’’اور ہم نے جو رسول بھی کسی آبادی یا یا بستی میں بھیجا، تو اس بستی کے رہنے والوں کو سختیوں، اور نقصانات کے ذریعے ضرور پکڑا، شاید کہ وہ عاجزی کریں، گڑگڑائیں، تضرُّع اختیارکریں۔ پھر ہم نے بُرائی کی جگہ بہتری سے تبدیل کردی ﴿بدحالی کو خوش حالی سے بدل دیا﴾ یہاں تک کہ وہ خوب پھلے پھولے اور کہنے لگے : ’’تو ہم نے ان کو اچانک گرفت میں لے لیااور شعور وہ نہیں رکھتے تھے ﴿ان کو اللہ کی خفیہ تدابیر کا احساس بھی نہیں ہوا۔﴾اور اگر ان بستیوںکے رہنے والے ایمان لے آتے اور خوف خدا، خیال آخرت کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر، زمین و آسمان کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔ لیکن انھوںنے جھٹلایا، تو ہم نے ان کو پکڑلیا۔ ان اعمال کی وجہ سے، جو وہ کمائی کرتے تھے،کیا اصل بستی ﴿آبادیوں﴾ کے باشندے، امن میں ہیں۔ اس بات سے کہ ہمارا عذاب راتوں رات آجائے اور وہ سورہے ہوں یا بستیوں میں رہنے والے امن میں ہیں اِس بات سے کہ ان پر ہمارا عذاب دن دھاڑے آجائے اور وہ کھیل کود اور لہو ولعب میں مشغول ہوں، کیا وہ اللہ کی خفیہ تدابیر سے مامون ہیں؟ اللہ کی خفیہ تدابیر سے تو صرف وہی لوگ بے خوف اور مطمئن ہوتے ہیں جو خسارے اور گھاٹے میں رہنے والے ہیں۔‘‘ ﴿اعراف:۱۲﴾
یہاں اللہ تعالیٰ نے اپنا ایک طبعی اصول بیان کیاہے کہ اس نے جب بھی کسی آبادی میں اپنا کوئی پیغمبر بھیجاہے تو طبعی طورپر بھی حالات کو سازگار بنانے کے لیے، تدبیرفرمائی ہے۔ تنگ دستی، بیماریوں، قحط اور سیلاب وغیرہ کی شکل میں ان کی طبیعتوںمیں گداز پیداکرنے، ان کے دلوں میں رجوع الی اللہ، پیدا کرنے، ان میں تضرع اور اللہ کی طرف میلان پیدا کرنے کے لیے اُنھیںمختلف پریشانیوں میں مبتلا کیاہے۔ اگرچہ اب نبوت ختم ہوچکی ہے مگر آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم، کی امت میں ہر جگہ داعیان اسلام اٹھ رہے ہیں۔
علاوہ ازیں غیریت اور سرمایہ دارانہ ظلم وستم کاسلسلہ زمینداراور کاشتکار کارخانہ دار کامسئلہ، عورت اور مرد کا مسئلہ، ان کے حقوق و فرائض کامسئلہ طبقاتی کشمکش، امن وامان کامسئلہ ، عدل وانصاف کامسئلہ، حقوق انسانی کامسئلہ۔ غرض کہ انسان کے تمام مسائل الجھے پڑے ہیں۔ نابالغ بچوںپر مظالم کامسئلہ ، ہمہ پہلو کرپشن کے مسائل، اخلاقی بحران برپا ہے اور اسے بڑھاوا دیاجارہا ہے۔ جنسی اور صنفی ہوس کا دور دورہ ہے۔ ہم جنسی اور شہوت پرستی، عیش پرستی وغیرہ۔ خدا پرستی کے بجائے شیطان کی سربراہی میں ہزار قسم کی پرستیاں، الگ وبائی شکل میں موجود ہیں۔ انسان کا ذہن، انسان کادل، انسان کا ظاہرو باطن ہر ایک سکون اور سکھ سے محروم ہے۔ یہ حالات ہیں جو اسلام اور اس کے نظام کے لیے سازگاری پیدا کررہے ہیں۔ اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں حالات سازگار ہوئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دعا کی تھی کہ اللہ تعالیٰ جس طرح تونے یوسف علیہ السلام کو سخت وشدید قحط کے ذریعے مدد دی تھی، اسی طرح قحط کے ذریعے میری مدد فرما۔ چنانچہ اہل مکہ اور اطراف و جوانب کے لوگ سخت قحط سے دوچار ہوئے اور پھر سرداران قریش ابولہب کی رہ نمائی میں حاضر ہوئے اور قحط دور کرنے کے لیے دعا کرنے کی درخواست کی۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے قحط دور فرمادیا۔
اس سلسلے میں اللہ کی سنت کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب لوگ اس طرح بھی اللہ کی طرف رجوع نہیں ہوتے اور ان کے مزاجوںمیں نرمی اور دلوں میں گداز پیدا نہیں ہوتا تواللہ تعالیٰ ان کی رسّی ڈھیلی کردیتا ہے۔ تب بدحالی کی جگہ خوش حالی، تنگ دستی کی جگہ کشادہ دستی، غربت و افلاس کی بجائے شان وشوکت، بیماریوں کے بجائے صحت وتندرستی اور پستی و پسماندگی کے بجائے عروج واقتدار دے دیتا ہے۔ غرض کہ رنگ رلیاں منانے، عیش وعیاشی کرنے، ہر طرح کے لطف ولذت حاصل کرنے کے مواقع فراہم کردیتا ہے۔ پھر وہ دنیوی اعتبار سے خوب پھلتے پھولتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ ہر طرح کی بداخلاقیوں اور ظالمانہ کارروائیوں میں مبتلا اور مگن ہوجاتے ہیں۔ آخرکار اللہ کاعذاب ان کے سرپر منڈلانے لگتاہے اور لوگ بدحالی کے بعد خوش حالی سے ہمکنار ہونے کی مادی تعبیریں کرنے لگتے ہیں۔
آخرکار ایک روز اللہ تعالیٰ کا عذاب اچانک ان پر ٹوٹ پڑتاہے اور ان کو نیست ونابود کردیتاہے اور اگر قوم ایمان لے آتی ہے اور تقویٰ کی روش پر گامزن ہوجاتی ہے اوراسلامی تحریک کی انقلابی جدوجہد کے نتیجے میں اسلامی انقلاب رونماہوجاتا ہے،سماجی طور طریقے، رسوم، رواج، معاملات اور تعلقات، معاشی اصول، کمانے کے طریقے اور مصارف کے مواقع اسی طرح سیاست کے اصول، عدلیہ، انتظامیہ اور مقننہ سب کچھ بدل جاتاہے۔ زندگیوں میں انقلابی تبدیلیاں رونما ہوجاتی ہیں اور انسان واقعی انسان بن جاتے ہیں۔ کفرو شرک اور الحاد اور فسق و فجور کے بجائے ہر جگہ ایمان افروز مناظر آنے لگتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ بھی آسمان وزمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ بارشیں خوب ہوتی ہیں، ہر طرف ہرے بھرے باغات، گھنے جنگل اور لہلہاتی کھیتیاں نظرآنے لگتی ہیں۔ سرسبزی و شادابی اور ہرقسم کے غلّے، پھل میوے اور ترکاریاں اور جانوروں کے لیے چارہ کثرت سے پیدا ہوتاہے اور ہر طرف خوش حالی اور فارغ البالی دکھائی دینے لگتی ہے۔ اللہ کے بندے، اللہ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتے ہیں اور وہ جس قدر شکرگزاری کا ثبوت دیتے ہیں، ان کا رب اتنا ہی زیادہ ان کو نوازتا چلاجاتاہے۔ لیکن لوگ اگر پیغمبرانہ دعوت کو جھٹلاتے ہی چلے جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو معاف نہیں کرتاہے۔ بل کہ ان کے کرتوت اور بُری کمائی کی وجہ سے انھیں گرفت میں لے لیتاہے اور ان پر عذاب کا کوڑا برسادیتا ہے، پھر وہ تباہ و برباد ہوکر رہ جاتے ہیں۔ دنیا والے اگر اللہ کے عذاب اور گرفت سے بے فکر ہوکر بیٹھتے ہیں، تویہ ان کی بڑی بھول ہے۔ اللہ کا عذاب راتوں رات آسکتاہے۔ جب کہ وہ نیند کے مزے لوٹ رہے ہوں اور عیش کدوں میں داد عیش دے رہے ہوں۔ اسی طرح دنیا والے اگر کھیل کود اور غفلت میں مبتلا ہوں اور یہ سمجھتے ہوں کہ ہم اللہ کے عذاب سے محفوظ ہیں تو یہ ان کی غفلت کی انتہا ہے۔ اللہ کاعذاب دن دھاڑے اچانک آسکتا ہے، جب کہ وہ رنگ رلیاں منارہے ہوں اور کھیل کود میں مگن ہوں۔
اللہ کی تدابیر اور خفیہ چالوں سے کون محفوظ اورمامون ہوسکتاہے اور ان کی طرف سے کون بے فکرہوکر بیٹھ سکتاہے؟ اللہ کی تدابیر اور غیرمحسوس چالوں سے تو وہی لوگ غافل ہوسکتے ہیں، جو اپنے فکر وعمل اور اپنے کردار اور زندگی کے رول سے اپنے کو ہمیشہ کے لیے خسارے میں مبتلا کرچکے ہوں۔ غرض کہ اللہ نے جب بھی کسی بستی میں کوئی نبی اور پیغمبر بھیجاہے تو اس قوم کو اللہ کی طرف جھکانے اور راہ حق کی طرف مائل کرنے کے لیے اسے مالی پریشانیوں اور بیماریوں اور مختلف قسم کی آزمائشوں میں مبتلاکیاگیا ہے۔ اس طرح ہم نے دعوت اسلامی کے لیے ماحول کو طبعی طورپر سازگار بنایا ہے۔تاکہ لوگ حق کی طرف مائل ہوں۔ اللہ کے رسول شہادت حق کاحق ادا کردیتے تھے۔ اس لیے اللہ مادر پدر آزاد بدتہذیبی کے متوالوں پر مشتمل قوموں کو تباہ و برباد کردیاکرتاتھا۔ آج بھی اگر شہادت حق کا حق امت مسلمہ ادا کردے تو آج بھی دنیا پر جو بدتہذیبی غالب ہورہی ہے، بل کہ غالب ہوچکی ہے ۔ وہ اِن شاء اللہ تباہ وبرباد اور نیست ونابودہوکر رہے گی۔ اِن شاء اللہ!‘‘
مشمولہ: شمارہ اپریل 2011