اللہ تعالی نے انسان کی تخلیق کے ساتھ اس کی ضرورتوں کے اعتبار ولحاظ سے مرض اور شفا کو بھی وجود بخشا، اوریہ بتایا کہ جب انسان بیمار ہوگا یا اس کا کوئی عضو بیمار ہوگا تو شفا وہی دے گا، اللہ خود شافی ہے، اسی لئے اسلام میں جسمانی صحت کی قدر کرنے اور صحت کو اللہ تعالی کی امانت سمجھنے کی تلقین کی گئی ہے اور یہ بتایا گیا کہ جسم خدا کا عطا کردہ ہے اس لئے اس کا خیال کرنا اور اس کو تکلیفات سے بچانا ضروری ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ ’’ان لجسدک علیک حقاً‘‘، انسان جس طرح آگے بڑھتا اور ترقی کرتا گیا اس نے علاج کے نئے طریقے دریافت کرنے شروع کئے، پتھروں، پیڑ پودوں وجڑوں، پھولوں، پرندوں اور جانوروں کے اعضاء نیز حشرات الارض موسیقی نیز زہر اور قوت مدافعت میں اضافہ سے علاج کا سلسلہ شروع کیا، یہ سلسلہ انسانی عقل اور انسانی تہذیب کی ترقی کے ساتھ بتدریج وسعت اختیار کرتا چلا گیا، بحر وبر میں پھیلے ہوئے مختلف قسم کے حیوانات، جمادات اور نباتات سے انسان نے اپنے تجربے اور مشاہدے کی روشنی میں علاج کا سلسلہ شروع کیا ، یہاں تک کہ علم الابدان ترقی کرگیا اور علم الابدان پر توجہ دے کر انسانی تہذیب نے بہت سی چیزیں دریافت کیں، یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے، اسی طرح جسم کے مختلف حصوں بالخصوص دماغ پر ریسرچ وتحقیق کا کام مسلسل ہورہا ہے۔
جوں جوں تہذیبیں ترقی کرتی چلی گئیں فن طب میں بھی ترقی ہوتی رہی اور تہذیبیں ایک دوسرے سے فن طب میں تبادلہ بھی کرتی رہیں، علاج ومعالجہ کے طریقے بدلتے رہے، نئی نئی تحقیقات سامنے آتے رہیں پھر فن طب میں انقلاب آگیا ، سرجری کے نئے نئے آلات تیار ہونے لگے اور ان کا استعمال بھی ہونے لگا ، اندلس کے عہد اسلامی میں اس فن میں بے شمار ترقیاں ہوئیں اور زہراوی جیسے بڑے بڑے اطباء کا ظہور ہوا جنہوں نے فن طب میں نمایاں خدمات انجام دی، اسلام نے روز اول سے یہ تصور پیش کیا کہ مومن قوی مومن ضعیف سے بہتر ہے اور یہ کہ اپنی صحت کو بیماری سے قبل غنیمت جانیں اور یہ کہ اللہ تعالی نے ہر مرض کا علاج پیدا کیا ہے تو انسان کو چاہئے کہ بہتر طبیب کے پاس جائے اور یہ کہ ہر بیماری کا علاج اللہ تعالی نے پیدا کیا ہے، ان جیسے بنیادی نظریات وتصورات کے جلو میں اسلامی تہذیب نشوونما پائی جو پوری دنیا میں پھیل گئی،اس نے جہاں مختلف علوم وفنون میں بلندی تک پہنچی وہاں علم طب اور علاج ومعالجہ میں بھی عروج حاصل کیا۔وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ طریقہ علاج اور ادویات کی صنعت میں بھی تبدیلیاں ہوتی رہیں یہاں تک کہ یوروپ کی نشاۃ ثانیہ ہوئی، سائنسی انقلاب کے نتیجہ میں وہاں بڑے پیمانہ پرریسرچ وتحقیق کا آغاز ہوا، علاج کے لئے نئے آلات اور نئی نئی تکنیک، حساس مشینیں تیار کی گئیں جن کے ذریعہ انسانی جسم کے باریک سے باریک حصے کو دیکھا اور سمجھا جانے لگا اور اس کی کیفیت معلوم کی جانے لگی، ٹیسٹ کے نئے نئے طریقے ایجاد کیئے گئے جس کے ذریعہ کم سے کم وقت میں نتیجہ حاصل کیا جانے لگا۔
بیسویں صدی میں عقل انسانی نے جو طبی تحقیقات پیش کی ہیں وہ اپنے آپ میں بہت منفر د اور نمایاں ہیں، صنعتی انقلاب کے بعد سائنسی ایجادات نے دنیا پر جو اثرات ڈالے اور ہر میدان میں ترقی ہونے لگی جس میں طب کا میدان بھی ہے اس کے نتیجہ میں بہت سے سوالات پیدا ہوئے، چنانچہ علماء شریعت نے دنیا کے مختلف حصو ںمیں اجتماعی طور پر ان تمام مسائل کے سلسلہ میں فقہ اکیڈمیوں کے ذریعہ غوروخوض کا سلسلہ شروع کیا اور اپنی معلومات کی حد تک ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اجتماعی رائے کے ذریعہ ان پر ایک مشترکہ موقف بھی اختیار کیا۔
اسلامک فقہ اکیڈمی کے سامنے جو طبی مسائل زیر بحث آئے ان میں کلوننگ، ڈی این اے ٹسٹ، جنیٹک سائنس، انقلاب ماہیت، جلاٹین، پلاسٹک سرجری، سروگیسی، برتھ کنٹرول، اعضاء کی پیوندکاری، ایڈس، ٹیسٹ ٹیوب بے بی ، قتل بجذبہ رحم، موت دماغ اور اس جیسے متفرق مسائل سامنے آئے۔
طبی مسائل پر غور کرنے کے سلسلہ میں اکیڈمی کا منہج یہ رہا کہ اس نے معالجین واطباء سے رجوع کیا، ملک کی مختلف جامعات کے اساتذہ نیز طب یونانی کے ماہرین سے بھی استفادہ کیا، تصویر مسئلہ کیلئے یعنی موضوع کے اہم پہلوؤں کی وضاحت وتفصیل جاننے کے لئے ان کو طلب کیا، ان سے مناقشہ کیا، اور ان کو فقہی سمینار میں بھی اظہار خیال کے لئے موقع دیا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ عصری علوم کے ماہرین کی تعداد بہت کم ہوتی ہے، وہ بھی ضرورتاً دو اور تین سے زیادہ نہیں۔ البتہ ۹۸ فیصد تعداد علماء کی ہوتی ہے۔
یہ بات صحیح ہے کہ اکیڈمی فقہی فیصلے قرارات وتجاویز منظور کرتی ہے۔ لیکن وہ اسلامی نقطۂ نظر سے رائے عامہ بھی بناتی ہے۔ ہندوستان میں مدارس اور دار الافتاء کا جو جال پھیلا ہے وہ ایک لمبا پھیلا ہوا سلسلہ ہے۔ علماء کے اثرات سماج پر زیادہ ہیں اس لئے وہ اخبارات وتقاریر کے ذریعہ مختلف ایشوز پر نقطۂ نظر کو بآسانی ملت تک منتقل کردیتے ہیں۔ یہاں ان تمام طبی مسائل کا بہت ہی اختصار کے ساتھ ذکر پیش خدمت ہے جن پر اکیڈمی نے اپنی رائے پیش کی ہے۔
سب سے پہلے اکیڈمی نے طبی اخلاقیات پر علی گڈھ مسلم یونیورسٹی میں اطباء کے ساتھ مل کر غور وخوض کیا اور کچھ اصولی باتیں طبی اخلاقیات کے سیاق میں پیش کیں،یقینا اطباء کے یہاں پہلے سے ضابطہ اخلاق موجود ہے لیکن اسلامی نقطہ نظر سے کچھ اصول مرتب کرکے پیش کرنا ضروری سمجھا گیا، اطباء کے ساتھ گفتگو اور مذاکرے کے بعد کچھ اصول تیار کرکے اکیڈمی نے ان کو منظوری دی، بنیادی طور پر مقاصد شریعت کی روشنی میں جان کی حفاظت ایک اہم ترین مصلحت وضرورت ہے اور حفظ نفس مقاصد شریعت کے اصولوں میں سے ایک اہم اصول ہے، اس لئے طبیب کے سلوک، اس کے طریقہ عمل، طبیب ومریض کے تعلقات اور طبیب وسماج کے روابط نیز ایک بہتر صاف ستھرے صحت مند، پاکیزہ معاشرہ کے قیام وبقا کے سلسلہ میں طبیب کی ذمہ داری اور اس کا کردار وغیرہ امور زیر بحث آئے۔
اکیڈمی، ڈی این اے ٹیسٹ پر گفتگو کے بعد اس نتیجہ تک پہنچی کہ اس کے ذریعہ سے مجرم کی تلاش اور مجرم کے جرم کی تعیین ہوسکتی ہے اس لئے اس کا استعمال جرائم کے سلسلہ میں تو کیا جاسکتا ہے لیکن عائلی نزاعات میں اکیڈمی نے ڈی این اے ٹیسٹ کو شہادت کے طور پر تسلیم نہیں کیا اور یہ کہا کہ نص سے تعارض کے امکان کے پیش نظر اسے مقدم کرنے کے بجائے موخر کرنا زیادہ بہتر ہے، حالانکہ وضعی قوانین میں ڈی این اے ٹیسٹ کو بطور شہادت تسلیم کیا گیا ہے، البتہ اکیڈمی نے یہ موقف ضرور اختیار کیا کہ اگر کسی بچہ کے بارے میں چند دعوے دار ہوں اور کسی کے پاس واضح شرعی ثبوت نہ ہو تو ایسے بچے کا نسب ڈی این اے ٹسٹ کے ذریعہ متعین کیا جاسکتا ہے۔حدود وقصاص کے علاوہ دوسرے جرائم کی تفتیش میں ڈی این اے ٹسٹ سے مدد لی جاسکتی ہے اور قاضی ضرورت محسوس کرے تو اس پر مجبور بھی کرسکتا ہے۔
جنیٹک سائنس اصلاً علم التوارث ہے ، وہ اللہ کی اس صفت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اللہ تعالی نے ہر چیز کو انداز سے پیدا کیا ہے، ’’ان کل شییٔ خلقناہ بقدر‘‘، سوال یہ ہے کہ وہ تخمینہ اور انداز کیا ہے ، سائنس داں کہتے ہیں کہ وہ چیز انسان کے خارج میں نہیں بلکہ داخل میں ہوتی ہے، والدین کے ذریعہ انسان کو جو سالمہ ملتا ہے اور والدین سے اولاد میں منتقل ہوتا ہے اسی کو علم التوارث کہتے ہیں، اس علم نے گذشتہ ساٹھ سالوں میں کافی ترقی کی ہے ان کا استعمال ڈی این اے ٹسٹ میں ہونے لگا، اس ایڈوانس ٹسٹ میں غلطی کے امکانات بہت ہی کم ہوتے ہیں، شاید اسی لئے مغربی ماہرین قانون نے اس ٹسٹ کی اہمیت تسلیم کرلی ہے اور جرم وسزا کے باب میں اس کو بنیاد بناکر فیصلے بھی کئے جارہے ہیں، جنیٹک ٹیسٹ کی ترقی یافتہ شکلوں سے یہ معلوم کرنا ممکن ہوگیاہے کہ رحم مادر میں نشوونما پانے والا جنین وجود میں آنے کے بعد فلاں فلاں بیماریوں کا شکار ہوسکتا ہے، اسی بناء پر عصر حاضر میں جنیٹک کاؤنسلنگ کا طریقہ متعارف ہوا، اسی جنیٹک سائنس سے اسٹم سیل کی طرف رہنمائی ہوئی ، یہ سیل اپنی جگہ بہت اہم ہیں اور ان اسٹم سیل سے علاج معالجہ کے سلسلہ میں فائدہ اٹھایا جارہا ہے، ہندوستان کے شفاخانو ںمیں بھی بچوں کی پیدائش کے وقت اسٹم سیل کو محفوظ کرنے کا طریقہ اختیار کیاجانے لگا ہے اور اس کو محفوظ کرنے کے لئے ملک کے ہوسپیٹل باقاعدہ فیس بھی لیتے ہیں۔
جنیٹک سائنس کے سلسلہ میں اکیڈمی کا رجحان یہ رہا کہ اسے کوئی حتمی او رقطعی ذریعہ علم قرار نہیں دیا جاسکتا، جو شک وشبہ سے بالاتر ہو، کیونکہ اس کے اندر انسانی غلطی کا احتمال وامکان موجود ہے، ہاں وہ ایک معاون ذریعہ علم ضرور ہے جس کے ذریعہ مستقبل کی پیش بندی کی جاسکتی ہے اور احتیاط کے طریقے اختیار کئے جاسکتے ہیں یعنی اگر جنیٹک سائنس یہ بتادے کہ آئندہ ہونے والا بچہ معذور، پاگل ہوسکتا ہے، یا دوسری خرابیاں اس میں پیدا ہوسکتی ہیں تو پھر ایسی صورت میں اسقاط حمل کی گنجائش ہوگی، اسی طرح اگر جنیٹک سائنس کے ماہرین یہ بتادیں کہ شادی ہونے کی صورت میں بہتر نسل کے پیدا ہونے کا امکان نہیں پایاجاتا تو رشتہ کو منقطع کیا جانا بہتر ہوگا، اس علم کے ذریعہ امراض سے بچا جاسکتا ہے۔ جنیٹک سائنس کا مثبت استعمال یقینا مفید ہے ۔ اسی لئے اکیڈمی نے یہ رائے قائم کی کہ اگر جنیٹک سائنس کے ذریعہ ثابت ہوجائے کہ رحم مادر میں پرورش پانے والا بچہ ایسا ناقص العقل اور ناقص الاعضاء ہے جو ناقابل علاج ہے اور پیدائش کے بعد اس کی زندگی ایک بوجھ اور اس کے اور گھر والوں کے لئے تکلیف دہ رہے گی، تو ایسی صورت میں حمل پر ایک سو بیس دن گذرنے سے پہلے پہلے والدین کے لئے اس کا اسقاط جائز ہے۔ علاج کی غرض سے امراض کی شناخت اور تحقیق کے لئے جنیٹک ٹسٹ کرانا اور اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔
کلوننگ کے ایشو پر بھی اکیڈمی نے تفصیل کے ساتھ بحث کی اور یہ طے کیا کہ انسانی کلوننگ سماجی واخلاقی اعتبار سے کسی بھی طرح درست نہیں ہے، لہذا اسے قانوناً وشرعاً قبول نہ کیا جائے، البتہ نباتات اور حیوانات میں ایسی کلوننگ جو انسانی سماج کے لئے مفید ہو اور جس سے نسل انسانی کو کوئی نقصان پہنچنے کا اندیشہ نہ ہو تو اس کے جواز میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اکیڈمی نے اعضاء کی پیوندکاری کی تینوں قسموں آٹو ٹرانسپلاٹیشن (Auto Transplation)، ہومو ٹرٹرانسپلاٹیشن (Homo Transplation) اور ہیٹرو ٹرانسپلاٹیشن (Hetro Translpation) وغیرہ۔کے بارے میں غور کیا اور اطباء کی مدد سے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کی کوشش کی، اعضاء کی پیوندکاری کے سلسلہ میں اکیڈمی نے اصولی طور پر یہ موقف اختیار کیا کہ اعضاء کی خریدوفروخت جائز نہیں ہے اسی طرح خون کی بھی خریدوفروخت جائز نہ ہوگی، البتہ انسانی جان کو بچانے کی غرض سے گردہ عطیۃً دیا جاسکتا ہے اور خون کا عطیہ دینا بھی درست ہے۔ اکیڈمی نے انسانی ضرورت ومصلحت اور حفظ نفس کے اصول کے مد نظر یہ موقف اختیار کیا کہ شرائط کے ساتھ اعضاء کی پیوندکاری جائز ہوگی۔ آنکھوں کے عطیہ کے سلسلہ میں تو ابھی کوئی باقاعدہ فیصلہ اکیڈمی نہیں کرسکی، لیکن ایک رپورٹ کے مطابق ۱۹۹۴-۱۹۹۵ء میں صرف ہندوستان کے مختلف آئی بینکوں سے آٹھ سو سے زائد مسلمان آنکھیں لگوا چکے تھے مگر آئی بینک کے ذمہ داروں کے مطابق کسی بھی مسلمان نے اپنی آنکھیں عطیہ کے طور پر آئی بینک کو نہیں دی۔ کیونکہ علماء اسے انسانی کرامت کے خلاف سمجھتے ہیں، عصر حاضر میں اعضاء کی پیوندکاری کا نظام وسعت اختیار کرچکا ہے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
پلاسٹک سرجری خواہ خوبصورتی کے لئے ہو یا دیگر مقاصد کے لئے، جاسوسی کے لئے ہو یا جرم کے لئے، یا جسم انسانی میں موجود کسی نقص اور عیب یا کمی کو دور کرنے کے لئے ہو، ان سب کے بارے میں فقہ اکیڈمی نے یہ موقف اختیار کیا کہ فطری عیب کو ختم کرنے اور زائل کرنے کے لئے پلاسٹک سرجری جائز ہے، اسی طرح اچانک پیدا ہونے اور رونما ہونے والے کسی بھی عیب کے ازالہ کے لئے پلاسٹک سرجری درست ہوگی، اس سلسلہ میں متعدد احادیث سے بھی روشنی ملتی ہے ، جن میں سونے کی ناک بنوانے، یا سونے کے دانت بنوانے کا ذکر موجود ہے۔ دوسرے یہ کہ اللہ تعالی نے انسان کو چونکہ احسن تقویم یعنی بہترین حالت پر پیدا کیا ہے اس لئے اس جسم پر کسی بھی طرح کے پیدا ہونے والے عیب کا ازالہ کرنا درست ہوگا۔ ہندوستان میں ایسے حادثات اکثر ہوتے ہیں کہ نوجوان لڑکیوں پر ایسڈ پھینک دیئے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا چہرہ ، ان کی آنکھیں سب خراب ہوجاتی ہیں اور وہ بہت ہی بدشکل بن جاتی ہیں، ظاہر ہے ایسی صورت میں اگر پلاسٹک سرجری سے ان کی فطری حالت میں قدرے بہتری آجاتی ہے تو اس میں یقینا کوئی حرج نہیں بلکہ یہ مطلوب ہے، اس موضوع پر غور کرتے ہوئے اکیڈمی نے یہ رائے پیش کی ہے کہ جسمانی تکلیف کے ازالہ کے لئے اور مظلوم کا ظالم سے بچنے کے لئے پلاسٹک سرجری کرانا جائز ہوگا، پلاسٹک سرجری اپنے اصل کے اعتبار سے ایک جائز عمل ہے اس لئے یعنی اگر مقصد علاج اور ضرر کا دور کرنا ہو تو درست ہے ۔
اسی طرح اکیڈمی نے برین ڈیتھ (Brain Death) اور قتل بہ جذبہ رحم (یوتھنزیا) کو بھی گفتگو کا عنوان بنایا اور یہ رائے دی کہ مفلوج، بے حس وحرکت مریض ومریضہ کو ختم و ہلاک کرنا درست نہ ہوگا۔ طبی دنیا میں اخلاقی نقطۂ نظر سے ایک اہم مسئلہ قتل بہ جذبۂ رحم کا بھی ہے، ایسے مریض انسان جن کے بارے میں یہ توقع ہو کہ وہ اب مرض سے نجات نہ پا سکیںگے، نیز وہ مرض لا علاج بن چکا ہو تو اس سلسلے میں ایک نقطۂ نظر یہ پایا جاتا ہے ، یا تو ان کی زندگی کسی طرح ختم کردی جائے یا ان کا علاج روک دیا جائے۔ اسی کو جدید طبی اصطلاح میں یوتھینیزیا بھی کہتے ہیں۔
احادیث رسول اور عمل رسول نیز کتاب اللہ سے جو تعلیمات ملتی ہیں، اس کے مطابق انسانیت کے ساتھ خیرخواہی اور اس کی مدد، ہمدردی اور تکلیف میں تسلی وسہارا دینے کی کوشش، حقوق کی پاسداری، اخلاقی رواداری وغیرہ لازمی اخلاقی اصول ہیں۔ اسلام جو تصور پیش کرتا ہے اس کے مطابق نفس انسانی کا احترام، اس کا اکرام اور اس کو ہلاکت سے بچانے کی کوشش اور مصیبت سے نجات دینے کی سعی وغیرہ زندگی کے بنیادی اصول ہیں۔
اسلام نے خودکشی سے روکا اور جان کو انسان کے لیے ایک امانت قرار دیا، کیونکہ انسانی جسم میں روح کی منتقلی اللہ کا احسان وعطیہ ہے۔ اسلامی تعلیم کے مطابق انسان کو لاحق ہونے والی یا پہنچنے والی کوئی تکلیف، بیماری، مرض یا تو امتحان ہے یا اس کے درجات کو بلند کرنا مقصود ہے یا اس کے گناہوں کا ازالہ مقصود ہے یا اس کا رخ صالح اقدار کی طرف موڑنا مقصود ہے۔ بہرحال اسلام نے انسانی جان کو بہت ہی محترم قرار دیا ہے، اس لیے اس کی حفاظت کی ذمہ داری انسان کی ہے۔
یوتھینیزیا کے مسئلے پر اکیڈمی نے غور کرکے فیصلہ کیا کہ کسی مریض کو شدید تکلیف سے بچانے یا اس کے متعلقین کو علاج اور تیمارداری کی زحمت سے نجات دلانے کے لیے عمداً اور قصداً ایسی تدبیر کرنا کہ جس سے مریض کی موت ہوجائے یہ قتل نفس کے حکم میں ہے اورحرام ہے، اسی طرح اگر قدرت کے باوجود مریض کا علاج کرنا ترک کردیا جائے تاکہ اس کی موت ہوجائے یہ بھی جائز نہیں ہے، خواہ مریض کو کوئی مہلک دوا نہ دی گئی ہو۔
موجودہ دور میں دماغی موت کا مسئلہ بھی کافی اہمیت کا حامل ہے، انسانی زندگی کے اختتام کا نام موت ہے، اس موت کی کئی شکلیں ہیں، ایک وہ انسانی زندگی جو بیداری کی حالت میں ہوتی ہے جس میں احساس، شعور اور حرکت تینوں موجود ہوتے ہیں۔ دوسری قسم حیات جسمانی یعنی نیند کی حالت، اس کے کئی درجے ہیں، بعض میں کسی درجہ میں بیداری ہوتی ہے اور کسی مرحلہ میں کسی طرح کی بیداری نہیں رہتی۔ تیسری صورت عضوی زندگی ہے، یعنی انسان کی موت کے بعد بھی اس کے بعض اعضاء میں زندگی رہتی ہے ، یہ ایک طرح کے جزوی حیات ہے جو اس کے بعض اعضاء میں محدود مدت کے لیے باقی ہوسکتی ہے۔ چوتھی قسم ٹیشوز لائف ہے، جس میں ٹیشوز کے اندر ایک خاص قسم کی زندگی کا موجود ہونا ہے۔ پانچویں قسم سیلولر لائف ہے، یعنی انسان کے مختلف سیل کے اندر کی خاص زندگی۔ انسانی زندگی کا آغاز بھی اس حصے کی لائف سے ہوتا ہے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ کسی عضو یا خلیوں کے مجموعے میں زندگی کی علامتیں رہنے کا مطلب یہ نہ ہوگا کہ انسان بھی زندہ ہے۔
قدیم اطباء کے یہاں دل کو مرکز حیات مانا گیا ہے اور دماغ کو اس کا ماتحت۔ دماغ اپنی زندگی کے لیے دل سے غذا لیتا ہے، اگر دل کی طرف سے دماغ کو غذا نہ ملے تووہ زندہ نہیں رہ سکتا ہے اور دماغ کے مرجانے کے بعد دوبارہ اس میں زندگی آنے کا امکان بہت کم رہتا ہے۔واقعہ یہ ہے کہ دل ودماغ میں سے کسی ایک کی موت سے موت کا آغاز ہوتا ہے اور دوسرے کی موت پر اس کی تکمیل ہوتی ہے۔
اسی لیے طبی دنیا میں یہ بحث ہے کہ موت کس چیز کی معتبر ہوگی، دل کی یا دماغ کی ۔ کیونکہ مصنوعی آلۂ تنفس کے ذریعہ مریض کے قلب کی حرکت کو باقی رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے اور دوران خون کو بھی جاری رکھا جاسکتا ہے، حالانکہ دماغ مرچکا ہوتا ہے۔ دماغی موت کی مختلف تفصیلات پر غور کرنے کے بعد اکیڈمی نے یہ موقف اختیار کیا کہ جب سانس کی آمد ورفت پوری طرح رک جائے اور موت کی علامتیں ظاہر ہوجائیں تبھی موت کی واقع ہونے کا حکم لگایا جائے گا، اور اسی وقت سے موت سے متعلق وصیت، میراث، عدت وغیرہ کے احکام کا آغاز ہوگا۔ اگر مریض مصنوعی آلہ تنفس پر ہو لیکن ڈاکٹرس اس کی زندگی سے مایوس نہ ہوئے ہوں تو مریض کے ورثاء کے لیے اسی وقت مشین کا ہٹانا درست ہوگا جبکہ مریض کی املاک سے اس علاج کو جاری رکھنا ممکن نہ ہو اور نہ ہی وارثین اخراجات کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں، اور نہ علاج کرانے کے لیے کوئی اور ذریعہ موثر ہو۔
جلاٹین کے مسئلہ پر اکیڈمی نے بہت اہمیت کے ساتھ غور وفکر کیا اور انقلاب ماہیئت کے عنوان سے دوبار اس موضوع پر مقالات کی روشنی میں مناقشہ ومذاکرہ کا اہتمام کیا۔ اکیڈمی نے یہ موقف اختیار کیا کہ جدید طریقوں سے اشیاء میں تبدیلی کرکے جو نمونہ یعنی جلاٹین تیارکیا جاتا ہے، اس کے اندر مکمل تبدیلی ہوچکی ہوتی ہے اور حقیقت وماہیئت کی تبدیلی سے حکم بدل جاتاہے لہٰذا جلاٹین کا استعمال دواؤں اور غذاؤں دونوں میں درست ہوگا۔
اسی طرح اکیڈمی نے اسقاط حمل کے سلسلہ میں بھی واضح موقف اختیار کیا اور یہ کہا کہ اگر ماہر اور قابل اعتماد کی رائے میں اگلا بچہ پیدا ہونے کی شکل میں جان جانے یا کسی عضو کے نقصان پہنچنے کا قوی اندیشہ ہو تو مستقلاً آپریشن کرادینا درست ہوگا۔ اسی طرح اگر جنیٹک سائنس کے ذریعہ بھی یہ بات معلوم ہوجائے کہ اگلا ہونے والا بچہ معذورہوگا تو اس کا بھی اسقاط جائز ہوگا۔
اکیڈمی نے مادہ تولید کی منتقلی (Invitro Furtilization) اور ٹسٹ ٹیوب بے بی کو بھی موضوع بنایا جس کی متعدد شکلیں ہیں، اگر یہ شوہر اور بیوی ہی کے درمیان کا مسئلہ ہو تو کوئی حرج نہیں ، لیکن اگر اس سے باہر کا مسئلہ ہو تو وہ جائز نہیں ،اس دور میں سیروگیٹ مدرس کافی بڑھ رہی ہیں یعنی رحم مادر کو کرایہ پر لینے یا دینے کا مسئلہ۔ چنانچہ اکیڈمی نے اس مسئلہ پر یہ رائے قائم کی کہ اجارہ یا عاریت کے طور پر کسی عورت کا اپنے رحم میں اجنبی مرد کے نطفے یا دوسرے کے بیضے کی پرورش کرنا قطعاً حرام ہے۔ یہ اس انسان کو اس کی شناخت سے محروم رکھنے کی ایک سازش ہے، اور اللہ کے بنائے ہوئے فطری نظام سے بغاوت ہے۔ اسی طرح کسی مرد کے لیے یہ بات جائز نہیں کہ وہ اپنا مادہ کسی اجنبی عورت کے رحم میں بار آور کرنے کے لیے یا اس کے بیضے سے اختلاط کے لیے دے۔ ڈاکٹروں کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ ایسے غیر اخلاقی عمل میں تعاون کریں۔
اسلام نے ہر میدان کے لئے کچھ اخلاقی اصول طے کئے ہیں اور ادب اخلاق کا ایک جامع تصور پیش کیا ہے، اس کے اندر اتنی وسعت وگہرائی ہے کہ اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا، بیماری کی تشخیص اور اس کے علاج وطریقہ علاج کے تعین ، ازالہ مرض کی کوشش، بہتر طبیب کی تلاش، صاحب نظر وصاحب تجربہ طبیب سے مشورہ، طبیب ومریض کے درمیان موجود رابطہ کی رازداری اور تمام رازوں کی حفاظت کی، یہ چند نمایاں عنوانات ہیں جو ایک طبیب کی اخلاقیات کے حدود طے کرتے ہیں۔ اگر طبیب اخلاقیات کا پابند نہ ہو اور اخلاقی اصولوں کا لحاظ نہ کرے تو پھر وہ نہ صرف مریض کے مرض بلکہ دوسری بہت سی چیزوں سے پردہ اٹھاسکتا ہے اور کہیں سے کہیں پہنچ سکتا ہے۔
انسانیت کی خدمت انسانوں کی ضرورت کی تکمیل، ان کی بیماریوں کا علاج، یہ ایک بنیادی انسانی اخلاق ہے جس کا ہر زمانہ میں لحاظ کیا گیا ہے۔ اکیڈمی نے اسلامی اخلاقیات کی روشنی میں طبی اخلاقیات میں بعض پہلوؤں کا اضافہ کیا ہے۔
اکیڈمی نے طبی اخلاقیات کے ذیل میں جن بنیادی اصولوں کی نشاندہی کی ان میں سے : ۱- ڈاکٹر کا میڈیکل سائنس سے مکمل واقف ہونا ، ۲- ڈاکٹر کے لئے مریض کے راز کی حفاظت کی ضرورت ہے،۳- ڈاکٹروں کا حرام چیزوں کے ذریعہ علاج سے بچنا،۴- بغیر کسی ناگزیر ضرورت کے ڈاکٹر کا اسقاط (ابرشن) نہ کرنا،۵- ڈاکٹر کا جنس مخالف کے علاج میں بنیادی اسلامی تعلیمات کا لحاظ ، ۶- ڈاکٹر کا مریض کا علاج کرنے میں کسی بھی طرح کے علاقائی، مذہبی، نسلی امتیاز کا شکار نہ ہونا، ۷- مریض کی اجازت کے بغیر اس کے مرض اور علاج سے متعلق کاغذات کی اشاعت نہ کرنا وغیرہ وغیرہ۔
دراصل موجودہ زمانہ میں اخلاقی انحطاط اور مادہ پرستی کے رجحان کے نتیجہ میں نئے قسم کے جرائم کا رجحان پیدا ہوا ہے،چنانچہ طبیب کے غیر ذمہ دارانہ روش ، عجلت پسندی، یا فن سے بے خبری کے سبب علاج میں کوتاہی ہوا کرتی ہے۔
شریعت کے نقطہ نظر سے بنیادی شرط اہلیت وصلاحیت کی ہے ، اگر اہلیت موجود نہیں ہے اور طب کا علم سرے سے نہیں ہے تو پھر اس کام یا علاج میں دخل دینا کسی بھی طرح جائز نہیں ہے، فقہاء نے اس جانب اشارہ کیا ہے کہ جو لوگ اہلیت نہ رکھتے ہوں انہیں علاج ومعالجہ کے کامو ںمیں دخل دینا قطعاً حرام ہے، چونکہ شریعت میں نفس انسانی کی حفاظت، بنیادی مقاصد میں سے ہے قانون اسلامی میں زیادہ تر رخصتوں اور سہولتوں کی بنیاد یہی ہے کہ انسان کو ہلاکت ومشقت وحرج سے بچایا جائے پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ طبیب کے لئے اہلیت وصلاحیت کی شرط قائم نہ رہے، اسی لئے فقہاء کہتے ہیں کہ جاہل طبیب کو سزا دی جائے گی، اور جاہل طبیب سے مراد یہ ہے کہ وہ نہ تو مرض کو سمجھ سکے اور نہ دوا کی حقیقت کو ، وہ لوگوں کو زہر دے اور سمجھے کہ یہی دوا ہے، اور زہر دے کر اس کے سائڈ ایفکٹ کو ختم کرنے پر قادر نہ ہو، ظاہر ہے کہ وہ جاہل طبیب ہوگا، اور شرعی اعتبار سے پہنچنے والے نقصان کا ذمہ دار بھی وہی ہوگا اس پر فقہاء کا اتفاق ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ طبی میدان میں ہونے والی تحقیقات وکوششیں،ر یسرچز، تجربات، جن سے انسان کو کسی بھی حیثیت سے نفع اور فائدہ پہنچتا ہو یا پہنچ سکتا ہو اور جس سے انسانی سماج کی مصلحتیں پوری ہوتی ہوں ایک صحت مند معاشرہ ، امراض سے آزاد انسانی سماج کی شکل بنتی ہو ان تمام کوششوں سے استفادہ کرنا اور اسے قبول کرنا، اسے اختیار کرنا یقینا ایک اہم قدم ہے ، اسلام نافعیت کے اوپر خصوصی زور دیتا ہے اسی لئے کہا گیا ’’أما ما ینفع الناس فیمکث فی الأرض‘‘ کہ وہ چیزیں جو انسان کو فائدہ پہنچا سکتی ہیں ان کو زمین میں قبولیت حاصل ہوتی ہے، انسانی خدمت کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ انفرادی واجتماعی طور پر انسان اور انسانی سماج کو ہر طرح کی تکلیفات اور پریشانیوں سے نجات دلانے کی کوشش کی جائے، قرآن نے جن امور کی طرف اشارہ کیا ہے ان میں صلاح اور خیر کی نشر واشاعت بھی ہے، صلاح، خیر، بر، یہ وہ بنیادی نظریات ہیں جن کے اندر بہت سے معانی پوشیدہ ہیں انسان کی بقا کے لئے جو چیز صالح ہو اور طیب ہو اسے اختیار کرنا اور ان تمام اشیاء کی تلاش وجستجو ان طریقوں کی دریافت جن میں صلاح، خیر ، بر پوشیدہ ہو، یہ اسلامی نقطہ نظر سے ایک اہم پہلو ہے جس پر غور کیا جانا چاہئے، قرآنی تصور کے مطابق شفا کا حصول ضروری ہے، یہ شفا ، کمزوریوں، بیماریوں، نجاستوں سے نجات حاصل کرکے بھی ہوسکتی ہے اور قلب ودماغ اور آنکھ کو متاثر کرنے والی بیماریوں کے خاتمہ کے ذریعہ بھی ہوسکتی ہے، کائنات میں اللہ تعالی نے جو نشانیاں پیدا کی ہیں اور آسمان وزمین میں موجود چیزوں کو انسان کے لئے مسخر کیا ہے تو ان سے فائدہ اٹھانا اور حسن سے احسن کی طرف بڑھنا یہ بہرحال ضروری ہے۔ اسلام نے جو طہارت ونظافت کے سلسلہ میں جو احکامات دیئے وہ اپنے آپ میں بہت جامع ہیں، بہت سی بیماریاں معصیت کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں اور انسانی اعضاء کا حسن اور اس کا جوہر اس کی وجہ سے متاثر ہوتا ہے، اسی لئے اسلامی تعلیمات میں ہر طرح کی معصیت سے اجتناب اور معصیت سے دوری کو مشکلات ومسائل اور امراض سے نجات کا ایک حصہ وسیلہ اور ذریعہ سمجھا گیا ہے، کیونکہ بعض آیات سے اس بات کی بھی نشاندہی ہوتی ہے کہ خود انسانی کوشش، انسانی عمل، کہیں نہ کہیں فساد اور بگاڑ کو جنم دیتا ہے، جیسا کہ کہا گیا ’’ظہر الفساد فی البر والبحر بما کسبت أیدی الناس‘‘، یعنی انسان کے اپنے سلوک، طرز عمل، معاملات کے رد عمل سے اور نتیجہ میں جو سلبی رخ پر ہوتا ہے اور جس کی وجہ سے حدیں ٹوٹتی ہیں ، اخلاقیات پامال ہوتی ہیں، دناء ت، پستی، رذالت، ظلمت اسے گھیر لیتی ہے، فلسفہ اخلاق میں یہ بات بتائی گئی کہ انسان کی اصل راحت اس کا سکون، ا س کی حقیقی صحت یہی ہے کہ وہ ان طریقوں کو اختیار کرے جن کی نشاندہی نبی اور ان کے اصحاب اور صالحین کے طرز عمل میں دکھائی دیتی ہے۔
مقاصد شریعت کے اعتبار سے انسانی جان کی حفاظت اور اعضاء جسم کو بہتر حالت میں رکھنے کی کوشش اور جسم انسانی اور نفس انسانی کو خدا کے بتائے ہوئے ضابطوں کے مطابق چلانے کی جدوجہد یہی وہ اصل پیمانہ ہے جس سے سعادت حاصل ہوسکتی ہے اور تمام جوارح اعضاء ٹھیک حالت میں رہ سکتے ہیں، مثال کے طور پر اللہ کے ذکر سے اور اس کی تسبیحات کے بیان کرنے سے قلب کو سکون حاصل ہوتا ہے ، آیات قرآنی کی تلاوت سے سکینت نازل ہوتی ہے اور ایک نور ماحول کو گھیر لیتا ہے ، بس اسی طرح سے خدا کی تخلیق کردہ چیزوں کے خواص، اور تاثیرات سے واقف ہونا اور اس کی افادیت و نقصانات سے باخبر ہونا انسان کی ایک اہم ذمہ داری ہے۔
عصر حاضر کی نئی طبی ترقیات خواہ وہ کسی بھی شکل میں ہو، سے استفادہ کرنا نہ تو شرعاً منع ہے اور نہ اس کے بارے میں کوئی نہی وارد ہوئی ہے، اس بناء پر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مختلف تہذیبی ادوار میں جو کوششیں کی گئی ہیں ان کوششوں سے فائدہ اٹھانا، نظری اور عملی تجریبی اور تنفیذی دونوں سطح پر یہ ارتقائی عمل کا حصہ ہے۔
عصر حاضر کے انفجار علم نے ایک نئی دنیا ریسرچ وتحقیق کے ذریعہ قائم کردی ہے، بایو میڈیکل سائنس اس کا ایک اہم حصہ ہے، چونکہ بایو میڈیکل سائنس میں بہت سارے ایشوز اور عنوانات ایسے ہیں جن پر مغرب ومشرق میں اور مختلف مذاہب کے علماء کے یہاں غور وخوض جاری ہے۔ در اصل اگر انسانی وجود کو فائدہ پہنچانے اور اس کی مصلحت وضرورت کے اعتبار سے اقدام کرنا ایک خوش آیند قدم ہے۔ لیکن جب انسان اپنے عقل پر اعتماد کرتے ہوئے نظام فطرت کو اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتا ہے اور ریسرچ وتحقیق کا رخ ادھر موڑنے لگتا ہے کہ وہ انسان یا انسانی اعضاء کو از خود تخلیق کرسکتا ہے اور بنا سکتا ہے یا نئے قسم کے اعضاء کو وجود میں لاسکتا ہے یا وہ حیات وموت کے درمیان فاصلے کو کم کرسکتا ہے یا پھر وہ خود غرضی، مادی منفعت اور اپنے معاشی، سیاسی، اقتصادی اقتدار اور غلبہ کو بڑھانے کے لیے ان علوم کا استعمال کرتا ہے تو پھر مختلف مذاہب کے علما کے یہاں یہ موضوع اہم بن جاتا ہے کہ وہ اس کی اخلاقی حدود کی نشاندہی کریں اور باقاعدہ اخلاقیات کی تشکیل وتنظیم کریں تاکہ نئی جہت میں ہونے والی کوششوں کو انسانیت کے لیے زیادہ مفید بنایا جاسکے۔ بہرحال یہ بات اہم ہے کہ اسلامی دنیا کے فقہاء تمام نئے مسائل کے سلسلہ میں زیادہ گہرائی کے ساتھ سمجھنا اور جاننا چاہتے ہیں اور شرعی، فقہی اصولوں کی روشن میں مفید ونافع چیزوں کو اجتہاد کے ذریعہ جائز قرار دینے کا رجحان رکھتے ہیں، بشرطیکہ وہ واقعی انسانی زندگی کے لیے مفید ہو۔ یقیناً ہندوستان کے علماء نے فقہ اکیڈمی کے ذریعہ سے مختلف طبی مسائل پر گفتگو کرنے کی کوشش کی ہے، مگر یہ اصلاً ایک ابتدا ہے، وہ مزید نئے ایشوز کو سمجھنا چاہتے ہیں اور اس سلسلہ میںوہ آمادہ وتیار ہیں، اور یہ سب کچھ خدا کی توفیق سے ممکن ہے۔
مکہ اکیڈمی اور جدہ اکیڈمی دونوں نے بہت سے طبی موضوعات پر غور وخوض کیا اور ان پر فیصلے بھی کیے۔ اکیڈمی ہندوستان کے منتخب اطباء کے تعاون سے طبی مسائل پر محاضرات کا اہتمام کرتی رہی ہے تاکہ علماء نئے طبی مسائل سے واقف ہوں۔آنکھوں کے عطیہ کے سلسلہ میں اکیڈمی اب تک کوئی فیصلہ نہیں کرسکی ہے، البتہ گردہ کا عطیہ، عزیز و اقارب اور رشتے دار کو حسب ضرورت دینے کے جواز میں ہے۔
اسلام کا عطا کردہ نفع وضرر، صلاح وفساد، ضرورت وحاجت، نفع ناس، ایثار وعدل، مصلحت وسد ذریعہ کا اصول، صبر ورضا کا حصول، مقاصد شریعت کے اصول، اور قرآن وحدیث میں مذکور اہم اشارات واصطلاحات جن سے کہ نئے اصولوں کا استنباط ہوسکتا ہے، غور وفکر کا مستقل عنوان ہے۔
جب ہم اخلاقیات کی بنیادیں تلاش کرتے ہیں او ران بنیادوں کی تعیین بھی کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے ہمیں اسلامی ذخیرہ میں موجود ان تمام مصطلحات پر از سر نو غور کرنا ہوگا جن کی روشنی میں ہم عصر حاضر کی ضرورتوں کے اعتبار سے ایک نئے اخلاقی نظام کی تشکیل کرنا چاہتے ہیں جو جدید طبی مسائل ومشکلات اور تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ دیگر مذاہب کے علماء نے بھی طبی اخلاقیات کے موضوع پر کام کیا ہے اور اس پر کافی وقیع تحریریں تیار ہوئی ہیں، لیکن اسی کے ساتھ ساتھ عالم عرب کے اطباء اور اہل علم نے بھی ان مسائل پر کتابیں لکھی ہیں اور مقالات بھی تحقیقی انداز میں مرتب کئے ہیں، جن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم ترقی پذیر اور عروج پذیر طبی تحقیقات و انکشافات سے پیدا ہونے والے اثرات ونتائج اور ان کے تئیں مذہبی اقدار کا رویہ کیا ہو یہ طے کرنے میں آسانی ہوسکتی ہے۔
اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ مسائل کے حل کرنے کے سلسلہ میں مختلف اہل علم کی اور مختلف جہتوں سے رائے حاصل کی جائے یا یہ کہ لوگ خود اس عمل میں شریک ہوں، بشرطیکہ ہمارے اندر وسعت نظری اور کشادہ ذہنی آئے اور ہم تمام مکاتب فکر کی آراء کو احترام کے ساتھ حسب ضرورت ومصلحت قبول کرسکیں۔ ایک دوسرا پہلو غوروفکر کا یہ بھی ہے کہ جب تک ہم عقلی وفکری اعتبار سے ازسر نو ایشوز پر غور نہیں کریںگے اور دماغی صلاحیتوں کا غیر جانبدارانہ انداز سے استعمال نہیں کریںگے تو شاید عقل ودانش کا وہ استعمال نہیں ہوسکے گا جو ایک تمدنی ترقی کے لئے ضروری ہے۔
تمام طبی مسائل پر اکیڈمی کی تفصیلی بحثوں کو دیکھنے کے لیے اس کے مجلات اور پورٹوں کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2015