انسان دو طرح کی صفات کا مرکب ہے ، کچھ صفات وہ ہیں جو کسی ایک فرد کی شخصیت کے ساتھ چمٹی ہوئی ہیں ، وہ اس سے الگ نہیں ہو سکتیں ، ان صفات کو ہم صفات لازمہ سے موسوم کرسکتے ہیں ۔مثلاََ کسی کا طویل القامت ہونا اورکسی کا اس کے برعکس ہونا ، کالا اور گورا، عجمی وعربی ، شرقی وغربی ہونا وغیرہ ۔ یہ اور اس طرح کی صفات لازمی صفات ہیںلیکن ان صفات کی بنا پر فرد، فرد سے اور قوم ، قوم سے برتر وکم تر نہیں ہوتی ۔ اس لیے کہ ان کاتمام تردارومدارمشیت پر ہے اس میں انسان کا اپنا کوئی دخل نہیں ہے ۔ اگر وہ ان کو بدلنے کی کوشش بھی کرے تو نہیں بدل سکتا ۔ لہذا یہ بات عدل وحکمت کے خلاف ہے کہ ان اوصاف کی بنا پر کوئی قوم کسی قوم سے یاکوئی فرد کسی فرد سے برتری کا دعوی کرے اور ان کو باعث شرف وعار سمجھے ۔
برتری اور شرافت وفضیلت کی اساس ان صفات پر ہے جو کسبی ہیں ، جن سے متصف ہونے میں انسانی مساعی کا عمل دخل ہوتا ہے اور جنہیں پیدا کرکے انسان، انسان کامل بنتا ہے مثلاََایمان ، تقوی ، احسان ، اخلاق وکرادر ، علم وفن میں مہارت وغیرہ ۔ یہ صفات فطرت کا حصہ نہیں ہوتیں بلکہ پیدا کرنے سے وجود میں آتی ہیں اور دراصل یہی صفات انسانوں اور انسانوں کے درمیان فرق وامتیاز کی بناہیں۔انہی سے کسی دوسرے فرد پر فضیلت حاصل ہوتی ہے کیوں کہ ان صفات سے آراستہ ہونا ، ان میں آگے بڑھنا ایک ایسا عمل ہے جو ہر انسان کے بس میں ہے ، انسان عزم وارادہ ، اپنی سکت وقدرت اور اپنی سعی وکوشش سے جتنا چاہے اس میدان میں آگے بڑھ سکتا ہے اور دوسروں سے افضل اشر ف ہوسکتا ہے ۔
اللہ کی نگاہ میں سارے انسان مکرم ہیں اور تکریم کی وجہ آدم کی ابویت ہے اس لیے عدل کہتا ہے کہ چونکہ اس میں سارے انسان برابر ہیں اس لیے اس کی وجہ سے کوئی افضل وارذل نہیں ہوگا ۔ہاں یہ تکریم اللہ کی معرفت کا زینہ ـضرور ہے ، انسان علم وتقوی پیدا کر کے ایک دوسرے سے افضل ،ممتاز اور متفوق بن سکتا ہے ۔ چنانچہ قرآن پاک نے اس کی صراحت بھی کردی ، فرمایا : ’’اے لوگو! ہم نے تمہیںایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں قبیلوں و برادریوں میں بانٹ دیا تاکہ تم ایک دوسرے سے متعارف ہوسکو ، مگر اللہ کے نزدیک اکرم ومعزز وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے‘‘ ۔(الحجرات/۱۳)
گویا ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا ہونا اور شعوب وقبائل میں تقسیم ہونا فطری ولازمی اوصاف ہیں اور تقوی اکتسابی ہے اس لیے یہ صفت جتنی زیادہ ہوگی اسی نسبت سے انسان محبوب خدا ہوگا ۔
ایک جگہ فرمایا :’’کیا وہ جو راتوں میں قنوت کرتا ہے اور کبھی سجدہ میں پڑا ہوتا ہے ، کبھی دست بستہ کھڑا ہوتا ہے ، آخرت کے تصور سے اس پر لرزہ طاری رھتا ہے اور اپنے رب کی رحمت کا ا میدوار ہوتا ہے ۔(اور جو ان اوصاف سے عاری ہے ) برابر ہوسکتے ہیں ۔ کہہ دو ، اصحاب علم اور اہل جہل برابر نہیں ہیں ، نصیحت صرف ان لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جن کے پاس عقل ودانش ہے‘‘ ۔ یہ امت مسلمہ ، خیر امت ہے جس کے برپا کیے جانے کا مقصد لوگوں کی بھلائی ہے ۔ یہ خیر لازمی نہیں بلکہ اکتسابی ہے ، اور جب تک امت ا سے حاصل نہ کرے ، وہ خیر امت نہیں ہوگی ، یہ برتری اسے خون ، جنس ، رنگ یا نسل کی بنیاد پر حاصل نہیں ہے ۔ اسلوب قرآن بتاتا ہے کہ یہ لقب کچھ شرطوں کے ساتھ مشروط ہے یعنی اگر وہ شرطیں موجود ہیں تو امت خیرامت ہوگی ورنہ نہیں۔
(۱) پہلی شرط یہ ہے کہ امت ایمان میں کامل ہو ۔ اگرا س کے اند ر کمال ایمان وارکان ایمان کی شرط پوری نہیں ہوتی تو وہ خیر امت نہیں ہوگی ۔ (۲) پھر اپنے ایمان کو ترقی دے کیونکہ ایمان کو ئی جامد شئی نہیں ہے بلکہ یہ گھٹتا بڑھتا ہے ۔ (الایمان ینقص ویزید) اور تقویٰ کے مقام بلند پر فائز ہوجائے ، جو روح ایمان ہے اور جو صاحب ایمان کو ہربُری چیز سے دور رکھتا ہے اورجس کا نہ ہونا موجب غضب ہے اور اس کے بھی مدارج ہیں اس کا بلند ترین اور مطلوب درجہ یہ ہے کہ تقوی کا حق ادا کردیا جائے۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۔(آل عمران:۱۰۲)
اور کم سے کم یہ کہ حسب قدرت تقوی اختیار کیا جائے ۔
فَاتَّقُوا اللہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِيْعُوْا وَاَنْفِقُوْا خَيْرًا لِّاَنْفُسِكُمْ۰ۭ وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۔(تغابن:۱۶)
اس استطاعت میں بھی اہل تقوی یکساں نہیں ہیں ، اس میں بھی فرق مراتب ہے ۔
۳۔ تیسری شرط یہ ہے کہ مذکورہ تقوی ، متقی کی ذات تک محدود نہ ہو کہ اسلام ، اجتماعیت کا دین ہے ، اس کے بیشتر احکام اجتماعی ہیں اور ان کی ا قامت کے لیے امت اور اجتماعیت درکارہے اس لیے خیر امت ہونے کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ الفت ومحبت ، اتحاد و اجتماعیت اور اعتصام بحبل اللہ کی فضا عام کی جائے ۔
۴۔چوتھی شرط جو تمام واجبات کی جامع اور ہر عمل اجتماعی کے لیے مطلوب ہے وہ یہ ہے کہ یہ امت ، خیر امت اس لیے ہے کہ یہ معروف کو پھیلاتی اور منکر کے ازالے کی سعی وجہد کرتی ہے ، عدل کاقیام ، اسلامی فکر وعقیدہ کی اشاعت ، گھر وخاندان ، معاشرہ اور حکومت وریاست میں شورائیت اور اجتماعی تکافل جس سے انسانی طبقات میں توازن قائم رہے اور ہر طرح سے امت ، جسد واحد بن جائے ، ایک کی تکلیف پوری امت کی تکلیف ا ور ایک کا غم ساری امت کا غم قرار پائے اور مختلف شعبہ ہائے حیات میں عقیدہ وفکر کی آزادی کا بول بالا ہو ۔ مظلومین کی حمایت اور کمزوروں کی داد رسی اور حسنات میں مسابقت ہی دنیا وآخرت کی سعادت کی ضامن ہے ۔
یہ وہ فرائض ہیں جن کی مکلف پوری امت ہے اور جن کے مخاطب تمام مرد و خواتین ہیں ۔
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ۰ۘ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكٰوۃَ وَيُطِيْعُوْنَ اللہَ وَرَسُوْلَہٗ۰ۭ اُولٰۗىِٕكَ سَيَرْحَمُہُمُ اللہُ۰ۭ اِنَّ اللہَ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ۔ (التوبہ:۷۱)
ان فرائض کی ادائیگی کے بعد اور ان اوصاف سے متصف ہونے کے بعد ہی امت ، خیر امت ہوسکتی ہے ۔ قرآن پاک نے جہاں امت کو خیر امت کا خطاب دیا ہے وہیں یہ ذمہ داریاں بھی واضح کی ہیں۔ (ال عمران /۱۰۲۔۱۱۰)مذکورہ آیتو ں کاحاصل خلاصہ یہ ہے کہ :
اولََا ؛ وہ ایمان پیدا کیاجائے جو سارے انسانی اعمال کو رائیگاں ہونے سے بچاتا ہے ۔ثانیََا ؛ عمل صالح جس کا لازمی جُز امر بالمعروف اور نھی عن المنکر ہے ۔ یہ دونوں صفات کسبی ہیں اللہ کے سارے بندوں کے سامنے دروازہ کھلا ہوا ہے کہ وہ ایمان لاکرخیرامت کا حصہ بن جائیں۔
اہم پہلو
قرآن مجید نے خیر امت ہونے کی حیثیت سے جہاں امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کی ذمہ داری عائد کی ہے وہاںا یک لفظ آیا ہے جس پر ہمارے مفسرین کے درمیان اختلا ف ہے ، وہ لفظ ہے ’’مَن ‘‘وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْر ۔(ال عمران /۱۰۴)
مفسرین کاایک گروہ ِ من‘‘ کو بیانیہ مانتا ہے اور کہتا ہے کہ پوری امت اور امت کا ایک ایک فرد خیر امت ہے اور دعوت الی الخیر سب کی ذمے داری ہے ۔جبکہ دوسرے گروہ کے نزدیک ’’من ‘‘ تبعیض کے لیے ہے اس لحاظ سے امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کا فریضہ صرف خواص امت پر عائد ہوتا ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ’’من‘‘ تبعیض کا ہے کہ بیانیہ اور اس سے عمل میں کیا فرق واقع ہوتا ہے ۔
اگر بیانیہ ہے تو ہر فردا مت خود امرونہی کا مکلف ہے اور تبعیض کی صورت میں بھی یہ افراد امت اس بات کے مکلف ہیں کہ پوری امت سے ان افراد کو منتخب کریں جو اس فرض کو انجام دیں تاکہ اس کا نفاذ ممکن ہوسکے ۔ ان مخصوص افراد امت کا انتخاب پوری امت پر فرض ہے تاکہ وہ بھی اس خیر میں ان کی شریک وسہیم ہوسکے اورایسا کرنے میں کوئی عملی دشواری بھی سمجھ میں نہیں آتی ، ہر بستی کے لوگ اجتماعی طور پر اپنے میں سے کسی ایک یا اس سے زائد افراد کواس کام پر باآسانی مامور کرسکتے ہیں اور یہ منتخب افراد مجتمع ہوکر پورے اتحاد وقوت کے ساتھ اس فر یضہ کو اداکرسکتے ہیں :
ضروری اوصاف
اس اہم فریضہ کی ادائی کے لیے ا مت ضرورتمند ہے ۔ (۱)دین کی کامل واقفیت جس کی وہ دعوت دے رہی ہے ۔(۲) معاصر حالات کا علم جس کی طرف توجہ مبذول کرانا ہے ۔ (۳) مخاطب کی نفسیات سے واقفیت۔(۴) مضبوط سیرت و کردار (۵) علوم وفنون پر مکمل دستگاہ ۔ (۶)زمینی تقویم ۔(۷) مدعوقوم کی زبان سے واقفیت ۔
اس لحاظ سے مذکورہ بالا تفسیر کی روشنی میں امت کے دوکام قرار پائے ، ایک کا تعلق پوری امت سے ہے اور دوسرے کا امت کے ان مخصوص افراد سے ہے جو یہ کام انجام دیں گے ۔تمام مومنین کے مخاطب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہر فرد دوسرے کامراقب ، مصلح اور خیر خواہ ہے ۔ صدر اول کے مسلمانوں کا یہی معاملہ تھا کہ عام چرواہا بھی خلیفہ وقت کو ٹوک دیتا تھا کیونکہ خلیفہ ہونے کامطلب معصومیت نہیں ہے ۔ اس طرح سے یہ خیر، امت میں عام ہوسکتا ہے اور پوری امت ، خیر امت بن سکتی ہے ۔
مشمولہ: شمارہ جولائی 2014