رسائل ومسائل

محمد رضی الاسلام ندوی

بعثت انبیاء  کا مقصد

سوال:سورۃ الحدید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَأَنزَلْنَا مَعَہُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۔   ﴿الحدید:۲۵﴾

’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی، تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں‘‘۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ زندگی کی حد تک قیام عدل وانصاف ہی رسولوں کی بعثت کا مقصد ہے۔ عام طور پر پایا جانے والا یہ خیال ناقص ہے کہ بعثت رسل کی غرض ایک اللہ کی پرستش کرنے اورد وسروں کو غیر اللہ کی پرستش سے روکنے تک محدود ہے۔ دوسری طرف قرآن حکیم کی بہت سی آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ ایمان تقویٰ کی پیدائش کا ذریعہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایمان خود مطلوب نہیں، بلکہ بطور وسیلہ مطلوب ہے۔

بہ راہ کرم وضاحت فرمائیں۔ کیا میری یہ سوچ درست ہے؟

جواب:سورۃ الحدید کی مذکور بالا آیت میں انبیاء  علیہم السلام کی بعثت اور کتابِ الٰہی کے نزول کا مقصد یہ بیان کیاگیا ہے کہ ’’لوگ انصاف پر قائم ہوں‘‘۔ اوپر درج شدہ سوال میں اس آیت کے حوالے سے قیام انصاف کو بہت سادہ مفہوم میں لیاگیاہے۔ قیام انصاف صرف یہی نہیں ہے کہ سماج میں امن وامان ہو، لوگ ایک دوسرے پر ظلم نہ کریں اور ایک دوسرے کے حقوق غصب نہ کریں، بلکہ قیام انصاف کا تعلق انسان کی انفرادی زندگی سے بھی ہے۔ اس دنیا میں انسان سے مطلوب یہ ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کرے:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنسَ اِلَّا لِیَعْبُدُون۔       ﴿الذاریات:۵۶﴾

’’میں نے جن اور انسانوں کو اس سے سوا کسی کام کیلئے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں‘‘۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی انسان اللہ کی عبادت نہیں کرتا تو وہ انصاف پر عمل پیرا نہیں ہے اور جو انسان اپنی انفرادی زندگی میں انصاف پر قائم نہیں رہ سکتا، اس سے اجتماعی زندگی میں قیام انصاف کی کیوں کر امید کی جاسکتی ہے۔ علامہ آلوسیؒ  نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے:

’’رسولوں کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کرنے کی علت عدل وقسط کے قیام کو قرار دیا گیا ہے۔ اس سے یہ کہنا مقصود ہے کہ میزان کے استعمال کے ذریعے انسانوں کے باہمی تعلقات اور کتاب پر عمل کے ذریعے اخروی امور دونوں کا درجہ برابر کا ہے۔ ’قسط‘ ایک جامع لفظ ہے۔ اس میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں، جن سے متصف ہونا دنیا اور آخرت کے تعلق سے ضروری ہے‘‘۔ ﴿روح المعانی، ۲۰/۳۴۱، تفسیر آیت مذکور﴾

مولاناسیدابوالاعلیٰ مودودیؒ  نے اس نکتے کی بہت اچھی طرح وضاحت کی ہے اور عمدہ تشریح کی ہے۔ فرماتے ہیں:

’’انبیاء  علیہم السلام کو جس مقصد کے لیے بھیجا گیا وہ یہ تھا کہ دنیا میں انسان کا رویہ اور انسانی زندگی کا نظام فرداً فرداً بھی اور اجتماعی طور پر بھی، عدل پر قائم ہو۔ ایک طرف ہر انسان اپنے خدا کے حقوق، اپنے نفس کے حقوق اور ان تمام بندگانِ خدا کے حقوق، جن سے اس کو کسی طور پر سابقہ پیش آتا ہے، ٹھیک ٹھیک جان لے اور پورے انصاف کے ساتھ ان کو ادا کرے۔ اور دوسری طرف اجتماعی زندگی کا نظام ایسے اصولوں پر تعمیر کیا جائے جن سے معاشرے میں کسی نوعیت کا ظلم باقی نہ رہے، تمدن وتہذیب کا ہر پہلو افراط وتفریط سے محفوظ ہو، حیاتِ اجتماعی کے تمام شعبوں میں صحیح صحیح توازن قائم ہو اور معاشرے کے تمام عناصر انصاف کے ساتھ اپنے حقوق پائیں اور اپنے فرائض ادا کریں۔ بہ الفاظ دیگر انبیاء  علیہم السلام کی بعثت کا مقصود عدل انفرادی بھی تھا اور عدل اجتماعی بھی۔ وہ ایک ایک فرد کی شخصی زندگی میں بھی عدل قائم کرنا چاہتے تھے۔ تاکہ اس کے ذہن، اس کی سیرت، اس کے کردار اور اس کے برتائو میں توازن پیدا ہو اور انسانی معاشرے کے پورے نظام کو بھی عدل پر قائم کرنا چاہتے تھے، تاکہ فرد اور جماعت دونوں ایک دوسرے کی روحانی، اخلاقی اور مادی فلاح میں مانع و مزاحم ہونے کے بجائے معاون ومددگار ہوں‘‘۔ ﴿تفہیم القرآن، جلد پنجم، ص: ۳۲۲﴾

ایک چیز یہ بھی ملحوظ رکھنی ضروری ہے کہ قرآن حکیم کی کسی آیت سے ایسا مفہوم اخذ کرنا درست نہ ہوگا، جو دیگر آیات اور قرآن مجید کی مجموعی تعلیمات سے ٹکراتا ہو۔ سوال میں جس چیز کو ناکافی خیال کیا گیا ہے ،وہ قرآن حکیم کی بہت سی آیات سے ثابت ہے اور سورہ حدید کی آیت سے جو یکطرفہ نتیجہ نکالا گیا ہے،قرآن حکیم کی بہت سی آیات سے اس کی تردید ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ذیل میں صرف ایک آیت درج کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُولاً أَنِ اعْبُدُواْ اللّٰہَ وَاجْتَنِبُواْ الطَّاغُوتَ ۔﴿النحل:۳۶﴾

’’ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیج دیا ﴿اور اس کے ذریعے سے سب کو خبردار کردیا﴾ کہ ’’اللہ کی بندگی کرو اور طاغوت کی بندگی سے بچو‘‘۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء  علیہم السلام کو بھیجا ہی اس مقصد سے گیا ہے کہ وہ انسانوں کو صرف اللہ کی عبادت کرنے اور غیر اللہ کی عبادت سے دور رہنے کی دعوت دیں۔

سوال میں اصل مطلوب، بہ طور وسیلہ مطلوب اور اثرات کو گڈ مڈ کردیاگیا ہے۔ یہ کہنا صحیح نہیں کہ ’’ایمان تقویٰ کی پیدائش کا ذریعہ ہے، اس سے معلوم ہوا کہ ایمان خود مطلوب نہیں، بل کہ بہ طور وسیلہ مطلوب ہے، اس کی بجائے یوں کہنا چاہیے کہ’’ اصل مطلوب ایمان ہے، اس کے نتیجے میں تقویٰ پیدا ہوتا ہے۔ گویا تقویٰ ایمان کے ثمرات میں سے ہے‘‘۔ اس کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

انَّ الصَّلٰوۃَ تَنْہَٰی عَنِ الْفَحْشَآئ وَالْمُنکَر۔﴿العنکبوت:۴۵﴾

’’یقینا نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے‘‘۔

اس آیت کی روشنی میں یہ بات کہنی صحیح نہ ہوگی کہ نماز فحش اور برے کاموں سے روکنے کا ذریعہ ہے، اس لیے ان کاموں سے رکنا اصل مطلوب ہے اورنماز بہ طور وسیلہ مطلوب۔ بل کہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ نماز مطلوب ہے۔ صحیح طریقے سے نماز پڑھی جائے تو اس کے اثرات یہ ظاہر ہوں گے کہ انسان فحش اور برے کاموں سے رک جائے گا۔ یہی بات زیر بحث مسئلہ میں کہی جائے گی۔ اصل مطلوب یہ ہے کہ انسان صرف اللہ کی عبادت کرے اور غیر اللہ کی پرستش سے رک جائے۔ جو شخص ایسا کرے گا وہ لازماً قیام انصاف پر بھی عمل پیرا ہوگا۔

نماز میں سجدۂ تلاوت

سوال: سورۃ اقرا کے اخیر میں سجدۂ تلاوت ہے۔اگر امام نماز میں اس سورۃ کو پڑھے تو وہ سجدۂ تلاوت کس طرح کرے گا؟ وہ پہلے رکوع کرے گا یا سجدہ ٔ تلاوت؟

جواب:قرآن کریم کی بعض آیات، جن میں سجدہ کا مضمون آیا ہے، ان کی تلاوت کرنے پر سجدہ کرنا احناف کے نزدیک واجب اور دیگر فقہا کے نزدیک سنت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے موقعے پر کبھی سجدہ کیا ہے اور کبھی ترک بھی کردیا ہے۔ صحابہ کرامؓ  کا بھی یہی معمول تھا۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ  بیان کرتے ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سامنے قرآن کریم کی تلاوت فرماتے تھے۔ آیت سجدہ آتی تو آپﷺ  سجدہ کرتے اور آپﷺ  کے ساتھ ہم بھی سجدہ کرتے تھے۔ ﴿بخاری: ۱۰۷۵،مسلم:۵۷۵﴾ حضرت زید بن ثابتؓ  فرماتے ہیں : ’’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں سورۃ النجم کی تلاوت کی۔ اس میں آیت سجدہ آنے پر ہم میں سے کسی نے سجدہ نہیں کیا۔ ﴿بخاری:۱۰۷۲، مسلم: ۵۷۷﴾ حضرت عمر بن الخطابؓ  نے ایک مرتبہ جمعہ کے خطبے میں سورۃ النحل کی آیات پڑھیں۔ آیت سجدہ آئی تو انھوں نے رک کر سجدہ کیا اور دوسرے لوگوں نے بھی سجدہ کیا۔ دوسرے جمعے میں پھر انھوں نے خطبے میں ان آیات کی تلاوت کی۔ مگر اس موقع پر سجدہ نہیں کیا اورفرمایا: کوئی سجدہ کرلے تو بہتر ہے ،نہ کرے تو اس پر گناہ نہیں ہوگا‘‘۔ ﴿بخاری: ۱۰۷۷﴾

نماز میں امام آیت سجدہ پڑھے تو اسے چاہیے کہ فوراً سجدہ میں چلا جائے، پھر قیام کرکے چند آیتیں مزید پڑھے، اس کے بعد رکوع کرے۔ اگر وہ کوئی ایسی سورۃ پڑھ رہا ہے جس کے آخر میں آیت سجدہ ہے تو اس صورت میں بھی یہی کرے کہ آیت سجدہ پڑھنے کے بعد سجدہ میں چلا جائے، پھر قیام کرکے دوسری سورۃ کی چند آیتیں پڑھے، پھر رکوع کرے۔لیکن اگر امام اپنی قرأت کو آیت سجدہ پر ختم کرے یا کوئی ایسی سورۃ پڑھے جس کے آخر میںآیت سجدہ ہو، جیسے سورۂ اقرا، پھر رکوع میں چلا جائے، تو رکوع ہی کے ساتھ آیت سجدہ کی نیت کافی ہوگی۔ آیت سجدہ کیلئے الگ سے سجدہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ﴿الموسوعۃ الفقہیۃ، کویت، ۲۴/۲۲۱۔۲۲۲، بہ حوالہ ردالمحتار، ۱/۵۱۵۔۵۱۸، فتح القدیر، ۱/۳۸۰، ۳۹۱۔۳۹۲، بدائع الصنائع، ۱/۱۹۲﴾

مشترکہ رہائش اور مشترکہ کاروبار کا مسئلہ

سوال:ہم چھے بھائی اور دو بہنیں ہیں۔تین بھائیوں اور دو بہنوں کی شادی ہوچکی ہے۔ تین بھائیوں کی ابھی شادی ہونی باقی ہے۔ ایک بھائی نے شادی کے بعد الگ رہنا شروع کردیا تھا۔ باقی ہم پانچ بھائی ﴿دو شادی شدہ اور تین غیر شادی شدہ﴾ ایک ساتھ رہتے ہیں۔ اس پس منظرمیں ہمارے سوالات درج ذیل ہیں:

﴿۱﴾ کیا مشترکہ خاندان کی اسلام میں اجازت ہے؟ اگر ہاں تو گھریلو اخراجات کی تقسیم کس طرح ہو؟ اگر نہیں توکیا شادی کے بعد فوراًالگ رہنا چاہیے؟ اگر کوئی بھائی گھر سے الگ خانگی طور پر رہتا ہو تو کیا مشترکہ خاندان میں اسے ماہانہ خرچ دینا ہوگا؟

﴿۲﴾ جو بھائی غیر شادی شدہ یا بے روزگار ہیں ان کا خرچ کس کے ذمے ہیں؟

﴿۳﴾ ہمارے دو بھائی سلائی کا کارخانہ چلاتے ہیں۔ پہلے وہ الگ الگ کام کرتے تھے۔ بعد میں بڑے بھائی کے کہنے پر چھوٹے بھائی نے اپنی مشینیں بڑے بھائی کے کارخانے میں منتقل کردیں اور دونوں ساتھ میں کام کرنے لگے۔ کسی نے بھی اپنی حیثیت متعین نہیں کی، نہ کام کی تفصیل سمجھی۔ جس طرح مشترک رہتے تھے ، اسی طرح مشترک کارخانہ چلنے لگا۔ لیکن اب چھوٹا بھائی خود کو کارخانے میں پارٹنر سمجھتا ہے اور بڑے بھائی اس کے ساتھ کاریگر جیسا معاملہ کرتے ہیں۔ اس مسئلے کو کیسے حل کیا جائے؟

جواب:﴿۱﴾ کسی شخص کی زندگی میں اس کے لڑکوں کی شادی ہوجائے تو وہ اپنی اپنی فیملی کے ساتھ باپ کے گھر بھی رہ سکتے ہیں اورالگ بھی اپنا گھر بساسکتے ہیں۔ اسلام میں مشترکہ خاندان کی صرف وہ صورت ناپسندیدہ ہے جس میں کسی جوڑے کا اس کی مرضی سے آزادانہ رہن سہن (Privacy) متاثر ہو۔ لیکن اگر ہرجوڑے کے لیے گھر کاایک حصہ خاص کردیاجائے، جس میں کسی دوسرے کا دخل نہ ہو تو تمام لڑکوں کے لیے اپنی اپنی فیملی کے ساتھ ایک بڑے گھر میں رہنے کی گنجائش ہے۔ اس صورت میں گھریلو اخراجات کی تقسیم باہم افہام وتفہیم سے کرلینی چاہیے۔ تاکہ کسی ایک پر بار نہ ہو اور اسے ناگوارِ خاطر نہ ہو۔ اگر کوئی لڑکا شادی کے بعد الگ رہنے لگے اور مشترکہ خاندان میں شامل نہ ہو تو مشترکہ خاندان کے گھریلو مصارف کے لیے ماہانہ خرچ دینا اس کی ذمے داری نہیں ہے۔

﴿۲﴾ نابالغ اولاد کی کفالت کی ذمے داری یوں تو باپ پر ہے، لیکن جو لڑکے کمانے لگے ہوں ان کا فرض بنتا ہے کہ باپ کا ہرممکن تعاون کریں اور اگر اس کی آمدنی کم ہو اور زیر کفالت افراد کی کفالت میں اسے دشواری ہورہی ہوتو اسے سہارا دیں۔ اسی طرح اگر باپ کا انتقال ہوگیا ہو تو شادی شدہ اور روزگار سے لگے بڑے بھائیوں کا اخلاقی فرض ہے کہ اپنے چھوٹے اور بیروزگار بھائیوں سے منھ نہ موڑ لیں اور انھیں ان کے پیروں پر کھڑا کرنے میں مدد کریں۔

﴿۳﴾ مشترکہ کاروبار کی صورت میں ضروری ہے کہ ابتدا ہی میں معاملات طے کرلیے گئے ہوں۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں آگے چل کر بڑے نزاعات شروع ہوجاتے ہیں۔ شریعت کی تعلیم تو یہ ہے کہ اگر باپ کے کاروبار میں اولاد شریک ہورہی ہو تو ان کی حیثیت شروع ہی میں متعین کردی جائے کہ وہ کاروبار میں پارٹنر ہیں یا کاریگر یا معاون۔ بھائیوں کے مشترکہ کاروبار میں تو بدرجۂ اولیٰ تمام معاملات صاف ہونے چاہئیں اور ہر فریق کی حیثیت متعین ہونی چاہیے۔ اگر پہلے حیثیتوں کی تعیین اور معاملات کی صفائی نہ ہوپائی ہو تو اب باہم مل بیٹھ کر ہمدردانہ غور کرکے معاملات فیصل کرلینے چاہئیں۔

اگر شوہر جنسی تعلق پر قادر نہ ہو

سوال:ایک لڑکی کی شادی کو دو سال ہوگئے ہیں۔ اس کے والد کا انتقال ہوچکا ہے۔ والدہ زندہ ہیں۔ اس عرصے میں حمل کے آثار ظاہر نہ ہوئے تو لڑکی کی ماں کے بہ اصرار پوچھنے پر لڑکی نے بتایا کہ اس کا شوہر جنسی تعلق پر قادر نہیں ہے۔ اس عرصے میں لڑکے نے کافی علاج کرایا، لیکن کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ لڑکی اب بھی شوہر کے ساتھ رہنے کو تیار ہے، لیکن اس کی ماں خلع کروانا چاہتی ہے۔

اس مسئلے میں بہ راہ کرم رہ نمائی فرمائیں۔ اگر کوئی مردجنسی تعلق کے قابل نہ ہوتو کیا زوجین کے درمیان جدائی کروا دی جائے گی؟ اگر اس صورت میں بھی دونوں میاں بیوی ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہوں تو کیا اس کی گنجائش ہے؟ شریعت میں اس مسئلے کے بارے میں کیا احکام ہیں؟ براہ کرم جواب مرحمت فرمائیں، تاکہ دونوں خاندانوں میں تنازع نہ ہو اور خیر کا پہلو نکل آئے۔

جواب: ﴿۱﴾ شادی کے بعد انکشاف ہو کہ شوہر نامرد ہے اور ہم بستری پر قادر نہیں ہے، تو علیٰحدگی کا معاملہ اٹھانے سے قبل اسے علاج کا موقع دیا جانا چاہیے۔ فقہا نے اس کے لیے ایک سال کی مدت متعین کی ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ یہ کوئی حتمی اور قطعی مدت نہیں ہے۔ اس کا فیصلہ کسی ماہر ڈاکٹر کی رائے پر ہونا چاہیے۔ اگر وہ تمام متعلقہ ٹیسٹ کرنے کے بعد ایک دو ماہ میں ہی یہ رائے دے دے کہ مرض پیدائشی ہے اور شوہر کبھی ہم بستری کے قابل نہیں ہوسکتا تو ایک سال تک انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر علاج میں ایک سال سے زائد مدت در کار ہو تو اس کا موقع دیاجانا چاہیے۔ ہم بستری پر قادر نہ ہوسکنا بسا اوقات نفسیاتی اسباب سے ہوتا ہے اور کبھی اس کا سبب کوئی جسمانی مرض ہوتا ہے۔ نفسیاتی اسباب ہوں تو مناسب کونسلنگ (Counselling) ہونی چاہیے اور کوئی مرض ہوتو اس کا علاج ہونا چاہیے۔

﴿۲﴾ علاج سے کوئی فائدہ نہ ہو، شوہر ہم بستری کے قابل نہ ہوسکے اور بیوی اس سے علیٰحدگی چاہے تو انصاف کا تقاضا ہے کہ علیٰحدگی کروا دینی چاہیے ۔ ایسی صورت میں فقہائ نے لکھا ہے کہ عورت پورے مہر کی حق دار ہوگی اور اسے عدت بھی گزارنی ہوگی۔ بہتر ہے کہ شوہر خود ہی طلاق دے دے۔ اگر وہ طلاق دینے پر آمادہ نہ ہوتو اس پر دبائو ڈالنے کی دوسری تدابیر اختیار کی جائیں۔ خلع کی بات بھی کی جاسکتی ہے۔

﴿۳﴾ اگر بیوی اپنے شوہر کی نامردی کے باوجود اس کے ساتھ رہنے پر رضامند ہے تو اس کی رضامندی کا خیال رکھا جانا چاہئے۔ البتہ اس چیز کو ضرور دیکھنا چاہیے کہ اس کی رضامندی کسی دبائو کا نتیجہ تو نہیں ہے۔

نکاح کا مقصد مرد اور عورت دونوں کی عفت وعصمت کی حفاظت اور توالد و تناسل ہے۔ شوہر کی نامردی سے یہ دونوں مقاصد فوت ہوتے نظر آتے ہیں۔ اولاد کی خواہش ہر جوڑے کو ہوتی ہے۔ اسی طرح ہر جوان مردا ورعورت میں جنسی خواہش بھی فطری ہے۔ اگر کوئی دوشیزہ اپنی ان دونوں خواہشوں کو قابو میں رکھنے پرقادر ہو اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ رہنے پر مصر ہو تو اس کی بات مان لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس سلسلے میں شوہر اور بیوی دونوں کے خاندان والوں کو مل کر معاملے کے تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر ، کسی نتیجے تک پہنچنا چاہیے۔

طلاق واقع ہونے کے لیے عورت کا سننا ضروری نہیں

سوال:زوجین میں اختلاف اور تنازع ہونے کے بعد بیوی شوہر سے لڑ جھگڑ کر اپنے میکے چلی گئی۔ اس واقعے کو ڈیڑھ سال ہوگئے۔ اس عرصے میں اس نے کوئی ربط وضبط رکھا نہ شوہر کے گھر آئی۔ کچھ عرصے پہلے چھے مقامی حضرات نے درمیان ہی میں پڑ کر صلح صفائی کروانی چاہی۔ وہ شوہر کے گھر اکٹھا ہوئے اور وہاں اس کی موجودگی میں موبائل سے اس کی بیوی سے رابطہ کیا گیا، اس کو کافی سمجھا یا بجھایا گیا، مگر وہ آنے کیلئے تیار نہ ہوئی اور طلاق کا مطالبہ کرنے لگی۔ بالآخر اسی مجلس میں شوہر نے اس کو طلاق دے دی۔ اس وقت موبائل آن تھا۔ طلاق کے الفاظ سن کر بیوی نے ’بہت اچھا‘ کہا، جسے وہاں موجود تمام لوگوں نے سنا۔ وہیں طے پایا کہ دورانِ عدت لڑکی کو ہر ماہ تین ہزار روپے بھیجے جائیں۔ چنانچہ لڑکی کے کپڑے وغیرہ ایک اٹیچی میں رکھ کر اور عدت کے ایک ماہ کا خرچ تین ہزار روپے بھیج دیے گئے، جسے لڑکی والوں نے قبول کرلیا۔ دوسرے ماہ بھی تین ہزار روپے بھیجے گئے، قبول کرلیے گئے۔ اب ڈھائی ماہ بعد لڑکی کہہ رہی ہے کہ اس نے طلاق سنی ہی نہیں ۔

براہ کرم قرآن وحدیث کی روشنی میں مطلع فرمائیں کہ کیا اس صورت میں طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟

جواب:جہاں تک مذکورہ مسئلے کا تعلق ہے ، تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ طلاق واقع ہونے کے لیے عورت کا سننا ضروری نہیں ہے۔ اس کی غیر حاضری میں شوہر طلاق دے دے تو طلاق ہوجائے گی اب جبکہ شوہر نے چھے لوگوں کی موجودگی میں طلاق دی ہے تواس کے واقع ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ شریعت نے طلاق کا اختیار شوہر کو دیا ہے۔ اگر اس نے اس اختیار کو استعمال کیا ہے تو اس کا انعقاد ہوجائے گا۔ قرآن وحدیث میں کہیں صراحت ہے نہ اشارہ کہ طلاق بیوی کی موجودگی میں یا اس کو سنا کر دینی ضروری ہے۔دوسری بات یہ کہ ایک طلاق ہونے کی صورت میں دورانِ عدت ﴿ تین حیض کی مدت﴾ شوہر کو رجوع کرنے کا حق رہتا ہے۔ وہ زبان سے کہہ دے یا عمل سے ظاہر کردے کہ اس نے رجوع کرلیا ہے تو نکاح باقی رہے گا اور عورت اس کی بیوی رہے گی۔ اگر عدت گزر گئی تو دوبارہ نکاح کرکے دونوں میاں بیوی کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں۔

زندگی میں وراثت کی تقسیم

سوال:کیا ایک شخص اپنی حیات ہی میں اپنی وراثت تقسیم کروا سکتا ہے یا یہ اس کے ورثا ہی کے ذمے ہے؟

جواب:کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو اس کی میراث کی تقسیم شریعت کے بنائے ہوئے ضوابط کے مطابق ہونی چاہیے۔ یہ اس کے ورثائ کا کام ہے کہ وہ عدل وانصاف کے مطابق میراث تقسیم کریں اور کسی مستحق کو محروم نہ کریں۔

آدمی اپنی زندگی میں اپنے مال کا مالک ہے۔ وہ اس میں سے جتنا چاہے کسی کو دے سکتا ہے۔ اسے قانوناً اس کی اجازت حاصل ہے۔ وہ ان لوگوں کو بھی دے سکتا ہے، جو اس کے مرنے کے بعد اس کی میراث کے مستحق ہوں گے اور اسی تنا سب سے دے سکتا ہے، جس تناسب سے ان کا استحقاق ہوگا۔ لیکن یہ میراث کی تقسیم نہیں کہلائے گی۔ بلکہ اس کی طرف ہبہ ہوگا۔

اگر کسی شخص کے بیٹے بیٹیاں ہوں تو میرا ث کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ ہر بیٹے کو ہربیٹی کے مقابلے میں دوگنا ملے گا۔ لیکن اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں اپنی جائداد وغیرہ اپنے بیٹوں بیٹیوں میں تقسیم کر رہا ہو تو اسے سب کے درمیان برابر برابر تقسیم کرنا چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کرنے کی ہدایت فرمائی ہے۔ ایک صحابیؓ  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے ایک بیٹے کو لے کر حاضر ہوئے اور عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ ! آپ گواہ رہیے، میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام ہبہ کیا ہے۔ آپﷺ  نے دریافت فرمایا: کیا تم نے اس طرح اپنے ہر بیٹے کو غلام دیا ہے۔ انھوںنے جواب دیا : نہیں۔ تو آپﷺ  نے فرمایا: میں ظلم وزیادتی کے معاملے میں گواہ نہیں بنوں گا۔ ﴿مسلم، نسائی﴾

تقسیم میراث کی اہمیت

سوال: میرے والد صاحب کا انتقال ہوئے تین سال ہوگئے ہیں۔ والدہ الحمد للہ ابھی حیات ہیں۔ ہم پانچ بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ سبھی کی شادی ہوچکی ہے۔ ہم سب بھائی مشترکہ خاندان میں رہتے ہیں۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد ان کی میراث تقسیم نہیں ہوئی۔

براہ کرم رہ نمائی فرمائیں کہ کیا میرا ث تقسیم کرنی ضروری ہے؟نہ تقسیم کرنے پر کیا وعیدیں ہیں؟ میراث میں کس کا کتناحصہ ہوگا؟ ہمارے تین مکانات ہیں۔ کیا ایک یا دو مکانات فروخت کرکے ورثائ میں تقسیم کرسکتے ہیں؟

جواب: ﴿۱﴾ کسی شخص کا انتقال ہوجائے تو اسلامی شریعت کی رو سے اس کی میراث لازماً تقسیم ہونی چاہیے۔ میراث میں وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو میت کی ملکیت میں رہی ہوں۔ مثلاً مکان، گھریلو سامان، دُکان اوراس کا سامان، زمین وجائداد، کارخانہ اور اس کی مشینیں اور آلات، اکائونٹ میں محفوظ رقم اور نقدی وغیرہ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

لِّلرِّجَالِ نَصیِبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَآئ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَالأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ أَوْ کَثُرَ نَصِیْباً مَّفْرُوضاً۔﴿النساء :۷﴾

’’مردوں کے لیے اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتے داروں نے چھوڑا ہو اور عورتوں کے لیے بھی اس مال میں حصہ ہے، جو ماں باپ اور قریبی رشتے داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت اور یہ حصہ ﴿اللہ کی طرف سے﴾ مقرر ہے۔

اس آیت میں صاف الفاظ میں کہا گیا ہے کہ میراث چاہے کم ہو یا زیادہ ، اس کی تقسیم کا اللہ تعالی کی جانب سے تاکیدی حکم ہے۔ اگر کوئی وارث پورے مال پر قبضہ کرلیتا ہے اور اپنے بھائیوں بہنوں اور دیگر رشتے داروں کو ان کے حق سے محروم رکھتا ہے تو اس کی حیثیت غاصب اور حرام مال کھانے والے کی ہے۔روز قیامت اس کا وبال اس کے سر پر ہوگا۔

مذکورہ مسئلے میں میت کے یہ ورثائ موجود ہیں: بیوی، پانچ لڑکے اور دو لڑکیاں۔ قرآن مجید میں ہے کہ کسی شخص کا انتقال ہوجائے اور اس کی بیوی موجود ہوتو اولاد ہونے کی صورت میں وہ آٹھویں حصے کی مستحق ہوگی‘‘۔ ﴿النساء : ۱۲﴾ اس سے پہلے کی آیت میں یہ بیان بھی موجود ہے کہ اولاد کے درمیان میراث اس طرح تقسیم ہوگی کہ ایک مرد کا حصہ دوعورتوں کے برابر ہوگا‘‘۔ ﴿النساء :۱۱﴾ اس کے مطابق کے پہلے آٹھ حصے کیے جائیں گے۔ آٹھواں حصہ میت کی بیوی کو دینے کے بعد باقی میراث کے بارہ ﴿۱۲﴾ حصے کیے جائیں گے۔ ایک ایک حصہ ہر لڑکی کو دیا جائے گا اور ہر لڑکا دو دوحصوں کا مستحق ہوگا۔

میراث کے مال کو اس کی اصل شکل میں باقی رکھتے ہوئے بھی تقسیم کیا جاسکتا ہے اور اگر کسی وجہ سے اس میں دشواری ہو تو اسے فروخت کرکے موصولہ رقم کو باہم تقسیم کرلینا چاہئے۔

میرا ث کا ایک مسئلہ

سوال:ہمارے ایک عزیز کا ابھی حال میں انتقال ہوا ہے۔ان کی جائداد ان کے وارثوں میں کس نسبت سے تقسیم کی جائے گی؟

وہ لاولد تھے۔ ان کی اہلیہ اور ماں باپ کا انتقال پہلے ہوچکا ہے۔ ایک بھائی اورد وبہنیں اور ایک ماں شریک بہن تھیں۔ وہ سب بھی فوت ہوگئے ہیں۔ پس ماندگان میں صرف چار بھتیجے، چھے بھتیجیاں، نو بھانجے اور دو بھانجیاں زندہ ہیں۔ مرحوم نے اپنی زندگی میں ایک لڑکی کو گود لے لیا تھا، جس سے کوئی خونی رشتہ نہیں ہے۔ اس کے حق میں ایک تہائی سے کم کی وصیت موجود ہے۔

براہ کرم مندرجہ بالا تفصیل کے مطابق وراثت کی شرعی تقسیم سے مطلع فرمائیں۔

جواب: شریعت نے میراث کی تقسیم سے قبل قرض کی ادائی اور وصیت کے نفاذ کا حکم دیا ہے:

مِن بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُوصِیْنَ بِہَا أَوْ دَیْنٍ ۔                            ﴿النساء :۱۲﴾

مستحقین میراث کے تین درجات ہیں: ﴿۱﴾ ذوی الفروض ﴿۲﴾ عصبہ ﴿۳﴾ ذوی الارحام ۔ ذوی الفروض میں میراث تقسیم ہونے کے بعد اگر کچھ بچے گا تو وہ عصبہ میں تقسیم ہوگا اور عصبہ نہ ہوں تو ذوی الارحام کو ملے گا۔

آپ کی بیان کردہ تفصیل کے مطابق میت کے چار بھتیجے، چھے بھتیجیاں، ان کے علاوہ متعدد بھانجے بھانجیاں ہیں۔ ان میں سے صرف بھتیجے عصبہ ہیں۔ بھتیجیاں ، بھانجے اور بھانجیاں ذوی الارحام میں سے ہیں۔

اس بنا پر میت کی وصیت نافذ کرنے کے بعد بقیہ ترکہ اس کے چاروں بھتیجوں میں برابر برابر تقسیم کردیا جائے گا۔

مشمولہ: شمارہ اپریل 2013

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau