2006ء کے مسلمانوں کی تعلیمی، معاشی و سماجی رپورٹ کے مطابق کل ہند سطح پر 4 لاکھ 90 ہزار موقوفہ ادارے درج رجسٹر اوقاف ہیں جو000 6000ایکر اراضی پر مشتمل ہے جس میں سے 80 فیصد اراضیات ملک کے مختلف دیہاتوں میں ہیں۔ ان موقوفہ ادارہ جات پر سرکاری و غیر سرکاری ایجنسیز کے ناجائز قبضہ جات ہیں۔ جس کے حصول کی خاطر مضبوط قانون اور اس پر عمل کرنے والے کارکرد محکمہ جات کی ضرورت ہے۔ جس میں مستعد و مخلص تربیت یافتہ عملہ کی ضرورت ہے۔ ان غیر قانونی قبضہ جات کا آغاز ہندوستان میں پہلی جنگ آزادی 1857ء سے شروع ہوکر تاحال جاری ہے۔ یعنی اس وقت دلی میں 200 وقف ادارہ جات میں سے 30 فیصد ادارہ جات کی جائیدادیں سرکاری و نیم سرکاری ایجنسیز کے ناجائز قبضہ میں ہیں۔ حالانکہ اس معاملہ میں مرکزی حکومت نے ریاستی سرکاروں کو ان ناجائز قبضہ جات سے دور کرنے کی خاطر مختلف احکامات و ہدایت نہ صرف جاری کئے گئے بلکہ سابق وزیر اعظم اندراگاندھی نے اس خصوص میں تمام ریاستوں کے چیف سیکریٹریز کو ڈی او لیٹرس بھی جاری کئے تھے۔ لیکن دفتر شاہی میں وہی ہوا یعنی ڈاک کے تین پات کا معاملہ نہ صرف قائم ہے بلکہ روز بروز ناجائز قبضوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ پچھلے چند برسوں سے آندھراپردیش کی ریاست حیدرآباد کے صدر مقام فرخند بنیاد شہر حیدرآباد میں ہونے والے ناجائز قبضوں کی اطلاعات برسوں سے اخبارات کی زینت بنیں اور اب وہ مقدمات کی شکل میں جاری ہیں۔
تحفظ اوقاف کی قانونی پوزیشن
قانون وقف کی ابتداء انگریزوں کے زمانے میں 1810ء سے شروع ہوکر تاحال اس قانون میں 2013ء تک مختلف ترامیم ہوتی رہی۔ جبکہ آزادی کے بعد ہندوستان میں قانون وقف مورخہ 21 جون 1954ء سے جاری ہوا۔ جس میں مختلف ترمیمات 1959ء، 1964ء، نیز 1984ء تک ہوتی رہی۔ قانون وقف کا منشاء وقف انتظامیہ اور منشاء وقف کو کنٹرول سے متعلق ہی قانون سازی کا مطمح نظر رہا ہے۔ لیکن کوئی بھی شخص یا دفعہ قانون وقف تاحال 1995ء کے ایکٹ تک ہی ایسی نہیں ہے جس کے ذریعے سے وقف بورڈ اپنے عاملہ اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے ناجائز قابضین سے ناجائز قبضے دور کرسکیں۔ آزادی ہند کے بعد ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں گرام پنچایت ایکٹ کا نفاذ عمل میں آیا جو کسی دیہات میں ہوتا ہے لیکن اس قانون میں گرام پنچایت کے ایگزیکٹیو آفیسر یا گرام سیوک کو اس بات کا اختیار و حق حاصل ہے کہ وہ گرام پنچایت کے کسی ناجائز قبضہ والی زمین یا جائیداد کو اندرون چھ ماہ کارروائی کرکے حاصل کرسکے۔ اُسے کسی عدالت سے رجوع ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ برخلاف اس کے 1954ء سے لیکر 1995ء تک ترمیمات والے وقف قانون میں کہیں بھی وقف بورڈ کو اس طرح کے اختیارات حاصل نہیں۔ جیسے کہ دیہاتی سطح پر، گرام سیوک کو حاصل ہیں۔ حالانکہ قانون وقف مرکزی حکومت کی پارلیمنٹ نے وضع کیا ہے۔ جبکہ گرام پنچایت کا ریاستی اسمبلی منظور و نافذ کرتی ہے۔
وقف سے متعلق قانون سازی جن مراحل سے گذری ہے وہ حسب ذیل ہیں
)۱) Relious indoment act 1813 : (۲) Charitable indoment act 1863: (۳) مسلمان وقف ویلیڈیٹی ایکٹ 1913ء، جبکہ 1908ء میں ضابطہ دیوانی کے کورٹ میں دفعہ 92 یا 93 کے تحت وقف کے معاملات کی کارروائیوں کا ذکر ہے۔ 1950ء میں بمبئی پبلک ٹرسٹ ایکٹ بحد مہاراشٹر و گجرات نافذ ہوا۔ جبکہ 1954ء کا ایکٹ مہاراشٹر میں صرف مراٹھواڑہ اور گجرات میں صر ف کچھ کے علاقہ میں نافذ العمل تھا۔ مابقی دونوں ریاستوں میں مذہبی ادارہ جات مثلاً مسجد، درگاہ، قبرستان وغیرہ ان سب کو پبلک ٹرسٹ ایکٹ کے تحت رکھا گیا تھا۔ جبکہ قانونی، شرعی و فقہی حیثیت سے وقف اور ٹرسٹ دونوں میں کافی فرق پایا جاتا ہے۔ اس لیے کہ وقف کی جائیداد محل شرط کے لیے ہوتی ہے۔ جس کی ملکیت خدا کی ہوتی ہے۔ جبکہ ٹرسٹ ایکٹ کے تحت جائیدادیں موقوفہ یا ٹرسٹ جائیدادوں کے ملکیت ٹرسٹیز میں ہوتی ہے۔ اس بنیادی فرق کے باوجود 1995ء کے ایکٹ کے نفاذ کے بعد سے ریاست مہاراشٹر اور گجرات کے ساتھ ساتھ کل ہند سطح پر قانون وقف کے تحت تمام ٹرسٹ ادارے بھی آگئے ہیں۔ اس سلسلے میں آئندہ ٹرسٹ کے مذہبی جائیدادوں سے متعلق وقف ایکٹ کے اطلاق کے بعد قانونی دشواریاں اور موانعات کا ابھر کر آنا اور قانونی مراحل سے اس کی قطعیت ہونے کے لیے عدالتوں کے مختلف مراحل سے گذرنا ہوگا۔ جبکہ کہا جاتا ہے 1995ء کا وقف ایکٹ بہت فعال بنایا گیا ہے۔ جبکہ اس میں مزید ترمیم کرکے 2013ء میں اس کے سقم اور خامیوں کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس تفصیل کا اظہار قانوناً اس لیے ضروری ہے قانون سازوں کے ذہن و دماغ میں آزادی کے بعد سے آج تک صرف وقف کا انتظام نگرانی ہی اس قانون کا مقصد رہا ہے۔ اور کبھی بھی اس کے دائرہ کار و مقصد میں موقوفہ جائیدادوں کی بازیابی نہیں رہا ہے جو ایک ضروری امر ہے۔
حالانکہ مہاراشٹر میں 2008ء میں Public Primises (un athoriesed) act میں ترمیم کرتے ہوئے وقف کو بھی Public Primises کی تعریف میں شامل کیا گیا ہے۔ لیکن تاحال اس قانون کی مدد سے کوئی بھی غیر قانونی قبضہ والی موقوفہ جائیداد کی بازیابی ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ حالانکہ 2008ء کی ترمیم کے مطابق وقف بورڈ کو مذکورہ ایکٹ کے لحاظ سے کارروائی کرتے ہوئے غیر قانونی جائیدادیں جو سرکاری و نیم سرکاری و خانگی لوگوں کے قبضہ جات میں ہیں اسے آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے لیکن جس میں رکاوٹ وقف بورڈ کی حکمت عملی اس کے حرکیاتی قیادت،عملہ کی غیر تربیت یافتہ پوزیشن، اور قانون کا استعمال نہ کرنے کی روش اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ وقف بورڈ اس خصوص میں سنجیدہ نہ ہونے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان کے پاس تربیت یافتہ عملہ نہیں ہے۔ اور ریاست مہاراشٹر کو 1995ء کے ایکٹ کے نفاذ سے قبل ہر ضلع میں وقف آفیسرس اور ڈویژن کی سطح پر ڈویژن آفیسرس کئے جانے چاہئے تھے اور جس کے لیے وقف بورڈ کو چاہئے تھا ان تمام دفاتر کی تکمیل کی خاطر اور عملے کے خاطر حکومت کو مجبور کرنے کے لیے مہم چلانا چاہئے تھا جو آج تک شروع نہیں ہوئی۔
قانون وقف میں جب بازیابی ناجائز قبضہ سے متعلق بورڈ کو عاملانہ اختیارات نہ ہونے کی وجہ سے وقف بورڈ نے کم سے کم اپنی رپورٹ بموجب مروجہ قانون سابق میں کلکٹر کو اور موجودہ قانون میں اپنی کارروائی کی رپورٹ ناجائز قبضہ کو بے دخل کرنے کے لیے وقف ٹربونل کو روانہ کرنا ہے اس ضمن میں یہاں یہ تذکرہ کرنا لازمی اور ضروری ہے کہ 2000ء کی ترمیم کے بعد ناجائز قابضین کے خلاف تعزیری کارروائی کرنے کے اختیارات بھی حاصل ہوچکے ہیں لیکن 2013ء کے بعد سے آج تک ایک بھی ایسی کارروائی کی ہوئی نظر نہیں آتی۔ اسی طرح بورڈ کی تشکیل کے سلسلے میں بھی خود بورڈ کے ممانعات شامل حال تھیں کہ کبھی بورڈ پوری طرح سے مکمل طور سے نہ بن سکا۔ جو از خود ایک تحفظ اوقاف کے سلسلے میں سب سے بڑی قانونی مشکل ہے۔ آج بھی بورڈ کسی نہ کسی عنوان سے قانونی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ خواہ وہ سی او کے تقرر کا معاملہ ہو یا صدر بورڈ کے انتخاب کا معاملہ۔ اس لیے وقف بورڈ کی ہیت و ترکیبی بموجب قانون وقف 1995ء کبھی بھی پوری طرح سے قانونی طور پر نافذ العمل نہ رہ سکا۔ اس میں حکومت کی عدم دلچسپی نظر آتی ہے۔ کیونکہ وقف ٹربونل کی تشکیل کے لیے درکار اراکان کی نامزدگی نہ کرنا اور موجودہ ٹریبونل کے فیصلہ جات اگر ہائیکورٹ میں ٹیکنیکی بنیاد پر چیلنج کئے جائیں تو اس کے نتائج بھی وقف کے خلاف جاسکتے ہیں۔ یہ حکومت کی لاپرواہی غفلت ہی نہیں بلکہ عملاً دلچسپی نہ دکھانا حکومت کے رویہ کا مظہر ہے۔ ان قانونی موانعات کے لیے ارکان اسمبلی، پارلیمنٹ، ارکان بورڈ وغیرہ کو اجتماعی طور پر تحریک چلانی چاہئے تھی۔ اس لیے حکومت کو جس طریقے سے متاثر کیا جاسکتا ہے ان تمام طریقوں سے موجودہ ارکان بورڈ واقف ہی نہیں بلکہ اس کے ماہر بھی ہیں۔ جس کے لیے وہ پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا و مختلف این جی اوز کے ذریعے بھی حکومت کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح چونکہ وقف کا معاملہ تمام مسلمانوں سے جڑا ہوا ہے۔ وہ کسی نہ کسی طرح ان ادارہ جات مثلاً مسجد، درگاہ، قبرستان، عاشور خانے وغیرہ سے مستفید ہوتے ہیں۔ لہٰذا عوام کو بھی اس سلسلے میں متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔
قانون وقف 1995ء کی ترمیم 2013ء کے تحت وقف کا دوسری مرتبہ سروے کرنے سے متعلق احکامات جاری ہوچکے ہیں۔ جو خود حکومت مہاراشٹر نے ذیلی قوانین و رولس 2003ء میں جو منظور کئے ہیں اس کے مغائر ہیں۔ اس لیے سروے میں ریکارڈ سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ حکومت اپنے اختیارات جو دفعہ 97 کے تحت استعمال کی ہے۔ جبکہ دفعہ وہ اس طرح ہے۔ کہ ’’ دفعہ 96 کے تحت مرکزی حکومت کے ذریعے جاری کی گئی ہدایت کے تابع ریاستی حکومت بورڈ کو وقت بہ وقت ایسی عمومی یا خصوصی ہدایت دے سکے گی جسے ریاستی حکومت ٹھیک سمجھے۔ اور بورڈ اپنے کارہائے منصبی کی انجام دہی میں اس ہدایت پر عمل کرے گی۔ مگر شرط یہ ہے کہ ریاستی حکومت کوئی بھی ایسی ہدایت جاری نہیں کرے گی جس سے کسی وثیقہ، وقف یا کسی دستور یا رواج کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔‘‘ جبکہ موجودہ حکومت 28؍ فروری 2017ء کو جمع بندی کمیشن کو ہدایت نامہ جاری کرتے ہوئے سروے کرنے کے لیے جو نمونے اور پروفارما جاری کئے ہیں وہ قانون منشاء کے خلاف ہے۔ کیونکہ خود حکومت مہاراشٹر نے 2003ء کے ذیلی قانون کے مطابق سروے کے فارم پر متولی انعامدار سروے کرنے والے کے علاوہ وقف آفیسر یا انسپکٹر وقف کے دستخط کا نمونہ جاری کیا ہے جو رولس میں نمونہ A بموجب دفعہ 4 وقف ایکٹ تیار کیاہے۔ موجودہ سروے کا نمونہ بھی اسی کے مطابق ہونا چاہئے تھا۔ اگر یہ نمونہ کا سقم، غلطی درست نہ کرتے ہوئے جوں کا توں رکھتے ہوئے حکومت سروے کو تکمیل کرتی ہے تو اس قانون سقم کو کبھی بھی چیلنج کیاجاسکتا ہے۔ اس لیے وقف بورڈ کو اس سلسلے میں توجہ کرانی چاہئے کہ وقف سروے کا تاریخی کام دفتر شاہی کی لاپرواہی کی نذر نہ ہوجائے۔ اس خصوص میں تحریک اوقاف کے علاوہ مختلف تنظیموں نے ریاستی و ضلع کی سطح پر نمائندگی کے ذریعے نہ صرف بورڈ کو بلکہ حکومت مہاراشٹر کو واقف کرادیا ہے۔ لیکن ترجیحی بنیاد پر بورڈ کو ان معاملات میں دلچسپی لینی چاہئے۔ تاکہ وقف میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ اور دفتر شاہی سے بورڈ کو چھٹکارہ حاصل کرتے ہوئے حکومت کو اس خصوص میں متوجہ کرنا چاہئے۔
حکومت کا دوسرا اہم فیصلہ جس کی بنیاد اے ٹی اے کے شیخ کی رپورٹ بتائی جاتی ہے اور اس خصوص میں گائیڈ لائنس جاری کرتے ہوئے حکومت کا فیصلہ مورخہ 7 دسمبر 2016ء اور 13 اپریل 2016ء کو ہدایت جاری کی گئی ہے کہ سروے سے قبل وقف جائیدادوں کے پی آر کارڈ یا 7/12 کے Other Right Colum میں اگر کسی متولی یا انعامدار یا کمیٹی کا نام شامل ہو تو وہ اُسے کسی صورت میں بھی کم کرتے ہوئے وہاں بھی پرتی بندھ ستہ پرکار لکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ اور جس پر عمل آوری کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔ حالانکہ ابتداء میں سروے کا آغاز صرف دو اضلاع پربھنی اور پونا کی حد تک تھا۔ ابھی اس کی تکمیل بھی نہ ہوئی کہ دیگر اضلاع کے کلکٹرس اور سروے عہدیداران نے اس خصوص میں تحصیلداروں کو 7/12درستگی کے احکامات جاری کرچکے ہیں جو سراسر غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر شرعی ہیں اور حکومت کو ایسے احکامات جاری کرنے کا کوئی حق نہیں اور نہ ہی حکومت اس کی مجاز ہے۔ یہاں یہ تذکرہ ضروری ہے اے ٹی اے کے شیخ صاحب نے اپنی رپورٹ میں 7/12 کے Other Rights Colum سے متولی و انعامداروں کا نام خارج کرنے سے متعلق کوئی سفارش نہیں کی۔ بلکہ موقوعہ جائیدادوں کے 7/12 کے رنگ یا نمونوں کی تبدیلی کے ذریعے وقف جائیدادو ں کے ریکارڈ کو ظاہر کرنے سے متعلق لکھا ہے۔ تاکہ کوئی بھی انعامدار یا متولی کو اس 7/12 کے ذریعے حق ملکیت یا ٹائٹل والی جائیداد نہ انعامدار متولی سمجھے اور نہ ہی محکمہ رجسٹریشن وغیرہ۔ کیونکہ وقف کی جائیدادوں کے ریکارڈ میں اس سے قبل ہی 1975ء کے بعد سے ہی قبضہ دار کالم میں ادارہ جات وقف کے نام آچکے ہیں۔ جس پر کسی بھی متولی، انعامدار نے کبھی کوئی اعتراض ہی نہیں کیا۔ کیوں کہ انہیں معلوم ہے وقف کی جائیداد کی ملکیت ادارے کے استعمال کے لیے اور وہ خدا کی ملکیت ہوتی ہے۔
حکومت نے جب ایسی جائیدادوں کو ریج نمبر 2 ریت درج کردے تو اس کی کوئی منتقلی یا رجسٹری قانوناً ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ سب نہ کرتے ہوئے ناجائز قابضین کے خلاف قانوناً کارروائی اور تعزیری کارروائیاں نہ کرتے ہوئے صرف اسی وہم و گمان سے کہ موقوفہ جائیدادوں کی منتقلی Other Rights Columمیں انعامداروں کے نام کی شمولیت کی وجہ سے ہوئی ہے جو سراسر واقعہ او رحقیقت کے برعکس ہے۔ کوئی بھی ایسا غیر قانونی، غیر منتقلی اراضیات وقف کی کارروائی نہیں ہوئی جس میں وقف بورڈ یا محکمہ شامل نہ ہو۔ اسی لیے اگر تعزیری کارروائی کی جاتی تو عہدیدار ، مال ، و عہدیداران بورڈ سبھی اس کے زد میں آتے۔ اسی لیے شاید حکومت نے احکامات جاری کرتے ہوئے وقف جائیدادوں کے ریکارڈ پی آر کارڈ اور 7/12 سے نام نکالنے کے احکامات جاری کئے ہیں۔ عام رحجان یہ پایا جاتا ہے کہ جن متولیوں کو بورڈ کے ذمہ دار و محکمہ مال کے ذمہ داران کی وجہ سے وقف جائیدادوں کی ناجائز منتقلی ہوئی ہے وہ زیادہ تر شہروں کی ہے جس میں اورنگ آباد، بامبے، وغیرہ جیسے شہر سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں۔ لیکن مہاراشٹر کے 80 فیصد انعامدار و متولی ہیں۔
کسی بھی جائیداد کو غیر قانونی طور پر منتقل کیا، ایسا شاذ و ناذر ہی سنائی دیتا ہے۔ اس لیے اس ـغیر قانونی احکامات کے ذریعے شائد دیہاتوں میں رہنے والے غیر پڑھے لکھے، غریب، مفلس و مظلوم انعامدار جن کے قبضے میں ادارہ جات کی خدمت سے متعلق معاش ہے اس طرح انہیں بھی بے دخل کرنا چاہتے ہیں۔ تاکہ دیہاتوں میں انعامداروں کا جو تعلق موقوفہ اراضیات سے ہے وہ بھی قائم نہ رہے۔ نتیجتاً نام اگر ریکارڈسے نکال لئے جائیں تو وہ نہ کسی غیر قانونی کارروائیوں کی دادرسی کے لیے، نہ گرام پنچایت کو جاسکتے ہیں نہ پولیس اور نہ ہی تحصیل۔ جبکہ ان انعامداروں، متولیوں کی وراثت، محکمہ عطیات، محکمہ دیوانی عدالت، جاگیرات وغیرہ سے بموجب منتخب اور وثیقہ منظورہ ہیں اور ان کے نام نسلاً درنسل بموجب وقف نامہ جائیداد وقف کے Other Rights Colum میں سے نکال سکتے ہیں۔ مذکورہ احکامات سے متعلق مہاراشٹر حکومت کو دینے کے سلسلے میں یا اُس کا ذکر قانون وقف 1995ء میں کہیں بھی نہیں۔ پھر وہ کس بل پوتے پر مروجہ ریکارڈ کے حقوق مقابضت سے خارج کرسکتے ہیں۔ جبکہ حکومت ہو یا وقف بورڈ ، منشائے وقف کی تکمیل ان کا فریضہ ہے نہ کہ اس میں مداخلت کرتے ہوئے وقف کے ریکارڈ سے ناموں کو علیحدہ کرنے کے احکامات جاری کرنے اور اس کی تعمیل کے لیے ہدایت جاری کرنا حکومت کا ایک طریقہ بلاکسی اختیارات کے غیر قانونی طور پر اور غیر شرعی کام کا ارتکاب کیا ہے۔ اور اس خصوص میں وقف بورڈ کی خاموشی بھی شائد اسی لیے ہوگی کہ وہ انعامدار و متولیوں کو ایک فریق سمجھتے ہیں۔ جبکہ انعامدار و متولی وقف بورڈ کی ریڑھ کی ہڈی کی مماثل ہے اور وقف بورڈ کا وجود خود متولیوں کے ادا کردہ وقف فنڈ پر ہے۔ اس لیے بورڈ اس مذہبی و فقہی مسئلہ کو وقف نامہ سند ، وثیقہ جس کے تحت وراثت منظورہ ہیں ان کی حفاظت و صیانت کے لیے سروے سے پہلے مذکورہ ہدایت کو ختم کرنے کے لیے حکومت کو متوجہ کرائے تاکہ سروے کے آغاز سے قبل ہی مذکورہ بالا احکامات واپس ہوں اور وقف بورڈ کو اس خصوص میں پہل کرنی چاہئے کہ اگر یہ احکامات ختم نہ کئے جاکر موجودہ طریقہ کار کے مطابق سروے کیا جائے تو قانونی پیچیدگیوں کی نذر ہوجائے گا اور اس طرح عام بے چینی متولیوں اور انعامداروں میں پائی جاتی ہے۔ اس لیے وقف بورڈ کو اس خصوص میں فوری ایکشن لینا چاہئے۔ اسی لیے کہ بورڈ ہو یا حکومت جنہیں متولی و انعامدار کی وراثت منظور کرنے کے جب اختیارات ہی نہیں ہیں تو وہ کس طرح عطیات،سول کورٹ و محکمہ مجاز کے منظورہ متولیوں، انعامداروں کے نام حذف کرنے کا حق رکھتے ہیں جو وراثت منظور نہیں کرسکتا وہ ان کے نام R.O.R سے کیسے حذف کرسکتا ہے۔ قانونی و شرعی طور پر نہ بورڈ مجاز ہے نہ حکومت۔
بورڈ میں ماہرین قانون، لیجسلیٹر، رکن پارلیمان، دینی وملی شخصیت موجود ہیں۔ لیکن اس خصوص میں مذکورہ بالا شرعی پہلو پر بورڈ نے کوئی بھی میٹنگ میں اسے ایجنڈے پر نہیں لیا اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی دفتری کارروائی کی اور بورڈ اس طرح انعامدار اور متولیوں سے لاتعلق ہوتے ہوئے انہیں مجبور کردیا کہ عدالتوں سے رجوع ہوں۔ جبکہ بورڈ کی فرائض منصبی یہی ہے کہ وہ منشاء وقف کی تکمیل کے لیے بنا ہے۔ قانون وقف کی اسکیم اور اس کا Prembleہی یہی ہے کہ وقف کے بہتر انتظامات و نگرانی کے لیے قانون تدوین ہوا ہے جبکہ وقف کے ریکارڈ محکمہ مال کے ہوں یا سٹی سروے کے، موجودہ حکومت کی اسکیم سے پامال ہونے جارہے ہیں۔ ان غیر قانونی احکامات کے خلاف بورڈ کی کارروائی نہ کرتے ہوئے بورڈ اسے کیسے ہضم کررہا ہے یہ بات باعث تعجب و حیرت ہے۔تحفظ اوقاف کے سلسلے میں حکومت اور وقف بورڈ کے بعد متولیوں و انعامدار بھی منشاء وقف کی تکمیل میں ان کی لاپرواہی، لاعلمی کی وجہ سے بھی بعض جگہ وہ بھی باعث بنے۔ اس لیے کہ دیہاتوں میں انعامداروں و متولیوں کو وقف بورڈ پر اس کی دفتر شاہی کی وجہ سے اعتماد و یقین نہیں کرتے۔ وہ اندراجات کی کارروائی بھی داخل نہیں کرتے اور نہ ہی وراثتی کارروائیوں کی تکمیل کرتے ہیں۔ اس خصوص میں وقف بورڈ کے عملہ کو ان متولیوں کے ساتھ مخلصانہ رویہ رکھنا چاہئے۔ نہ کہ دیگر دفاتر کی طرح انہیں بھی وہ ایک فریق سمجھتے ہوئے برتائو کرتے ہیں۔ جب تک بورڈ کے اس عمل میں تبدیلی لانے کے لیے تربیت یافتہ افراد مقرر نہ ہو اس وقت تک تحفظ اوقاف کا عملہ میں دفتری طور پر پیشرفت نہیں ہوسکتی۔
عام بیداری تحفظ وقف کے سلسلے میں جب محدود کوششوں کا آغاز ہوا ہے اس کے آغاز میں وقف بورڈ ، ذمہ داران حکومت تک اپنی قراردادوں، نمائندگیوں سے جب تک اُسے موثر و مفید بنانے کے لیے متحرک نہ ہو تب تک یہ معاملہ حکومت کی عام روش کی طرح دفتر شاہی کے شکار ہوجائے گا۔ این جی اوز اور عام مسلمانوں کو اس مذہبی معاملے کو موثر انداز میں متوجہ کرنے کی مسلسل کوششوں کو متواتر طور پر جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ امر بھی نہایت ضروری ہے۔ بموجب قانون سروے کمشنر کو اپنے اختیارات حاصلہ و حاملہ سے سروے کرنے سے قبل وہ دستاویزات اوقاف، دفتر بورڈ سے یا دیگر محکموں سے مثلاً کلکٹر آفس، سروے آفس، آر کیوز ڈپارٹمنٹ سے حاصل کرنے کے بعد ہی سروے کے کام کا آغاز کرنا چاہئے۔ کیونکہ اس خصوص میں سروے کمشنر کو یہ اختیارات اور اس کے فرائض میں شامل ہیں کہ وہ محکمہ مجاز سے دستاویزات طلب کریں۔ نوٹس دیں۔ سمن جاری کریں۔ اور بغیر اس کی تکمیل کئے کہ اگر سروے کمشنر اپنے اختیارات جو دیوانی عدالت کے مماثل دئے گئے ہیں اس کے بغیر ہی سروے کی کارروائیوں کا آغاز کریں تو وہ بے فیض اور خانہ پری کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ کیونکہ اب موجودہ سروے کمشنر کے ماتحتین صرف وقف بورڈ سے پرانے گزٹ کو لیکر سروے کی میٹنگوں کے ذریعے کام کا آغاز کررہے ہیں۔ جبکہ قانوناً واضح ہدایت جاری کی گئی ہے کہ سروے سے پہلے ضلعی و تعلقی سطح پر پریس کانفرنس ہو، اخبارات میں ہدایت جاری ہو ، مراٹھی کے علاوہ اردو اخبارات کا استعمال ہو، اسے ریڈیو، ٹی وی وغیرہ سے دیہاتوں تک معلومات پہنچائی جائے جس کے بعد ہی سروے کا کام قانوناً ہوسکتا ہے۔ اگر اس کے بغیر دفتر شاہی کے ذریعے موجودہ صورت میں سروے ہوجائے تو وہ پھر قانونی مشکلات میں پڑجائے گا۔
یہاں یہ تذکرہ بھی کرنا ضروری ہے کیونکہ حکومت مہاراشٹر نے اے ٹی اے کے شیخ کی رپورٹ کے مطابق اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ موقوفہ اراضیات سیلنگ ایکٹ کی نذر ہوگئی ہے۔ جسے اس موقع پر سروے سے قبل 1950 کا ریکارڈ اگر وقف بورڈ یا وقف کمشنر حاصل کریں تو سیلنگ ایکٹ کی طرح قانون لگان داری و قانون انعام ابولیشن و تکڑے بندی کے قانون سے متاثر ہونے والی موقوفہ اراضیات بھی سروے میں شامل کی جاسکتی ہیں۔ اس اہم مسئلے پر وقف بورڈ کو عاجلانہ نمائندگی کرنی چاہئے۔ موجودہ طریقہ کا ر میں نہ ہی سروے کے لیے زائد اسٹاف تربیت یافتہ نہ بورڈ میں متعین ہوا اور نہ ہی سروے ڈپارٹمنٹ میں اور موجودہ اسٹاف بورڈ جو قطعاً ناکافی ہے اس میں اضافے کے بغیر سروے کے کام کو آگے نہیں بڑھنا چاہئے بلکہ اسے سروے کے کام کے لیے شرط اوّل قرار دینا چاہئے۔ بصورت ثانی موجودہ حالت میں ہونے والا سروے وہ صرف کاغذی اور خانہ پری والا ہوگا۔ اس طرح موجودہ قانون وقف کی روح اور اس میں ہونے والے دوسرے سروے میں جب تک مندرجہ بالا موانعات و رکاوٹوں کا تدارک نہ ہو پارلیمنٹ کے دوسرے سروے سے متعلق ترمیم برائے تحفظ اوقاف پر عمل نہ ہوتے ہوئے صرف خانہ پری ریکارڈ کے سروے سے خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہوسکیں گے۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2017