باہمی تعاون کی شکلیں

سراج کریم سلفی

معاشرے میں پھیلی بد امنی  نے ہر شخص کو سراسیمہ کررکھا ہے ، جرائم اور برائیوں کا سیلاب ہے ، انسانی جان  عدم تحفظ کا شکار ہے اور ہر وقت کسی ناگہانی واقعہ یا حادثہ رونما ہونے کے خوف و ہراس میں مبتلا ہے ۔ الغرض معاشرے کی چین و سکون ، امن و سلامتی جو انسانی ضرورت ہے مفقود ہے ، معاشرہ میں بحال امن و امان کے لیے متعدد کانفرنسیں ہورہی ہیں ، تجاویز پیش کئے جارہے ،ہیں لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہورہا ہے ۔ ایسی صورت حال میں ہمیں اسلامی تعلیمات اور سیرت نبوی ﷺ سے رہنمائی کی ضرورت ہے جن کے ذریعہ ماضی کے خونخوار معاشرے میں چند سالوں کی قلیل مدت میں مثالی امن و امان کی بنیاد رکھی گئی ۔ ان تعلیمات و تصورات اور خطوط میں سے ایک باہمی تعاون  ہے ۔

تعاون کی فضیلت

اسلام معاشرے کے ہر فرد کے اندر باہمی تعاون کا احساس دلاتا ہے اور یہ شعور پیدا کراتا ہے کہ معاشرےکے کچھ مشترکہ مقاصد ہیں جن کے قیام کے لیے معاشرے کے ہر فرد کی حصہ دار ی ضروری ہے ۔ قرآن و احادیث میں باہمی تعاون کی بڑی فضیلت آئی ہے اور اس کی ترغیب دلائی گئی ہے :

وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء  بَعْضٍ یَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَیُقِیْمُونَ الصَّلاَۃَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَیُطِیْعُونَ اللّہَ وَرَسُولَہُ أُوْلَـئِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللّہُ إِنَّ اللّہَ عَزِیْزٌ حَکِیْم۔ (۱)

’’مومن مرد و عورت آپس میں ایک دوسرے کے ( مددگار و معاون او ر) دوست ہیں ، وہ بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، نماز کو پابندی سے بجا لاتے ہیں زکاۃ ادا کرتے ہیں، اللہ کی اور اس کے رسول ﷺ کی بات مانتے ہیں ، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالی بہت رحم فرمائے گا بے شک اللہ تعالی غلبے والا حکمت والا ہے ۔ ‘‘

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِذَا تَنَاجَیْتُمْ فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِیَتِ الرَّسُولِ وَتَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوَی وَاتَّقُوا اللَّہَ الَّذِیْ إِلَیْہِ تُحْشَرُونَ ۔ (۲)

’’اے ایمان والو ! تم جب سرگوشی کرو تو یہ سرگوشیا ں گناہ اور ظلم و ( زیادتی ) اور نافرمانی پیغمبر ﷺ کی نہ ہوں ، بلکہ نیکی اور پرہیزگاری کی باتوں پر سرگوشی کرو اور اس اللہ سے ڈرتے رہو جس کے پاس تم سب جمع کئے جاؤگے ۔ ‘‘

حدیث نبو ی ﷺ ہے: ’’سب مسلمانوں کے خون آپس میں برابرہیں (حدود کے نفاذ میں معزز اور غیر معزز کا کوئی فرق نہیں ) ان میں جو بھی کسی کافر کو امان دے دے تو ان کا ادنی فرد بھی اس کا پاس رکھے ( جیسے کہ اعلی رکھتے ہیں ) اور ان میں کا دور والا بھی امان دے سکتا ہے (جیسے مرکز میں رہنے والا ) تمام مسلمان کفار کے مقابلے میں ایک ہاتھ ہیں ۔ ان کا تنو مند اور قوی رفتار اپنے ضعیف اور سست رفتار کو بھی ساتھ ملائے اور چھوٹے دستے میں جانے والا بڑے لشکر میں رہ جانے والوں کو بھی شریک سمجھے، کسی مومن کو کافر کے بدلے یا کسی عہد والے کو جب تک اس کا عہد باقی ہے قتل کر نا روا نہیں ۔‘‘(۳)

باہمی تعاون کے تعلق سے اسلام یہ اصول پیش کرتا ہے کہ تعاون ہمیشہ اچھائی ، بھلائی اور نیکی کے کاموں میں ہو ۔ ظلم و زیادتی ، فتنہ و فسا د اور معاشرے میں فساد کے اسباب بننے والے کاموں میں کبھی بھی تعاون نہ کیا جائے ۔

وَتَعَاوَنُواْ عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوَی وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَان وَاتَّقُواْ اللّہَ إِنَّ اللّہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ(۴)

’’نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ اور ظلم و زیادتی میں مدد نہ کرو اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہو ، بے شک اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے ۔ ‘‘

باہمی تعاون صالح معاشرہ کی تشکیل اور قیام امن و سلامتی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ درج ذیل سطور میں باہمی تعاون کی کچھ شکلیںپیش کی جارہی ہیں۔

بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا

دین اسلام اپنے قیام و بقا کے لیے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو اساس اولین قرار دیتا ہے ، یہ امت محمدیہ کا خاصہ اور دینی فریضہ ہے ،امت کے ہر فرد پر بحسب استطاعت یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ حدیث رسول ﷺ ہے :’’ تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے وہ اپنے ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرے ،اگر ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اور زبان سے بھی روکنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے براجانے ،اور یہ انیٰ ایمان ہے۔ ‘‘ (۵)

سماج کے ہر فرد کو احساس ہونا چاہئے کہ افراد معاشرہ کے کس عمل میں معاشرے کی بھلائی مضمر ہے اور کون سا عمل معاشرے کے لیے تباہ کن ہے، کیوں کہ فرد کے بعداعمالی کا اثر صرف اس پر ہی نہیں ہوتا بلکہ پورا معاشرہ اس کے لپیٹ میں آجاتا ہے ، اسی وجہ سے دوسرے کی بد اعمالی سے بے اعتنائی در حقیقت اپنے سے بے اعتنائی ہے ۔

’’اللہ کے حدود پر قائم ہونے والے اور انہیں توڑنے والے کی مثال یو ں ہے کہ جیسے کچھ لوگ قرعہ ڈال کر ایک کشتی میں سوار ہوئے، کچھ لوگ اس کے اوپری حصے میں اور کچھ اس کے نچلے حصہ میں ، نچلے حصے کے لوگو ں کو پانی لینے کے لیے اوپر والوں کے پاس سے گزرنا ہوتا ۔ نچلے حصے میں رہنے والوں نے سوچا کہ ہم اپنے حصے میں سوراخ کرکے پانی حاصل کرلیں گے تاکہ اوپر والوں کو تکلیف نہ ہو ، اب اگر اوپری حصے میں مقیم لوگوں نے ایسا کرنے دیا ،انہیں نہ روکا تو وہ تمام کے تمام ہلاک ہوجائیں گے ، اور اگر انہوں نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا، کشتی میں سوراخ کرنے نہ دیا تو کشتی میں سوار تمام لوگ نجات پاجائیں گے ۔ ‘‘ (۶)

اللہ تعالی کا فرمان ہے۔ْ

وَاتَّقُواْ فِتْنَۃً لاَّ تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ مِنکُمْ خَآصَّۃً وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ شَدِیْدُ الْعِقَاب۔ (۷)

’’اور تم ایسے وبال سے بچو ! کہ جو خاص کر صرف ان ہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں سے ان گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں اور یہ جان رکھو کہ اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے ۔‘‘

امت محمدیہ کا امتیاز ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے خیر خواہ ہوتے ہیں ، بھلائی کا حکم دیتے ہیں ، اوربرائی سے روکتے ہیں:

کُنتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہِ ۔ (۸)

’’ تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ تعالی پر ایمان رکھتے ہو۔ ‘‘

سماج اور معاشرے میں قیام امن ، اس کا فروغ اور صالح معاشرہ کی تشکیل اسی وقت ممکن ہے جب سماج کا ہر فرد اپنی اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے کمر بستہ ہوجائے ۔

اصلاح بین الناس

اصلاح کہتے ہیں افراد یا گروہوں کے درمیان بگڑے ہوئے اور خراب تعلقات کو شرعی تقاضوں اور اصولوں کے مطابق استوار کرنا متنفردلوں کو قریب کرنا ، متصادم آراؤں میں ہم آہنگی پیدا کرنا ، خاص و عام کو زمین میں فتنہ و فساد پھیلانے سے روکنا اور سماج میں امن و امان کا قیام اور ایک صالح معاشرہ کی تشکیل کرنا ۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر لوگوں کے درمیان اصلاح کا حکم دیا گیا ہے ۔:

اِنَّما الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَۃٌ فَأَصْلِحُوا بَیْنَ أَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللَّہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ (۹)

’’(یاد رکھو )سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں پس اپنے دوبھائیوں میں ملاپ کرادیا کرو ، اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔‘‘

ایک جگہ اصلاح کے حکم کے ساتھ مفسدین کی راہ چلنے سے منع کیا گیا ہے ۔ْ وَأَصْلِحْ وَلاَ تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْن۔ (۱۰)’’ اور اصلاح کرتے رہنا اور بد نظم لوگوں کی رائے پر عمل مت کرنا ۔‘‘

سورہ حجرات میں مومنین کے آپسی جھگڑے کا تصفیہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے بغاوت کرنے والے کے خلاف طاقت کے استعمال کی بھی اجازت دی گئی ہے ۔:

وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَیْنَہُمَا فَإِن بَغَتْ إِحْدَاہُمَا عَلَی الْأُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتَّی تَفِیْء َ إِلَی أَمْرِ اللَّہِ فَإِن فَاء تْ فَأَصْلِحُوا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْن۔ (۱۱)

’’اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑپڑیں تو ان میں میل ملاپ کرادیا کرو ۔ پھر اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم (سب) مل کر اس گروہ سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو ۔ یہاں تک کہ وہ اللہ تعالی کے حکم کی طرف لوٹ آئے تو پھر انصاف کے ساتھ صلح کرادو اور عدل کرو بے شک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔ ‘‘

کیوں کہ اس میں سماج اور سماج کے ہر فرد کے لیے خیر مضمر ہے ۔ اسی کے ذریعہ پر امن اور بے خوف و خطر معاشرے کی تشکیل عمل میں آسکتی ہے ۔:

لاَ خَیْرَ فِیْ کَثِیْرٍ مِّن نَّجْوَاہُمْ إِلاَّ مَنْ أَمَرَ بِصَدَقَۃٍ أَوْ مَعْرُوفٍ أَوْ إِصْلاَحٍ بَیْنَ النَّاسِ وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ ابْتَغَاء  مَرْضَاتِ اللّہِ فَسَوْفَ نُؤْتِیْہِ أَجْراً عَظِیْماً(۱۲)

’’ان کے اکثر مصلحتی مشورے بے خبر ہیں ، ہاں بھلائی اس کے مشورے میں ہے جو خیرات کا یا نیک بات کا یالوگوں میں صلح کرانے کا حکم کرے اور جو شخص صرف اللہ تعالی کی رضامندی حاصل کرنے کے ارادہ سے یہ کام کرے اسے ہم یقینا بہت بڑاثواب دیں گے ۔ ‘‘

احادیث مبارکہ میں اصلاح بین الناس کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے ارشاد ہے : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا:ہر دن سورج طلوع ہونے پر انسان کے ہر جوڑ پر صدقہ واجب ہوتا ہے ، دو آدمیوں کے درمیان اصلاح کرانا بھی صدقہ ہے ۔ ‘‘ (۱۳)

’’جھوٹا وہ نہیں جو لوگوں کے درمیان اصلاح کرنے اور صلح صفائی کرنے کے لیے جھوٹ بولے کہ اس طرح خیر میں اضافہ کرے یا خیر کی بات کرتا ہے۔‘‘ (۱۴)

مظلوم کی مدد

اسلام سماج کے ہر فرد پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ جہاں کہیں ظلم ہورہا ہو ، ظلم کی جو بھی شکل ہو اس کو روکا جائے ، مظلوم کی دست گیری اور مدد کی جائے ، اسے بے یارو مددگار نہ چھوڑ ا جائے بلکہ اس کو ظلم کے پنجے سے چھڑایا جائے اور حسب استطاعت ظلم کو روکنے میں اپنی طاقت کا استعمال کرے ۔:

وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء  وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ ہَـذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ أَہْلُہَاوَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ وَلِیّاً وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ نَصِیْرا۔(۱۵)

’’بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان ناتواں مردوں ، عورتوں اور ننھے ننھے بچوں کے چھٹکارے کے لیے جہاد نہ کرو ؟ جو یو ں دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ! ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لیے خود اپنے پاس سے حمایتی مقرر کردے اور ہمارے لیے خاص اپنے پاس سے مدد گار بنا ۔‘‘

اگرچہ اس آیت کا اشارہ ان مظلوم بچوں ، عورتوں اور مردوں کی طرف ہے جو اسلام قبول کرنے کے بعد بھی مکہ میں رہ گئے تھے اور حجرت پر قادر نہ تھے ۔ لیکن جہاں بھی غریبوں اور لاچاروں کو تختہ مشق ستم بنا یا جارہا ہو ان کی دست گیری کرنے اور ظلم سے نجات دلانے کی ذمہ داری سماج کے ہر فرد پر عائد ہوتی ہے ۔

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا اور سات باتوں سے منع فرمایا : ’’یعنی مریض کی عیادت کرنا ، جنازے کے پیچھے چلنا ، چھینک کا جواب دینا ، سلام کا جواب دینا ، مظلوم کی مدد کرنا ، دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرنا ، قسم پورا کرنا ۔‘‘(۱۶)

امام نووی اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’مظلوم کی مدد کرنا فرض کفایہ ہے اور یہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ایک شکل ہے ۔ یہ اس پر واجب ہے جو قادر ہواور اسے کسی ضرر اور تکلیف کا خوف نہ ہو ‘‘۔(۱۷)

ظالم کو ظلم سے روکنا

اسلام ظالم کو ہم دردی اور خیر خواہی کا مستحق سمجھتے ہوئے سماج کے افراد پر جہاں مظلوم کی دادرسی اور دست گیر ی کو ضروری قرار دیتا ہے وہیں ظالم کو ظلم سے باز رکھنے کی تلقین کرتا ہے اور یہ باور کراتا ہے کہ مظلوم کی طرح ظالم کے ساتھ ہمدردی اور اسے تباہی سے بچانے کی فکر ہونی چاہیے ، کیوں کہ مظلوم کی تو صرف دنیا خراب ہوتی ہے جب کہ ظالم کی دنیا اور آخرت دونوں برباد ہوتی ہیں ۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :  ’’ اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے کہا مظلوم کی مدد کرنا یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ظالم کی مدد کیسے کریں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کا ہاتھ پکڑلو (یعنی اسے ظلم نہ کرنے دو۔ )‘‘ (۱۸)

دوسری حدیث میں آپ ﷺ فرماتے ہیں ۔  ’’آدمی کو چاہئے کہ اپنے بھائی کی مدد کرے چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم ، اگر وہ ظالم ہے تو اسے ظلم کرنے سے روکو کیوں کہ یہ اس کے لیے مدد ہے اور اگر مظلوم ہو تو اس کی مدد کرو ۔‘‘ (۱۹)

ظالم کو ظلم سے نہ روکا جائے اور اسے معاشرے میں فتنہ وفساد پھیلانے کے لیے بے مہار چھوڑ دیا جائے تو معاشرے کا امن و سکون جاتارہے گا ، لوگ خوف وہراس میں مبتلا ہوجائیں گے ، ظلم کایہ پنجہ کسی پر بھی پڑنے کا خدشہ لگا رہے گا اور کبھی اپنے حدود کو پار کرتے ہوئے نتیجہ عذاب اِلٰہی کا پیش خیمہ بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

وَکَذَلِکَ أَخْذُ رَبِّکَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَی وَہِیَ ظَالِمَۃٌ إِنَّ أَخْذَہُ أَلِیْمٌ شَدِیْد۔ (۲۰)

’’تیرے پروردگار کی پکڑ کا یہی طریقہ ہے جب کہ وہ بستیوں کے رہنے والے ظالموں کو پکڑتا ہے بے شک اس کی پکڑ دکھ دینے والی اور نہایت سخت ہے۔‘‘

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں : اے لوگو! تم لوگ اس آیت کو پڑھتےرہو:

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ عَلَیْکُمْ أَنفُسَکُمْ لاَ یَضُرُّکُم مَّن ضَلَّ إِذَا اہْتَدَیْتُم

’’اے ایمان والو! اپنی فکر کرو ، جب تم راہ راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراہ رہے اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں ۔‘‘(المائدۃ:۱۰۵) لیکن میں نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : ’’کہ جب لوگ ظالم کو ظلم کرتا ہوا دیکھے اور اس کا ہاتھ نہ پکڑے ( اسے ظلم کرنے سے نہ روکے ) تو قریب ہے کہ اللہ سب پر اپنا عذاب نازل کردے‘‘ ۔ (۲۱)

حا جت مندو ں کی حاجت روائی

اسلام معاشرے میں جسمانی ، مادی ، معاشی اور سماجی لحاظ سے کمزور افراد و طبقات جیسے بیماروں ، معذوروں ، ضعیفوں ، بیواؤں ، یتیموں ، غریبوں ،مسکینوں، مصیبت زدوں ،اور آفت کے ماروں حاجت مندوں کے ساتھ ہمدردی کا رویہ اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ سماج کا ہر فرد باعزت ، پرسکون اور پر لطف زندگی گزارسکے۔

فَأَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْہَرْ ،وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْہَر۔ (۲۲)

’’ پس یتیم کو تو بھی سختی نہ کیا کر ، اور نہ سوال کرنے والے کو ڈانٹ ڈپٹ ۔ ‘‘

اللہ تعالی مصارف زکاۃ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:

إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوبُہُمْ وَفِیْ الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّہِ وَاللّہُ عَلِیْمٌ حَکِیْم (۲۳)

’’صدقے صرف فقیروں کے لیے ہیں اور مسکینوں کے لیے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لیے اور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لیے اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کے لیے فرض ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم وحکمت والا ہے ۔ ‘‘

قرآن مجید نے بار بار مسکینوں اور محتاجوں کی مدد پر ابھارا ہے اور ان سے بے توجہی اور ان کے ساتھ و زیادتی سے منع کیا ہے۔

فَلاَ اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ ،وَمَا أَدْرَاکَ مَا الْعَقَبَۃُ ، فَکُّ رَقَبَۃٍ ،أَوْ إِطْعَامٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ ،یَتِیْماً ذَا مَقْرَبَۃٍ ،أَوْ مِسْکِیْناً ذَا مَتْرَبَۃ (۲۴)

’’سو اس سے نہ ہو سکا کہ گھاٹی میں داخل ہوتا ۔ اور کیا سمجھا کہ گھاٹی ہے کیا ۔ کسی گردن ( غلام ،لونڈی ) کو آزاد کرانا یا بھوک والے دن کھانا کھلانا، کسی رشتہ دار یتیم کو یا خاکسار مسکین کو ۔ ‘‘

متعدد جگہوں میں مسکینوں اور محتاجوں کا خیال نہ رکھنے والوں اور ان کے ساتھ ہمدردی نہ کرنے والوں کی مذمت کی گئی اور انہیں وعید سنائی گئی ہے ۔ وَلَا تَحَاضُّونَ عَلَی طَعَامِ الْمِسْکِیْن(۲۵ِ)’’ اور مسکینوں کے کھلانے کی ایک دوسرے کو ترغیب نہیں دیتے ۔‘‘

وَلَا یَحُضُّ عَلَی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ (۲۶) ’’اور مسکین کو کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا ۔‘‘

احادیث میں مختلف پہلوؤں سے محتاجوں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب دی گئی ہے ۔

امانت کی ادائیگی

اسلامی احکام میں سے ایک حکم امانت داری ہے ۔ سماجی اور معاشرتی زندگی میں امانت داری بڑی اہمیت کی حامل ہے ، مضبوط معاشرے کی تشکیل کے لیے یہ بنیادی ضرورت ہے ، جس معاشرے میں امانت داری ختم ہوجائے اس سے امن و سکون جاتا رہتاہے ۔ دن بدن معاشرہ روبہ زوال ہونے لگتا ہے ۔ اسی وجہ سے قرآن وحدیث میں امانت داری کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَخُونُواْ اللّہَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُواْ أَمَانَاتِکُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُون(۲۷)

’’اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول (کے حقوق) میں جانتے ہوئے خیانت مت کرو اور اپنی قابل حفاظت چیزوں میں خیانت مت کرو ۔‘‘

امانت کی ادائیگی کا حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا :

إِنَّ اللّہَ یَأْمُرُکُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلَی أَہْلِہَا (۲۸)

’’اللہ تعالی تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ ۔‘‘

فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُکُم بَعْضاً فَلْیُؤَدِّ الَّذِیْ اؤْتُمِنَ أَمَانَتَہ۔(۲۹)

’’ہا ںاگر آپس میں مطمئن ہوتو جسے امانت دی گئی ہے وہ اسے ادا کردے ۔ ‘‘

نبی ﷺ نے اس پر زور دیتے ہوئے فرمایا :  ’’جو تمہارے پاس امانت رکھے اسے لوٹادو اور اس کی بھی امانت لوٹادو جو تمہاری امانت میں خیانت کرے ۔ ‘‘(۳۰)

معاشرے سے امانت داری کا ختم ہوجانا قرب قیامت کی علامت ہے : حدیث نبوی ﷺہے : ’’ جب امانت ضائع ہونے لگے تو قیامت کا انتظار کرو ،صحابہ رضوان اللہ اجمعین نے سوال کیا ، امانت کیسے ضائع ہوگی ۔آپ نے فرمایا :جب معاملہ اس کے نااہل کو سونپا جائے تو قیامت کا انتظار کرو ۔‘‘ (۳۱)امانت کے وسیع مفہوم کو مد نظر رکھتے ہوئے معاشرے کے ہر فرد کے لیے اپنے  امانتوں کے تئیں محتاط رہنا اور اس کا پاس و لحاظ رکھنا ضروری ہے ۔

حقوق کی ادائیگی

اسلام خانگی اور معاشرتی امن و صلاح کے لیے ہر فرد پر کچھ حقوق عائد کرتا ہے اور یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہر فرداپنے حقوق اداکریں :  ’’تم میں سے ہر کوئی حاکم اور نگراں ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت اور ذمہ داری کے بارے میں بازپرس ہوگی ، امام اور بادشاہ اپنی رعایا کا نگراں ہے وہ اپنی رعیت کے بارے میں سوال کیا جائے گا ، آدمی اپنے اہل و عیال کے لیے نگراں اور حاکم ہے ،اس کے بارے میں پوچھا جائے گا ، عورت اپنے شوہر کے گھر کی نگراں ہے اس سے اس کی ذمہ داری کے متعلق دریافت کی جائے گی ، غلام اور خادم اپنے آقاو مالک کامالی محافظ اور نگراں ہے اس کی ذمہ داری کے تعلق سے پوچھا جائے گا ۔ آدمی اپنے باپ کے مال کا ذمہ دارہے اس سے اس تعلق سے باز پرس ہوگی ،تم میں سے ہر کوئی محافظ ،نگراں اور حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت و ذمہ داری اور امانت سے متعلق سوال ہوگا‘‘ ۔(۳۲)

ان حقوق کی ادائیگی میں باہمی تعاون کی ضرورت ہوتی ہے جب معاشرے کا ہر فرد باہمی تعاون سے اپنے اپنے حقوق ادا کرے گا اور صاحب حق کو اس کا حق مل جائے گا تو معاشرہ امن و سلامتی کا گہوارہ بن جائے گا اور جہاں ان کی ادائیگی میں سستی و کوتاہی برتی گئی یا کسی کا حق مارا گیا تو آپسی تعلقات خراب ہوجائیں گے اور نتیجۃً فتنہ و فساد مقدر بن جائے گا۔

باہمی تعاون کے موانع کا ازالہ

اسلام نے جہاں آپسی تعلقات کو قائم کرنے اور باہمی تعاون پر بہت زور دیا ہے وہیں اس کی راہ میں حائل رکاوٹوں کا سد باب کیا ۔ کچھ موانع کا تذکرہ کیا جاتا ہے ۔

سود کی ممانعت

سود معاشرہ کے لیے سم قاتل ہے اس سے معاشرے میں بغض و حسد اور نفرت و عداوت پھیلتی ہے ، یہ جہاں سودخور کو خود غرض بنا دیتا ہے وہیں سود دینے والے کے دل میں اس کے خلاف نفرت و عداوت کے شعلے بھڑکنے لگتے ہیں ، لوگوں کے دل سے باہمی تعاون کا جذبہ محو ہوجاتا ہے ۔ اسلام نے اس کے خاتمے پر بہت زور دیا ہے اور باطل طریقے سے مال کھانے کو ممنوع قرار دیاہے :وَلاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَکُم بَیْنَکُم بِالْبَاطِل (۳۳)’’ اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو۔‘‘

یأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَأْکُلُواْ الرِّبَا أَضْعَافاً مُّضَاعَفَۃً وَاتَّقُواْ اللّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُون۔(۳۴)

’’اے ایمان والو! بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤ اور اللہ تعالی سے ڈر و تاکہ تمہیں نجات ملے ۔ ‘‘

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّہَ وَذَرُواْ مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْن(۳۵)

’’اے ایمان والو!  اللہ تعالی سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو ، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔‘‘

سود کی اسی قباحت کی وجہ سے اس میں ملوث تمام لوگوں کو آپ ﷺ نے ملعون قرار دیا ہے :

’’رسول ﷺ نے سود کھانے والے ، سود دینے والے ،اس کا لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت بھیجی ہے ۔‘‘(۳۶)

ذخیرہ اندوزی کی ممانعت

ذخیرہ اندوزی سے معیشت کی شفافیت ختم ہوجاتی ہے ، امیروں کی اجارہ داری ہونے لگتی ہے ، عام لوگ معاشی بحران کے شکار ہوجاتے ہیں ۔ اسی کے پیش نظر اسلام نے ذخیرہ اندوزی کو اس کے تمام انواع و اقسام کے ساتھ ممنوع قرار دیا ہے اور اس کی روک تھام کے لیے حکومت کی مداخلت کی بھی اجازت دی گئی ہے ۔ نبی ﷺ نے ذخیرہ اندوزی کرنے والوں کو ملعون قرار دیا اور اس عمل کو گنہگاروں کا مشغلہ بتا یا ہے ۔

’’حضرت معمر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ گنہگار ہی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے ‘‘۔  (۳۷)

ناپ تول میں کمی کی ممانعت

ناپ تول میں کمی ایک سماجی برائی ہے جس سے پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے ،جس معاشرے میں ناپ تول میں کمی اور نفع خوری عام ہوجائے اللہ اس سے خیر کو اٹھالیتا ہے اور تباہی اس کی مقدر ہوتی ہے اللہ تعالی نے قوم شعیب علیہ السلام کو اس برائی کی وجہ سے قیامت تک کے لیے نشان عبرت بنادیا ، اللہ رب العالمین نے اس برائی میں ملوث لوگوں پرلعنت بھیجی ہے:

وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ ،الَّذِیْنَ إِذَا اکْتَالُواْ عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُونَ ،وَإِذَا کَالُوہُمْ أَو وَّزَنُوہُمْ یُخْسِرُونَ (۳۸)

’’بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی ، کہ جب لوگوں سےناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں ۔ ‘‘

آپ ﷺ نے تجارت میں دھوکہ سے منع فرمایا اور اسے بے ایمانوں کا کام قرار دیا : ’’جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ ‘‘(۳۹)

ایک جگہ اللہ تعالی نے وزن پورا کرنے کا حکم دیتے ہوئے او ر اس میں کمی کرنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا : ’’ناپ پورا بھرا کرو کم دینے والوں میں شمولیت نہ کرو ۔ اور سیدھی صحیح ترازو سے تولا کرو ۔  لوگوں کو ان کی چیزیں کمی سے نہ دو ، بے باکی کے ساتھ زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو۔‘‘ (۴۰)

مقروض کے ساتھ ہمدردی کی تلقین

باہمی تعاون کی اہم شکل قرض ہے ، قرض کے ذریعہ سماج کے کمزور ، مساکین اور حاجت مندوں کی ضرورت پوری کی جاتی ہیں لیکن اگر قرض کے وصولی میں سختی کا معاملہ کیا جائے اور مقروض کو مہلت نہ دی جائے تو یہ اس کے لیے پہلے سے زیادہ پریشان کن ہوتا ہے ، وہ تنگی اور بے چارگی کا شکار ہوجاتا ہے، اسلام مقروض کے ساتھ ہمدردی اور فراخ دلی کے ساتھ پیش آنے کی تلقین کرتا ہے اور اسے اجر عظیم قرار دیتا ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشادہے :

وَإِن کَانَ ذُو عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ إِلَی مَیْسَرَۃٍ وَأَن تَصَدَّقُواْ خَیْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ (۴۱)

’’ اور اگر کوئی تنگی والا ہو تو اسے آسانی تک مہلت دینی چاہئے اور صدقہ کرو تو تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے ،اگر تم میں علم ہو۔‘‘

حدیث نبوی ﷺ ہے :’’نبی کریم ﷺ نے فرمایا جو کسی مومن کی دنیا کی مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت دور کرے گا اللہ اس کو قیامت کی مصیبتوں سے بچائے گا ،جو کسی مسلمان محتاج پر آسانی کرے گا اللہ تعالی اس پر دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا ،جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالی اس کی پردہ پوشی کرے گا ،اور جب بند ہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد میں لگا رہے گا اللہ تعالی اس کی مدد میں لگا رہے گا‘‘۔(۴۲)

مقروض کے ساتھ جب فراخدلی کا معاملہ کیا جائے تو اس کے اندر اپنے محسن کے تئیں الفت و محبت پیدا ہوگی ، باہمی تعاون کا جذبہ پیدا ہوگا ۔اوریہ بات بھی ہے کہ مقروض کو مہلت دینا اس کے ساتھ تعاون کا معاملہ ہے ۔

’’جو اپنے بھائی کی حاجت پوری کرنے میں لگا رہتا ہے اللہ اس کی حاجت پوری کرتا ہے ۔ ‘‘(۴۳)

اللہ ہمارے اندر باہمی تعاون کا جذبہ پیدا کرے اور ایک دوسرے کا بہی خواہ بنائے ۔

حوالہ جات

(۱) قرآن مجید ،التوبہ:۷۱۔

(۲)قرآن مجید، المجادلۃ:۹۔

(۳)ابوداؤد ، کتاب الجھاد ، باب فی السریۃ ترع علی اھل العسکر:۲۷۵۱۔

(۴)قرآن مجید ، المائدۃ:۲

(۵)رواہ مسلم ، کتاب الایمان، باب کون النھی عن المنکر من الایمان۔۔۔۔۔۔۔:۴۹۔

(۶)رواہ البخاری، کتاب الشرکۃ ، ھل یقرع فی القسمۃ والاستھام فیہ:۲۴۹۳

(۷)قرآن مجید ، الانفال: ۲۵

(۸)قرآن مجید ، اٰل عمران : ۱۱۰

(۹)قرآن مجید، الحجرات: ۱۰

(۱۰)قرآن مجید ، الاعراف: ۱۴۲

(۱۱)قرآن مجید، الحجرات: ۹

(۱۲)قرآن مجید ، النساء: ۱۱۴

(۱۳)رواہ البخاری، کتاب الصلح ، باب فضل الاصلاح بین الناس والعدل بنیھم :۲۷۰۷۔

(۱۴)رواہ البخاری، کتاب الصلح ، باب لیس الکذاب الذی یصلح بین الناس : ۲۶۹۲۔

(۱۵)قرآن مجید ، النساء :۷۵۔

(۱۶)رواہ البخاری، کتاب الظالم ، باب اعن اخاک ظالما او مظلوما :۲۴۴۳۔

(۱۷)شرح النووی ، جلد:۷،ص:۲۸۔

(۱۸)رواہ البخاری ، کتاب المظالم ، اعن اخاک ظالما اومظلوما:۲۴۴۳۔

(۱۹)رواہ مسلم، کتاب البر و الصلۃ ، باب نصر الاخ ظالما او مظلوما:۶۵۸۲۔

(۲۰)قرآن مجید ، ھود: ۱۰۲۔

(۲۱)رواہ الترمذی، ابواب الفتن ، باب ماجاء فی نزول العذاب اذالم یغیرالمنکر:۲۱۶۸۔

(۲۲)قرآن مجید ، الضحیٰ: ۹-۱۰۔

(۲۳)قرآن مجید ، التوبۃ: ۶۰۔

(۲۴)قرآن مجید ، البلد: ۱۱-۱۶۔

(۲۵)قرآن مجید، الفجر: ۱۸۔

(۲۶)قرآن مجید، الماعون : ۲-۳۔

(۲۷)قرآن مجید، الانفال ا؛ ۲۷۔

(۲۸)قرآن مجید، النساء: ۵۸۔

(۲۹)قرآن مجید، البقرۃ: ۲۸۳۔

(۳۰)رواہ الترمذی، کتا ب البیوع ، باب ادالامانۃ الی من ائتمنک : ۱۲۶۴۔صححہ الالبانی رحمہ اللہ۔

(۳۱)رواہ البخاری، کتاب الرقاق، باب رفع الامانۃ : ۶۴۹۶۔

(۳۲)رواہ البخاری، کتاب العتق، باب العبد راع فی مال سیدہ : ۲۵۵۸۔

(۳۳)قرآن مجید، البقرۃ: ۱۸۸۔

(۳۴)قرآن مجید، اٰل عمران : ۱۳۰۔

(۳۵)قرآن مجید، البقرۃ: ۲۷۸۔

(۳۶)رواہ مسلم ، کتاب المساقاۃ ، باب لعن آکل الربا ومکلہ۔۔۔:۱۵۹۷۔

(۳۷)رواہ مسلم ، کتاب المساقاۃ ، باب تحریم الاحتکار فی الاقوات:۴۱۲۲۔

(۳۸)قرآن مجید ،المطففین : ۱-۳۔

(۳۹)رواہ مسلم ، کتاب الایمان ، باب قول النبی ﷺ من غشنا فلیس منا:۱۰۳۔

(۴۰)قرآن مجید، الشعراء :۱۸۲-۱۸۳۔

(۴۱)قرآن مجید، البقرۃ : ۲۸۰۔

(۴۲)رواہ مسلم، کتاب الذکر والدعا ء،باب فضل الاجتماع علی تلاوۃ القرآن وعلی الذکر: ۲۶۹۹۔

(۴۳)رواہ البخاری، کتاب المظالم ، لایظلم المسلم المسلم ولا یسلمہ : ۲۴۴۲۔

مشمولہ: شمارہ اگست 2018

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau