حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت (634-644ء) میں ہندوستان میں اسلام کی آمد ہوئی اور کئی شہروں پر عرب حکمراں قابض ہوئے ،مکران اور سندھ بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت ہی میں فتح ہواان شہروں کے فتح ہوتے ہی ہندوستان میں صحابہ و تابعین کی آمد کا باضابطہ سلسلہ شروع ہو گیا ۔انہی آنے والوں میں علماء و محد ثین بھی تھے جن کی ذات گرامی سے ہندوستان میں علم حدیث کی اشاعت کاسلسلہ شروع ہوا جگہ جگہ درس حدیث کی درسگاہیںاور مراکز قائم ہوئے ۔ابن کثیر الدمشقی (م۷۷۴ھ ) لکھتے ہیں :
’’اور اس سے پہلے حضرت عمر و عثمان رضی اللہ عنہما کے زمانے میں صحابہ کرام نے ان علاقوں کے اکثر حصوں کو فتح کرلیا تھا اور ان بڑے شہروں کے بعد ان کی بنیادوں میں گھس گئے تھے جیسے شام،مصر،عراق،یمن اور ترک کے ابتدائی شہراور ماوراء النہر اور مغربی ملکوں کے اور ہندوستان کے ابتدائی شہروں میں داخل ہوگئے تھے۔‘‘
سندھ میں محمد بن قاسم کی فتوحات سے پہلے حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے زمانہ میں صحابہ کرام نے ان اطراف کے اکثر حصے فتح کیے ۔ شام ،مصر ،عراق ،یمن اور اوائل بلاد ترکستان میں اسلام کی فتح و نصرت کا پرچم بلند کیا علاقہ ماورالنہر ، اوائل بلاد مغرب اور افریقہ اور اوائل ہند کی سرزمین بھی ان کے قدموں کی برکت سے منور وتابندہ ہوئی۔اوائل ہند سے مراد سندھ و مکران کے وہ علاقے ہیں جو فارس و سجستان سے متصل تھے،انہیں راستوں سے مجاہدین اسلام ہندوستان آئے ،خلافت راشدہ میں تھانہ ، بھڑوچ ، سندھ اور مکران میں کئی بار غزوات کے باعث یہ علاقے اسلامی سلطنت کے زیرنگیں آگئے ۔ صحابہ کی آمد سے ہندوستان میںاحادیث مبارکہ کی نشرو اشاعت بہت تیزی سے ہونے لگی ہندوستان کے علماء و محدثین نے پوری دنیا میں علم حدیث کی اشاعت کے لئے جدوجہد اور کوششیں کیں، حجاز میں بھی ہندوستانی محدثین کا قیام رہا بلکہ امام سخاوی اور ابن حجر الہیتمی کی درسگاہوں سے ہندوستانی محدثین کی ایک بڑی جماعت نے سماعت حدیث کے بعدعالم اسلام کو علم حدیث سے روشناس کرایا ہے ۔اب ہم ان صحابہ کرام کا تذکرہ کرنامناسب سمجھتے ہیں جنہوں نے ہندوستان کی سرزمین کو علم حدیث کی ضیاباریوں سے منور و درخشاں بنایا۔
(۱ ) حضرت عثمان بن ابی العاص ثقفی رضی اللہ عنہ کے متعلق علامہ ابن حزم (م ۴۵۶ھ) ’’جمہرۃ الانساب‘‘ میں لکھتے ہیں :
’’اورعثمان اپنے بھائیوں میں بہترین صحابی ہیں ،ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کا امیر بنایاتھا ، اورانہوں نے فارس میں اور ہندوستان کے تین شہروں میں جہادبھی کیا ہے۔‘‘
امام ابن حجر عسقلانی (م ۸۵۲ھ)کے بقول:
’’عثمان بن ابی العاص ثقفی ایک ممتاز صحابی تھے ۔ رمضان ۹ھ /دسمبر ۶۳۰ء میں طائف کا جو وفد بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا تھا اس میں عثمان بھی شامل تھے اور انہوں نے اسلام قبول کرلیا تھا ۔ اگر چہ عثمان کم سن تھے مگر اسلام سے انہیں بڑی محبت تھی اور حضرت ابوبکرؓ نے بھی ان کے جوش ایمانی کی تعریف کی ہے ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو طائف کا عامل مقرر کیا اور حضرت ابوبکر پھر حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے عہد خلافت میں بھی انہیں طائف کی گورنری پر مامور رکھاپھر حضرت عمر فاروقؓ نے ۱۵ ھ میں عمان اور بحرین کا عامل مقرر فرمایا پھر انہوں نے آخر عمر میں بصرہ میں سکونت اختیار کی یہاں تک کہ یہیں ایک روایت کے مطابق ۵۰ھ اور ایک روایت کے مطابق ۵۱ھ مطابق ۶۷۱ء میں وفات پائی،حضرت ابوبکرؓ کے عہد خلافت میں جب فتنۂ ارتداد برپا ہوا تو عثمان ثقفی نے اہم خدمات انجام دیں اور اپنے قبیلے کو مرتد ہونے سے باز رکھاآپ نے اپنے قبیلے سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا’’ کنتم اٰخرالناس اسلاما فلا تکونو ااولہم ارتدادا ‘‘بصرہ میں نامور بزرگ حسن بصری نے ان سے حدیث کا درس لیا تھا ‘‘ (۳)
صفی الدین نے لکھاہے کہ:
’’عثمان ثقفی نے انتیس احادیث روایت کی ہیں جن میں سے تین صحیح مسلم میں اور باقی ماندہ کتب سنن میں شامل ہیں( ‘‘۴)
امام بخاری نے حضر ت عثمان ثقفی کا شمار بصرہ کے علماء و محدثین اور رواۃ حدیث میں کیا ہے۔بعض اہل علم ان کی احادیث کو مرسل بتاتے ہیں ، معاویہ بن قرہ نے ان سے حدیث کی روایت کی ہے اس کاذکر امام ابن حجر عسقلانی (م۸۵۲ھ )نے ’’الاصابہ فی تمیز الصحابہ‘‘ میں ص ۲۸ پر بھی کیا ہے ۔ (۵)
(۲) حضرت عثمان کے بھائی حضرت حکم بن ابو العاص ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہلی بار بھائی کے حکم سے بھڑوچ(گجرات) کی مہم پر آئے۔(۶)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب حضرت عثمان بن عاصؓ کو ۱۴ہجری میں بصرہ کا والی بنایا اور پھر ایک سال بعد انہیں بحرین اور عمان کا بھی والی بنادیاتوحضرت عثمانؓ نے حکم بن ابوالعاص کو طائف کا امیر مقرر کر دیا،اس لئے کہ حضرت عمر ؓنے عثمان بن ابوالعاص کو طائف سے مدینہ منورہ بلاتے وقت عثما نؓ کو لکھاتھا کہ جس کو آپ مناسب سمجھیں اپنی جگہ طائف کا والی بنا دیں اور خود میرے پاس تشریف لے آئیں عثمانؓ طائف کی امارت اپنے بھائی حضرت حکم بن ابوالعاص کے سپرد کرکے حضرت امیر المو منین حضرت عمرؓ کی بارگاہ میں مدینہ منورہ حاضر ہوگئے ، حضرت حکم بن ابوالعاص نے ہندوستان کے کئی علاقوں پر حملے کرکے فتح یابی حاصل کی آپ نے اپنی زندگی کے آخری ایام بصرہ میں بسر کیے اور ۴۵ء ہجری میں وہیں فوت ہوئے ۔ (۷)
(۳) حضرت رُبیع بن زیاد حارثی رضی اللہ عنہ کے متعلق ’’چچ نامہ ‘‘میں ہے
’’ امیر بصرہ ابوموسیٰ اشعری نے ان کو مکران و کرمان کے شہسواروں کا امیر مقررکیاتھا ‘( ۸)
ربیع بن زیادسے مطرف بن شخیر اور حفصہ بنت سیرین نے روایت کی ہے ،محدثین کے نزدیک ان سے مسند حدیث مروی نہیں ہے ۔
۱۷/ہجری کوعہد فاروقی میں حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے حضرت ربیع کو مختلف محاذوں پر عساکر اسلامی کا کمانڈر بنا کر بھیجا تو نہایت بہادری کا مظاہر ہ کیا،اس زمانے میں سجستان کازیادہ علاقہ سندھ میںشامل تھا اور کچھ حدود ایران میں واقع تھیںجس محاذ پر بھی وہ گئے فتح ونصرت کے جھنڈے گاڑدیے،کرمان ،مکران زالق ، سیوستان کے باقاعدہ گونر رہے اس وقت ان علاقوں میں سے بعض پاکستان میںاور بعض بلوچستان میں ہیں(۹)
(۴)حضرت حکم بن عمرو ثعلبی غفاری (م۵۰ھ)رضی اللہ عنہ کاتعلق عرب کے مشہور قبیلہ بنوغفار کی ایک شاخ بنوثعلب سے تھا اسی وجہ سے انہیں ثعلبی غفاری کہا جاتا ہے ۔یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی تھے آپ کی بہت ساری روایات بھی ہیں ’’طبقات ابن سعد‘‘ جلد ۶ صفحہ ۱۶۰ کے مطابق حضرت حکم بن عمرو ثعلبی بصرہ تشریف لے گئے تھے اور وہیں مستقل طور سے اقامت اختیار کرلی ۔حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ۱۷ /ہجری میں حضرت حکم بن عمرو کو مکران کا والی مقرر کیا ۔ ۲۳ ھ میں مکران پر دوبارہ چڑھائی کی گئی اور اسے فتح کر لیااس حملہ اور فوج کی قیادت درج ذیل صحابہ کرام نے یکے بعد دیگرے انجام دی۔
(۱) حضرت عاصم بن عمرو ؓ
(۲)الحکم بن عمرو الثعلبیؓ
(۳)عبداللہ بن عتبان ؓ
(۴)سہل بن عدی ؓ
اس فتح کی اطلاع جب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ملی تو وہ بہت خوش ہوئے فتح کی خبر صحار بن عباس عبدی لے کر گئے تھے ، اور ابن اثیر نے ’’اسدالغابہ‘‘ میں بالتفصیل اس واقع کو بیان کیا ہے ۔ (۱۰) ابوحاجب سودہ بن عاصم ،ابوشعشاء دبحہ بن قیس ،جابر بن زید ازدی (م۹۳)اور عبد اللہ بن صا مت (م۳۴ھ) نے حضرت حکم بن عمرو ثعلبی سے روایت کی ہے اور بخاری شریف میں بھی ان سے ایک حدیث مروی ہے۔(۵) حضرت صحار بن عباس عبدی رضی اللہ عنہ ۲۳ ھ میں غزوہ مکران (پاکستان و بلوچستان کے دو حصوں میں بٹا ہوا ہے)میں حکم بن عمرو ثعلبی کے ساتھ تھے اورانہو ںنے صحار کے ذریعہ فتح کی بشارت اور مال غنیمت حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا تھا،صحار عبدی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست دویا تین احادیث روایت کی ہیں،ان کے دو صاحبزادوں(عبدالرحمن اور جعفر) نے بھی ان سے احادیث روایت کی ہیں ،ان کا شمار علمائے بصرہ میں ہوتاہے، وفد عبدالقیس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور مشرف بااسلا م ہوکر صحابیت کے مرتبۂ عالی کو پہنچے آپ کا شمار ان صحابہ میں ہوتا ہے جو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے قصاص کا سختی سے مطالبہ کرتے تھے ، اور جنگ صفین میں حضرت امیر معاویہ کے ساتھ تھے ۔(۱۱)(۶) حضرت عبداللہ بن عمیر اشجعی رضی اللہ عنہ ۲۳ھ میں فارس و مکران کی مہمات میں رہے ،اسی زمانے میں سجستان(کچھ علاقہ سندھ میں اور کچھ ایران میں) کی فتح کے ساتھ ساتھ سندھ کے علاقے بھی فتح کیے اور ان سے ابن وقدان نے روایت کی ہے۔(ابن وقدان کا اصل نام ابویعفور العبدی الکوفی الکبیر ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کا نام واقد ہے ۔(۱۲)(۷) حضرت عبیداللہ بن معمر تیمی قرشی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ۲۹ھ میں مکران کی مہم پر روانہ کیا تھا،ان کا تعلق ٔ بنوتمیم سے ہے ،قبیلہ بنوتمیم ،قبیلہ قریش کی ایک شاخ ہے، انہوں نے براہ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، بعض مورخین کا کہنا ہے کہ یہ صغار صحابہ میں سے تھے ،اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے تشریف لے جانے کے وقت کم سن تھے ۔(۱۳) ’’الاصابۃ فی تمیزالصحابہ‘‘ میں حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ:
’’ان کا شمار قریش کے معززین میں ہوتا تھا اور انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت حدیث کا شرف حاصل کیا ۔پھر ان کے سامنے عروہ بن زبیر اور محمد بن سیرین نے شرف تلمذ حاصل کیا جو کبار تابعین میں سے تھے(۱۴)
(۸)حضرت مشاجع بن مسعود سلمی(م۳۶ھ) رضی اللہ عنہ نے ۳۱ھ میں قفاس وکرمان (ایران میں ہے)کو فتح کیا ، دشمن کی ہزیمت خور دہ فوج کا ایک حصہ مکران میں پناہ گزیں ہوا جس کو انہوں نے زیر کیا ، ان سے ابوساسان حصین ابن منذر ، یحییٰ بن اسحاق ،ابو عثمان نہدی ،کلیب بن شہاب اور عبدالملک بن عمیر نے روایت کی ہے ، ان کی روایت کردہ کئی احادیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں موجود ہیں۔(۹) حضرت عبدالرحمن بن سمرہ قرشی(م۵۱ھ) رضی اللہ عنہ نے فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر اسلام قبول کیا تھا ، مسلمان ہونے کے بعد آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ تبوک میں شریک ہوئے ، آپ کے شاگردوں میں تابعین میں سے حضرت حسن بصری حضرت محمد بن سیرین ،حضرت عمار بن ابی عمار اور حضرت سعید بن مسیب ہیں۔
آپ نے ہندوستان کے سرحدی علاقوں پر کئی حملے کئے مثلاً گجرات کاٹھیاواڑ،کچھ ،راجستھان اور رَن (یہ کَچھ کے قریب میں ایک مقام تھا جسے عرب مورٔخین ’’داور‘‘ کے نام سے موسوم کرتے تھے)اور انہیںفتح کرکے اسلامی سلطنت میں شامل کیا،اس کے علاوہ آپ نے کابل ، سندھ اورمکران کے بعض علاقوں میں بھی جہاد کیا ہے ، زندگی کے آخری دور میںحضرت عبدالرحمن نے بصرہ میں سکونت اختیار کرلی اور وہیں فوت ہوئے، آپ نے معاذ بن جبل سے روایت کی ہے ۔ (۱۵) (۱۰) حضرت سنان بن سلمہ بن مُحَبّق ہذلی رضی اللہ عنہ ۴۲ھ میں پہلی بار سندھ میں بسلسلہ جہاد تشریف لائے ،دوسری بار امیر بن کر آئے اور بہت سی فتوحات کیں ،انہوں نے اپنے والد سلمہ بن محبق ،حضرت عمرؓ اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مرسل احادیث کی روایت کی ہے اور ان سے سلمہ بن جنادہ ،معاذ بن سعوہ،ابوعبداللہ خبیب نے روایت کی ہے ،سنان سے قتادہ کی احادیث مدلس( ۱)ہیں وہ بڑے بزرگ اور خداترس صحابی ہیں ،حضرت بیان کرتے ہیں کہ’’ جس دن وہ پیدا ہوئے اس دن مسلمانوں اور کافروں کے درمیان جنگ ہورہی تھی ‘ ‘ ابن حبان کا کہنا ہے کہ وہ جنگ حنین کا دن تھا جنگ حنین ۸ہجری کو ہوئی تھی خود سنان فرماتے ہیں کہ میرا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا حضرت سنانؓ باتدبیر صحابی تھے انہوں نے حجاج بن یوسف کے دور آخر میں ۹۴یا ۹۵ہجری میں وفات پائی ۔(۱۶)
مذکورہ حضرات کے علاوہ حضرت سہیل بن عدی انصاریؓ ،حضرت عاصم بن عمرو تمیمیؓ،حضرت عبداللہ بن عبداللہ بن عتبان انصاریؓ ،حضرت مغیرہ بن ابوالعاص ثقفیؓ ،حضرت منذر بن جارود عبدیؓ ، حضرت عثمان بن سعدؓ اور حضرت خرِّیت بن راشد ناجی ( رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین)ان میں سے بعض کا شمار کبار صحابہ میں ہوتا ہے سندھ اور مکران کے غزوات و فتوحات میں شرکت کی اور اپنے وجود سے سرزمین ہند کو مشرف کیا ،حضرت منذر بن جارود عبدی رضی اللہ عنہ کا مدفن بھی یہی سرزمین ہے ۔وہ ۶۲ھ میں ثغرقندابیل (موجودہ قندھار افغانستان) کے امیر بنائے گئے اور اسی سال وہیں فوت ہوئے، حضرت منذربن جارود عبدی تنہاصحابی رسول ہیں ،جو اس پاک سرزمین میں آسودۂ خواب ہیں‘‘مذکورہ بالا سطور میں ہم نے جن صحابہ کے اسما گنائے ہیں ان کا اجمالی ذکر کرنا ہم ضروری سمجھتے ہیں تاکہ قارئین کوان شخصیات کے سمجھنے میں دقت نہ ہو۔
(۱) حضرت عبداللہ بن عبداللہؓ
ان کا تعلق انصار مدینہ کے ایک قبیلے بنوجلا سے تھا۔یہ ایک عالی رتبہ صحابی انصار میں بہت ممتاز شخصیت تھے ۲۱ھ /۶۴۱ء میں سعد کی جگہ کوفہ کے عامل ہوئے اور اسی سال کے آخر میں بصرہ کے عامل ہوگئے اس کے بعد انہوں نے مشرقی ایران اور ہند کے سرحدی علاقوں میں فتوحات کا سلسلہ شروع کردیا ۔ ان کی تاریخ وفات کا ذکر تاریخوں میںنہیں ملتا ۔(۱۷)
(۲) عاصم بن عمروالتمیمیؓ
یہ صحابی رسول اور ابتدائی دور کے ایک نامور سپہ سالار تھے ۔عراق کی فتح میں وہ مشہور ومعروف سپہ سالار حضرت خالد بن ولید کے ساتھ شریک ہوئے اور جنگ میں نمایاںحصّہ لیا وہ پہلے عرب سالارتھے جنہوں نے ہلمند(۱) کے مغرب کا علاقہ فتح کیا اور وادی سندھ کی فتح میںبھی حصہ لیا۔(۱۸)
(۳)صحاربن العبدیؓ
ان کا تعلق ایک قبیلہ عبدالقیس سے تھا ۸ھ/۶۳۰ء میں وہ ایک وفد کے ساتھ حجرسے مدینہ منورہ آئے اور اسلام قبول کیا ۔ حضرت عمر ؓکے عہد خلافت میں بصرہ گئے اور وہیں سکونت اختیار کرلی ۔انہوں نے مشرقی جنگوں میں حصہ لیا اور دریائے سندھ کے مشرقی علاقے کی جو کیفیت انہوں نے بیان کی اس کے باشندوں سے بھی ربط رکھتے تھے۔صحار ناصبی یعنی حضرت عثمان کے طرف دار تھے ۔غالباً معاویہؓ کے آخر عہد میں بصرہ میں وفات پائی ۔(۱۹ )
(۴) سہیل بن عدیؓ
ان کا تعلق قبیلہ ٔ ازد سے تھا اور بنواشہل سے منسلک تھے ۔ان کے صحابی رسول ہونے کا کوئی براہ راست ثبوت نہیں ملتا ۔لیکن چونکہ وہ ۱۷ھ /۶۳۷ء میں الجزیرہ کے خلاف ایک فوجی مہم کے قائد تھے اس لئے یہ قیاس کیا جاتا ہے کہ آنحضرتؐ کی زندگی میں سہل کی عمر اتنی ہوگئی تھی کہ وہ صحابہ کے زمرے میں شامل ہونے کا شرف حاصل کرسکیں ۔اور بالخصوص اس امر کے پیش نظر کہ ان کے سب بھائی حضورؐ کے نہایت نادارصحابی تھے ۔چنانچہ سہیل بن عدیؓ ،حارث بن عدیؓ ،عبدالرحمن بن عدیؓ اور ثابت بن عدیؓ غزوہ احد میں شریک ہوئے تھے ۔(۲۰)
(۵)الحکم بن ابی العاص ثقفی ؓ
یہ ان لوگوں میں شامل تھے جو بصرہ ہجرت کرگئے تھے ۔حکم نے خود آنحضرت سے احادیث روایت کی ہیں۔ اور قرہ مزنی (م۱۱۳ھ)نے حکم سے احادیث روایت کی ہیں ۔حکم کا تعلق قبیلہ ثقیف سے تھا اس قبیلے کے تمام بالغ افراد نے ۱۱ھ سے قبل ہی اسلام قبول کرلیا تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع میں شریک ہوئے تھے ۔چنانچہ الحکم کو صحابی اور ان سے مروی احادیث کو معروف قرار دینے میں شبہ نہیں ہوسکتا ۔ مزیدبرآں ان کے صحابی ہونے کی شہادت ذہبی نے بھی دی ہے الحکم ۴۴ھ /۶۶۴ء میں بقید حیات تھے ۔ (۲۱)
(۶)عبیداللّٰہ بن معمر التمیمی ؓ
عبیداللہ مدینہ کے رہنے والے اور بہت دولت مند تھے،وہ راوی حدیث بھی ہیں ،ان کے ورود ہند کی صحیح تاریخ معلوم نہیں ہوسکی مگر طبری نے جو واقعات لکھے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت عثمان ؓ نے ۲۳ھ میں خلیفہ ہونے کے بعد انہیں مکران کی مہم پر روانہ کردیا تھا ۔(۲۲) مکران پہنچ کر عبیداللہ نے نہ صرف باغیوں کی طاقت کو بالکل کچل ڈالابلکہ دریائے سندھ تک وسیع علاقے پر قبضہ بھی کرلیا اور اس طرح عربوں کا اقتدار مستقل ہوگیا ۔ چنانچہ ۳۰ھ میں جب عبیداللہ کا تبادلہ فارس کیا گیا تو ان کی جگہ عمیر بن عثمان کا تقررہوگیا (۲۳)
(۷)عبدالرحمن بن سمرہ ؓ
عبدالرحمن بن سمرہ بن حبیب بن عبدالشمس بن عبدمناف دوسرے صحابی ہیں جن کا ذکر حضرت عثمانؓ کے عہد خلافت میں ہند کے خلاف مہم کے سلسلہ میں کیاگیا ہے ۔ ان کا تعلق قبیلہ ٔ قریش سے تھا ۔ ۸ھ میں فتح مکہ کے موقع پر انہوں نے اسلام قبول کیا اور آنحضرتؐ نے ان کا نام عبدالرحمن رکھا ۔مسلمان ہونے سے پہلے ان کا نام عبدکلال یاعبد کعبہ تھا ۹ھ/۶۳۰ء میں عبدالرحمن غزوہ ٔ تبوک میں آنحضرتؐ کے ساتھ شریک ہوئے ۔عبدالرحمن نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث روایت کی ہیں اور انہیں ابن عباس ،سعید بن مسیب ،ابن سیرین ، عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ اور حسن البصری کا شیخ ہونے کا شرف بھی حاصل تھا ۔ان سے مروی احادیث میں سے ایک صحیحین میں اور دو صرف صحیح مسلم میں شامل ہیں۔(۲۴ ) ۳۱ھ /۶۵۰ء میں عبدالرحمن ،ربیع بن زیاد کی جگہ سیستان کے عامل بنائے گئے تھے اور وہ بڑے حوصلہ مند اور زبردست قوت عمل کے مالک سپہ سالار تھے ۔اپنے عہدے کا جائزہ لینے کے فوراً بعد ہی وہ زرنج سے مشرق کی طرف بڑھے اور ہند کی سرحدوں تک تمام علاقے پر قبضہ کرلیا ۔دریائے ہلمند کے زیریں علاقے میں بڑھتے ہوئے رودبار کے قریب ہندیوں سے تصادم ہوا ۔پہلی فاتحانہ یلغار میں عبدالرحمن بست (افغانستان میں ایک جگہ کا نام ہے )تک پہنچ گئے تھے ۔بست سے تین منزل کے فاصلے پر ایک پہاڑ میں سریا کا مندر تھا جسے عرب زور کہتے ہیں ۔ اس کا بُت سونے کا بنا ہوا تھا اور آنکھوں کی جگہ دو لعل لگے ہوئے تھے ۔یہ پہاڑ جو الزور کے نام سے مشہور ہوا ،اس وقت سندھ کے علاقے میںشامل تھا ۔ابن سمرہ مندر میں داخل ہوئے ۔بت کا ایک ہاتھ کاٹ دیا اور دونوں لعل نکال لیے،پھر یہ سونا اور لعل اس علاقے کے حاکم کو جو حیرت زدہ ہوکر سب کچھ دیکھ رہا تھا،یہ کہتے ہوئے واپس دے دیا ’’میں صرف یہ بتلانا چاہتا تھا کہ یہ بت کوئی نقصان یا نفع نہیں پہنچا سکتا ‘‘(۲۵)سندھ کے علاقے میں کامیابی سے داخل ہونے کے بعد عبدالرحمن زرنج واپس ہوگئے جو ان کا مستقر تھا ۵۱ھ /۶۷۰ء میں عبدالرحمن نے بصرہ میں وفات پائی ، بصرہ میں سکہ ابن سمرہ نامی سڑک انہی کے نام سے منسوب ہے ۔(۲۶)
(۸)سنا ن بن سلمہ الہذلی ؓ
ہند میں آنے والے آخری صحابی رسول سنان بن سلمہ المحبق الہذلیؓ تھے ۔سنان جب پیدا ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام رکھا ۔وہ حقیقی معنوں میں صحابی تھے کیونکہ حضورؐ نے ان کو ان کے بچپن میں بھی دیکھا تھا چنانچہ ابن حجر عسقلانی نے ان کو کم عمر صحابی شمار کرکے اپنی ’’اصابہ‘‘ میں قسم ثانی میں شامل کیا ہے۔ سنا ن سے مروی احادیث صحیحین اور ابوداؤد،ابن ماجہ اور نسائی کے سنن میں محفوظ ہیں ۔ (۲۷) ۴۸ھ میں سنان کو ہندی مہمات کا سپہ سالار مقرر کیا ،سنان نے مکران فتح کرلیا ،شہر بسائے ،اپنا مستقر بنایا اور نظام محاصل قائم کیا اور اپنے آپ کو ایک سپہ سالار اور نظم و نسق کا ماہر ثابت کردیا ۔(۲۸)سنان کی تاریخ وفات کے بارے میں کچھ الجھاؤ ہے ۔ابن سعد کے بیان کے مطابق جس کی اتباع بعد کے ماہرین اسماء الرجال نے کی ہے ۔سنان کا انتقال حجاج کی ولایت (۸۳تا۹۶ھ۔۷۰۲تا ۷۱۳ء)کے آخرزمانے میں ہوا تھا ۔لیکن یہ بعید از قیاس ہے کیونکہ فتوح البلدان اور چچ نامہ دونوں میں یہ لکھا ہے کہ سنان کا انتقال ہند کی سرحد پر ان کی جنگی مہم کے دوران ہواتھا ،نیز یہ کہ سنان کے عہدہ پر عبیداللہ بن زیاد کی طرف سے المنذر بن جرود کے تقررسے قبل سنان کا انتقال ہوگیا تھا (۲۹)اگر سنان کا انتقال حجاج کے آخرزمانہ ولایت میں ہواہوتا جیسا کہ ابن سعد نے بیا ن کیا ہے تو ان کی اور محدث قتادہ (م۱۱۷ھ) کی ملاقات ضرورہوئی ہوتی کیونکہ وہ دونوںبصرہ میں رہتے تھے لیکن ناقدین راویان کی رائے ہے کہ قتادہ نے سنان سے کبھی ملاقات نہیں کی اور نہ ان سے حدیث سنی چنانچہ یہ واقعہ درست معلوم ہوتا ہے کہ سنان ہندکی سرحد پر شہید ہوئے تھے ۔یعنی ۶۱ھ میں قتادہ کی پیدائش سے سات برس قبل۔(۳۰)
(۹)المہلب بن ابی صفراؓ
المہلب بن ابی صفرا الازدی ( م ۸۳ھ) جومعاویہؓ کے عہد خلافت میں ہند آئے تھے ایک قدیم تابعی تھے ۔ چوںکہ ان کا نام الاستیعاب ،اسد الغابۃ تجرید اور اصابہ میں موجود ہے ۔ اس لئے انہیں صحابی تصور کیا جاتا ہے۔مگر اسماء الرجال کے ناقدین اس پر متفق ہیں کہ مہلب ایک قدیم تابعی تھے ۔صحابی نہ تھے انہوں نے صحابہ مثلاً عبداللہ بن عمر ،عبداللہ بن عمرو بن العاص ،سمرہ ابن جندب اور برابن العازب سے احادیث روایت کی ہیںاور ابواسحق السبیعی سماک بن حرب اور عمر بن سیف البصری نے خود مہلب کے حوالے احادیث روایت کی ہیں ، مہلب ایک ثقہ راوی تھے ۔وہ ۸ھ میں پیدا ہوئے اور خراسان کے ضلع مروالرودمیں راغول کے مقام پر وفات پائی ۔ (۳۱)مہلب بن صفرا ۴۴ھ میں سجستان آئے تھے ۔اصل فوج سے الگ ہوکر وہ ایک فوجی دستہ لے کر کابل سے ہوتے ہوئے لاہو ر تک پہنچ گئے تھے ۔لاہور اور اس کے گرد ونواح کے علاقے فتح کرنے کے بعد وہ واپس روانہ ہوگئے اور اپنے ساتھ بارہ ہزار ہندی قیدی لے گئے ان میں سے کچھ مسلمان ہو گئے تھے ۔ (۳۲)مذکورہ بالا صحابہ کرامؓ کے علاوہ اور بھی بہت سے صحابہ ہیں جو تبلیغ اسلام کے لئے ہندوستان آئے،مگر یہاں سب کاذکر ممکن نہیں ہے ۔ صحابہ کرامؓ کی آمد سے ہندوستان میں علم حدیث کی اشاعت و فروغ کا سلسلہ مضبوطی سے قائم ہوگیا اور حدیث شریف کی برکت سے پورا ہندوستان جگمگا اٹھا ،لیکن علم حدیث کے حصول کا شوق رکھنے والوں کی تعداد ابھی کچھ کم تھی کیونکہ اسلام کے ماننے والے زیادہ تر وہی لوگ تھے جو ملک عرب سے آئے تھے ابھی ہندوستانیوں کے دلوں میں اسلام کی شمع مکمل طور پرروشن نہیں ہوئی تھی مگر پھر بھی علم حدیث کی اشاعت اتنی تیزی سے ہونے لگی کہ بہت ہی کم عرصہ میں پورے ہندوستان میں حدیث کاغلغلہ ہوگیا درس و تدریس کے کئی مراکز قائم ہوگئے ۔یہی وجہ ہے کہ سندھ کے بہت سے علماء نے علم حدیث کی تحصیل کے لئے حجاز کا رخ کیا اور وہاں کے محدثین سے شرف تلمذ حاصل کیا سندھ کے تین موالی خاندان اس دور میں عرب گئے جن کے ہاتھوںمیں کئی سال تک علم حدیث کی قیادت رہی اور ان میں بڑے بڑے محدثین پیدا ہوئے ۔
ماخذ و مراجع
}۱{ البدایہ والنہایہ،ج ۹ ،ص ۸۸،ابوالفدا ء اسماعیل ابن عمر بن کثیر قرشی
}۲} جمہرۃ أنساب العرب، ج ۱ ص ۲۶۶،ابو محمد علی بن احمد
}۳} الاصابۃ فی تمیز الصحابہ ،ج ۴ ،ص ۳۷۴،امام حجر عسقلانی
}۴} خلاصۃ تہذیب الکمال ،ص، ۱۲۰،صفی الدین
}۵} (۱)التاریخ الکبیر،ج ۱ ،ص ۲۲۹،ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل بخاری (۲) الاصابہ فی تمیز الصحابہ ،ص ۲۸
}۶} فتوح البلدان،ص ۴۳۱،امام احمد بن یحییٰ بلاذری
}۷} جمہرۃ الانساب العرب ،ص ۲۶۶،طبقات ابن سعد ،ج ۷،ص۴۱،اسدالغابہ فی تمیز الصحابہ ،ج۲،ص۳۵
}۸} فتح نامہ سندھ عرف’’ چچ نامہ‘‘ ص ۷۳،علی بن حامد بن ابوبکر کوفی
}۹} جمہرۃ الانساب العرب ،ص ۱۸۶،الاصابہ ج ۱،ص ۲۴۶،تہذیب التہذیب ،ج۲،۴۳۶
{۱۰} اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابہ ،ص ۳۹،ج۲(الاصابۃ فی تمیزالصحابہ ،ص ۲۸ ج ۱
{۱۱} الاصابہ فی تمیزالصحابہ ج۳،ص۴۵۵
}۱۲} تہذیب والتہذیب ،ج ۱۱ ،ص ۱۲۳،ابن حجر عسقلانی
}۱۳} اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ ،ابن اثیر ،ج ۳،ص ۵۴۳
}۱۴} الاصابۃ فی تمیز الصحابہ ،ص۳۳۷،ج۴،ابن حجرعسقلانی
}۱۵} فتوح البلدان ،ص ۲۸۸،اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ ج۳ص۲۹۷،۲۹۸
}۱۶} تہذیب التہذیب ج۴ص ۲۴۱،۲۴۲ چچ نامہ ص۸۰
}۱۷} تاریخ طبری ،ج۱،ص۲۶۳۵،اصابہ ،ج،ص۸۱۷،ابن حجر عسقلانی
}۱۸} الاستعاب،ج ۲،ص۵۰۰،عبدالبر
}۱۹} طبقات ،ج۷،ص۶۱،ابن سعد
}۲۰} الاستیعاب ،ج۱،ص۱۱۸ّ
}۲۱} تاریخ طبری،ج،۶،ص۸۰
}۲۲} تاریخ طبری ،ج۱،ص۲۹،امام طبری
}۲۳} ایضاً،۲۸۳
}۲۴} طبقات ،ج ۷،ص۱۰۱،
}۲۵} فتوح البلدان ،ص۳۹۴،بلاذری
}۲۶} الاکمال فی اسماء الرجال ،ص۸۳،محمد بن عبداللہ
}۲۷} خلاصہ ،ص۱۳۲،صفی الدین
}۲۸} فتوح الغیب ،ص ۴۳۴،بلاذری
}۲۹} چچ نامہ ،ص ۶۵
}۳۰} تہذیب التہذیب ،ج،۴،ص۲۴۱
}۳۱} تاریخ طبری ، ج ،۴،ص۱۰۸۲
}۳۲} فتوح البلدان ،ص۴۳۲بلاذری
مشمولہ: شمارہ جون 2016