امت کی تمکین و ترقی اور تہذیبی قوت

انسانی گروہوں کی تمکین و ترقی میں ایک اہم کردار تہذیبی قوت (cultural power)کا بھی ہوتا ہے۔ اس سے قبل امت کی تمکین (empowerment)اور ترقی کے مختلف پہلوؤں کو زیر بحث لاتے ہوئے ہم مقصد کے اشتراک، علمی ترقی، معاشی ترقی وغیرہ پر گفتگو کرچکے ہیں۔تہذیب اور تہذیبی قوت کسی انسانی گروہ کی طاقت و قوت کا اہم سرچشمہ ہوتی ہے ۔ جہاں تک ہندوستانی مسلمانوں کا تعلق ہے، ہمارا خیال ہے کہ یہ ان کی قوت کا بہت اہم سرچشمہ ہے (ہم اگلی سطروں میں اسےواضح کریں گے) اور ان کی اساسی طاقتوں (core strengths) میں شامل ہے۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس پر توجہ بہت کم ہے اور امت کی تمکین و ترقی کی بحث میں تہذیبی قوت اور تہذیبی وسائل بہت کم زیر گفتگو آتے ہیں۔ ذیل کی سطروں میں ہم تہذیبی قوت اور تمکین و ترقی سے اس کے تعلق کو بھی زیر بحث لائیں گے اور اس حوالے سے ہندوستانی مسلمانوں کی صورت حال کا جائزہ بھی لیں گے۔

تہذیب کیا ہے؟

تہذیب کیا ہے؟ یہ سوال ماہرین سماجیات کے درمیان ہمیشہ بحث و مجادلے کا موضوع رہا ہے۔ تہذیب، تمدن، ثقافت اور حضارت (culture and civilisation)ان سب اصطلاحات کے معنوں اور ان کے درمیان فرق سے متعلق مختلف تصورات اور نظریات پائے جاتے ہیں۔ مختلف علوم میں ان کی تعریفوں میں کچھ کچھ فرق بھی ہے اور بہت سے لوگ ان سب اصطلاحات کو ان کے مجموعی معنوں میں مترادفات کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔ہم یہاں اصلاحی معنوں کی بحث میں گئے بغیر، عام چلن کے مطابق، تہذیب و ثقافت (culture and civilisation)کے مجموعے کو تہذیب کے لفظ سے تعبیر کررہے ہیں۔

ہر انسان، اپنی سرگرمیوں کے مقصود کے طور پر، یا اپنے اعمال کے حسن و قبح کی کسوٹی کے طور پر کچھ قدروں کا تصور رکھتا ہے۔ یہ قدریں بنیادی طور پر تین طرح کی ہوتی ہیں۔ روحانی قدریں (spiritual values) ، اخلاقی قدریں(Ethical values) اور جمالیاتی قدریں( aesthetic (values۔یعنی حق، خیر اور حسن۔ ان تینوں طرح کی قدروں کے مطابق انسانی اعمال کی تشکیل اور تمدنی مظاہر کی تعمیر تہذیب ہے۔ ہر تہذیب اپنے عقیدے اور ورلڈ ویو کے مطابق ان تینوں کے بارے میں کچھ خاص تصورات رکھتی ہے۔ روحانی، اخلاقی اور جمالیاتی قدریں کیا ہوں؟ اور ان کے درمیان ترتیب و ترجیح کی کیا شکل ہو؟ اس سوال کے جواب میں ہر تہذیب کے اپنے تصورات اور معیارات ہوتے ہیں۔ یہ تصورات اور معیارات ہی اس کو دوسری تہذیبوں سے ممیز کرتے ہیں۔

اسلام، عقیدہ توحید کی اساس پر اور قرآن و سنت کی تعلیمات کو اصل سرچشمہ مانتے ہوئے، حق، خیر اور حسن کے مختلف پہلوؤں کے متعلق اپنے نظریات رکھتا ہے اور ان قدروں کو اسی ترتیب میں اہمیت دیتا ہے۔ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ؒ کے الفاظ میں :

“اگرچہ حقیقت، خیر اورحسن مستقل بالذات قدریں ہیں لیکن ان میں باہمی ربط پایا جاتا ہے اور ان کے درمیان فرق مراتب بھی ممکن ہے۔لیکن کسی قدر کی تحصیل کے لیے غیر فطری راہیں اختیار کی جائیں تو دوسری قدر مجروح ہوتی ہے۔ ان قدروں کے درمیان فطری توازن اسی وقت برقرار رہتا ہےجب حقیقت کو اولیت حاصل ہواور خیر کے تصورات، حقیقت سے ہم آہنگ ہوں۔ قدر جمال کا رتبہ سب سے آخر ہے اور اس کا فطری مقام یہ ہے کہ اسے حقیقت اور خیر کے تصورات کے تابع رکھا جائے۔”[1]

اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک خوب صورت عریاں پینٹنگ مغربی تہذیب کی نمائندہ ہوسکتی ہے کیوں کہ ان کے اخلاقی تصورات بھی مختلف ہیں اور ان کے یہاں اخلاق کو جمالیات پر ترجیح دینے کا تصور بھی مفقود ہے، لیکن ایسا فن پارہ اسلامی تہذیب کی نمائندگی نہیں کرسکتا کیوں کہ وہ روحانی اور اخلاقی قدروں کو مجروح کرتا ہے (بلکہ واقعہ یہ ہے کہ یہ ایک مسلمان کے ذوق جمالیات پر بھی گراں ہوتاہے کیوں کہ عفت و حیا صرف اخلاقی قدر نہیں ہے، اس کا ایک جمالیاتی پہلو بھی ہے)۔ دوسری طرف ایک بے ڈھب اور بدنما ڈیزائن سے بنائی ہوئی مسجد کی عمارت بھی تہذیبی معیار کی نمائندہ نہیں ہے کیوں کہ بے شک اس میں کوئی روحانی یا اخلاقی عیب نہیں پایا جاتا لیکن چوں کہ وہ ذوق جمالیات کی تسکین کا سامان نہیں کرتی، اس لیے اس کا تہذیبی معیار بھی کم تر مانا جائے گا۔ حقیقت اور خیر کی ترجمانی کرنے والی کتنی ہی اچھی باتیں بے ڈھنگی تک بندی کے ذریعے کہی جائیں وہ شعر و ادب کا فن پارہ نہیں کہلاسکتی اور غریبوں کے گھر اجاڑکر تعمیر کیے جانے والے خوب صورت ایر پورٹ کی بھی اسلامی تہذیب روادار نہیں ہوسکتی کیوں کہ یہ عدل و مساوات کی اخلاقی قدر کو مجروح کرنے والا پروجیکٹ ہے۔[2]

اصول فقہ میں ضروریات، حاجیات اور تحسینیات کی جو درجہ بندی ہے اس سے بھی، تہذیبی قدروں کے درمیان ترجیحات کے اسلامی تصور کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ علمائے اصول کے مطابق ضروریات کا مطلب و ہ بنیادی امور ہیں جن کے بغیر دین، جان، نسل، عقل اور مال کی حفاظت ممکن نہ ہو۔ حاجیات سے مراد وہ امور ہیں جن کے نہ ہونے سے زندگی پُر مشقت اور دشوار ہوجاتی ہے اور تحسینیات وہ امور ہیں جو زندگی میں حسن و سلیقہ پیدا کرتے ہیں۔ یہ فقہ کا اہم اصول ہے کہ ان مقاصد کو اسی ترتیب میں اہمیت دی جائے گی۔ وضو اور اس کے ذریعے پاکیزگی کا حصول، ایک تحسینی مقصد ہے جو عام حالات میں ضروری ہے لیکن وضو سے جان کو خطرہ ہو تو تیمم کی اجازت ہے اس لیے کہ جان کی حفاظت ضروری مقصد ہے اور اسےتحسینی مقصد پرترجیح حاصل ہے بلکہ قریب میں پانی میسر نہ ہو تب بھی تیمم کی اجازت ہے کیوں کہ پانی کے لیے طویل سفر ایک پر مشقت کام ہے اور ایسی مشقت کو دور کرنا ایک حاجی مقصدہے۔[3]

الجیریا کے مشہور عالم و دانش ور مالک بن نبیؒ(1905-1973)، عصر حاضر میں اسلامی تہذیب پر کام کرنے والے غالباً سب سے قدآور مصنف ہیں۔[4] انھوں نے بھی چا ر چیزوں کو تہذیب کے جوہری عناصر (العناصر الجوھریة اللازمة للثقافة) قرار دیا ہے۔یہ چار چیزیں، اخلاقی دستور (الدستور الخُلقی)، ذوق جمال (الذوق الجمالی)، پریکٹیکل لاجک (المنطق العَملی) اور صنعت و ٹکنالوجی (الصناعة أی التقانة) ہیں۔[5] مالک بن نبی کے نزدیک تہذیب اصلاًتوازن(equilibrium)کانام ہے۔ [6] جب ان تمام عناصر میں توازن پیدا ہو اور مادی اورروحانی و اخلاقی تقاضوں کے پلڑے برابرہوں تو تہذیب ترقی کرتی ہے اور تہذیبی قوت حاصل ہوتی ہے۔

اسلام، ان خصوصیات کی حامل ایک بڑی خوب صورت تہذیب پیدا کرتا ہے۔ اس میں روحانی و اخلاقی قدروں کا کما ل بھی ہے اور ان کے جمالیاتی اظہار میں حسن و لطافت کی نہایت اعلیٰ سطح بھی پائی جاتی ہے۔ یہ تہذیب انسان کی فطرت سے بھی نہایت قریب ہے اور اس کے اعلیٰ ذوق جمال سے بھی۔روحانی، اخلاقی اور جمالیاتی، تینوں قدروں کا بھرپور ظہور صرف عام تمدنی مظاہر میں نہیں ہوتا بلکہ عبادتوں تک سے ان کا اظہار و تربیت ہوتی ہے۔ باجماعت نماز، اپنی روحانی و اخلاقی خصوصیات کے ساتھ ایک حسین و جمیل اور آنکھوں کو لبھانے والا دل ربا منظر پیش کرتی ہے۔ عبادت کے لیے طہارت و پاکیزگی کی شرط، وضو ومسواک کا اہتمام، لباس کی شائستگی اور جگہ کی صفائی یہ سب اعلیٰ جمالیاتی ذوق کی تربیت ہے۔ یعنی اس تہذیب کے اندرونی وسائل نہایت بااثر اور پر کشش ہیں اوریہ تہذیب جب بھی اپنی خصوصیات کے ساتھ ظہور پذیر ہوگی ضرور اثر و رسوخ پیدا کرے گی۔

تہذیبی قوت اور تہذیبی سرمایہ (cultural capital)

تہذیبی قوت کیا ہے؟ اس کی اکیڈمک تعریف یہ بیان کی گئی ہے کہ تہذیبی قوت اُس سماجی اثر کا نام ہے جس کے نتیجے میں حقائق و واقعات کے سلسلے میں لوگوں کی سوچ متاثر کی جاتی ہے اور ان کے اعمال و اقدامات کو جبر اور لالچ سے کام لیے بغیر مطلوب رخ دیا جاتا ہے۔ [7] تہذیبی قوت کا ایک اہم عنصر تہذیبی سرمایہ (cultural capital)ہے۔جدید سماجیات میں، تہذیبی سرمائے کا وہ تصور جو، فرانسیسی ماہر سماجیات پییر بورڈیو Pierre Bourdieu)1930-2002) نے پیش کیا تھا، کافی مقبول و معروف ہوا۔ اس تصور کے مطابق سماج میں انسان کی ترقی اور اس کی طاقت و اثر و رسوخ میں اس کے تہذیبی سرمائے کا اہم رول ہوتا ہے۔ [8] تہذیبی سرمایہ افراد کو سماج میں ترقی و بالاتری کی سیڑھیاں چڑھنے (mobility)میں مدد کرتا ہے۔[9] تعلیم کے ساتھ ساتھ،فنون، آداب و اطوار، ادب و فنون لطیفہ، جمالیات، رہن سہن اور طرز زندگی وغیرہ سے افراد کا تہذیبی معیار متعین ہوتا ہے اور ‘ذوق (taste)کی تشکیل ہوتی ہے۔[10] اعلیٰ ذوق، تہذیبی سرمایہ تشکیل دیتا ہے اور یہ سرمایہ، قوت و طاقت اور اختیار اور اتھارٹی فراہم کرتا ہے۔[11]

معاصر معاشیات میں بھی تہذیبی سرمائے کے تصورات ملتے ہیں۔ یہاں تہذیبی سرمائے سے مراد وہ تہذیبی و ثقافتی اثاثے ہوتے ہیں جن سے معاشی فائدہ ممکن ہوتا ہے۔[12] اس طرح کے اثاثے ٹھوس اور محسوس شکل (tangible)میں بھی ہوسکتے ہیں (جیسے تاریخی آثار،عمارتیں، آرٹ کے نمونے، فن پارے وغیرہ) اور غیر محسوس (intangible)بھی ہوسکتے ہیں (جیسے ادب، شاعری، روایات، اقدار، آداب و اطوار وغیرہ)[13] ماہرین معاشیات کے نزدیک موجودہ دور میں ان تہذیبی اثاثوں کی معاشی اہمیت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور ان اثاثوں کے حامل گروہ، اس کی وجہ سے معاشی اور سماجی اثرو رسوخ اور طاقت حاصل کرتے ہیں۔[14]

ہمارے خیال میں اسلامی تہذیب کے تناظر میں تہذیبی قوت کو سمجھنے کے لیے یہ اکیڈمک تعریف مددگار ضرور ہے لیکن ناکافی ہے۔ اس لیے ہم تہذیبی قوت کو سمجھنے کے لیے کچھ اور وسائل سے مدد لیں گے۔

تہذیبی قوت کو سمجھنے کے لیے مالک بن نبیؒ کی ‘تہذیبی مساوات’ سے بڑی مدد ملتی ہے۔ انھوں نے تہذیب کا مطلب ایک مساوات کے ذریعے واضح کیا ہے۔[15]

تہذیب =انسان +مٹی +وقت

آگے انھوں نے تفصیل سے یہ بات بھی واضح کی ہے کہ یہ تینوں عناصر دینی فکر کے تابع ہوکر جب بروئے کار آتے ہیں تو تہذیب پروان چڑھتی ہے۔ہم اس مساوات کو بدل کر اس طرح کرسکتے ہیں۔

تہذیب =مذہبی فکر و عقیدہ × (انسان +مٹی +وقت)

اس مساوات میں انسان سے مراد انسان کی ضروریات بھی ہیں اور اعلیٰ انسانی قدریں اور انسانوں کے لیے دنیا میں سکون و آسائش کی فراہمی اور آخرت میں ان کی فلاح و نجات کی شرطیں بھی شامل ہیں۔ مٹی سے مراد مادہ، تمام مادی وسائل اور وسائل کائنات ہیں اور وقت سے مراد عصر حاضر کے تقاضے اور اس کی ضرورتیں ہیں۔ یہ تینوں عناصر جب مذہبی فکر و عقیدے سے ہم آہنگ ہوجاتے ہیں اور تہذیبی گروہ کو اپنے عقیدے اور فکر کے مطابق، ان تینوں عناصر پر قدرت حاصل ہوتی ہے تو تہذیب اپنے کمال کو پہنچتی ہے اور تہذیبی قوت حاصل ہوتی ہے۔ گویا،اپنے فکرو عقیدے کے مطابق، اور عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوکر، انسانی ضرورتوں کی تکمیل اور انسانی جذبات کی تسکین اور اس کی خاطر مادی وسائل کو مفید بنانے کی اجتماعی صلاحیت تہذیبی قوت ہے۔

ہم اس کو اس طرح بیان کرنا چاہیں گے کہ حق کا مخصوص تصور اور خیر کا مخصوص شعور جب اجتماعی طور پر جمالیاتی طریقے سے ظہور پذیر ہوتا ہے اور تہذیبی گروہ کے تمام رویوں کے ذریعے اس کی پر اثر شہادت ہوتی ہے تو تہذیبی قوت حاصل ہوتی ہے۔یہ اجتماعی اظہار و شہادت جتنی طاقت ور اور بااثر ہوگی، تہذیبی قوت اتنی ہی زیادہ ہوگی۔ اس میں پہلی شرط حق کے مخصوص تصور اور خیر کے مخصوص شعور کے اجتماعی اظہار کی ہے۔ یعنی تہذیبی گروہ اپنے عقائد، اخلاقی اصولوں، تصوراتِ حیات وغیرہ سے گہری وابستگی رکھے۔یہی تہذیب کی اساس اور بنیاد ہے۔ لیکن دوسری شرط اس کا بااثر جمالیاتی اظہار بھی ہے۔ یعنی ادب و فنون لطیفہ، تمدنی مظاہر اور طور طریقوں وغیرہ میں مسلسل تخلیقی عمل (creativity)کے ذریعے ان اصولوں کا پر اثر اور پر کشش اظہار بھی ہوتا رہے اوران کے، خوش گوار اور حیران کن تاثر پیدا کرنے والے عملی نمونے بھی مسلسل سامنے آتے رہیں۔

تہذیبی قوت اور تمکین و ترقی کا تعلق

یہ عام مشاہدہ ہے کہ سماج میں ایک مہذب آدمی کو عزت و توقیر حاصل ہوتی ہے اور اس کی بات کو وزن ملتا ہے۔ یہی بات سماجی گروہوں کے سلسلے میں بھی درست ہوتی ہے۔ عام طور پر تہذیب کے ساتھ قوت و طاقت کے دیگر سرچشمے یعنی علم، دولت، سیاسی رسوخ وغیرہ بھی وابستہ ہوتے ہیں لیکن یہ سب نہ ہوں تب بھی محض تہذیب کی وجہ سے ایک گروہ کو سماجی رتبہ حاصل ہوتا ہے۔

تہذیبی قوت کے بغیر طاقت و اثرا ندازی اور تمکین (empowerment)اور ترقی کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ کسی انسانی گروہ کو سماج میں امتیاز، بالاتری اور اثر و رسوخ اصلاً تہذیبی قوت ہی سے حاصل ہوتا ہے۔

تہذیبی قوت، انسانی گروہوں کو مجموعی سماج میں بہتر نمائندگی اور عزت و توقیر عطا کرتی ہے۔ اس قوت کے نتیجے میں تہذیبی گروہ، پورے سماج کے عقیدوں، قدروں، معمولات social) (norms، رواجوں، اور علامتوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کی تشکیل نو کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں انھیں یہ قدرت حاصل ہوجاتی ہے کہ سماجی شناختوں (identities)کو نئے معنی پہنائیں، سماجی مباحث (discourse)کا ایجنڈا طے کریں، اور ان مباحث اور بیانیوں (narratives)کو مطلوب رخ دیں۔تہذیبی قوت نئے تخلیقی آئیڈیاز کے ذریعے سماج کی تعمیر نو میں کردار ادا کرتی ہے۔ا یک مہذب گروہ، سماج کو دینے والا (producer and contributor)ہوتا ہے۔باقی سماج اس کی دَین (contribution)کی وجہ سے، اس کا احسان مند ہوتا ہے۔ سماجی قوت کا ظہورلائف اسٹائل، آرٹ، ادب، فنون لطیفہ، فیشن، میڈیا، زبان، اور علوم و فنون کے ذریعے ہوتا ہے۔[16]

تہذیبی قوت کے حامل گروہ کو سماج میں چل رہے مباحث پر بہتر کنٹرول حاصل ہوتا ہے۔ اس گروہ کے بارے میں غلط بات عام کرنا مشکل تر ہوتا ہے۔ اس کی شناخت کے ساتھ، عزت و احترام اور وقار و منزلت وابستہ ہوجاتی ہے۔ اور اپنی شناخت کو باقی رکھنا اور اس پر اصرار کرنا اس کے لیے مشکل کام نہیں رہ جاتا۔ اس کا تہذیبی ورثہ، اس کی روایات، اقدار اور اس کا رہن سہن باعث فخر ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اپنے تہذیبی ورثے اور زبان، ادب اور فنون لطیفہ کی حفاظت اس کے لیے آسان ہوجاتی ہے۔ تعصبات اور حاشیے پر چڑھانے کی کوششوں کا مقابلہ کرنا اس کے لیے آسان رہتا ہے۔

تہذیبی قوت، سیاسی اثر و رسوخ بھی بڑھاتی ہے۔ جب کسی گروہ کے تہذیبی کنٹری بیوشن سماج میں اہمیت اختیار کرجاتے ہیں تو اس کی رائے کو اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ فیصلہ سازی اور پالیسی سازی میں اس کی شمولیت خود بخود بڑھ جاتی ہے۔ اسی طرح تہذیبی قوت، معاشی قوت بھی بڑھاتی ہے۔ تہذیبی قوت کے بہت سے اجزا کی معاشی اہمیت ہے۔ جب آپ تعلیم میں آگے بڑھتے ہیں تو معاشی قدر بڑھ جاتی ہے۔ تہذیبی قوت، صنعتی پیداوار اور ایجاد و اختراع کی لیاقت پیدا کرتی ہے جو معاشی ترقی میں اصل اور سب سے اہم عامل ہوتا ہے۔

اس سلسلہ مضامین میں ہم سماجی سرمائے کو زیر بحث لاچکے ہیں۔ سماجی سرمائے کا گہرا تعلق تہذیبی قوت سے ہے۔ تہذیبی قوت، مشترک قدروں، مشترک ترجیحات اور مشترک معمولات کا مزاج گروہ کے تمام ارکان میں پروان چڑھاتی ہےجس سے سماجی سرمایہ بڑھتا ہے اور گروہ طاقتور اور بااثر ہونے لگتا ہے۔

تہذیبی قوت، دوسرے تہذیبی گروہوں کو بھی قریب کرتی ہے۔ ان پر اثر و رسوخ بڑھاتی ہے۔ خود پر ان کا انحصار بڑھاتی ہے جس سے تعصبات، غیر صحت مند مسابقت اور حریفانہ کشمکش کم ہوتی ہے۔

تہذیبی قوت اور تہذیبی سرمائے کو سمجھنے کے لیے ہم اپنے ملک کے مختلف سماجی گروہوں کی تہذیبی صورت حال پر نظر ڈال سکتے ہیں۔ لبرل اور بائیں بازو کے عناصر سیاسی قوت سے محروم ہیں۔وہ دولت کی بھی غیر معمولی قوت نہیں رکھتے لیکن تہذیبی قوت کی وجہ سے وہ ایک صدی سے ملک کے اجتماعی فکر کو متاثر کررہے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ادب، فنون لطیفہ، فلم، آرٹ ان سب پر قدرت انھوں نے حاصل کی ہے۔[17] ہندتو فرقہ پرست طاقتیں، اپنی زبردست قوت و طاقت کے باوجود، ان لبرل عنصر کی تہذیبی قوت کے سامنے کئی دفعہ بے بس محسوس ہوتی ہیں۔ عیسائی مشنریوں کی تہذیبی قوت ان کے تعلیمی و رفاہی ادارے ہیں جس کے نتیجے میں اپنی آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ سماجی اثر و رسوخ انھوں نے حاصل کرلیا ہے۔ [18]سکھوں کی تہذیبی قوت ان کی خدمت خلق اور ان کے لنگر ہیں۔[19] پارسی، جین، مارواڑی وغیرہ تجارتوں پر غالب ہیں جو اصلاً انھیں معاشی قوت فراہم کرتے ہیں لیکن اس کا ایک پہلو تہذیبی قوت بھی ہے۔ ان کی تجارتیں ا ن کو ہر جگہ موجود رکھتی ہیں، ہر ایک سے جوڑتی ہیں، جس کے نتیجے میں اپنے خیالات، سوچ، اپنے طرز ہائے حیات، پکوان، لباس وغیرہ کے ساتھ اپنی تہذیبی قدروں کو فروغ دینے میں بھی ان کو مدد ملتی ہے۔ [20]مسلمانوں کے درمیان میمن برادریوں کو بھی یہ تہذیبی قوت حاصل ہے۔

حالیہ عرصے میں فرقہ پرست ہندتو طاقتوں نے اپنی تہذیبی قوت بڑھانے پر خصوصی توجہ دی۔ سیاسی ودیگر مراکز قوت میں اپنی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے میڈیا کو متاثر کیا اور ڈسکورس اور بیانیوں پر اثر انداز ہونے لگے۔ ادب و شاعری، فلم اور فنون لطیفہ کو متاثر کرنے کی بہت سی کوششیں کیں۔ خدمت خلق کی تنظیموں اور تعلیمی اداروں کے وسیع جال کے ذریعے ذہنوں اورافکار کی تعمیر نوپر توجہ دی۔ لیکن ساتھ ہی یہ بات آسانی سے ثابت کی جاسکتی ہے کہ ان سب کاوشوں کی کام یابی کا اصل سبب اندرونی تہذیبی قوت سے کہیں زیادہ اقتدار اور دولت کی قوت ہے یا نفرت و حسد کے منفی جذبات کی کارفرمائی ہے۔ ان کی تہذیبی قوت کا کم زور پہلو یہ ہے کہ اس کی پشت پر افکار و خیالات کا کوئی اعلیٰ اور پر کشش نظام یا روحانی، اخلاقی اور جمالیاتی قدروں کا کوئی منفرد تصور نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ادب عالیہ میں ان کا رسوخ بہت کم ہے۔ فنون لطیفہ کے ذریعے بااثر جمالیاتی اظہار میں ان کی نمائندگی بہت کم ہے۔آرٹ، آرکٹیکچر وغیرہ تہذیبی مظاہر میں وہ حیران کردینے والے فن پاروں کی تخلیق سے قاصر ہیں۔ یہ تہذیبی لاچاری کا مظہر ہے کہ وہ بڑی لکیر کھینچنے سے کہیں زیادہ موجود لکیروں (اسلامی فن تعمیرات، اسلامی تیوہات،اسلامی پکوان وغیرہ) کو چھوٹا کرنے کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔[21]

ہندوستانی مسلمانوں کی تہذیبی قوت

ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ تہذیبی فتوحات کی درخشاں تاریخ ہے۔ یہ کہنا بھی شاید بے جا نہ ہوگا کہ اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں مسلمانان ہندکی اصل طاقت (core strength)تہذیبی قوت ہی رہی ہے۔ تلوار کی قوت، سیاسی قوت اور معاشی قوت سے کہیں زیادہ تہذیبی قوت ہی ان کے غیر معمولی اثر و رسوخ اوردبدبے کا سرچشمہ رہی ہے اور ان کے زوال کا اصل سبب بھی تہذیبی زوال ہی رہا ہے۔ سنجیدہ مورخین مسلمانان ہند کے زوال کا نقطہ آغاز پلاسی کی جنگ یا غدر یا حکومت و اقتدار کے خاتمے کو نہیں قرار دیتے بلکہ اس کا رشتہ اس تہذیبی زوال سے جوڑتے ہیں جس کا آغاز مغلیہ عہد میں ہوچکا تھا اور جسے روکنا، حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ جیسی عبقری شخصیت کی غیر معمولی کاوشوں کے باوجود ممکن نہیں ہوسکا۔

لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس زوال کے باوجود، آزادی کے بعد ہندوستانی مسلمان تہذیبی قوت کے کئی پہلوؤں سے مالا مال رہے۔ مسلمانوں کو اسلام کی شکل میں نہایت طاقتور اور مستحکم تہذیبی اساس میسر ہے اس لیے جس تیزی سے وہ معاشی اور سیاسی پسماندگی کے اندھیروں میں دھکیلے گئےاس تیزی سے ان کو تہذیبی لحاظ سے زوال پذیر کرنا ان کے حریفوں کے لیے ممکن نہیں ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ہندتو طاقتوں کا اصل نشانہ مسلمانوں کی تہذیبی قوت ہے۔ لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ تہذیبی قوت کی حفاظت، اس کے دفاع اور اس میں اضافے پر جو توجہ ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہوسکی۔ آج بھی تمکین و ترقی کے لیے کام کرنے والوں کے ایجنڈے میں تہذیبی قوت کو وہ مقام حاصل نہیں ہے جس کی وہ مستحق ہے۔ ہم ذیل کی سطروں میں ہندوستانی مسلمانوں کی تہذیبی قوت کے کچھ مثبت و منفی پہلو بیان کریں گے۔ اسی سے تہذیبی قوت کے حصول کا لائحہ عمل بھی واضح ہوجائے گا۔

ہمارے خیال میں ہندوستانی مسلمانوں کی تہذیبی طاقتیں (cultural strengths)ذیل کے مطابق ہیں:

۱۔ عقیدہ اور اقدار

مسلمانوں کی تہذیبی قوت کا سب سے بڑا سرچشمہ ان کا عقیدہ اور ان کی قدریں رہی ہیں اور آج بھی یہی ان کی اصل تہذیبی قوت ہے۔ توحیدکے صاف و شفاف عقیدے کے بغیر اس وسیع و عریض ملک کی روحانی پیاس کی تسکین ممکن ہی نہیں ہے۔ خدائے واحد پر یقین اور اس کے سامنے جواب دہی کا احساس ہی صحیح معنوں میں اُ س احساس ذمہ داری کو پروان چڑھاتا ہے جس کی معاصر دنیا اس وقت سب سے زیادہ ضرورت مند ہے۔علامہ اقبال ؒ نے اسلام کے ہندوستانی تہذیب پر اثرات کا ذکر کرتے ہوئے ایک بڑی معنی خیز ترکیب ‘وحدت خیز قوت’ کا استعمال کیا ہے۔

“دنیا بھر میں شاید ہندوستان ہی ایک ایسا ملک ہے جس میں اسلام کی وحدت خیز قوت کا بہترین اظہار ہوا ہے”[22]

پروفیسر خلیق احمد نظامی، علامہ ؒ کے اس جملے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“ہندوستان پر اسلامی فکر اور تہذیب کے اثرات کے جائزے میں یہ جملہ مشعل راہ کا کام دیتا ہے۔ جس وحدت خیز قوت کی طرف اقبال نے اشارہ کیا ہے، اس کا سرچشمہ اسلام کا نظریہ توحید تھا۔ انسان کی عملی زندگی میں جب یہ نظریہ بروئے کار آتا ہے تو کثرت سے وحدت، انتشار سے اتحاد اور نفاق سے اتفاق کی طرف رہ نمائی کرتا ہے، اس کی کارفرمائی نے ہندوستان کو جو محض ایک جغرافیائی علامت بن چکا تھا، سیاسی وحدت کا تصور دیا، یہاں کے سماج کو جو طبقات میں بٹ کر ذات پات کے مسموم اثرات کا ہدف بن گیا تھا، نئے سماجی رجحانات سے آشنا کیا اور ایک مخصوص اخلاقی شعور بیدار کرکے پست طبقوں کو خودی اور خودداری کا سبق پڑھایا،۔ ۔۔تاریخ کا کوئی طالب علم جب بھی عمرانیات کی روشنی میں ان عوامل اور محرکات کا تجزیہ کرے گا جنھوں نے ہندوستان کی سماجی اور مذہبی فکر کی سمت کو بدلا ہے تو اس کو اسلامی اثرات کی گہرائی اور اس کے دوررس اثرات کا اعتراف کرنا پڑے گا۔ “[23]

اسلام کی یہ’ وحدت خیز قوت ‘ بروئے کار آئے، اس کے بھرپور امکانات آج بھی ہیں۔ ہندتو فرقہ پرستی کے پیدا کردہ فتنہ و فساد کے نتیجے میں اس کے امکانات آئندہ اور بہت تیزی سے بڑھیں گے۔ اس پر ہم اپنی کتاب ‘ ہندتو انتہاپسندی نظریاتی کشمکش اور مسلمان’ [23]میں تفصیل سے گفتگو کرچکے ہیں۔مسلمان صحیح معنوں میں دعوتِ توحید کے علم بردار بنیں اور اپنے خول سے باہر نکل کر ملک کی ساری آبادی کے ساتھ ہمدردانہ تعلق قائم کریں تو اسلام کی یہ ‘وحدت خیز قوت’ یہاں سماجی مساوات و سماجی اتحاد قائم کرکے، معاشی نابرابری کو ختم کرکے، تنگ نظریوں و عصبیتوں کو مٹاکرکے اور انسانی وحدت کے تصور کو عام کرکے اس ملک کو زیادہ متحد، زیادہ بااثر اور زیادہ طاقت ور بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ یہ مسلمانوں کی تہذیبی قوت کا سب سے اہم عنصر ہے جو مسلمانوں کی توجہ سے پوری قوت سے کارفرما ہوسکتاہے۔

۲۔اخلاقی و خاندانی قدریں

خاندانی نظام پر چوطرفہ یورشیں پوری دنیا کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک میں بھی دن بدن شدید سے شدید تر ہوتی جارہی ہیں۔اب ہمارے ملک کا شہری معاشرہ بھی لیوان ریلیشن، بوائے فرینڈ گرل فرینڈ، اور ہم جنسیت کی قباحتوں سے آلودہ ہورہا ہے۔ فحش نگاری اور فحش پرستی کی لعنتوں نے نئی نسل کو پوری طرح اپنے پنجوں میں جکڑ لیا ہے۔ مشرقی مزاج زیادہ عرصے تک ان لعنتوں کا متحمل نہیں ہوسکتا لیکن کسی مشرقی تہذیب کے پاس ان مسائل کا کوئی حل بھی نہیں ہے۔ اسلام خاندانی نظام اور عفت و حیا کی قدروں کا آخری قلعہ ہے اور اس سیلاب بلاخیز کے مقابلے میں کم سے کم فکری و تہذیبی سطح پر بھی پوری استقامت کے ساتھ ٹکا ہوا ہے۔ آج بھی مہذب مسلم خاندان جنسی بے راہ رویوں سے پاک ہیں۔ شراب اور نشے سے نفرت آج بھی مسلمانوں کا ایک اہم تہذیبی امتیاز ہے۔ گندی گالیوں اور فحش کلامی کو مسلمانوں کی معاشرت نے ابھی بھی ( کم سے کم متوسط طبقات نے)قبول نہیں کیا ہے۔بچی کی پیدائش مسلمان خاندانوں میں، عام طور پر، کوئی غیر معمولی تناؤ نہیں پیدا کرتی ۔ ایسی دسیوں اخلاقی خوبیاں گنائی جاسکتی ہیں جو مسلم معاشرے میں، شدید زوال کے باجود آج بھی زندہ اور کارفرما ہیں اور یہ اہل اسلام کی بہت بڑی تہذیبی قوت ہے۔[25]

۳۔ تاریخ اور تاریخی ورثہ

ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ اور ان کا تہذیبی ورثہ ان کی بہت بڑی تہذیبی طاقت ہے۔مسلمانوں کی تعمیرات، آرٹ، آرکٹیکچر، یونانی طب، اردو زبان و ادب، مسلمانوں کے پکوان اور غذائیں،ان کے تیوہار اور مذہبی امور، ان کی جامعات اور مدارس، اوقاف وغیرہ اس تاریخی ورثے کے وہ زندہ آثار ہیں جو ہندوستان میں ہر جگہ نمایاں ہیں۔ لیکن ان کے علاوہ مسلمانوں نے یہاں کے مذہبی تصورات پر، اس ملک کی سیاست و معیشت پر، یہاں کے شہروں اور تمدنی اداروں پر، علوم و فنون پر، غرض ہر چیز پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ سنجیدہ مورخین نے جب بھی ان اثرات کا جائزہ لیا ہے، ان اثرات کی ہمہ گیری اور وسعت نے انھیں متحیر کیا ہے۔ ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت نہرو کی مشہور زمانہ کتاب ‘ہندوستان کی تلاش The Discovery of India میں جگہ جگہ یہ حیرت نظر آتی ہے۔[26] اسی طرح مشہور مورخ ڈاکٹر تارا چند نے ہندوستانی زندگی پر مسلم تہذیب کے اثرات کا جو جائزہ لیا ہے وہ بڑا چشم کشا ہے۔[27] اس موضوع پر اور بھی متعدد مورخین نے کام کیا ہے۔[28] یہ ضروری ہے کہ یہ اثرات بھی باقی رہیں اور مسلمانوں سے ان کے تعلق کا علم بھی باقی رہے۔ اس وقت فرقہ پرست طاقتیں اس پوری تاریخ پر دبیز پردے ڈال کر مسلمانوں کو اس تہذیبی قوت سے محروم کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہیں۔

۴۔ ادب و شاعری

یہی معاملہ ادب و شاعری کا ہے۔ اعلیٰ افکار و خیالات کے جمالیاتی اظہار میں آج بھی ہندوستانی مسلمانوں کو برتری حاصل ہے۔ دو سو سال کے بعد اور اردو زبان کے ہمہ گیر زوال کے باوجود، مرزاغالب ہندوستان کی ایک مسلمہ تہذیبی قوت ہیں۔ غیر مسلم نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں بھی اردو غزل اور شاعری سے جو دل چسپی حالیہ دنوں میں پیدا ہوئی ہے [29]وہ یہ ظاہر کرتی ہے کہ اردو ادب اور شاعری کی تہذیبی قوت ابھی بھی برقرار ہے اور مناسب رخ دیا جائے تووہ ہندوستانی مسلمانوں کی ایک اہم طاقت بن سکتی ہے۔

۵۔ غذا و لباس

یہ بات تاریخی دلائل سے ثابت ہے کہ لباس، غذا، رہن سہن اورلائف اسٹائل سے متعلق دیگر امور میں ہندوستانی تہذیب پر مسلمانوں نے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں اور یہاں کے عوام کی عادتوں کو مکمل طور پر بدل کر تہذیب و شائستگی کے بلند مقام تک پہنچایا ہے۔ علامہ شبلی نعمانیؒ نے اس کا ایک بڑا دل چسپ جائزہ پیش کیا ہے۔ [30]آ ج بھی مغلئی، حیدرآبادی، کشمیری، مالا باری، لکھنوی، کوکنی، میمن اور دیگر متعدد طرز ہائے پکوان (cuisines)مسلمانوں سے وابستہ ہیں اور ان کی تہذیبی قوت کے مظاہر ہیں۔یہ بات بھی عام طور پر تسلیم کی جاتی ہے کہ پکوان سے متعلق ہندوستانی ورثے پر سب سے زیادہ اثر ایران اور ترکی سے آنے والے مسلمانوں کا رہا ہے۔[31] اسی طرح ملبوسات اورفیشن انڈسٹری میں مسلمانوں کا کلیدی رول آج بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ [32]گھریلو صنعتیں اور کاریگری، ملک کے کئی علاقوں میں مسلمانوں کا تہذیبی امتیاز ہیں۔ شمالی ہند میں سہارنپور(لکڑی کی کاریگری)، مرادآباد(برتن)، کشمیر (قالین اور شال وغیرہ)،مرزا پور (قالین اور غالیچے)فیرز آباد (شیشے کی کاری گری)،چکن آرٹ (لکھنؤ) بنارسی ساڑیاں وغیرہ اور جنوب میں بیدر (بیدری آرٹ) اور حیدرآباد وغیرہ کی مصنوعات کی ثقافتی اہمیت آج بھی مسلّم ہے۔[33] یہ سب ہندوستانی مسلمانوں کے وہ تہذیبی اثاثے ہیں جو آج بھی فعال ہیں اور جن کو درست حکمت عملی کے ساتھ مفید بنایا جاسکتا ہے۔

ہندوستانی مسلمانوں کی تہذیبی کم زوریاں

اس بحث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستانی مسلمان آج بھی بیش قیمت تہذیبی اثاثوں کے مالک ہیں۔ ان اثاثوں کا درست استعمال ہو اور مسلمان تہذیبی خود اعتمادی (cultural self confidence)کے ساتھ آگے بڑھیں تو تہذیبی قوت ان کے لیے تمکین و ترقی کا اہم زینہ ثابت ہوسکتی ہے۔

اسلامی تہذیب کی اسا س اسلامی فکر و عقیدہ ہے۔ یہ مسلمانوں کی بہت بڑی قوت بھی ہے۔ اس سے کم زور رشتہ تہذیبی زوال کا نتیجہ بنتا ہے۔ فکری و نظریاتی قوت پر آئندہ ہم تفصیل سے اظہار خیال کریں گے۔ ان شاء اللہ۔ اسی طرح تہذیب کا گہرا تعلق علم و تعلیم سے ہے۔ اس پر ہم تفصیل سے لکھ چکے ہیں [34]اسی طرح معاشی قو ت بھی اس سلسلہ مضامین میں تفصیل سے زیر بحث آچکی ہے۔ [35]

اخلاق کے معاملے میں، زندگی کے اشارات[36] میں ہم لکھ چکے ہیں کہ ہندوستانی مسلمانوں کی اخلاقی حساسیت اخلاق کے چند شعبوں تک محدود ہوچکی ہےبہت پہلے دلی کی جامع مسجد کے مینار پر چڑھنے کا موقع ملا تھا۔ ایک طرف نگاہوں کے سامنے لال قلعہ اور جامع مسجد کی خوب صورت عمارتیں تھیں جو فنی مہارت اور ذوق جمالیات کی شاہ کار ہیں، اور دوسری طرف جامع مسجد کے دامن میں دور دور تک پھیلی ہوئی گندگی اور ناشائستگی کی زندہ تصویریں تھیں۔ اس تضاد کو ختم کرنا ہماری کوششوں کا ایک اہم ہدف ہونا چاہیے۔

فکر و عقیدہ، علم و تعلیم،اخلاق اور معاشی ترقی، ان سب کی تہذیبی ترقی میں خصوصی اہمیت ہے۔ لیکن چوں کہ اس پر ہم تفصیل سے مستقل مضامین لکھ چکے ہیں (یا اس سلسلہ مضامین میں آئندہ لکھنے کا منصوبہ رکھتے ہیں) اس لیے ان کی تفصیل سے یہاں گریز کرتے ہوئے ہم کچھ اور پہلوؤں کو زیر بحث لائیں گے۔

مالک بن نبی کے افکار میں ایک اصطلاح ‘غلامی پذیری’ (colonisability)(عربی میں : قابلیة الاستعمار) کا کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ [37]وہ کہتے ہیں کہ مسلم دنیا کا اصل مسئلہ غلامی یا استعمار نہیں ہے بلکہ ‘غلامی پذیری’ ہے یعنی وہ اجتماعی نفسیات ہے جس کی وجہ سے وہ خود آسانی سے غلام بن جاتے ہیں اور سیاسی لحاظ سے آزاد ہوجانے کے باوجود تہذیبی لحاظ سے غلام بنے رہتے ہیں۔ [38] غلامی پذیری، تہذیبی خود اعتمادی (cultural self confidence)ختم کردیتی ہے۔ اپنے تہذیبی اثاثوں سے غافل کردیتی ہے۔ غالب تہذیبوں سے مرعوبیت پیدا کردیتی ہے۔’غلامی پذیری ‘کے نتیجے میں فن اور تہذیبی بنیادوں کا رشتہ کم زور ہوجاتا ہے۔فن کار اپنی جڑوں سے کٹ کر غالب تہذیبوں کے سایوں میں پناہ لینے لگتے ہیں۔ تہذیب کی اخلاقی و روحانی قدروں کے علم برداروں میں اپنی قدروں کے سلسلے میں حد سے زیادہ احتیاط و تحفظ اور خوف و عدم سلامتی (insecurity)کا دفاعی ذہن پروان چڑھنے لگتا ہے جس کے نتیجے میں ان کی تخلیقی دھار کند ہونے لگتی ہے۔ بے مثل فن پارے تخلیق کرنے کی صلاحیت رکھنے والے، اپنے فن کو چھوڑ کر ملٹی نیشنل کمپنیوں میں کام کرنے میں فخر محسوس کرنے لگتے ہیں۔ دوسروں کی تہذیبی قدروں میں انھیں ترقی اور سر بلندی نظر آنے لگتی ہے۔ یہ’غلامی پذیری’ ہی تھی جس نے ہمارے ملک میں’ سانولے انگریز’ پیدا کیے تھے اور جس کا سد باب نہ کیا جائے تو ہندتو تہذیبی استعمار بھی ایک سیلاب بن کر ہماری تہذیبی سرحدوں میں داخل ہوسکتا ہے۔

‘غلامی پذیری’ کے بہت سے پہلو ہیں۔ الحمد للہ ہندوستانی مسلمان ان میں سے متعدد پہلوؤں سے پاک ہیں۔ لیکن بعض پہلو ان کے اندر پائے جاتے ہیں اور یہی پہلو انھیں تہذیبی قوت سے محروم کرتے ہیں۔

۱۔ اخلاقی و روحانی قدروں اور جمالیاتی اظہار میں عدم تعلق

ہندوستانی مسلمانوں کی سب سے بڑی تہذیبی کم زوری، اخلاقی و روحانی قدروں اور جمالیاتی اظہار میں عدم تعلق ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں نے فنون لطیفہ کے بے مثل نمونے جنم دیے لیکن اس میں زیادہ کنٹری بیوشن اُن افراد اور طبقات کا ہے جن کا اسلام کی اخلاقی و روحانی قدروں سے رشتہ کم زور رہا ہے۔ آزادی کے بعد بھی فلم، غزل گوئی، قوالی، شاعری، وغیرہ متعدد فنون لطیفہ میں ہندوستانی مسلمانوں نے اعلیٰ درجے کے آرٹسٹ پیدا کیے اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اس معاملے میں ان کا حصہ ان کی آبادی کے تناسب سے کہیں زیادہ رہا ہے۔ لیکن چوں کہ ان فن کاروں کا تعلق تہذیبی بنیادوں یعنی عقیدہ و اخلاق کے مخصوص اسلامی تصورات سے بہت کم زور رہا ہے اس لیے ان کی تخلیقات مسلمانوں کی تہذیبی قوت نہیں بن سکیں۔ دوسری طرف ہندوستانی مسلمانوں کے سواد اعظم نے اسلام کی روحانی و اخلاقی قدروں سے گہرا رشتہ برقرار رکھا ہے۔ ان کے درمیان مختلف دینی تحریکیں دینی و اخلاقی احیاکے لیے کام کرتی رہی ہیں۔ لیکن ان کا اظہار و ابلاغ خشک مواعظ تک محدود رہا اور جمالیاتی اظہار اور اس کے لیے ثقافتی ذرائع کے استعمال پر ان کی توجہ بہت کم رہی۔ جمالیاتی اظہار جس ذوق ِ لطیف اور جس تخلیقی توانائی کا تقاضا کرتا ہے وہ ان حلقوں میں بہت کم پیدا ہوسکا۔ ہندوستانی مسلمانوں میں اسلام کی تہذیبی قوت کا ایک اعلیٰ نمونہ علامہ اقبالؒ کی شاعری ہے جس میں اسلام کی روحانی، اخلاقی، تہذیبی قدریں اور اسلامی جذبات کی ترجمانی بڑے پر اثر جمالیاتی اسلوب میں ملتی ہے۔ بعد میں، اور ثقافت کے دوسرے محاذوں پر، ایسے نمونوں کی افزائش میں ناکامی یہ ہماری سب سے بڑی تہذیبی ناکامی ہے۔

۲۔ فکری و عملی جمود:

ہمارے خیال میں دوسری بڑی کم زوری، فکری و عملی جمود ہے۔ تہذیب کی ترقی اجتہادِ فکر اور ایجاد و اختراع کی صلاحیتوں کا تقاضا کرتی ہے۔ دین اسلام اور اسلامی تہذیب سےہندوستانی مسلمانوں کا تعلق، کچھ تو تاریخی وجوہات سے اور کچھ ملک کے موجودہ حالات کے دباؤ میں، علمی و عقلی تعلق سے زیادہ محض جذباتی رہا ہے۔اس جذباتی تعلق نے اسلامی تہذیب کے بعض شعائر سے گہری وابستگی تو پیدا کی لیکن اسلام کی تہذیبی قدروں کے مطابق تمدنی ارتقا اور دوسری تہذیبوں کے صالح عناصر سے استفادے اور ان کے جذب و انجذاب سے تمدنی ترقی کی راہوں کو ہم وار کرنے کا داعیہ کم زور کردیا۔ مولانا مودودیؒ نے صحابہ اوراسلام کے عہد ِعروج میں مسلمانوں کی تہذیبی ترقی کا ایک اہم راز بتایا ہے۔

”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے اصحاب کا اصلی اسوہ جس کی پیروی ہمیں کرنی چاہیے، یہ ہے کہ انھوں نے قوانین طبیعی کو قوانین شرعی کے تحت استعمال کر کے زمین میں خدا کی خلافت کا پورا پورا حق ادا کر دیا۔ ان کے عہد میں جو تمدن تھا انھوں نے اس کے قالب میں اسلامی تہذیب کی روح پھونکی۔ اس وقت جتنی طبیعی قوتوں پر انسان کو دسترس حاصل ہو چکی تھی، ان سب کو انھوں نے اس تہذیب کا خادم بنایا اور غلبہ و ترقی کے جس قدر وسائل تمدن نے فراہم کیے تھے ان سے کام لینے میں وہ کفار و مشرکین سے سبقت لے گئے… پس نبیؐ و اصحابِ نبی کا صحیح اتباع یہ ہے کہ تمدن کے ارتقا اور قوانین طبیعی کے اکتشافات سے اب جو وسائل پیدا ہوئے ہیں، ان کو ہم اسی طرح تہذیب اسلامی کا خادم بنانے کی کوشش کریں جس طرح صدر اوّل میں کی گئی تھی”۔ [39]

ہندوستانی مسلمانوں نے اس اہم اصول سے کس طرح اور کن کن محاذوں پر اغماض برتا، اس کے تفصیلی تجزیے کا یہ مضمون متحمل نہیں ہے۔ مثلاً دین دار ہندوستانی مسلمانوں نے یہاں کی فلم انڈسٹری کو اپنے تہذیبی اظہار کا وسیلہ بنانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی، جس کے بھرپور مواقع ان کو میسرتھے۔ سر دست ہم مولانا مودودی ؒ کا ایک اور اقتباس پیش کرکے صرف یہ اشارہ کرنا چاہتے ہیں کہ اس تحریر میں مولانا مرحوم نے امت کی جس کم زوری کی طرف اشارہ کیا ہے وہ کم زوری زائل ہونا تو دور کی بات ہے، آزادی کے بعد اس میں مزید اضافہ ہی ہوا ہے۔ اور اس نے ہندوستانی مسلمانوں کو تہذیبی لحاظ سے کم زور کیا ہے۔

‘مدینہ طیبہ سے مماثلت پیداکرنے کا مفہوم کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ ہم ظاہری اشکال میں مماثلت پیدا کرنا چاہتے ہیں اور دنیا اس وقت تمدن کے جس مرتبے پر ہے اس سے رجعت کرکے اس تمدنی مرتبے پر واپس جانے کے خواہش مند ہیں جو عرب میں ساڑھے تیرہ سو برس پہلے تھا۔ اکثر دین دار لوگ غلطی سے اس کا یہی مفہوم لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک سلف صالح کی پیروی اس کا نام ہے کہ جیسے تمدن و حضارت کی جو حالت ان کے عہد میں تھی اس کو ہم بالکل متحجّر(fossilised) صورت میں قیامت تک باقی رکھنے کی کوشش کریں اور ہمارے اس ماحول سے باہر کی دنیا میں جو تغیرات واقع ہو رہے ہیں ان سب سے آنکھیں بند کر کے ہم اپنے دماغ اور اپنی زندگی کے اردگرد ایک حصار کھینچ لیں، جس کی سرحد میں وقت کی حرکت اور زمانے کے تغیر کو داخل ہونے کی اجازت نہ ہو۔ اتباع کا یہ تصور درحقیقت روحِ اسلام کے بالکل منافی ہے۔ اسلام کی یہ تعلیم ہرگز نہیں ہے کہ ہم جیتے جاگتے آثارِ قدیمہ بن کر رہیں اور اپنی زندگی کو تمدن کا ایک تاریخی ڈراما بنائے رکھیں۔ وہ ہمیں رہبانیت اور قدامت پرستی نہیں سکھاتا۔ اس کا مقصد دنیا میں ایک ایسی قوم پیدا کرنا نہیں ہے جو تغیر و ارتقا کو روکنے کی کوشش کرتی رہے۔ بلکہ اس کے بالکل برعکس وہ ایک ایسی قوم بنانا چاہتا ہے، جو تغیر و ارتقا کو غلط راستوں سے پھیر کر صحیح راستہ پر چلانے کی کوشش کرے۔ وہ ہم کو قالب نہیں دیتا بلکہ روح دیتا ہے، اور چاہتا ہے کہ زمان و مکاں کے تغیرات سے زندگی کے جتنے بھی مختلف قالب قیامت تک پیدا ہوں ان سب میں یہی روح بھرتے چلے جائیں۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے دنیا میں ہمارا مشن یہی ہے، ہم کو ”خیر اُمت” جو بنایا گیا ہے تو اس لیے نہیں کہ ہم ارتقا کے راستے میں آگے بڑھنے والوں کے پیچھے عقب لشکر (rear guard)کی حیثیت سے لگے رہیں، بلکہ ہمارا کام امامت ورہ نمائی ہے۔ ہم مقدمة الجیش بننے کے لیے پیدا کیے گئے ہیں اور ہمارے خیر اُمت ہونے کا راز اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ میں پوشیدہ ہے۔[40]

جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا ہے، اس کا ایک بڑا سبب، درپیش تہذیبی چیلنجوں کے مقابلے میں حفاظتی اور مدافعتی نفسیات ہے۔ تہذیبی خود اعتمادی، قوموں کو اس لائق بناتی ہے کہ وہ اپنی اساسی قدروں سے مضبوطی سے وابستہ رہتے ہوئے ندرت و تخلیق کے عمل کو جاری رکھیں اور دوسری تہذیبوں کے صالح عناصر کے جذب و انجذاب کا سلسلہ بھی آگے بڑھائیں۔اور اسی سے تہذیب قوت بنتی ہے۔اس کی ایک سادہ مثال اردو زبان ہے۔ جب مسلمانوں میں تہذیبی خود اعتمادی تھی تو خدا، نماز، روزہ جیسے عجمی الفاظ و اصطلاحات بلاتکلف ان کے درمیان رائج ہوگئیں اور ان سے ان کی تہذیبی شناخت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ آج مسلمان اپنی تہذیب کی حفاظت کے لیے مولانا مودودیؒ کے الفاظ میں ‘متجحر تمدن و حضارت(fossilized civilisation)کو ناگزیر سمجھتے ہیں۔

۲۔ غیر محتاط و غیر متوازن بیانیے

مذکورہ بالا نفسیات کے فروغ کے لیے بہت سے عوامل ذمے دار ہیں۔ لیکن ایک اہم عامل ہمارے بیانیوں کا عدم توازن بھی ہے۔ مثلاً ہمارے بیانیوں میں خود ملامتی (self-condemnation)کا غیر متوازن رجحان تہذیبی خود اعتمادی کو ختم کر دیتا ہے۔ مثلاً اگر یہ بات کثرت سے کہی جاتی رہے کہ لاکھوں لڑکیاں مرتد ہورہی ہیں تو اس کا نتیجہ یہی نکلے گا (اور نکل رہا ہے) کہ لڑکیوں کی تعلیم منقطع ہوگی اور غیر مسلم سماج سے تعلق کم زور کرنے کی دانستہ کوششیں ہوں گی۔ یہ دونوں امور تہذیبی کم زوری پیدا کرتے ہیں۔قومی کم زوریوں کے اظہار میں تکرار و مبالغہ اور خوبیوں کے بیان میں بخل و استخفاف،یہ ایک اجتماعی مرض ہے جو اس وقت لاحق ہوتا ہے جب قومیں خود اعتمادی اور عزت نفس سے محروم ہونے لگتی ہیں۔اس مرض میں،معاصر اور غالب قومیں سرتا پا مجسم خیر نظر آنے لگتی ہیں اور حد سے زیادہ مرعوبیت ان کی ہرکم زوری کو نگاہوں سے چھپادیتی ہے اور اس کے مقابلہ میں اپنےاندر، اپنی تہذیب، اجتماعی زندگی،قیادت، علما، اداروں وغیرہ میں صرف برائی ہی برائی اور مجسم شر ہی نظر آتاہے اور آدمی اپنے وجود ہی پر شرمندہ شرمندہ سا رہنے لگتاہے۔بامقصد خود احتسابی اور بے مقصد خود ملامتی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ خود احتسابی میں خود کو مسئلے کا حصہ بناکر اصلاح کی تدابیر تلاش کرنے کا محرک کارفرما ہوتا ہے جب کہ خود ملامتی میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کا ناپاک کھیل چلتا رہتا ہے۔ خود احتسابی سے اصلاح احوال کی ٹھوس اور سنجیدہ کوششیں جنم لیتی ہیں جب کہ خود ملامتی سے بے اعتمادی، بے حمیتی اور انتشار فکر کے ناسور پروان چڑھتے ہیں۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہمارے مقررین، مصنفین، سوشل میڈیا محررین وغیرہ سب کا محبوب مشغلہ امت کے مختلف طبقات کی کم زوریوں کو مبالغے کے ساتھ بیان کرنا اوربرائیوں کو زیادہ سے زیادہ نمایاں کرنا ہے۔ “اتنی خراب صورت حال اس سے پہلے کبھی نہیں تھی” یہ جملہ گذشتہ سو برسوں سے، ہر زمانے میں، ہمارے بیانیوں کا غالب عنوان رہا ہے۔ ایسی باتوں کی تکرارتہذیبی خود اعتمادی کو لازماً مجروح کرتی ہے۔ ہمیں اپنی کم زوریوں کی طرف بھی متوجہ رہنا چاہیے کہ اصلاح اور بہتری کے لیے یہ ضروری ہے اور اپنی خوبیوں کابھی شعور رکھنا چاہیے کہ ان ہی کی بنیاد پر آپ کام یابی کی منزلیں سرکرتے ہیں اور خود اعتمادی سے سرفراز ہوتے ہیں۔

اسی طرح احساس مظلومیت کی شدت بھی تہذیبی خود اعتمادی کو مجروح کرتی ہے اور غلامی پذیری کی نفسیات کو فروغ دیتی ہے۔ بے شک مظلومیت کا تذکرہ، ظلم کے خلاف جدوجہد کی ایک ضرورت ہے۔ بے شک خطرات سے مقابلے اور ان کی پیش بندی کے لیے ان سے آگہی بھی درکار ہے اوریقینا ً حریفوں کی طاقت و قوت کا بیان اپنی کم زوریوں کو دور کرنے کا داعیہ پیداکرتا ہے۔لیکن ان سب تذکروں میں اتنا زیادہ مبالغہ کہ بجائے جہد و مقابلہ کا حوصلہ پیدا ہونے کے لاچاری و بے بسی کی نفسیات پروان چڑھنے لگے، یہ تہذیبی وجود کے لیے سم قاتل ہوتا ہے۔ مظالم و ناانصافیوں کا مسلسل مبالغہ آمیز بیانیہ، خطرات کو کئی گنا بڑھا کر دیکھنا اور دکھانا اور خطرات و مظالم کے تذکرے میں مبالغے کو مذہبی و سیاسی تقریروں اور صحافتی کالموں کی کشش کا ذریعہ بنادینا، باطل کی طاقت کو بہت زیادہ سمجھنا اور خود کو حد سے زیادہ کم زور اور بے بس باور کرانا،بے بسی و لاچاری کا متواتر ماتم، ان سب باتوں سے ایک عام نوجوان کے اندر غیر حقیقت پسند احساس مظلومیت (Sense of Victimization)پروان چڑھتا ہے۔ اسے سارے راستے بند نظر آنے لگتے ہیں۔اور امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ ایسی صورت حال تہذیبی ترقی میں بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ انسانی فطرت یہی ہے کہ جمالیات اور تحسینیات سے متعلق داعیات، ضروریات و حاجیات کی تکمیل کے بعد ہی کارفرما ہوتے ہیں۔ اگر یہ احساس شدت پکڑ لے کہ اب زندہ رہنا ہی ممکن نہیں ہے، تو اجتماعی توانائی مکمل طور پر سلامتی و حفاظت کے داعیے پر مرکوز ہوجاتی ہے اور تہذیبی و تمدنی ترقیوں کے داعیات باقی نہیں رہتے۔

اس صورت حال پر مستزاد ‘سازشی نظریات ‘ ہیں، جن کے نتیجے میں حد سے زیادہ انفعالی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔سازش کرنے والے نعوذ باللہ خدائی طاقت و رسوخ کے حامل نظرآنے لگتے ہیں اور اپنا اور اپنی ملت کا وجود محض خس و خاشاک محسوس ہونے لگتا ہے اور سیدنا مسیح ؑ اور مہدی موعود کا انتظا ر کرنے کے سوا کوئی راستہ نظر نہیں آتا ہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ امت کے اندر تہذیبی خود اعتمادی کو ختم کرنے میں سازشی نظریات نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔[41]

۳۔ تہذیبی ورثے کا نئی نسلوں کو منتقل نہ ہونا

ہماری تہذیبی قوت کے غیر موثر ہونے کا ایک اہم سبب نئی نسل کو تہذیبی ورثے کا منتقل نہ ہونا بھی ہے۔ اہل زبان اردو دانوں کی ریاستوں میں صورت حال یہ ہے کہ میر و غالب [42]اور اقبال و مودودی کو پڑھنا اب نئی نسل کے لیے ممکن نہیں رہا۔(صرف مدارس کے فارغین پڑھ پاتے ہیں)۔ اب یہاں رومن میں ایک ایسی اردو لکھی جاتی ہے جس میں ‘پھر’ f، سے آتا ہے۔ شہروں نے خاندانی زندگی کو (جو تہذیبی تسلسل فراہم کرنے کا اہم ذریعہ ہے) کم زور کردیا ہے اور معاشرے کے پاس تہذیبی وسائل کی حفاظت اور نئی نسلوں کو ان کی منتقلی کا کوئی موثر انتظام نہیں ہے۔اب ٹکنالوجی اور میڈیا نے دوسری تہذیبوں، یعنی مغربی اور مشرکانہ تہذیبوں کی یلغار کو اور شدید کردیا ہے۔اب نئی نسل میں بعض مذہبی شعائر سے وابستگی تو بڑھ رہی ہے لیکن تہذیبی تربیت اور تہذیبی قدروں اور تہذیبی وسائل سے نئی نسل کو جوڑنے کے انتظامات ابھی بھی مفقود ہیں۔

۵۔خواتین کی عدم فعالیت

تہذیبی و ثقافتی محاذ پر خواتین اپنی فطری خصوصیات کی وجہ سے ہمیشہ زیادہ موثر ثابت ہوئی ہیں۔جمالیاتی اظہار اور جمالیاتی ذوق کے ایسے متعدد پہلو ہیں جن سے نسوانی مزاج زیادہ ہم آہنگ ہوتا ہے۔ اس لیے دنیا کی ہر تہذیب میں آرٹ اور فن کے بعض شعبوں میں خواتین کا کردار زیادہ نمایاں رہا ہے۔ پھر تہذیبی ورثے کی نئی نسلوں کو منتقلی میں بھی خواتین کا کردار اہم ہوتا ہے۔ چناں چہ ہندوستان میں مسلم خواتین نے دینی و اخلاقی قدروں کی نسل در نسل منتقلی میں یہ اہم کردار بھی ادا کیا ہے۔ اگر خواتین سماجی اعتبار سے فعال ہوتیں تو یہی کردار وہ جمالیاتی قدروں اور تمدن کے اعلیٰ مظاہر کے تسلسل میں بھی ادا کرتیں۔ لیکن بعد کے ادوار میں مختلف وجوہ سے خواتین کا وہ سماجی اور تمدنی کردار متاثر ہوگیا جو اسلام کے روشن ادوارمیں نظر آتا ہے۔ مسلم تہذیب کے زوال پر لکھنے والے ایک ممتاز تحریکی دانش ور،پروفیسر عمر چھاپرا نے خواتین کی سماجی پوزیشن میں گراوٹ کو امت کے زوال کے اہم اسباب میں سے ایک سبب کے طور پر بیان کیا ہے۔ [43]

۶۔ بین تہذیبی تعلق (intercultural communiation)کی کم زوری

کسی سماج میں تہذیب اس وقت قوت بنتی ہے جب وہ دوسرے تہذیبی گروہوں کو متاثر کرتی ہے اور ان کو فائدہ پہنچاتی ہے۔ہندوستانی مسلمانوں کو اس ملک میں جس طرح کے حالات پیش آتے رہے انھوں نے بتدریج ان کو اپنے خول(ghetto)میں بند کرنا شروع کیا اور مسلمان گھیتوز کے عادی ہوتے چلے گئے۔ یہاں گھیتوز سے مراد صرف رہائشی گھیتوز نہیں ہیں بلکہ رہن سہن، سماجی تعلقات و روابط وغیرہ میں بھی دھیرے دھیرے الگ ہونے کا رجحان ہے۔ اس فاصلہ پسندی کی وجہ سے ان کی تہذیب دوسرے گروہوں پر اثر انداز نہیں ہوپارہی ہے۔المیہ یہ ہے کہ ملک کے جن علاقوں میں مسلمان تہذیبی لحاظ سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں وہاں فاصلہ پسندی کا یہ رجحان بھی زیادہ ہے۔ دوسرے مذہبی گروہوں سے تعلق، اس کی مطلوب نوعیت اور تمکین و ترقی پر اس کے کے کردار پر ہم آئندہ تفصیل سے گفتگو کریں گے۔ ان شاء اللہ۔

خلاصہ بحث

اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ تمکین و ترقی کے لیے ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ مسلمانوں کی تہذیبی ترقی ہو اور ان کی تہذیبی قوت اور تہذیبی وسائل کا بھرپور وسائل ہو۔اس کے لیے ضروری ہے کہ تہذیب و ثقافت بھی ہماری کوششوں کا ایک اہم ہدف بنے۔ اس کے لیے پہلی ضرورت یہ ہے کہ تہذیبی بنیادوں سے مسلمانوں کا رشتہ مستحکم ہو اور اور ہندوستانی مسلم معاشرے کے نظریاتی و اخلاقی احیا کے لیے سنجیدہ کوششیں کی جائیں (یہ تمکین و ترقی کی بھی ایک ضرورت ہے) اور دوسری طرف ابلاغ کے ذرائع، ادب، آرٹ، شاعری، فنون لطیفہ، میڈیا، سوشل میڈیا وغیرہ پر قدرت بڑھانے کی بھی سعی کی جائے۔ یہ ضروری ہے کہ ہمارے مخصوص تہذیبی وسائل ترقی کریں۔ تہذیبی خود اعتمادی بڑھے۔ غلامی پذیری یعنی غلامانہ ذہنیت ختم ہو۔ تہذیبی ورثہ نمایاں ہو۔ وہ نئی نسلوں کو منتقل ہو۔ دوسرے تہذیبی گروہوں سے تعلق بڑھے اور ان پر اثر اندازی ہو۔ذہنی و فکری جمود دور ہو اور تہذیبی و ثقافتی تخلیقی عمل کی تحریک زندہ ہو۔

حواشی و حوالہ جات

[1]  پروفیسر نجات اللہ صدیقی (2012) اسلام اور فنون لطیفہ؛ ادارہ ادب اسلامی ہند؛ نئی دہلی۔ ص26

[2]  اسلامی تہذیب کیا ہے اور اس کی خصوصیات کیا ہیں؟ اس پر مضمون نگار کے خیالات درج ذیل مقالوں سے سمجھے جاسکتے ہیں۔

[3]  تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:

أبو إسحاق الشاطبی (1997)؛ الموافقات (المحقق ابو عبیدہ مشہور بن حسن) ؛ جز۲، دار ابن عفان؛ قاہرة؛ ص 17-54

[4]  مالک بن نبی کی تمام کتب ایک گوگل اپلی کیشن کی صورت میں موجود ہیں۔۔۔۔

https: //play.google.com/store/apps/details?id=com.w_10466136

[5]  مالك بن نبی(1986) الشروط النہضۃ (ترجمة: عبد الصبور شاہین)؛ داالفکر؛ دمشق۔ ص 86-98

[6]  ایضاً ص 99-112

[7]            Dee Zhou (2022). The Elements of Cultural Power: Novelty, Emotion, Status, and Cultural Capital. American Sociological Review, 87(5), 750–781

[8]            Pierre Bourdieu (1996) The State Nobility: Elite Schools in the Field of Power;(Tr. by LAURETTA C. CLOUGH) Stanford University Press; Redwood CA, USA.

[9]            Bourdieu, P. (1973). Cultural Reproduction and Social Reproduction. In R. Brown (Ed.), Knowledge, Education, and Cultural Change (pp. 71-84). London: Tavistock Publications.

[10]         Pierre Bourdieu (1984) Distinction : a social critique of the judgement of taste (Tr. Richard Nice) Harvard University Press; Massachusetts (Pages 9-96)

[11]         Ibid page 260

[12]         David Throsby (1999) Cultural Capital. Journal of Cultural Economics 23, 3–12

[13]         ibid

[14]         David Throsby (2001) Economics and Culture,Cambridge: Cambridge University Press,chs 3,5.

[15]               ایضاً ص 44-45

[16]         John Storey (2021) Cultural Theory and Popular Culture: An Introduction; Routledge; London UK

[17]               درج ذیل کتاب اگرچہ دائیں بازو کے مخصوص نقطہ نظر سے لکھی گئی ہے اور متعدد باتیں بڑی نامعقول ہیں لیکن ان سے لبرل عناصر کے تہذیبی اثرات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

Ravi Shanker Kapoor (2000) More Equal Than Others: A Study of the Indian Left. India: Vision Books; New Delhi

[18]         Kanjamala Augustine (2014) The Future of Christian Mission in India: Toward a New Paradigm for the Third Millennium.Pickwick Publications,Oregon pages 1-27

[19]               لنگر کی تاریخ اور اس کے اثرات پر دیکھیں:

https: //thepunjabpulse.com/guru-ka-langar-a-revered-institution-of-sikh-religion-philosophy-and-culture/

[20]               مثلاً ملاحظہ ہو:

Anne Hardgrove (2004) Community and Public Culture: The Marwaris in Calcutta. India: Oxford University Press; Oxford.

[21]               تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:

سید سعادت اللہ حسینی (2022)ہندتو انتہاپسندی نظریاتی کشمکش اور مسلمان؛ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلیشرز، نئی دہلی؛ باب 3 ص 51-68

[22]               (مرتبہ) رضیہ فرحت بانو (1946) خطبات اقبال؛ حالی پبلیشنگ ہاوس؛ کتاب گھر؛ دلی؛ ص 26

[23]               پروفیسر خلیق احمد نظامی(1982)اسلامی فکر اور تہذیب کا اثر ہندوستان پر؛ مجلس تحقیقات و نشریات اسلام؛ لکھنو؛ ص 15-16

[24]               سید سعادت اللہ حسینی (2022)ہندتو انتہاپسندی نظریاتی کشمکش اور مسلمان؛ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلیشرز، نئی دہلی

[25]               مسلمانوں کی وہ عملی خصوصیات جن کی وجہ سے ان کو آج بھی تہذیبی برتری حاصل ہے ان کے مدلل جائزے کے لیے ملاحظہ ہو:

  • Dr. Javed Jamil (2016) Muslims Most Civilised, Yet Not Enough, Mission Publications, New Delhi

[26]         Jawaharlal Nehru (2008) Discovery of India; Penguin Random House India Private Limited;Gurugram 2008.

[27]         Tara Chand (1922) Influence of Islam on Indian Culture; Indian Press; Allahabad

[28]               خاص طور پر درج ذیل کتابیں خصوصیت سے قابل مطالعہ ہیں۔

  • مولانا سید ابوالحسن ندوی (1992) ہندوستانی مسلمان ایک تاریخی جائزہ؛ مجلس تحقیقات و نشریات اسلام؛ لکھنو۔
  • سید عبد الحئی الحسنی ندوی (2016) نزہتہ الخواطر (۸ جلدیں)؛ حافظی بک ڈپو، دیوبند

[29]         https: //www.hindustantimes.com/delhi/young-professionals-take-lead-in-reviving-delhi-s-romance-with-urdu/story-6iMgAdW3RzdkgOGScPNJlK.html

[30]               علامہ شبلی نعمانی (1919) اسلامی حکومت اور ہندوستان مین اس کا تمدنی اثر؛ الناظر پریس لکھنو۔

[31]         Karen Hanson (2002) Junior Worldmark Encyclopedia of Foods and Recipes of the World: Germany to Japan; UXL; page 59.

[32]         https://www.newslaundry.com/2019/12/28/how-a-handful-of-designer-labels-are-using-social-media-to-take-a-stand-on-the-citizenship-law

[33]         Abdul Waheed (2006) Muslim Artisans, Craftsmen, and Traders: Issues in Entrepreneurship. India: Icon Publications,

[34]               ملاحظہ ہو، سید سعادت اللہ حسینی، اشارات، زندگی نو؛ اپریل2023 ص 5 تا 27

[35]               ملاحظہ ہو، سید سعادت اللہ حسینی، اشارات، زندگی نو؛ مئی 2023 ص 5 تا 19

[36]               ملاحظہ ہو، سید سعادت اللہ حسینی، اشارات، زندگی نو؛ جنوری 2021 ص 5 تا 29

[37]               مالک بن نبی(2000) القضایا الکبریٰ، مشکلات الحضارۃ؛ دارالفکر المعاصر؛ بیروت ص 30تا -34

[38]               ایضاً ص47

[39]               مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ، تنقیحات، (نواں ایڈیشن،اشاعت:نومبر۲۰۲۱)، مرکزی مکتبہ پبلیشرز؛ نئی دہلی،ص227

[40]               ایضاً ص226-227

[41]               نا معقول سازشی نظریات اور ان کے نقصانات، بشمول تہذیبی نقصانات، کے لیے ملاحظہ ہو ہماری کتاب:

سید سعادت اللہ حسینی (2021) سازشیت، سازشی نظریات اور اسلام؛ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، نئی دہلی

[42]               یہاں میر و غالب سے مراد ان کا فن اور جمالیاتی اظہار کی ان کی صلاحیت ہے، بے شک اسلام کی اعلیٰ اخلاقی و تہذیبی قدروں سے ان کا رشتہ کم زور ہے اس کے باوجود وہ ہمارا تہذیبی اثاثہ ہے۔ یہ اگلی نسلوں کی ذمہ داری تھی کہ اس اثاثے کی حفاظت کرتے ہوئے اخلاقی و دینی قدروں سے اس کا رشتہ قائم کریں۔

[43]         M.Umer Chapra(2008)Muslim Civilisation: The Causes of Decline and the Need for Reform; The Islamic Foundation; Leicestershire UK pages 143-148

مشمولہ: شمارہ اگست 2023

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223