انتہائی مخلص اور تحریک کا والہانہ عشق رکھنے والے رفیق جناب سید حامد حسین صاحب اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ اِ نَّا لِلّٰہِ وَاِ نَّآ اِلَےْْہِ رَاجِعُوْْن۔ ۳/دسمبر﴿جمعہ﴾ کی اولین ساعتوں میں وہ اپنے حقیقی مالک سے جاملے۔یہ خبر ہم سب کے لیے انتہائی غمناک ہے۔الفاظ سے اس کا بیان ممکن نہیں۔بس ہم اللہ کے لیے صبر کا دامن تھامے ہوئے دعا کرتے ہیں کہ رب کریم سید حامد حسین صاحب کی قربانیوں اور تحریکی کاموں کوشرف قبولیت بخشے۔ان کی مغفرت فرمائے۔گھر والوںکو صبر جمیل دے اور تحریک اسلامی کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔آمین
حامدحسین صاحب کے انتقال کی خبر جیسے ہی عام ہوئی ملک کے کونے کونے سے تعزیتی پیغاموں کا سلسلے جاری رہا۔ بیرون ممالک سے بھی رفقانے تعزیت کی ۔محترم امیر جماعت‘ نائب امرائے جماعت اور سکریڑیزصاحبان کے علاوہ ارکان مرکزی مجلس شوریٰ اور امرائے حلقہ جات نے دعائے مغفرت کی اور گھر والوں کے ساتھ انتہائی ہمدردی کا اظہار فرمایا۔ملت کے سرکردہ قائدین اور دوسری جماعتوں سے تعلق رکھنے والوں نے بھی تعزیت فرمائی۔
مرحوم سید حامد حسین صاحب کی تدفین ان کے وطن سندھنور میں اسی دن بعد نماز عشا ء عمل میں آئی۔سکریڑی جماعت ‘ مولانا محمد اقبال ملا صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی اورقلعہ کی مسجد سے متصل قبرستان میں تدفین ہوئی ۔مرحوم کے آخری دیدار کے لیے کرناٹک و گوا کے تقریباً سبھی مقامات سے مرد و خواتین بڑی تعدادمیں شریک رہے۔ حلقہ کے علاوہ دیگر ریاستوں میں غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنے کی اطلاعات ملیںاورتعزیتی نشستوں کا اہتمام کیا گیا۔مرحوم کے ساتھ مجھے پچھلے دس سالوں سے دن رات رہنے کا موقع ملا۔ایک ہی جگہ ہمارا قیام رہا۔ساتھ سفر کیے،مختلف پروگراموں میں شرکت کی اورحلقہ کی شوریٰ کے اجلاس اور مختلف نشستوں میں مرحوم کی رفاقت رہی۔مرحو م بڑی خوبیوں کے مالک تھے۔بعض خوبیاں ایسی تھیں جن پرمجھے رشک آتا ہے۔میں مرحوم کو تحریکی اورگھریلوزندگی کے تناظرمیںایک مثالی نمونہ سمجھتا ہوں۔اس موقع سے ان کی بعض نمایاں خوبیوں کا ذکر کرنا چاہوں گا:
اللہ سے تعلق
مرحوم کا اللہ تبارک و تعالیٰ سے بڑا خاص تعلق رہا۔نماز‘ قرآن کریم کی تلاوت ‘ذکر‘رقت کے ساتھ دعاؤں کا اہتمام ان کے خاص معمولات میں سے تھے ۔مسجد میں فرض نماز کی ادائی کے بعد کبھی کمرے میں تو کبھی دفتر کے Cellarمیں سنت و نوافل کا اہتمام کرتے تھے۔جب اللہ کی رحمت و مغفرت کا ذکر کیا جاتا تو مرحوم کے چہرے پر خوف کے آثار نمایاں طور پر جھلکتے۔نمازفجر کے بعد بالعموم تلاوت قرآن کریم کرتے اور تہجد و نفل روزوں کا اکثر اہتمام کرتے۔جب بھی کوئی اچھی خبر سنائی جاتی تو زبان پر کثرت سے الحمد للّٰہ الحمد للّٰہ کے کلمات جاری رہتے۔اور اکثر ہلکی آواز سے اللہ اکبر کہتے۔انکی دنیا کی یہ وہ خوبی ہے جو مرنے سے قبل تک بھی ساتھ رہی۔روح قبض ہونے سے پہلے ان کی زبان پر اللہ اکبر اللہ اکبر کا ذکر جاری تھا۔
یہ اللہ سے تعلق ہی کا نتیجہ ہے کہ ہم نے ان کی زبان سے کسی کے سلسلے میں منفی بات یا شکایت نہیں سنی۔نہ انہوں نے کبھی کسی کا دل دکھانے والی بات کہی۔یہ پاکبا ز دل کی پہچان ہے۔ اگر کسی نشست میں کسی معاملے سے متعلق رائے ظاہر کرنے کی بات آتی اور وہ کسی شخص سے متعلق ہوتی تو مرحوم صرف اتنا کہتے کہ اس سلسلے میں میری کوئی رائے نہیں۔
مرحوم بڑے نرم دل تھے۔ انہیں غصہ کرتے ہوئے ہم میں سے کسی نے نہیں دیکھا۔ اللہ کی گرفت کا ذکر ہو یاکسی شخص کی قربانی کا تذکرہ تو فوری طور پر ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے۔بندگان خدا کے ساتھ رحمت و شفقت کامعاملہ بھی اسی تعلق باللہ کی ایک کڑی ہے۔مرحوم کی ایک نمایاں خوبی تھی کہ خود تکلیف میں رہ کر دوسروں کو آرام پہنچایا کرتے۔ اپنے ذاتی کام ہوں کہ تنظیمی‘ خود کیا کرتے تھے۔ کبھی دوسروں کو مدد کے لیے زحمت نہیں دی۔ حتیٰ کہ آفس اسٹاف سے بھی کبھی کوئی ذاتی کام نہیں لیا۔
زاہدانہ زندگی
حامد صاحب نے انتہائی سادگی سے زندگی بسر کی۔نہ کبھی آرام سے سو نے کی فکر‘ نہ آرام دہ سفرکی خواہش۔کبھی ہم نے کھانے کے سلسلے میں ان سے کوئی فرمائش نہیں سنی اورنہ شکایت کہ کھانا کیا اورکیسا بنا ہے۔وہ شوگر کے مریض تھے۔ ایسی صورت میںطعام کے لیے چاول سے زیادہ روٹی کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن اکثر چاول ہی تیار کیا جاتا تو کبھی انہوں نے ناپسندیدگی کا اظہار نہیںکیا۔دفتر کے کمروں میں آرام سے سونے کے سارے انتظامات ہیں، لیکن موصوف ایک چٹائی ‘ چادر اور تکیے کے ساتھ اپنے آفس ہی میں سوتے اور صبح اٹھ کر اپنا بستر اپنی میز کے نیچے رکھ لیتے۔تنظیمی کاموں کے سلسلے میں کثرت سے دورے کرنے پڑتے، مرحوم نے کبھی کسی بھی موقع سے آرام دہ سفر اختیار نہیں کیا۔معمولی سی بس میںبڑے آرام سے سفر کرلیتے۔حتیٰ کہ دہلی جیسے دور دراز کے مقام کے لیے بھی کئی مرتبہ مرحوم نے بغیر ریزرویشن کے جنرل کمپارٹمینٹ میں سفر کیا ہے۔یہ سید حامد حسین صاحب کا زہدہی تھا کہ ان کے جنازے میں شرکت کے لیے دور درازکے مقامات سے رفقائے جماعت نے سفر کی مصیبتیں جھیلتے ہوئے شرکت کی۔میں نے دیکھا اکثر رفقاء کی آنکھیں نم اورسوجی ہوئی تھیں۔ اللہ کےرسولﷺ نے یہ بشارت دی ہے کہ جو شخص دنیا اور دنیا والوں سے بے نیاز ﴿زاہد﴾ رہتا ہے تو وہ اللہ اوراللہ کے بندوں کا محبوب بن جاتا ہے۔بس یہی وہ محبوبیت تھی جس کا مشاہدہ ہم سب نے کیا۔
اخلاص و للہیت
راہ خدا میں مستقل مزاجی کے ساتھ سرگرمی بغیر اخلاص و للہیت کے ممکن نہیں۔مرحوم نے تقریباً۳۰سال تحریک اسلامی کے لیے اپنی خدمات پیش کیں۔حلقہ سے لے کر علاقے اور ضلع تک ‘ مختلف سطح کی ذمے داریوں کو انھوں نے بحسن و خوبی نبھایا ہے۔ کسی شخص کا اپنا گھربار اوربیوی بچوں کو چھوڑ کر کسی دوسرے مقام پر رہنا ‘ سوائے اخلاص کے کوئی دوسرا تقاضا نہیں کرتا۔سید حامد حسین صاحب کا ہر دن‘ اور دن کا ہر کام بلاشبہ اخلاص سے بھرپور رہا۔ یہی وجہ ہے کہ مرحوم نے بڑے استقلال کے ساتھ راہ خدا میں بڑی قابل رشک قربانیاں دیں۔ دل میں موجود اخلاص وللہیت کے جذبات نے ہر موڑ پر انہیںسنبھالا دیا کہ دنیا میں اہل وعیال اور گھر میں مستقل قیام نہیںرہا تو کیا ہوا‘ اللہ تعالیٰ جنت میں تو ساتھ رکھے گا۔یہ اخلاص ہی تھا کہ آپ نے سخت حالات میں بھی سمع و طاعت کا ثبوت دیا۔یہ نہیں دیکھاکہ صحت کیسی ہے‘ کہا ں اور کیسے جانا ہے‘ جب بھی حکم دیا گیا توصرف اسکو پورا کرنے کی ہی دھن سوار رہتی۔ابھی حال ہی میں ہوئے اجتماع ارکان میں مرحوم کو قیام گاہوں کا انچارج بنایا گیا تھا۔اس سلسلے میں خرابی صحت کے باوجود سفر اور دہلی میں قیام کی جو تکلیفیں اٹھائیں انہیں چند جملوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔اخلاص ہی اصل میں وہ قوت محرکہ ہے جوبندہ خدا کو ہر حال میں‘ ہرلحاظ سے مصروف رکھتا ہے۔ بلاشبہ سید حامد حسین صاحب میں یہ اخلاص کی کیفیت بدرجہ اتم موجود تھی۔
سمع و طاعت
سمع وطاعت سید حامد حسین صاحب کا نمایاں وصف تھا۔میرے دس سالہ مشاہدے میں کبھی کسی طرح کی کوئی کمی محسوس نہیں ہوئی۔وہ اقبال ملا صاحب کے دست و بازو بنے رہے‘ پھر مرحوم ابراہیم سعید ؒ صاحب کے معاون رہے، دونوں کا سفر اور حضر میں ساتھ رہا۔تقریباً ۱۵یا ۱۷سالوں کی رفاقت کے نتیجے میں ان دونوں ذمے داران نے مرحوم کے جذبۂ سمع و طاعت کو مثالی بتایا تھا۔مرحوم میرے ساتھ تقریباً تین سال آٹھ مہینوں تک سکریڑی کی حیثیت سے رہے اور الحمد للّٰہ تمام دنوں میں ‘ ان کو میں نے انتہائی اطاعت گزار پایا۔ حال ہی کا ایک واقعہ ہے ۔ اجتماع ارکان کے لیے انہیں انتظامات کے سلسلے میں دہلی طلب کیا گیا‘ موصوف بغیر ریزرویشن کے رات ہی میںسفر پر نکل گئے۔بنگلور سے حیدرآبادپہنچے پھر وہاں سے دہلی کے سفر پر چل پڑے۔دوسرے دن صبح جب میں دفتر حلقہ پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ اچانک سفر پر چلے گئے ہیں۔عین اسی وقت مرکز کے ذمہ داران بنگلور تشریف لائے تھے اس لیے ان کا یہاں رہنا بہت ضروری تھا۔جب میں نے فون کیا تو موصوف اگلے اسٹیشن پر اترے اورفوری بنگلور کے لیے نکل پڑے ‘ دوسرے دن صبح تھکے ماندے دفتر حلقہ پہنچے ۔ہزاروں کیلومیڑ کا فاصلہ بڑی مشقت سے طے کرنے کے باوجود نہ سفر کی تھکن محسوس ہونے دی اور نہ ماتھے پہ شکن آئی۔ آئے اور اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے۔ جماعت کے ذیلی اداروں اور تنظیموں کی نشستوں میں شرکت ویسے ہر وقت لازم نہیں ہوتی تھی‘ لیکن جب بھی تقاضا کیا جاتا ‘ میٹنگوں میں شرکت کے لیے تودور دراز کے مقامات کا بڑے مزے سے سفر کرلیتے۔ابھی حال ہی میں منگلور میں HRSکی میٹنگ کے لیے اکبر علی صاحب نے اطلاعاً عرض کیا تھاکہ وہ فاروق نشتر صاحب اور اشرف صاحب کے ساتھ نشست کررہے ہیں۔ موصوف نے مجھ سے اجازت لی اور بڑی مشقت سے منگلور کا سفر کیا۔ شاید اسی سفر کے دوران انہیں دل کی تکلیف کا پہلی بار شدید احساس ہوا۔وہاں سے واپسی کے دوسرے دن ۵۲نومبرکو بعد نماز فجر سینے میں درد محسوس کرنے لگے اور مجھ سے دوا مانگی‘ تکلیف بڑھتی رہی۔ بالآخر انھیں اسپتال میں داخل کرایا گیا پھر اس کے تقریباًدس دنوں بعد وہ انتقال کرگئے۔
سید حامد حسین سمع و طاعت کا پیکر تو تھے ہی، لیکن اس میں جو نمایاں پہلو تھا وہ بڑا خاص ہے۔وہ اپنے حدود میں رہتے ہوئے‘ اپنے اختیارات کا مکمل شعور رکھتے ہوئے‘ سمع و طاعت کا ثبوت دیتے تھے۔کبھی کسی موقع پر ان سے زیادتیا ں نہیں ہوئیں۔
تنظیمی صلاحیتیں
حامد صاحب کا خاص میدان تنظیم تھا۔تنظیمی معاملات کو انجام دینے کے لیے ان کا صحیح فہم وشعور ضروری ہوتا ہے۔ہم نے محسوس کیا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے موصوف کو معاملہ فہمی کی دولت سے نوازا تھا۔چاہے مسائل مقام یا حلقہ کی سطح کے ہوں یا کسی فرد یا ادارہ اور تنظیم کے‘ حامد صاحب کا معاملات کے سلسلے میں اظہار خیال انتہائی مدلل ہوتاتھا۔حلقے کے تحت چلنے والے تمام اداروں اور تنظیموں کی پیش رفت سے متعلق وہ باخبر رہتے۔ان کے مسائل پر مجھ سے خصوصی گفتگو کرتے تھے۔کبھی شعبہ تنظیم میں انہیں زیر بحث لاتے۔خواتین کے کاموں سے متعلق بھی ان کی خصوصی رہنمائی ہوتی تھی۔شعبہ خواتین اور ضلعی ذمے داران کے مسائل سے کو بڑے اچھے انداز سے حل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔امۃ الرزاق صاحبہ‘شہناز صاحبہ اور دیگر ذمے دار خواتین اس ضمن میں ان سے خصوصی مدد لیتی تھیں۔جی آئی او کی صدر تنظیم مدیحہ افشاںصاحبہ تو انہیں اپنے والد کے مقام پر دیکھتیں اورمختلف امور میں رہنمائی حاصل کرتیں۔ حلقے کی شوری ٰ کی رودادوں کی تیاری ‘حلقہ کی رپورٹوں کی ترتیب‘ مقامی رپورٹوں پر تبصرہ‘ادارہ جات کے مسائل سے متعلق حامد صاحب بڑی خاص دلچسپی رکھتے تھے۔یہ تمام کام انھی کے ذمے ہوتے اور وہ انہیں بروقت انجام دیتے تھے۔اس سلسلے میں کبھی عبد المجید صاحب تو کبھی محمد اطہر اللہ شریف صاحب سے تعاون لیتے۔بیت المال کے حسابات سے متعلق بھی بڑے حساس رہتے۔بروقت حسابات لکھنے کے لیے ضروری تمام کارروائیوں کو انجام دیتے۔ان کی تحریکی زندگی میں کبھی ان تمام تنظیمی امور سے متعلق کوئی منفی تاثر یا ریمارکس سامنے نہیں آیا۔
تحریک سے وابستگی کے معنی
حامد صاحب کی تحریکی زندگی سبق دیتی ہے کہ تحریک سے وابستگی کے معنی دن رات کی کوشش ہے‘اسی سے ممکن ہے کہ اللہ کی رضا حاصل ہوجائے۔بقول سید عبد الحسیب صاحب وہ فنا فی التحریک تھے۔گھر میں قیام دو تین دن سے زیاد ہ نہیں کرتے تھے۔بقیہ دن دوروں پر یا پھر دفتر حلقہ پر گزارتے تھے۔صبح جب آنکھ کھلتی تو نماز سے فارغ ہونے کے بعد تھوڑی دیر آرام کرتے پھر کاموں میں مصروف ہوجاتے۔ یہاں تک کہ رات کو بستر پر جانے کا وقت آجاتا ۔بعض رفقائ بجا طور پر کہتے ہیں کہ حامد صاحب نے تحریکی کام جس انداز اورجس مقدار میں کئے ہیںوہ ان کی عمر سے زیادہ ہیں۔
حامد صاحبجب تک حیات رہے اپنی تحریک سے وابستگی اور اس کے لیے قربانی اور سرگرمی کے اعتبار سے ہمارے لیے قابل رشک رہے۔اب جبکہ وہ ہمارے درمیان نہیں ہیںان کے گھروالوں پر رشک کرنے کو جی چاہتا ہے۔مرحوم کی اہلیہ محترمہ نفیس بیگم صاحبہ نے ۰۳سالہ تحریکی سفر میں ساتھ دیا۔حامد صاحب کا گھر سے صبرو سکون کے ساتھ باہر نکلنا اور استقامت کے ساتھ میدان عمل میں ڈٹے رہنا ان کے گھر کے اندرون کے اچھے ہونے ہی سے ممکن ہوا۔ محترمہ نفیس بیگم صاحبہ کی خاموش حمایت‘ اپنے شوہر کے منصوبوں کی تکمیل کے لیے خیر خواہی واقعی بے مثال ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ایسی بیوی کو تودنیا کی سب سے قیمتی متاع قرار دیا ہے۔
آج جب ہم مرحوم سید حامد حسین صاحب کی تحریکی زندگی کو قابل رشک سمجھ رہیں تو اس میں محترمہ نفیس بیگم صاحبہ بھی شامل ہیں۔امید ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ جنت میں ان دونوں کو ابدی رفاقت عطا فرمائے گا۔مرحوم کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں بھی الحمد للّٰہ تحریک سے وابستہ ہیں ۔اس احسن انداز سے ان سب کی تربیت ہوئی ہے کہ ان کی گفتگو اور جذبات سے مرحوم کے اخلاق و کردار کا نمونہ سامنے آجاتا ہے۔ یہ اولاد صالح مرحوم کے لیے ثواب جاریہ بنیں گی‘ انشائ اللہ۔آپ کے تمام بھائی اور بہنیں بھی الحمد للّٰہ تحریک سے وابستہ ہیں۔ان کی محبتیں اور خیرخواہی مرحوم کے اہل خانہ سے ہے۔مرحوم کا گھر توعالی شان نہیں ہے لیکن اس میں شوہر کی تحریکی زندگی پر قربان ایک نیک صفت بیوی اور صالح و فرمانبردار اولادبستی ہے اور جس سے مرحوم کے بھائی بہنوں کی محبتیں وابستہ ہیں ‘یہ وہ گھر ہے جو ہر دیکھنے والے کو رشک کرنے اور ہر سوچنے والے کو احتساب کرنے کا درس دیتا ہے۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2011