ناظم ِعلاقہ الہ آباد رہ چکے مولانا ظہیر عالم فلاحی صاحب طویل بیماری کے بعد اٹھارہ دسمبر کو انتقال فرماگئے۔ ناظم ضلع الہ آباد رہ چکے مولانا اکبر حسن صاحب گیارہ جنوری کو وفات پاگئے۔ اسی درمیان اکتیس دسمبر کو سابق امیر حلقہ جماعت اسلامی ہند بہار گرامی قدر قمر الہدی صاحب کا انتقال ہوا۔ تحریک اسلامی کے یہ وہ افراد تھے جنھوں نے عین جوانی سے اپنی پوری زندگی اسلام کی خدمت و نصرت کے لیے وقف کردی تھی۔ اللہ تعالی ان سب کی خدمت کو قبول فرمائے۔
جماعت اسلامی ہند کی پچہتر سالہ تاریخ کا ایک اہم موڑ ایمرجنسی کی طویل سیاہ رات بھی ہے۔ اس دوران جماعت کے بزرگوں نے سخت آزمائشوں کا جس استقامت کے ساتھ سامنا کیا وہ جماعت کی تاریخ کا روشن باب ہے۔ اس حوالے سے ہم نے مرحوم ظہیر عالم فلاحی اور مرحوم اکبر حسن کی دو یادداشتوں کا انتخاب کیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اہم یادداشت مرحوم رحمت الہی صاحب کی ہے، مرحوم منشی ہدایت علی کے بارے میں۔ اللہ تعالی راہ حق کی آزمائشوں میں ثابت قدم رہنے والوں کو اجر عظیم سے نوازے اور بعد میں آنے والوں کو اسی عزم و استقامت سے بہرہ ور فرمائے۔ (ادارہ)
یادداشت (۱)
مولانا اکبر حسن صاحب کو اعظم گڑھ سے گرفتار کیا گیا، وہ لکھتے ہیں:
میں بھی ایمرجنسی میں گرفتار ہوا تھا اور اعظم گڑھ جیل میں تھا، جہاں مولانا ابواللیث اصلاحی صاحب مرحوم اور مولانا صدر الدین اصلاحی صاحب مرحوم بھی تھے۔ ان حضرات کی کوشش تھی کہ تمام سیاسی قیدیوں سے ربط قائم کر کے ان کے خیالات و نظریات سمجھے جائیں۔ چناں چہ روزانہ ایک گھنٹہ کی نشست ہوتی تھی اور اس میں لوگ اپنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ دوسرے بیرکوں میں ڈکیتی و چوری کے غلط اثرات اور اس کے برے نتائج کو سمجھایا جاتا تھا اور یہ بتایا جاتا تھا کہ تم لوگ اپنی غلط حرکتوں کی وجہ سے پولیس اور سماج کی نظروں میں گرے ہوئے ہو۔ رکشہ چلا کر یا محنت مزدوری کر کے اپنا پیٹ پالتے تو اس سے کہیں زیادہ بہتر رہتے۔
ایک خیال یہ ہوا کہ ہندی پڑھی اور سیکھی جائے، لہذا اس طرح اچھی خاصی ہندی ہم لوگوں نے سیکھ لی۔ کچھ لوگوں نے کلام پاک کی کچھ سورتوں کو حفظ کرنے کی کوشش کی۔ مولانا صدر الدین اصلاحی صاحب مرحوم قرآن کی تفہیم کے لیے ایک گھنٹہ درس قرآن دیتے تھے جس سے کافی فائدہ ہوا۔
اس طرح پانچ ماہ کی مدت گزری اور ہمارا مقدمہ شروع ہو گیا۔ مولانا ابو اللیث صاحب مرحوم کی ضمانت ہوئی اور دوسرے دن میسا لگ گیا۔ اسی طرح مولانا صدر الدین اصلاحی صاحب مرحوم کی بھی ضمانت ہوئی اور پھر میسا کے تحت گرفتار ہو گئے۔ لوگوں کی ضمانتیں ہوتی رہیں۔ جب میرا مقدمہ پیش ہوا تو عدالت نے مجھ سے معافی مانگنے کو کہا تو میرا جواب تھا کہ عدالت کو فریق نہیں ہونا چاہیے۔ عدالت کی نظر میں مجرم اگر قصور وار ہے تو سزا ملنی چاہیے ورنہ اسے بری کر دینا چاہیے۔ اس پر خفا ہو کر جج نے مجھے سات سال کی سزا سنائی۔ میں نے اپیل کی تو سات سال کی سزا ختم کرکے ایک سال کر دی گئی۔ اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کی گئی۔ جیل میں مولانا ابواللیث صاحب مرحوم اور مولانا صدر الدین صاحب کی صحت خراب ہوگئی۔ مولانا ابوللیث صاحب کو بواسیر کی شکایت تھی اور مولانا صدر الدین صاحب کو پیچش ہو گئی تھی۔ اسی دوران ایک دن مغرب سے کچھ پہلے جیلر صاحب نے مجھے بلایا اور کہا کہ ان دونوں کا ٹرانسفر فتح گڑھ جیل کے لیے کر دیا گیا ہے، آٹھ بجے رات میں جانا ہے۔ میں نے جیلر صاحب سے کہا کہ ان لوگوں کی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ سفر کے لائق نہیں ہیں۔ حالت سدھر جانے پر ٹرانسفر کیا جاسکتا ہے لیکن جیلر صاحب نے کہا کہ کسی طور پر ٹرانسفر تو نہیں رکے گا۔ البتہ میں چار پائی کا انتظام کر دیتا ہوں۔ چار پائی ٹریکٹر پر رکھ دی جائے گی۔ شاہ گنج تک جائیں گے۔ شاہ گنج سے ریلوے ریزرویشن ہے۔ ان کے ساتھ مسعود صاحب کا بھی ریزرویشن ہے، مسعود صاحب لے کر جائیں گے، کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ مجبورًا میں نے مولانا سے کہا۔ مولانا نے فرمایا میرا بستر وغیرہ ٹھیک کرو اللہ سفر آسان کرے گا۔ مسعود صاحب نے بھی مجھے تسلی دی کہ میں ساتھ میں ہوں۔ مولانا کا سامان وغیرہ ٹھیک کیا، باہر سے ناشتہ منگوا کر دیا کہ صبح میں پریشانی نہ ہو۔ اس وقت جیل میں سبھی کی ضمانت ہو گئی تھی، صرف چار پانچ لوگ تھے۔ مولانا کو رخصت کرنے کے بعد جیل میں سناٹا ہو گیا۔(ایمرجنسی کی آزمائشیں اور جماعت اسلامی ہند۔ مرتب: انتظار نعیم، ص ۸۵ اور ۸۶)
یادداشت (۲)
مولانا ظہیر عالم صاحب تھے تو منڈیاہوں ضلع الہ آباد کے، لیکن اس وقت سیونی (مدھیہ پردیش) میں جماعت کی درس گاہ میں معلم تھے، وہیں ان کی گرفتاری عمل میں آئی۔ وہ لکھتے ہیں:
گرفتاری کے وقت میری عمر ۲۵ سال تھی۔ کسی ساتھی نے پست ہمتی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ الحمد للہ شب و روز اسی طرح گزرتے رہے۔ ہر تاریک رات، روشن صبح کا پیغام لاتی رہی۔
دو اہم واقعات: میری ۲ عیدیں جیل میں گزریں۔ دوسری عید کی صبح ٹھیک فجر کی نماز کے بعد ایک ٹیلیگرام ملا کہ میرے صاحبزادے کا چاند رات کو انتقال ہو گیا، انا للہ وانا الیه راجعون۔ موت کی اطلاع پا کر میری قلبی کیفیت کیا ہوئی اس کو الفاظ میں بیان کرنا میرے لیے بہت مشکل ہے۔ ہر سال عید کے موقع پر وہ زخم تازہ ہو جاتا ہے۔ بڑی تسلی ہوتی ہے نبی کے فرمان پر کہ جب کوئی بچہ انتقال کر جائے اور والدین اس پر صبر کریں تو وہ بچہ اپنے والدین کے لیے اللہ کے حضور سفارش کرے گا۔
موت کی خبر پھیلتے ہی سبھی ہندو مسلم بھائی تعزیت کے لیے میرے وارڈ میں آنے لگے۔ ان کے تعزیتی کلمات سن کر میں ان کو صبر اور خدائے وحدہ لاشریک پر توکل کی تلقین کرتا۔ عید کی نماز کا اعلان ہوا۔ مجھے ہی خطبہ دینا اور نماز پڑھانی تھی۔ خطبہ سننے کے لیے سارے غیر مسلم بھائی کنارے کنارے کھڑے ہو گئے۔ نماز بعد سبھی ساتھی نم آنکھوں اور آنسوؤں سے ایک دوسرے سے گلے ملنے لگے۔ مسٹر پوتول چند رویدی بے ساختہ بول اٹھے اور بھرائی آواز میں کہا: ” میں نے صبر سنا تھا لیکن آج اپنی آنکھوں سے صبر دیکھ لیا۔ ہمارے اندر ایک نیا عزم و حوصلہ پیدا ہوا ہے”۔ الحمد للہ مسلمان عام طور پر صبر کا مظاہرہ کرتے ہیں شاید اس بھائی کی نظر میں وہ پہلا واقعہ ہو۔
میں نے چاہا کہ پیرول پر رہائی مل جائے۔ کئی درخواستیں دیں لیکن پیرول نہیں ملا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب کہ لوگ معافی مانگ کر باہر نکل رہے تھے۔ بڑے چھوٹے سب لیڈروں کا یہی حال تھا۔ صرف جماعت اسلامی کے لوگ معافی مانگنے کے لیے تیار نہ تھے۔ ایک روز ایک ذمہ دار شخص نے کہا موقع اچھا ہے، آپ بھی نکل سکتے ہیں۔ میں اس اشارہ کی زبان سمجھ گیا اور ڈی ایم کو لکھا کہ میں جماعت اسلامی کا رکن ہوں، وہ اللہ کے پیغام کو اللہ کے بندوں تک پہنچا رہی ہے، معافی مانگنے کا کوئی سوال نہیں۔ اگر میرے دس بچے ہوتے اور سب انتقال کر جاتے تو بھی معافی طلب کرنے کی بات نہیں سوچی جا سکتی تھی۔
اللہ کی مہربانی، اس کے بعد درخواست بھیجنے کا سلسلہ بند ہوگیا۔ ایک ماہ گزرا تھا کہ جیل کا میرا ایک ہندو ساتھی واپس آیا جو پیرول پر گیا ہوا تھا۔ میں نے کہا بھائی اپنی درخواست مجھے دکھا دو، میں پھر لکھوں شاید پیرول پر رہائی ہو جائے۔ انھوں نے دے دیا۔ میں نے پوری درخواست پڑھی، ایک جگہ جملہ لکھا تھا “ماتاجی کے بچے کا دیہانت ہو گیا ہے۔ ماتاجی بہت پریشان ہیں۔ مجھے پیرول پر رہا کیا جائے وہ بھائی گیا اور واپس آگیا۔
میرا ماتھا ٹھنکا۔ میں نے سوچا بھائی کا انتقال ہوا ہوتا تو درخواست میں بھائی لکھا جاتا۔ ماتا جی کے بچے سے مراد بچھڑا تو نہیں! اسی کو بنیاد بنا کر میں نے ڈی ایم کے خلاف حکومت کو ایک درخواست دی کہ ڈی ایم نے گائے کے بچہ کی موت پر پیرول دیا ہے، میرے بچے کے انتقال پر نہیں، انکوائری کرائی جائے ورنہ میں اپنا کیس عدالت میں لے جاؤں گا۔ یہ درخواست صدر جمہوریہ، وزیر اعظم، وزیر داخلہ، وزیر اعلی مدھیہ پردیش و اترپردیش اور چند ممبران پارلیمنٹ کے نام تھی۔ بات صحیح وہی تھی جو میں نے سوچی تھی۔ بعد میں ڈی ایم نے مصالحت کی کافی کوشش کی لیکن میں نے اس کے اس غیر انسانی رویہ کی وجہ سے انکار کردیا اور کہا کہ جو گفتگو ہونی ہے میسا بندیوں کے سامنے ہونی چاہیے۔ بہر حال ڈی ایم مشرا کو اس پوسٹ سے ہٹنا پڑا، سکریٹریٹ بھیج دیے گئے۔ دوسرے ڈی ایم صاحب آئے اور میری دوسری درخواست کے بغیر پیرول پر رہائی دے دی۔ ۱۵ دن کے لیے میں باہر گیا۔
دوسرا اہم واقعہ، بعد میں رہائی کا آرڈر تو ہو گیا لیکن ضمانت دار کہاں سے لاتا ؟ وطن سے کافی دور تھا۔ پچاس ہزار کی ضمانت درکار تھی۔ جناب عبد الاحد خاں صاحب نے کہا کہ والد صاحب کو سیونی سے بلا لیتا ہوں وہ ضمانت لے لیں گے۔ میں نے کہا اتنی دور سے ضمانت دار لا نا مناسب نہیں، کچھ اور کوشش کرتا ہوں۔ چھندواڑہ کے کئی رفقا سے بات کی۔ اچانک بغیر میری کوشش کے ایک غیر مسلم قیدی میرے پاس آئے اور کہا میں آپ کی ضمانت لوں گا۔ دیکھیے میں ایک معمولی انسان ہوں لیکن ایک بہت بہتر انسان کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے جناب عبد الاحد خاں صاحب سے ذکر کیا۔ کسی طرح یہ خبر پھیل گئی۔ اس شخص پر دباؤ بڑھنے لگا کہ ضمانت نہ لے۔ وجہ یہ تھی کہ جیل سے نکلنے کے بعد مجرم کہیں فرار نہ ہو جائے۔ اس بھائی نے اس وقت سب کی بات مان لی اور آ کر مجھ سے ساری تفصیل بتائی۔ میں نے کہا آپ کے جن بھائیوں نے مشورہ دیا ہے وہ سچ بھی ہو سکتا ہے۔ اس بھائی نے یہ جملہ سن کر کہا۔ میرا یقین ہے آپ لوگ فرار نہیں ہو سکتے اور اگر ہوں تو بھی میں ضمانت لینے کے لیے تیار ہوں۔ بس خاموشی سے جیلر کے دفتر آ جائیے۔ چناںچہ میں دفتر گیا، دستخط کیا، تھوڑی دیر بعد جیل کے باہر تھا۔ افسوس کہ اس بھائی کا نام اور پتہ گم ہو گیا۔ اس گم نام بھائی کے لیے یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس احسان کا اسے اچھا بدلہ دے۔ ہدایت سے بڑھ کر اچھا بدلہ اور کون سا ہوسکتا ہے۔ کتنا بھلا انسان تھا وہ!
تقریباً ۱۸ ماہ بعد آزاد ماحول میں سانس لینے کا موقع ملا تھا لیکن باہر کی فضا بھی اچھی نہ تھی۔ ہر طرف خوف کا عالم طاری تھا۔ لوگ کھل کر گفتگو کرنے سے کتراتے تھے۔ ہر شخص گھٹن محسوس کر رہا تھا۔ پولیس راج تھا۔ ظالم سمجھ رہا تھا کہ بازی ہم نے جیت لی ہے۔ فسادیوں کو جیل میں ٹھونس دیا گیا ہے۔ جی ہاں مولانا محمد یوسف جیسا شریف النفس، ایک بڑی اسلامی تحریک کا قائد، ہتھکڑی پہنے جیل جا رہا تھا۔ خدا کے ہزاروں بندے جو اس ملک کو سنوارنے کا کام کر رہے تھے، مظلوموں کی مدد کیا کرتے تھے، سیلاب، فساد، طوفان اور قحط کے مواقع پر بغیر کسی تفریق کے محض اللہ کی رضا جوئی کے لیے انسانوں کی خدمت کیا کرتے تھے، ایسے لوگوں کو ظالم نے اندر کیا تھا۔ لیکن ظالم کو پتہ نہیں تھا کہ اس کے مکر و فریب کو ناکام بنانے والی بھی کوئی ہستی ہے جو اندھیرے کو دور کر سکتی ہے، مظلوموں کو انصاف دلا سکتی ہے ظلم کا خاتمہ کر سکتی ہے۔ جب رات کی سیاہی بڑھتی ہے، روشن صبح قریب آنے لگتی ہے۔ بڑا ہی خوف ناک تھا ایمرجنسی کا دور! اندر کے لوگ تو تکلیف کے باوجود مسکرا بھی لیتے تھے لیکن باہر کے لوگوں کے چہروں کی مسکراہٹ غائب تھی۔ لوگوں سے ملاقات کے وقت اندازہ ہوتا تھا، ملاقات جتنی مختصر ہو اتنی ہی بہتر ہے۔ اللہ کسی ظالم کو عوام پر مسلط نہ کرے، لیکن یہ جن پر مسلط ہوتے ہیں تو اکثر خود انھیں کے کرتوتوں کی بنا پر۔ کسی ملک پر ظالم کا تسلط عذاب کی ایک شکل بھی ہوتی ہے۔ اللہ ہر ملک اور ہر انسان کو اس سے محفوظ رکھے۔ آمین۔
میں جب وطن منڈیاہوں پہنچا تو پہلا منظر یہ سامنے تھا کہ والد صاحب بستر علالت پر پڑے ہیں۔ بہت ہی کم زور ہو گئے ہیں لیکن عزم میں بلندی ہے۔ مایوسی نام کی نہیں۔ اپنے ایک خط میں لکھا تھا کہ معافی مانگ کر نہ نکلنا۔ سب سے چھوٹے بھائی کی تعلیم ختم ہو چکی ہے۔ میری ماں صبر وشکر کی پیکر، پردہ کی پابند خاتون، مگر حالات نے اتنا مجبور کر دیا کہ نقاب اتار کر لیکن پردہ کا پورا لحاظ کرتے ہوئے سر ڈھک کر سر پر ٹوکرا لیے ہوئے سوئی دھاگا اور عورتوں کی آرائش کا سامان لیے گھر گھر دیہات دیہات فروخت کر رہی ہیں۔ محنت و مشقت کے لیے تیار لیکن ہاتھ پھیلانے کی قائل نہیں۔ کبھی یہ کام نہیں کیا تھا۔ آنکھوں میں آنسو، بوجھل قدم در در بھٹک رہی ہیں۔ اس لیے کہ ان کے دو بیٹے میسا میں بند، شوہر بیمار، ایک بیٹی اور ایک بیٹا چار افراد کا خرچ بھوپال اور مرزا پور کے رفقا کا تعاون تھا، لیکن ضروریات زندگی کی تکمیل کا امکان کہاں، ایسی حالت میں ماں کو نکلنا پڑا۔ یہ درد ناک اور ہمت شکن منظر قدم پیچھے ہٹانے کے لیے کافی تھا لیکن بس ایک سہارا تھا، خدا کا سہارا! بہترین سہارا وہی ہے! اللہ مرحوم والدین کی خدمات قبول فرمائے، مغفرت فرمائے، اور جنت الفردوس میں اعلی جگہ عنایت فرمائے۔ (ایمرجنسی کی آزمائشیں اور جماعت اسلامی ہند۔ مرتب: انتظار نعیم، ص ۱۳۶ تا ۱۳۹)
یادداشت (۳)
لکھنؤ کے مرحوم رحمت الہی صاحب لکھتے ہیں: جیل کے ان ایام میں ہمارے دوسرے رفقا گرفتار کر کے لائے جاتے رہے۔ ملیح آباد کے منشی ہدایت علی صاحب ایسی حالت میں لائے گئے کہ ضعیفی کی تقریباً ۸۸ سال عمر، اس پر مزید یہ کہ شدید پیچش کی کم زوری میں دیوار پکڑے پکڑے بیت الخلاء جاتے۔ ان پر یہ الزام تھا کہ وہ بجلی کے کھمبے پر چڑھے ہوئے تار کاٹ رہے تھے۔ چند روز وہ جیل کے اسپتال میں رہے پھر وہیں جیل میں ان کا انتقال ہو گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ (ایمرجنسی کی آزمائشیں اور جماعت اسلامی ہند۔ مرتب: انتظار نعیم، ص ۶۸)
یہ وہی منشی ہدایت علی تھے، کہ جب جماعت اسلامی ہند کی تشکیل جدید ہوئی، اور جماعت نے کسی زر اور زمین کے بغیر بے سرو سامانی کے عالم میں اپنے سفر کا آغاز کیا تو منشی ہدایت علی نے ملیح آباد میں ایک بڑا زیر تعمیر مکان، سڑک پر واقع قطعہ زمین اور بہت بڑا باغ جماعت اسلامی ہند کے مرکز اور مرکزی درس گاہ کے قیام کے لیے غیر مشروط طور پر وقف کردیا۔
قریب ایک سال مرکز وہاں رہا، پھر درکار سہولتوں کے پیش نظر رام پور منتقل ہوگیا۔ اس بارے میں مولانا ابواللیثؒ لکھتے ہیں:
“آخر میں ایک اور بات اپنے رفقا کے علم میں لانی چاہتا ہوں، ہر چند انتقالِ مرکز کا یہ فیصلہ ہدایت علی صاحب کے لیے طبعاً خاصا رنج دہ ہونا چاہیے۔ لیکن انھوں نے محض جماعتی مصالح کے تحت اس فیصلہ کا خیر مقدم نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ کیا ہے۔ مجھے ان کی یہ بات ان کے وقف سے زیادہ قیمتی معلوم ہوتی ہے۔”(تشکیل جماعت اسلامی ہند، کیوں اور کیسے۔ ص: 109)
مشمولہ: شمارہ فروری 2023