ڈاکٹر محمدعمارہؒ: حیات وافکار

(ڈاکٹر محمد عمارہ کے ڈاکٹر معتز خطیب کے ساتھ انٹرویو کے منتخب اقتباسات)

ڈاکٹر محمد عمارہ (م: 4 رجب 1441 ھ مطابق 28 فروری 2020)کی شخصیت معاصر تاریخ کی ایک اہم کڑی ہے۔ ان کی فکری تخلیقات اور شخصیت کے باب میں خواہ ہمارا ان سے اختلاف ہی کیوں نہ ہو، لیکن یہ بات مسلم ہے کہ ان کے افکار ونظریات کی دنیا میں تغیر ہوتا رہا اور ہر چیز کو از سر نو دیکھنے کا آغاز ڈاکٹر عمارہ ہی کا حصہ ہے۔ وہ لوگوں کے رہ نما تھے۔ ان کی شخصیت غور وفکر، قلم و قرطاس سے وابستگی، درس و تدریس اور فکری یلغاروں کے دفاع سے عبارت تھی۔ بحیثیت کمیونسٹ انھوں نے زندگی کی ابتدا کی۔ اس نظریے نے نوجوان نسل کو نے حد متاثر کیا تھا اور یہی نسل مختلف نظریات کے عظیم مفکرین کی صف میں شامل ہوئی۔

ڈاکٹر عمارہ نے کبھی باریک بینی سے اپنے افکار کو پیش کیا تو کبھی مبالغہ آرائی سے بھی کام لیا۔ زندگی کے مختلف مراحل میں کمیونسٹ، معتزلہ، اخوان اور سلفیت سے ان کی قربت رہی نیز شیخ احمد طیب کی سربراہی میں الازہر کے ساتھ تعامل بھی رہا، انھوں نے اپنی ایک مستقل شناخت بنائی، اس لیے کسی اور کو سامنے رکھ کر ان کی شخصیت کا اندازہ لگانا درست نہیں۔

ڈاکٹر عمارہ کومختلف حیثیتوں سے تفوق حاصل ہے، وہ اخلاق حسنہ کے پیکر تھے۔ انھوں نے اظہارِ حق میں کبھی مداہنت اور رواداری سے کام نہیں لیا۔ وہ اپنے اصولوں پر قائم رہے، خصوصاً انھوں نے عہدوں اور ملازمتوں سے بے نیازی برتی، گریجویشن کے بعد ان ملازمتوں سے متنفر ہوگئے اور زندگی بھر ان کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا۔

(ڈاکٹر معتز خطیب)

۔۔۔

 میری ولادت سے پہلے میرے والد محترم نے نذر مانی تھی کہ اگر لڑکا ہوا تو اس کا نام محمد رکھیں گے اور اسے علم کے لیے ہبہ کردیں گے۔ ان دنوں گاؤں میں علم سے مراد علمِ دین کا حصول ہوا کرتا تھا۔ گاؤں کے مکاتب میں ان دنوں سختی اور تشدد سے کام لیا جاتا تھا۔ وہاں تعلیم حاصل کرنے کا تجربہ ہوا۔ اس وقت یہ عام خیال تھا کہ جو استاذ سختی سے کام لیتا ہے، اسی کی تعلیم عمدہ ہوتی ہے۔ اس طریقہ تعلیم نے مجھے تعلیم سے متنفر کردیا اور میں نے اپنے بھائیوں کی طرح کھیتی باڑی کرنے کی کوشش کی، لیکن میرے والد محترم کو اپنی نذر پوری کرنے کی شدید خواہش تھی، اس لیے انھوں نے میرے ساتھ سختی کا معاملہ کیا، جو مدرسے کی سختی کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔ میں نے دوسرے مکتب کا رخ کیا جہاں محمد الجندی علیہ الرحمہ استاذ تھے۔ جامع ازہر میں ان کی تعلیم وتربیت ہوئی تھی، البتہ بوجوہ فراغت نہ کر سکے۔ خوش مزاج، اعلیٰ ظرف اور نرم خو تھے۔ جب میں ان کے پاس تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے گیا تو اللہ تعالیٰ نے میرے لیے تعلیم کے دروازے کھول دیے اور میرے لیے سب کچھ مناسب حال ہوگیا۔ میں نے قرآن مجید کا حفظ مکمل کیا اور اسی دوران میں نے ریاضی کے اصول و ضوابط اور جدید سماجی امور سے بھی واقفیت حاصل کی۔

۔۔۔

میں بہت سے اساتذہ کا ممنون و مشکور ہوں جنھوں نے مجھے علم کا گراں قدر سرمایہ عطا کیا۔ شیخ عبد الرحمن جلال جو کہ میرے استاذ، پاک طینت، فقیہ اور بہترین عالم دین تھے۔ وہ ہمیشہ مطالعہ کے لیے میری حوصلہ افزائی کرتے رہے۔ اسی طرح شیخ محمد کامل الفقی ؒکی وجہ سے میرے اندر غور و فکر، مطالعہ اور تحریر کی صلاحیت پیدا ہوئی۔ وہ ایک سیاسی اور مذہبی انسان تھے۔ سعدیہ حکومت نے ان کو اس وقت دسوق جلا وطن کردیا تھا۔ وہ ایک ممتازاور باوقارشخصیت کے مالک تھے۔ اخبار و رسائل ان کے زیر مطالعہ رہتے اور یہ اس دور کے مشائخ کے لیے بڑی عجیب بات تھی۔ پرائمری اسکول کے دوسرے سال میں وہ ہمیں نحو پڑھاتے تھےاور جریدہ ’المصری‘ کا اداریہ پڑھ کر سنایاکرتے تھے۔ ایک دن کلاس میں آکر انھوں نے سوال کیا: تم میں سے کون ہے جو نصابی کتابوں کے علاوہ کوئی اور کتاب خرید سکے؟ چناں چہ میں نے جا کر المنفلوطی (م1924)کی کتاب’نظرات‘ خریدلی۔ یہ نصابی کتابوں کے علاوہ پہلی کتاب تھی جسے میں نے خریدا۔ انھوں نے مجھ سے کہا: اسے اپنے ساتھ رکھا کرو۔ چناں چہ میں اس کا مطالعہ کرتا تھا اور اس پر غور و خوض کرتا تھا۔

۔۔۔

ہمارے گاؤں میں شیخ عبد التواب شناوی نامی ایک عالم دین، قاری اور خطیب تھے۔ ایک طرح سے وہ گاؤں کی قیادت کے منصب پر فائز تھے۔ انھوں نے فیکلٹی آف فنڈامنٹلز آف ریلجن سے گریجویشن کیا تھا۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ فراغت کے سال ہی ان کی وفات ہوگئی۔ چار ہزار کتابوں پر مشتمل ان کی ایک گراں قدر لائبریری تھی جس میں رسالہ الازہر اور الرسالہ موجود تھا۔ اس لائبریری میں رسالہ ’العروة الوثقہ‘ کی اصل کاپی بھی موجود تھی اور اسلامی فکر اور یورپی زبانوں سے ترجمہ شدہ متعدد کتابوں کا ذخیرہ تھا۔

ان کا خاندان ناخواندہ تھا جس کی وجہ سے لائبریری ان کے لیے بے معنی تھی۔ مجھے مطالعہ کا شوق ہوا تو میں نے اس لائبریری کو خریدنا شروع کیا۔ میں نے لائبریری چالیس پاؤنڈ (ہر کتاب ایک قرش میں) کی خطیر رقم دے کر خرید لیا۔ واضح رہے کہ میں نے اسے قسطوں میں خریدا تھا۔ اس وقت اتنی رقم سے بڑی اراضی خریدی جاسکتی تھی۔ میں نے خود کو اس کتب خانے کے مطالعہ کا عادی بنا لیا۔ خصوصاً چھٹیوں کے دوران (چار ماہ) میں پڑھتا رہتا یہاں تک کہ نیند سے میری آنکھیں بوجھل ہو جاتیں، پھر میں آرام کرتا اور آرام کے بعد دوبارہ پڑھنا شروع کر دیتا۔ اس لائبریری میں میں نے امام محمد عبدہ (م1905)کی ’شرح نہج البلاغہ‘، چارلس ڈارون (م1882)کے نظریہ ارتقا، نیز سوشلزم کا مطالعہ کیا۔

۔۔۔

کمیونزم، وطنیت اور اسلام سے وابستگی کے مختلف مراحل میں میرے موقف میں پختگی اور ارتقا ہوتا رہا، لیکن ان کے درمیان کوئی زیادہ فاصلہ نہیں تھا۔ میں سماجی اور انقلابی معنوں میں کمیونسٹ تھا، نظریاتی لحاظ سے نہیں۔ میری زندگی میں الحاد نامی کوئی چیز نہیں تھی، کیوں کہ روحانی تجربہ اور خالص دینی تشکیل نے مادیت پسندانہ فکر اور مادیت پسند نظریات میں ضم ہونے سےمجھے محفوظ رکھا۔ جب مجھے یہ احساس ہوگیا کہ سماجی مسائل کا حل مارکسزم میں نہیں بلکہ صرف اور صرف اسلام میں ہے، تو یہ میرے اسلامی موقف میں پختگی کا آغاز تھا۔

مجھے اعتراف ہے کہ کمیونزم کے مرحلہ میں مجھے ایک قسم کی فکری الجھن کا سامنا کرنا پڑا اور میرے لیے کمیونزم کا ایک منفی پہلو یہ تھا کہ میں نے بہت سے شعری مجموعے یاد کر رکھے تھے۔ کمیونسٹوں کے ساتھ رہنے سے میں انھیں بھول گیا، کیوں کہ میں پمفلٹوں اور سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہتا تھا۔ لیکن اسلامی مرحلہ میں فکری الجھنیں آہستہ آہستہ ختم ہونے لگیں۔ 1967 کے بعد قومیت کا اثر زائل ہوگیا اور اسلامیت پر توجہ مرکوز ہوگئی۔

اس کے علاوہ 1980کی دہائی میں اسلامی بیداری کے ظہور نیز 1991 میں سویت یونین کے سقوط کے بعدنشاة اسلامیہ کے لیے مغرب کے روز افزوں چیلنجوں اور اسلامی حل نے میرے اسلامی موقف میں مزید استحکام پیدا کیا۔ چناں چہ مغربی افکار و نظریات کے مقابلے اور سیکولرزم کی انتہا پسندی کا جواب دینے کے لیے میں نے متعدد تصانیف قلم بند کیں۔ قومیت، عرب نسل پسندی، سماجی انصاف کا مسئلہ اور سماجی ناانصافی کے خلاف انقلاب کے مسائل میری تحریروں میں نمایاں رہے۔ اس طرح انسانیت اور مختلف تہذیبوں کے ساتھ تعامل میری فکری کاوشوں میں شامل رہا۔

۔۔۔

جہاں تک مسئلہ اعتزال سے میرے علمی شغف کا تعلق ہے، تو میں نے اپنے ماسٹر اور ڈاکٹریٹ کا مقالہ اس موضوع میں دل چسپی کی وجہ سے لکھا، کیوں کہ میں نے شروع ہی سے عزم کر رکھا تھا اور خدا سے دعا کی تھی کہ میں ملازم نہ بنوں بلکہ اپنا سارا وقت علمی کاموں کے لیے وقف کردوں۔ میں نے 1970میں نے اپنے ایم اےکامقالہ معتزلہ اور انسانی آزادی کے مسئلے کے بارے میں لکھا تھا۔ ایسا کرنے پر جس چیز نے مجھے آمادہ کیا، وہ اب بھی مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ “ میں تمام اسلامی ورثہ اور امت کے تمام فرقوں کو قبول کرتا ہوں اور میں اپنے آپ کو کسی خاص فرقے یا کسی خاص فکر سے منسوب نہیں کرتا۔”

مجھ سے پہلے جن لوگوں نے معتزلہ کے بارے میں لکھا ہے، ان کے مطالعہ سے محسوس ہوا کہ انھوں نے اعتزال پر گفتگو کرتے وقت ان کے مخالفین کی کتابوں کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ چوں کہ معتزلہ کے نسخوں کی اس وقت تک دریافت نہیں ہوئی تھی حتیٰ کہ کارل بروکمان (م1956) نے جب ’عربی ادب کی تاریخ‘ لکھی تو اس نے بھی معتزلہ کے نسخوں کے بارے میں نہیں لکھا تھا۔ زیدی ائمہ نے معتزلہ کا ورثہ جمع کیا اور اس کی حفاظت اپنی نگرانی میں کی، اس وقت کسی اور کو اس کے بارے میں علم نہ تھا۔ جب میں 1951 میں عرب لیگ اور مصر کے ایوانِ کتب کے وفد کے ساتھ یمن گیا، تو وہاں معتزلہ کے اس ورثے کے بارے میں معرفت حاصل ہوئی، جو حال ہی میں منظر عام پر آئے تھے۔ زیدیہ کا معتزلہ سے تعلق تھا، اس لیے انھوں نے ان کی تحریریں اور مخطوطات کو محفوظ کررکھا تھا۔

میں پہلا شخص تھا جس نے اعتزالی تحقیقات پر بلند پایہ تحقیقات پیش کیں۔ میرا کام معتزلہ کے لیے منصفانہ تھا اور میں دوسرے فرقوں کی طرح معتزلہ سے جانب داری نہیں رکھتا تھا۔ میں نے معتزلہ، شیعہ اور مختلف سنی فرقوں کے درمیان امامت کے نظریہ پر اپنا ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھا۔ مجھ پر آج تک اعتزال کا الزام ہے، لیکن میں پھر کہتا ہوں کہ میں نے خود کو کسی گروہ میں شامل نہیں کیا۔ میں نے معتزلہ کے ساتھ اس طور پر انصاف کیا ہے کہ وہ اسلامی عقلیت کے شہ سوار تھے اور وہ مفتوحہ شہروں میں اسلام کی نشر و اشاعت کے شہ سوار تھے۔ ان شہروں میں فلسفے کے مکتب تھے۔ ان مکتبوں کا مقابلہ کرنے کے لیے منطق نہایت ضروری تھی۔

میں ان لوگوں کو دعوت دیتا ہوں جو اعتزال کو تہمت سمجھتے ہیں کہ بصرہ کے معتزلہ، بغداد کے معتزلہ اور اس کے بعد ہونے والی ترقیوں میں فرق کریں۔ اسی طرح امت کے پورے سرمائے کو اپنانے اور اس میں سے انتخاب کرنے کا بھی داعی ہوں۔ میں کسی فرقے کی طرف مائل ہونے یا اس میں شمولیت اختیار کرنے اور کسی فرقے کو مسترد کرنے کے خلاف ہوں۔ سلفی فکر میں عظیم سرمایہ موجود ہے۔ جب میں ابن تیمیہؒ (م728ھ/1328)کی فکر سے قریب ہوا تو میں نے ان کے اور ان کی عقلیت پسندی کے بارے میں لکھا۔ اب مجھے’نو متجدد‘ کہا جاتا ہے۔ جب کہ اس سے پہلے’نیا روایت پسند‘ کہا جاتا تھا۔

۔۔۔

مجھے اکثر تیل والے عرب ممالک کی یونیورسٹیوں میں جانے کی پیش کش کی جاتی، لیکن میں انکار کردیتا، کیوں کہ میری روح مجھے کسی کفیل کے لیے کام کرنے کی اجازت نہیں دیتی تھی اور میرا اصل مقصد بھی خود کو فکری کام کے لیے وقف کرنا تھا۔ میری بیوی کو چوں کہ میری فکری خواہش کا فہم تھا، اس لیے اس سے مجھے کافی تعاون ملا۔ وہ ایگریکلچر میں ماسٹر کر رہی تھی۔ گھر کی ضروریات کو پورا کرنے اور گھریلو کام کی وجہ سے اس نے اپنی تعلیم ترک کردی، خود کو گھر کے لیے وقف کردیا اور گھر کا بار اپنے اوپر لے لیا۔ میرا گھر کیا ہے، ایک لائبریری ہے، جسے میری بیوی نے میری گرفتاری کے بعد از سرِ نو مزین کیا ہے۔

میں اپنی جمع پونجی سے کتابیں خریدنے کے لیے ہر روز کتاب بازار جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ میری لائبریری میں اضافہ ہوتا گیا اور گھر کی تمام دیواریں کتابوں سے ڈھک گئیں۔ میری بیوی مجھ سے پوچھتی کہ ہم اور کتابیں کہاں رکھیں گے؟ تو میں اس سے مزاحاً کہتا کہ ہم کتابوں کو چھت سے لٹکالیں گے۔ میرے بچے اسی لائبریری میں پیدا ہوئے۔ میں نے منصوبہ بنایا کہ بچوں کو چھوٹی عمر ہی سے تصویروں اور کاغذ کے ذریعے تربیت دی جائے۔ ان کے اور کتابوں کے درمیان محبت کا رشتہ پیدا کیا جائے۔

۔۔۔

مطالعہ اور عام انداز میں فکری کام کے لیے لکھنا ہی میرے نزدیک ایک پیغام ہے بلکہ یہ کام ام العبادۃ ہے۔ میرا آفس ہی میرا محراب ہے۔ میرے عقیدے کے لحاظ سے اخلاص ایک اصولی چیز ہے۔ انسان سے اجتہاد میں تو غلطی ہوسکتی ہے، لیکن سچائی کی تلاش میں اخلاص سب سے اہم ہے۔ ہم اسلام کے خلاف ایک شدید اور کھلی جنگ کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میں چیلنجوں کے درمیان زندگی گزار رہا ہوں، حالاں کہ میرے پاس دوسرے منصوبے بھی ہیں، جنھیں میں نے ان چیلنجوں کی وجہ سے کئی برسوں سے مؤخر کر رکھا ہے۔

۔۔۔

میں لکھنے کو اپنے لیے اردگرد کے اثرات سے بچنے کا ذریعہ سمجھتا ہوں۔ میں خود کو فکری کاموں میں غرق کرلیتا ہوں تاکہ میں سماجی اور سیاسی زندگی میں موجود منفی اثرات سے متاثر نہ ہوسکوں۔ سیاست کے عام مفہوم یعنی ملک کی سیاست کو میں چھوڑ چکا ہوں، کیوں کہ اسلامی نقطہ نظر اور بالخصوص محمد عبدہ کا بھی یہ خیال تھا کہ حکومت سے پہلے امت ہے اور سیاست سے پہلے تربیت ہے۔ میں ان اسلامی تحریکات پر جو مروجہ سیاست میں ڈوبی ہوئی ہیں سخت تنقید کرتا ہوں۔

۔۔۔

فکری کام اور اس میں انہماک سے انسان متعدی امراض کے لاحق ہونے سے بچ جاتا ہے۔ اگر صوفیا مباح شراب اور جائز نشے کی بات کرتے ہیں تو میرے خیال میں فکری کام ہی وہ نشہ ہے جو زندگی کو ہر درد و الم سے دور رکھتا ہے۔

۔۔۔

30 سال قبل میں نے ایک کتاب ’الغزو الفکری وھم ام حقییقۃ‘ لکھی تھی، جس میں تہذیبوں کے درمیان تعلقات کا نظریہ پیش کیا گیا تھا۔ یہ میری ایجاد نہیں تھی، بلکہ تہذیبی تعاملات کی تاریخ کا مطالعہ تھا۔ اس رشتے کی تاریخ تہذیبوں کے درمیان کوئی چین کی دیواریں نہیں ہیں، کیوں کہ قربت شخصیت کو تحلیل کر دیتی ہے، انحصار اور تقلید فطرت کو بگاڑ کر مسخ کردیتے ہیں۔ اس لیے میں نے عمومی قدروں کو ہمیشہ ملحوظ رکھا۔ ان کے قوانین تہذیبوں کی تبدیلی کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتے۔ اسی طرح میں نے ادب، فنون، نظریاتی اور فلسفیانہ ثقافتی نقوش کے فرق کو ملحوظ رکھا، جیسا کہ ہر تہذیب کے اپنے نقوش اور ثقافتی امتیازات ہوتے ہیں۔

میں سید قطب سے اس وقت متاثر ہوتا ہوں، جب وہ مادی ایجادات میں مغربی ذہانت کی عبقریت کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ اس لیے میں مغربی تہذیب سے قطع تعلق نہیں کرتا، لیکن میں اس مادی، فلسفیانہ اور بت پرستانہ پہلو کے بارے میں محتاط ہوں جو یونانی فکر سے مغربی تہذیب میں منتقل ہوئے۔ جہاں تک اسلامی دنیا پر حملے اور نوآبادیات کا تعلق ہے، تو اس معاملے میں تہذیبوں کے درمیان باہم تعامل چاہتا ہوں، قطع تعلقی اور علیحدگی کو درست نہیں سمجھتا۔ (بشکریہ الجزیرہ ویب سائٹ)

مشمولہ: شمارہ اگست 2024

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223