ہم جب بھی کوئی مشین یا پروڈکٹ خریدتے ہیں جیسے کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، واشنگ مشین وغیرہ تو ان مشینوں کو صحیح اور ٹھیک ڈھنگ سے Operateکرنے کے لیے ان مشینوں کوبنانے والی کمپنیاں ہم کو اس کا ایک ہدایت نامہ بھی مہیا کرتی ہیں، جس میں ان مشینوں کی ساخت ان کا فنی تعارف اور ان مشینوں کو Operateکرنے کی تمام ہدایتیں موجود ہوتی ہیں۔ اکثرکسی تربیت یافتہ (Representative) کوبھی بھیجاجاتاہے، جو تمام تفصیلات کی تعلیم بھی دیتاہے اور ان مشینوں کو خود Operateکرکے دکھاتاہے۔ تاکہ تمام لوگ ان مشینوں کو ٹھیک ٹھیک استعمال کریں اور ان مشینوں سے وہ تمام فائدے حاصل ہوں جن کے حصول کے لیے یہ مشینیں ایجاد کی گئی ہیں۔ جب کبھی ان مشینوں میں کوئی خامی یا بگاڑ پیدا ہوجاتاہے تو ان کو درست کرنے کے لیے بھی ہدایت نامے کی طرف رجوع کرنا پڑتاہے اوراُس میں درج ہدایات کی روشنی ہی میں ان کو ٹھیک اوردرست کیاجاتاہے۔
اس مثال کی روشنی میں ہم اگر غور کریں تو معلوم ہوگا کے بنی آدم انسان بھی اس سرزمین پر زندگی گزارنے والا ایک پیچیدہ وجود ہے، جس کی تخلیق ایسی ہستی نے کی ہے جو نہایت دانا وحکیم اور زبردست طاقت و قوت والا ہے ۔
’’اللہ وہ زندہ جاوید ہستی ہے، جو تمام کائنات کو سنبھالے ہوئے ہے اُس کے سواکوئی خدا نہیں ہے، وہ نہ سوتا ہے اور نہ اُسے اونگھ لگتی ہے، زمین اور آسمانوں میں جو کچھ ہے اُسی کا ہے۔ کون ہے جو اُس کی جناب میں اُس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے؟ جو کچھ بندوں کے سامنے ہے اسے بھی وہ جانتا ہے اور جو کچھ اُن سے اوجھل ہے اس سے بھی وہ واقف ہے۔ اور اُس کی معلومات میں سے کوئی چیز اُن کی گرفت ِ ادارک میں نہیں آسکتی اِلاّ یہ کہ کسی چیز کا علم وہ خود ہی اُن کو دینا چاہے۔ اُس کی حکومت آسمانوں اور زمین پر چھائی ہوئی ہے اور اُن کی نگہبانی اس کے لیے کوئی تھکادینے والا کام نہیں ہے۔ بس وہی ایک بزرگ وبرتر ذات ہے۔ ‘‘ ﴿البقرہ:۲۵۵﴾
خالق کائنات کی مخلوق انسان کو بھی ایک خاص مقصد کے تحت وجود میں لایا گیاہے۔ اس کی بقا وارتقا کے لیے خالق نے اس کو بہترین ساخت بخشی۔ متناسب بنایا اور جس صورت میں چاہا اُس کو جوڑکر تیار کیا اور اس کی بہترین کارکردگی کے لیے ایک اعلیٰ ہدایت نامہ بھی مہیا کیا۔ جس طرح انسانوں کی تخلیق کردہ مشین ہدایت نامے کے بغیر اپنی کارکردگی ٹھیک ڈھنگ سے انجام نہیں دے سکتی، اسی طرح خالق کائنات کا یہ بندہ انسان بھی اُس کے مہیا کردہ ہدایت نامے کے بغیر نتیجہ خیز اور کامیاب زندگی سے ہم کنار نہیں ہوسکتا۔ اِس ہدایت کے بہت سے پہلو ہیں۔ چند کاتذکرہ کیاجارہاہے:
۱- کارکو چلانے کے لئے پٹرول اور ایندھن درکا ہے۔موبائل فون کو زندہ رکھنے کے لیے بیٹری کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح قدرت کے اس انمول شاہ کار انسان کو بھی کھانے پینے کی ضرورت ہے۔ فرمایا:
’’ زمین کو اس نے سب مخلوقات کے لیے بنایا اس میں ہر طرح کے بکثرت لذیذ پھل ہیں۔ کھجور کے درخت ہیں جن کے پھل غلافوں میں لپٹے ہوئے ہیں ۔ طرح طرح کے غلے ہیں جن میں بھوسا بھی ہوتاہے اور دانہ بھی۔‘‘ ﴿سورۃ الرحمٰن ۱۰- ۱۲﴾ ’’اور حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لئے مویشیوں میں بھی ایک سبق ہے ان کے پیٹوں میں جو کچھ ہے اس میں سے ایک چیز ہم تمہیں پلاتے ہیں اور تمہارے لیے ان میں بہت سے دوسرے فائدے بھی ہیں ان کو تم کھاتے ہو اور ان پر اور کشتیوں پر سوار بھی کئے جاتے ہو۔ ﴿المومنون:۲۱ ، ۲۲﴾
۲-خالق ومالک نے ‘انسان’ کو یہ بھی بتایا کہ وہ فلاں فلاں چیزیں نہ کھائے۔ یہ حرام ہیں، جس کے کھانے سے اُس کی طبعی ساخت بگڑجائے گی اور وہ اخلاقی گراوٹ میں مبتلا ہوجائے گا۔
﴿الف﴾ اللہ کی طرف سے اگر کوئی پابندی تم پر ہے تو وہ یہ ہے کہ مردار نہ کھائو۔ خون سے، سور کے گوشت سے پرہیز کرو اور ایسی کوئی چیز نہ کھائو جس پر اللہ کے سواکسی اور کانام لیاگیاہو۔ ﴿سورۃ البقرہ ۱۷۳﴾ ﴿ب﴾ تم پر حرام کیاگیاہے مردار، خون ، سورکا گوشت وہ جانور جو کسی اور کے نام پر ذبح کیاگیا ہو اور جو گلاگھونٹ کر، چوٹ کھاکر، یا بلندی سے گِر کر یا ٹکر کھاکے مراہو یا جسے درندے نے پھاڑا ہو﴿سورۃ المائدہ ۲﴾ ﴿پ﴾ اے لوگوں جو ایمان لائے ہو یہ ’’شراب‘‘ یہ جوا اور یہ آستانے اور پالے یہ سب گندے اور شیطانی کام ہیں ان سے پرہیز کرو اُمید ہے فلاح نصیب ہوگی ۔ ﴿ المائدہ: ۰۹﴾
۳-پروردگار نے مرد اور عورت کو پیداکیا۔ دونوں کے ملاپ سے ہی سکون حاصل ہوتاہے۔ چنانچہ کتاب ہدایت کہتی ہے:
﴿الف﴾ ’’اللہ کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے لیے خود تمھی میں سے جوڑے بنائے تاکہ تم اُن کے پاس سکون حاصل کرسکو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی ہے۔ یقینا اس میں بہت سی نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرتے ہیں ﴿سورہ الروم ۲۱﴾۔ ﴿ب﴾ عورتیں تمہارے لیے لباس ہیں اور تم اُن کے لیے لباس ہو ‘‘ ﴿البقرہ :۱۷۸﴾
خالق نے انسان کو محبت وسکون اور جنسی داعیہ کی تسکین کے لیے نکاح کرنے کا حکم دیاہے۔ اس نے انسان کو جانوروں کی طرح آزاد نہیں چھوڑا کہ فطرت کے ان تقاضوں کو جس طرح اور جہاں چاہو اور جس سے چاہو پورا کرو۔ اگر آج ہم دنیا پر نظر دوڑاکر دیکھیں تو مرد اور مرد اور عورت اور عورت کے باہم جنسی سکون حاصل کرنے کی کوشش کے نتیجے میں مہلک اور خطرناک بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔
’’ اورلوط کو ہم نے پیغمبر بناکر بھیجا۔ پھر یاد کرو جب اس نے اپنی قوم سے کہا ’’کیا تم ایسے بے حیا ہو گئے ہو کہ وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا؟ تم عورتوں کو چھوڑکر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو’’ مگر اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ‘‘نکالوان لوگوں کو اپنی بستیوں سے ، بڑے پاک باز بنتے ہیں ۔‘‘ ﴿ الاعراف :۸۰-۸۲﴾
اس کا انجام کیاہوا۔ خالق نے آندھی اور طوفان کے ذریعے اس قوم کی بستیاںتلپٹ کردیں اور نام ونشاں تک مٹادیا۔
۴-مشین کے لیے کام کرنے کے اوقات متعین ہوتے ہیں اور اگروہ لگاتار چلتی رہے گی تو اس کے پرزے بگڑ جانے کے امکانات ہوتے ہیں۔ اس طرح خالق کائنات نے بھی انسان کو یہ ہدایت دی ہے :
﴿الف﴾ ’’یہ اس کی رحمت ہے کہ اس نے تمہارے لیے رات اور دن بنائے تاکہ تم رات میں سکون حاصل کرو اور دن کو اپنے رب کا فضل تلاش کرو۔شاید کہ تم شکر گزار بنو’’﴿القصص:۷۳﴾ ۔﴿ب﴾ ’’اور تمہاری نیند کو باعث سکون بنایا’’﴿ النساء:۸﴾
۵-اگر کوئی مشین خراب ہوجائے تو اُسے ٹھیک کرنے کے لیے ہدایت نامے کو Refer کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ ماہر Representativeکی مدد لی جاتی ہے۔ اسی طرح انسانوں کے اندر بھی کوئی فساد یا تنازع برپا ہوجائے تو اس کے حل کے لیے ان کا خالق،مالک اور پروردگار فرماتاہے:
’’پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملے میں نزاع ہوجائے تو اسے اللہ اور رسول ﷺ کی طرف پھیردو اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو۔ یہی ایک صحیح طریقہ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے’’۔ ﴿النساء: ۵۹﴾
۶-تاریخ انسانی اس بات کی گواہ ہے کہ خالق کی ہدایات کو نظرانداز کرتے ہوئے جب بھی انسان نے اپناسفر شروع کیاتو کبھی وہ افراط پر اتر آیا ہے اوراپنے آپ کودنیا کی سب سے بلند ہستی سمجھ لیا۔ غرور وتکبر اور سرکشی کی ہوااس کے دماغ میںبھر گئی۔ جبروقہر کا دیوتا ظلم وجور اور شروفساد کا مجسمہ بن گیا۔ کبھی تفریط کی جانب مائل ہوا تو اپنے آپ کو دنیا کی سب سے ذلیل ہستی سمجھ لیا۔ درخت، پتھر، آگ، چاند، سورج، ستارے ، پہاڑ، جانور غرض ہر چیز کے سامنے گردن جھکا دی ہے۔افراط وتفریط کے ان انتہائی تصورات کو باطل قرار دے کر پروردگار انسان کی اصل حقیقت اس کے سامنے کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’انسان اپنی حقیقت تو دیکھے کہ کس چیز سے پیدا ہواہے؟ ایک اچھلتے ہوئے پانی سے جو پشت اور سینے کی ہڈیوں کے درمیان سے کھینچ کرآتاہے ۔’’﴿ الطارق﴾‘‘ کیا تم نے اُس نطفے پر غور کیاجسے تم عورتوں کے رحم میں ٹپکاتے ہو؟ اس سے بچے تم پیداکرتے ہو یا ہم اس کو پیدا کرنے والے ہیں ؟ ہم نے ہی تمہارے درمیان موت کا اندازہ مقرر کیاہے اور ہم اس سے عاجز نہیں ہیں کہ تمہاری جسمانی شکلیں بدل دیں اور ایک اور صورت میں تم کو بنادیں جس کو تم نہیں جانتے اور تم اپنی پہلی پیدائش کو تو جانتے ہی ہو پھر کیوں نہیں اس سے سبق حاصل کرتے ؟ پھر کیا تم نے دیکھا کہ یہ کھیتی باڑی جو تم کرتے ہو اس کو تم اُگاتے ہو یا اُگانے والے ہم ہیں؟ اگر ہم چاہیں تو اس کو بھوسی بنادیں اور تم باتیں بناتے رہ جائو کہ ہم نقصان میں رہے بلکہ محروم رہ گئے۔ پھر کیا تم نے اُس پانی کو دیکھا جسے تم پیتے ہو اس کو تم نے بادلوں سے اُتارا ہے یا اُتارنے والے ہم ہیں؟ اگر ہم اسی کو چاہیں تو کھاری بنادیں۔ پس کیوں نہیں شکراداکرتے ۔ پھر کیاتم نے اس آگ کو دیکھا ہے جسے تم سلگاتے ہو ؟ جن درختوں سے یہ جلائی جاتی ہے ان کو تم نے پیداکیا ہے یا پیداکرنے والے ہم ہیں؟ ہم نے اس کو ایک یاددلانے والی چیز اور مسافروںکے لیے سامان زیست بنایاہے۔ بس اے انسان!اپنے خدائے بزرگ کی تسبیح کرو۔‘‘ ﴿الواقعہ:۲﴾
اس طرح انسان کے غرور وتکبر کو توڑا گیا ۔ اُسے توجہ دلائی گئی کہ ذرا اپنی حقیقت تو دیکھ۔ ایک نجس اورحقیر پانی کا قطرہ جو رحم مادر میں مختلف قسم کی نجاستوں سے پرورش پاکر گوشت کا ایک لوتھڑا بنتاہے۔ اس کا خالق اس لوتھڑے میں جان ڈالتا ہے۔ اس میں حواس پیداکرتاہے اور ان قوتوں سے اس کو مسلح کرتاہے جن کی انسانی زندگی میں ضرورت ہوتی ہے۔ یہ ہوا، پانی ، روشنی ، زمین کی پیداواریہ قدرتی سازوسامان جن پر اس انسان کی زندگی کا انحصار ہے، ان میں سے کوئی بھی اس کے بس میں نہیں ہے۔جب یہی چیزیں اس کے خلاف آمادۂ پیکار ہوجاتی ہیں تویہ اپنے آپ کو ان کے مقابلے میں بے بس پاتاہے۔ ایک ہوا کا جھکڑ اس کی بستیوںکو تہ وبالا کردیتاہے، ایک پانی کا طوفان اسے غرقاب کردیتاہے اور ایک زلزلے کا جھٹکا اسے پیوندخاک کردیتاہے۔
دوسری طرف تفریط کی وجہ سے پیداہونے والی غلط فہمی بھی دور کی گئی۔ انسان اتنا ناقص اور ذلیل بھی نہیں جتنا اس نے اپنے آپ کو تفریط کے جال میں پھنس کر سمجھ لیاہے۔
’’وہی ہے جس نے آسمان سے پانی اُتارا۔ اس میں سے کچھ تمہارے پینے کے لیے ہے اورکچھ درختوں کی پرورش کے کام آتاہے۔ جن سے تم اپنے جانوروں کا چارہ حاصل کرتے ہو۔ اس پانی سے خدا تمہارے لیے کھیتی اور انگور اور طرح طرح کے پھل اگاتا ہے۔ ان چیزوں میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو غوروفکر سے کام لیتے ہیں۔ اُس نے تمہارے لیے رات دن اور سورج و چاند اور تارے مسخر کیے ہیں ۔ یہ سب اسی خدا کے حکم سے مسخر ہیں۔ ان میں نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو عقل سے کام لیتے ہیں اور بہت سی وہ مختلف الالوان چیزیں جو اُس نے زمین میں تمہارے لیے پیداکی ہیں۔ ان میں سبق حاصل کرنے والوں کے لیے بڑی نشانیاں ہیں اور وہ اللہ ہی ہے جس نے سمندر کو مسخر کیاکہ اس سے تم تازہ گوشت ﴿مچھلی﴾ نکال کر کھائو اور زینت کا سامان ﴿موتی وغیرہ﴾نکالو جن کو تم پہنتے ہواور تو دیکھتا ہے کہ کشتیاں پانی کو چیرتی ہوئی سمندر میں بہتی چلی جاتی ہیں۔ چنانچہ سمندر کو اس لیے بھی مسخر کیا ہے کہ تم لوگ اللہ کا فضل تلاش کرو ﴿یعنی تجارت کرو﴾ شاید کہ تم شکر بجالائو۔ اُس نے زمین میں پہاڑ لگادیے کہ زمین تم کو لے کر جھک نہ جائے اور دریا اور راستے بنادیئے کہ تم منزلِ مقصود کی راہ پائو اور بہت سی علامات بتائیں تارے بھی ہیں جن سے لوگ راستے معلوم کرتے ہیں۔ اور اگر تم خدا کی نعمتوں کا شمار کروتو ان کو بے حساب پائو گے۔ ﴿ النحل :۱ تا ۲﴾ ‘‘ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو خشکی اور تری میں سواریاں دیں اور ان کو پاک چیزوں سے رزق عطا کیا اور بہت سی اُن چیزوں پر جو ہم نے پیدا کی ہیں ان کو ایک طرح کی فضیلت عطاکی۔’’ ﴿بنی اسرائیل: ۷﴾
ان تفصیلات اورInstructionکے ذریعے سمجھایاگیاہے کہ اس زمین میں جتنی چیزیں ہیں وہ سب انسان کی خدمت اور فائدے کے لیے مسخر کی گئی ہیں۔ خالق کائنات کا یہ بندہ انسان اپنے بنانے والے مالک کا اس زمین پر نائب وخلیفہ ہے۔ نائب وامین خود مختار نہیں ہوتا کہ اپنی مرضی سے جو چاہے کرے۔ بلکہ وہ اپنے مالک کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے۔ اس کو اپنے ہر فعل کا حساب دینا ہوتاہے۔ لہٰذاانسان اپنے مالک کا نائب ہونے کی حیثیت میں اُس کا فرمانبردار بنے، اس کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کرے اور اُس کی تمام تر حرکت وعمل ٹھیک ٹھیک اُس کی ہدایت کے مطابق ہو۔ تاکہ وہ کسی بھی قسم کی افراط وتفریط میں مبتلا نہ ہونے پائے۔اول روز سے ہی اس کے لیے وقتاًفوقتاًاپنے Representatives ﴿انبیائ﴾ بھی بھیجتا رہا جو اس کو صحیح زندگی گزارنے کا طریقہ بتاتے رہے اور سب سے آخر میں حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کو بھیجا۔
’’تمہارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا جو تمہیں میری آیات سناتاہے۔ تمہاری زندگیوں کو سنوارتا ہے۔ اور تمہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ اور تمہیں وہ باتیں سکھاتاہے۔ جو تم نہ جانتے تھے۔ ﴿البقرہ﴾
دنیا میں بہت سی مذہبی کتابیں موجود ہیں۔ان میں سے کچھ تو اپنی اصل شکل اور حالت میں موجود نہیں ہیں۔ کچھ میں ردوبدل ہوا ہے اور کچھ حذف اوراضافے کا شکار ہوئی ہیں اور کچھ میں تحریف کی گئی ہے۔ مگر قرآن مجید آج سے چودہ سوسال پہلے اللہ کے آخری نبی حضرت محمدﷺ پر جس طرح نازل ہوا آج بھی بلا کسی کمی بیشی کے اپنی اصلی حالت میں موجود اور محفوظ ہے۔
’’ رہا یہ ذکر تو اسکو ہم نے نازل کیاہے اور ہم خود اسکے نگہبان ہیں ‘‘۔﴿الحجر: ۹﴾
اگر برطانیہ سے ایک قرآن لایاجائے اورہندستان میں ایک قرآن مجید کا ایک نسخہ لے کرملایاجائے تو زیروزبر کا بھی فرق نہیں ملے گا۔ اسی طرح امریکہ میں ایک قاری کو قرآت کرنے کے لئے کہاجائے اور جاپان میں قرآن کھول کر سنا جائے تو ایک پیش اور زیرکا بھی فرق نہیں ملے گا۔ ’’قرانِ مجید ایک معجزہ ہے‘‘جس انسان نے بھی ہدایت پانے کے غرض سے اس کو پڑھا،اُس کی دنیا ہی بدل گئی۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہ اس دنیامیں سب سے بڑی انقلابی کتاب ہے۔ اس کے سلسلے میں پروردگار انسانوں کوچیلنج کرتاہے :
اوراگر تمہیں اس امر میں شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم اپنے بندے پر اتاری ہے ہماری ہے یا نہیں تو اس کے مانند ایک ہی سورت بنالائو اپنے سارے ہم نوائوں کو بلالو۔ ایک اللہ کو چھوڑکر باقی جس جس کو چاہے مددلے لو اگر تم سچے ہوتو یہ کام کرکے دکھائو ﴿البقرہ :۲۲﴾
اس چیلنج کو آج تک کسی انسان نے قبول نہیں کیاہے اور قیامت تک کوئی قبول نہیں کرے گا۔ کیونکہ اس کا مصنف اللہ ہے۔ اس نے خود فرمایاہے: ’’اس کتاب کا نزول اللہ کی طرف سے ہے جو زبردست اور حکیم ہے’’۔ ﴿الجاشیہ :۲﴾
آج انسانی سماج کابگاڑ آخری درجے تک پہنچ چکا ہے۔ اس کی صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ یہ کہ اس انسانی سماج میں بسنے والے انسان خالقِ کائنات کے بھیجئے ہوے۔ قرآن مجید کو چھوڑچکے ہیں۔ انسان اس سے جڑکر ہی کام یابی و سرخ روئی سے ہم کنار ہوسکتا ہے۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2010