دینی مدارس اسلامی قلعے ہیں، جہاں مستقبل کے معمار تیار ہوتے ہیں مولانا علی میاں ندویؒ کے بقول ’’مدرسہ وہ مقام ہے جہاں آدم گری اور مردم سازی کا کام ہوتا ہے، جہاں دین کے داعی اور اسلام کے سپاہی تیار ہوتے ہیں۔ مدرسہ عالم اسلام کا بجلی گھر ہے، جہاں سے انسانی آبادی میں بجلی تقسیم ہوتی ہے، یہ وہ کارخانہ ہے جہاں سے قلب و نگاہ اور ذہن و دماغ ڈھلتے ہیں۔
دعوت و تبلیغ کی اہمیت
درج ذیل نصوص سے دعوت وتبلیغ کی اہمیت بخوبی واضح ہوتی ہے:
(۱)اُدْعُ اِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ۰ۭ(النحل: ۱۲۵)
’’اے نبی اپنے رب کے راستہ کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ دعوت دو اور لوگوں سے اچھے طریقے سے مباحثہ کرو۔‘‘
(۲) يٰٓاَيُّھَا الرَّسُوْلُ بَلِّــغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ۰ۭ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ۰ۭ (المائدۃ: ۶۷)
’’اے رسول جوکچھ تمھارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کاحق ادا نہ کیا۔‘‘
(۳)وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّۃٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۱۰۴
(آل عمران:۱۰۴)
’’تم میں کچھ لوگ ایسے ضرور ہی ہونے چاہئے جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کا حکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں، جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔‘‘
(۴)كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللہِ۰ۭ (آل عمران:۱۱۰)
’’تم بہترین گروہ ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایاگیا ہے، تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پرایمان رکھتے ہو۔‘‘
(۵)حدیث: جو شخص ہدایت کی طرف (لوگوں کو) دعوت دے گا اسے ان تمام لوگوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا جو اس کی دعوت کی پیروی کریں گے بغیر اس کے کہ ان کے اجر میں کوئی کمی ہو اور جو گمراہی کی طرف (لوگوں کو) دعوت دے گا اسے تمام لوگوں کے برابر گناہ ہوگا جو اس کی دعوت پرلبیک کہیں گے بغیر اس کے کہ ان کے گناہ میں کمی ہو۔
دینی مدارس کا بنیادی مقصد:
دینی مدارس کا بنیادی مقصد دعوت دین کے لیے افراد کی تیاری ہے۔ مدارس سے صاحب بصیرت علماء، حوصلہ مند دعاۃ و مبلغین اور اسلامی قائدین نکلنے چاہئے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا كَاۗفَّۃً۰ۭ فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَــۃٍ مِّنْھُمْ طَاۗىِٕفَۃٌ لِّيَتَفَقَّہُوْا فِي الدِّيْنِ وَلِيُنْذِرُوْا قَوْمَھُمْ اِذَا رَجَعُوْٓا اِلَيْہِمْ لَعَلَّھُمْ يَحْذَرُوْنَ۱۲۲ۧ (التوبۃ: ۱۲۲)
اور یہ کچھ ضروری نہیں تھاکہ اہل ایمان سارے کے سارے نکل کھڑے ہوتے، مگر ایسا کیوں نہ ہوا کہ ان کی آبادی کے ہر حصہ میں کچھ لوگ نکل کر آتے اور دین کی سمجھ پیدا کرتے اور واپس جاکر اپنے علاقے کے باشندوں کو خبردار کرتے تاکہ ڈرتے۔
اسلامی دعوت کا میدان پوری بنی نوع انساں ہے خواہ وہ ملت میں داخل ہو یا خارج ہو بالفاظ دیگر (۱)غیر مسلموں کے درمیان دعوت وتبلیغ۔(۲)مسلمانوں کے درمیان اصلاح و تربیت۔ مسلمان داعی ہیں مدعو نہیں ہیں دعوت کے اصل مخاطب وہ افراد ہیں جو امت مسلمہ کے دائرے سے خارج ہیں ایسے لوگوں کو اللہ اور اس کے دین (اسلام) کی طرف بلانا دعوت کا اصل کام ہے ۔
امت کے اندر مختلف طرح کی خرابیاں موجودہیں ان کی اصلاح کرنا بھی ضروری ہے۔ ملت کے افراد کے اندر فکری، عملی، دینی، اخلاقی، معاشرتی اور تہذیبی خرابیاںموجود ہیں اس لیے ان کی اصلاح و تربیت کرنا بھی ضروری ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَّذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ۵۵ (الذاریات:۵۵)
’’آپ نصیحت کیجئے بے شک نصیحت اہل ایمان کے لیے نافع ہے۔‘‘
اس آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب ہے۔ ہم سب آپ کے امتی ہیں اس لیے ہماری بھی ذمہ داری ہے کہ اہل ایمان کی اصلاح و تربیت کے سلسلے میں فکر مند رہیں۔
مدارس کا کردار:
مدارس کا کردار دعوت کے دونوں میدانوں (غیر مسلموں اور مسلمانوں کے درمیان) میں نمایاںہوناچاہئے مگر موجودہ دینی مدارس کا کردار اطمینان بخش نہیں ہے کیو ںکہ مدارس کے مقصد اور نصاب میں ہم آہنگی مطلوب درج کی نہیں ہیں۔ ’’دعوت و تبلیغ میں مدارس اسلامیہ کا کردار‘‘ کی بحالی کے ضمن میں تجاویز پیش خدمت ہیں ۔
تجاویز
۱۔نصاب تعلیم میں دعوتی اجزاءکی شمولیت
۲۔طریقۂ تعلیم اصولی ہو نہ کہ فقہی و مسلکی۔
۳۔قرآن و حدیث کی تعلیم میں دعوتی اسلوب پیش نظر رہے۔
۴۔دعوت کے موضوعات پر توسیعی خطبات کا اہتمام۔
۵۔کارِدعوت میں سرگرم افراد کی طلبہ سے ملاقاتوں کا اہتمام۔
۶۔طلبہ کو دعوت کی عملی تربیت بھی دی جائے۔
۷۔شعبہ دعوت کا قیام عمل میں لایا جائے۔
۸۔اِس شعبہ کا نصاب مرتب کیاجائے اور شعبہ دعوت سے وابستہ افراداس نصاب کی تکمیل کریں۔ نصاب میں ہندوستانی مذاہب کا تفصیلی تعارف شامل ہو نیز تقابل ادیان کو بھی جگہ دی جائے۔
۸۔مدرسہ کے پورے ماحول کو دعوتی بنانے کی کوشش ہو۔
۹۔ماہانہ؍سہ ماہی؍ ششماہی دعوت پروگرام مدارس کے اندر ہو، جس میں غیر مسلم سامعین کو مدعو کیا جائے۔
۱۰۔کبھی کبھی مدارس کی جانب سے دعوتی بیداری کے لیے مہم منائی جائے مثلاً ’’اسلام سب کے لیے‘‘، ’’قرآن سب کے لیے‘‘، ’’نبی اکرم ؐسب کے لیے‘‘ اس میں برادران وطن کو بلایا جائے اور انھیں کتابوں کا تحفہ بھی پیش کیاجائے۔
۱۱۔مدعو قوم کی زبان پڑھنے اور پڑھانے کا نظم کیاجائے۔
تکمیلِ دین کے تقاضے
حج کے موقع پر تکمیل دین کا اعلان ہو چکا تھا، اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت سے خطاب فرماتے ہوئے کہہ رہے تھے: ’’شاید اس سال کے بعد تم سے میری ملاقات نہ ہو سکے۔‘‘
یہ فرماتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے سوال کیا: ’’کیا میں نے تم پر خدا کا دین پہنچا دیا‘‘
لوگوں نے جواب دیا کہ ہاں۔ آپ نے دین ہم تک پہنچا دیا۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: ’’کل قیامت کے دن تم سے میرے بارے میں پوچھاجائے گا اس وقت تم کیا جواب دو گے؟‘‘
صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا:’’ہم شہادت دیں گے کہ آپ نے حق تبلیغ ادا کردیا۔ دین پوری طرح پہنچا دیا اور آپ نے خیرخواہی کا حق ادا کردیا۔‘‘
اس کے بعد اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت کی انگلی کو آسمان کی جانب اٹھاتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا: ’’اے اللہ تو گواہ رہ‘‘
پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا: ’’خبردار! جو یہاں موجود ہے وہ اسے پہنچا دے جو موجود نہیں ہے۔ ‘‘
ربیع بن انس (تابعیؒ) فرماتے ہیں:
’’جو شخص رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرے اس پر یہ حق عائد ہوتا ہے کہ جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی دعوت دی اسی طرح وہ بھی دعوت دے اور جس کتاب کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو خدا کے عذاب سے ڈرایا تھااس کتاب کے ذریعے وہ بھی خدا کے عذاب سے ڈرائے۔‘‘
شہادت حق: قولی و عملی دونوں ضروری ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہمارے سامنے ہے۔ امت کے افراد پر بالعموم اور فضلاء مدارس پر بالخصوص یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2014