عالمی منظر نامہ اور تحریک اسلامی

عالمی سطح پر ہونے والے واقعات پر جب ہم نگاہ ڈالتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ آج ہم ایک ایسی دنیا کا سامنا کر رہے ہیں جس کی چار نمایاں خصوصیات ہیں : تنازعات، تضادات، تشدد اور تسلط۔ اب ہم ان چار نکات کی تھوڑی وضاحت کریں گے۔

۱۔ تنازعات

تنازعات ( conflicts)زبانی بھی ہیں اور زمینی بھی. حال میں جاری روس-یوکرین جنگ جغرافیائی سیاسی کشمکش (geo-political conflict)کی ایک مثال ہے۔ امریکہ چین اور روس کے درمیان فکری اور نظریاتی اور زبانی سطح پر بھی کشمکش ہے۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد امریکہ ایک واحد سپر پاور کی حیثیت سے ابھر رہا تھا۔ جب کہ ماضی قریب میں ہونے والے واقعات اس کی برتری کو چیلنج کر رہے ہیں۔ امریکہ اور اس کے حلیف ایک طرف اور روس چین اور شمالی کوریا دوسری طرف بلاک بنے نظر آتے ہیں۔ کشیدگی جب بڑھتی ہے تو نیوکلیئر جنگ کی بار بار دھمکی دی جا تی ہے۔ خدا نہ کرے اگر ایسی کوئی جنگ برپا ہوئی تو ماہرین یہ بتاتے ہیں کہ روس اور امریکہ کے درمیان نیوکلئیر ہتھیار کے استعمال کے نتیجے میں دنیا کی پانچ بلین آبادی بھوک سے مر جائے گی۔ تنازعات کا اثر معاشی ترقی اور معاشی خوشحالی پر پڑ رہا ہے۔ اس پر مزید انرجی کا بحران بھی عنقریب آنے والا ہے۔

۲۔ تضادات سے بھرپور دنیا (A world full of paradox)

موجودہ دنیا کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ انسانی جان کا احترام، انسانی حقوق کی پاسداری، جمہوریت اور آزادی جیسے الفاظ کے دو معنیٰ اور دو پیمانے پائے جاتے ہیں۔ اس کا واضح ثبوت مشرق وسطیٰ ہے جو اس وقت جل رہا ہے۔ ہم شب تاریک سے گزر رہے ہیں اور طلوع صبح کے منتظر ہیں۔ اور وہ صبح ان شاءاللہ اسلام کی صبح ہوگی۔ ہم ظلمتوں کے ایسے دور سے گزر رہے ہیں، جس میں انسانی اقدار اور انسانی حقوق کے دعوے سب بالائے طاق رکھ دیے گئے ہیں۔ انسانی خون کی ارزانی ہو چکی ہے۔ ایک طرف اسرائیلی جارحیت ہے جس میں دانستہ بچوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ دوسری طرف انسانی زندگی کی تمام سہولیات سے غزہ کو کاٹ کر بھک مری اور فاقہ کشی کو ایک جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے جو عالمی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ تیسری طرف حق کی آواز بلند کرنے والوں کو سنگ دلی کے ساتھ قتل کیا جا رہا ہے۔ العربیہ نیوز کے مطابق 43665 فلسطین شہید ہو چکے ہیں۔ اور بی بی سی کے مطابق شہداء کی 70 فیصد تعداد خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے۔ الجزیرہ نے Lancet کے حوالے سے ایک رپورٹ پیش کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ مرنے والوں میں بمباری سے شہید ہونے والوں کے علاوہ زخموں سے چور ہوکر دم توڑنے والے، دواؤں کی شدید قلت سے جاں بحق ہونے والے اور بھوک سے نڈھال ہو کر ابدی نیند سو جانے والوں کی تعداد کا حساب لگایا جائے تو وہ 1,86,000 ہوسکتے ہیں. انسانی خون کی یہ ارزانی اپنے سینے میں دل رکھنے والوں کو رلاتی ہے۔

اس خوں ریز جنگ میں مغربی طاقتوں کی پوزیشن بالکل واضح ہو گئی۔ امریکہ اور اس کے میڈیا نے بدترین کردار ادا کیا۔ امریکی حکومت اور امریکی میڈیا کی مدد سے ایک ہول ناک تباہی، ہمارے دور کا سب سے بڑا اخلاقی جرم ہے۔ امریکہ اور یورپ جو اخلاقی اقدار اور انسانی حقوق کے چیمپین بنے پھرتے رہے ہیں آج ان کا اصلی چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہو گیا ہے۔ غزہ انسانی بحران کی دردناک مثال ہے۔ اس وقت کا یہ المیہ ہے کہ ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم کی حیثیت سے عالمی میڈیا اور خود ہمارے ہندوستان کا میڈیا پیش کر رہا ہے اور عوام کو یہ باور کرا رہا ہے کہ گویا یہ کشمکش بس گذشتہ ایک سال پہلے شروع ہوئی ہے۔میڈیا کا یہ بیانیہ گم راہ کن ہے کہ اسرائیل اپنے دفاع میں یہ اقدامات کر رہا ہے اور وہ مظلوم ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک کے حکمراں نیز ان کے میڈیا بار بار ایک ہی جملے کو دہراتے ہیں کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے اور اس طرح سے یہ بیانیہ پیش کیا جاتا ہے کی اسرائیل مظلوم ہے۔ جب کہ دوسری طرف فلسطینی عوام کا یہ بیانیہ سامنے نہیں آتا کہ مزاحمت ان کا حق ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل گذشتہ 75 برسوں سے ارض فلسطین پر غاصبانہ قابض ہے اور اس دن سے یہ لڑائی جاری ہے اور آج بھی وہ اپنی سرحدوں کی توسیع اور فلسطینی علاقوں پر قبضے کی مذموم مہم کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ دن بدن اس کی کالونیوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یروشلم پر اس کا ناجائز تسلط ہے اور قسطوں میں قتل کا سلسلہ جاری رہا ہے۔اسرائیل نے اس بار اپنی ہی تاریخ کی بدترین جارحیت کے تمام ریکارڈ توڑتے ہوئے فلسطینی عوام کے قتل کا سلسلہ دراز کر رکھا ہے۔فلسطین کی مزاحمتی تحریک اسرائیلی تشدد اور بربریت کی خوںریز وارداتوں کی داستان سوشل میڈیا پر نشر کر کے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہے۔ تاریخ میں یہ پہلا قتل عام ہے جہاں اس کے متاثرین اپنی تباہی کو عین اسی وقت real time میں نشر کر رہے ہیں، بے حد ناامیدی اور بے سود امید کے ساتھ کہ دنیا ان کی حمایت میں اٹھے گی۔

ایک طرف امریکہ جنگ بندی کی باتوں کا ڈھونگ رچ رہا ہے اور دوسری طرف جنگ کے لیے مسلسل کمک پہنچا رہا ہے۔ امریکی حکومت کی پالیسیوں پر تین اداروں کا زبردست اثر اور دباؤ ہوتا ہے جو دنیا کو جنگ کی طرف دھکیلتے ہیں اور اس میں ان کے مفادات پوشیدہ بلکہ صحیح معنوں میں عیاں ہیں۔ ایک طرف عسکری ہتھیار تیار کرنے کی فیکٹریاں ہیں، دوسری طرف صنعت کار ہیں جنھیں دنیا کی بڑی بڑی منڈیاں درکار ہیں اور تیسری طرف میڈیا ہاؤس ہیں جو مستقل بیانیہ تیار کرتے رہتے ہیں۔ انھیں Military-Industrial-Media Complex کہا جاتاہے۔ ایک قوم کی فوج، دفاعی ٹھیکیداروں اور میڈیا کے درمیان باہمی تعلقات ایک دوسرے کے مفادات کی خدمت میں لگے ہوئے ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں جنگیں برپا کی جاتی ہیں یا انھیں برقرار رکھا جاتا ہے۔

”عسکری-صنعتی کمپلیکس“کی اصطلاح کو امریکی صدر ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور (Dwight D. Eisenhower)نے اپنی الوداعی تقریر میں 1961 میں مشہور کیا تھا۔ اس نے اہل ملک کو خبردار کیا تھا کہ دفاعی صنعت کار کا حکومت کی پالیسی پر ممکنہ غیر ضروری اثر و رسوخ امن عالم کے لیے نقصان دہ ہے “میڈیا” کا اضافہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میڈیا تنظیمیں بھی فوجی کارروائیوں کے بارے میں عوامی رائے کو فروغ دینے یا اس کی تشکیل میں کردار ادا کر رہی ہیں۔ آج ان باتوں کو سمجھنے کے لیے واضح شواہد آنکھوں کے سامنے موجود ہیں۔

بہرحال ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں انسانی جان کا احترام، انسانی حقوق، مملکتوں کی آزادی، عوام کے عزائم، جمہوری انتخابات، سیاسی نظام کی تشکیل اور اس کے چلانے میں عوام کے کردار سے متعلق مغربی طاقتوں کے پاس دو پیمانے پائے جاتے ہیں۔ مسلمانوں اور اسلام پسندوں کے لیے ان کے پاس اوزان الگ ہیں اور مغربی قوتوں اور ان کے حلیفوں کے لیے ان کے ہاں الگ اقدار موجود ہیں۔ یہ کھلا ہوا تضاد بے حسی اور سنگ دلی کی علامت ہے۔

۳۔ تشدد(Violence)

اس وقت دنیا میں رنگ،نسل، مذہب اور نظریات کے فرق شدید قسم کے تشدد کو جنم دے رہے ہیں۔ انتہائی افسوس کی بات یہ ہے کہ خود مسلم ممالک بے شمار مسائل کا شکار ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ پرتشدد تنازعات اور خانہ جنگیاں ہیں، جو ان خطوں کی بدامنی اور غیر مستحکم حالات کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ انسانی آزادی کا ایک اور بڑا دشمن آمرانہ طرز حکم رانی ہے۔ ان ممالک کے آمرانہ سیاسی نظام، جابرانہ قوانین اور سخت سیکورٹی فورس اس گھٹن زدہ ماحول کی عکاسی کرتے ہیں۔

فریڈم ہاؤس کی تحقیق کے مطابق دنیا کے 56 فیصد ممالک میں جمہوری نظام قائم ہے، تاہم مسلم دنیا کا منظرنامہ اس کے برعکس ہے۔ 57 مسلم ممالک میں صرف 20 فیصد ایسے ہیں جہاں حقیقی جمہوریت پائی جاتی ہے۔ اس عدم توازن کی ایک بنیادی وجہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ قدرتی ذخائر و وسائل ہیں جن سے یہ علاقے مالا مال ہیں۔ بدقسمتی سے مغربی طاقتیں ان وسائل کا استحصال کرتی ہیں اور ایسے حکم رانوں کو تقویت دیتی ہیں جو آمرانہ طرزِ حکومت کو فروغ دیتے ہیں اور تشدد پر مبنی طرزِ سیاست اختیار کرتے ہیں۔

ان ممالک میں سے بیشتر کی معیشت کا انحصار تیل کی آمدنی پر ہے، جو بعض صورتوں میں ان کی مجموعی آمدنی کا  40 فیصد بنتی ہے۔ اس خطیر دولت نے حکم رانوں کو عوام پر عائد ٹیکسوں سے بے نیاز کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں وہ عوام کے سامنے جواب دہ ہونے کے احساس سے عاری ہو چکے ہیں۔ اس معاشی آزادی نے ان میں آمریت پسندی کو جنم دیا، حالاں کہ قدرتی وسائل درحقیقت وہاں کے تمام باشندوں کی مشترکہ ملکیت ہیں اور ان پر ہر فرد کا مساوی حق ہے۔

موجودہ دنیا میں جہاں ہر طرف معاشی سیاسی اور نسلی عدم مساوات پایا جاتا ہے اور ظالم ظلم کی داستان رقم کر رہے ہیں وہاں مسلم حکم رانوں کی ذمہ داری تھی کہ وہ اپنے اجتماعی عمل سے ایک منصفانہ مستقبل کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرتے مگر افسوس کہ وہی لوگ پر تشدد طریقے سے احیائے اسلام کی لہروں کو روک رہے ہیں۔

۴۔ تسلط یعنی اقتدار کا چند ہاتھوں میں سمٹ جاں(Oligarchy)

اس وقت دنیا کا اقتدار اور بالخصوص بڑے طاقتور ممالک کی باگ ڈور چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ گئی ہے۔ جسے ”اولیگارکی“(Oligarchy) کہا جاتا ہے، اس کا مطلب ہے “چند افراد کی حکم رانی”۔ اس سے مراد ایک ایسا نظام حکومت ہے جس میں طاقت اور اختیار صرف چند افراد یا خاندانوں کے ہاتھوں میں مرکوز ہوتا ہے۔ اولیگارک عام طور پر مالی وسائل کے ذریعے حکومتوں پر کنٹرول حاصل کرتے ہیں۔ سیاستدانوں کو وہ بھاری عطیات دیتے ہیں اور بدلے میں عوام کے منتخب نمائندے عوام کے لیے نہیں بلکہ اولیگارک کی ہدایات کے مطابق حکم رانی کرتے ہیں۔

جب اولیگارکی نظام حکومت خودغرضی کی انتہا کو پہنچ جاتا ہے، تو اس کا جھکاؤ عموماً آمریت کی طرف ہو جاتا ہے۔ حکمراں نہ صرف سیاسی آزادیوں کو محدود کرتے ہیں بلکہ ذاتی آزادیوں پر بھی قدغنیں لگانے لگتے ہیں۔ ان کی پالیسیاں اکثر ظالمانہ اور استحصالی رویے کی عکاس ہوتی ہیں، جس کے نتیجے میں معاشرتی ناانصافی مزید گہری ہو جاتی ہے۔

اس نظام میں آمدنی کی تقسیم شدید عدم توازن کا شکار ہو جاتی ہے۔ دولت کا بہاؤ محنت کش طبقے کے بجائے حکم رانوں اور ان کے قریبی حلقوں تک محدود ہو جاتا ہے۔ اس صورتِ حال کا سب سے بڑا نقصان درمیانی طبقے کو ہوتا ہے، جو بتدریج سکڑتا چلا جاتا ہے۔ نتیجتاً، امیر مزید امیر اور غریب مزید غریب ہو جاتے ہیں، اور سماجی ناہمواری میں مسلسل اضافہ ہوتا ہے۔

ان مناظر کو دیکھنے کے چار قرآنی فریم ورک

دنیا بھر میں ہونے والی تبدیلیوں کو سمجھنا اور ان کے پیچھے چھپی ہوئی حکمت عملیوں کو جانچنا تحریک کے کارکنوں کے لیے ضروری ہے۔ اس وقت عالمی سیاست، معیشت، معاشرت اور میڈیا پر مغربی طاقتوں کا گہرا اثر ہے، جو اپنے مفادات کے تحت دنیا کو کنٹرول کر رہی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے اور بظاہر لگتا ہے کہ ان کے شکنجے مضبوط ہیں۔ مگر جب ہم ان تبدیلیوں کو قرآن و سنت کے چشمے سے دیکھتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ یہ وقت دنیا کے سیاسی اور معاشرتی نظاموں کے زوال کا ہے۔

موجودہ عالمی حالات کو دیکھنے کے چار تناظر ہیں:

دو غیر اسلامی طاقتوں کے درمیان کشمکش

حق و باطل کی کشمکش

مسلم امت بالخصوص حکمراں طبقوں کا رویہ۔

سیاست دانوں اور سرمایہ داروں کا گٹھ جوڑ

۱۔ دو غیر اسلامی طاقتوں کے درمیان تصادم

جب کسی سرزمین پر دو طاقتوں کے درمیان تصادم ہو اور اسلام اس میں کوئی فریق نہ ہو تو انھیں دیکھنے کا قرآن نقطہ نظر سورہ روم میں ملتا ہے۔

الم. غُلِبَتِ الرُّومُ. فِی أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَیغْلِبُونَ [الروم: 1 – 3]

(ا ل م۔ رومی قریب کی سرزمین میں مغلوب ہو گئے ہیں۔ اور اپنی اِس مغلوبیت کے بعد چند سال کے اندر وہ غالب ہو جائیں گے)

آپ یہ نہ کریں کہ کسی ملک کو ایران کی جگہ پر رکھ لیں اور کسی کو روم کی جگہ پر۔ نہیں بلکہ ان آیتوں میں مضمر حکمتوں کی روشنی میں حالات کا مطالعہ کیجیے۔ مولانا مودودیؒ نے جس طرح سے اس کی بڑی خوب صورت تفسیر بیان فرمائی ہے اسے پڑھنے سے آج کے حالات میں ہمیں رہ نمائی ملتی ہے۔ اس وقت کی دو بڑی قوتوں کے درمیان جنگ جاری تھی ایک طرف مجوسی ایرانی تھے دوسری طرف عیسائی رومی تھے۔ مذہب پر گہرا یقین رکھنے والے رومی مغلوب تھے اور مشرک مجوسی غالب تھے۔ ایرانی اور رومی تصادم کے وقت یروشلم بھی جنگ کی لپیٹ میں تھا اور ایرانی بادشاہ نے وہاں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی، جس میں 90 ہزار سے زائد فلسطینیوں کا قتل عام ہوا تھا۔ بظاہر ایسا لگتا تھا کہ ایرانی سلطنت کو کوئی شکست نہیں دے سکے گا، اس لیے کہ رومی بادشاہ کم زور تھا۔ لیکن کچھ برسوں بعد حالات میں تبدیلی آئی اور عیسائی رومی، جن کے غلبے کی امید کم تھی، غالب آ گئے اور ایرانی سلطنت شدید شکست کا شکار ہوئی۔ اس واقعے کو پڑھتے وقت آج کے حالات کا موازنہ کریں۔ آپ کو صاف طور پر دکھائی دے گا کہ حالات کچھ اسی طرح کے ہیں۔ ایک فوجی ماہر کے بقول امریکہ اپنیhegemony باقی رکھنے کے لیے مشرق وسطیٰ اور روس اور یوکرین میں جنگ کی کیفیت کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔

بہرحال ہمیں یقین ہے کہ وہ دن دور نہیں جب ظالم اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ شاید آج ہم اس حقیقت کو پوری طرح نہ سمجھ سکیں، لیکن یہ ضرور ہوگا۔ ہم صرف دنیا کے ظاہری پہلوؤں کو دیکھتے ہیں، جب کہ واقعات کے اندرونی پہلوؤں پر ہماری نگاہ نہیں ہوتی اور آخرت کے تصور سے تو دنیا منھ موڑے ہوئے ہے۔

۲۔ حق و باطل کی کشمکش: فلسطین اور اسرائیل

اب دوسرے منظر نامے کو دیکھتے ہیں۔ ارضِ فلسطین کی حالیہ جنگ دراصل حق و باطل کی ایک عظیم کشمکش کا میدان بن چکی ہے۔ ایک طرف غاصب صیہونی ریاست ہے، جو جدید ترین اسلحے سے لیس ہوکر نہتے فلسطینی عوام پر ظلم و ستم ڈھا رہی ہے، اور اس کے پیچھے امریکہ، برطانیہ، فرانس جیسی سامراجی طاقتیں اور دنیا کی بڑی بڑی کمپنیاں اور سرمایہ دار ہیں۔ دوسری طرف فلسطین کے وہ مظلوم عوام ہیں، جن کے پاس نہ اپنی کوئی مکمل آزاد ریاست ہے، نہ فضائیہ، نہ بحری راستوں پر کنٹرول اور نہ ہی مادی وسائل۔ اس کے باوجود، وہ اپنے حق کے لیے ڈٹے ہوئے ہیں اور دنیا کے ضمیروں کو جھنجھوڑ کر بیدار کر رہے ہیں۔

یہ کشمکش دراصل اس وقت کے انسانی ضمیر کو آزمائش میں ڈال رہی ہے۔ انھیں معلوم ہے کہ حق کس جانب ہے اور باطل کا چہرہ کتنا مکروہ اور ظالمانہ ہے۔ فلسطینی عوام نے اپنی بے پناہ قربانیوں کے ذریعے دنیا کو بتایا ہے کہ ظلم و جبر کے سامنے جھکنا ان کا شیوہ نہیں ہے۔ انھوں نے اس جنگ میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دنیا کے آزاد پسند افراد کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ باوجود اتنی بڑی تباہی اور بے پناہ جانی و مالی نقصانات کے، وہ نہ کم زور پڑے ہیں اور نہ ہی اپنے حق سے پیچھے ہٹے ہیں۔

اسرائیل کے حالیہ ظلم کو جب ہم قرآن کی روشنی میں دیکھتے ہیں تو وہی منظر سامنے آتا ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ساتھ مکالمے میں کیا تھا۔ جب اللہ نے زمین پر خلیفہ بنانے کا اعلان کیا، تو فرشتوں نے انسان کے فساد اور خونریزی کی جانب اشارہ کیا:

قَالُوا أَتَجْعَلُ فِیهَا مَنْ یفْسِدُ فِیهَا وَیسْفِكُ الدِّمَاءَ [البقرة: 30]

(کیا آپ زمین میں ایسے کو بنائیں گے جو اس میں فساد کرے گا اور خون بہائے گا؟)

آج اسرائیل کی صورت میں اس فسادی اور خونریز انسانیت کا سب سے مکروہ چہرہ ظاہر ہو چکا ہے۔ اس کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو جو علم عطا کیا، وہ یہ تھا کہ انسان کی ایک نسل فساد کے مقابلے میں اصلاح اور ظلم کے مقابلے میں امن و سلامتی کی علم بردار ہوگی۔ فلسطین کے مظلوم عوام نے اس پیغام کو عملی طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ وہ ظلم کے خلاف سیسہ پلائی دیوار بنے کھڑے ہیں اور قرآن کی اس آیت کے حقیقی مصداق ہیں:

فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِی سَبِیلِ اللَّهِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَكَانُوا وَاللَّهُ یحِبُّ الصَّابِرِینَ [آل عمران: 146]

(پھر جو مصیبت انھیں اللہ کی راہ میں پہنچی، اس سے نہ وہ کم زور پڑے، نہ انھوں نے ہمت ہاری، نہ وہ جھکے، اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔)

یہ کشمکش محض فلسطین کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری امت مسلمہ کا مشترکہ امتحان ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ امت مسلمہ تفرقے اور مفادات کی زنجیروں کو توڑ کر اتحاد و یگانگت کی راہ اختیار کرے۔ وہ اپنی سیاسی، معاشرتی اور معاشی قوت کو اس جدوجہد میں استعمال کرے تاکہ مظلوموں کو ان کا حق دلایا جا سکے اور باطل کو اس کے انجام تک پہنچایا جائے۔ مسلمانوں کو یاد رکھنا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے کام یابی کا وعدہ انھی لوگوں کے ساتھ کیا ہے جو ایمان، صبر اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اگر امت نے اس آزمائش میں اپنی ذمہ داری ادا کی تو یقیناً اللہ کی مدد آئے گی اور حق غالب ہو کر رہے گا، جیسا کہ تاریخ کے کئی صفحات اس کی گواہی دیتے ہیں۔

یہ وقت ہمدردی سے بڑھ کر عملی اقدامات، اتحاد اور قربانی کا متقاضی ہے۔ امت مسلمہ کو اجتماعی طور پر اپنی حکمت، وسائل اور جدوجہد کو اس عظیم مقصد کے لیے وقف کرنا ہوگا تاکہ فلسطین کی سرزمین پر عدل و انصاف کا نظام بحال ہو اور امت کے افتخار کا پرچم بلند ہو۔

اس وقت دنیا میں ایسی قوتیں جمع ہو چکی ہیں جو مختلف راستوں سے مسلمانوں کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہیں۔ ہمارے ملک میں بعض شدت پسند عناصر اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے لیے نفرت آمیز بیانیہ پھیلا رہے ہیں۔ اس طرح کے مواد اور رویوں کا مقصد صرف انتشار پیدا کرنا اور معاشرتی ہم آہنگی کو نقصان پہنچانا ہے۔ دوسری طرف، بعض حکمراں اپنی ذمہ داریوں سے منھ موڑ کر ایسی قوتوں کا ساتھ دیتے نظر آتے ہیں جو ملت اسلامیہ کے مفادات کے خلاف کام کر رہی ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف امت کی کم زوری کا سبب بنتا ہے بلکہ ان کے اتحاد کو بھی پارہ پارہ کر دیتا ہے۔

عالمی سطح پر انسانی مساوات کے برعکس رنگ و نسل کی برتری کے نظریے کو فروغ دینے والے طبقات بھی اس سازش کا حصہ ہیں۔ وہ اپنی برتری کے زعم میں عدل و انصاف کو پامال کرتے ہوئے ظلم اور استحصال کے نظام کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ، صیہونیت جیسی طاقتیں مذہب کا نام لے کر اپنے سیاسی اور عسکری عزائم کی تکمیل کے لیے دنیا کے مختلف خطوں میں ظلم اور قبضے کا بازار گرم کیے ہوئے ہیں۔ ان تمام چیلنجوں کے باوجود، تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ جب ایمان، حکمت اور صبر کے ساتھ دفاع کیا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی نصرت ان مشکلات کو ختم کر دیتی ہے۔ آج ہمیں بھی اسی جذبے اور حکمت کے ساتھ ان حالات کا مقابلہ کرنا ہوگا تاکہ امت مسلمہ دوبارہ اپنے مقام پر فائز ہو سکے۔

۳۔ مسلم امت بالخصوص حکم ران طبقوں کا رویہ

گذشتہ ایک سال کے دوران عالمی حالات میں ایسا تغیر آیا ہے کہ دنیا کا ہر اہم میدان (تقریر، تحریر، آرٹ، نغمہ گوئی، سیاست، معیشت، جنگ و صلح یہاں تک کہ حلال و حرام جیسے موضوعات بھی) فلسطین کے گرد گردش کرنے لگے ہیں۔ یہ مسئلہ محض ایک خطے کا نہیں بلکہ حق و باطل کی ایک واضح کشمکش کا مظہر بن چکا ہے۔ امت مسلمہ کی ایک بڑی اکثریت اس معاملے میں حق کی طرف دار ہے، مگر وہ اپنی عملی قوت کے بجائے محض جذباتی اظہارِ ہمدردی تک محدود ہے۔ ہمدردی کا یہ جذبہ قابل قدر ہے، لیکن یہ مسئلہ محض جذباتی ہمدردی سے حل نہیں ہو سکتا۔ یہ تقاضا کرتا ہے کہ ہمدردی کو عملی اقدامات میں تبدیل کیا جائے۔ ان عملی اقدامات کی ذمہ داری بالخصوص ان ممالک پر عائد ہوتی ہے جو قوت اور اقتدار رکھتے ہیں۔ فلسطین کے مظلوم عوام کی دادرسی کے لیے اقوام متحدہ جیسے عالمی فورموں پر مؤثر شرکت، مسئلے کے حل کے لیے فعال سفارت کاری، مالی امداد کی فراہمی، جنگ سے متاثرہ علاقوں کی تعمیر نو اور خارجہ پالیسیوں کو عدل و انصاف کے قیام کے ساتھ ہم آہنگ کرنا وہ اہم اقدامات ہیں جو وقت کا تقاضا ہیں۔ یہ عملی کوششیں نہ صرف مظلوموں کے لیے سہارا بنیں گی بلکہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کا باعث بھی بنیں گی۔

دوسری طرف امت کا ایک طبقہ وہ ہے جو اب بھی تفرقہ بازی کا شکار ہے۔ یہ طبقہ اس مسئلے کو مسلم ریاستوں کی محدود وفاداریوں اور سیاسی مفادات کی عینک سے دیکھتا ہے، جس سے ان کی سوچ کا زاویہ محدود ہو جاتا ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ حق اور باطل کی اس کھلی جنگ میں بھی بعض لوگ حق کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں۔ مزید برآں، دنیا کے نقشے پر 57 مسلم ممالک موجود ہیں، مگر ان کے حکمراں طبقے اور اشرافیہ کی ایک بڑی اکثریت مادی اور سیاسی مفادات میں اس قدر الجھی ہوئی ہے کہ اس کی زبانیں خاموش اور دل بے حس نظر آتے ہیں۔ ان کی یہ بے حسی امت کے اتحاد اور حق کی حمایت میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

اس صورت حال میں ایک طرف وہ لوگ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر سچا ایمان رکھتے ہیں۔ یہ اہل حق اپنی جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں، قبلہ اول کے تحفظ کے لیے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر رہے ہیں اور باطل کو چیلنج کر رہے ہیں۔ قرآن نے ایسے اہل ایمان کو “اللہ کی پارٹی” (حزب اللہ) کہا ہے۔ ان کی قربانیاں اور استقامت ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ تاریخ میں ہمیشہ اہل حق نے قربانیوں کے ذریعے ظلم اور باطل کو شکست دی ہے۔

دوسری جانب شیطانی قوتیں ہیں، جو اپنے کارندوں کے ذریعے دنیا میں جنگ کی آگ بھڑکائے ہوئے ہیں۔ ان کا مقصد فتنہ و فساد پھیلانا اور مسلمانوں کو تقسیم کر کے ان کی طاقت کو کم زور کرنا ہے۔ قرآن نے اہل ایمان کو واضح ہدایت دی ہے کہ وہ حق کا ساتھ دیں اور اسلام دشمن قوتوں کے ساتھ کسی بھی قسم کی دوستی یا ہمدردی سے باز رہیں، کیوں کہ ایسی روش نہ صرف دعوائے ایمان کے خلاف ہے بلکہ تقویٰ کی روح کے بھی منافی ہے۔

وَمَنۡ یتَوَلَّ اللّٰهَ وَ رَسُوۡلَهٗ وَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فَاِنَّ حِزۡبَ اللّٰهِ هُمُ الۡغٰلِبُوۡنَ۔ یٰۤـاَیهَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَـتَّخِذُوا الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوۡا دِیۡنَكُمۡ هُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡكِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِكُمۡ وَالۡـكُفَّارَ اَوۡلِیآءَ ۚ وَاتَّقُوا اللّٰهَ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ (المائدة: 56-57)

(اور جو اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان کو اپنا رفیق بنا لے اُسے معلوم ہو کہ اللہ کی جماعت ہی غالب رہنے والی ہے۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمھارے پیش رو اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے تمھارے دین کو مذاق اور تفریح کا سامان بنا لیا ہے، انھیں اور دوسرے کافروں کو اپنا دوست اور رفیق نہ بناؤ اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو)

۴۔ فرعون اور قارون کا گٹھ جوڑ

دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں جب اشرافیہ اور مال و دولت کے پجاریوں نے اپنی ملی بھگت کے ذریعے عوام کو ان کے حقوق سے محروم کیا ہو۔ قرآن مجید نے ہمیں ایسے حکم رانوں اور سرمایہ داروں کی ملی بھگت کے لیے فرعون اور قارون کی معنی خیز مثال دی ہے۔ فرعون کی سیاسی قوت اور قارون کی معاشی طاقت ایک دوسرے کی پشت پناہی کر رہی تھیں۔ فرعون اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے ظلم و استبداد کا سہارا لیتا تھا، جب کہ قارون اسی ظلم کے سائے میں اپنے خزانے بھرتا اور عوام کا استحصال کرتا تھا۔ یہ ایک ایسا اتحاد تھا جو ظاہری طور پر ناقابل تسخیر نظر آتا تھا، مگر قرآن نے ان دونوں کے انجام کو قیامت تک کے لیے عبرت بنا دیا۔

قارون کے انجام کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ اپنی دولت اور خزانوں سمیت زمین میں دھنسایا گیا۔ اس کے خزانوں پر فخر کرنے والوں نے جب یہ منظر دیکھا تو عبرت پکڑی۔ اسی طرح فرعون کے ظلم اور سرکشی کا انجام بھی قرآن نے واضح کیا کہ وہ اپنے لاؤ لشکر سمیت سمندر میں غرق کر دیا گیا، اور قیامت تک کے لیے ظالموں کے لیے مثال بنا دیا گیا۔ قرآن کریم میں ہے:

وَنُمَكِّنَ لَهُمْ فِی الْأَرْضِ وَنُرِی فِرْعَوْنَ وَهَامَانَ وَجُنُودَهُمَا مِنْهُمْ مَا كَانُوا یحْذَرُونَ [القصص: 6]

(اور ہم انھیں زمین میں اقتدار بخشیں اور فرعون، ہامان اور ان کے لشکروں کو وہ چیز دکھائیں جس سے وہ ڈرتے تھے۔)

یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ ظالموں کو ہمیشہ اس حق سے خوف رہتا ہے جو ان کے باطل نظام کو للکارنے کی طاقت رکھتا ہے۔ ان کی سازشیں اور اتحاد وقتی ہوتے ہیں، مگر حق کی ضرب آخرکار انھیں مٹا دیتی ہے۔ قرآن نے ان کے انجام کو اس طرح بیان کیا کہ جب وہ دنیا سے رخصت ہوتے ہیں تو نہ آسمان ان پر روتا ہے اور نہ زمین ماتم کرتی ہے۔ ان کے ظلم کا خاتمہ عوام کے لیے راحت اور سکون کا پیغام لے کر آتا ہے۔ان کے زوال سے دنیا کو یہ سبق ملا کہ ظلم کی بنیاد پر کھڑی سلطنتیں کبھی دیرپا نہیں ہوتیں۔

موجودہ حالات میں تحریک کے کارکنوں کے لیے پیغام

۱۔ مایوس نہ ہوں: جو لوگ عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کے ظاہری پہلوؤں کو دیکھتے ہیں اور ان سے تاثر لیتے ہیں وہ احساس شکست، خوف اور مایوسی کے جذبات سے دو چار ہوتے ہیں۔ قرآن کی رہ نمائی یہ ہے کہ مومنوں کو کسی بھی حال میں دل شکستہ اور غم گین نہیں ہونا چاہیے۔ وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ [آل عمران: 139]

۲۔ سخت حالات ایمان بڑھا دیتے ہیں : قرآن ہمیں دوسرا اصول یہ بتاتا ہے کہ حالات جب سخت ہوں تو مومنین کا ایمان بڑھ جاتا ہے جس کی مثال سورہ احزاب میں بیان کی گئی کہ جب عربوں کی متحدہ فوجیں نوخیز اسلامی ریاست کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے لیے چڑھ آئیں اور ایک مہینے تک انھوں نے مدینہ کا محاصرہ کیے رکھا تو منافقین کے دل حلق کو آرہے تھے اس کے برعکس جو سچے ایمان والے تھے وہ پکار اٹھے کہ اہل ایمان کے لیے یہ مرحلے خدائی اسکیم کا حصہ ہیں۔

وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِیمَانًا وَتَسْلِیمًا [الأحزاب: 22]

۳۔ دل شکنی کی باتوں سے متاثر نہ ہوں : کبھی دشمنان اسلام کی باتیں دلوں کو رنجیدہ کر دیتی ہیں جس سے بعض نوجوان بے چینی اور کرب میں مبتلا ہوتے ہیں۔

لَتُبْلَوُنَّ فِی أَمْوَالِكُمْ وَأَنْفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِینَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِینَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِیرًا وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ [آل عمران: 186]

(تمھارے مال و جان میں تمھاری آزمائش کی جائے گی۔ اور تم اہل کتاب سے اور ان لوگوں سے جو مشرک ہیں بہت سی ایذا کی باتیں سنو گے۔ اور تو اگر صبر اور پرہیزگاری کرتے رہو گے تو یہ بڑی ہمت کے کام ہیں)

قرآن کی رہ نمائی یہ ہے کہ ان سب حالات میں مسلمان مشتعل نہ ہو ں بلکہ صبر وتحمل سے کام لیں اور اولوا العزمی کا مظاہرہ کریں۔

۴۔ بنی اسرائیل کی تاریخ سے آگاہ رہیں: قرآن ہماری یہ رہ نمائی بھی کرتا ہے کہ اہل کتاب کی خصلت یہ رہی کہ انھوں نے بہت سے انبیا کو قتل کیا اور ان لوگوں کو بھی قتل کرتے رہے جو حق کے علم بردار بن کر معاشرے میں کھڑے ہوتے رہے ہیں اور آج بھی ان کی یہ سفاکی دیکھی جاسکتی ہے۔

إِنَّ الَّذِینَ یكْفُرُونَ بِآیاتِ اللَّهِ وَیقْتُلُونَ النَّبِیینَ بِغَیرِ حَقٍّ وَیقْتُلُونَ الَّذِینَ یأْمُرُونَ بِالْقِسْطِ مِنَ النَّاسِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ أَلِیمٍ [آل عمران: 21]

(بیشک جو لوگ اللہ کی آیات کا انکار کرتے ہیں اور ناحق انبیا کو قتل کرتے ہیں اور ان لوگوں کو قتل کرتے ہیں جو عدل و انصاف کا حکم دیتے ہیں، انھیں دردناک عذاب کی خوشخبری سنا دو۔)

میں نے جن آیتوں کا حوالہ دیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم حالات کے صرف ظاہری پہلو سے تاثر نہ لیں، بلکہ قرآنی نقطہ نظر سے ان کا تجزیہ کریں۔ قرآنی اصول یہ ہے کہ ہم نہ تو دنیاوی طاقتوں سے مرعوب ہوں اور نہ ہی حالات سے مایوس۔ ہمیں خدائی وعدوں پر بھروسا ہونا چاہیے۔ ہماری رایوں اور فکر میں توازن ہوناچاہئے۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ان تبدیلیوں کے اندر کیا مواقع ہمارے لیے پوشیدہ ہیں اور ہمیں کہاں مزاحمت کرنی ہے۔

ایسا کیوں ہو رہا ہے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے

یہ کوئی نئی بات نہیں کہ عالمی طاقتیں اسلام کو دبانے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں۔ گذشتہ چند دہائیوں سے “اسلاموفوبیا” سکا غلبہ ہے۔ میڈیا میں منفی پراپیگنڈا، سیاسی حلقوں میں مسلمانوں کے خلاف پالیسیاں اور معاشرتی سطح پر نفرت کے واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسلام کو عالمی سطح پر ایک خطرہ سمجھا جا رہا ہے۔ اس کے پیچھے صرف مذہبی تعصب نہیں، بلکہ سیاسی اور اقتصادی مفادات بھی ہیں، جن کے لیے وہ اسلام کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔

آج اسلاموفوبیا کی شکل پہلے سے زیادہ پیچیدہ اور منظم ہو چکی ہے۔ دہشت گردی کے الزام کے ساتھ اسلام اور مسلمانوں کو جوڑا جا رہا ہے۔ مسلم ممالک کے خلاف جنگوں اور اقتصادی پابندیوں کو ایک ضروری اقدام قرار دیا جا رہا ہے۔ میڈیا کے ذریعے اسلام کو ایک انتہاپسند مذہب کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہاں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس فوبیا کو سمجھیں اور اپنی تحریکی جدوجہد میں اس کا موثر جواب دیں۔ تحریک اسلامی کا نقطہ نظر یہ ہے کہ اسلاموفوبیا جہاں ایک بڑا چیلنج لگتا ہے وہیں ایک اس کے جلو میں اسلام کی دعوت کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے سنہرے مواقع پائے جاتے ہیں۔

عالمی حالات میں کئی پہلو تشویش کا باعث ہیں، لیکن کچھ پہلو امید بھی دلاتے ہیں۔ آج اسلام کا پیغام تیزی سے دنیا میں پھیل رہا ہے، اور غیر مسلم ممالک میں بھی لوگ اسلام کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ حق کو ہمیشہ غالب کرے گا اور یہ وعدہ ہمیں پرعزم رکھتا ہے۔

تحریک اسلامی ہند کے موجودہ حالات میں کرنے کے اہم کام

۱۔ ڈیجیٹل فٹ پرنٹ

جہاں تک ہندوستان کی اسلامی تحریک کا تعلق ہے، اسے عالمی منظرنامے میں ایک خاص مقام حاصل ہے۔ آج کی دنیا حق کی شہادت کے عملی اور فکری نمونوں کی تلاش میں ہے۔ الحمدللہ، تحریک اسلامی ہند اپنی وسیع اور ہمہ جہت سرگرمیوں کی وجہ سے دیگر تحریکوں سے نمایاں مقام رکھتی ہے۔ جب عالمی سطح پر مختلف تحریکات کے سامنے تحریک اسلامی کی سرگرمیوں کا تعارف ہوتا ہے تو وہ حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ اس کے کام کا دائرہ کتنا وسیع ہے۔ مگر ڈیجیٹل دنیا میں ہماری موجودگی بہت کم زور ہے۔ اس کمی کو دور کرنے کے لیے ہمیں طاقت ور اہل زبان، تخصص یافتہ اہل قلم، زبردست فن کار، شاہ کار تخلیق کار، یوٹیوبر اور اثر آفریں شخصیات کی ایک کھیپ تیار کرنی ہوگی۔

یہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے کہ ہماری نوجوان نسل، چاہے لڑکے ہوں یا لڑکیاں، یہ طے کریں کہ وہ اس میدان میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کریں گے۔ ہر فرد کو اپنی استعداد کے مطابق کوئی نمایاں کام انجام دینا ہوگا تاکہ تحریک اسلامی کا پیغام جدید دور کے تقاضوں کے مطابق مؤثر انداز میں دنیا کے سامنے پہنچ سکے۔

۲۔ عملی نمونے

زندگی کے مختلف گوشوں میں اسلام کی عملی شہادت پیش کرنا تحریک اسلامی کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں چاہیے کہ زندگی کے مختلف شعبوں میں معیاری ادارے قائم کریں جو اسلام کی حقیقی تعلیمات کو عملی صورت میں پیش کریں۔ اسکول، اسپتال، فلاحی تنظیمیں، تعلیمی اور سماجی ادارے اس سمت میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان اداروں کے ذریعے ہم دنیا کے سامنے اسلام کا ایک واضح، روشن اور قابل تقلید نمونہ پیش کر سکتے ہیں، جو نہ صرف متاثر کرے بلکہ معاشرتی تبدیلی کا ذریعہ بھی بنے۔

۳۔ قیام عدل و قسط میں تحریک کا نمایاں کردار

تحریک اسلامی کو عدل و انصاف کے قیام میں نمایاں کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر تحریک اسلامی ہند ظلم کے ازالے اور عدل و قسط کے قیام کے لیے تھوڑی بھی پیش رفت کرتی ہے تو یہ ایک مثالی صورت بن سکتی ہے کہ کس طرح اسلامی دعوت کا کام پرامن اور باوقار انداز میں انجام دیا جا سکتا ہے۔

امت ایک عرصے تک دین اور سیاست کی جدائی کو قبول کرتی رہی ہے، مگر اب یہ احساس جاگزیں ہو چکا ہے کہ یہ جدائی امت کے لیے مہنگی ثابت ہو رہی ہے۔ امت کے اندر سیاسی شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرے اور عدل و قسط کی علم بردار بن کر ملک میں ایک مثبت کردار ادا کرے۔ یہی اسلامی تحریک کا اصل پیغام اور مشن ہے کہ سماج میں خیر، انصاف اور امن کا نظام قائم کیا جائے۔

۴۔ عملی بلیو پرنٹ پیش کرنا

تحریک کو علمی اور فکری میدان میں بھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیا صرف نظریات اور تقریروں سے متاثر نہیں ہوتی بلکہ عملی حل اور قابل عمل خاکوں کی تلاش میں رہتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ مختلف میدانوں میں عملی بلیوپرنٹ تیار کریں جو دنیا کو اسلام کی حقانیت کا واضح ثبوت پیش کریں۔

یہ بلیو پرنٹ معاشی، تعلیمی، سماجی اور سیاسی مسائل کا حل پیش کرتے ہوئے ایک قابل عمل نقشہ فراہم کریں۔ ہمیں نئے آئیڈیا اور منصوبے تخلیق کرنے ہوں گے تاکہ اسلام کے عادلانہ نظام کو عملی طور پر نافذ کرنے کا راستہ ہم وار ہو سکے۔

تحریک اسلامی ہند کو ان چار بنیادی نکات پر اپنی توانائیاں مرکوز کرنی ہوں گی تاکہ اس کے پیغام کو دورِ جدید کے چیلنجوں کے مطابق مؤثر اور جامع انداز میں پیش کیا جا سکے۔ یہ کام نہ صرف تحریک کی بقا بلکہ اس کے حقیقی مشن کی تکمیل کے لیے بھی ضروری ہے۔

مشمولہ: شمارہ جنوری 2025

مزید

حالیہ شمارے

جنوری 2025

شمارہ پڑھیں

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223