عقل اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمتوں میں سے ہے۔ اسی عطا سے انسان کوبہت سی مخلوقات کے درمیان اونچا مقام ملا۔
عقل ہمارے دین کی پاسبانی کرتی ہے۔ صحیح اور غلط میں تمیز کرتی ہے، صحیح پر آمادہ کرتی اور قائم رکھتی ہے۔ یہ علم کی حفاظت کرتی ہے مسائل کو حل کرتی ہے۔صحیح فیصلہ تک پہونچنے میں معاون ہوتی ہے۔ ہر قاضی اور فقیہ کابہترین ہتھیار ہے۔ صحیح فیصلہ ورائے کی بہترین توجیہ کرتی ہے۔ دلیلکی قوت سے آراستہ کرتی ہے۔ تقویٰ، پرہیزگاری، اوراچھے اخلاق و کردارکی اہمیت وضرورت کا یقین عطا کرتی ہے۔
عقل کا بنیادی کام غور وفکر ہے۔ قابل مبارکباد ہیں وہ لوگ جوفکر و تحقیق کو اپنے اوپر لازم کرتے ہیں۔ یہی لوگ اضافی عزت پاتے ہیں۔ ایجادات انہی کے حصے میں آتی ہیں۔ یہ انسانوں کے محسنین ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے نبیﷺ) ہم نے آپ کی طرف نازل کی ہے۔ تاکہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں۔ (سورہص آیت: ۲۹)
اگر ہم امت مسلمہ کا جائزہ لیں کہ ہمارے نمازی بھائیوں میں کتنے ہیں جو قرآن کو ترجمہ سے پڑھتے ہیں۔ کتنے ہیں جو عربی سے واقف ہیں اور قرآن پڑھا جا رہا ہو تو سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ ان میں کتنے ہوں گے جو غور وفکر کے لیے باضابطہ وقت نکالتے ہیں؟۔ یقیناً ایسے لوگ بہت قلیل ہیں۔ ہم انہی قلیل بھائیوں سے امید وابستہ کرتے ہوئے، ان کی مدد کے لیے تمام مسلمانوں سے مخاطب ہیں اور اس کے حریص ہیں کہ یہ تعداد بڑھے ان میں آپس میں تعاون کا سلسلہ چلے اوراس طرح ایک سازگار ماحول بنے۔
فکر وتحقیق کرنے والے افراد وادارے مالی تعاون سے زیادہ ہم سب کے فہم وذکاوت کا تعاون چاہتے ہیں۔ ہماری سوچ اور غور وفکرکا حصہ چاہتے ہیں۔ حوصلہ افزائی اور دعائیں چاہتے ہیں۔مفید اور کار آمد مشورے چاہتے ہیں۔ نئی جہتوں اور زاویوں کی طرف نشاندہی چاہتے ہیں، ان کے ساتھ بیٹھ کر ان کے کام کا جائزہ، مباحثہ، اورتبادلہ خیال چاہتے ہیں۔
فکر وتحقیق کے کام کرنے والوں کا تعاون بہت بڑی نیکی ہے۔ قوم کے جوافراد اس کام میں لگے رہتے ہیں، وہ اس کی ترقی کی راہیں ہموار کرتے ہیں، اور اس کی زبان، اس کے نظریات اور اس کی تہذیب کی باگ ڈور سنبھالتے ہیں۔ امت مسلمہ کے نوجوانوں بوڑھوں مردوں اور عورتوں کا اس میدان میں دلچسپی لینا یقیناً اسلام کی بڑی خدمت ہوگی۔ اس سے اسلام کی روشنی نمایاں ہوگی۔ حق زیادہ واضح ہوگا اور اس کی چاہت بڑھے گی۔
اس کام کےتعاون کے بے شمار طریقے ہو سکتے ہیں۔ ہم چند کا تذکرہ کریںگے تاکہ آپسی تعاون کی شکلیں پیدا ہوں اور یہ کام عام ہوتا جائے اور ہم سب مل کر حق کو نمایاں سے نمایاں تر کرتے جائیں۔
۱۔ ہرفرد حتی الامکان اس کی کوشش کرے کہ کم از کم ایک آیت یا حدیث یا موضوع کو منتخب کر کے روزانہ تھوڑا وقت نکال کر اس پر غوروفکر کرے۔ اس عمل کو بار آور بنانے کے لئے مشورہ دیا جاتا ہے کہ:
الف۔عربی متن اور اس کا ترجمہ ساتھ ہی رکھے تاکہ بار بار اسے دوہرا سکے۔
ب۔ گھر والوں سے تعاون لے اور ان کے ساتھ تبادلہ خیال کرے۔
ج۔ اپنے قریبی احباب کو بتائے کہ یہ آیت/حدیث/موضوع زیر غور ہے،اوران سے تعاون کی درخواست کرے، اس مقصد سےمل بیٹھنے کی کوشش کرے اور گفتگو کرے۔
۲۔ اگر مسجد میں لائبریری ہے تو بہت خوب۔ گھر میں کتابیں ہیں تو بہت اچھا، ورنہ لائبریری سے رجوع کریں یا احباب سے متعلقہ کتابیں مستعار لیں۔
۳۔ دو تین باذوق دوست اجتماعی طعام کا پروگرام بنائیں۔ جس ساتھی کی تحریک پر جمع ہوئے ہیں اس کا تجویز کردہ موضوع زیر غور رہے۔
۴۔ ہر سال رمضان المبارک بے شمار برکتیں اور رحمتیں لے کر آتا ہے۔ اس کے دن اور رات میں سے کچھ حصہ غور و فکر کے لیے نکالنا آسان ہوتا ہے۔ غوروفکر کے لیے ایک مہم کی طرح لگے رہیں اور ختم رمضان پر مہینہ بھر میںکئے گئے غور وفکر کا جائزہ لیں۔
۵۔ہمارے یہاں مروجہ اسٹڈی سرکل میں عام طور سے اجتماعی مطالعہ ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ کی نشست ہوتی ہے لیکن غور وفکر طویل المدت کام ہے، اس کے لئے ایک ماہ بھی کافی نہیں ہوتا۔
۶۔ اہل علم حضرات سے استفادہ کی شکلیں نکالیں۔ جب کبھی کوئی عالم دین باہر سےآئے اس سے پہلے سے وقت لے کر اور موضوع طے کرکے استفادہ کریں۔ مقامی علماء سے ربط بڑھا ئیں اور ان کے ساتھ بیٹھیں۔
۷۔ شہر کے نامور مدرسوں، اداروں اور جماعتوں سے ربط بڑھا کر تعاون کی درخواست کریں۔ مثلاً کسی دینی درسگاہ کےعالمیت یا فضیلت کے ہونہار طلبہ اور ان کے اساتذہ کے ساتھ بیٹھیں اور غوروفکر کے درمیان ابھرنے والے سوالات پر گفتگو کریں۔
۹۔ اگر اللہ نے مال دیا ہے تو فکروتحقیق کےاداروں کےساتھ مالی تعاون کی شکل نکالیں۔مالی تعاون کی مندرجہ ذیل شکلوں پر غور کرنا چاہیے:
الف۔ اہل ثروت حضرات فکر و تحقیق کے لیے ضروری موضوعات کے لئےمناسب اداروں سے رجوع کریں اور کام کا اندازہ لگائیں، مثلاً دواسکالر دس ماہ کام کریں گے۔ ان کی تنخواہ اور دیگر اخراجات کا تخمینہ لگایا جائے اور اس طرح منصوبے کے مطابق کام شروع ہو جائے۔
ب۔ جہاںفکر وتحقیق کی تربیت ہوتی ہے وہاں کام کرنے والے طلبہ کی ہمت افزائی کی جائے، اچھے مشاہرے (اسکالرشپ) کی پیشکش کی جائے تو امید ہے بہت سے طلبہ شوق اور انہماک سے یہ کام کریں۔
ج۔ اداروں کی مالی حالت اچھی ہو تو وہ فکر وتحقیق کے لیے اچھی سہولتوں کے ساتھ ذہین طلبہ کو متوجہ کر سکتے ہیں۔
د۔ بعض موضوعات پر کام کے لیے ان کے ماہرین کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان سے استفادہ کے لیے ان کے معیار کے مطابق پیسوں کے انتظام سے کام جاری رکھا جا سکتا ہے۔
۱۰۔انفارمیشن ٹکنالوجی پر مہارت رکھنے والے ساتھیوں سے فکروتحقیق کی ضرورتوں کی تکمیل کے سلسلے میں تعاون حاصل کیا جائے۔
۱۱۔مقامات پر فکر وتحقیق کے گروپ بنائیں، اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر مختلف فورمس بنائیں۔ فیس کے ساتھ ممبر سازی ہو اور مختلف موضوعات پر کام ہو ماہرین گفتگو کریں اور شائقین استفادہ کے لیے شریک ہوں۔
۱۲۔ ایک موضوع پر کام کرنے والوں کو آپس میں جوڑا جائے ، فکروتحقیق کے نتائج کا تبادلہ ہو، اشکالات زیر بحث لائے جائیں،اور اس طرح ایک دوسرے کے کام سے استفادہ ہو۔
یہ اور اس طرح کی تعاون کی اور بہت سی شکلوں کو اختیار کرنے کے بعد امید کی جاتی ہے کہ ہمارے درمیان فکروتحقیق کا ماحول پروان چڑھے گا، مطلوبہ موضوعات کے ماہرین آسانی سے میسر آئیںگے، اور یہ سلسلہ بڑھتا جائے گا۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2019