یوں تو ہندوستان کے ساتھ اسلام کا رشتہ صدیوں پرانا ہے۔ ساحلی علاقوں میں یہ رشتہ عہد اول میں قائم ہو جاتا ہے، لیکن شمال کی سمت سے آٹھویں صدی عیسوی کے آغاز میں اس رشتہ کے قافلوں کی آمد شروع ہو تی ہے، جو تاریخ کے نشیب وفراز سے گزرتے اور مختلف احوال کا سامنا کرتے ہوئے ملک کے طول وعرض میں اپنا مضبوط ومستحکم وجود قائم کر لیتے ہیں۔ لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کسی دور میں اسلام کو چیلنجز درپیش نہ آئے ہوں۔ البتہ ملک سے اسلامی دور کے چل چلاؤ اور زوال کے زمانے میں یہ چیلنج نت نئی شکلیں اختیار کر لیتے ہیں۔ پھر برطانوی دور میں صورت حال نئی کروٹ لیتی ہے اور اسلام کے لیے کشمکش بھرے احوال اور خطرات سامنے آنے لگتے ہیں۔ آزادی وطن کے دوش پر سوار کچھ راحت واطمینان کے جھونکے ملک کے سیکولر کردار اور دستور کی مذہبی ضمانتوں کے باغ میں ضرور پھیلتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی کچھ حقیقی اور کچھ متوقع قسم کے خطرات چیلنجوں کے نئے قالب اختیار کر لیتے ہیں، اور آزادیٔ وطن کے گذشتہ ستر برسوں میں یہ متوقع خطرات بتدریج نہ صرف حقیقی خطروں میں بدل جاتے ہیں بلکہ ادارہ جاتی استحکام اور سیاسی سرپرستی کی قوت بھی حاصل کر لیتے ہیں۔
اکیسویں صدی کے رواں عشرہ میں ملک کے اندر اسلام اور مسلمانوں کو بیحد تشویش ناک اور سنگین نتائج رکھنے والے چیلنج درپیش ہو گئے ہیں۔ ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے جہاں بہت ہی سنجیدہ اور گہرے غور وفکر کے ساتھ منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، وہیں انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر متعدد میدانوں میں برسر عمل ہو جانے کی شدید ضرورت ہے۔ لیکن افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ملت کے اندر آنے والی خوش آئند بیداریوں کے باوجود ایسی اجتماعی منصوبہ بندی اور ان پر عمل آوری کا شدید فقدان پایا جاتا ہے۔
ایمان اور عقیدہ کا تحفظ
ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی چودہ اور پندرہ فیصد سے لیکر بیس تا پچیس فیصد تک ہے، (2011 کی مردم شماری کے مطابق 14.2)۔ ظاہر سی بات ہے کہ سوا سو کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں (فروری 2020 میں 138 کروڑ) مسلمانوں کی آبادی زائد از بیس پچیس کروڑ بنتی ہے، جو اس بڑے ملک کے تقریباً ہر علاقہ اور چپہ میں موجود ہے۔ ان کی علاقی زبانیں علاحدہ، ان کے ساتھ رہنے والے پڑوسی مختلف، ان کے سیاسی اور معاشی احوال اپنے علاقوں کی نسبت سے جدا جدا، اور اس حوالہ سے ان کی ترجیحات بھی الگ الگ ہیں۔ لیکن ملک بھر میں پھیلے مسلمانوں کو باہم مربوط کرنے والی چیز یہی ایمان اور عقیدہ کا رشتہ ہے۔
ہماری موجودہ نوجوان نسل کا ایک معتد بہ حصہ تعلیم سے وابستہ ہے اور وہ تعلیمی ترقی کے لیے کوشاں بھی ہے۔ اس طبقہ کے اندر بھی اور بھاری اکثریت میں موجود ناخواندہ افراد کے اندر بھی ایمان اور عقیدہ کی بابت بیداری اور پختگی نہیں پائی جاتی ہے۔ اس کے نتیجہ میں وہ ایک طرف عقیدہ وایمان کی بنیادی روح سے دور ہو کر برادران وطن سے متاثر رسوم ورواج اور بدعات وخرافات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف اسلامی عقیدہ وایمان کے خلاف کام کرنے والی مشنری تنظیموں اور ان سے آگے بڑھ کر ہندو شدت پسندوں کی سازشوں اور کوششوں کے دام میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔ تیسری طرف پچھلے چند برسوں کے دوران بڑی شدت کے ساتھ چلائی جانے والی مختلف قسم کی لالچ بھری بھی اور دہشت واذیت پہنچانے والی بھی تحریکوں کے ذریعہ مجبور اور ناخواندہ مسلمانوں کے ایمان اور عقیدہ پر ہاتھ صاف کیا جا رہا ہے۔ یوں تو فکری ارتداد کی کئی لہریں پہلے ہی سے ملک کے اندر چل رہی تھیں، جن میں بین مذاہب شادیوں، تہذیبی اختلاط کے نام پر شرکیہ کاموں اور مذہب مخالف رجحانوں کے ذریعہ ایمان وعقیدہ پر حملے جاری تھے، لیکن اب ہندو شدت پسندوں کے برسراقتدار آنے اور قوت کے مراکز پر اپنے استبدادی پنجے گاڑ دینے کے بعد قانون سازی اور عدالتی فیصلوں کے ذریعہ سے ایمان وعقیدہ کے تحفظ کے لیے ایک بڑا گمبھیر چیلنج کھڑا کر دیا گیا ہے، اور ملک کی آزادی کے وقت دستوری ضمانتوں کے ذریعہ خوش کن تصورات کی جو راحت میسر ہوئی تھی اسے بھی اب اقلیت بنام اکثریت کے پاؤں تلے بے رحمی سے روندا جا رہا ہے۔
چونکہ مشیت ایزدی اپنا کام کر رہی ہوتی ہے اور اس کے مطابق شر سے بھی خیر کے پہلو نمو دار ہوتے رہتے ہیں، موجودہ استبدادی اقدامات کے رد عمل نے کئی ایسے منظر نامے برپا کیے ہیں جن سے پست ہوتے حوصلوں کو جلا ملی ہے، خاموش کر دی گئی آوازوں کو صدا عطا ہوئی ہے، بے بنیاد الزاموں کے پردے چاک ہونے لگے ہیں، اور بالخصوص جدید تعلیم سے آراستہ اور اسلامی شعائر واقدار سے وابستہ نوجوان نسل اور خصوصیت کے ساتھ طالبات کا ایک نیا حوصلہ مند کردار سامنے آیا ہے، اور گھروں کی خواتین نے اپنے آہنی عزم اور مستحکم قربانی کا لوہا منوایا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی مختلف مذاہب اور مختلف نظریات سے وابستہ افراد وجماعات کی اس نئی بھیڑ میں جہاں علاقہ واحوال کے تقاضے بہت سے اقدامات اور عملی رویوں کا مطالبہ کرتے ہیں، وہیں مسلم نسل کے لیے ہر حال میں ایمان وعقیدہ سے وابستگی کا چیلنج بھی سنگین نہیں تو کم از کم فکر مندی کی حد تک سوال کی شکل اختیار کرنے لگتا ہے۔
ایمان وعقیدہ کے تحفظ کا مسئلہ معاصر ہندوستان میں سب سے اہم چیلنج کی حیثیت رکھتا ہے، کیونکہ اس وقت جس ہندو شدت پسندی کا مسلمانوں کو سامنا ہے اس کو اصل عداوت اسلامی عقیدہ اور ایمان ہی سے ہے، اور اگر یہ باقی نہ رہے تو پھر اسے مسلمانوں سے کوئی شکایت نہیں رہ جاتی ہے۔ یعنی مسلمان خواہ نام سے مسلمان کہلائے لیکن اپنے عقیدہ سے ہاتھ دھو لے تو اس نام سے انھیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ کیونکہ کھوکھلا نام بہت جلد ختم ہو جاتا ہے۔
اعلیٰ تعلیم اور تاریخ
دنیا میں مسلمانوں کا ارتقا و غلبہ ایمان اور اعلیٰ تعلیم سے ہی وابستہ ہے۔ اسلام کی ابتدائی صدیوں میں اگر مسلمانوں نے دنیا کے نقشہ پر اپنے گہرے نقوش ثبت کیے ہیں تو وہ ایمان کی پختگی کے ساتھ اعلیٰ تعلیم سے آراستگی کی وجہ سے ہی ممکن ہوئی ہے۔ آج ملک کے اندر مسلمانوں کے لیے تعلیم کے دو متوازی دھارے چل رہے ہیں۔ ایک طرف دینی مدارس کی تعلیم ہے، جہاں بڑی حد تک علوم اسلامیہ کے ماہرین افراد کی تیاری کا نظم موجود ہے، اور یہ بات نہیں کہی جا سکتی کہ ملت ہندیہ علوم اسلامی کے ماہرین افراد سے بانجھ ہو گئی ہے۔ گو کہ دینی مدارس کے تعلیمی نصاب اور نظام پر بہت کچھ سنجیدہ غور وفکر کی ضرورت ہے اور موجودہ حالات میں اس نصاب ونظام نے تبدیلی اور ارتقا کی سنگین ضرورت کو نمایاں بھی کیا ہے۔ لیکن جیسا کچھ بھی سہی یہ نظام موجود ہے، اس سے دین وشریعت کے اصل سرچشموں سے وابستگی کی ضمانت پائی جاتی ہے۔ البتہ موجودہ دینی مدارس کے نظام میں رائج یہ تعلیم بڑی حد تک ثانوی سطح تک کی تعلیم قرار پاتی ہے، جس سے آگے کی تعلیمی منزل ہنوز تشنہ رہ جاتی ہے۔ ہمارا دوسرا تعلیمی دھارا ان عصری تعلیم گاہوں کا ہے جہاں ابتداء سے اعلیٰ معیاروں تک تعلیم کا نظام پایا جاتا ہے، اور جہاں ملک کے دیگر افراد کے ساتھ مسلم طلبہ وطالبات کو بھی اپنی پسند کی اعلیٰ تعلیم کے مواقع دستیاب ہیں۔ گو کہ مسلمانوں کے سامنے تعلیمی میدان میں متعدد دشواریاں اور مشکلات ہیں، جن میں ان کی معاشی پس ماندگی، عدم بیداری اور کسی حد تک اقتدار کی عدم سرپرستی کے اسباب شامل ہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ مسلمان اعلیٰ تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ ان کی خواندگی کا تناسب ہی دیگر اقوام کے مقابلہ میں بہت پست ہے، (2011 کے مطابق سب سے کم 57.3فیصد) لیکن اعلیٰ تعلیم کے میدان میں یہ صورت حال زیادہ نا گفتہ بہ ہے، (صرف 2.75 فیصد)۔
اعلیٰ تعلیم سے نا آراستگی بھی ایک وجہ ہے کہ ملک کے مختلف محکموں جیسے انتظامیہ، مقننہ، عدلیہ اور فوج کی اعلیٰ ملازمتوں میں مسلمانوں کا تناسب تقریباً نا پید ہے۔ سیاسی حصہ داری بھی ان کی تشویش ناک حد تک گھٹی ہوئی ہے۔ یہ درست ہے کہ ملازمت اور سیاست میں ان کی پس ماندگی کی دیگر اور بھی وجوہات ہیں، لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اعلیٰ تعلیم سے ہی اس فکر و ذہن کی تشکیل ہوتی ہے جو ان میدانوں کے لیے نہ صرف افراد فراہم کرتا ہے بلکہ اس کے لیے منصوبہ بندی، جد وجہد اور قربانی کے ذریعہ منزل تک پہنچنے کی راہ بھی دکھاتا ہے۔
اعلیٰ تعلیم سے محرومی کا یہ چیلنج مسلمانوں کے سامنے پوری شدت اور قوت کے ساتھ ایک عرصہ سے موجود ہے۔ اس میدان میں وہ اپنے طور پر چھوٹی بڑی کوششیں کر رہے ہیں، اور ان کوششوں کے اچھے نتائج بھی مرتب ہو رہے ہیں، خصوصیت کے ساتھ رواں عشرہ میں ایسی کئی قابل تعریف کوششیں انجام دی گئی ہیں۔ لیکن تعلیمی اداروں کے قیام کے علاوہ ایسی تنظیموں اور اداروں کی ضرورت بدستور باقی ہے جو مسلمانوں کی اصل علمی شناخت کے مطابق انھیں موجودہ حالات میں اور ملکی تناظر میں اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کرنے کی سمت میں منصوبہ بند اور منظم جد وجہد کر سکیں۔
حالیہ برسوں میں ملک کے اندر جو سیاسی اور سماجی سطحوں پر تبدیلیاں آئی ہیں، ان میں اسلام کی تاریخ اور خصوصیت کے ساتھ ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ کا موضوع ایک اہم چیلنج بن کر سامنے آیا ہے۔ پہلے ہی ملک کی اسلامی تاریخ کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر نقصان پہنچانے کی شعوری کوششیں کی گئی تھیں، جن کے سنگین نتائج سے مسلمان دو چار ہوتے رہے تھے۔ لیکن اب جھوٹی بنیادوں پر مسلم مخالف تاریخ لکھی جا رہی ہے، اور نئی نسل کو اس تاریخ کے ذریعہ اسلام بیزاری اور مسلم دشمنی کے زہر سے آلودہ کیا جا رہا ہے، اس گندے کھیل کے نتائج بھی سامنے آنے لگے ہیں۔ ہماری تعلیم حاصل کرنے والی نئی نسل خواہ دینی مدارس کے دھارے سے منسلک ہو یا عصری تعلیم گاہوں میں زیر تعلیم ہو، دونوں قسم کے طلبہ وطالبات کے پاس سر دست ایسا باضابطہ انتظام موجود نہیں ہے کہ جس سے وہ اسلام کی بنیادی تاریخ اور ساتھ ہی ہندوستان میں مسلمانوں کی روشن تاریخ سے صحیح طور پر آگاہ ہو سکیں، نیز وہ پھیلائے جانے والے بے بنیاد پروپیگنڈہ کے صحیح جوابات پا سکیں۔ کسی بھی قوم کو اس کے ماضی سے کاٹ کر اسے خود سے بدظن، بے زار اور ناکام بنانے کا یہ آسان حربہ ہوتا ہے۔ اس تناظر میں یہ سوال ضرور ایک چیلنج کی شکل میں سامنے آتا ہے کہ اسلام کی تاریخ اور ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ کا سبق اس نسل نو کو کس طرح پڑھایا جائے۔
اسلام کی فکری اور عملی دعوت
اسلام ایک پیغام ہے، جو ساری انسانیت کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اس پیغام کے ماننے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اسے دوسروں تک پہنچائیں۔ اسلام کا یہ پیغام فکر بھی ہے اور عمل بھی۔ اور اس کی دعوت بھی فکر اور عمل دونوں سطحوں پر ہوگی۔عہد نبوی میں اسی منہج کی تعلیم دی گئی اور اسلام کے عہد اول میں اسی کو برتا گیا۔ بعد کے ادوار میں مسلم سماج کے اندر یہ منہج باقی نہ رہا۔ ہندوستان میں اسلام کی آمد کا اولین دورانیہ تو ضرور اس سے وابستہ تھا، لیکن جب مسلمانوں کو یہاں استحکام حاصل ہوا ‘اس کے بعد کے طویل ادوار میں اسلامی دعوت کی یہ دونوں سطحیں متاثر ہوئیں۔ فکری سطح پر اسلامی عقیدہ، اسلامی نظام معاشرت اور اسلامی قوانین کی معقولیت اور برتری ثابت کرنے کے علمی کام خال خال ہی انجام پاسکے۔ بلکہ اس کے بر عکس فکری انتشار اور علاقائی مذاہب ورسوم سے تاثر پذیری کے پراگندہ نظریات وافکار عام کیے گئے۔ عملی سطح پر اسلام کی دعوت میں اس کا اخلاقی اور انسانی پہلو زیادہ مؤثر ثابت ہوتا ہے، اور سماج کے عام افراد کے لیے اسی میں کشش ہوتی ہے۔ اس پہلو سے ملک کے طول وعرض میں صوفیاء کرام کے ذریعہ انجام دی گئی کوششیں انتہائی قابل قدر رہیں اور یہاں اسلام کی اشاعت کا بڑا سہرا بھی انھیں کوششوں کے سر جاتا ہے۔ لیکن اس سے ہٹ کر عملی دعوت کا یہ پہلو کافی حد تک اوجھل رہا۔ عملی سطح کی اسلام کی دعوت میں ایک بڑا نقصان وہ اختلاف وانتشار تھا جو مسلم سماج میں مسلک وفرقہ اور ذات وبرادری کے نام پر در آیا تھا اور بد ترین شکل اختیار کر لی تھی۔ اس صورت حال نے اسلام کی عملی دعوت کی روح ہی نکال دی، بلکہ اسے منفی رنگ دے دیا۔ مسلم سماج بھی ملک کے دیگر سماجوں کی طرح ایک ایسا سماج بن گیا تھا جس کے اندر دوسروں کو اپنی جانب کھینچنے کی کشش نہ رہ گئی تھی، اور یہ سماج بھی مختلف قسم کی سماجی برائیوں اور انتشار وافتراق سے دو چار تھا۔ یہ صورت حال بڑی حد تک اب بھی برقرار ہے۔
اس وقت اسلام کے فکری محاذوں پر غیر اسلامی افکار ونظریات کے چومکھے حملے ہو رہے ہیں، اور وسائل ابلاغ کے جدید ذرائع اور سوشل میڈیا کے بڑھتے استعمال کی وجہ سے اس کے اثرات نہ صرف تعلیم حاصل کرنے والی نئی نسلوں کی ذہنوں پر مرتب ہو رہے ہیں، بلکہ دور دراز علاقوں میں رہنے والے عام مسلمانوں اور گھروں کی خواتین پر بھی یہ نظریات اپنے منفی اثرات ڈال رہے ہیں۔ گویا اس وقت فکری سطح پردو طرفہ چیلنج در پیش ہے۔ ایک تو اسلامی فکر پر ہو رہے حملوں کا دفاع، اور گھر گھر اور فرد فرد تک صحیح صورت حال کی ترسیل وتبلیغ۔ اور دوسرے اسلامی فکر ونظر کا وہ داعیانہ پہلو عصری اسلوب میں پیش کرنا جس سے یہ بات واضح ہو سکے کہ اسلام انسانیت کی ضرورت ہے، اس کے لیے رحمت وبرکت ہے، بلکہ یہی واحد متبادل ہے۔
عملی سطح پر جو اختلاف وانتشار کی صورت حال مسلم سماج میں رہی ہے، اس میں برادری کی اونچ نیچ اور مسلکی وجماعتی گروہ بندیوں نے مسلم سماج کو اندر سے بھی کھوکھلا کیا اور انھیں مختلف خانوں میں بانٹ دیا، اور ملک کے دیگر اہل مذاہب کے سامنے بھی اس سماج کی بدترین تصویر آئی۔ مسلم سماج کی اس عملی صورت حال نے ایک بڑے نقصان کا راستہ کھول دیا۔ وہ یہ تھا کہ برسوں ساتھ رہنے والے غیر مسلم افراد اپنے مسلم پڑوسیوں اور ساتھیوں کے اسلام کی بنیادی باتوں سے بھی واقف نہ ہو سکے۔ نہ تو غیر مسلموں نے مسلمانوں سے اس بابت سوالات کیے اور نہ مسلمانوں نے ان کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر پیش کی۔ ان دونوں کے درمیان ربط وتعلق کی نوعیت صرف چند ظاہری میل جول اور رسوم ورواج کی ادائیگی تک محدود رہی۔ اس صورت حال کا ایک افسوس ناک پہلو یہ بھی رہا کہ مسلم تنظیموں اور جماعتوں کے مذہبی اور سماجی پروگرام صرف مسلمانوں کے لیے محدود رہے۔ غیر مسلموں کو نہ تو یہاں مدعو کیا گیا، اور نہ ایسے مشترکہ پروگراموں کی منصوبہ بندی کی گئی جہاں غیر مسلموں کو اسلام کی صحیح تعلیم سے آگاہ ہونے کا موقع ملتا، اور وہ اپنے شکوک وشبہات رفع کر سکتے۔ ہندو شدت پسندی نے اس صورت حال کو بڑی چالاکی کے ساتھ اپنے حق میں استعمال کیا، اور غیر مسلم ذہنوں میں اسلام اور مسلمانوں کی ایسی خونخوار اور بدترین تصویر متواتر کوششوں کے ذریعہ بٹھائی کہ اس میں مسلمان کسی انسانی پیغام تو کجا‘ عام انسانی خوبیوں سے بھی گرے ہوئے محسوس کیے جائیں۔ اس کا لازمی نتیجہ مسلمانوں اور اسلام سے وابستہ ہر نام وعنوان سے نفرت ہی ہو سکتی تھی۔ چنانچہ پچھلے چند برسوں میں نفرت کی یہ کھیتی بڑی تیزی کے ساتھ برگ وبار لائی، اور مسلم نسل کشی، فسادات اور مسلم علامتوں کے ساتھ شدید نفرت وعداوت کے مظاہر انہی ساتھ رہنے والے غیر مسلم افراد کی طرف سے سامنے آئے جن کے ساتھ مسلمانوں کا برسوں ربط وتعلق رہا تھا۔ یہ سنگین صورت حال تھی، اور اس کی سنگینی خوفناک رفتار سے بڑھتی جا رہی تھی۔
اللہ کا شکر ہے کہ بالکل موجودہ وقت کی صورت حال نے اس رفتار پر روک لگائی ہے۔ ملک کے سیکولر کردار کی برقراری کے لیے کی جانے والی جد وجہد میں مختلف مذاہب کے افراد ایک دوسرے سے قریب آئے اور اس قربت نے باہمی محبت کو فروغ دیا اور بہت سی غلط فہمیوں کو دور ہونے کا موقع فراہم کیا۔ مسلم سماج کے اندر ایک مثبت احساس بھی جاگزیں ہوا کہ وہ اپنی مسجدوں، مدرسوں اور اپنے اداروں میں غیر مسلم افراد کو مدعو کریں اور انھیں براہ راست ان اسلامی مظاہر سے آشنا ہونے کے مواقع فراہم کریں۔
بہر حال اسلام کی فکری اور عملی دعوت آج ہمارے ملک میں ایک بڑا چیلنج ہے جس کے کچھ خوش آئند پہلو سامنے آئے ہیں۔ ضرورت ہے کہ اسے منظم اور منصوبہ بند طریقہ پر اپنی مسلسل سرگرمیوں کا حصہ بنایا جائے۔ اسلام کا پیغام خود اپنے اندر ایک لافانی قوت رکھتا ہے، اور دلوں کی تسخیر اس کے ذریعہ ماضی میں بھی ہوتی رہی ہے اور آج بھی ان شاء اللہ یہ تسخیر انجام پائے گی۔
مشمولہ: شمارہ جون 2020