدایہ :۲،ص:۴۱۴﴾
’’ہر ذی رحم محرم کے لیے نفقہ ہے جبکہ وہ نابالغ اور محتاج ہو ۔‘’
یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ بچے ایسے بھی ہوں، جو ماں باپ اور اعزہ واقارب دونوں سے محروم ہوں۔ ایسی صورت ان کے نان و نفقے کی ذمے داری سماج اور معاشرے پر ہے :
وَیَسْأَلُونَکَ عَنِ الْیَتَامَی قُلْ اِصْلاَحٌ لَّہُمْ خَیْْرٌ وَاِنْ تُخَالِطُوہُمْ فَاِخْوَانُکُمْ وَاللّہُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ ﴿بقرہ: ۲۲۰﴾
’’پوچھتے ہیں کہ یتیموں کے ساتھ کیا معاملہ کیاجاے کہو جس عمل میںان لیے بھلائی ہو وہی اختیار کرنا بہتر ہے اپنا اور ان کا خرچ اور رہنا سہنا مشترکہ رکھو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں آخر وہ تمہار ے بھائی بندے ہی تو ہیں ، بھلائی اور برائی کرنے والے دونوں کاحال اللہ پر روشن ہے۔‘’
اسی طرح اللہ کے رسول ﷺ نے متعدد حدیثوں میں یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید فرمائی ہے اور اسے باعث اجرو ثواب بتایا ہے۔ فرمایا:
انا وکافل الیتیم فی الجنۃ ھٰکذا وقال باصبعہ السبّابۃ ’’میں اور یتیموں کی کفالت کرنے والا دونوں جنت میں اس طرح ہوں گے ۔‘’ اور آپ ﷺ اپنی شہادت اور بیچ کی انگلی کو ملا کر اشارہ کیا۔ ﴿ بخاری ، کتاب الادب، باب حق الیتیم﴾
دوسری حدیث میں فرمایا:
خیر بیت فی المسلمین بیت فیہ یتیم یحسن الیہ و شر بیت فی المسلمین بیت فی یتیم یساء الیہ ﴿ابن ماجہ ، ابواب الادب ، باب حق الیتم ﴾
’’مسلمانوں میں بہترین گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو اور برا گھر وہ ہے جس میںکوئی یتیم ہو اور ا س کے برا سلوک کیا جاتا ہو ۔‘’
حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے بچوں کے سلسلے میں جو ہدایات دی ہیں، وہ نہ صرف بچوں کی فطرت کے عین مطابق ہیں بلکہ خاندان،سماج اور معاشرے کے لیے بھی انتہائی مفید ہیں۔ ضرورت ہے کہ ان پر عمل درآمدکو یقینی بنایا جاے۔ تاکہ فلاح اطفال کا کام صحیح ڈھنگ سے انجام دیا جاسکے۔‘‘
مشمولہ: شمارہ اگست 2011