ایک دوست نے جماعت اسلامی کے قیام اور لائحۂ عمل کے بارے میں چند سوالات ارسال کیے ہیں :
(۱) جماعت اسلامی قائم کرنے کی بنیادی وجہ کیا تھی؟
(۲) تقسیمِ ہند سے قبل، اپنی مدراس کے اجتماع کی تقریر کے ذریعے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کیا پیغام دینا چاہتے تھے؟
(۳) اس پیغام میں کیا حکمتِ عملی پیش کی گئی تھی؟
(۴) مدراس کی تقریر میں پیش کردہ لائحہ عمل کی موجودگی کے باوجود، جماعت اسلامی ہند نے متعدد شعبوں کا آغاز کیوں کیا؟
(۵) الیکشنی سیاست میں جماعت اسلامی ہند کی دلچسپی کی کیا حکمت ہے؟
(۶) خطبہ مدراس کے لائحہ عمل کی طرف مراجعت کی جائے تو اصلاحِ اُمت کے کام میں کیا مدد مل سکتی ہے ؟
ذیل میں ان سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی جائے گی۔
جماعت اسلامی کا قیام
روداد جماعت اسلامی حصہ اول میں اس اجتماع کا تذکرہ کیا گیا ہے جس میں جماعت اسلامی کا قیام عمل میں آیا۔ یہ اجتماع مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی دعوت پر لاہور میں ۲۵؍اگست ۱۹۴۱ء (یکم؍ شعبان ۱۳۶۰ھ) کو منعقد ہوا۔ میاں طفیل محمد مرحوم اس اجتماع میں شریک تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ:
’’یہ اجتماع اسلامیہ پارک لاہور میں مولانا ظفر اقبال صاحب کی کوٹھی فصیح منزل سے متصل مسجد کے سامنے، مولانا مودودی صاحب کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا۔ یہ اجتماع ۲۵؍۲۶؍اگست ۱۹۴۱ء مطابق یکم و ۲ ؍شعبان ۱۳۶۰ھ، دو دن جاری رہا۔ پہلے دن تو جماعت کے لیے مجوزہ دستوری خاکے پر بحث ہوتی رہی۔ شرکاء نے بعض ترامیم پیش کیں۔یہ دستور ساز کمیٹی آٹھ دس آدمیوں پر مشتمل تھی، ان افراد میں، میں بھی شامل تھا۔ اس پہلے اجتماع میں شریک جن لوگوں کی یاد ذہن میں محفوظ ہے، ان میں سید عبدالعزیز شرقی صاحب، مولانا جعفر شاہ پھلواری صاحب، مولانا محمد منظور نعمانی صاحب، نعیم صدیقی صاحب، حافظ فتح اللہ صاحب، شیخ فقیر حسین صاحب، مستری محمد صدیق صاحب، چودھری عبدالرحمن صاحب، ماسٹر عزیز الدین صاحب وغیرہ شامل تھے۔‘‘ (مشاہدات، مطبوعہ ادارہ معارف اسلامی، لاہور)
روداد جماعت اسلامی حصہ اول میں اس اجتماع کے بارے میں جو تفصیل بیان کی گئی ہے وہ درج ذیل ہے:
’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم‘‘میں اسلامی تحریک کی تشریح اور اس کے لیے کام کرنے والی ایک جماعت کی ضرورت ظاہر کی جاچکی تھی اور اس مطلوبہ جماعت کی تشکیل کا نقشہ بھی پیش کردیا گیا تھا، اس کی اشاعت کے بعد ’’ترجمان القرآن‘‘ ماہِ صفر ۶۰ ھ میں عامۃ الناس کو دعوت دی گئی کہ جو لوگ اس نظریہ کو قبول کرکے اس طرز پر عمل کرنا چاہتے ہوں، وہ دفتر کو مطلع کریں۔ پرچہ چھپنے کے تھوڑے ہی دنوں بعد اطلاعات آنی شروع ہوگئیں اور معلوم ہوا کہ ملک میں ایسے لوگوں کی ایک خاصی تعداد موجود ہے، جو ’’جماعتِ اسلامی‘‘ کی تشکیل اور اس کے قیام و بقا کے لیے جدوجہد کرنے پر آمادہ ہیں۔ چنانچہ یہ طے کرلیا گیا کہ ان تمام حضرات کو ایک جگہ اکٹھا کرکے ایک جماعتی شکل بنائی جائے اور پھر اسلامی تحریک کو باقاعدہ اٹھانے کی تدابیرسوچی جائیں۔ اس غرض کے لیے یکم شعبان ۱۳۶۰ھ (۲۵؍اگست ۱۹۴۱ء) اجتماع کی تاریخ مقرر ہوئی۔ جن لوگوں نے جماعتِ اسلامی میں شامل ہونے کا ارادہ ظاہر کیا تھا، ان سب کو ہدایت کردی گئی کہ جہاں ابتدائی جماعتیں بن گئی ہیں، وہاں سے صرف منتخب نمائندے آئیں اور جہاں لوگ ابھی انفرادی صورت میں ہیں وہاں سے حتی الامکان ہر شخص آجائے۔
۲۸؍رجب سے ہی لوگ آنے شروع ہوگئے اور یکم شعبان تک تقریباً آٹھ آدمی آچکے تھے۔ باقی سب لوگ بعد میں آئے، شرکائے اجتماع کی کل تعداد ۷۵ تھی۔‘‘
اب سوال یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے قیام کا مقصد کیا تھا؟ اس سوال کا جواب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی تقریروں میں دیا ہے۔
جماعت اسلامی کا مقصد
مئی ۱۹۴۷ء میں جماعت اسلامی کا ایک عام اجتماع دارالاسلام پٹھان کوٹ میں منعقد ہوا۔ اس میں جماعت کے مقصد پر روشنی ڈالتے ہوئے امیر جماعت مولانا مودودی نے کہا:
’’ہماری یہ جماعت جس غرض کے لیے اٹھی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں اور آغازِ کار کے طور پر اس ملک میں ایک ایسی سوسائٹی منظم کی جائے جو اسلام کے اصلی اصولوں پر شعور و اخلاص کے ساتھ خود عامل ہو، دنیا کے سامنے اپنے قول و عمل سے اس کی صحیح نمائندگی کرے۔ اور بالآخر جہاں جہاں بھی اس کو موقع ملے وہاں کے افکار، اخلاق، تمدن، معاشرت، سیاست اور معیشت کے نظام کو موجودہ دہریت و مادہ پرستی کی بنیادوں سے ہٹا کر سچی خدا پرستی یعنی توحید کی بنیاد پر قائم کردے۔‘‘ (جماعت اسلامی کی دعوت)
اس اجتماع سے قبل ایک اور موقع پر اپنی تقریر میں مولانا مودودیؒ نے کہا:
’’دنیا میں ہم جس منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ فساق و فجار کی امامت و قیادت کا نظام ختم ہوکر امامتِ صالحہ کا نظام قائم ہو۔ اسی سعی و جہد کو ہم دنیا وآخرت میں رضائے الٰہی کے حصول کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔‘‘(تحریکِ اسلامی کی اخلاقی بنیادیں)
اُمتِ مسلمہ کو فرضِ منصبی کی یاد دہانی
جماعت اسلامی قائم کرنے کا ایک قوی محرک یہ احساس تھا کہ امتِ مسلمہ اپنے فرضِ منصبی سے غافل ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اپنی ایک تقریر میں اس احساس کو بیان کیا ہے۔ یہ تقریر جماعت کے قیام کے ۲۹ سال بعد ۱۹۸۰ء میں (پاکستان میں) کی گئی۔ اور پروفیسر خورشید احمد کی مرتب کردہ کتاب ’’تحریکِ اسلامی- ایک تاریخ، ایک داستان‘‘ میں درج ہے۔ مولانا مودودیؒ نے اس تقریر میں کہا:
’’۱۹۳۹ء کا دور آیا تو (غیر منقسم ہندوستان میں) مسلم لیگ کی تحریک نے زور پکڑا۔ پاکستان کی تحریک اٹھنی شروع ہوئی جس نے آخر کار ۱۹۴۰ء میں قرار داد پاکستان کی شکل اختیار کی۔ اس زمانے میں جو بات میرے نزدیک اہم تھی وہ یہ تھی کہ مسلمانوں کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ تم محض ایک قوم نہیں اور تمہارا مقصود بھی (پاکستان کی صورت میں) محض ایک قومی حکومت کا قیام نہیں ہونا چاہیے۔ تم ایک مبلغ قوم ہو، تم ایک مشنری قوم ہو، تم اپنے مشن کو کبھی نہ بھولو۔۔۔۔۔
لیکن جب میں نے دیکھا کہ میری آواز، صدا بصحرا ثابت ہورہی ہے، تو پھر دوسرا قدم جو میری سمجھ میں آیا یہ تھا کہ اپنی طرف سے ایک ایسی جماعت منظم کی جائے جو صاحبِ کردار لوگوں پر مشتمل ہو اور ان فتنوں کا مقابلہ کرسکے جو آگے آتے نظر آرہے تھے (اور جن کی زد میں ہندوستانی مسلمان تھے)۔‘‘
(بہ حوالہ’’ تحریک اسلامی، ایک تاریخ، ایک داستان‘‘، مطبوعہ منشورات، نئی دہلی)
جماعت اسلامی قائم کرنے کی وجہ
مذکورہ بالا تقریر میں مولانا مودودیؒ نے مزید کہا:
’’(اس وقت ۱۹۳۹ء میں میرے سامنے) تین مسئلے درپیش تھے۔ (پاکستان کی تحریک شروع ہوچکی تھی، لیکن یہ یقینی نہ تھا کہ وہ کامیاب ہوجائے گی، چنانچہ پہلا مسئلہ یہ تھا کہ) اگر ملک تقسیم نہ ہو تو مسلمانوں کو بچانے کے لیے کیا کیا جائے؟ (دوسرا سوال یہ تھا کہ اگر) ملک تقسیم ہوجائے تو جو مسلمان، ہندوستان میں رہ جائیں گے، اُن کے لیے کیا کیا جائے؟ (پھر تیسرا سوال یہ درپیش تھا کہ) جو ملک (پاکستان) مسلمانوں کے قبضے میں آئے گا، اس کو مسلمانوں کی کافرانہ حکومت بننے سے کیسے بچایا جائے اور اسے اسلامی حکومت کے راستے پر کیسے ڈالا جائے؟ یہ موقع تھا جب میں نے قطعی طور پر یہ فیصلہ کرلیا کہ جماعت اسلامی کے نام سے ایک جماعت قائم کی جائے۔۔۔۔۔
میرے دماغ میں یہ تصور پوری طرح مستحکم ہوچکا تھا کہ مسلمانوں کا اصل نصب العین، اسلامی نظامِ زندگی کا قیام ہے۔ … اسی کو ہم نے جماعت اسلامی کا نصب العین قرار دیا۔ اسلام کی اصطلاح میں اس کا نام اقامتِ دین ہے جیسا کہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہوا ہے کہ ان اقیموا الدین ولا تتفرقوا فیہ۔‘‘
(کتابِ مذکور)
اقامتِ دین کا مفہوم
۱۹۵۲ء میں مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی رہنمائی میں، جماعت اسلامی پاکستان نے اپنا نیا دستور بنایا۔ اس کی دفعہ ۴ میں جماعت اسلامی کے نصب العین — اقامتِ دین — کی تشریح ان الفاظ میں درج کی گئی:
’’اقامتِ دین سے مقصود، دین کے کسی خاص حصے کی اقامت نہیں ہے بلکہ پورے دین کی اقامت ہے، خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے۔ نماز، روزے اور حج و زکوٰۃ سے ہو یا معیشت و معاشرت اور تمدن و سیاست سے۔ اسلام کا کوئی حصہ بھی غیر ضروری نہیں ہے، پورے کا پورا اسلام ضروری ہے۔ ایک مومن کا کام یہ ہے کہ اس پورے اسلام کو کسی تجزیے و تقسیم کے بغیر، قائم کرنے کی جدوجہد کرے۔ اس کے جس حصے کا تعلق، افراد کی اپنی ذات سے ہے، ہر مومن کو اسے بطورِ خود، اپنی زندگی میں قائم کرنا چاہیے اور جس حصے کا قیام، اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتا، اہلِ ایمان کو مل کر اس کے لیے اجتماعی نظم اور سعی کا اہتمام کرنا چاہیے۔
اگرچہ مومن کا اصل مقصدِ زندگی، رضائے الٰہی کا حصول اور آخرت کی فلاح ہے، مگر اس مقصد کا حصول اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ دنیا میں خدا کے دین کو قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس لیے مومن کا عملی نصب العین، اقامتِ دین — اور حقیقی نصب العین، وہ رضائے الٰہی ہے جو اقامتِ دین کی سعی کے نتیجے میں حاصل ہوگی۔‘‘ (کتابِ مذکور)
محض سیاسی تغیر مقصود نہیں
۱۹۴۵ء میں جماعت اسلامی کے اجتماع منعقد دارالاسلام میں ’’دعوت اسلامی اور اس کا طریقِ کار‘‘ کے عنوان پر مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ایک تقریر کی۔ اس تقریر میں مولانا نے کہا:
’’ہمارے پیشِ نظر صرف ایک سیاسی نظام کا قیام نہیں ہے، بلکہ ہم چاہتے ہیںکہ پوری انسانی زندگی — انفرادی اور اجتماعی — میں وہ ہمہ گیر انقلاب رونما ہو جو اسلام رونما کرنا چاہتا ہے، جس کے لیے اللہ نے اپنے انبیاء کو مبعوث کیا تھا، اور جس کی دعوت دینے اور جدوجہد کرنے کے لیے ہمیشہ انبیاء علیہم السلام کی امامت و رہنمائی میں امتِ مسلمہ کے نام سے ایک گروہ بنتا رہا ہے۔ ۔۔۔۔
۱- ہم بندگانِ خدا کو بالعموم اور جو پہلے سے مسلمان ہیں ان کو بالخصوص، اللہ کی بندگی کی دعوت دیتے ہیں ۔
۲- جو شخص بھی اسلام قبول کرلے، یا اس کے ماننے کا دعویٰ اور اظہار کرے، اس کو ہم دعوت دیتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی سے منافقت اور تناقض کو خارج کرے، اور جب وہ مسلمان ہے یا بنا ہے تو مخلص مسلمان بنے اور اسلام کے رنگ میں رنگ کر یک رنگ ہوجائے۔
۳- زندگی کا نظام جو آج باطل پرستوں اور فساق و فجار کی رہنمائی میں چل رہا ہے، اور معاملاتِ دنیا کی زمامِ کار جو خدا کے باغیوں کے ہاتھ میں آگئی ہے، ہم دعوت دیتے ہیں کہ اسے بدلا جائے اور رہنمائی و امامت، نظری اور عملی دونوں حیثیتوں سے، مومنین صالحین کے ہاتھوں میں منتقل ہو۔‘‘(کتابِ مذکور)
ایک نئی جماعت کے قیام کی غرض
(تقسیمِ مُلک سے قبل) مولانا مودودیؒ نے ایک اور تقریر میں جماعت اسلامی کے قیام کی غرض اس طرح بیان کی ہے:
’’اب میں مختصراً آپ کو بتاؤں گا کہ ہم کس غرض کے لیے اٹھے ہیں۔ ہم ان سب لوگوں کو جو اسلام کو اپنا دین مانتے ہیں، یہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس دین کو واقعی اپنا دین بنائیں۔ اس کو انفرادی طور پر اپنی زندگیوں میں اور اجتماعی طور پر اپنے گھروں میں، اپنے خاندان میں، اپنی سوسائٹی میں، اپنی تعلیم گاہوں میں، اپنے ادب اور صحافت میں، اپنے کاروبار اور معاشی معاملا ت میں، اپنی انجمنوں اور قومی اداروں میں اور بحیثیت مجموعی اپنی قومی پالیسی میں عملاً قائم کریں اور اپنے قول اور عمل سے دنیا کے سامنے اس کی سچی گواہی دیں۔
ہم ان سے کہتے ہیں کہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے اقامتِ دین اور شہادتِ حق تمہاری زندگی کا اصل مقصد ہے، اس لیے تمہاری تمام سعی و عمل کا مرکز و محور اسی چیزکو ہونا چاہیے۔ ہر اس بات اور کام سے دست کش ہوجاؤ، جو اس کی ضد ہو اورجس سے اسلام کی غلط نمائندگی ہوتی ہو۔ اسلام کو سامنے رکھ کر اپنے پورے قولی اور عملی رویے پر نظر ثانی کرو۔ اور اپنی تمام کوششیں اس راہ میں لگادو کہ دین پورا کا پورا عملاً قائم ہو جائے۔ اس کی شہادت ٹھیک ٹھیک ادا ہو اور اس کی طرف دنیا کو ایسی دعوت دی جائے جو اتمامِ حجت کے لیے کافی ہو۔ یہ ہے جماعت اسلامی کے قیام کی واحد غرض۔‘‘ (شہادتِ حق)
مولانا مودودیؒ نے یہ بات بھی واضح کی کہ اگر مسلمانوں کی کوئی (موجود) جماعت، شہادتِ حق کے فریضے کو انجام دینے کے لیے تیار ہوجاتی تو وہ ایک نئی جماعت نہ بناتے بلکہ اُسی (موجود) جماعت میں شامل ہوجاتے۔ مولانا نے کہا:
’’سب کو معلوم ہے کہ اس جماعت کی تشکیل سے پہلے میں برسوں اکیلا پکارتا رہا ہوں کہ مسلمانو! یہ تم کن راہوں میں اپنی قوتیں اور کوششیں صَرف کررہے ہو، تمہارے کرنے کا اصل کام تو یہ (شہادتِ حق) ہے، اس پر اپنی تمام مساعی کو مرکوز کرو۔یہ دعوت اگر (ملک کے) سارے مسلمان قبول کرلیتے تو کہنا ہی کیا تھا، مسلمانوں میں ایک جماعت بننے کے بجائے، مسلمانوں کی ایک جماعت بنتی اور کم از کم ہندوستان کی حد تک وہ ’’الجماعۃ‘‘ ہوتی، جس کی موجودگی میں کوئی دوسری جماعت بنانا شرعاً حرام ہوتا۔ یہ بھی نہ ہوتا تو مسلمانوں کی مختلف جماعتوں میں سے کوئی ایک ہی اُسے (یعنی شہادتِ حق کے مقصد کو) مان لیتی، تب بھی ہم راضی تھے۔ ہم بہ خوشی اس میں شامل ہوجاتے۔مگر جب پکار پکار کر ہم تھک گئے اور کسی نے سن کر نہ دیا تب ہم نے مجبوراً یہ فیصلہ کیا کہ وہ سب لوگ جو اس کام (شہادتِ حق) کو حق اور فرض سمجھ چکے ہیں، خود ہی مجتمع ہوں اور اس کے لیے اجتماعی سعی کریں۔‘‘ (شہادتِ حق)
امید ہے کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی مندرجہ بالا تصریحات سے اس سوال کا جواب مل گیا ہوگا کہ ’’جماعت اسلامی قائم کرنے کی بنیادی وجہ کیا تھی؟‘‘ بقیہ سوالات پر اظہارِ خیال آئندہ کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ!
مشمولہ: شمارہ دسمبر 2018