امامِ محدث یزید بن زریع (م:۱۸۳ھ) عراق کے شہر ‘ابلہ’ (Al abela) کے گورنر تھے۔جب ان کا انتقال ہوا تو اپنے بیٹے یزید کے نام بڑی دولت ترکے میں چھوڑ گئے، لیکن پرہیزگار بیٹے نے اس دولت میں سے کچھ بھی نہیں لیا ، کیوں کہ ان کے والدسرکار ی عہدے دار تھے۔ ابوالقاسم الباجی اندلسی (م: ۴۹۳ھ)نے بھی یہی کیا ۔ وہ اپنے والد کے ترکے سے دست بردار ہوگئے ،کیوں کہ ان کے والد نے بادشاہ سے کثیر انعامات قبول کر لیے تھے۔یہ دلچسپ روایات جنھیں امام ذہبی (م:۶۴۸ھ) نے نقل کیا ہے، ان سے معلوم ہوتا ہے کہ علماء نے حکام کے ساتھ اپنے تعلقات کے سلسلے میں کیسے سخت ضابطے اپنے لیے بنائے تھے۔ تاکہ ان کی آزادی اور خود مختاری برقرار اور محفوظ رہے۔
انھی سختیوں اور پابندیوں نے انھیں یہ اہلیت عطا کی کہ کئی صدیوں تک وہ شریعت ، افتاء و قضا اور تعلیمی اداروں کی برتری و خود مختاری کے حامی و محافظ بن کر رہے۔اسی وجہ سے ہمیشہ علماء کی خواہش یہ رہی کہاہل علم حکمراں اداروں سے فاصلہ بنا کر رکھیں، کیوں کہ علماء کا طبقہ امّت اور معاشرے سے زیادہ قریب تھا۔ فقہائےاسلام اپنے منہاج وطریقہ کار اور اپنے اداروں کے ذریعہ امت کی عظمت کو نمایاں کرنے اور حکومت کی خرایبوں کو باہر لانے کا کام کرتے تھے۔ اس حقیقت پر خود فقہاء کے اقوال گواہ ہیں۔
اس مضمون میں ہماری گفتگو کا محور علماء کی جماعت اور سیاسی اقتدار کے درمیان اس فاصلے پر گفتگوہوگا جس کوعلماء نے قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔کیوں کہ دونوں کے مابین یہ فاصلہ دراصل علماء اور اقتدار کے مابین تعلق کے دائرے میں آتا ہے۔ دوسری طرف جو چیز ہمارے لیےاہم ہے، وہ علماء کی خو د مختاری ہے جسے علماء نے اپنے لیے خود پسند کیا۔اسی خود مختاری نے انھیں امت کے دل وضمیر کےاندر بلند مقام عطا کیا ہے۔انھیں یہ موقع فراہم کیا ہے کہ کسی طرح کے رجحان اور خواہشات سے پاک قابل قدر اور ٹھوس علمی نتائج سے نواز سکیں۔ حالانکہ اس بات سے انکار بھی ممکن نہیں ہےکہ بعض فقہا ایسے بھی تھے جو مکمل طور پر یا کبھی کسی مصلحت کے تحت یا وقتی حالات کے پیش نظر سیاسی گلیاروں کے چکر کاٹا کرتے تھے۔
فاصلہ سازی
علمائےکرام نے اپنی جدو جہد کا رخ اس جانب رکھا کہ علمی گروہِ علماء اور شاہی اداروں کے درمیان فاصلہ بنا کر رکھیں۔
علماء ہمیشہ خود اپنے گروہ کو خبردار کرتے رہے ہیں کہ حکام و امراء سے میل جول نہ رکھا جائے ،اور نہ ہی ان سے تنخواہ یا انعامات کی صورت میں مال حاصل کیا جائے۔چنانچہ جب سلطان جنگ سے حاصل ہونے والے مال غنیمت کی تقسیم کرنے لگا اور امام سفیان ثوریؒ (م:۱۶۱ھ)نے اس میں سے اپنا حصہ لینے سے انکار کر دیا تو انھوں نے اس انکار کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’مجھے معلوم ہے کہ یہ میرے لیے حلال ہے، لیکن میں یہ ناپسند کرتا ہوں کہ امراء کے تعلق سے میرے دل میں کسی قسم کی محبت جگہ بنالے‘‘
بلکہ بعض علماء نے تو والدین کے ترکے میں سے بھی اپنا حصہ لینے سے اس لیے انکار کر دیا ، کیوں کہ ان کے والد دربارمیں عہدے دار تھے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پانچویں صدی ہجری کی آمد ہوئی تو اس وقت بادشاہوں اور سلاطین کے ہدیوں اور عطایا پر انحصار عام ہو چکا تھا۔ حکومت کے تمام ادارے اور معاشرےکی تمام جماعتیں اورتنظیمیں ، حتی کہ وہ مدارس بھی اس میں ملوث ہو چکے تھے جو مساجد کےنظام اور فقہی مسالک سے آزاد تھے۔چنانچہ بعض لوگوں کو یہ اندیشہ ہوا کہ کہیں سیاسی اقتدار کے مقابلے میں علماء کی خودمختاری کم زور نہ پڑ جائے۔اس لیے انھوں نے علماء کو اس بات سے ہوشیار کرناشروع دیا کہ وہ اس قسم کے اموال پر حد سے زیادہ اعتماد نہ کریں۔ اس کے ساتھ ان کی توجہ اس جانب بھی توجہ رہی کہ اسلامی تاریخ کے اولین دور کے بعد حالات میں تبدیلی آ ئی ہے، اور اب ان کے زمانے میں ‘‘سلاطین صرف اسی عالم یا فقیہ کو عطایا وصول کرنے کا موقع دیتے ہیں جو ان کے کام آنے کا جذبہ رکھتاہو، ان سے ربط و تعلق رکھنے پر فخر محسوس کرتا ہو،ان کے مقاصد کو پورا کرنے میں ان کا مددگار ثابت ہوتا ہو، ان کی مجلسو ں میں شامل ہو کر رونق بڑھاتا ہو، ہمیشہ ان کے لیے دعائیں کرتا ہو، ان کے گن گاتا ہو، ان کی پاکی بیان کرتا اور ان کےسامنے بھی اور ان کے پیچھے بھی ان کی تعریفوں کے پُل باندھتا ہو۔’’ (امام غزالی (م: ۵۰۵ھ): احیاء علوم الدین/جلد دوم)
بادشاہوں سے وسیع پیمانے پر فاصلہ قائم رکھنے کے سلسلے میں اپنی رائے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے امام غزالیؒ فرماتے ہیں: ’’اگر (۱)(بادشاہ کے) عطیات قبول کرنے والے (علماء) مانگ کر اور سوال کرکے خود کو ذلیل و رسوا نہ کریں، (۲) بار بار اس کی خدمت میں حاضری نہ دیں، اس کی تعریفیں اور اس کے لیے دعائیں نہ کریں، (۳) ضرورت کے وقت مدد مانگنے پر اس (بادشاہ) کی مدد کےلیے نہ جائیں، (۴)اس کی مجلسوں اور جلوسوں میں جاکر اس کی بھیڑ میں اضافہ نہ کریں، (۵) اس سے محبت و دوستی اور اس کے دشمنوں کے خلاف نصرت و حمایت کا اظہار نہ کریں، (۶) اس کے مظالم اور برے اعمال کی پردہ پوشی نہ کریں تو وہ ان علماء کو ایک درہم بھی نہ دےخواہ کوئی عالم (مثال کے طور پر) امام شافعیؒ کے درجے کی فضیلت و مرتبت کا حامل ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
تحذیر و تنفیر
محدث ابوشجاع دیلمی (م:۵۰۹ھ) فرماتے ہیں: ‘‘علمائے سو (وہ ہیں جو) علم کی تجارت کرتے ہیں،اپنے دور کے امراء کے ساتھ علم کی تجارت کر کے اپنے لیے نفع کماتے ہیں، اللہ ان کی اس تجارت سے انھیں نفع نہ پہنچائے۔’’ علامہ زمخشری (م:۵۳۹ھ) اپنی کتاب مقاماتِ زمخشری میں فرماتے ہیں: ’’علمائے سو کو کیا ہو گیا ہےکہ وہ شریعت کے امورِ عزیمت کو جمع کرتے ہیں، ان کی تدوین کرتے ہیں اور پھر اُمرائےسو کو ان میں رخصت دے کر ان امور کی توہین کرتے ہیں۔‘‘!
القرافیّ (۶۲۶۔۶۸۴ھ) فقہائے کرام کو اس بات پر متنبہ کرتے ہیں کہ وہ سرکاری ادارے کے معیار وپیمانے کے مطابق فتوے جاری نہ کریں۔ اپنی کتاب’الاِحکام فی تمییز الفتاوی عن الاَحکام‘میں فرماتے ہیں: ‘‘کسی مسئلے میں دو رائیں ہوں، ایک رائے شدت پر مبنی ہو اور دوسری میں تخفیف سے کا م لیا گیا ہو، تو مفتی کو ایسا نہیں کرنا چاہیے کہ عوام الناس کو شدت والی رائے پر فتوی دے اور خواص یعنی اصحاب اقتدار کو تخفیف والی رائے پر فتوی دے ۔یہ بات فسق ، دین میں خیانت اور مسلمانوں کے ساتھ کھلواڑ کرنے جیسی ہے اور اس بات کی دلیل ہے کہ اس مفتی کا دل اللہ کی عظمت سے خالی ہے۔‘‘
علامہ قرافیّ فقیہ کے ضمیر اور خشیت کا جائزہ لیتے ہوئے اس خشیت کی طرف اشارہ فرماتےہیں جس پر علماء کی توجہ مرکوز رہی ہے۔ علامہ قرافی علم کو دین اور ضمیردونوں سے بیک وقت مربوط رکھتے ہیں۔ اس لیے کہ علم خشیت سے عاری ہو تو صاحب علم کو غیر جانب داری کے وصف سےخالی کر دیتا ہے۔ وہ علم کے پلڑے کے مقابلے میں خواہشات کے پلڑے کو جھکا دیتا ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ اسے حقارت کی نظروں سے دیکھنے لگتے ہیں اور معاشرے کے اوپر سے اس کا اثر بڑی حد تک عنقا ہو جاتا ہے۔
یہ تنبیہ اس وقت اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے جب علامہ تاج الدین سُبکی(م:۷۷۱ھ) ’’طبقات الشافعیہ‘‘ میں حکومت و اقتدار میں در آنے والے فساد کی ذمہ داری بعض علماء پر ہی ڈال دیتے ہیں۔ وہ جزم و یقین سے پُر لہجے میں فرماتے ہیں: ’’سلاطین کو فاسق فقہاء خراب کرتے ہیں۔ فقہاء میں صالح وبد دونوں طرح کے لوگ ہیں۔ صالح فقہاء بالعموم شاہوں کے در کے چکر نہیں کاٹتے اور فقہائے بد اکثر ان کے دروازوں پر ہی پڑے رہتے ہیں۔ اس کے بعد ان کے پاس سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ سلاطین کے ہم رکاب ہو کر انھی کی خواہشات پر چلتے رہیں اور بڑے بڑے جرائم کو ان کے لیے ہلکا کر دیں۔ ایسا فقیہ لوگوں کے لیے ہزار شیطانوں سے بھی زیادہ برا ہے۔ اسی طرح ایک نیک و صالح فقیہ ہزار عبادت گزاروں سے بھی بہتر ہے۔‘‘
امام تقی الدین حِصنی شافعی (م:۸۲۹ھ) کا جہاں تک تعلق ہے، تو وہ اپنی کتاب ’’کفایۃ الاخیار فی حل غایۃ الاختصار‘ فرماتے ہیں: ’’مسلمانوں کے فاسق ترین لوگ فقہائے سو ء اور فقرائے نجس (صوفیہ) ہیں جو بار بار ظالموں کی طرف کھنچتےہیں ، یہ جاننے کے باوجود کہ ظالم (حکمراں)شراب پیتے ہیں، مختلف قسم کے گناہوں میں ملوث رہتے ہیں، لوگوں سے محصول اور چنگیاں وصول کرتے ہیں، لوگوں کووہ کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں جن کو کرنے پر ان کا نفس ابھارتا ہے، لوگوں کو خوں ریزی پر مجبور کرتے ہیں اور کوئی انھیں کتبِ سماوی اور رسولوں کی لائی ہوئی تعلیم کی طرف دعوت دیتا ہے اس کا قلع قمع کرتے ہیں۔ایسے ذلیل و پست فقہا اور فقرائے صوفیہ کے کاموں سے تم دھوکا مت کھانا۔‘‘
علامہ حِصنی اس سے بھی ہوشیار کرتے ہیں کہ علماء اگر فاسد حکام سے غیر محتاط میل جول رکھیں گے تو اس سے حکام کے مظالم اور گناہوں کو عام لوگوں کی نظر میں قانونی جواز فراہم ہو جائے گا۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں: ’’سب سے بڑی مصیبت وہ ہے جس کا ارتکاب یہ ظالم حکمراں کرتے ہیں، یعنی …… باطل طریقے سے لوگوں کا مال ہڑپتے ہیں۔ پھر اس مال سے کھانا تیار کراتے ہیں اور اسے صدقہ کرتے ہیں ۔ اس طرح ان کی نحوست (اس کھانے کے توسط سے) غریبوں تک پہنچ جاتی ہے۔ اور اس سے بھی بڑی مصیبت یہ ہے کہ فقہائے سو اور فقرائے نجس انھیں ظالموں کے چکر کاٹتے ہیں……، یہ احمق ترین لوگ یہ نہیں جانتے کہ ان کی اس حرکت سے حرام کاموں کو کر گزرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔‘‘ علامہ حِصْنی کا یہ بھی خیال ہے کہ ظالم بادشاہوں اور سلاطین کی طرف سے دعوت ہو تو علماء کو اس میں شریک نہیں ہونا چاہیے، اس لیےکہ ایسی دعوتیں حاشیہ نشینوں مثلاً عوام اور سرکاری سپاہی — جو ان ظالموں کےقاصد ہوتے ہیں——اور رشوت لینے والے قاضیوں کےلیے ہوتی ہیں۔‘‘
مقام فقہا کی حفاظت
یہی وجہ ہے کہ ماہرینِ اصولِ فقہ کے درمیان اس بات میں اختلاف رہا ہے کہ ’’فاسق‘‘ عالم سے علم لیا جائے یانہیں۔ اکثر ماہرین اصول نے مفتی کی شرائط میں اس بات کو شامل کیا ہے کہ وہ متقی و پرہیزگارہو۔ تقوی و پرہیزگاری وہ عظیم باب ہے کہ سرکاری ادارے سے فقہا کے ربط و تعلق کو اسی باب سے گزرنا ہوتا ہے اور اسی سے طے ہوتا ہے کہ ایک فقیہ سرکاری ادارے کے تئیں کتنا مخلص ہے اور اس کے کاموں پر کتنی اس کی رہنمائی کرتا ہے۔ ہم یہ بات نوٹ کرتے ہیںکہ علامہ سُبکی اور علامہ قَرافی ، دونوں نے ایسے فقہا اور مفتیوں کا ذکر کرتے ہوئے ’’فسق‘‘ کی اصطلاح کا استعمال کی ہے، حالانکہ فقہا کے استعمالات کےلحاظ سے یہ ایک بھاری بھرکم اصطلاح ہے اور اس سے صرف انھیں لوگوں کو یاد کیا جاتا ہے جو گناہِ کبیرہ کے مرتکب ہوتے ہوں۔
لیکن ایک بہت اہم پہلو ہے، جس نے اس اصطلاح کے استعما ل پر مجبور کیا ہے۔ اس پہلو کاتعلق اصحابِ علم کی خودمختاری اور اس کے رعب و دبدبےکی حفاظت سے ہے۔ ا س لیے کہ فقیہ کو عوام الناس پر صرف علمی اختیار حاصل ہوتا ہے جس میں خشیت کی بھی آمیزش ہوتی ہے۔ خشیت سے مربوط یہ علمی اختیار رعب اور احترام کو جنم دیتا ہے جو ایک دوسرے کے متباد ل ہوتے ہیں۔(یعنی احترام کی وجہ سے علماء کا رعب رہتا ہے اور ان کے علمی رعب کی وجہ سے ان کا احترام کیا جاتا ہے۔) اسی سے عوام الناس ا ن کی تقلید و پیروی کو مجبور ہوتے ہیں۔اگر علماء کا یہ رعب ہی زائل ہوجائے یا اس میں خرابی واقع ہو جائے تو اس کا عکس فقہ ، شریعت پر پڑتا ہے، بلکہ بسا اوقات علمائے دین کےسلوک و رویے کی وجہ سے ہی الحاد و بے دینی کی لہر تیز ہوجاتی ہے۔
عوام ہمیشہ علماء کو اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ وہ نفسِ دین کا مجسم وجود ہیں۔وہ حامل اورمحمول (عالم دین اورعلم دین)کے درمیان فرق نہیں کر پاتے۔ اسی لیے فقہاء کی طرف سے علمائے دین کے لیے یہ سخت لہجہ اور داخلی تنقید کا رویہ اختیار کیا گیا ہے۔اس کا مقصد پورے دین کی حفاظت ہے۔ فقہاء کے نزدیک یہ بات طے شدہ ہے کہ اگر علماء بھی کسی غلطی کا ارتکاب کریں تو ایسے علماء کی نکیر کرنا واجب ہے۔ اس لیے کہ ’’علماء کا ایک دوسرے کے تعلق سے غیر جانب داری کا رویہ اختیار کرنااُس امت کی عظیم ترین خصوصیات میں سے ہے جس امت کے ذریعے اللہ نے انسانوں پر اپنی نعمت کو عظیم تر بنا دیا ہے۔‘‘ (ابن حجر الہیتمی [م:۹۸۳ھ]، الفتاوی الفقہیۃ الکبری)
ایک بار محدّثِ کبیر علامہ علی بن المدینی(م:۲۳۴ھ) معتزلی عالم قاضی احمد بن ابی داؤد (م:۲۴۰ھ)سے ملنے چلے گئے۔یہ وہی قاضی ہیں جنھوں نے مسئلہ خلقِ قرآن کے نام سے مشہور مسئلے کی مصیبت برپا کی تھی۔ ان قاضی صاحب کی خدمت میں حاضری دینے پر ہی امام احمد بن حنبلؒ نے علامہ مدینی سے قطع تعلق کر لیا ۔ حالانکہ علامہ مدینی اور امام احمد بن حنبل کے درمیان ذاتی محبت و الفت تھی۔ علمی دروس میں دونوں طویل عرصے تک ایک دوسرے کے ساتھ رہے تھے اور علامہ ذہبی کے مطابق ’’ابن ابی داؤد دراصل ابن المدینی کی مالی مدد کرتے رہتے تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ان کے ہم وطن تھے اور کسی اور وجہ سے بھی مالی مدد کرتے تھے۔‘‘ علامہ ذہبی نے ’’کسی اور وجہ‘‘ کی تعیین نہیں کی ہے، لیکن شاید یہ ’’کوئی اور وجہ‘‘ ایسی تھی جسے علماء ناپسند کرتے تھے۔
اُس وقت کے علماء کی نظر میں یہ کتنی بڑی برائی تھی، اس سلسلے میں علامہ ابن رجب حنبلیؒ (م:۷۹۵ھ)بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’یہ برائی اُن (علی ابن المدینی) پربڑی بھاری پڑ گئی۔ ان کی حالت کسی مرتد کی سی ہو گئی۔ امام احمد بن حنبلؒ نے ان سےروایات لینا ترک کردیا، اسی طرح ابراہیم الحربی (م:۲۸۵ھ)اور دیگر علماء نے بھی ان سے روایت ترک کر دی۔‘‘حافظ ابن رجبؒ کا نقل کردہ یہ واقعہ بیان کرتا ہے کہ علماء کو فقہ و فقہاء کے سلسلے میں دنیوی عوارض سے متاثر ہونے اور ان میں جذب ہوجانےکا کس قدر اندیشہ لاحق رہتا تھا۔
یہاں ان مباحث کا ذکر ہے جن پر علماء نے کتابوں میں اس مقصد سے ایک باب باندھا ہے کہ اپنے ہم عصر علماء کو سلاطین کا مرہون منت بننے سے روک سکیں ، بلکہ اس موضوع سے متعلق علماء نے کتابیں بھی لکھی ہیں، مثلاً محمود بن اسماعیل الخَیربَیتی (م: ۸۳۴ھ) نے ’الدرر الغراء فی نصیحۃ السلاطین و الامراء‘ کےنام سے ایک کتاب لکھی ہے۔ اسی طرح علامہ جلال الدین سیوطیؒ (م:۹۱۱ھ)نے ایک رسالہ اسی موضوع پر’ما رواہ الاساطین فی عدم المجیء الی السلاطین’ کےنام سے لکھی ہے۔
عوام کے ترجمان
فقہائے کرام نے سیاسی اقتدار اور اپنے درمیان ایک فاصلہ قائم کر لیا تھا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ عوام کےمسائل و حالات سے یا ان پر نظر رکھنے سے دست بردار ہو گئے تھے۔ پوری تاریخ اسلامی میں فقہائے کرام ہی غریبوں اور مظلوموں کی آواز تھے۔ یہیں سے فقہا کی زندگی کی وہ سطح نمودار ہوتی ہے جو عوام اور ان کے درمیان ربط اور اس بحث سے متعلق ہے کہ گروہِ علما اور سیاسی اقتدار کے درمیان دوری قائم کرنے میں عوام کا کیا کردار رہا ہے۔
جب بھی کوئی مصیبت یا پریشانی آتی تھی تو عوام الناس علماء کے پاس ہی آتے تھے۔ علماء کی حیثیت اس وقت ایک ایسے علمی و سماجی ادارے کی تھی جو معاشرے کے حالات کا جائزہ لیتا رہتا ہے اور معاشرے میں خلل والے پہلؤوں پر نظر رکھتا ہے۔فقہائے کرام یہ کام دوسرے سماجی اداروں کا مرہون منت ہوئے بغیر کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ نظام الدین القمی نیساپوری (م: بعد۸۵۰ھ) نے اپنی تفسیر قرآن میں ان علمائے سوء سے ہوشیا ر رہنے کو کہا ہے ’’جو عوام کو توقعات اور لالچ کے دام میں پھانس کر دھوکہ دیتے ہیں اور ان کے لیے طلب اور جدوجہدکے راستے بند کر دیتے ہیں۔‘‘
جس وقت اندلس اور مراکش کے سلطان علی بن یوسف بن تاشفین المتونی (م:۵۳۷ھ) نے اپنی فوجی مہموں کو مالی فنڈ دینے کےلیے ٹیکس وصول کرنے کا حکم دیا تو فقہا کی خود مختاری و آزادی ہی تھی جس نے قاضی ابوعبداللہ بن فرّاص اندلسی شہید (م:۵۱۴ھ) کو اس بات پر مجبور کر دیا تھا کہ وہ سلطان کو خط لکھ کر یہ کہیں کہ’’جس مال کی’مدد‘ کا نام دیا جارہا ہے، اسے یتیموں، مسکینوں کے مال میں سے زور زبردستی سے چھینا گیا ہے، اور اس کے ذمہ دار آپ (سلطان) ہیں۔ یہ تمام گناہ آپ کے اعمال نامےمیں درج ہیں اورشاید بعض فقہائے سوء نے آپ کو ایسا کرنے کا مشورہ دیا ہے۔‘‘سلطان پر اس خط کا اثر ہوا اور اس نے (عوام کے مال سے)جمع کیا ہوا’’ ایک تہائی مال اس کےمالکوں کو واپس کر دیا۔‘‘(تاریخ الاسلام /علامہ ذہبیؒ)
اسی قسم کی صورت حال بعد میں دوسرے علماء مثلاً امام العزّ ابن عبدالسلام السلمی (م:۶۶۰ھ) کے ساتھ بھی پیش آئی۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ان فقہاء میں سے تھے جو امت کے مفاد کی خاطر عوامی امور ومسائل کے ذمہ داروں سے الجھ جایا کرتے تھے۔ سیاسی اقتدار کی زیادتیوں کے خلاف ہمیشہ وہ معاشرے اور سماج کے حامی ومددگار بن کر رہے، حتی کہ لوگوں نے انھیں ’سلطان العلماء‘ اور’بائع الامراء‘ کے خطاب سے نوازا۔
مملوک سلطان ظاہر بیبرس (م:۶۷۶ھ) نے ۶۶۶ھ میں تاتاریوں سے مقابلہ آرائی کی مہم کو مالی کمک پہنچانے کے لیے اہل شام پر ٹیکس عائد کر دیا اور اس کے جواز میں فقہاء سے فتاوی بھی حاصل کر لیے ، لیکن امام نوویؒ(م:۶۷۶ھ)نے ان فتووں کو ماننے سے انکار کر دیا اور جب سلطان نے انکارکی وجہ معلوم کی تو اس کے سامنے کھڑے ہو کر وہ حقیقت بیان کر دی جس کووہ سننا نہیں چاہتا تھا۔ انھوں نے فرمایا:’’مجھے معلوم ہے کہ تم امیر علاء الدین بندوق دار کے غلام تھے۔ تمھارے پاس مال و دولت کچھ بھی نہیں تھا۔ پھر اللہ نے مسلمانوں پر حکمرانی کو تمھارے لیے آسان کر دیا اور بادشاہت تمھیں مل گئی۔ میں نے سنا ہے کہ تمھارے پاس ایک ہزار غلام ہیں۔ ہر غلام کے تسمے کی قیمت ایک ہزار دینا ر ہے۔ تمھارے پاس دو سو لونڈیاں ہیں، جن میں سے ہر لونڈی کے پاس زیورات کی ایک صندوقچی ہے جس کی قیمت دس ہزار دینار سے زیادہ ہے۔ جب تم یہ ساری دولت خرچ کر لو گے ۔۔۔۔ اس کے بعد میں یہ فتوی دے دوں گا کہ رعایا سے مال وصول کرنا جائز ہے۔‘‘
پختہ موقف
فقہاء کا یہ پختہ و پرعزم طرز عمل (سلطان یا سیاسی اداروں سے فاصلہ بنا کر رکھنا) محض غیر عادل سلطان کے تعلق سے ہی نہیں تھا ، بلکہ اس معاملے میں عادل و غیر عادل سلطان دونوں برابر تھے۔ یہ فاصلہ اخلاقی اعتبار سے بھی اورگروہِ علماء کے منہج کے اعتبار سے بھی ضروری تھا تاکہ اس جماعت کے احترام و ہیبت کی حفاظت ہو سکے۔فقہاء کا یہ موقف و طرز عمل کوئی ایسا واقعہ نہیں تھا ، جس کا ذکرصرف سیرت و سوانح کی کتابوں میں ملتا ہو، بلکہ فقہ اور اصول فقہ کے جو دروس ہوتے تھے، ان کےمتن میں بھی علماء کا یہ موقف داخل کر دیا گیا تھا تاکہ آئندہ نسل اسے علمی وراثت کے طور پر قبول کرے۔چنانچہ حنفی اور مالکی مسلک کے علماء نے غیر عادل سلطان کو زکوٰۃ دینے کو ناجائز کہا ہے۔اس کی وجہ یہ ہےکہ غیر عادل سلطان ظاہر ہے زکوٰۃ کو اس کےمصارف میں خرچ نہیں کرے گا، بلکہ زکوٰۃ اور زکوٰۃ کے مصارف دونوں کا غلط فائدہ اٹھائے گا۔ اس طرح زکوٰۃ کی ادائیگی معاشرے کو فائدے سے زیادہ نقصان کا باعث بنے گی۔
واقعہ یہ ہے کہ اس قسم کے فتوے صرف علماء اورسرکاری اداروں کے درمیان ہی فاصلہ پیدا نہیں کرتے، بلکہ امت اور سیاسی گلیاروں کے مابین بھی دوریاں پیدا کرتے ہیں۔ البتہ ان فتووں کے بعض مقصدی پہلو بھی ہیں جو سرکاری اداروں پر معنوی سزاتھوپنے کے ہم معنی ہیں، یعنی حاکم کو سزا دینا اور اسے یہ احساس دلانا کہ اسے عوا م الناس کی جانب سے رد کر دیا گیا ہے۔
درحقیقت اکثر ائمۂ فقہ وہ تھے جنھوں نے اس وقت سخت موقف اختیار کیا جب سیاسی اقتدار نے فقہاء کی جانب سے طلب کردہ اصلاحات کو نافذ کرنے سے معذوری ظاہر کی۔ چنانچہ امام مالکؒ نے ایک عرصے تک اس وقت خود کو گھر کے اندر نظربند کیے رکھا اور مسجد نبوی میں نماز اور درس و تدریس کا سلسلہ بھی بند کر دیا جب فتنوں کی کثرت ہو گئی اور خلیفہ نے اپنے اس مقصد کی تکمیل کے لیے انھیں استعمال کرنا چاہا کہ عوام کے سامنے اس کی خلافت کو شرعی جواز عطا کر دیں۔امام مالکؒ کا یہ طرزعمل سیاسی و سماجی زندگی میں شرکت سے اجتناب کے ہم معنی تھا۔ اسی لیے علامہ قرطبیؒ (م:۶۷۲ھ) نے اپنی کتاب ’التذکرۃ‘ میں مالکیہ کی اس علت کو بیان کیا ہے جس کی وجہ سے ان کے امام (مالکؒ) نے جمعہ اور نماز باجماعت سے خود کو روک لیا تھا ۔ وہ علت یہ تھی کہ انھیں یہ اندیشہ لاحق ہو گیا تھا کہ اقتدار ان کی آراء کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرے گا یا علامہ قرطبی کے الفاظ میں: ’’تاکہ انھیں سلطان کے پاس نہ جانا پڑے۔‘‘
خودمختاری کا مسئلہ فقہا اور علمائے شریعت تک ہی محدود نہیں تھا، بلکہ اس میں مختلف مقاصد کی حامل ہر علمی جماعت شامل تھی۔ معتزلیوں کے اولین علماء مثلاً واصل بن عطا(م:۱۳۱ھ)عَمربن عبید (م:۱۴۴ھ) — ——جنھیں امام ذہبی نے ’’عابد و زاہد‘‘ کا لقب دیا ہے —— ان علماء میں سے ہیں جنھوں نے سلطان سے دوری اختیار کیے رکھی اور اس کی مجلسوں میں شرکت کو حرام قرار دیا۔ عبدالقاہر بغدادی (م:۴۲۹ھ) نے اپنی کتاب ’الفَرْق بین الفِرَق‘ میں لکھا ہے کہ ابوموسی المُردار (م:۲۲۶ھ)، جو کہ بغداد کے رؤسائے معتزلین میں سے تھے، وہ زور دار انداز میں اس شخص کے کافر ہونے کا اعلان کرتےتھے جو سلطان (حکمرانِ وقت) سے میل جول رکھتا ہے…..، حالانکہ ان کے پیش رو معتزلی علماء سلطان سے میل جول رکھنے والے کو فاسق کہتے تھے، یعنی جو نہ مومن ہے نہ کافر۔ مرُدارکی اس رائے میں — اگرچہ انتہاپسندی کا عنصر پایا جاتا ہے تاہم — یہ واضح کرتی ہے کہ اس وقت معتزلہ اور دوسرے علماء ایسے لوگوں کوکافر قرار دیا کرتے تھے۔
فقہا کے دو مختلف موقف
تاریخی اعتبار سے حکمرانوں کی جانب سے آنے والے عطایا اور ہدایا کو قبول کرنے کے سلسلے میں فقہاء کےدو گروہ تھے۔ بعض فقہاء بنیادی طور پر انھیں قبول کرنے سے انکار کرتے تھے خواہ یہ ہدیے اور عطایا کسی بھی وجہ سے دیے جا رہے ہوں۔ بلکہ جمہور فقہاء کا موقف یہی تھا۔ ان کا خیال یہ تھا کہ ہدایا کو قبول نہ کرنا ہی انھیں کسی بھی ایسی قسم کی قیود سے آزاد رکھنے کے لیے کافی ہے جو ان کے لیے آزادی و خودمختاری کے ساتھ فتوی دینے میں رکاوٹ بن سکتی ہیں۔ان کے پیش نظر یہ بات رہی ہے کہ اس طرح سلطان کے اختیار میں جومال و اقتدار ہے وہ اس کی طرف لالچ بھری نظر نہیں اٹھا پائیں گے۔
اس قبیل کے فقہاء میں سرفہرست نام امام ابوحنیفہؒ(م:۱۵۰ھ) کا ہے، جنھوں نے عباسی خلیفہ منصور (م:۱۵۸ھ) کی جانب سے پیش کردہ عہدۂ قضا کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا، کیوں کہ وہ’ ’سلطان کی دولت سے دور بھاگتے تھے‘‘، اور اپنی رائے میں علمی خودمختاری کو یقینی بنانے کے لیے ریشم کی تجارت کرتے تھے۔ اسی طرح امام سفیان ثوری تیل کی تجارت کیا کرتے تھے اور اس کا ایک حصہ اپنے چچا کے کا روبار میں لگاتے تھے جو بخارا (اس وقت ازبکستان کا حصہ ہے)میں رہتے تھے۔ اس کا ذکر خطیب بغدادی نے تاریخِ بغداد میں کیا ہے۔
ابونعیم اصفہانی (م:۴۳۰ھ) ’حلیۃ الاولیاء‘ میں روایت کرتے ہیں کہ امام ثوری کے ایک طالب علم نے ان کی تجارتی مصروفیت پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ۔ انھوں نے اسے ڈانٹتے ہوئے جواب دیا: ’’خاموش! اگر (اپنی تجارت سے کمائے ہوئے) یہ دینار نہ ہوتے تو یہ بادشاہ ہمیں اپنے ہاتھ کا رومال بنا لیتے۔‘‘یعنی استعمال کرتے اور پھینک دیتے۔انھی سے امام بیہقیؒ (م:۴۵۸ھ) روایت کرتے ہیں : ’’جب تم قاری (عالم) کو دیکھو کہ وہ سلطان کی پناہ لے رہا ہے تو سمجھ جاؤ کہ وہ چورہے ، اور جب تم اسے مال داروں کی پناہ لیتے دیکھو تو سمجھ جاؤ کہ وہ ریاکار ہے ۔ ‘‘
فقہا کے اسی گروہ سے فضیل بن عیاضؒ(م:۱۸۷ھ) بھی ہیں۔وہ ’’اپنی غربت و حاجت مندی کے باوجود سلطان کے مال میں سے کچھ قبول کرنے بچتے تھے۔‘‘ (خطیب بغدادی)۔ امام احمد بن حنبلؒ (م:۲۴۱ھ) بھی اسی گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔ حکومت کی طرف سے آنے والےکسی بھی قسم کے عطیے کو قبول کرنے سے امام ابن حنبل قطعی انکار کر دیا کرتے تھے، بلکہ انھوں نے سلاطین کے قرابت داروں کے گھروں میں یا ایسے گھروں میں داخل ہونے سے بھی گریز کیا جن میں سلاطین کا کوئی شخص رہتا ہو، یا جس نے ان کی کسی چیز سے فائدہ اٹھایا ہو۔اور اس کی وجہ یہی تھی کہ ان لوگوں نے سلطان کی دولت سے کچھ حاصل کر رکھا تھا۔(ابن کثیر(م:۷۷۴ھ)/البدایۃ والنہایۃ)
امام احمد بن حنبل کا یہ رویہ اس صورت میں تھا جب کہ وہ سیاسی اقتدار کے خلاف انقلاب و بغاوت کے مؤیدین میں سے نہیں تھے۔ یہ واقعہ واضح کرتا ہے کہ دینی اتھارٹی اور سیاسی اقتدار کے درمیان فاصلہ قائم کرنا ایک الگ چیز ہے اور اس سیاسی اقتدار کے خلاف بغاوت یا اس سے کشمکش بالکل دوسری چیز ہے۔ دونوں مسئلے ایک دوسرے سے الگ ہیں اور کسی بھی طرح باہم ایک دوسرے کو لازم و ملزو م نہیں ہیں۔
فقہا کا ایک دوسرا گروہ بھی تھا، جو سلاطین کے تحفوں اور ہدایا کو قبول کرلیا کرتا تھا۔ ان کے اپنےدلائل تھے جن کی بنیاد ان کے نزدیک یہ تھی کہ اُس وقت کے سماجی و معاشی حالات ان ہدایا کو رد کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ ان فقہاٍ میں امام مالک ؒبن انسؓ(م:۱۷۹ھ) بھی تھے، جیسا کہ قاضی عیاضؒ امام مالک کے شاگرد ابوعمران الصدفی سے روایت کرتے ہیں: ’’میں امام مالک کی خدمت میں حاضر ہوا …… میں نے سلطان سے انعامات حاصل کرنے کے بارے میںسوال کیا تو انھوں نے اسے ناپسند فرمایا۔ میں نے عرض کیا:آپ تو قبول کرلیتے ہیں؟ فرمایا: ’’کیا تم میرےبھی اور اپنے گناہ کا بھی بوجھ اٹھانا چاہتے ہو؟‘‘
امام احمد بن حنبلؒکے ایک فرزند(جن کا شمار اہل علم میں ہوتا تھا) کے لیے عباسی خلیفہ متوکل (م:۲۴۷ھ) نے ’’ماہانہ چار ہزار درہم‘‘ کا وظیفہ مقرر کر دیا تھا۔لیکن ان کے والد، یعنی امام احمد بن حنبل نے اسے ناپسند کرتے ہوئے فرمایا: ’’یہ رقم تم کیوں لے رہے ہو؟ جب کہ سرحدیں معطل اور خالی پڑی ہیں اور خراج مستحقین کے درمیان تقسیم نہیں ہو پا رہا ہے!؟‘‘ یعنی انھوں نے اسے لینے سے انکار کرنے کی وجہ یہ بتائی کہ مال کی تقسیم میں عدل و انصاف سے کام نہیں لیا جا رہا ہے۔اس کے بعد فرمایا: ’’اگر مجھے یہ معلوم ہو جائے کہ یہ مال حق کے ساتھ وصول کیا گیا ہے اوراس کو وصول کرنے میں کوئی ظلم و زیادتی نہیں کی گئی ہے تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ تم اسے لے لو۔‘‘
خود مختاری کے عناصر ترکیبی
کئی صدیوں تک شیعہ دنیا میں اسی مسئلے کی وجہ سے فقہی و علمی سرگرمیوں کا بازار گرم رہا، کیوں کہ شیخ الکَرَکی العاملی (م:۹۴۰ھ) نے صفوی سلاطین سے عطایا وصول کرنے کو مباح قرار دیا تھا،حالانکہ فقہ شافعی کے قدیم فتاوی کا ذخیرہ اس کو ناجائز کہتا تھا۔ صفوی سلطنت میں شیخ کرکی کو دینی اعتبار سے حکام کے مرشد اعلی کا عہدہ حاصل تھا۔شیخ کرکی کے اس فتوے کو ان کے رفیق اور معاصر شیخ ابراہیم القطیفی (م:۹۵۰ھ) نے چیلنج بھی کیا تھا۔
شیعہ جماعت اورشیعوں کے علمی طبقے پر اس اختلاف کا بڑا اثر تھا ۔یہ اثرات ہنوز باقی ہیں اور سیاسی و سنجیدہ گفتگوؤں میں آج بھی اس کے اثرات بہت مستحکم ہیں۔ ایک فریق اب بھی سلاطین سے اتحاد اور میل جول سے منع کرتاہے اور ان کے عطایا و ہدایا قبول کرنے سے باز رکھتا ہے، جب کہ دوسرا گروہ ان کے ساتھ لین دین کو جائز و مباح قرار دیتا ہے، خاص طور سے آج جب کہ مذہبی طبقے کو وہی رتبہ حاصل ہو گیا ہے جو تاریخ میں سلطان کو حاصل ہوا کرتا تھا۔ اب تو یہ مذہبی طبقہ ہی دینے اور نہ دینے والا بن گیا ہے ، مثال کے طور پر موجودہ ایران میں والی فقیہ کو یہی رتبہ حاصل ہے۔
ہمیں اس مسئلے پر عمومی انداز میں غور کرنا چاہیے کہ فقہاء کے ذرائع معاش کیا ہوں، کیوں کہ فقیہ کی علمی و اجتہادی صلاحیت کےتعلق سے بہت سی پیچیدہ شرائط کھڑی کر دی گئی ہیں ، جن کو پورا کرنااس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک وہ (معاش وغیرہ کے مسئلےسے) مکمل طور سے فارغ اور درس و تدریس کے لیے یکسو نہ ہو، حالانکہ یہی یکسوئی اکثر اوقات اس کےلیے کسب معاش کے راستے معطل کر دیتی ہے۔
علامہ ابن الجوزی (م:۵۹۷ھ) نے ’صید الخاطر‘ میں اس جانب اشارہ کرتے ہوئےبار بار فقہاء کو یہ نصیحت کی ہے کہ امراء و حکام کی بخششوں اور تحائف سے خود کو بے نیاز رکھیں تاکہ ان کے فتوے کسی غیر علمی اثرات سے متاثر نہ ہوں۔ اسی سلسلے میں ان کا یہ قول ہے: ’’سلاطین کے دروازوں پر علماء پر جو خرچ کیا جا رہا ہے، آپ اس کی طرف توجہ نہ دیں، کیوں کہ اس کی طرف توجہ نہ کرنا عالِم اور علم دونوں کے لیے ڈھال ہے۔ اس کی خواہش رکھنے سے علماء کو جو خسارہ ہوگا وہ حاصل ہونے والے فائدے سے کہیں زیادہ ہوگا۔ سید الفقہاء سعید بن المسیب (م:۳۹ھ) حکمرانوں کے بہکاوےمیں نہیں آتےتھے…… ، تو اے عالم دین، ایسی کمائی کی جدو جہد کیجیے جو آپ کو لالچ سے محفوظ رکھ سکے۔‘‘
فقہا نے مفتی اور قاضی کے لیے ایسے احوال و ظروف پیدا کرنے کی کوشش کی ہے جو ان کی علمی خودمختاری کو یقینی بنانے میں معاون ہوں۔ چنانچہ افتاء کے تعلق سے علمائے مالکیہ کے یہاں یہ طے پایا کہ ’’مفتی کے لیے فتوے پر اجرت لینا جائز ہے ……. اسی طرح فقہاء نے حکومت کا سرکاری مفتی متعین کرنے کا حکومت کی رغبت و خواہش کے حوالے کرنے کے بجائے اس کی ذمہ داری علمائے کرام پر ڈالی ہے تاکہ وہ اپنے معیار کے مطابق اس کاتقرر کر سکیں۔اس کا’’ طریقہ یہ ہے کہ امام (سلطان)جس فقیہ کو مفتی کے عہدے پر فائز کرنا چاہتا ہے، اس کے احوال کے متعلق اپنے وقت کے اہل علم حضرات اور معروف فقہاءسے واقفیت اور مشورہ حاصل کر لےاور جو علماء اور فقہاء کہیں ، اسی پر عمل کرے۔‘‘(خطیب بغدادی:الفقیہ والمتفقہ)
اندلس کے رواج کے مطابق عہدہ قضا پر فائز ہونے کے لیے فقیہ کی شرائط میں سے ایک یہ تھی کہ اس کو اتنا مال دے دیا جائے کہ وہ منصب سنبھالنے سے پہلے مال دار و غنی ہو جائے۔ چنانچہ ابوالولید الباجی اپنی کتاب ’المنتقی‘ میں بیان کرتے ہیں کہ فقیہ کو ’’مسند ِقضا پر اس وقت تک نہ بیٹھنا چاہیے جب تک اسے مال دار و غنی نہ کر دیا جائے اور اس کے ذمے جو قرض ہوں ، انھیں ادا نہ کر دیا جائے……. تاکہ وہ منصبِ قضا کے لیے یکسو اور فارغ ہو جائے اور(رشوت یا تحفے) جیسی ان چیزوں سے محفوظ رہے جو اس کے منصب کو نقصان پہنچانے والی ہیں۔‘‘
اسلامی تاریخ کے اکثر ادوار میں علماء کی جماعت نے اور خاص طور سے فقہاء نے چند تربیتی و منہجی بندشوں اور مالی تحفظ فراہم کرنے والے ذارئع پر اعتماد کیا ہے۔علماء کی خود مختاری کو برسراقتدار حاکم کے دباؤ سے محفوظ رکھنے میں انھوں نے ان ذرائع سے مددلی ہے۔ یہ اہم ذرائع و وسائل درج ذیل ہیں:
محنت کی کمائی
فقہاء و محدثین وغیرہ تمام علماء نے تاریخ کے ابتدائی دور سے یہ کوشش کی ہے کہ مالی خودمختاری کے مسئلے پر قابو پا لیا جائے، کیوں کہ علمی خود مختاری کا سب سے بڑا دروازہ یہی ہے۔ اسی لیے یہ حضرات مختلف تجارتی پیشوں کی جانب متوجہ ہوئے۔ پیشۂ علم کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کی صنعتوں اور پیشوں کو اختیار کیا اور ان پیشوں سے ہی انھیں منسوب کیا گیا، بلکہ علمی حلقوں میں وہ اپنے ان پیشوں کی ہی معرفت پہچانے گئے۔ سیرت و سوانح کی کتابوں میں ان پیشوں کےساتھ ہی ان کا ذکر کیا گیا۔ کوئی عالم وفقیہ حداد (لوہار) تھا، کوئی نجّار (بڑھئی)، کوئی خیّاط (درزی)، کوئی قطّان (دُھنیا، روئی دھننے والا)، کوئی دباغ (چمڑے کا کاروبار کرنے والا)، کوئی صبّاغ (رنگ ریز)، کوئی جصاص (چونے کا کاروبار کرنے والا)، کوئی عطار (عطر فروش)، کوئی صائغ (سُنار)، کوئی ورّاق (کاغد کا تاجر) اور کوئی کتبی(کتب فروش) وغیرہ کے پیشوں سے معروف و مشہور ہوا۔
اس سلسلے میں اگر کوئی اپنے علم میںمزید وسعت واضافہ چاہتا ہے تو اسے امام ابوسعد السمعانی المروزی (م:۵۶۲ھ) کی کتاب ’الانساب‘ کا مطالعہ کر لینا چاہیے۔ اس میں انھوں نے سینکڑوں ایسے علماء کا ذکر کیا ہے جو اپنے پیشے اور کاروبار کی نسبت سے معروف ہوئے۔ اسی طرح ان لوگوں کے بارے میں بھی بتایا ہے جنھوں نے ان پیشوں میں کام کرنے والے علماء کی سیرت کے بارے میں کتابیں تصنیف کی ہیں۔مثلاً ابوعبداللہ محمد بن اسحاق سعدی ہروی نے ’الصنّاع من الفقہاء والمحدثین’ (صنعت کار فقہاء و محدثین) لکھی ہے۔
جدید دور کےمحقق عبدالباسط بن یوسف الغریب نے ایک تحقیق کی ہے جسے انھوں نے ’’الطرفۃ فی من نسب من العلماء الی مہنۃ او حرفۃ‘ (ان علماء پر ایک نظر جن کا تعلق کسی پیشے یا ہنر سے رہا ہے) کے نام سے پیش کیا ہے۔اس کتاب میں انھوں نے تقریباً ۱۵۰۰ علماء کی سوانح پیش کی ہے جن کا تعلق ۴۰۰سے زیادہ قسم کے پیشوں اور صنعتوں سے رہا ہے اور انھی پیشوں اور صنعتوں کے ذریعے وہ کسب معاش کرتے تھے۔ ان پیشوں اور صنعتوں نے انھیں بیت المال سے ملنے والے ہدایا اور خلیفہ یا سلطان کی بخششوں سے بے نیازکیے رکھا اور علمی تحقیق و تدریس میں معاون بنے، بلکہ اکثر ان کےشاگردوں کی کفالت کا ذریعہ بھی بن جاتے تھے۔
نظام اوقاف
قدیم زمانے میں اوقاف کا نظام گروہِ علماء کی خود مختاری کا ہر پہلو سےبنیادی سہارا ہوا کرتا تھا۔ عالم اسلام میں بالعموم علمی دانش گاہوں، اساتذہ وطلبہ اور ان سے متعلق خدماتی سہولتوں پر کثیر تعداد میں اوقاف کا نظام کا سایہ ہوتا تھا۔ اوقاف کا یہ نظام علمی میدان سے آگے بڑھ کر معاشرے کی تمام علمی سہولتوں اور لوازمات مثلاً طبی مدارس، فلکیاتی رصدگاہوں وغیرہ کی ضرورتیں پوری کرتا تھا۔
صاحب ثروت اوربعض اہل خیر امراء ان اداروں کے لیے دولت کو وقف کرنے میں ایک دوسرے سے مقابلہ آرائی کیا کرتےتھے۔ سلجوقی وزیر نظام المُلْک (م:۴۸۵ھ) کے بارے میں علامہ سبکیؒ ’’طبقات الشافعیہ‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’کہا جاتا ہے کہ عراق اور خراسان کے ہر شہر میں نظام الملک کا ایک مدرسہ قائم تھا۔‘‘ علامہ ابن الجوزی ذکر کرتے ہیں کہ اس وزیر نے بغداد کے اندر ۴۵۹ھ میں جو مدرس’’نظامیہ‘‘ قائم کیا تھا، اس کے لیے اپنے فارم، املاک اور بازار سب وقف کر دیے تھے اور ہر مدرس اور مدرسے کےہر کارکن کے لیے وقف کا ایک حصہ مختص کر دیا تھا۔
ڈاکٹر مصطفی السباعی (م:۱۹۴۶ء) اپنی کتاب ’من روائع حضارتنا‘ (اسلامی تہذیب کے چند درخشاں پہلو) میں یہ بتاتے ہیں کہ ملکِ شام کے اندر علم وعلماءکی حفاظت و نگہداشت کے سلسلے میں وہاں کےنظام اوقاف کا کیا کردار رہا ہے ۔ وہ نُعیمی دمشقی (م:۹۲۷ھ) کے حوالے سے لکھتےہیں کہ انھوں نے اپنی کتاب ’الدارس فی تاریخ المدارس‘میں لکھا ہے: ’’صرف دمشق کےاندر قرآن کریم کی تعلیم کے لیے مختص سات مدارس تھے، حدیث کےلیے سولہ اور قرآن و حدیث دونوں کی مشترکہ تعلیم کے لیے تین مدارس تھے۔ فقہ شافعی کے ۶۳ مدارس، فقہ حنفی کے ۵۲، فقہ مالکی کے چار اور فقہ حنبلی کے گیارہ مدارس تھے۔یہ طبی مدارس، علمی مجالس،اور ان سرائے اور خانقاہوں کے علاوہ تھے، جن کی حیثیت بھی مدارس کی ہی تھی اور ان میں لوگ تعلیم حاصل کرتے تھے۔‘‘
عہدِ مملوکی کے سلطان اشرف قائتبائی (م: ۹۰۱ھ) کے زمانے میں مصر کے ایک بڑے تاجر کو جامعہ ازہر کی تعمیر میں حصہ لینے سے دلچسپی ہوئی۔ اس نے اس یونیورسٹی کے مینار کی تعمیرِ نو کی اور اسے سلطان قائتبائی کے نام سے موسوم کیا۔ طلبہ کے لیے درالاقامہ قائم کیا اور علماء نیز ا س میں پڑھنے والے طلبہ کے لیے متعدد رفاہی اوقاف کا انتظام کیا۔عثمانی دور کے سلطان سلیمان القانونی (م:۹۷۴ھ) نے بھی جامعہ ازہر کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ۔ خلافت عثمانیہ نے جامعہ کے علماء اور اس سے وابستہ لوگوں کےلیے اوقاف کی جائیدادیں مختص کیں۔
کیا خود مختاری معدوم ہو گئی؟
علماء کی خودمختاری کو نقصان پہنچانے والے بہت سے عوامل یکجا ہو گئے تھے۔یہ وہی عوامل ہیں جو موجودہ دورکے نظام حکومت میں اس خودمختاری کے مکمل طور پر خاتمے کی تمہید ثابت ہوئےہیں۔ مغربی استعمار کے ہاتھوں نظام اوقاف کو کالعدم کر دیا گیا۔ جس کی ابتدا ۱۲۹۵ھ مطابق ۱۸۴۳ء میں فرانس نے ایک حکم نامے سے ہوئی ۔ اس حکم نامے کی رو سے الجزائر کی سرزمین پر فرانسیسی قبضے کے بعد اوقاف کی تمام جائیدادیں کالعدم قرار دی گئیں۔ فرانسیسی استعمار سے آزادی ملی تو وجود میں آنے والی نئی سیاسی طاقتوں نے انھیں اپنے قبضے میں لے لیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بحیثیت مجموعی علماء کی خودمختاری و آزادی کا مسئلہ ایک مشکل امر بن گیا ، جس کے حل کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں حائل ہو گئی ہیں۔لیکن انفرادی حیثیت میں بعض مخصوص اسباب ایسے رہے ہیں کہ یہ چیز بھی کچھ علماء کی خودمختاری کو ختم نہیں کر پاتی ۔
علماء کی خود مختاری کے ختم ہونے کا اہم ترین سبب وہ ہے جس کا تعلق جدیدت کی لہر اور خود موجودہ نظام حکومت کے مزاج و انداز سے ہے۔عالِم، خواہ اس کا تعلق علم کے کسی بھی شعبے سے ہو، آج کسی نہ کسی سرکاری ادارے سے وابستہ ہے۔ ہر مہینے اسی ادارے سے تنخواہ پاتا ہے، یہ تنخواہ حکومت سے آتی ہو یا کسی پبلک یا پرائیویٹ ادارے سے آتی ہو، دونوں برابر ہیں۔اسی کے ساتھ اس کے لیے تجارت کےمیدان میں کام کرنا بھی مشکل ہے جو خود اب ایک ادارے کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
موجودہ نظام حکومت ایک ایسا نظام ہے جو فیصلو ں اور قانون سازی کے معاملے میں مرکزیت کا حامل ہے۔ یہ نظام اپنے تمام وسائل اور اداروں کے ساتھ ہر اس معاملے میں خودرائے ہے جس کا تعلق تعلیم ، صحت اور رفاہی اموروغیرہ سے ہے۔ ان تمام اداروں سے متعلق قوانین مرکزی حکومت ہی بناتی ہے، جس کی وجہ سے علماء کی خودمختاری کو قدیم صورت میں اور اسی انداز میں حاصل کرنا ایک مشکل مسئلہ بن گیا ہے۔
اسی لیےگروہِ علماء اس بات کا سخت محتاج ہے کہ کچھ ایسے تخلَیقی ماڈل ایجاد کیے جائیں جو ان کی خودمختاری کی حفاظت کر سکیں۔شاید مشرق ومغرب کے معاصر علمی حلقوں کا مطالعہ و جائزہ اس سلسلے میں کارآمد رہے گا ۔ یہ جائزہ لیا جانا چاہیے کہ علماء کی جماعت سیاست اور اہل سیاست سے خود کو الگ کس طرح رکھ سکتی ہے تاکہ علماء کے حلقے سے قابل قدر اور ٹھوس علمی نتائج سامنے آسکیں۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ علماء کی خودمختاری کا محوراول و آخر اس کا دینی ضمیر اور اس کی خشیت و تقوی ہے اور یہ چیزیں حاصل ہوتی ہیں علمی مدرسیت سے، اور اس چیز سے کہ تعلیمی ارتقاء کے کیا طریقے کیے جارہے ہیں اور کن مناہج پر مدارس میں تعلیم دی جاتی ہے۔
مشمولہ: شمارہ مئی 2020