سیاسی مسلم ہلال احمد کی نئی کتاب ہے جو پینگوین وائکنگ سے شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب کو آزادی کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کے اجتماعی سفر کا تجزیہ کہا جا سکتا ہے۔ کتاب کے عنوان میں لفظ ‘‘سیاسی’’ ایک وسیع تناظر میں ہے۔ اس میں مسلمانوں کی صرف انتخابی سیاست سے متعلق کوششوں پر گفتگو نہیں کی گئی ہے بلکہ ان کی معاشی، سماجی، یہاں تک کہ مذہبی زندگی پر بھی مباحث آئے ہیں ۔ علمی دنیا میں ماضی کے مطالعے کو تاریخ جب کہ حال کے مطالعہ کو پولیٹیکل سائنس شمار کیا جاتا ہے۔ جب ہم ہندوستان کی بات کرتے ہیں تو یہاں ماضی سے مراد ۱۹۴۷ سے پہلے کی دنیا لی جاتی ہے اور حال سے مراد آزادی کے بعد کی دنیا۔ ہلال احمد کی کتاب بھی اسی پس منظر میں لکھی گئی ہے جس میں آزادی کے بعد سے اب تک مسلمانوں کا بحیثیت قوم سفر کا جائزہ لیا گیا ہے۔ کتاب کئی نئے مباحث کو جنم دیتی ہے اور ذہنوں میں جمے بعض خیالات کو بالکل ایک نئے زاویہ نگاہ سے دیکھتی ہے۔ کتاب کے تجزیے میں ایسے ہی بعض مباحث کو پیش کیا گیا ہے۔ کتاب میں ہندوستانی مسلمانوں کا مطالعہ ان کی تعداد کے اعتبار سے نہیں بلکہ ایک آئینی گروہ اور ایک مذہبی اقلیت کے لحاظ سے کیا گیا ہے۔
کتاب میں سب سے پہلی بحث ہندوستانی سماج میں مسلمانوں کی شبیہ کو لے کر کی گئی ہے۔ عمومی طور پر ہندوستان میں مسلمانوں کی امیج تین بیانیوں کے گرد گھومتی ہے۔ ایک انتہا پسند اور دہشت گرد کمیونٹی جو دوسری اقوام کے ساتھ امن اور بھائی چارے کے ساتھ نہیں رہ سکتی ہے۔ عمومی طور پر یہ بیانیہ ہندوتوا وادیوں کی طرف سے آتا ہے۔ دوسرے یہ کہ مسلمان ایک سیکولر اور پر امن کمیونٹی ہے جس نے عالمی دہشت گردی اور جہاد کے نظریے کو رد کر دیا اور وہ ہندوستان کو اپنا ملک سمجھنے والی ایک وفادار کمیونٹی ہے۔ عمومی طور پر یہ بیانیہ سیکولر اور لبرل حلقوں کی طرف سے آتا ہے۔ اور تیسری امیج ایک ایسی قوم کی ہے جو مین اسٹریم سے دور، بیک ورڈ، اپنے گھیٹو میں بند، اپنے مذہب اور کلچر سے چمٹی ہوئی ہے۔ مسلمانوں کے بارے میں عمومی طور پر یہی تین پبلک ڈسکورس ہیں، جن پر گفتگو ہوتی رہتی ہے، لیکن ان ڈسکورسوں کو بنانے والے کبھی یہ جاننا نہیں چاہتے کہ ہندوستان کی اتنی بڑی اقلیت جو پورے ملک میں بکھری ہوئی ہے اور جس کے اندر بہت زیادہ کثرت اور تنوع پایا جاتا ہے، وہ خود کیا سوچتی ہے؟ کیا وہ خود کو ان میں سے کسی بھی ڈسکورس میں دیکھتی ہے یا ان سب سے الگ خود کو کسی اور شناخت میں دیکھنا چاہتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب مسلم سماج اور مسلم سیاست کو ان تمام ڈسکورسوں سے ہٹ کر دیکھتی ہے۔ کتاب نہ ہی کسی نئے بیانے کو پیش کرتی ہے اور نہ کسی پرانے بیانیے کو سپورٹ کرتی ہے بلکہ مسلم سماج کی ایک معروضی صورت حال پیش کرتی ہے جس سے مسلم سماج کو بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ ہلال احمد کے مطابق مسلم سماج ہندوستان میں بسنے والے عام سماجوں کی طرح ایک سماج ہے اس کی ترجیحات اور دل چسپیاں بھی ویسی ہی ہیں جیسی ہندوستان کے دوسرے سماجوں کی ہیں ۔ اس کے نزدیک بھی تعلیم، غربت اور بے روزگاری ہی بڑے چیلینج ہیں ۔ مسلم سماج بھی دوسرے سماجوں کی طرح مختلف سطحوں پر تقسیم ہیں ۔ اس میں بھی امیر اور غریب طبقات کے بیچ ویسا ہی فرق ہے جیسا ہندوؤں میں ہے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں میں بھی دوسری اقوام کی طرح زبان اور علاقوں کی بنیاد پر تقسیم پائی جاتی ہے۔
کتاب میں ایک اہم بحث مسلمانوں کی انتخابی سیاست اور اس سے وابستہ مسائل سے کی گئی ہے۔ سب سے پہلے مسلم ووٹنگ پیٹرن پر گفتگو کی گئی ہے۔ مسلمانوں کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ وہ یک جٹ ہوکر کسی مخصوص پارٹی ہی کو ووٹ ڈالتے ہیں ۔ یہ بات اس حد تک تو درست ہے کہ حلقہ انتخاب کی سطح پر مسلمان یک جٹ ہوکر ووٹنگ کرتے ہیں لیکن ہندوستان میں دیگر طبقات اور سماج بھی اسی طرز پر ووٹ ڈالتے ہیں ۔ رہا سوال قومی سطح پر یک جٹ ہوکر ووٹ ڈالنے کا تو اس کی حیثیت پروپیگنڈے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ قومی سطح پر مسلمانوں کے ووٹ ملک کی تمام پارٹیوں میں اسی طرح تقسیم ہوتے ہیں جس طرح ہندوستان کے دیگر طبقات کے ہوتے ہیں، یہاں تک کہ بی جے پی کو بھی مسلمانوں کے ووٹ ملتے ہیں ۔ ہر قومی الیکشن میں تقریباً ۶ سے ۷ فی صد مسلم ووٹ بی جے پی کو ملتے ہیں اور ۲۰۱۹ میں ان کی تعداد بڑھ کر ۹ فی صد تک ہوگئی۔ یہ بیانیہ جان بوجھ کر بی جے پی اور بالخصوص بی جے پی کی موجودہ قیادت کی طرف سے پھیلایا گیا ہے کہ مسلمان ان سے نفرت کرتے ہیں اور انھیں ووٹ نہیں دیتے تاکہ ہندو ووٹ بینک کو مضبوط کیا جا سکے۔
مسلم ووٹ پیٹرن کے تعلق سے دوسری غلط بات یہ پھیلائی جاتی ہے کہ مسلمانوں کو ملکی مسائل سے کوئی دل چسپی نہیں ہے بلکہ وہ ملی مفادات کے تحت ہی ووٹ دیتے ہیں ۔ میڈیا بعض مسلم شناخت سے جڑے تنازعات جیسے بابری مسجد، مسلم پرسنل کا تحفظ، جامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار، اردو کا تحفظ اور مسلم دلتوں کی شیڈول کاسٹ میں شمولیت کو مسلم ایشوز کے طور پر پیش کرتا رہا ہے۔ جب کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستانی مسلمان بھی ہر طرح کی سیاست میں اپنی شناخت کے ساتھ سمجھوتہ کیے بغیر بھرپور شرکت کرتے ہیں ۔ مسلم ووٹنگ پیٹرن یہ بات ثابت کرتا ہے کہ مسلم ووٹ بینک نام کی کوئی چیز نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے نزدیک بھی تعلیم، غربت اور بے روزگاری ہی اہم مسائل ہیں لیکن پبلک ڈسکورس میں ان کی اس امیج کو کبھی سامنے نہیں لایا جاتا ہے بلکہ میڈیا کے ذریعے اجاگر کردہ ایشوز کو مسلم ایشوز کے نام سے پیش کیا جاتا ہے۔
اسی طرح مسلم سیاست کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ہندوتوا اور مودی کے ابھرنے کے بعد مسلمانوں کی bargain and appeasement کی سیاست کا خاتمہ ہوگیا اور اب ان کا سیاسی relevance ختم ہوچکا ہے۔ کم زور طبقات بالخصوص دلت اور آدیواسیوں میں بی جے پی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو عظیم تر ہندوتوا اتحاد کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ جس کا خواب سنگھ اور بی جے پی ایک طویل عرصے سے دیکھ رہے تھے اور اب وہ شرمندہ تعبیر ہوچکا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے دین دیال اپادھیائے کے حوالے سے یہ بات کہی تھی کہ ’’پچاس سال پہلے دین دیال اپادھیائے نے کہا تھا کہ مسلمانوں کی نہ منہ بھرائی کرو اور نہ انھیں چھوڑو بلکہ ان کی شدھی کرو۔ مسلمانوں کو نہ ووٹ کی منڈی کا مال سمجھو نہ نفرت انگیز شے بلکہ انھیں اپنا سمجھو۔‘‘ اس بیان میں پیغام بہت واضح تھا کہ مسلمان اب کسی خصوصی مراعات کی امید نہ رکھیں کیوں کہ مودی لہر نے ذات پات، مذہب اور کمیونٹی کی بنیاد پر پرانی طرز کی ووٹ بینک کی سیاست کا خاتمہ کردیا ہے اور سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نعرے کے تحت کسی کو بھی خصوصی توجہ نہیں دی جائے گی، یعنی اب مسلم سیاست کا خاتمہ ہوچکا ہے۔
ہلال احمد کے مطابق مسلم سیاست کا یہ فہم درست نہیں ہے کیوں کہ ہندوستان میں اصل تفریق صرف ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نہیں ہے بلکہ ہندوستان میں کئی چھوٹی چھوٹی کمیونٹیاں ایسی ہیں جو خود کو ہندو یا مسلمان کہلواتی ہیں اور اصل تفریق ان کمیونٹیوں کے درمیان واقع ہے۔ اس لیے ہندوستان کی سطح پر اکثریت اور اقلیت کی ثنویت قائم کرنا نہیں ہے۔ کسی بھی دوسرے سماج کی طرح مسلمان بھی اپنے حلقہ انتخاب میں ریاستی اور علاقائی مسائل کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہیں ۔ دوسرے یہ کی انتخابی عمل میں مسلمانوں کی شرکت اور نمائندگی کو بالکل جداگانہ دیکھنا چاہیے۔ جہاں گزرتے وقت کے ساتھ پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی کم ہوئی ہے وہیں اس کے برعکس انتخابی عمل میں ان کے ووٹوں کی شرح بڑھی ہے۔ اس لیے مسلم سیاست کا اندازہ صرف ایم ایل اے یا ایم پی کی سیٹوں کی تعداد سے لگانا درست نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کی الیکشن میں شرکت بھی اہم فیکٹر ہے۔ اسی طرح مسلم لیڈروں اور مذہبی رہنماؤں کے بیانات سے بھی مسلم سیاست کو نہیں سمجھنا چاہیے کیوں کہ ان کے بیانات بھی انتخابی ضرورتوں اور معاصر سیاسی حالات کے تحت دیے ہوئے ہوتے ہیں ۔ میڈیا سماج میں مسلم سیاست کو اور اس کی بنیادوں کو منفی بنیادوں پر پیش کیا جاتا ہے جب کہ وہ دستوری فریم ورک کے اندر درج ذیل مثبت بنیادوں پر قائم ہے:
1 مسلم سیاست ہمیشہ آئین اور دستور کی پاس داری کرتی ہے اپنے تمام تر حقوق کی لڑائی مسلمان دستور اور قانون کی حدود ہی میں لڑتے ہیں ۔
2 مسلم سیاست کا اس بات پر زور ہوتا ہے کہ ملک کی تعمیر میں مسلمانوں کا بڑا کردار رہا ہے۔
3 تیسری بنیاد مسلم اتحاد کا اظہار ہے تاکہ مذہبی اقلیت دستور میں دیے گئے تمام حقوق کو پاسکے۔
مسلمانوں کی آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح ہندوستان میں بحث کا بڑا موضوع ہے۔ اس عنوان سے متعلق مباحثوں میں عام طور سے تین الگ الگ اعتراض کیے جاتے ہیں ۔
پہلا سوال معیشت کی ترقی سے متعلق زیر بحث لایا جاتا ہے کہ ہندوستان جیسی ابھرتی ہوئی معیشت میں مسلمانوں کی بے قابو آبادی اس کی ترقی کی رفتار کو دھیما کردیتی ہے۔عام طور سے یہ سوال ٹی وی اور اخبار کی بحثوں میں اٹھایا جاتا ہے۔ دوسرا اعتراض یہ ہوتا ہے کہ مسلمان چوں کہ بہت زیادہ مذہبی ہوتے ہیں اور اسلام انھیں برتھ کنٹرول سے روکتا ہے اس لیے مسلمانوں کو مشورہ دیا جاتا کہ وہ مذہبی ما ئنڈ سیٹ سے باہر نکلیں اور دور جدید میں برتھ کنٹرول کی اہمیت اور افادیت کو سمجھے۔ اور تیسرا اعتراض مکمل طور پر سیاسی قسم کا ہے، یہ ہندوتوا وادیوں کی طرف سے آتا ہے کہ مسلمان سازش کے طور پر اپنی آبادی بڑھا رہے ہیں تاکہ وہ اس ملک پر قبضہ کر سکیں یا ایک مرتبہ پھر سے ملک کی تقسیم کی مانگ کرسکیں ۔
ان اعتراضات کا دلائل اور اعداد و شمار کی روشنی میں کبھی جائزہ نہیں لیا جاتا ہے۔ مسلمانوں اور دوسری اقوام کی موجودہ آبادی کے تناسب کی بنیاد پر پروفیشنل ڈیمو گرافرز کبھی اس بات کو تسلیم نہیں کریں گے کہ مسلمانوں کی آبادی تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہے۔ اگر آبادی ناپنے کے پیمانے جیسے خواتین کی اوسط عمر، شرح باروری اور چھوٹے بچوں میں اموات کی شرح وغیرہ جیسی تمام بنیادوں سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ مسلمانوں کی آبادی کی شرح توقع سے کم ہے۔ ابو صالح شریف اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’مسلمانوں کی آبادی 13.4 فی صد سے بڑھ کر 14.2 فی صد ہوگئی ہے اس میں 0.8 کا اضافہ ہوا ہے لیکن یہ اضافہ پچھلی دہائیوں کی بہ نسبت کم ہے۔ مسلمانوں کی آبادی ہندوؤں کے بالمقابل زیادہ تیزی سے بڑھنی چاہیے تھی کیوں کہ ان کی اوسط عمر اور شرح باروری ہندوستان کے دوسرے سماجوں کے بالمقابل بہترین ہے۔ 2010 میں ہندوستانی مسلمان کی اوسط عمر ۲۲ سال تھی، اس کے بالمقابل ہندوؤں کی ۲۶ اور عیسائیوں کی اوسط عمر ۲۸ سال تھی۔ ‘‘
مسلمانوں کی آبادی کا ہوّا مکمل طور سے ایک کھوکھلا دعویٰ ہے لیکن ہندوستان میں ہندوتوا وادیوں کے ساتھ سیکولر، لبرل اور تمام سیاسی پارٹیاں اس دعوے کو نہ صرف تسلیم کرتی ہیں بلکہ مسلمانوں کو نصیحت بھی کرتی رہتی ہیں ۔ اعداد و شمار اور اقلیت اور اکثریت کے تصورات جو برطانوی حکومت نے بعض سیاسی تقاضوں کے تحت قائم کیے تھے کتاب میں ان کے تاریخی پس منظر میں تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔
عمومی طور پر مسلمانوں کو سماجی طور پر ایک کمیونٹی سمجھا جاتا ہے لیکن ہلال احمد کے خیال میں یہ ایک مفروضہ ہے۔ مسلم سماج بالکل بھی ایک جٹ نہیں بلکہ اس میں بہت زیادہ کثرت اور تنوع پایا جاتا ہے۔ اگر ہندوستان کے تمام مسلمانوں کی سماجی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کے اندر جدید قومی بنیادوں کی کوئی بھی قدر مشترک نہیں پائی جاتی ہے۔ مسلمان بھی ذات پات، طبقے اور علاقائی بنیادوں پر منقسم ہیں ۔
مسلمانوں میں بھی ہندوؤں کی طرح ذات پات کا نظام، چھوت چھات اور عورتوں کو دبا کر رکھنے جیسے مسائل پائے جاتے ہیں ۔ مسلم اشرافیہ اور مسلم عوام کا نظام زندگی بھی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ مسلمانوں میں بھی دلت اجلاف اور ارزال کے نام سے طبقات پائے جاتے ہیں، اور اعلی ذات کے اشراف کی طرف سے مسلم دلت ہندو دلتوں کی بہ نسبت زیادہ ستائے جاتے ہیں ۔ جہاں وہ سماجی اور معاشی طور پر پچھڑے ہوئے ہیں وہیں انھیں مسلمان ہونے کی بنا پر مذہبی تعصب کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہندو دلتوں کو جو سہولتیں میسر ہوتی ہیں وہ مسلمان دلتوں کو میسر نہیں آتی ہیں ۔ مسلم دلتوں کی اکثریت انھی پر مشتمل ہے جو ہندوؤں میں بھی پس ماندہ تھے اور انھوں نے اسلام اس بنیاد پر قبول کیا تھا کہ شاید یہاں انھیں ذات پات کے نظام سے نجات مل جائے گی، لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔ پچھلے پندرہ سال سے دلت مسلم لیڈران کی طرف سے مستقل یہ کوشش کی جارہی ہے کہ سکھ، بدھ اور ہندوؤں کے ساتھ ساتھ پس ماندہ مسلمانوں کو بھی ریزرویشن دیا جائے جو ملکی آبادی کا 0.8 فی صد ہے تاکہ ان کی سماجی، تعلیمی اور معاشی صورت حال میں بہتری آئے۔ مسلم بیک ورڈ لیڈروں کا خیال ہے کہ مسلم اشراف سیاسی لیڈر کبھی مسلم دلتوں کے مسائل کے لیے آواز نہیں اٹھاتے۔ اسی لیے مسلمان دلت درج فہرست ذاتوں میں کبھی شامل نہیں ہوسکے۔ منڈل کمیشن نے پہلی مرتبہ مسلم دلتوں کی پوزیشن کو پہچانا اور انھیں او بی سی کا درجہ ملا۔ اس موقع کا فائدہ مسلم اشراف اٹھانا چاہتے تھے اور ان کی کوشش تھی کہ مکمل مسلم سماج کو او بی سی کا درجہ مل جائے۔ ہندوستانی سیاست میں دلت مسلم کی سیاست کا آغاز ہوچکا ہے لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ سیاسی سفر کتنی مسافت طے کر پائے گا کیوں کہ مودی حکومت سب کا ساتھ سب کا وکاس کے نعرے سے ظاہر کرچکی ہے کہ اب مسلمانوں کو کوئی خصوصی مراعات نہیں دی جائیں گی۔
مسلمانوں کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ بہت زیادہ مذہبی ہوتے ہیں، لیکن یہ بات درست نہیں ہے۔ سی ایس ڈی ایس لوک نیتی سروے کے مطابق ہندوستان میں سب سے زیادہ مذہبی بالترتیب عیسائی اور سکھ ہیں اور ان کے بعد ہندو اور پھر مسلمانوں کا نمبر آتا ہے۔ مسلمانوں میں بھی مسلم او بی سی بالمقابل اعلی ذاتوں کے مسلم کے زیادہ مذہبی ہوتے ہیں ۔ اسی طرح میڈیا مسلمانوں کے بارے میں یہ بات پھیلاتا ہے کہ وہ ہندوستان میں شرعی قانون کا نفاذ چاہتے یا اسے فالو کرنا چاہتے ہیں لیکن سروے بتاتے ہیں کہ مسلمان شریعت ہی سے واقف نہیں ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت مقامی رسوم اور رواجوں کے مطابق زندگی گزارتی ہے، جن میں کئی چیزیں ایسی شامل ہیں جو علما کے نزدیک غیر شرعی ہیں ۔ اسی طرح ہلال احمد کے نزدیک اسلام کے دو ورژن پائے جاتے ہیں ۔ ایک، اصولی اسلام جسے مذہبی مصلح پیش کرتے ہیں جس میں مذہب، اس کے عقائد اور اس کا فلسفہ بہترین طریقے سے بیان کیا گیا ہے جو دور جدید کے اصولوں اور تقاضوں پر کھرا اترتا ہے۔ دوسرا، اسلام وہ ہے جو لوگوں کی عملی زندگی میں پایا جاتا ہے۔ اس کے عقاٰئد، روایات اور روحانیت اصولی اسلام سے بالکل مختلف ہیں اور اس میں مقامی رنگ غالب ہے اور اسلام کے اسی ورژن پر عوام اپنی روز مرہ زندگی میں عمل پیرا ہیں ۔
کتاب میں جگہ جگہ مسلمانوں کے حقیقی مسائل اور میڈیا کے ذریعے پیدا کردہ مسائل میں تفریق کی گئی ہے۔ مسلم مسائل جیسے اردو کا تحفظ، علی گڑھ یونیورسٹی کا اقلیتی کردار، پرسنل لاء، طلاق ثلاثہ، بابری مسجد اور پردہ یا برقعہ جیسے مسائل اجتماعی طور پر مسلمانوں کے مسائل کے طور پر ابھرے ہیں ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ مسائل واقعی مسلمانوں کے مسائل ہیں یا پھر ہندوتوا وادیوں کی طرف سے ان مسائل کو مسلمانوں پر تھوپا گیا ہے، اور کانگریس اور دیگر سیکولر جماعتوں نے اپنی سیاست آگے بڑھانے کے لیے مسلمانوں کو انھی مسائل میں الجھا کر رکھ دیا ہے؟ تقسیم کے بعد سے مستقل طور پر مسلم قیادت انھی مسائل کے گرد طواف کررہی ہے اور دور جدید کے سیاسی لیڈر بھی انھی مسائل کے گرداب میں پھنس چکے ہیں ۔ ان مسائل میں الجھ کر مسلم قیادت کوئی نیا لائحہ عمل مسلم قوم کے لیے نہیں بنا پارہی ہے۔ بابا صاحب امبیڈکر نے اس بات کو بہت پہلے محسوس کر لیا تھا، وہ لکھتے ہیں : ’’ہندوستانی مسلمان ایک ایسے سیاسی ماحول میں پھنس گئے ہیں جس میں ہندو غالب ہیں ۔ انھیں لگتا ہے کہ انھیں سیاسی طور پر دبا دیا جائے گا اور مسلمان ایک پس ماندہ طبقہ بن جائیں گے۔ اب ان کے ذہن میں بات بیٹھ گئی ہے کہ ہماری اولین ترجیح، خود کو سیاسی اور سماجی طور پر ہندوؤں میں ضم ہونے سے بچانا ہے۔ اس سوچ کی بدولت ہندوستانی مسلمان سماجی اصلاحات میں پیچھے رہ گئے ہیں۔‘‘ (Pakistan, or, The Partition of India, by Dr. B. R. Ambedkar)
کتاب ہندوتوا اس کے تبدیل ہوتے ورژن، اندرونی تضادات اور ہندوتوا کی بقا کے لیے مسلمانوں کی ضرورت پر بھی بحث کرتی ہے۔
ہندوتوا ساورکر کے ذریعے دیا گیا تصور ہے۔ ساورکر کے مطابق ہندو وہ ہے جس کے لیے سندھ سے ساحل تک کی سر زمین آبائی وطن کے ساتھ ساتھ مقدس زمین بھی ہو۔ جس کا خونی رشتہ ویدک سپت سندھو سے جا ملتا ہو، جس کی کلاسیکل زبان سنسکرت ہو، جس کی تاریخ، لٹریچر، آرٹ، قانون، فن تعمیر، کلچر، سادھو، سنت، گرو، مقدس زیارت گاہیں اور دھرم استھان مشترک ہوں ۔ ساورکر کی اس تعریف میں بہت سی خامیاں ہیں ۔ جہاں اس تعریف سے نہ صرف مسلمان اور عیسائی ہندو کی تعریف سے باہر ہوجاتے ہیں وہیں جو لوگ سنسکرت کو اپنی زبان نہیں مانتے وہ بھی ہندو کی تعریف سے خارج ہوجاتے ہیں ۔ یہ یورویپین نیشن اسٹیٹ اسٹائل کی تعریف ہے جس میں کسی بھی کثرت، تنوع یا تہذیبی اختلاف کی گنجائش نہیں ہے۔ ساورکر کی اس تعریف سے گولوالکر کبھی متفق نہیں رہے بلکہ ہمیشہ اس کی سخت نکتہ چینی کی۔
گولواکر کے نزدیک لفظ ہندو کے بجائے فقط راشٹریہ استعمال ہونا چاہیے کیوں کہ ہندو کا مطلب ہی راشٹریہ ہوتا ہے۔
ہندو اس زمانے میں سنگھ کے نزدیک ایک کمیونل لفظ تھا۔ گولوالکر کے نزدیک ساورکر کی ہندو مہاسبھا ہندوؤں کی مسلم لیگ تھی۔
اس لیے گولوالکر کے دور تک، بلکہ اس کے بعد بھی ایک طویل عرصے تک، سنگھ ہندوتوا کی جگہ بھارتی کرن کا لفظ استعمال کرتا رہا ہے۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے سنگھ نے سیاسی مجبوریوں کے تحت ہندوتوا کا لفظ استعمال کرنا شروع کر دیا، لیکن آر ایس ایس خود آج تک ہندوتوا کے کسی واضح مفہوم پرمطمئن نہیں ہوسکی۔ اسی طرح مسلمانوں (سنگھ صرف ان مسلمانوں کی بات کرتا ہے جو مقامی ہندو تھے اور بیرونی مسلمانوں نے انھیں جبر اور لالچ سے مسلمان بنا لیا) کے مسئلہ پر بھی گولوالکر اور ساورکر میں نطریاتی اختلاف پایا جاتا ہے۔ ساورکر کے مطابق اگرچہ مسلمانوں کی بڑی تعداد ہندو مت سے اسلام میں داخل ہوئی ہے، اس لیے ان کی تاریخ، کلچر، روایات تقریباً وہی ہیں جو ہندوؤں کی ہیں، تاہم ان کی مقدس زمین کہیں اور ہے، اس لیے وہ ہندو سماج کا حصہ نہیں بن سکتے۔ اس کے برخلاف گولوالکر کا ماننا یہ ہے کہ اگر مسلمان اس ملک اور ہندوؤں کے تئیں اپنی وفاداری ثابت کرتے ہیں تو انھیں اپنایا جاسکتا ہے۔ بھارتیہ جن سنگھ نے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ کہا کہ مسلمانوں کی رگوں میں بھی وہی خون ہے جو ہماری رگوں میں ہے اس لیے وہ ہمارا ہی حصہ ہیں، وہ چاہیں تو اسلامی طریقوں سے عبادت کریں لیکن انھیں بیرونی طرز زندگی چھوڑنی ہوگی اور ہندوستانی کلچر اپنانا ہوگا۔
اب سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کو سچے بھارتی بننے کے لیے کیا کرنا ہوگا۔ کیا اگر مسلمان وندے ماترم بولنے لگیں، اپنے نام ہندوستانی ناموں کی طرح رکھنے لگیں اور قرآن سے بعض آیتوں کو خارج بھی کردیں تو کیا ان کا بھارتی کرن مکمل ہوجائے گا؟ ہلال احمد کے نزدیک مسلمان چاہے جو کرلیں، ہندوتوا درج ذیل اسباب کی بنا پر انھیں کبھی نہیں اپنائے گا:
1 بھارتی کرن یا ہندوتوا خود کوئی واضح تصور نہیں ہے۔ آج تک خود ہندوتوا وادی اس کی کسی ایک تعریف پر متفق نہیں ہوسکے۔
2 بھارتی کرن کبھی نسل اور ماضی کو تبدیل نہیں کر سکتا۔
ہندوتوا کا فلسفہ اور اس کی بنیاد ہی اس بات پر اٹھائی گئی ہے کہ تاریخ میں مسلمانوں نے ہندوؤں پر بدترین مظالم ڈھائے ہیں ان پر جبراً اپنا مذہب اور کلچر تھوپا ہے۔ اب آزاد ہندوستان کے ہندوؤں کو اس تاریخی ظلم کا بدلہ لینا ہے اور خود کو اس بات کے لیے تیار کرنا ہے کہ پھر سے مسلمان اس کا استحصال نہ کرسکیں ۔ ہندوتوا کے اس سیاسی تصور کی بقا کے لیے مسلمانوں کا وجود ضروری ہے۔ ہندوتوا مسلمانوں کو دکھا کر یہ بتا سکتا ہے کہ انھی کے آبا و اجداد نے ہندوؤں پر ظلم ڈھائے تھے۔ ‘‘بابر کی اولاد’’ کا لفظ اسی سوچ کی ترجمانی ہے۔ دوسرے یہ کہ مسلم شناخت پر تنقید کرکے ہندوتوا اپنے اندرونی انتشار، اختلاف اور خامیوں کو چھپاتا ہے۔ اسی لیے موہن بھاگوت بجا کہتے ہیں کہ ہندوتوا مسلمانوں کے بغیر بے معنی ہے۔
ان مباحث کے علاوہ کتاب مسلمانوں سے جڑے دوسرے اہم مسائل پر بھی تفصیلی گفتگو کرتی ہے جیسے مسلمان ایک دستوری اقلیت، قومی اقلیتی کمیشن کا قیام اور اس کی افادیت، سچر کمیٹی رپورٹ، مسلمانوں کی پس ماندگی اور اس سے جڑی سیاست، مسلم ریزرویشن، مسلم او بی سی اور مسلم کوٹا، مسلم پس ماندہ اور مسلم اشراف، تین طلاق سے جڑی سیاست، میڈیا کے بیانات اور مسلمانوں کا موقف، مسلم ووٹ بینک، اچھے اور برے مسلمان کی تقسیم، نئے مسلم اشرافیہ وغیرہ۔ ان تمام عنوانات پر کتاب سیر حاصل گفتگو کرتی ہے۔ مجموعی طور پر کتاب ہندوستانی مسلمانوں کو دیکھنے کا بالکل الگ، نیا اور معروضی زاویہ پیش کرتی ہے۔ کتاب کے سر ورق پر رویش کمار کا درج ذیل تبصرہ اس کی تصدیق کرتا ہے:
یہ کتاب ہندوستانی مسلمانوں کو جاننے کا ایک نیا زاویہ دیتی ہے جن کے سیاسی افق کو برقعہ، طلاق اور نماز تک محدود کر دیا گیا ہے۔
مشمولہ: شمارہ مارچ 2021