قضیہ فلسطین و اسرائیل کیا ہے؟

قضیہ فلسطین و اسرائیل کے نتیجے میں ہزاروں افراد کی ہلاکت ہوئی ہے اور اور لاکھوں بے گھر ہوئے ہیں۔ اس کا مستقبل اس کے ماضی میں مضمر ہے۔ اس کی جڑیں ایک صدی قبل کیے گئے نوآبادیاتی عمل سے جڑی ہیں۔

7 اکتوبر 2023 کو مسلح فلسطینی گرہ حماس کے غیر معمولی حملے کے بعد اسرائیل کے ذریعے غزہ پٹی پر اعلان جنگ کے بعد دنیا کی نظریں ایک بار پھر اس مسئلے پر مرکوز ہیں کہ آگے کیا ہوگا۔

حماس کے مجاہدین نے جنوبی اسرائیل کے متعدد قصبوں پر حملوں میں 800 سے زائد اسرائیلیوں کو ہلاک کر دیا۔  اس کے جواب میں اسرائیل نے غزہ پٹی پر بمباری شروع کر دی جس کے نتیجے میں اب تک 15000سے زائد فلسطینی شہید ہو گئے ہیں۔ اسرائیل فضائی اور زمینی حملوں سے مسلسل غزہ کے شہریوں کو ہلاک کر رہا ہے۔ غزہ پٹی کی ’’مکمل ناکہ بندی‘‘ کے اعلان کے بعد پہلے سے محصور علاقے میں خوراک، ایندھن اور دیگر ضروری اشیاء کی فراہمی پر روک لگا دی گئی جو بین الاقوامی قانون کے تحت جنگی جرم ہے۔

لیکن آنے والے دنوں اور ہفتوں میں جو کچھ سامنے آئے گا اس کے بیج ماضی میں بوئے گئے تھے۔ کئی دہائیوں سے مغربی ذرائع ابلاغ کے ادارے، ماہرین تعلیم، فوجی ماہرین اور عالمی رہ نما قضیہ فلسطین و اسرائیل کو ناقابل حل، پیچیدہ اور تعطل کا شکار قرار دیتے رہے ہیں۔ دنیا کے طویل ترین قضیوں میں سے ایک، اس مسئلے کو سمجھنے کے لیے یہاں ایک اجمالی خاکہ پیش کیا جاتاہے:

بالفور اعلامیہ کیا تھا؟

100 سال قبل 2 نومبر 1917 کو برطانیہ کے اس وقت کے وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے برطانوی یہودی برادری کے سربراہ لیونل والٹر روتھ شلڈ کے نام ایک خط لکھا تھا۔

یہ خط  اگرچہ بے حد مختصر تھا – محض 67 الفاظ – لیکن اس کے مندرجات نے جو اثرات مرتب کیے وہ فلسطین پر زلزلے کے مترادف تھے جسے آج بھی محسوس کیا جاتا ہے۔

اس نے برطانوی حکومت کو ’’فلسطین میں یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن کے قیام‘‘ اور ’’اس مقصد کے حصول‘‘ میں سہولت فراہم کرنے کا عہد کیا۔ اس خط کو بالفور اعلامیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ ایک یورپی طاقت نے صیہونی تحریک کو ایک ایسا ملک دینے کا وعدہ کیا، جہاں فلسطینی عرب باشندے 90 فیصد سے زیادہ آبادی پر مشتمل تھے۔

ایک برطانوی اتنداب  1923 میں تشکیل دیا گیا تھا جو 1948 تک جاری رہا۔ اس عرصے کے دوران، برطانیہ نے بڑے پیمانے پر یہودیوں کو فلسطین آنے میں سہولت فراہم کی – بہت سے نو آمدہ یہودی یورپ میں نازیت سے فرار اختیار کر رہے تھے – اور انھیں احتجاج اور ہڑتالوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ فلسطینی اپنے ملک کی بدلتی ہوئی آبادی اور برطانیہ کے ذریعے اپنی زمینوں کو یہودی آباد کاروں کے حوالے کیے جانے پر فکرمند تھے۔

1930 کی دہائی میں کیا ہوا تھا؟

بڑھتی ہوئی کشیدگی بالآخر عرب مزاحمت کا باعث بنی، جو 1936 سے 1939 تک جاری رہی۔

اپریل 1936 میں، نو تشکیل شدہ عرب نیشنل کمیٹی نے فلسطینیوں سے برطانوی استعمار اور بڑھتی ہوئی یہودی ہجرت کے خلاف ایک عام ہڑتال شروع کرنے، ٹیکس کی ادائیگی روکنے اور یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے کا مطالبہ کیا۔

چھ ماہ تک جاری رہنے والی اس ہڑتال کو برطانیہ نے بے رحمی سے کچل دیا، بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں اور گھروں کو مسمار کیا گیا، ایک ایسا عمل جس پر اسرائیل آج بھی فلسطینیوں کے خلاف عمل پیرا ہے۔

مزاحمت کا دوسرا مرحلہ 1937 کے اواخر میں شروع ہوا اور اس کی قیادت فلسطینی کسان مزاحمتی تحریک نے کی، جس نے برطانوی افواج اور استعمار کو نشانہ بنایا۔

1939 کے دوسرے نصف تک، برطانیہ نے فلسطین میں 30،000 فوجیوں کو جمع کرلیا۔ دیہاتوں پر فضائی بمباری کی گئی، کرفیو نافذ کیا گیا، گھروں کو مسمار کیاگیا اور انتظامی حراستیں اور قتل بڑے پیمانے پر کیے گئے۔

باہمی طور پر، برطانیہ نے یہودی آبادکاروں کے ساتھ تعاون کیا اور مسلح گروہوں  اور یہودی جنگجوؤں پر مشتمل ایک برطانوی قیادت والی ’’انسداد مزاحمت فورس‘‘ تشکیل دی جسے اسپیشل نائٹ اسکواڈ کا نام دیا گیا۔

یشوو کے اندر، جو قبل از ریاست آباد کار برادری تھی، ہتھیار خفیہ طور پر درآمد کیے گئے اور یہودی نیم فوجی دستے ہگانہ کو وسعت دینے کے لیے ہتھیاروں کی فیکٹریاں قائم کی گئیں جو بعد میں اسرائیلی فوج کا مرکز بن گئیں۔

مزاحمت کے ان تین برسوں میں 5 ہزار فلسطینی  ہلاک ہوئے،  15 سے 20 ہزار زخمی اور 5600کو قید کرلیاگیا۔

اقوام متحدہ کی تقسیم کا منصوبہ کیا تھا؟

1947  تک یہودی آبادی فلسطین کے 33 فیصد حصے تک پہنچ چکی تھی لیکن ان کے پاس صرف 6 فیصد زمین تھی۔

اقوام متحدہ نے قرارداد 181 منظور کی جس میں فلسطین کو عرب اور یہودی ریاستوں میں تقسیم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

فلسطینیوں نے اس منصوبے کو مسترد کردیا کیوں کہ اس کی رو سے فلسطین کا تقریباً  56 فیصد حصہ یہودی ریاست کو مختص کیا گیا تھا، جس میں زرخیز ساحلی علاقے کا بڑا حصہ بھی شامل تھا۔

اس وقت فلسطینیوں کے پاس تاریخی فلسطین کے 94 فیصد حصے پر قبضہ تھا اور اس کی آبادی کا 67 فیصد حصہ فلسطینیوں پر مشتمل تھا۔

1948 کا نکبہ یا فلسطین کی نسل کشی

14 مئی 1948 کو برطانوی انتداب کی میعاد ختم ہونے سے پہلے ہی صیہونی نیم فوجی دستوں نے  فلسطینی قصبوں اور دیہاتوں کو تباہ کرنے کے لیے ایک فوجی آپریشن شروع کردیا تاکہ صیہونی ریاست کی سرحدوں کو وسعت دی جا سکے۔

اپریل 1948 میں یروشلم کے مضافات میں دیر یاسین گاؤں میں 100 سے زائد فلسطینی مرد، خواتین اور بچے شہید کردیے گئے۔

1947 سے 1949 تک 500 سے زائد فلسطینی دیہات، قصبے اور شہر تباہ کر دیے گئے جنھیں فلسطینی نکبہ  کہتے ہیں۔(نکبہ کا مطلب سانحہ )

نکبہ میں ایک اندازے کے مطابق 15,000 فلسطینی شہید ہوئے، جن میں درجنوں قتل عام بھی شامل تھے۔

صیہونی تحریک نے تاریخی فلسطین کے 78 فیصد حصے پر قبضہ کر لیا۔ بقیہ 22 فیصد کو مقبوضہ مغربی کنارے اور محصور غزہ پٹی میں تقسیم کیا گیا۔

ایک اندازے کے مطابق ساڑھے سات لاکھ فلسطینی اپنے وطن سے ہجرت پر مجبور ہوگئے۔

آج ان کی اولادیں فلسطین اور لبنان، شام، اردن اور مصر کے ہمسایہ ممالک میں 58 خستہ حال کیمپوں میں 60  لاکھ پناہ گزینوں کی حیثیت سے رہ رہی ہیں۔

15 مئی 1948 کو اسرائیل نے اپنے قیام کا اعلان کیا۔

اگلے دن پہلی عرب اسرائیل جنگ شروع ہوئی اور جنوری 1949 میں اسرائیل اور مصر، لبنان، اردن اور شام کے درمیان جنگ بندی کے بعد لڑائی ختم ہوئی۔

دسمبر 1948 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد 194 منظور کی جس میں فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کے حق کا مطالبہ کیا گیا۔

نکبہ کے بعد کے سال

کم از کم ڈیڑھ لاکھ فلسطینی اسرائیل کی نو تشکیل شدہ ریاست میں موجود تھے اور تقریباً 20 سال تک سخت کنٹرول والے فوجی قبضے میں رہے جس کے بعد انھیں بالآخر اسرائیلی شہریت دے دی گئی۔

مصر نے غزہ پٹی پر قبضہ کر لیا اور 1950 میں اردن نے مغربی کنارے پر اپنی انتظامی حکم رانی کا آغاز کیا۔

1964  میں فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (پی ایل او) قائم کی گئی اور اس کے ایک سال بعد فتح سیاسی پارٹی کا قیام عمل میں آیا۔

نکسہ، یا چھ روزہ جنگ اور بستیاں

5 جون 1967 کو اسرائیل نے عرب افواج کے اتحاد کے خلاف چھ روزہ جنگ کے دوران غزہ پٹی، مغربی کنارے، مشرقی یروشلم، شام کی گولان کی پہاڑیوں اور جزیرہ نما مصر ی سینا سمیت باقی تاریخی فلسطین پر قبضہ کر لیا۔

کچھ فلسطینیوں کے لیے، اس کی وجہ سے دوسری بار جبری نقل مکانی ہوئی (نکسہ)، مطلب ہے ’’صدمہ‘‘۔

دسمبر 1967  میں فلسطین کی آزادی کے لیے مارکسسٹ لیننسٹ پاپولر فرنٹ قائم کیا گیا۔ اگلی دہائی میں بائیں بازو کے گروہوں کے ذریعے حملوں اور طیاروں کو ہائی جیک کرنے کے سلسلے نے دنیا کی توجہ فلسطینیوں کی حالت زار کی طرف مبذول کرائی۔

مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ پٹی میں بستیوں کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ ایک دو سطحی نظام تشکیل دیا گیا جس میں یہودی آباد کاروں کو اسرائیلی شہری ہونے کے تمام حقوق اور مراعات فراہم کی گئیں جب کہ فلسطینیوں کو ایک فوجی قبضے کے تحت رہنا پڑا جو ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھتا تھا اور ہر قسم کے سیاسی یا شہری اظہار پر پابندی عائد تھی۔

پہلا انتفاضہ 1987-1993

پہلا فلسطینی انتفاضہ دسمبر 1987 میں غزہ پٹی میں اس وقت شروع ہوا جب ایک اسرائیلی ٹرک فلسطینی مزدوروں کو لے جانے والی دو وینوں سے ٹکرا گیا جس کے نتیجے میں چار فلسطینی ہلاک ہو گئے تھے۔

احتجاج تیزی سے مغربی کنارے تک پھیل گیا اور نوجوان فلسطینیوں نے اسرائیلی فوج کے ٹینکوں اور فوجیوں پر پتھراؤ کیا۔

اس کے نتیجے میں حماس تحریک کا قیام بھی عمل میں آیا جو اخوان المسلمین کی ایک شاخ تھی جو اسرائیلی قبضے کے خلاف مسلح مزاحمت میں مصروف تھی۔

اسرائیلی فوج کا سخت ردعمل اس وقت کے وزیر دفاع یتزاک رابن کے ذریعے پیش کی گئی ‘ان کی ہڈیاں توڑدو’ پالیسی پر مبنی تھا۔ اس میں رسمی قانونی کارروائی کیے بغیر قتل، یونیورسٹیوں کو بند کرنا، کارکنوں کی ملک بدری اور گھروں کی تباہی شامل تھی۔

انتفاضہ بنیادی طور پر نوجوانوں نے انجام دیا تھا اور اس کی قیادت مزاحمت کی متحدہ قومی قیادت نے کی تھی، جو فلسطینی سیاسی دھڑوں کا ایک اتحاد تھا جو اسرائیلی قبضے کو ختم کرنے اور فلسطین کی آزادی کے قیام کے لیے پرعزم تھا۔

1988 میں عرب لیگ نے پی ایل او کو فلسطینی عوام کا واحد نمائندہ تسلیم کیا۔

انتفاضہ کی خصوصیت عوامی تحریکوں، بڑے پیمانے پر احتجاج، سول نافرمانی، منظم ہڑتالوں اور ملی اتحاد کی تھی۔

اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیم بی تسیلم کے مطابق انتفاضہ کے دوران اسرائیلی افواج کے ہاتھوں  1070 فلسطینی شہید ہوئے جن میں 237 بچے بھی شامل ہیں۔ ایک لاکھ 75 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو گرفتار کیا گیا۔

انتفاضہ نے بین الاقوامی برادری کو بھی قضیہ کا حل تلاش کرنے کی ترغیب دی۔

اوسلو کے سال اور فلسطینی اتھارٹی

انتفاضہ 1993 میں اوسلو معاہدے پر دستخط اور فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کے قیام کے ساتھ ختم ہوا، ایک عبوری حکومت جسے مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ پٹی کے کچھ حصوں میں محدود خود مختاری دی گئی تھی۔

پی ایل او نے دو ریاستی حل کی بنیاد پر اسرائیل کو تسلیم کیا اور مؤثر طریقے سے معاہدوں پر دستخط کیے جس سے اسرائیل کو مغربی کنارے کے 60 فیصد حصے اور علاقے کے زیادہ تر زمینی اور آبی وسائل کا کنٹرول مل گیا۔

پی اے کو مغربی کنارے اور غزہ پٹی میں ایک آزاد ریاست چلانے والی پہلی منتخب فلسطینی حکومت کی راہ ہم وار کرنی تھی جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم تھا، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوسکا۔

پی اے کے ناقدین اسے اسرائیلی قبضے کا ایک بدعنوان ذیلی ٹھیکیدار سمجھتے ہیں جو اسرائیل کے خلاف اختلاف رائے اور سیاسی سرگرمی کو دبانے میں اسرائیلی فوج کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔

1995 میں اسرائیل نے غزہ پٹی کے ارد گرد ایک برقی باڑ اور کنکریٹ کی دیوار تعمیر کردی، جس کے نتیجے میں منقسم فلسطینی علاقوں کے درمیان رابطے منقطع ہو گئے۔

دوسرا انتفاضہ

دوسرا انتفاضہ 28 ستمبر 2000 کو اس وقت شروع ہوا جب حزب اختلاف لیکوڈ کے رہ نما ایریل شیرون نے مسجد اقصیٰ کے احاطے کا اشتعال انگیز دورہ کیا اور یروشلم کے پرانے شہر اور اس کے آس پاس ہزاروں سیکیورٹی افواج تعینات کردیں۔

فلسطینی مظاہرین اور اسرائیلی افواج کے درمیان جھڑپوں میں دو روز کے دوران پانچ فلسطینی شہید اور 200 زخمی ہوئے۔

اس واقعے نے بڑے پیمانے پر مسلح مزاحمت کو جنم دیا۔ انتفاضہ کے دوران اسرائیل نے فلسطینی معیشت اور انفراسٹرکچر کو بے حد نقصان پہنچایا۔

اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کے زیر انتظام علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر لیا اور علیحدگی کی دیوار کی تعمیر شروع کر دی جس نے بڑے پیمانے پر بستیوں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں کے ذرائع  معاش اور برادریوں کو تباہ کر دیا۔

بین الاقوامی قانون کے تحت بستیاں غیر قانونی ہیں، لیکن گذشتہ برسوں کے دوران، لاکھوں یہودی آباد کار چوری شدہ فلسطینی زمین پر تعمیر کردہ کالونیوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔ فلسطینیوں کے لیے جگہ سکڑ رہی ہے کیوں کہ صرف آباد کاروں کے لیے سڑکیں اور بنیادی ڈھانچہ مقبوضہ مغربی کنارے کو کاٹ رہا ہے، جس کی وجہ سے فلسطینی شہروں اور قصبوں کو بنٹوستانوں میں تبدیل کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے، جو سیاہ فام جنوبی افریقیوں کے لیے الگ تھلگ بستیاں ہوا کرتی تھیں  جو ملک کی سابق نسل پرست حکومت نے بنائی تھیں۔

اوسلو معاہدے پر دستخط کے وقت مشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے میں صرف ایک لاکھ دس ہزار یہودی آباد کار رہتے تھے۔ آج یہ تعداد سات لاکھ سے زیادہ ہے جو فلسطینیوں سے چھینی گئی ایک لاکھ ہیکٹر (110 مربع میل) سے زائد زمین پر رہتے ہیں۔

 

فلسطینی تقسیم اور غزہ کی ناکہ بندی

پی ایل او کے رہ نما یاسر عرفات 2004 میں انتقال کر گئے اور ایک سال بعد دوسرا انتفاضہ ختم ہو گیا، غزہ پٹی میں اسرائیلی بستیوں کو ختم کر دیا گیا اور اسرائیلی فوجیوں اور 9,000 آباد کاروں نے غزہ پٹی کو چھوڑ دیا۔

ایک سال بعد فلسطینیوں نے پہلی بار عام انتخابات میں ووٹ ڈالا۔

حماس نے اکثریت حاصل کی۔ فتح نے نتائج نہیں مانے، فتح اور حماس کی خانہ جنگی شروع ہوگئی، جو مہینوں تک جاری رہی، جس کے نتیجے میں سیکڑوں فلسطینی ہلاک ہوگئے۔

حماس نے فتح کو غزہ پٹی سے بے دخل کر دیا اور فلسطینی اتھارٹی کی مرکزی جماعت فتح نے مغربی کنارے کے کچھ حصوں پر دوبارہ کنٹرول حاصل کر لیا۔

جون 2007 میں اسرائیل نے حماس پر دہشت گردی کا الزام لگاتے ہوئے غزہ پٹی پر زمینی، فضائی اور بحری ناکہ بندی کر دی۔

غزہ پٹی پر جنگیں

اسرائیل نے 2008، 2012، 2014 اور 2021 میں غزہ پر چار طویل فوجی حملے کیے۔  ہزاروں فلسطینی مارے جا چکے ہیں جن میں بہت سے بچے بھی شامل ہیں اور ہزاروں گھروں، اسکولوں اور دفاتر کی عمارتوں کو تباہ کر دیا گیا۔

تعمیر نو تقریباً ناممکن ہے کیوں کہ محاصرے کی وجہ سے تعمیراتی مواد جیسے سٹیل اور سیمنٹ کو غزہ پہنچنے سے روک دیا گیا۔

2008 کے حملے میں وہائٹ فاسفورس جیسے بین الاقوامی طور پر ممنوعہ ہتھیاروں کا استعمال شامل تھا۔

2014 میں 50 دنوں کے دوران اسرائیل نے 2100سے زائد فلسطینیوں کو قتل کیا جن میں 1462عام شہری اور 500کے قریب بچے شامل تھے۔

اسرائیلیوں کے ذریعے آپریشن پروٹیکٹو ایج نامی اس حملے کے دوران تقریباً 11 ہزار فلسطینی زخمی ہوئے، 20 ہزار گھر تباہ ہوئے اور پانچ لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔

(بشکریہ:   الجزیرہ)

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2023

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau