اسلامی تحریکات اور تشدد پسندی کا چیلنج

شمارے کی ترتیب کے دوران مصطفی محمد طحان کے انتقال کی غم ناک خبر ملی۔ اسلامی تحریک کے قائد، مربی، اور مفکرمصطفی طحان ۱۹۴۰ءمیں لبنان میں پیدا ہوئے، بچپن سے نوجوانی تک شام میں رہے، کیمیکل انجینئرنگ میں ماسٹرس ترکی سے کیا، معاشی مصروفیت کے لیے کویت میں رہے، اور عمر کے آخری حصے میں ترکی میں رہے، اور وہیں پچیس ستمبر ۲۰۱۹ءکو ۷۹سال کی عمر میں وفات پائی۔ انٹرنیشنل اسلامی فیڈریشن فار اسٹوڈنٹس آرگنائزیشنز IIFSO کی تاسیس میں شریک رہے، اور اس کے جنرل سیکریٹری بھی رہے، ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ WAMY کی تاسیس میں شریک رہے، اور آخر میں اسٹوڈنٹس آرگنائزیشنس یونین SOU کو قائم کیا اور اس کے جنرل سیکریٹری رہے۔ اسلامی لٹریچر کو دنیا بھر کی زبانوں میں ترجمہ کرانے اور پھر انہیں شائع کرانے کے حوالے سے مصطفی طحان کی کوششیں یاد رکھی جائیں گی۔ مصطفی طحان نے دنیا بھر کی اسلامی طلبہ تنظیموں پر قیمتی تعارفی دستاویزات بھی تیار کی ہیں۔ تحریک اور تربیت دونوں ان کے خاص موضوع رہے، اسلامی تحریک کے حوالے سے وہ اعتدال پسندی،بے باک تجزیوں اور جرات مندانہ تجویزوں کے لیے جانے جاتے تھے۔ ان کی متعدد کتابیں تحریک وتربیت کے میدان میں رہنمائی کا مقام رکھتی ہیں۔ یہاں ان کی خود نوشت اوراق مسافر سے ایک اہم تحریر کا ترجمہ پیش کیا جارہا ہے۔(ادارہ)

مجھے حالات نے بولنے پر مجبور کیا، تو میں نے ’الفکر الحرکی بین الاصالۃ والانحراف‘ نامی ایک کتاب تحریر کی، جس میں،میں نے تشدد پسندی پر گفتگو کی ہے اور ان کوششوں کے تعلق سے بھی بات کی ہے جن کا مقصد اسلحہ، بغاوت اور انقلاب کے ذریعہ تبدیلی لانا ہے۔ میں نے اس کتاب میں لکھا کہ تبدیلی کا یہ طریقہ درست اور مفید نہیں ہے۔ تبدیلی کا یہ طریقہ امت کو مزید پریشانیوں اور تباہ کاریوں میں مبتلا کر دے گا۔ بعض  لوگوں نے اس کتاب کی پذیرائی کی جب کہ بعض لوگوں کو یہ کتاب پسند نہیں آئی۔ مجھے آج بھی وہ بات یاد ہے جو میں اس کتاب سے اختلاف کرنے والوں سے کہا کرتا تھا کہ آپ پندرہ سال بعد مجھ سے اس موضوع پر گفتگو کرنے کے لیے آئیں۔ میں نے سخت تنقید کا سامنا کیا، بلکہ بسا اوقات مجھے شک کی نگاہوں سے بھی دیکھا گیا، لیکن میں نے ان سب کی پرواہ نہیں کی، کیوں کہ میرے نزدیک فکر کی درستگی دیگر تمام ــچیزوں سے اہم ہے۔ میں یہ سمجھتا تھا کہ سرگرم اور امنگوں سے بھرے ہوئے نوجوانوں کو ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو ان سے صحیح اور مفید گفتگو کر سکے، جسے شاید بروقت وہ نہ سمجھ سکیں، لیکن یہ امید تھی کہ مستقبل قریب میں وہ سمجھ جائیں گے۔ ذیل میں، میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کروں گا کہ میں نے اس موضوع سے متعلق جو کچھ لکھا تھا وہ درست تھا۔

تشدد پسندی سے متعلق چیلنج

اسلامی ممالک اور اسلامی معاشرے میں حکومت اور سیاست کے خلاف تشدد کا استعمال سب سے زیادہ اختلافی مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ اسلامی تحریکات اور جماعتوں کے لیے ایک بنیادی چیلنج ہے، ساتھ ہی یہ مسئلہ ان ممالک کی حکومتوں کے لیے بھی بہت بڑا چیلنج ہے۔

یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ جیسے ہی کسی ملک میں کوئی اسلامی منصوبہ پیش کیا جاتا ہے ویسے ہی اس منصوبے اور اس سے متعلق افراد پر الزام تراشیوں کا اک سلسلہ شروع ہو جاتاہے، حتی کہ میذیاہر اس شخص پر بنیاد پرستی، انتہا پسندی، دہشت گردی، تشدد پسندی اور جمہوریت مخالف ہونےکا لیبل چسپاں کرنے لگتا ہے جو اسلام کے نام پرکسی منصوبے کا آغاز کرتاہے۔

برما اور الجزائر

لبنانی مضمون نگار رغید الصلح نے لندن سے شائع ہونے والے عربی روزنامہ الحیاۃ میں ۸ دسمبر ۱۹۹۵ کو ایک مضمون تحریر کیا، جس میں انہوں نے برما میں ظہور پزیر ہونے والے حالات و واقعات اور الجزائر میں ظہور پزیر ہونے والے حالات و واقعات کے درمیان موازنہ کیاہے کیوں کہ دونوں ملکوں میں پیدا ہونے والے حالات و واقعات کا زمانہ ایک دوسرے سے قریب رہا ہے اور دونوں کے حالات بھی یکساں رہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیںکہ قریب تھا کہ برما میں فوج اور مخالفین کے درمیان محاذ آرائی ایک خانہ جنگی میں تبدیل ہو جاتی، تاہم فوجی حکمرانوں کے تمام تر ظلم و جبر اور شدید کشیدگی کے باوجود حکومت اور مخالفین کے درمیان اس محاذ آرائی اور کشمکش نے دھماکہ دار شکل اختیار نہیں کی اور اسے سیاسی فریم ورک میں سمیٹ لیا گیا۔ جب کہ الجزائر میں اس کے برعکس ہوا، جہاں فوج اور مخالف تنظیم جبھۃ الانقاذ الاسلامیۃ جس نے اسلامی شریعت کے نفاذ کے لیے جہاد کی صدا لگائی تھی، دونوں کے درمیان حالات نے دھماکہ خیز شکل اختیار کر لی، جس کے نتیجہ میں ملک میں بڑا خون خرابہ ہوا اور ملک کی معیشت اور سیاست کو بڑا نقصان پہنچا۔

رغید الصلح کا کہنا ہے کہ برما اور الجزائر کے حالات میں فرق کی وجہ دونوں ملکوں کے تہذیبی اور معاشرتی حالات کا فرق ہے۔ لیکن یہاں اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ برما میں سیاسی مخالفت جمہوری طریقہ پر کی گئی تھی، جب کہ الجزائر کی سیاسی مخالفت نہ ہی جمہوری طریقہ پر قائم تھی اور نہ ہی اس کا مقصد جمہوری نظام کا قیام تھا۔ رغید الصلح اس نتیجہ پر پہنچے کہ جمہوریت کا طریقہ اختیارکرنے والا سیاسی میدان میں باقی رہتا ہے، جب کہ دیگر جماعتیں اور طاقتیں اپنے مقاصد کے حصول کے لیے تشدد اور مسلح عمل کا راستہ اختیار کرتی ہیں۔

اندازہ کریںکہ اس طرح لوگوں کے ذہنوں میں یہ با ت ذہن نشیں کی جاتی ہے کہ دیگر مخالف تحریکات کے بر عکس، اسلام کے نام پر شروع کی گئی کسی تحریک اور پر امن سیاست میں کوئی ہم آہنگی اور نقطہ اتفاق نہیں ہے۔

مارچ ۱۹۹۲میںعموس برلموتر نامی مضمون نگار نے ایک مضمون تحریر کیا تھا، جس کا عنوان تھا’اسلام اور جمہوریت میں کوئی مناسبت نہیں‘۔ اس مضمون میں انہوں نے لکھا ہے کہ الجزائر میں ظہور پذیر واقعات نے نہ صرف تیسری دنیا اور عالم اسلام میں جمہوریت کے مسئلہ کی جانب توجہ مبذول کرائی، بلکہ اس سے بھی اہم مسئلہ کی جانب توجہ مبذول کرائی کہ اسلام اپنی فطرت میں جمہوریت مخالف ہے اور وہ اسے پسند نہیں کرتا۔

ہمیں کہنا یہ ہے کہ بڑی اسلامی تحریکات اور تنظیمیں دہشت گردی اور تشدد پسندی کے خلاف بیانات دیتی رہتی ہیں، پھر بھی دوسروں کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کی شبیہ بگاڑنے کی کوششیں مسلسل ہوتی رہتی ہیں۔

فرد اور معاشرہ کے حق میں جرم

ہم ابتدا ء میں ہی یہ بات بتانا چاہتے ہیں کہ تشدد جرم ہے، وہ د فرد، معاشرہ، حکومت اور اسلام سبھی کے حق میں ایک جرم ہے۔ساتھ ہی ہم یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ تشدد کوبرضا ورغبت اختیار نہیں کیا گیا، بلکہ اکثر و بیشتر تشدد حکومت کے ظلم و جبر اور اس کی جانب سے کی جانے والی زیادتیوں اور دہشت گردی کا رد عمل رہاہے۔ اس طرح دونوں فریق جرم میں برابر کے شریک ہیں۔

متشدد اسلام پسندوں نے اسلحہ اٹھانے کے کتنے ہی جواز کیوں نہ پیش کیے ہوں، بڑی اور اہم اسلامی تحریکات اور تنظیموں نے ہمیشہ اس طریقہ کی مخالفت کی ہے، اور ایسا انہوں نے نفاق اور تقیہ کے زیر اثر نہیں کیا، بلکہ اس یقین کے ساتھ کہ ہتھیار اٹھانے کا طریقہ صحیح اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ قرآن کریم کی آیت ’ومن لم یحکم بما انزل اللہ فأولئک ھم الکافرون‘ کے تعلق سے جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اس سے مراد صرف حکومت اور حکام ہیں تو ان کا یہ خیال درست نہیں ہے،بلکہ اس سے مراد ہر وہ شخص ہے جو اللہ کے حکم کے مطابق فیصلے کرتا ہو، چاہے وہ حاکم ہو یا قاضی یا مفتی یا پھر عام انسان۔جلیل القدر صحابی حضرت ابن عباسؓ اور تابعی طاووس الیمانی کا کہنا ہے کہ اس آیت سے اس کے ظاہری معنی مراد نہیں ہیں، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ کافر وہ شخص ہے جو اللہ کے حکم کا انکار کرتا ہو اور اس کے مطابق فیصلے نہ کرتا ہو، البتہ جو شخص اللہ کے حکم کا تو اقرار کرتا ہو لیکن اس کے حکم کے مطابق فیصلے نہ کرتا ہوتو وہ شخص فاسق و فاجر ہے۔ یہی امام السدی، امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام ابن حنبل، امام ابن حزم اور امام ابن تیمیہ کا کہنا ہے۔ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ اسلامی معاشرہ میں موجود لوگ عمومی طور پر اسلام پر قائم ہیں، گرچہ ان کی زندگیوں میں کتنے معاصی کیوں نہ ہوں۔ اسی فہم پر اسلام کے احکام بشمول خون اور عزت و آبرو کی حرمت کے احکام مرتب ہوتے ہیں۔

یہی اخوان المسلمون اوردنیا کی دیگر اہم اسلامی تحریکات اور جماعتوںکا خیال ہے، یہ ساری تحریکات اور جماعتیں تشدد کو ناپسند کرتی ہیں، اوراسے وہ دین کا تقاضا سمجھ کر کرتی ہیں، نہ کہ خوف اور تقیہ کے زیر اثر۔

جو لوگ تشدد اور قتل و غارت گری کا سہارا لیتے ہیں وہ درحقیقت اس تکفیری فکر سے متاثر ہیں جو حاکم یا پورے نظام سلطنت کو کافر قرار دیتا ہے یا پھر پورے معاشرہ کو ہی کافر قرار دیتا ہے۔

تشدد کا نظریہ رکھنے والے یہ گروپ فطری طور پر اسلامی تحریکات کی ان پالیسیوں کو ناپسند کرتے ہیں جو تدریجی اصلاح کے اصول پر قائم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ گروپ صرف نظام سلطنت سے دشمنی نہیں رکھتے، بلکہ وہ ہر اس اسلامی تحریک سے خفا رہتے ہیں جن کی رائے ان کی رائے سے مختلف ہوتی ہے۔

نظریہ کیا ہے؟ عملی صورت حال کیا ہے؟

اصولی طور پر اسلامی تحریکات کا یہی موقف ہے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ تشدد نے اسلامی تحریکات کو جتنا نقصان پہنچایا کسی اور چیز نے نہیں پہنچایا۔

افغانستان میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد و اتفاق ہوا تو انہوں نے غاصب و قابض قوت کو افغانستان سے نکال باہر کیا، لیکن تمام تر اسلامی شعارات اور نعروں کے باوجود، کچھ لوگ جن کے مزاج میں تشدد پسندی شامل تھی، انہوں نے حکومت و سلطنت حاصل کرنے کی خاطر سازشی طاقتوں سے اتحاد کر لیا، اور اس مقصد کے حصول کی خاطرانہوں نے تمام اسلامی قدروں، اصولوں اور لوگوں کی جان و مال کو پامال کیا، اور اس تشدد پسند ذہنیت کے نتیجہ میں افغانستان میں اسلامی ریاست قائم کرنے کے سنہرے خواب نے ایک ڈراونے خواب کی شکل اختیار کر لی۔ تشدد پسند لوگوں نے کابل کو جلا کر راکھ کر دیا اور وہاں زندگی تباہ و برباد کر دی، اور عوام کی یہ حالت ہو گئی کہ انہیں کمیونسٹوں کی یاد ستانے لگی۔

شام میں چند اسلام پسندوں کے یہاں تشدد پسندانہ سوچ پنپ گئی جنہیں صحیح سمجھ اور فہم حاصل نہیں تھی، ان کا پورا سرمایہ ان کا انتہائی درجہ کا جوش تھا۔ شام کی تحریک اسلامی نے ابتداء میں اس تشدد پسندانہ موقف کی مذمت کی۔ اخوان المسلمون نے اپنے ایک بیان میں مدرسۃ المدفعیۃ قتل عام کی مذمت کی تھی۔لیکن بعد کے دنوں میں تحریک اسلامی نے غیر فطری حالات کا سامنا کیا، جس کی نتیجہ میں انفرادی آراء غالب آنے لگیں، تحریک انتشار اور تقسیم کا شکار ہو گئی، ایک ہی تحریک کے لوگوں نے ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع کر دیا،اس سارے اختلاف اور انتشار کے درمیان نوجوا ن اپنی طبیعت کے میلان کے حساب سے ان میں سے کسی ایک فریق میںشامل ہونے لگے۔ ان حالات کے زیر اثر تحریک اسلامی کے چند افراد نے عسکریت والی سوچ کو اپنایا، جو کہ دعوت الی اللہ کے اصولوں کے سراسر خلاف ہے۔ اس کے نتیجہ میں شاندار تاریخ رکھنے والی شام کی تحریک اسلامی کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ اس صورتحال نے تحریک اسلامی کے طاقت ور اثرات کو ختم کر دیا، اس کے شان امتیاز ی کو نقصان پہنچایا، ساتھ ہی مسلم عوام کے امن و امان کو تہس نہس کر دیا، اور ان سارے قتل و غارتگری کے نتیجہ میں اسلام اور مسلمانوں کو کافی نقصان اٹھانا پڑا۔

الجزائر کے عوام جب اسلام کی طرف مائل ہوئے اور انہوں نے انتخابات میں جبھۃ الانقاذ الجزائریۃ کو ووٹ دیا تو چند یوروپی طاقتوں نے جمہوریت کے تجربہ کو ناکام کرنے کے لیے فوج کا استعمال کیا،ان حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے پر امن دعوتی اسلوب اختیار کرنے کے بجائے جبھۃ الانقاذ الجزائریۃ نے پر تشدد عسکریت والاطریقہ اختیار کیا، فوج کے لوگوں کو اسی کاانتظار تھا،چھوٹتے ہی انہوں نے اسلام پسندوں کو قتل کرنا شروع کیا، حتی کہ مقتولین کی تعداد ایک لاکھ سے تجاوز کر گئی۔کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ فوج نے زیادتی کی،اور اس زیادتی کی حمایت کرنے والے اس کا جواب یہ دیتے ہیں، کہ اسلام پسند لاقانونیت کا ارتکاب کر رہے تھے، لیکن بہرحال سوچنے کے بات یہ ہے کہ تحریک اسلامی نے عسکریت کا راستہ اختیار کر کے دوسروں کو اسلام کے نام پر قائم اپوزیشن کونابود کرنے کا جواز کیوں فراہم کیا۔

اس طرح کی مثالیں بہت ہیں۔ ان مثالوں میں آپ کو نظر آئے گا کہ تشدد پسندانہ طریقہ اختیار کرنے کی وجہ یہ رہی کہ چند ناسمجھوں اور نوآموز نوجوانوں نے حالات و واقعات کا سطحی تجزیہ کیا، اور ان لوگوں کے تجزیے اور ان کی سوچ کو چند متشدد مصنفین نے تقویت پہنچائی۔

ایسے نوجوان جن کی صحیح نہج پر تربیت نہیں ہو سکی ہے وہ ان حالات و واقعات سے متاثر ہو سکتے ہیں، لیکن فرد، معاشرہ، امت اور خصوصا تحریک اسلامی پر اس کے اثرات بڑے خطرناک ہوتے ہیں۔

اسلام پسندوں سے مطلوب یہ ہے کہ وہ اسلامی اقدار اور اصولوں کے علمبردار ہوں، حکمت و بصیرت کے داعی ہوں،عدل و انصاف قائم کرنے والے ہوں اور منکر و نافرمانی پر روک لگانے والے ہوں، انہیں ان لوگوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے جو اسلامی اقدار کو پامال کرتے ہیں، تشدد کو پروان چڑھاتے ہیں اور خون خرابہ کرتے ہیں، خواہ ایسا کرنے والی حکومتیں ہوں یا مختلف پارٹیاں ہوں۔

عالمی رجحان

تشدد پسندی یا انتہا پسندی ایک عالمی رجحان ہے، جس کی بہت ساری مشترکہ صفات ہیں، ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ تشدد پسند اور انتہا پسند سوچ رکھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ حقیقت سے صرف وہی واقف ہیں اور صرف انہی کی فکر صحیح ہے، وہ کسی بھی طرح کے اختلاف اور ایک سے زائد رائے کو قبول نہیں کرتے ہیں، اور وہ خیانت، کفر اور فسق جیسے سخت سیاسی الفاظ و اصطلاحات کا استعمال کرتے ہیں۔ مصر کے مفتی ڈاکٹر سید طنطاوی کا کہنا ہے کہ انتہا پسندہر وہ شخص ہے جو کسی بھی معاملہ میں حتی کہ عبادات میں شرعی حدود سے تجاوز کرے۔علامہ یوسف القرضاوی کا خیال ہے کہ انتہا پسندی کی وجہ اپنی رائے کے تئیں ایسا تعصب ہے کہ جس کے بعد دوسرے کی رائے قبول کرنے کا کوئی امکان باقی نہ رہے، دعوت میں سختی اور دوسروں سے بد ظنی انتہا پسندی کے مظاہر ہیں، انتہا پسندی اپنے عروج پر اس وقت پہنچ جاتی ہے جب انتہا پسند دوسروں کی عصمت و عفت اور ان کی جان و مال سے کھیلنے لگتا ہے۔

اس عالمی رجحان میں دیندار طبقہ کا بھی بڑا رول رہا ہے، بلکہ بسا اوقات دیندار انتہا پسند زیادہ خطرناک ہوتے ہیں، ایسے لوگوں کو اپنی فکر و عمل کے جواز کے لیے ایسے فقہی فتاوی مل جاتے ہیں جن سے وہ خود کو مطمئن کر لیتے ہیں،مثلا فقہی فتاوی کے ذریعہ وہ لوگوں کی تکفیر کرتے ہیں اور پھر لوگوں کو قتل کرنے، عورتوں کوقیدی بنانے اور لوگوں کے مال و دولت کو چھیننے کو جائز قرار دیتے ہیں، یہ کہتے ہوئے کہ ان سب چیزوں پر صرف مسلمانوں کا حق ہے، اور مسلمانوں سے ان کی مراد صرف انتہا پسند تنظیم کے افراد ہوتے ہیں۔اس دنیا میں کبھی بھی ایسے علماے سوء کی کمی نہیں رہےگی، جو قتل و غارتگری کے فتوے صادر کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔

کیا انتہا پسندی سازش کا ایک حصہ ہے؟

وہ لوگ جنہیں ہر بات اور ہر چیز میںسازش کی بو آتی ہے، انہیں یہ کہنااچھا لگے گا کہ اسلام سازشوں کے نرغے میں ہے جسے یہ انتہا پسند حضرات دانستہ یا غیر دانستہ طریقہ پر تقویت پہنچا رہے ہیں۔

مجھے یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں کہ اس انحراف کی متعدد وجوہات ہیں۔  مفاہیم اور مقاصد کا واضح نہ ہونا،تربیت کی کمی اور اس کی ثنویت، فکری قیادت کی کمزوری اور حکومت کی ظلم و زیادتی بھی اسباب میں شامل ہیں۔ اسلام پسندوں کو اخوان المسلمون کے بانی امام حسن البنا کی اقتدا کرنی چاہیے جنہوں نےقاضی خازندار کو لگنے والی گولی کے بارے میں کہا تھا گویا وہ ان کے سینے میںلگی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نقراشی کو قتل کرنے والے اخوان المسلمون کے رکن نہیں ہو سکتے، نہ ہی وہ مسلمان ہو سکتے ہیں۔ ترکی میں نجم الدین اربکان نے انتہا پسند نوجوانوں کو اپنی پارٹی سے الگ کر دیا تھا۔ انتہا پسند شخص اسلام کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے، وہ دشمن سے زیادہ قریب ہوتا ہے، وہ ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف بہت جلد منتقل ہو جاتا ہے، کیوں کہ وہ اعتدال کی راہ سے واقف نہیں ہوتا۔

مشمولہ: شمارہ نومبر 2019

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223