دنیا کی نعمتیں مال واسباب اور دنیا بھر کے عیش وعشرت کے سامان اللہ تعالیٰ نے پیدا کیے ہیں اور ہر انسان کو اللہ نے اپنی مرضی اور فضل سے الگ الگ مقدار میں عطا کیا ہے۔ کسی کو یہ چیزیں زیادہ عطا کی گئی ہیں اور کسی کو کم۔ اس عطا میں فرق کا سبب محض انسانوں کی آزمائشیں اور امتحان ہے کہ بندہ نعمتیں پاکر ناشکر ی اختیار کرتے ہوئے اللہ کو بھول جاتا ہے یا پھر صبروشکر اختیار کرتا ہے۔ معاشرے میں کچھ لوگ وہ بھی نظر آتے ہیں جو دوسروں کے حاصل مال واسباب کو دیکھ کر برداشت نہیں کرپاتے، بلکہ اس ناپاک جذبے میں مبتلا ہوجاتے ہیں کہ فلاں اور فلاں کو اللہ نے جن نعمتوں سے نوازا ہے اس کا جلد از جلد خاتمہ ہوجائے اور وہ نعمتیں مجھے حاصل ہوجائیں۔ دوسروں کی نعمتوں پر کڑھنا ان سے نفرت کرنا اور ان کے زوال کی تمنا کرنا انتہائی معیوب جذبہ ہے۔ اِسے حسد سے تعبیر کیاگیا ہے۔ اولاً ایسا شخص دنیا اور متاع دنیا کے دائرے میں محصور ہوتا ہے۔ آخرت کے تئیں اس کے یقین میں کمی ہوتی ہے یا پھر اسے آخرت کی نعمتوں کا ادراک نہیں ہوتا۔ دوسرے یہ کہ ایسا شخص ناکارہ یا نکما ہوتا ہے، جو محنت اور مشقت کرنے کا عادی نہیں ہوتا اور چاہتا ہے کہ دنیا کی نعمتیں خود ہی اس کے قدموں پر آگریں۔ تیسرے یہ کہ بعض لوگ جب اپنی کوششوں اور جدوجہد سے دنیا کی نعمتیں حاصل نہیں کرپاتے تو وہ جھنجھلاہٹ اور مایوسی میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور اسی کیفیت میں وہ دوسروں کے بدخواہ ہوجاتے ہیں۔ ایسے افراد غیر صحتمند فکر کے حامل ہوتے ہیں، جن کی وجہ سے معاشرہ میں نفرت ، عداوت اوردشمنی کی فضا بنتی ہے۔ کوئی بھی انسانی معاشرہ ایسے افراد کو پسند نہیں کرتا اور اسلامی معاشرہ میں تو ایسے افراد کی گنجایش نہیں ہوتی اس لیے کہ اگر اسلامی معاشرہ کا فرد آخرت کو بھلا کر متاع دنیا کا غلام بن جائے تو وہ اسلامی معاشرے کے لیے ناسور سے زیادہ کچھ نہیں ہوسکتا۔ ایسے افراد پر نگاہ رکھنا اور ان کے قلب وذہن کی اصلاح کرنا اسلامی معاشرے کی ذمہ داری ہے۔
اسلام نے حسد سے منع کیا ہے بلکہ اِسے ایمان کی ضد قرار دیا ہے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ کاارشاد ہے: ’’ایمان اور حسد ایک ساتھ نہیں رہ سکتے‘‘ ۔ایک دوسری حدیث میں فرمایاﷺ : حسد سے بچو، کیوں کہ حسد نیکیوں کو اس طرح کھاجاتا ہے جس طرح آگ لکڑیوں کو ‘‘ ﴿ابوداؤد﴾ حسد سے منع کرکے اسلام نے اس بات کی اجازت دی کہ انسان اللہ کی نعمتوں کے حصول کے لیے تمنا اور رشک کرسکتا ہے۔ اللہ کے فضل اور اس کی نعمتوں کی آرزو کرنا جائز ہے ۔
قرآن مجید میں واضح رہنمائی کی گئی ہے : ’’اور جو کچھ اللہ نے تم میں سے کسی کو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ دیا ہے اس کی تمنا نہ کرو۔ جو کچھ مردوں نے کمایا اس کے مطابق ان کا حصہ ہے اور جو کچھ عورتوں نے کمایا ہے اس کے مطابق ان کا حصہ ہے۔ ہاں اللہ سے اس کے فضل کی دُعا مانگتے رہو، یقینا اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔‘‘ ﴿النساء﴾ رشک اور تمنا کی یوں تو اجازت ہے لیکن بندہ اگر دنیا ومتاع دنیا کی تمناؤں میں غرق ہوجائے تو یہ چیز بھی اس کے لیے فتنہ کا باعث بن سکتی ہے۔ مشہور اسلامی مفکر محمد الغزالی نے بڑی اچھی بات کہی ہے: ’’رشک نام ہے اس نعمت کی تمنا کا جس سے اللہ نے دوسروں کو نواز رکھا ہے۔ لیکن چونکہ اس تمنا اور رشک سے فتنوں کے دروازے کھلتے ہیں، اس لیے اسلام اس بات کا تعین کرتا ہے کہ کن چیزوں کی طلب درست اور ان میں مقابلہ آرائی جائز ہے۔ چنانچہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا دو خوبیوں کو چھوڑ کر کسی اور چیز میں رشک کرنا درست نہیں ہے۔ ایک تو اس آدمی پر رشک کرنا جائز ہے جس کو اللہ نے دولت دے رکھی ہو اور وہ اسے راہ حق میں بے دریغ خرچ کرتا ہے اور اس کی تعلیم بھی دیتا ہے۔‘‘ ﴿بخاری﴾ اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ دنیا کی نعمتوں اور مال واسباب کی تمنا اور آرزو بھی مطلقاً نہیں ہے بلکہ اس کی تمنا اور آرزو بھی اس شرط پر ہے کہ دنیا کے اسباب اور مال کو زیادہ سے زیادہ اللہ کی راہ میں لٹایا جائے ۔ دین کا علم اور اس کی حکمت کے حصول کی تمنا بھی اس شرط پر جائز ہوسکتی ہے کہ اس کے ذریعہ اللہ کے بندوں کو اللہ کے قریب کیاجائے، بندوں کے درمیان قرآن وسنت کے مطابق فیصلے کیے جائیں اور کتاب وسنت کی تعلیم کو عام کیا جائے۔ برخلاف اس کے عیش وعشرت اور نمود ونمائش کی خاطر اللہ کے فضل کی تمنا کرنا یا آرزو رکھنا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح علم دین اور علوم قرآن وسنت کے حصول کی تمنا دنیا والوں پر دبدبہ قائم کرنے اور اپنی بڑائی اور شہرت کی غرض سے ہو تو یہ بھی ناجائز ہے۔
ایک مرتبہ حضرات صحابہؓ نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم میں سب سے اچھا شخص کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’جو تم میں دنیا سے سب سے زیادہ بے رغبت اور آخرت کی طرف سب سے زیادہ راغب ہو۔‘‘ ﴿ذم الدنیا:۶۲﴾ اسی طرح ایک مرتبہ حضرت عمر کی مجلس میں عبداللہ بن سلام کی ملاقات حضرت کعب بن احبار سے ہوئی تو حضرت عبداللہ بن سلام نے ان سے پوچھا کہ علم والے لوگ کون ہیں؟ حضرت کعب نے جواب دیا کہ علم والے لوگ وہ ہیں جو اپنے علم کے مطابق عمل کرنے والے ہوں۔ پھر عبداللہ بن سلام نے پوچھا کہ جاننے اور پہچاننے کے باوجود کیا بات علماء کو ان کے علم سے محروم کردیتی ہے؟ حضرت کعب نے جواب دیا کہ لالچ ، حرص اور لوگوں سے اپنی ضرورتیں وابستہ رکھنے سے علم رخصت ہوجاتا ہے۔‘‘ ﴿کتاب القناعۃ ۷۵﴾
موجودہ معاشرے پر نظر ڈالیں تو محسوس ہوگا کہ متاع دنیا محض نام ونمود کا ذریعہ بن گئی ہے اور اہل دنیا فضل الٰہی کے حاصل ہونے پر اسے اپنی ذات ،نمود ونمایش اور اُس میں شہرت وعزت کے لیے بے دریغ خرچ کردیتے ہیں۔ لیکن اُس میں ضرورتمندوں محتاجوں، اور غریبوں کے لیے برائے نام ہی حصہ ہوتا ہے۔ اسی طرح دین حنیف کی تبلیغ جیسے اہم کام میں بھی اپنا مال لگانے میں کسمساتے ہیں ۔
مذکوربالا احادیث نبویﷺ ان لوگوں کے لیے نشان راہ کی حیثیت رکھتی ہیں، جنھیں اللہ نے دُنیوی فضل یا علوم وفنو ن سے نوازا ہے اور ان لوگوں کے لیے بھی اہم ہدایت ہے جو اپنی تمناؤں، آرزوؤں اور خواہشوں کے اسیر ہیں اور دنیا کی دولت اور اس کی رنگینیوں سے آگے وہ کبھی نہیں سوچتے۔
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2011