عرب ملکوں میں کھانے کی بربادی

غزہ میں بھکمری کے تناظر میں

اعداد و شمار کی روشنی میں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عرب ممالک میں صرف ایک سال میں جتنی مالیت کی کھانے پینے کی اشیا کوڑے دان میں پھینکی جاتی ہیں وہ غزہ کی پٹی میں بھکمری کے بحران کو حل کرنے اور غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے ہی صرف کافی نہیں ہو سکتیں بلکہ اس سے بیت المقدس اور فسلطین کی آزادی کا ایک بڑا مرحلہ بھی طے کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے سامنے موجود اعداد و شمار اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ایک طرف جس سرفروشانہ مزاحمت نے 600 سے زیادہ دنوں سے اپنی جانبازی سے دنیا کو حیرت واستعجاب میں ڈال رکھا ہے اور صہیونی ریاست کو بے پناہ فوجی، سیاسی اور معاشی نقصانات میں مبتلا کیا، اس کا بجٹ کسی بھی صورت میں چند سو ملین ڈالر سے متجاوز نہیں تھا تو دوسری طرف صرف 2024 میں ہماری عرب دنیا نے جو کھانا اور بچی کھچی چیزیں کوڑے دان میں پھینکی ہیں اس کی قیمت تقریبًا150 بلین ڈالر ہے!! یعنی مزاحمت نے اپنی جدو جہد کی راہ میں جو کچھ خرچ کیا اس سے ڈیڑھ سو گنا زیادہ۔

اس مضمون میں ہم نہ تو سگریٹ نوشی پر برباد ہونے والے اربوں ڈالر کی بات کریں گے اور نہ ہی ان دسیوں ارب ڈالر کی بات چھیڑیں گے جو تفریح، گانے بجانے، کھیل کود اور کھلاڑیوں کی خریداری کے نام پر لٹائے جاتے ہیں۔۔۔ نہ ہی اس خطے میں ٹرمپ کے دورے اور اس دورے میں یہاں سے سمیٹی گئی حیران کن رقم (تقریباً 3.2 ٹریلین ڈالر) زیر بحث ہے۔ یہ تو وہ بہت بھاری رقم ہے جو غزہ کے ہزار سالہ بجٹ کو پورا کرنے کے علاوہ صہیونی منصوبوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے بھی کافی ہو سکتی ہے۔ ہماری گفتگو صرف ضائع شدہ اشیائے خورد ونوش کی مالیت تک محدود ہے۔

عرب دنیا میں غذائی اشیا کی بربادی

اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے ذیلی ادارے فوڈ ویسٹ انڈیکس کی جانب سے 2024 میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق عرب ممالک سب سے زیادہ اشیائے خورد و نوش برباد کرنے والے ممالک میں سرِ فہرست ہیں۔ مذکورہ رپورٹ سے (اور ورلڈ پاپولیشن ریویو نامی ویب سائٹ میں کھانے کی بربادی سے متعلق اعداد و شمار سے استفادے سے) جو تخمینہ سامنے آتا ہے وہ یہ کہ ان ممالک میں کوڑے میں پھینکے گئے کھانے اور ضائع کی گئی غذائی اشیا کی مجموعی مقدار تقریبًا پانچ کروڑ ستانوے لاکھ اسی ہزار ٹن تھی۔

رپورٹ نے یہ تفصیل بھی پیش کی ہے کہ 2024 میں صرف مصر میں ایک کروڑ اکیاسی لاکھ ٹن کھانا ضائع کیا گیا یعنی فی کس سالانہ 155 کیلو گرام کے تناسب سے کھانے کی بربادی ہوئی۔ عراق میں اس کی مجموعی مقدار 64 لاکھ ٹن اور فی کس سالانہ 138 کیلو رہی جبکہ سعودی عرب میں 38 لاکھ ٹن کھانا برباد کیا گیا جو کہ فی کس سالانہ 112 کیلو ہوتا ہے۔ الجیریا میں مجموعی طور پر 51 لاکھ ٹن کھانا ضائع کیا گیا جو کہ فی کس سالانہ108کیلو ہوتا ہے۔ اسی طرح مراکش میں 42 لاکھ ٹن فی کس 111کیلو، متحدہ عرب امارات میں نو لاکھ تیس ہزار ٹن فی کس 99کیلو، تیونس میں 21 لاکھ ٹن فی کس 173کیلو، کویت میں 4 لاکھ 20 ہزار ٹن، فی کس 99 کیلو، اور اردن میں 11 لاکھ ٹن، فی کس 98کیلوگرام کے تناسب سے کھانا ضائع کیا گیا۔

ایک اورچونکانے والی بات یہ ہے کہ 2021ء کے مقابلے میں 2024ء میں کھانے کی بربادی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا، مثال کے طور پر 2021 میں مصر میں کھانے کی بربادی کا تناسب فی کس 82 کیلو تھا جب کہ عراق میں 109کیلو اور تیونس میں 88کیلو تھا۔ ممکن ہے یہ فرق معلومات جمع کرنے اور ان کے تجزیہ ومطالعہ کے طریقوں میں ترقی کی وجہ سے واقع ہوا ہو لیکن اس کے باوجود یہ بنیادی حقیقت اپنی جگہ برقرار ہے کہ دونوں ہی برسوں میں غذائی اشیا کی بربادی ہوش ربا مقدار میں ہوئی ہے۔

یہاں اتنی گنجائش نہیں کہ تمام عرب ممالک کی صورتِ حال کا تفصیلی تذکرہ کیا جاسکے۔ جو لوگ 2021 اور 2024 کے اعداد و شمار کے تقابلی مطالعہ اور تجزیہ میں دل چسپی رکھتے ہیں وہ اسے ورلڈ پاپولیشن ریویو کی ویب سائٹ پر ’’فوڈ ویسٹ‘‘ کے عنوان کے تحت دیکھ سکتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ فوڈ ویسٹ اور اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے ذریعہ جاری کردہ اعداد و شمار میں کچھ اختلافات ہیں۔ ان کے علاوہ بعض ایسے دیگر مراجع بھی ہیں جو بعض اوقات متضاد تخمینے فراہم کرتے ہیں۔ یہ شاید ان اعداد و شمار کے استعمال کی وجہ سے ہو جو وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں، یا ایسے حوالوں سے استفادہ کی وجہ سے ہو جو ڈیٹا اکٹھا کرنے اور تجزیہ کرنے کے لیے الگ طریقے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں ہم نے سب سے درست اور عالمی سطح پر قابلِ اعتماد مراجع کا استعمال کیا ہے۔

دستیاب حوالوں کے مطابق سعودی عرب میں غذائی اشیا کی بربادی کی مالیت تقریباً 40بلین سعودی ریال تک تھی جو کہ تقریباً 10.65بلین ڈالر کے برابر ہے۔ متحدہ عرب امارات میں یہ قیمت تقریباً 3.5بلین ڈالر کے برابر ہے۔ بہت سے عرب ممالک میں برباد شدہ غذائی اشیا کی مالیت سے متعلق اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔ لیکن اگر ہم سعودی عرب میں برباد شدہ ایک ٹن کھانے کی مالیت کے تخمینہ کو بطورِ پیمانہ استعمال کریں تو یہ تقریباً 2800 ڈالر فی ٹن ہے۔ یہ فرض کرتے ہوئے کہ برباد شدہ غذائی اشیا کی فی ٹن قیمت الگ ممالک میں مختلف ہوتی ہے، ہم اس اوسط قیمت کو کم کر کے فی ٹن2500ڈالر مان لیں تاکہ دیگر عرب ممالک میں ضائع شدہ کھانے کی مالیت کا ہم درست اندازہ لگاسکیں تو عرب ممالک میں سن 2024 میں برباد کی گئی غذائی اشیا (تقریباً پانچ کروڑ چھیاسی لاکھ اسی ہزار ٹن) کی مالیت 149.2 بلین ڈالر ہوگی، جو کہ نہایت حیران کن رقم ہے۔

تجزیاتی مطالعہ

مندرجہ بالا اعداد و شمار کی روشنی میںچند اہم نکات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے:

۱۔ عرب ممالک میں جتنی بھاری مقدار میں کھانے کی بربادی ہوتی ہے اس کی بڑی ذمہ داری ان ممالک کی حکومتوں اور ان کی طرف سے پیدا کردہ ماحول کی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ممالک کی توجہ ’’صارفیت پر مبنی ثقافت‘‘ کو فروغ دینے کی طرف ہے۔ ان کے یہاں سامانِ تعیش کی فراہمی کو ہی ترقی تصور کیا جاتا ہے اور اس مقصد کے لیے وسیع پیمانے پر میڈیا اور ثقافتی وسائل کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ان کی ترجیح میں یہ بات شامل نہیں ہیں کہ پر تعیش زندگی کو متوازن بنانے اور اسراف کو روکنے کے لیے موثر منصوبے بنائے جائیں۔ اس کے برعکس، کئی عرب ممالک صہیونی منصوبوں کی بیخ کنی اور فلسطینیوں کی مدد کے لیے ابھرنے والے اسلامی وقومی جذبات سے برابر جنگ آزما رہتے ہیں۔

گرچہ متعدد عرب حکومتیں یہ احسان جتانے اور اذیت پہنچانے میں کبھی پیچھے نہیں رہتیں کہ انھوں نے قضیہ فلسطین کے لیے اپنی ذمہ داری کی حد تک بلکہ اس سے زیادہ کام کیا ہے، لیکن ہمارے سامنے موجود اعداد و شمار کا ایک سادہ تقابلی مطالعہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ پچھلے بیس برسوں میں کسی بھی عرب ملک کی طرف سے فراہم کردہ مالی امداد وہاں کوڑے دان میں صرف ایک سال میں پھینکی گئی غذائی اشیا کی قیمت کے بقدر بھی نہیں رہی۔

مثال کے طور پر 22 برسوں (1999تا 2020) میں فلسطین کے لیے سب سے زیادہ مدد گار سمجھے جانے والے ایک بڑے دولت مند عرب ملک کی طرف سے دی گئی کل سرکاری امداد تقریباً 3۔925 بلین ڈالر تھی۔ اس میں اگر اونروا UNRWA کو دی جانے والی رقم تقریباً 850 ملین ڈالر کو بھی شامل کرلیں تو بھی مجموعی رقم 4 بلین 775 ملین ڈالر ہوتی ہے جو کہ ایک سال میں وہاں کے کوڑے دانوں میں پھینکی گئی غذائی اشیا کی نصف قیمت سے بھی کم ہے۔ اسی طرح، زیادہ تر عرب ممالک وہ ہیں جن کی طرف سے گذشتہ پچاس برسوں میں فلسطین کو دی جانے والی مجموعی مالی مدد ان کے کوڑے دانوں میں ایک سال میں برباد کی گئی غذائی اشیا کی مالیت سے زیادہ نہیں رہی۔

دوسری طرف، کئی عرب حکومتوں نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات قائم کر کے مال سمیٹنا شروع کیا۔ ان ممالک نے ایک ایسے وقت میں اسرائیل کو ضروری اشیا کی فراہمی کے لیے بری گزرگاہ فراہم کی جب اسرائیلی دشمن غزہ کا محاصرہ کر کے اس کے اوپر فاقہ کشی مسلط کر رہا تھا۔ کچھ دوسری حکومتوں نے نہ صرف یہ کہ عوامی عطیات کو محدود رکھنے کے لیے انھیں غیر موثر سرکاری اداروں کے ذریعہ ہی امداد کی منتقلی پر مجبور کیا بلکہ خیراتی اداروں کو بھی بند کیا اور ان کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کی۔ کچھ ممالک نے فلسطین کے لیے عوامی سطح پر جدو جہد کو باعثِ شرف کام کے بجائے اسے جرم و تہمت قرار دیا جس کی وجہ سے اس میدان میں سرگرمِ عمل افراد قانون کی پکڑ اور قید و بند کے خطرات سے دو چار ہوتے رہے۔

۲۔ کھانے کی بربادی کے مسئلے میں عرب عوام بھی کم ذمہ دار نہیں۔ 60% سے زیادہ ضائع شدہ کھانا ان خاندانوں کی طرف سے ہوتا ہے جو اپنا بچا ہوا کھانا کوڑے دان میں پھینک دیتے ہیں۔ یہ کتنی افسوس ناک بات ہے کہ رمضان میں کھانے کی بربادی اور زیادہ ہوتی ہے۔ بعض اندازوں کے مطابق کئی عرب ممالک میں ماہِ رمضان میں جو کچھ بھی کھانا تیار ہوتا ہے اس کا 50 فیصد سے زیادہ برباد ہوتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے؟ ہمارے عرب سماج میں، گھروں اور خاندانوں کی یہ خوبی ہے کہ ان میں فیاضی اور کشادہ دستی پائی جاتی ہے، لیکن المیہ یہ ہے کہ ان خوبیوں کے ساتھ ساتھ عیش پسندی کے بہت سے منفی مظاہر بھی پائے جاتے ہیں جیسے اسراف وفضول خرچی اور ولیموں، دعوتوں اور سماجی تقریبات میں جھوٹے دکھاوے۔ طوفانِ اقصیٰ کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال میں اس طرح کے بعض منفی مظاہر میں کسی حد تک کمی نظر آ رہی تھی، جس کی وجہ سے کھانے کی بربادی کم ہوئی، لیکن یہ بہتری وقتی ثابت ہوئی اور اسےاس طرح جاری نہیں رکھا گیا کہ مستقل عادت اور ثقافت کی شکل اختیار کر لے۔ یہی وجہ ہے کہ 2024 کے اعداد و شمار اس صارفیت پر مبنی ثقافت کی عکاسی کرتے رہتے ہیں، جو عرب دنیا میں عالمی اوسط سے کہیں زیادہ رائج ہے۔

عرب دنیا میں فلسطین کے حق میں زبردست عوامی ہمدردی، مزاحمت کی تائید کے جذبات اور صہیونی ریاست سے قطعِ تعلق پر یک گونہ اتفاق پایا جاتا ہے، اور حکومتی پالیسی سے مایوسی اور ناراضگی بھی موجود ہے، اس کے باوجود عوامی سطح پر جمع ہونے والے مجموعی عطیات کا موازنہ اگر عوام کی طرف سے ضائع کیے گئے کھانوں کی مالیت سے کریں تو معلوم ہوگا کہ جو کچھ برباد کیا جاتا ہے اس کے مقابلے میں فلسطین کے لیے عطیات کا تناسب بہت ہی معمولی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ عطیات میں کمی کی وجہ حکومتوں کی طرف سے پیدا کی جانے والی رکاوٹیں اور حکومتی ایجنسیوں کا دباؤ بھی ہو، تاہم یہ بھی سچ ہے کہ لوگوں کی روز مرہ کی زندگی اور ان کے سماجی رویہ کی صورتِ حال کے مقابلے میں فلسطین کے لیے عملی مدد کی سطح بہت پست ہے۔

۳۔ عرب ممالک اور یہاں کے سماج، بطورِ خاص قدرتی وسائل سے مالا مال ممالک کا المیہ یہ ہے کہ تہذیبی ترقی کے منصوبوں پر تدریج و تسلسل کے ساتھ کام کرنے کے بجائے انھوں نے پسماندگی سے تعیش وآسائش پسندی کی طرف چھلانگ لگانے کی کوشش کی۔ ان کی توجہ قوم اور عوام کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اہل ’’انسانوں کی تعمیر‘‘ سے پہلے صارفیت اور عیش و آرام کا ماحول پیدا کرنے پر مرکوز رہی۔ چونکہ یہ خطہ صدیوں سے انتشار، استعماریت اور نقصان دہ رسوم و رواج کی زد میں رہا ہے، اس لیے انسان کی تعمیر سے لا پروائی کا لازمی نتیجہ یہی ہونا تھا کہ ایک سسست، کاہل، صارفیت پسند، ذمہ داریوں سے گریزاں، عیش وعشرت، اور راحت و تفریح کا دلدادہ انسانی سماج فروغ پائے۔

موثر اقدام کا راستہ

فلسطین اور اہلِ فلسطین کے لیے عربوں کی طرف سے مدد کے موضوع پر ہم جب بھی گفتگو کرتے ہیں تو یہ اس وجہ سے ہوتی ہے کہ یہ ایک فریضہ ہے جسے احسان و اذیت سے پاک ہونا چاہیے، جو محض ہمدردی اور مہربانی کا تقاضا نہیں بلکہ ایک دینی ذمہ داری اور ملی و وطنی فریضہ ہے۔ جس صہیونی منصوبے سے ہمارا مقابلہ ہے وہ ہماری زمین اور ہمارے مقدس مقامات، امتِ مسلمہ اور اس کے اہم مفادات اور ہماری قوم، وطن اور ممالک کے امن وامان کو تاخت و تاراج کرنا چاہتا ہے۔ اس کے سامنے سینہ سپر ہو جانا نہ صرف یہ کہ ملی وقومی فریضہ ہے بلکہ یہ انسانی اور تہذیبی ذمہ داری بھی ہے۔

اگر ہمارے اندر صہیونیوں سے عسکری میدان میں مقابلے کی طاقت نہیں ہے تو کم از کم اتنا تو لازمًا ہونا چاہیے کہ قضیہء فلسطین کی خدمت کے لیے صہیونی قبضے کے خلاف تمام تر اقتصادی و سیاسی وسائل اور میڈیا کی طاقت کو لگا دیں۔

فلسطینی مزاحمت کی مدد اور صہیونی منصوبے کا مقابلہ اس حقیقت سے مربوط ہے کہ ہمارے اندر اس ذمہ داری کا حقیقی شعور کتنا ہے، اور اسے ہم زندگی کے مختلف پہلوؤں سے کس طرح جوڑتے ہیں اور اپنے طرز زندگی اور روزمرہ کے طرز عمل کو کیسے ترتیب دیتے ہیں تاکہ یہ سب کچھ امت کی نشأة ثانیہ کے اس منصوبے سے ہم آہنگ ہو جو اس حقیقی انسان کو جنم دیتا ہے جو خلافت ارضی کا اہل ہو۔ صہیونی منصوبے کا مقابلہ اس بات کا متقاضی ہے کہ فقہِ اولویات اور فقہِ نوازل پر نظرِ ثانی کیا جائے۔ عیش و عشرت (جو تہذیبی زوال کی ایک نمایاں علامت ہے) کی زندگی کو خیرباد کہا جائے، سادگی و جفاکشی کی فقہ کو اوڑھنا بچھونا بنایا جائے کہ اس کے بغیر تہذیبی عروج ممکن ہی نہیں ہے۔ نظم وضبط سے آراستہ اور تخلیقیت سے بھر پور ایسی سنجیدہ زندگی اختیار کی جائے جو وسائل اور دولت کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کا ہنر جانتی ہو۔

آخری بات، ہم قضیۂ فلسطین (اور امت کے دیگر مسائل) اور اس غزہ کے لیے جسے فاقے میں مبتلا رکھ کر موت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، کام کا آغاز اپنی انفرادی اور عائلی زندگی میں کچھ تبدیلیاں لا کر سکتے ہیں۔ کم از کم ہم صارفیت پر مبنی اپنے رویہ کو بدل سکتے ہیں، کھانا ضائع کرنے سے پرہیز کر سکتے ہیں اور اس سے جو کچھ بچ جائے وہ یا ضائع شدہ کھانے کے بقدر عطیہ کر سکتے ہیں۔ ہم بعض مخصوص دنوں میں روزہ رکھ سکتے ہیں، اپنے اخراجات کم کر سکتے ہیں اور بچائی گئی رقم کو غزہ کی مدد اور وہاں کی ضروریات کی فراہمی اور دنیا بھر میں اپنے دینی بھائیوں کے دکھ تکلیف کو کم کرنے میں صرف کر سکتے ہیں۔

مشمولہ: شمارہ جولائی 2025

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2025

شمارہ پڑھیں
Zindagi-e-Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223