خواتین کی صلاحیتوں کا فروغ

امور خانہ داری سے امور دنیا داری تک (1)

دور حاضر نے عام انسانوں کے سامنے بہت سے چیلنج کھڑے کر دیے ہیں۔ شہریت، حریت، مذہبی آزادی، خاندان کی خوش گواری، ڈیجیٹل زمانے میں بچوں کی تربیت، وغیرہ کو درپیش خطرات دور حاضر کے بڑے چیلنج ہیں۔ ان کا مقابلہ مردوں اور عورتوں کو یکساں طور پر کرنا پڑتا ہے۔ مسائل کی سنگینی اور زندگی کی پیچیدگیوں نے مجبور کردیا ہے کہ عورتیں اپنے پرآسائش علاقہ ( comfort zone) اور بے فکری کے دائرے سے باہر آکر خود اپنی اور آئندہ نسل کی دین وایمان کے ساتھ بقا کی فکر کریں، گھر، خاندان اور سماج میں صالح اقدار، مثبت سوچ اور کامیاب زندگی کا نسخہ لے کر میدان عمل میں سرگرم ہوجائیں۔ اس بڑے کام کے لیے مطلوب استعداد جو مدتوں سے سلا دی گئی ہے اسے جگانا ہوگا، اپنی صلاحیتوں کو پہچاننا ہوگا اور انہیں بروئے کار لانے کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ یہ زوال کا سبب اور اس کی علامت ہے کہ خواتین کو سماجی سرگرمیوں سے بالکل کاٹ کر بے صلاحیت اور کندہ ناتراش بناکر رکھ دیا جائے اور اسی کو ان کی قدردانی سمجھا جائے۔ قرن اول میں امہات المومنین اور صحابیات کی زندگیاں بتاتی ہیں کہ وہ اعلیٰ صلاحیتوں کی مالک تھیں، زندگی کا کوئی نمایاں میدان ایسا نہیں تھا جہاں انہوں نے اپنی جولانی نہ دکھائی ہو۔ گھر کا انتظام، شوہر کی ہمت افزائی، بچوں کی پرورش، سماج سے مربوط رہنا، انسانی خدمت کی انجام دہی، معاشی سرگرمی، سیاسی امور میں دل چسپی، تعلیم وتربیت، تفسیر وتحقیق غرض بہت سے شعبہ ہاے حیات میں انہوں نے اپنے تابندہ نقوش چھوڑے تاکہ آئندہ کی نسلیں یہ کہہ کر اپنی ذمہ داریوں سے فرار اختیار نہ کرنے پائیں کہ عورتیں تو بس ایک مخصوص وظیفہ حیات ہی کے لیے ہیں اور ان کی تخلیق کا یہی مقصد فطرت کے پیش نظر تھا۔

اسلام میں انسانی حقوق اور فرائض کا تصور دو فکری بنیادوں سے وابستہ رکھا گیا ہے۔ ایک یہ کہ دونوں صنفوں کی حیثیت خدا کی مخلوق اور خدا کے بندوں کی ہے، کیوں کہ دونوں کا پیدا کرنے والااور آقا ایک ہی ہے، دوسرے لفظوں میں وحدت رب یعنی مرد اور عورت دونوں کا پیدا کرنے والاایک ہی خدا ہے۔ دوسری یہ ہے انسان ہونے کے ناطے مرد اور عورت دونوں ایک ہی انسان، یعنی آدم کی اولاد ہیں۔ دوسرے لفظوں میں دونوں میں قدر مشترک وحدت أب ہے۔ اس لیے دونوں کا مشن بھی ایک ہے اور اس کے لیے جدوجہد کرنا اور اس کی خاطر صلاحیتوں کو نشوونما دینا، دونوں کی برابر کی ذمہ داری ہے۔

خداے تعالی اپنی کتاب میں فرماتا ہے:

إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّـهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّـهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ﴿سورہ الأحزاب:۳۵﴾

’’بالقین جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں، مومن ہیں، مطیع فرمان ہیں، راست باز ہیں، صابر ہیں، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں، صدقہ دینے والے ہیں، روزے رکھنے والے ہیں، اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں، اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے ۔‘‘

سید قطب کہتے ہیں: یہاں مردوں کے ساتھ خصوصاً عورتوں کا بھی ذکر کیا گیا، تاکہ یہ بتایا جائے کہ بحیثت مسلمان اور انسان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے اور معاشرے میں جو اسلامی حیثیت مرد کی ہے وہی عورت کی بھی ہے۔‌ اسلامی نظریہ حیات ایمان،عبادات، اخلاق اور زندگی کے ہر طرز عمل میں مرد اور عورت کے درمیان کوئی امتیاز نہیں ہے۔

اس سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہوگئی کہ مرد اور عورت دونوں کا اسلامی مشن ایک ہے ۔ محنت کی تقسیم (division of labour) کے ساتھ دونوں کی ذمہ داریاں بھی ایک ہی قسم کی ہیں اور ان کو ادا کرنے کے لیے اپنی صلاحیتوں کو پہچاننا، انہیں فروغ دینا، اور انہیں بروے کار لانا ایک بڑا فریضہ ہے جو دونوں پر یکساں عائد ہوتا ہے۔ اس لیے قرآن وسیرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک کے ہر دور اور ہر مرحلے میں، ایمان لانے، قربانیاں دینے، راہ خدا میں مال خرچ کرنے، اذیتوں کو برداشت کرنے، اندھیری رات میں سنسان گھاٹی میں رسول اللہ کے ساتھ بیعت کرنے، ہجرت کرنے، مدینہ میں رسول اللہ کو خوش آمدید کرنے، مسجد نبوی میں نماز میں شرکت، معاشی سرگرمیاں، رسول اللہ سے تعلیم حاصل کرنے، صحابہ اور تابعین کو درس دینے، حدیثوں کو منتقل کرنے، اور موقع آنے پر جنگ اور قتال میں شریک ہونے، مارنے اور مرنے میں، خواتین مردوں کے شانہ بشانہ نظر آتی ہیں۔ درج ذیل آیت پر اس پہلو سے غور کریں:

فَاسْتَجَابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَأُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِمْ وَأُوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ثَوَابًا مِّنْ عِندِ اللَّـهِ وَاللَّـهُ عِندَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ ﴿سورہ آل عمران:۱۹۵ ﴾

’’جواب میں ان کے رب نے فرمایا میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں۔ خواہ مرد ہو یا عورت، تم سب ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔ لہٰذا جن لوگوں نے میری خاطر اپنے وطن چھوڑے اور جو میری راہ میں اپنے گھروں سے نکالے گئے اور ستائے گئے اور میرے لیے لڑے اور مارے گئے ان کے سب قصور معاف کردوں گا اور انہیں ایسے باغوں میں داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ یہ ان کی جزا ہے اللہ کے ہاں اور بہترین جزا اللہ ہی کے پاس ہے۔‘‘

اسلام اپنے انقلابی اقدام کے لیے انسانی وسائل کا فروغ چاہتا ہے جس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں۔ کچھ کاموں کے دائرے اور ان سے متعلق صلاحیتیں مردوں اور عورتوں کے درمیان مشترک ہیں۔ جب کہ بعض کام اور ان کی نزاکتیں دونوں صنفوں کے لیے مختلف ہیں جو ان کی فطرت سے میل کھاتے ہیں۔ جہاں تک مشترک میدان میں کام کرنے کی صلاحیتوں کا تعلق ہے، اس پر گفتگو آگے آئے گی۔ ذیل میں ان خاص نسوانی صلاحیتوں پر گفتگو ہوگی جن کا تعلق پہلے دائرے کے کاموں سے ہے، اور وہ ہیں: ازدواجی زندگی کا استحکام، تعلقات کا فن، پرورش کا فن اور کمیونی کیشن کا فن۔

(۱) ازدواجی زندگی کا استحکام

زوجین کے خوشیوں بھرے تعلقات، اور ان کی ازدواجی زندگی کا استحکام ایک شعوری اور کسبی عمل ہے جس کے لیے دونوں کے ذہنوں میں اس کا نقشہ واضح ہونا چاہیے کہ وہ کیا بنیادی امور ہیں جن سے تسکین حاصل ہوتی ہے اور میاں بیوی کا تعلق گہرا ہوتا ہے۔ ‌ساتھ ساتھ ان امور سے بھی واقفیت ہونی ضروری ہے جن کا التزام نہ کرنے کے نتیجے میں پہلے آہستہ، پھر اخفاء اور اشاروں میں اور اس کے بعد ان تلخیوں کا کھلا اظہار ہونے لگتا ہے، دھیرے دھیرے کشیدگی بڑھتی ہے، زندگی کا لطف ختم ہو جاتا ہے، اور تکرار کی نوبت آجاتی ہے۔کبھی کبھی خواب گاہیں الگ ہو جاتی ہیں، اور کبھی جدائی تک کی نوبت آجاتی ہے۔

ویسے عموماً خواتین کی فطرت میں سخاوت ہوتی ہے۔ نسائی حیثیت (جسے لڑکی پن یا عورت پن بھی ہم کہ سکتے ہیں) صفات، طرز ِعمل اور کرداروں کا ایک مجموعہ ہے جو عام طور پر لڑکیوں اور خواتین کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے۔ اگرچہ مغرب زدگی کی وجہ سے آج نسائی خصوصیات میں عالمگیریت نظر نہیں آتی، تاہم آج بھی ان کی فطرت مسخ نہیں ہوئی ہے، اس کے کچھ نمونے موجود ہیں: نرمی، ہمدردی، حساسیت، نگہداشت، مٹھاس، شفقت، رواداری، پرورش، تعظیم اور حوصلہ افزائی ایسی خصوصیات ہیں جن کو ہماری سماجی روایت میں نسائی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گھر اور سماج میں کام کی جگہ پر خواتین اپنے ارد گرد کے لوگوں کو متاثر کرنے اور انھیں اٹھانے میں کامیاب سمجھی جاتی ہیں۔ ماہرین نفسیات کے نزدیک بعض اوقات نسائی صفات کو جنسی راحت کی فراہمی اور جنسی اپیل سے منسلک کیا جاتا ہے۔ جنسی غیر فعال پن، یا جنسی استقبال کو بھی نسائی سمجھا جاتا ہے جبکہ جنسی طلب اور جنسی اصرار کو مردانہ سمجھا جاتا ہے۔ عورت کی نسوانیت رشتہ ازدواج کے استحکام میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے اور گھر کا حقیقی سکون اسی میں مضمر ہے۔ فرمایا:

وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ۔

’’اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔ یقیناً اس میں بہت سی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں‘‘ ( سورۃ الروم، آیت 21 )

دونوں صنفوں کو پیدا کرنے کی عظیم حکمت اس آیت میں بیان کی گئی ہے۔ دونوں کی زندگیاں ایک دوسرے کے بغیر ادھوری ہیں۔ مرد عورت دونوں ایک دوسرے سے تسکین پاتے ہیں، مختلف حیثیتوں سے دونوں ایک دوسرے کے لیے اطمینان استقرار اور سکون کی جگہ ہیں۔

مغربی تعلیم کا ایک سائیڈ افیکٹ عورت پریہ ہوا کہ اس نے زندگی کی دوڑ میں مردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی نسوانیت کھودی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ شادی کے بعد ازدواجی زندگی کے استحکام میں عورت کو فراہمی تسکین کے لیے جن صلاحیتوں کو نشوونما دینا تھا وہ ماند پڑ گئیں۔ صرف مغربی تعلیم کو دوش دینا ناانصافی ہوگی۔ دینی تعلیم کے نام پر دین کا جو سطحی علم رائج کیا گیا اس کا بھی یہ نقصان ہوا کہ شادی کے دوسرے ہی دن سے حقوق وفرائض کی جنگ چھیڑ دی جاتی ہے۔ جب کہ ازدواجی زندگی کی خوشیاں حقوق وفرائض کے خانوں میں تقسیم نہیں ہوتیں بلکہ اخلاق اور احسان کی شیرینی سے حاصل ہوتی ہیں۔ وہ گھر جہنم نما ہے جہاں صبح شام تو تو میں میں ہوتی ہو اور جوتیوں میں دال بٹتی ہو۔ عورت کو اپنے resourcefulness کی پہلی صلاحیت سے واقفیت ہونی چاہیے، ازدواجی زندگی کے استحکام میں اسے جو کردار ادا کرنا چاہیے وہ معلوم ہو۔ نہ معلوم ہو تو ہمارا اجتماعی نظام جو نیکی، طہارت اور پاکیزگی کا آئینہ دار ہونا چاہیے، وہاں ان امور کو حیا کے حدود اور جدید نفسیات کے تقاضوں کے فہم کے ساتھ سیکھنے سکھانے کا ماحول ہونا چاہیے۔‌

اکثر وبیشتر میرا تجزیہ بتاتا ہے کہ تسکین کی فراہمی پر جو توجہ ہونی چاہیے تھی اور جن امور ومسائل کو سیکھنا چاہیے تھا، ان کے فقدان کی وجہ سے ازدواجی زندگی میںکشیدگی اورعدم استحکام کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔

اس کے لیے قرآن و سنت کا گہرائی سے مطالعہ ہونا چاہیے۔ صاحب نظر کامیاب معمر خواتین کو چاہیے کہ وہ ان امور ومسائل کے دروس کا اہتمام کریں۔ شادی سے قبل ذہن سازی کی کلاسس میں شرکت بھی ان کمیوں کو پورا کرنے میں مدد کرتی ہے۔

  1. تعلقات کا فن

خواتین تعلقات کو فروغ دینے میں ماہر ہوتی ہیں جو با مقصد، حقیقی اور معنی خیز ہوتے ہیں۔ وہ صحت مند، دیرپا تعلقات میں اضافہ پر توجہ دیتی ہیں۔ خواتین مشکلات کو سہ لیتی ہیں مگر جلدی سے شکست کھا کر رشتہ نہیں توڑتی ہیں، اور نہ ہی گھر چھوڑتی ہیں۔ وہ اپنوں اور دوسروں کے لیے گنجائش پیدا کرنے اور تعلقات کو برقرار رکھنے میں زیادہ تر اچھا رول ادا کرتی ہیں ۔‌

بڑے خاندان کی بڑی خواتین کو دیکھا گیا کہ وہ لوگوں، وسائل اور تعلقات کے مابین رابطے کا کام بڑی مہارت سے کرتی ہیں۔ کنبہ پروری ان کا شیوہ ہوتا ہے۔ خاندان میں بڑوں کا احترام، بیماروں کی عیادت، ہم عمروں کے مسائل میں دل چسپی لینا، گھریلو امور میں مدد کرنا، صحت کے مسائل میں رہنمائی کرنا، درد زہ میں مدد کو پہنچنا، شادی کے کام کاج میں ہاتھ بٹانا، غم کے موقع پر دوسروں کے گھروں میں انتظام وانصرام کو سنبھالنا، بہت سے رشتوں میں ناخوش گواریوں کے باوجود انہیں نبھانا انہیں اچھی طرح آتا ہے۔

اس کے برعکس صورت حال بھی سامنے آتی ہے۔ وہ ان کی کند ذہنیت اور جذباتیت کے پیدا کردہ مسائل ہوتے ہیں۔ تعلقات بنانے اور رشتوں کو نبھانے کے لیے عقلی ذہانت سے زیادہ جذباتی ذہانت درکار ہوتی ہے جہاں جذبات کو توازن میں رکھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔

تعلقات کو بنانے کے فن کا یہ اہم ترین حصہ ہے کہ سامنے والے کی ذہنی کیفیت اور موڈ کو سمجھا جائے۔ اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی خواتین سمجھ جاتی ہیں کہ سامنے والاناراضگی، بے چینی، بیگانگی، افسردگی، وغیرہ جذبات میں سے کس کیفیت میں مبتلا ہے، اور اس کا سامنا کیسے کیا جائے۔ وہ اس حقیقت کو بخوبی سمجھتی ہیں کہ انسان جب کسی جذباتی کیفیت کا شکار ہو تو وہ بہت واضح نہج پر نہیں سوچ سکتا، معلومات کو مکمل طور پر جمع نہیں کرسکتا، حالات اور واقعات کا صحیح تجزیہ نہیں کر سکتا۔ اس صورتحال میں لوگوں کے جذبات کو نظرانداز کرنے کے بجائے زیادہ سے زیادہ مثبت جذبات پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔

حسن تعلقات کو بنائے رکھنے والے سمجھتے ہیں کہ مثبت جذبات انہیں اور دوسروں کو تحریک دیتے ہیں، انسیت پیدا کرتے ہیں، اعتماد میں اضافہ کرتے ہیں۔ جب احساسات کو مناسب طریقے سے سمجھا جاتا ہے اور ان کا نظم و ضبط کیا جاتا ہے تو بگڑتے تعلقات بن جاتے ہیں اور توقع کے خلاف بہترین نتائج نکل آتے ہیں۔ فرمان قرآنی ہے:

وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ ﴿سورہ فصلت:۳۴﴾

’’اور اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نیکی اور بدی یکساں نہیں ہیں۔ تم بدی کو اس نیکی سے دفع کرو جو بہترین ہو۔ تم دیکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی، وہ جگری دوست بن گیا ہے۔‘‘

کہا جاتا ہے کہ خواتین کی نفسیات مہاجر سے ملتی جلتی ہیں۔ مہاجر کسی بھی غرض سے جب دیارغیرمیں ہوتا ہے تو وہاں اپنی ایک نئی دنیا بناتا ہے، لوگوں سے تعلقات استوار کرتا ہے، خوش رہنے کے طریقے سیکھتا ہے۔

  1. پرورش کا فن

والدین اپنے بچوں کی صرف جسمانی پرورش کے ذمہ دار نہیں بلکہ جسمانی پرداخت کے علاوہ جذباتی، معاشرتی اور فکری اور دینی ترقی کو فروغ دینے کے بھی ذمہ دار ہیں۔ والدین کا اپنے بچوں سے ایک حیاتیاتی تعلق تو ہوتا ہی ہے، اس کے علاوہ بچے کی پرورش کرنے کی پیچیدگیوں سے واقفیت بھی والدین کے لیے بہت ضروری ہے۔

اکثر والدین میں پرورش کی مہارتیں قدرتی طور پر موجود ہوتی ہیں۔ لیکن جو لوگ منفی یا کم زور ماحول سے آتے ہیں وہ اپنے تلخ تجربات کی روشنی میں اپنے گھر والوں اور اپنے بچوں کے ساتھ وہی کر گزرتے ہیں جسے انہوں نے اپنے بچپن میں جھیلا تھا۔ اسی طرح وہ والدین جن کی زندگی کے مختلف معاملات کے بارے میں تصورات غلط ہوتے ہیں، اور جنہیں بچوں کے ارتقائی مراحل کی نفسیات سے ناواقفیت ہوتی ہے جب بچوں کی تربیت کرتے ہیں تو بچوں کی ذات اور نفسیات کا نقصان کر بیٹھتے ہیں۔

سوچیے کیا آپ نے ان میں سے کسی ایک چیلنج کا سامنا کیا ہے؟

آپ کا بچہ آپ کے کہنے کے مطابق کام نہیں کرتا ہے- چاہے وہ چھوٹا بچہ ہو جو آپ کے کہنے کے باوجود سونا نہیں چاہتا، یا ایسا نوجوان جو لباس اور بستر کی صفائی کا خیال نہیں رکھتا جس سے آپ چڑ جاتے ہیں، یا پھر وہ اپنا ہوم ورک نہیں کرتا‌۔

آپ کا بچہ پریشان ہے۔ہوسکتا ہے کہ اس پر کسی نے دھونس جمائی ہو، مایوس ہوا ہو یا ہم عمر ساتھیوں نے اس کو تنگ کیا ہو، اور آپ یہ نہیں جانتے کہ مسئلہ کیا ہے اور اپنے بچے کی مدد کیسے کی جائے۔

آپ کے بچے کو سیکھنے میں دشواری ہے، اس کے سیکھنے کے طریقے مختلف ہیں یا اسکول میںاس طرح پرفارم نہیں کر رہا ہے جس طرح آپ نے امید کی تھی۔

اکثر والدین ان چیلنجز کا مقابلہ نہیں کر پاتے اور اپنے بچوں کے ساتھ انتہائی درشت، بے رحمانہ، اور سخت معاملہ کرتے ہیں اور اپنے شقی القلب ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ ان کی شرارت ضد اور نافرمانیوں کو شفقت وحکمت کے ساتھ رفع کرنے کے بجائے وہ بچوں پر آفت ڈھاتے ہیں۔ پوری دل سوزی کے ساتھ میں انہیں آگاہ کرنا چاہوں گا کہ:

جب آپ اپنے چھوٹے بچے کے بازوؤں کو پکڑ کر، اپنی انگلیوں اور ناخنوں کو اس کے کندھے میں دھنسا دیں، اسے پکڑ کر جھنجوڑ دیں، یا کوئی ایسا کام کریں جس سے اس کے جسم پر نشان پڑ جائے، تو سمجھ لیں کہ یہ اس کے ساتھ جسمانی تشدد ہے۔

جب آپ اس پر طنز کرتے ہیں، اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور منھ بگاڑ کر اس کے رونے کی نقل کرتے ہیں تو آگاہ رہنا چاہیے کہ آپ اپنے بچے کو ہمیشہ کے لیے جذباتی طور پر مجروح کرتے ہیں ۔

جب آپ اسے نا پسندیدہ نام سے یا اس کا نام بگاڑ کر پکارتے ہیں یا اس کی ذہانت کی کمی کا مذاق اڑاتے ہیں تو یہ زبانی طور پر گالی ہے۔

بعض اوقات بچے والدین کے صبر کا امتحان لے لیتے ہیں، والدین ان بچوں کے رویوں سے طیش میں آجاتے ہیں، غصہ سے بے قابو ہو کر ان کی مرمت شروع کر دیتے ہیں۔‌ بچے اپنے والدین کو نت نئے طریقے سے مشتعل کردیتے ہیں۔‌ والدین کے صبر کا پیمانہ روزروز چھلکا رہتا ہے۔ گھر میں صبح شام ہنگامہ آرائی، گالم گلوچ، ناراضگیاں اور مار پیٹ کی نوبت آجاتی ہے۔‌ والدین کو جاننا چاہئے کہ ا ن کے واسطے سے وہ دنیا میں آئے ہیں تواس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ ان سے جو بھی سلوک کریں وہ درست قرار پائے۔ درحقیقت وہ خدا کی طرف سے ہمارے پاس امانت ہیں، وہ ہمارے ہر لفظ، ہمارے ہر رویہ اور ہمارے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے۔ اور ایک دن وہ ہم سے اس کا مواخذہ کرے گا۔ بچوں کو مشق ستم بنانے کے بجائے اپنی کم زوریوں کو دور کرنے کی کوشش کریں۔

اگر آپ غصہ سے بے قابو ہوجاتے ہیں تو غصہ کو قابو میں رکھنے کا فن سیکھیں۔

اگر آپ پر کاموں کا بوجھ ہے، وقت ناکافی ہے، انتظامی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں تو براہِ مہربانی کسی سے ٹائم مینجمنٹ سیکھیں۔

اگر آپ کو روحانی پریشانی ہے تو براہ ِکرم مدد طلب کریں۔

بچوں کو آراستہ کرنے کے لئے خود کو دینی تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں۔

دینی معلومات فراہم کرنے کا پہلا مدرسہ ماں کی گود ہے۔ ماں وہ کھڑکی ہے، جس سے بچہ پہلی مرتبہ دنیا کو دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ ماں بچے کی پہلی استاد ہے جو اسے لکھنا بولنا اور ہنسنا کھیلنا سکھاتی ہے، اس کی صلاحیتوں کو دریافت کرتی ہے اور اسے پروان چڑھاتی ہے۔ قرآن میں جن چند عورتوں کے کردار پیش کیے گئے ہیں، وہ سب مثبت کردار ہیں، ان میں تین ماؤں کے کردار ہیں۔ موسی کی ماں، مریم کی ماں اور عیسی کی ماں مریم۔ ان تین ماؤں نے دنیا کو تین عظیم شخصیتیں دیں۔ قرآن میں یہ تذکرے اور تفصیلی سیرت نگاری رہتی دنیا تک کی ماؤں کے لیے شخصیت سازی کے فن کی تعلیم کے لیے بیان کیے گئے ہیں۔

  1. کمیونی کیشن کا فن

ہم میں سے بیشتر یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ ہم نے اپنے شریک حیات، کنبہ کے دوسرے افراد یا قریبی دوستوں کے ساتھ بہت زیادہ وقت صرف کیا ہے لہذا ان کے ساتھ ہماری بات چیت نسبتا آسان ہونی چاہیے۔ ہماری سوچ شاید اس طرح کی ہوتی ہے کہ ’’میرے شریک حیات / والدین / بہن بھائی / بہترین دوست مجھے اچھی طرح سے جانتے ہیں، لہذا انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ میں کیا سوچ رہا ہوں اور کیا محسوس کر رہا ہوں، اور کسی بات اور لب و لہجہ سے میرا کیا مطلب ہے۔‘‘ ہم اکثر حیران اور ناراض ہوجاتے ہیں جب ہمارے قریب رہنے والے ہمارے سلسلے میں غلط فہمی میں پڑ جاتے ہیں کہ ہم کیسی بات کر رہے ہیں۔ اکثر ایسے موقعوں پر ہم دوسرے شخص پر یک طرفہ طور سے الزام لگانے لگتے ہیں کہ اس نے ہماری بات کو غلط سمجھا، یہ بات جو ہم نے کہی ہے وہ تو مذاق میں کہی گئی تھی اور اسے ان صاحب نے سنجیدہ معنوں میں لے لیا۔ اس جگہ پر میں آپ کو کمیونی کیشن کا ایک اصول نوٹ کرانا چاہوں گا۔

The meaning of a communication is the response you get.

’’آپ کے کمیونی کیشن کا مفہوم دراصل وہ جواب یا تاثر ہے جو آپ کو ملتا ہے۔‘‘

اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کی منشا غلط سمجھنے والے نے غلط نہیں کیا، بلکہ کمیونی کیشن کے دوران آپ اپنی بات اوراحساس پہونچانے میں کوتاہ ثابت ہوئے۔ کمیونی کیشن کا فن یہ ہے کہ جب آپ سامنے والے کی تعریف کررہے ہوں تو اسے لگے کہ تعریف ہو رہی ہے، جب آپ سامنے والے پر تنقید کر رہے ہوں تو اسے محسوس ہو کہ اس پر تنقید کی جارہی ہے، جب آپ مذاق کے موڈ میں ہوں اور مذاق کر رہے ہوں تو سامنے والابھی بے ساختہ آپ کے ساتھ ہنسنے پر اپنے آپ کو مجبور پائے، جب آپ نے ایک بات دل لگی میں کہی ہے تو سامنے والابھی اسے ہرگز سنجیدہ معنوں میں نہ لے۔ اس سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ جب آپ کمیونی کیشن کریں تو اس کے مابعد رسپانس کی ذمہ داری بھی قبول کریں اور دوسروں کے سر یہ الزام نہ دھریں کہ انہوں نے آپ کو صحیح طور پر سنا نہیں یا سنا مگر غلط مفہوم لے لیا۔ اس لیے لازم ہے کہ کمیونی کیشن کے دوران ہم سامنے والے کے چہرے پر نگاہ رکھیں اور چہرے اور آنکھوں پر ظاہر ہونے والے تاثرات کو دیکھیں۔ کمیونی کیشن کے ذریعے رونما ہونے والے تاثرات جو ذہن میں ابھرتے ہیں، ان کا مطالعہ چہروں پر ابھرنے والے والے اثرات، آنکھوں کی گردش، ہونٹوں کے سکڑنے اور پھیلنے، چہرے پر چمک کے آنے یا ناخوش گواری کے آثار رونما ہونے کا مطالعہ کرنے کا فن سیکھنا چاہیے۔ اگر یہ گُر معلوم ہو جائے تو پتا چل جائے گا کہ آپ کاکمیونی کیشن کامیاب رہایا ناکام ۔ اور اگر ناکام رہا تو اپنےکمیونی کیشن کے طرز اور انداز کو بدلنا ضروری ہوجاتاہے۔

عورتوں کےاکثر کمیونی کیشن کے مسائل تین درجوں میں پیش آتے ہیں:شوہر، بچے اور سسرالی رشتے۔ اس ترتیب میں آپ جیسے جیسے بڑھیں گے ویسے ویسے کمیونی کیشن مشکل ہوتی چلی جاتی ہے۔ بالخصوص جب بچے سن بلوغ کے قریب ہوتے ہیں یا پہنچ جاتے ہیں تو اس وقت ماں اور بچوں کے درمیان کمیونی کیشن گیپ پیدا ہو جاتا ہے۔ ماں جو کہنا چاہتی ہے بچے اسے ان معنوں میں نہیں لیتے، یا بچے جس سطح سے سمجھتے ہیں ماں اپنی بات کو اس ڈھنگ سے پیش نہیں کر پاتی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آئے دن گھر میں تلخ کلامی ہوتی ہے اور بچوں کی طرف سے منہ زوری، زبان درازی، پلٹ کر جواب دینے اور بغاوت کرنے کے دل خراش رویے سامنے آتے ہیں۔

خواتین سے ایک عام غلطی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ تحکم، درخواست اور بیان کے لب ولہجے کو یا سمجھتی نہیں ہیں، یا غلط جگہوں پر ایک کی جگہ دوسرا استعمال کردیتی ہیں۔ مثلا’’ بستر درست کرو۔‘‘ اگر درخواست کے لہجے میں کہا جائے تو اس کا وہ اثر نہیں ہوتا جو تحکم کے لہجے میں ہوتا ہے۔ بچہ جب کھیل کے موڈ میں ہوتا ہے یا ہوم ‌ورک کررہا ہوتا ہے اور ایسے میں باہر سے سودا سلف لانے کی ضرورت ہو مثلاً، ’’بیٹا ! دوکان سے ٹماٹر لے آؤ‘‘، تو تحکم کے بجائے درخواست کا لب ولہجہ کارگر ہوتا ہے۔ اور گھر کے جو عام قوانین ہیں جیسے پاکی، طہارت، بڑوں کا ادب، چھوٹوں پر شفقت، صحت کے اصول یا زبان کو پاک صاف رکھنے کی تعلیم مثلاً ’’دادا ہمارے گھر کی محترم شخصیت ہیں، ان کا کام خوشی سے کرنا ہے‘‘، یا ’ ’ہمارے گھر میں تم بھائی بہن آپس میں ایک دوسرے کی دل آزاری نہیں ہونی چاہئے‘‘، یا ’’رات میں دانت مانجھ کر سوتے ہیں‘ ‘ یہ سب امور بیان کے لہجے میں بتائے جائیں گے۔

سسرال میں ساس نند دیورانی اورجیٹھا نی سے کمیونی کیشن کے مسائل بھی عورتوں کو پیش آتے ہیں۔ ان کے ساتھ نہ تو گونگا بن کر رہنا چاہیے اور نہ ہی منہ پھٹ۔ نفسیات کی ایک اور بات یہاں ذہن نشین کرلیں کہ انسان اس بات پر قدرت نہیں رکھتا کہ وہ کمیونی کیشن ہی نہ کرے۔ کمیونی کیشن کا ایک اور اصول ہے کہ

. You cannot not communicate  ’’آپ کمیونی کیشن نہ کرنے کی قدرت نہیں رکھتے۔ـ‘‘

اس لیے کہ آپ کاخاموش ہوجانا، تیوری چڑھانا، منہ پھیر لینا، آنکھوں کو جھکا لینا، ہونٹ کو کاٹنا یا پتھر کی مورتی بن کر بیٹھ جانا سب میں ایک مفہوم پنہاں ہے۔ اور آپ ان رویوں سے اپنی بات کہہ دیتے ہیں۔ خاندان کے وہاٹس اپ گروپ میں جب کوئی سوال کیا جاتا ہے یا مشورہ طلب کیا جاتا ہے، تو عرض مدعا کرنے والے تو اپنی بات سیدھے سیدھے کہہ دیتے ہیں اور جو خاموش ہیں وہ بھی درحقیقت اپنی ایک بات بلا کہے کہہ دیتے ہیں۔

مشمولہ: شمارہ نومبر 2019

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223