کچھ یادیں کچھ باتیں

حاجی مرزا بشیر بیگ مرحوم

جان کر من جملہ خاصاں میخانہ مجھے

مدتوں رویا کریں گے جامِ و پیمانہ مجھے

 وہ تربیت جو انسانوں پر اثر انداز ہوتی ہے ۔اچھے اور نیک عملی نمونوں سے عبارت ہے۔میرے مرحوم والد حاجی مرزا بشیر بیگ صاحب پنج وقتہ نمازی اور صاحب کردار انسان تھے ۔ان کا صبح تہجد میں اٹھنا اور صبح فجر میں (اٹھنا اور) جگادینا میری زندگی کے معمول کا مشاہدہ تھا ۔جو علی گڑھ کی دس سالہ تعلیم اور تربیت میں کام آیا ۔

والد مرحوم ایک اچھے ماہر خیاط (ٹیلرماسٹر)تھے ۔شہر کے افسران جن میں ڈی ایم اور ایس پی ، پرنسپل ،ڈاکٹر ،پروفیسر ،جج سبھی شامل تھے ،ان کے پاس سبھی کپڑے سلوانے آتے تھے ۔گر اہنک کے کپڑے سینے کے بعد کچھ کپڑا بچا تو اسے واپس دے دیا جاتا تھا۔ان کی ایمانداری اور اخلاق کے لوگ قائل تھے۔ایک بار ایک لیکچر ار اپنا سوٹ مرمت کے لئے دوکان پر لے گئے ۔اس سوٹ کی جیب سے زیور نکلا اسے کاریگر نے واپس لاکر والد صاحب کو دیا کہ اس سوٹ کی جیب سے نکلا ہے ۔وہ لیکچرار صاحب دوکان پر دوڑے ہوئے دوسرے دن آئےاور دریافت کیا کہ میرا سوٹ کہاں ہے۔والد صاحب نے پریشانی کی وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ شادی کے موقع پر ان کی اہلیہ نے اپنا زیور سوٹ کی جیب میں ڈال دیا تھا۔اور وہ اسے بھول گئی تھیں۔والد صاحب نے وہ زیور جس کاریگر نے لا کر دیا تھا۔اس کا تعارف کروایا ۔کہا کہ فکر نہ کیجئے ہمارے یہاں کے کاریگر ایماندار ہیں۔آپ کا زیور محفوظ ہے۔

1975ء کا واقعہ ہے۔والد مرحوم جماعت اسلامی کے رکن تھے ۔ ایمرجنسی میں جماعت اسلامی  و آر ایس ایس پر پابندی لگی تو متھرا کے ڈی ایم نے آر ایس ایس کے لوگوں کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا ۔رہے جماعت اسلامی کے ارکان تو جماعت اسلامی کی فہرست میں والد صاحب کا نام خفیہ محکمے نے ڈی ایم صاحب کو دکھا یا ۔ ڈی ایم صاحب کو یقین نہیں آیا اور انہوں نے فہرست سے نام کاٹ دیا ۔ دوبارہ تصدیق کرنے کے بعد پھر وہی نام سامنے آیا ۔پھر ڈی ایم صاحب نے انہیں بلا کر کہا کہ آپ کا جماعت اسلامی سے کیونکر تعلق ہو سکتا ہے ۔آپ تو شریف آدمی ہیں۔آپ جائیں ،بعد میں ڈی ایم صاحب کو تار کے ذریعے بالائی حکم ملا ،جس میں والد صاحب کی گرفتاری کا حکم دیا گیا تھا ۔ڈی ایم باگلا صاحب نے والد صاحب کو بلا کر کہا کہ آپ میرے بیٹے کو تاج محل آگرہ گھما کر لائیں ۔والد صاحب ان کے بچے کو آگرہ لے کر چلے گئے جب دیر رات تک گھر نہیں آئے تو ہم لوگوں کو فکر لاحق ہوئی ۔میرے چچا نصیر بیگ صاحب اور میں ڈی ایم کے معاون کے یہاں پہنچنے جو شہر میں رہتے تھے۔پتہ چلا کہ حاجی بشیر بیگ صاحب کو ڈی ایم صاحب کے ساتھ صبح دیکھا گیا تھا اور وہ ان کے بیٹے کے ساتھ کہیں جا رہے تھے ۔دیر رات جب والد گھر پہنچنے تو آگرہ کے سفر کا پتہ چلا ۔ڈی ایم صاحب لکھنو چلے گئے تھے۔وہاں تاروالی اطلاع غلط ثابت ہوئی کہ آپ کو گرفتار کیا جائے ۔والد صاحب کو واپسی پر بلا کر بتایا کہ سرکار کی طرف سے کوئی آرڈر نہیں تھا ۔لہٰذا والد صاحب کی کوئی گرفتاری نہیں ہوئی ۔

۱۹۹۲ء میں جماعت پر پھر پابندی لگی تو والد صاحب کی بھی گرفتاری ہوئی ۔جس کے لئے والد صاحب سامان سفر ہر وقت سوٹ کیس میں تیار رکھتے تھے ۔متھرا میں اصلاح معاشرہ کے عنوان پر چار بار سمپوزیم امرناتھ پبلک اسکول میں منعقد ہوئے جس میں تمام مذاہب کے نمائندے شریک ہوئے ۔ اسلام کی نمائندگی کے لئے دوبار سید حامد حسین صاحب ،ایک بار حامد علی صاحب اور ایک بار محمد شفیع مونس صاحب دہلی اور ڈاکٹر اسرار احمد خان صاحب علی گڑھ شامل ہوئے ۔دیگر مذاہب کے لوگوں نے ان علماء کی تقریر کو سراہا اور گرویدہ ہو گئے ۔

دینی تعلیمی کونسل اتر پردیش کے تعاون سے متھرا میں ایک اسکول کا قیام عمل میں آیا ۔اس کے لئے حاجی صاحب نے اپنا گھر دے دیا ۔اسکول کا انتظام والد صاحب نے خود سنبھالا اور تقریباً پچاس بچے اس اسکول میں تعلیم حاصل کرتے رہے ۔جب ایمر جنسی لگی تو متھرا ایڈمنسٹریشن نے اسے بند کر وادیا ۔جو بچہ یہاں سے فارغ ہوئے وہ آج بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔

ڈیگ گیٹ پر سڑک کے کنارے انصاری لوگوں کا ایک میدان تھا جس پر وہ مارکیٹ بنانا چاہتے تھے تاکہ اس کی آمدنی سے وہ اسکول چلا سکیں،اس کے بنانے میں کچھ آڑ چنیں تھیں جس میں خاص مندر کی جائداد تھی جو بیچ میں تھی۔ان لوگوں نے والد صاحب سے درخواست کی کہ اس کو کھڑے ہو کر آپ بنوادیں۔والد صاحب نے مندر کی جگہ کو خرید کر اس  پرمارکیٹ بنوادی ان کے نگرانی سے سرکاری عملے کے لوگوں نے بھی پریشان نہیں کیا ۔خاص بات یہ ہے کہ یہ کام رمضان المبارک کے روزوں میں ہی مکمل کروادیا ۔

اپنے بچپن کا ایک واقعہ مجھے یاد ہے ۔جب میں سات  سال کا تھا ۔متھرا کی جامع مسجد میں ایک مدرسہ قائم تھا ۔جس میں حاجی حافظ محمد عمر صاحب قرآن کریم پڑھاتے تھے ۔مسجد کی سیڑھیوں سے اتر کر میں گھر جارہا تھا ۔پانچ روپے کا نوٹ نظر آیا جسے میں نے اٹھالیا ۔اور گھر جاکر سیڑھیوں پر پائے ہوئے اس نوٹ کی خبر دی ۔والد صاحب نے کہا کہ بیٹا یہ نوٹ تمہارا نہیں ہے جس کا ہے وہ وہاں آکر تلاش کرے گا اور پریشان ہوگا ۔جاؤاور یہ نوٹ وہیں ڈال آؤ اور میں گیا وہ پانچ روپے کا نوٹ وہیں ڈال کر آیا ۔وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میں نے کسی دوسرے کے مال کو ہاتھ نہیں لگایا ۔

متھرا کی عید گاہ کے سلسلے میں کرشن جنم بھومی کے حوالے سے تنازع کھڑا کر دیا گیا تھا ۔مسجد عید گاہ کرسی نما ہے ۔اس کی ساٹھ فٹ اونچی شمالی دیوار گر گئی تھی ۔۱۹۴۷ء کے بعد اس کی تعمیر نہیں ہوپائی تھی۔اس طرف سے غیر مسلم چڑھ کر آنے لگے تھے ۔ایک مرتبہ ایک سادھو اسی راستے آیا اور عید گاہ کے منبر پر جاکر بیٹھ گیا ۔اس کو خاکساروں نے پکڑ لیا ۔اور پٹائی کر ڈالی ۔پولیس میں ایف آئی آر درج ہوئی تو سادھو کے بجائےگرفتاری مسلمانوں کی ہی ہوئی ۔مسئلے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے عید گاہ ٹرسٹ کے سکریٹری ڈاکٹر شہاب الدین صاحب نے والد صاحب سے کہا کہ ہم عید گاہ ٹرسٹ کے لوگ دیوار کی تعمیر نہیں کر سکیں گے ۔آپ ٹرسٹ میں شامل نہیں ہیں تاہم آپ ہی کوشش کریں کہ دیوار کی تعمیر ہو جائے ۔والد صاحب نے اس کا بیڑا اٹھایا ۔والد صاحب نے میری والدہ ،میری اہلیہ ،مجھے اور میری بیٹی طیبہ ،بھائی اور بہن سے زر تعاون لیا ۔اپنے خاندان کے افراد سےرقوم جمع کیں ۔پھر شہر کے مختلف علاقوں کے افراد پر مشتمل کمیٹیاں بنائی گئیں ۔سبھی لوگوں کے تعاون سے عید گاہ کی دیوار بنوانا شروع کی ،جو لوگ پیسے سے مدد نہیں کر سکتے تھے ۔انہوں نے بیلداری کا کام کیا ۔اس طرح یہ دیوار چھ ماہ میں تیار ہو گئی ۔

عید گاہ کے نیچے جنم بھومی والوں نے ایک سرنگ کھودی اور اس میں کچھ سامان دفن کر دیا ۔اور دیوار پھر سے اٹھا کر ایک جنگلہ بنا دیا ۔متھرا کی انتظامیہ نے کوئی کارروائی نہیں کی ،کوئی ایکشن نہیں لیا ۔حاجی بشیر بیگ صاحب نے کرشن جنم بھومی جاکر ایک جائزہ لیا اور پایا کہ جو بات سنی جا رہی تھی وہ صحیح تھی ۔ L.IOنے ایس پی کو خبر دی تب ایس پی نے باضابطہ نوٹس لیا اور بنگالی گھاٹ چوکی کے انچارج کو وہاں بھیجا ۔اس نے والد صاحب کو بتایا کہ ایس پی صاحب آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔چنانچہ ملاقات میں ایس پی نے سوال کیا کہ آپ کرشن جنم بھومی کیوں گئے تھے ۔والد صاحب نے جانے کا سبب بتایا تو ایس پی نے دھمکی دی کہ اگر شہر میں کوئی فساد ہوا تو آپ کو گرفتار کر لیا جائے گا۔

والد صاحب کی کارگردگی کو دیکھ کر شہر کی جامع مسجد کی ابتر حالت کو درست کرنے کے لئے ان کو ٹرسٹ کا سکریٹری بنا دیا گیا ۔مسجد کی خستہ حالی کا یہ عالم تھا کہ حوض ٹوٹ چکا تھا ۔دراڑوں سے رس رس کر حوض کا پانی نالی سے باہر نکل جاتا تھا ۔اور لوگ بازار سے وضو کر کے آتے تھے ۔یہ مسجد بھی کرسی نما اونچائی پر بنی ہے ۔جس کے چاروں طرف دوکانیں بنی ہوئی ہیں ۔بالکل دہلی کی جامع مسجد کی نقل ہے ۔ میناروں کے چھجے ٹوٹ کر گر رہے تھے ۔چاروں کونوں پر مینارے بنے ہوئے ہیں۔مسجد میں قرآن کریم کی تعلیم کا مدرسہ بند ہو چکا تھا ۔معلمین کئی سال تک تنخواہ نہ ملنے کے سبب چھوڑ کر چلے گئے تھے ۔صرف ایک امام اور ایک موذن باقی رہ گئے تھے ۔بجلی کے بل کی ادائیگی کا مسئلہ بھی تھا ۔جگہ جگہ سے مسجد ٹوٹ رہی تھی ۔اس حالت میں والد صاحب نے چارج سنبھالا ۔سب سے پہلے اپنے گھر سے تعاون لیا ۔میری بیٹی ،اہلیہ ،بہن ،میں اور والدہ نے اعانت کی ،اس کے بعد اپنے بھائیوں کے پاس پہنچنے اور پھر اپنے رشتے داروں سے تعاون حاصل کیا ۔مسجد کے حوض کی مرمت کروائی ۔ٹین شیڈ لگوایا ۔

مسجد کی ۳۳دوکانیں پہلے سے بیچی جا چکی تھیں ۔اب صورتحال یہ ہے کہ سترہ دکانوں کا کنور گرو سنگھ زبردستی مالک بنا بیٹھا ہے۔صرف پچاس دوکانوں کا کرایہ آتا ہے ۔اس میں بہت سے ایسے ہیں جو مقدمہ لڑنے کے بعد کرایہ دینے پر آمادہ ہوئے ہیں۔جہاں تک مکانات کا تعلق ہے ،مسجد کے ۶۶مکانات ہیں جن میں ۲۶کرایہ نہیںدیتے جو کہ مسلمان ہیں ۔صرف ۳۳مکانات سے کرایہ آتا ہے ۔ والد صاحب نے جس وقت چارج سنبھالا تھا صرف تین ہزار روپے ماہانہ مسجد کی آمدنی تھی ۔اب الحمد اللہ ۲۸۰۰۰؍روپے ماہانہ کرایہ آتا ہے ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کی ملکیت میں ایک پکچر ہال بھی بنا ہوا ہے ۔یہ ایک غیر مسلم ہیں ، کرایہ نہیں دیتے تھے ۔ان پر مقدمہ کیا گیا جو ہائی کورٹ تک چلا ۔تب جا کر دس ہزار روپے ماہانہ کرایہ طے ہوا جو اب مل رہا ہے ۔بے دخلی کے لئے مقدمہ جاری ہے ۔ ایک بار ایسا ہوا کہ رمضان المبارک کے مہینے میں امام جامع مسجد شہر کی کوتوالی میں جاکر بیٹھ گئے اور کہا کہ شہر کی سڑکیں لال ہو جائیں گی ورنہ جامع مسجد میں تراویح پڑھا رہے دیوبندی حافظ کو ہٹایا جائے ۔ کوتوال صاحب نے والد صاحب کو فون کر کے بلایا ۔جب والد صاحب پہنچے تو کوتوال نے کہا کہ آپ کا مذہبی معاملہ ہے خود حل کیجئے ہم بولیں گے تو آپ کو شکایت ہوگی ۔والد صاحب امام صاحب کو لے کر جامع مسجد آگئے اور ٹرسٹ کی میٹنگ بلائی اور امام صاحب سے کہا کہ آپ کو  شکایت تھی تو ہم سے کہا ہوتا ۔آپ کوتوال کے پاس کیوں پہنچے ؟دہلی کی فتح پوری مسجد کے امام مفتی مکرم احمد سے فتوی منگوایا پھر بھی دیوابندی حافظ صاحب کی کچھ دے دلا کر چھٹی کرنی پڑی ۔امام صاحب سے کہا کہ آپ اپنے مسلک کے حافظ کو بلالیں ۔ تب جاکر تنازعہ ختم ہوا ۔

کسی زمانے میںجامع مسجد میں مدرسہ تعلیم القرآن چلتا تھا جس کو سرکاری امداد ملتی تھی ۔ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اس وقت کے سکریٹری صاحب نے امداد کسی دوسرے اسکول کو بیچ دی تھی اس سرکاری امدا د کو از سر نو جاری کرواکر مدرسہ پھر سے قائم کیا گیا۔متھرا میں کہنہ کلاتھ مارکیٹ ایک نمایاں مقام رکھتی ہے جہاں پر ستر فیصد پنجابی اور سکھ دوکاندار ہیں۔۲۹فیصد بنیا اور ایک فیصد مسلمان ہیں۔والد صاحب اس مارکیٹ کے چالیس سال تک صدر رہے۔۱۹۸۴ء میں اندرا گاندھی قتل عام کا معاملہ بڑا سخت تھا ۔جس میں کہنہ کلاتھ مارکیٹ لوٹی گئی اور آگ لگا دی گئی۔جس میں نشانہ سکھوں اور پنجابیوں کو بنایا گیا ۔شہر کے اندر سکھوں کو قتل بھی کیا گیا ۔شہر میں کرفیو لگا دیا گیا تھا۔بازار بند کردئے گئے تھے۔والد صاحب گھر آچکے تھے۔خبر ملی کہ کہنہ کلاتھ مارکیٹ میں لوٹ اور آگ لگادی گئی ہے۔والد صاحب گھر سے نکل پڑے ،بازار میں پولیس نے آگے نہیں بڑھنے دیا۔تو جمنا ندی کے کنارے ہوتے ہوئے وہ کہنہ کلاتھ مارکیٹ پہنچ گئے ۔مارکیٹ لوٹی اور آگ لگائی جا رہی تھی۔فائر بریگیڈ اور پولیس کو بلایا ۔دوکانوں کو بچایا ۔

سب سے بڑے کپڑے کے ویاپاری امر سنگھ چائولا تھے۔ان کی کئی دوکانیں تھیں ۔ایک دکان کا گودام کسی طرح سے بچ گیا کہ جو گرونانک کی تصویر کے پیچھے چھپا ہوا تھا ۔تصویر ہٹانے پر پتہ چلا کہ گودام اور تجوری محفوظ تھی ۔فوراً امر سنگھ کو خبر دی کہ تمہاری تجوری اور گودام بچ گیا ہے ۔والد صاحب نے اس کی غیر محفوظ دوکان سے کپڑا نکلوا یا اور نور محمد کی دوکان میں کپڑا رکھ کر تالا ڈال دیا ۔چوبوں کو اعتراض تھا کہ آپ لوگ سکھوں کو کیوں بچا رہے ہیں؟ان کو اسلامی اصول بتایا گیا ۔بچانے کا یہ کام والد صاحب نے میری اور چچا کی اور نور محمد کی مدد سے انجام دیا ۔والد صاحب نے گھر سے اپنی بندوق منگائی اور سات دن رات تک مارکیٹ میں ہی پہریداری کی ۔کچھ حالات سازگار ہونے پر دوکانداروں کی میٹنگ بلائی ۔جس میں یہ مسئلہ رکھا کہ جو لوگ کل تک ہمارے ساتھ کام کررہے تھے۔آج بدحال ہیں ، ان کی مدد کی جائے ۔والد صاحب نے فوراً دس ہزار روپے تعاون کے لئے دئے تب دوسرے لوگوں نے بھی تین چار اور پانچ ہزار روپے دینا شروع کیا ۔جس سے ایک معقول رقم جمع ہو گئی ۔اس رقم سے فرنیچر اور شیٹر بنوائے گئے ۔اور ایک بڑا سا تالہ مارکیٹ کے دروازے پر حفاظت کے لیے ڈال دیا ۔

میرے دادا حاجی نظیر بیگ صاحب کا ۱۹۶۸ء میں انتقال ہو گیا ۔قبرستان میں تدفین کے بعد محلے کے بعض لوگوں نے اعلان کر دیا کہ وہ تیجہ یا سویم کریں گے ۔والد صاحب اور چچابدعات سے بچتے تھے۔انہوں نے کہا کہ ایصال ثواب کے لئے جو کچھ کرنا ہوگا ہم کریں گے ہم ان کے وارث ہیں۔اس مسئلے پر کچھ تکرار ہوئی ۔محلے کی مسجد میں ہم لوگوں کو نماز پڑھنے سے روک دیا گیا ۔آمین کہنے سے روکا گیا ۔ مسجد میں تالہ ڈال دیا گیا ۔ایک نوٹس لگا دیا گیا کہ یہاں صرف بریلوی مسلک کے لوگ ہی نماز پڑھ سکتے ہیں۔اس مسئلے نے اتنا طول پکڑا کہ مقدمہ قائم ہو گئے ، اور سبھی میں ہم لوگوں کو کامیابی ملی ۔تالہ کھلا آج ہم لوگ اسی مسجد میں نماز ادا کرتے ہیں۔

شری کرشن جنم بھومی کے پاس متھرا میں ایک شری جی بابا آشرم کے سامنے ایک وسیع و عریض قبرستان ہے ۔جس کے منتظمین پاکستان چلے گئے تھے۔اس پر کچھ غیر مسلموں نے قبضہ کر رکھا ہے۔انہوں نے اس پر چہار دیواری بنانی شروع کی ۔شہر کے عام مسلمانوں نے اسے روکا ۔اس پر محاذ آرائی ہوئی ،گولی چلی ،لوگ مارے گئے ۔آخر کار شہر کے لوگوں نے ایک تحفظ کمیٹی بنا دی جس کے سکریٹری حاجی مرزا بشیر بیگ صاحب کو بنادیا گیا ۔قبرستان کا مقدمہ لوور کورٹ سے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں چلا ،لاکھوں روپے مقدمے پر خرچ ہوا ۔ابھی بھی قانونی مسائل میں کیس الجھا ہوا ہے ۔

انگریزوں کے غلبے کے بعد مغل حکومت انتشار کا شکار ہوئی ۔مغل حکومت کے کارندے جائے پناہ ڈھونڈنے لگے ۔ایک گروہ ایٹہ ضلع کے جلیسر میں آباد ہوا ۔وہاں کے لوگ انگریزوں کی فوج اور پولیس میں شامل ہو گئے۔حاجی مرزا نظیر بیگ صاحب جو میرے دادا تھے ۔پولیس میں دیوان مقرر ہوئے جو ملک کے مختلف حصوں میں تقرر ہوتے ہوئے متھرا آکر ریٹائر ہو گئے اور یہیں کے مکیں ہو گئے ۔ان کے چار بیٹے مرزا بشیر بیگ ،مرزا نصیر بیگ ،مرزا رشید بیگ ،مرزا حمید بیگ اور تین بیٹیاں احمدی بیگم ،محمدی بیگم اور حسن بانو تھے۔

مرزا بشیر بیگ صاحب کی پیدائش متھرا میں ہوئی اور تعلیم جامع مسجد کے مدرسے میں ہوئی ۔ٹیلرنگ کا ہنر امرائو خان صاحب سے لیا ۔مزید مہارت ممبئی جاکر حاصل ہوئی ۔ممبئی سے واپس آکر کہنہ کلاتھ مارکیٹ میں ۱۹۵۲ء میں دوکان کھولی ۔نام رکھا کوالٹی ٹیلرس ۔جس کی کئی برانچ قائم ہو ئیں ۔ان کے بھائی مرزا نصیر بیگ صاحب ،مرزا حمید بیگ،صغیر احمد خاں نے سنبھالا اور اپنی کار کردگی سے چار چاند لگائے ۔بڑے چچا کا ایک بیٹا مرزا شفیق بیگ کناڈا میں فیشن ڈیزائنر ہیں ۔ظہیر بیگ ہمدرد میں لائبریرین ہیں۔چھوٹے چچا حمید بیگ کا ایک بیٹا مرزا شمسیر بیگ امریکہ میں کینسر پر ریسرچ کر رہے ہیں۔لڑکا گڑ گائوں میں آرکیٹکٹ ہیں۔دو بیٹے مرزا حنیف بیگ اور رحیم بیگ مرزا میٹلس چائوڑی بازار میں چلا رہے ہیں۔اور میں ڈاکٹر مرزا ضمیر بیگ چاندنی چوک کے مطب میں خدمت انجام دے رہا ہوں اور ایک چھوٹا بھائی مرزا بشیر بیگ متھرا میں کوالٹی ٹیلرس میں مصروف ہیں۔مرزا نصیر بیگ صاحب کا ایک بیٹا مرزا شکیل بیگ متھرا میں ،مرزا ارشد بیگ صاحب کے دو بیٹے مرزا رئیس بیگ ،مرزا سعید بیگ ٹیلر کا کام کر رہے ہیں۔

مشمولہ: شمارہ ستمبر 2016

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223