قرآن مجید نے مشرکین کی کوششوں کا تذکرہ کیا ہے جو انھوںنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت کے خلاف وقتاً فوقتاً کیں، ایک کوشش آپﷺ کو اس پیغام کی ترسیل سے پھیردینے کی تھی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی آپ ﷺ پر اترا تھا۔ مطالبہ کیاگیا کہ آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کے نام پر کوئی دوسری بات گھڑلیں۔ حالانکہ آپ ﷺ صادق اور امین تھے۔
اِس سودے بازی کی کوشش کی گئی کہ آپ خدا کی عبادت ضرور کریں لیکن باطل کی تردید اور باپ دادا کی غلط روش پر تنقید چھوڑ دیں۔ بعض لوگوں نےآپؐ کی دعوت قبول کرنے کے لیے یہ شرط رکھی کہ آپؐ ان کے علاقے کو بھی اسی طرح حرم قرار دیں جس طرح خانہ ٔ کعبہ کو اللہ تعالیٰ نے محترم ٹھہرایا ہے۔ بعض سرداران قریش کا مطالبہ یہ تھا کہ آپؐ ان کے لیے ایک الگ مجلس قائم کریں جس میں غریب اور نادار لوگ نہ بیٹھیں۔
قرآن مجید میں مشرکین کی ان کوششوں کی طرف عموماًاجمالی اشارہ کیاگیا ہے۔ مقصود یہ بتانا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کی رہنمائی فرماتے ہوئے آپ ﷺ کو ثابت قدم رکھا اور مشرکین کی چالوں سے بچایا، اگر اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو حق پر نہ جمائے رکھا ہوتا اور وہ آپ ﷺ کی حفاظت نہ فرماتا تو اندیشہ کیا جاسکتاتھا کہ آپؐ ان کی طرف مائل ہوتے اور وہ آپؐ کو اپنا دوست بنالیتے۔
ایسی کوششیں— جن سے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسولؐ کی حفاظت فرمائی۔ ہر دور میں اصحاب اقتدار کی طرف سے داعیان حق کے ساتھ کی جاتی رہی ہیں۔ انہیں ورغلانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ دعوت حق سے تھوڑا ساہی سہی منحرف ہوجائیں ،وہ کسی درمیان طرز عمل پرراضی ہوجائیں۔ اِس لچک کی ترغیب دینے کے لیے انہیں منافع وفوائد کے سبز باغ دکھلائے جاتے ہیں۔ بعض داعیانِ حق اس فتنے میں مبتلا ہوکر اپنی دعوت میں کچھ لچک پیدا کرلیتے ہیں۔ کیونکہ وہ اسے معمولی بات سمجھتے ہیں۔ اصحاب اقتدار عموماً ان سے یہ مطالبہ نہیں کرتے کہ اپنی دعوتی مہم سے کلی طور پر دست کش ہوجائیں بلکہ ان کا مطالبہ دعوت میںمعمولی ترمیمات کا ہوتا ہے۔ تاکہ حق اور باطل دونوں کے لیے بقا کا حق تسلیم کرلیاجائے۔ شیطان اسی روزن سے داخل ہوتا ہے۔ داعی سمجھنے لگتا ہے کہ دعوت کا مفاد اصحابِ اقتدار کو کسی نہ کسی طرح اِس دعوت کا ہمنوا بنانے میں ہے چاہے اس کے لیے پیغام حق کے ایک حصے سے دستبردار ہوناپڑے۔ لیکن آغاز کار میں اگر معمولی سا انحراف پیدا ہوجائے تو سفرکے اختتام پر یہ مکمل انحراف میںبدل جاتا ہے۔ جو داعی، دعوت کے سلسلے میں تھوڑی سی لچک کو گوارا کرلیتا ہے یا اس کے کسی جز میں معمولی سی ترمیم کو راہ دےدیتا ہے۔ تو پھر اس رعایت کادائرہ اس حد تک ہی محدود نہیں رہتا ۔ اپنے ثابت شدہ موقف سے ایک قدم پیچھے ہٹتے ہی اس کی پسپائی شروع ہوجاتی ہے اور پھر اُس میں روزافزوں اضافہ ہوتا چلا جاتاہے۔
مسئلہ دراصل مکمل ایمان کا ہے،جو شخص ایمان کے کسی چھوٹے سے جز سے بھی دستبردار ہوتا ہے یا اُس کے تقاضوں سے چشم پوشی کرتا ہے وہ اپنی دعوت پر مکمل اعتماد رکھنے والا نہیں ہوسکتا، دعوت حق کا ہر پہلو مومن کی نگاہ میں اہم اور ضروری ہے۔ اس میں کوئی جُز نفل نہیں ہے جس سے یک گونہ بے نیازی برتی جاسکتی ہو، یہ دعوت ایک مکمل اکائی ہے اگر اس کا ایک جز بھی نکل جائے تو وہ اپنی امتیازی خصوصیات کھو دے گی، جس طرح کسی مرکب کا ایک عنصر نکل جائے تو اس کے خواص تبدیل ہوجاتے ہیں۔
ارباب اقتدار ، علمبرداران دعوت کو آہستہ آہستہ اپنے جال میں پھانستے ہیں، جب اہل دعوت کسی ایک میدان میں مصالحت کرلیتے ہیں تو ان کا وقار ختم ہوجاتا ہے۔ وہ استقامت کے جوہر سے محروم ہوجاتے ہیں۔ ارباب اقتدار سمجھ لیتے ہیں کہ سودے بازی جاری رکھی جائے تو آخر میں پوری متاع پر آسانی سے قبضہ کیا جاسکتا ہے۔
دعوت کے کسی پہلو میں خود سپردگی — جس کا مقصد اصحاب اقتدار کو ہمنوا بنانا ہو ۔ دراصل روحانی شکست خوردگی ہے۔ کیونکہ دعوت کی تائید ونصرت کے لیے گویا ارباب اقتدار پر بھروسا کرلیا گیا۔ حالانکہ اپنی دعوت پر سچا ایمان رکھنے والوں کا اعتماد وبھروسا صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہوتا ہے۔ جب دل کے نہا ں خانے میں شکست و ہزیمت راہ پالے توشکست کو فتح میں نہیں بدلا جاسکتا۔
مشرکین جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس فتنے میں مبتلا کرنے میں کامیاب نہ ہوئے تو انھوںنے سرزمین مکہ سے آپؐ کے قدم اکھاڑنے کی کوشش کی ، اِس مرحلے میں اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو وحی کی کہ آپؐ خود یہاں سے ہجرت کرجائیں۔
یہ حقیقت بھی ملحوظ رہے کہ اِسلام ایک مکمل نظام حیات ہے، جس میں ان قوانین فطرت کی رعایت ملحوظ رکھی گئی ہے جونفس انسانی پر اس کے جملہ مدارج و احوال کے اندر متصرف ہیں اور جن کی عملداری انسانی سماج کے حالات پر محیط ہے۔ قرآن مجید اپنے احکام کے ذریعے جو فطرت سے ہم آہنگ ہیں۔ فرد کی بھی اصلاح کرتا ہے اور اِن افراد سے ترکیب پانے والے معاشرے کی بھی۔ وہ بیک وقت دونوں کی مکمل ، ہمہ گیر اور ہمہ جہت اصلاح کرتا ہے۔
فرد اور معاشرہ کی زندگی کے متنوع احوال میں سے کوئی حال اس کے حساب وشمار سے غائب اور اوجھل نہیں ہونے پاتا۔ کیونکہ اِن قوانین کا وضع کرنے والا وہ خدائے علیم ہے جو فطرت اِنسانی کے تمام پہلوئوں سے اچھی طرح باخبر ہے۔ رہے وہ قوانین جو انسانوں کے بنائے ہوئے ہیں تو وہ انسان کی کوتاہ فہمی اور اس کے بدلتی ہوئی کیفیات سے متاثر ہیں۔ اِس لیے وہ بیک وقت تمام احتمالات کا احاطہ کرنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ وہ کسی انفرادی یا اجتماعی صورتحال کی اصلاح کے لیے جو نسخہ تجویز کرتے ہیں اس سے بجائے خود کوئی دوسری بے اعتدالی پیدا ہوجاتی ہے جو محتاج علا ج ہوتی ہے۔
قرآن کے احکام کا اعجاز مجرد ادبی اعجاز سے کہیں زیادہ وسیع اور دور رس ہے۔ انس وجن قرآن کا مثل لانے سے عاجز ہیں۔ اِس کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ اس کے پیش کردہ نظام میں جیسا نظام حیات جو نہایت ہمہ گیر ہے، مرتب کرنے سے قاصر ہیں۔
مولانا سید جلال الدین عمری اسلامی دعوت اور ثابت قدمی کے موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں: کسی غیراسلامی ماحول میں صحیح اسلامی دعوت کا اٹھنا اور اس پر اس کے کارکنوں کا ثابت قدم رہنا بڑا ہی مشکل کام ہے۔ جہاں اسلامی فکر پر غیر اسلامی افکار ہر طرف سے حملہ آور ہوں، جہاں مخالف ماحول اپنا شدید دبائو ڈال رہا ہو، جہاں حوصلہ شکن حالات میں دعوت کا کام کرناپڑے، جہاں کسی کارکن کی لغزش کی تحسین اور تعریف ہو، جہاں کمزوری کو حکمت و مصلحت کہا جائے، جہاں پیش قدمی کی مذمت کی جائے اور پیچھے ہٹنے پر داد ملے ، وہاں استقامت کو کارنامہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ جب کبھی اسلام کو مخالف طاقتیں ابھرتا ہوا دیکھتی ہیں تو وہ بزور اسے کچل دینا چاہتی ہیں، لیکن یہ ان کے لیے آسان نہیں ہوتا کیونکہ تحریکیں زوراور قوت سے دبائی نہیں جاتیں۔ اس لیے ان کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے علمبردار خود اسے ختم کردیں۔ اس کی وہ کبھی کھلی ہوئی درخواست نہیں کرتیں۔ ان کامطالبہ صرف اتنا ہوتا ہے کہ اسلام کے ماننے والے اپنے سخت موقف سے ذرا پیچھے ہٹیں وہ دوسروں کے افکار وخیالات کی صحت و صداقت کو تسلیم کریں اور دوسرے ان کے نظریات کی خوبی کا اعتراف کریں ، کچھ باتوں کو وہ برداشت کریں اور کچھ کو ان کے مخالفین برداشت کریں۔ تاکہ بقائے باہم کی کوئی صورت نکل آئے۔ یہ بڑا نازک موقع ہوتا ہے۔ یہی موقع ہوتا ہے کہ جب اسلام کے لیے کام کرنے والوں کے اندر بھی لچک یا مداہنت آسکتی ہے۔ وہ اپنے خیالات پر نظرثانی کے لیے تیار ہوسکتے ہیں۔ یہ تحریک کی بھی موت ہے اور اس کے کارکنوں کی بھی۔ اس لیے کہ بلندی سے انسان جب لڑھکنے لگتا ہے تو درمیان میں رکتا نہیں ہے بلکہ نیچے ہی پہنچ کر دم لیتا ہے۔ جہاں حالات کے سامنے اس کا سرذراسا خم ہوتا ہے تو حالات اس سے سجدہ کراکے چھوڑتے ہیں۔ جب وہ اپنی ایک چیز دشمن کے حوالے کرتا ہے تو دشمن اسے ہرچیز سے محروم کرکے رکھ دیتا ہے۔
(اِسلام ایک دینِ دعوت)
مشمولہ: شمارہ اپریل 2014