دین کے کسی بھی حکم اور عمل کو جاننے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے اس کی لفظی و معنوی حقیقت کو سمجھا جائے اور چونکہ قرآن مجید دین کے ہر حکم و عمل کا علمی سر چشمہ ہے اس لئے دین کے ہرحکم اور عمل کی حقیقت کو سمجھنے کے لئے قرآن کی طرف رجوع ضروری ہے اوردین کے ہر حکم و عمل کی عملی ادائیگی کی کیفیت و حقیقت کو جاننے کے لئے آنحضورﷺ کی سیرت طیبہ کی طرف رجوع ضروری ہے کیونکہ خود قرآن نے آنحضورﷺ کی سیرت کو دین کا نمونہ قرار دیا ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا لَقد کَانَ لَکُم ْ فِی رَسُولِ اللہ ِ اُسْوَۃ حَسَنۃُ (سورئہ احزاب آیت ۲۱) یعنی تحقیق کہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں تمہارے لئے بہترین نمونہ ہے۔ قرآن و حدیث میں نماز کی جو حقیقت بیان ہوئی ہے اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ نماز کے سلسلہ میں ایک ہے نماز کی ادائیگی کا عمل اور ایک ہے نماز کو قائم کرنے کا عمل، نماز کی ادائیگی کے حکم میں دن و رات میں پانچ مرتبہ نماز کی نیت و تکبیر تحریمہ سے سلام کے پھیرنے تک کے عمل میں مصروف رہنا ہے اور یہ عمل ہر فرض نماز کا آٹھ تا دس منٹ میں ادا ہوتا ہے لیکن جہاں تک نماز کو قائم کرنے کی بات ہے تو اس کا تعلق پوری زندگی سے ہے ایک دن و رات کے حساب سے دیکھا جائے تو پورے چوبیس (۲۴) گھنٹوں میں سے صرف ایک گھنٹہ پانچ نمازوں کی ادائیگی میں صرف ہوتا ہے اور بقیہ تئیس ۲۳ گھنٹوں کا تعلق نماز کو قائم کرنے کے عمل سے ہے اس تناسب کو اگر فیصد میں سمجھا جائے تو نماز کی ادائیگی کا عمل پانچ فیصد ٹھہرتا ہے اس تعلق کو ذریعہ اور مقصد کے الفاظ سے بھی سمجھا جا سکتا ہے یعنی نماز کی ادائیگی کا عمل ذریعہ ہے اور نماز کو قائم کرنے کا عمل مقصد ہے مطلب یہ کہ نماز کے مقصد تک پہنچنے کے لئے نماز کی ادائیگی کا عمل لازمی ذریعہ ہے۔
یقینا نماز کی ادائیگی کا عمل بھی نماز کی اقامت کی تعریف میں آتا ہے۔ لیکن یہ نماز کی مکمل اقامت نہیں ہے، بلکہ اقامت کا آغاز ہے،اور نماز کی اقامت کے سلسلہ میں اس کا تناسب پانچ فیصد سے زیادہ نہیں ہے بقیہ پچانوے فیصد نماز کی اقامت کا عمل نماز کی باہر کی زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ لیکن اگر کوئی نمازکی ادائیگی کے عمل کو ہی کامل نماز کی اقامت سمجھ لے اور باہر کی زندگی میں نماز کو نظر اندازکردے تو وہ اس مسافر کی طرح ہے جو سفر کے سلسلہ میں راستہ کو منزل سمجھ لے اور منزل کو بھلادے تو ظاہر ہے ایسا مسافر برسہا برس بھی راستہ چلے تو وہ اپنی منزل تک نہیں پہونچ سکتا ٹھیک یہی حال اس نمازی کا ہے جو برسہا برس نماز ادا کرے لیکن زندگی میں اس کو قائم نہ کرے۔نماز کے قائم کرنے کے متعلق یہ تصور کسی کا اجتہاد نہیں ہے بلکہ خود قرآن کی بہت سی آیات سے واضح ہوتا ہے ، چنانچہ سورہ عنکبوت کی پینتالسیویں آیت جو اکیسویں پارے کی پہلی آیت ہے ۔ اُتلُ مَآ اُوحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ اِنَّ الصَّلٰوۃِ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآ ئِ وَ الْمُنْکَرِ وَ لَذِکْرُ اللّٰہ ِ اَکْبرُ وَ اللّٰہ ُ یَعْلَمُ مَا تَصْنعُونَ ۔ (عنکبوت آیت ۴۵) ترجمہ: تلاوت کیجئے اس کتاب کی جو آپؐ کی طرف بھیجی جارہی ہے اور نماز قائم کیجئے بیشک نماز روکتی ہے بے حیائی اوربرائی سے، اور یقینا اللہ کا ذکر یعنی قرآن سب سے بڑا ہے اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔
مذکورہ آیت میں نماز کے قائم کرنے کا حکم ہے اور نماز کی صفت میں تاکید کے ساتھ یہ بات کہی گئی کہ بیشک نمازبے حیائی اور بُرے کاموں سے روکتی ہے ظاہر ہے اس سے مراد نماز کی ادائیگی کا عمل نہیں ہے کیونکہ حالت نماز میں کسی سے کوئی بے حیائی اور بُرائی کا کام ہو ہی نہیں سکتا اس لئے کہ نماز کی حالت میں نمازی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوتے ہیں، اور پیر ایک جگہ جمے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ اللہ کا کلام پڑھنے اور سننے میں مصروف ہوتا ہے اس لئے مذکورہ آیت میں نماز کو قائم کرنے اور نماز کے بے حیائی اور بُرائی سے روکنے سے مراد لازماً نماز کی ادائیگی کے بعد کا عمل ہے ۔مطلب یہ کہ نماز میں جو اللہ کا کلام پڑھا اور سنا جاتا ہے وہ نمازی کوبے حیائی اور بُرائی سے روکنے کا ذریعہ بن جاتا ہے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہ نمازی نماز میں پڑھی اور سنی جانے والی آیات اور سورتوں کو سمجھے ، تب ہی نماز بے حیائی اور بُرائی سے روکنے کا ذریعہ بن سکتی ہے ساتھ ہی مذکورہ آیت سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ نماز کو قائم کرنے سے مراد نماز کے تقاضے کو قائم کرنا ہے اور نماز کا تقاضہ نماز کو ادا کرنے کے بعد عائد ہوتا ہے اور نماز کے تقاضے سے ناواقف رہنا گویا نماز کے قائم کرنے کے تقاضے سے ناواقف رہنا ہے اور یہ بات ایک نماز ی کے لئے کتنی افسوس ناک ہے کہ ایک طرف تو وہ برسوں سے نماز ادا کررہا ہے اور دوسری طرف ابھی وہ نماز کے تقاضے سے ناواقف اور لا علم ہے۔ نماز کو قائم کرنے کا یہی مفہوم سورہ بقرہ کی پینتالیسویں آیت سے بھی واضح ہوتا ہے ، چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے ، وَ اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوۃِ وَ اِنَّھَا لَکَبِیْرَۃً اِلَّا عَلَی الْخٰشِعِیْنَ ۔ (بقرہ آیت ۴۵) ترجمہ : اور مدد چاہو صبر اور نماز کے ذریعہ اور بیشک یہ نماز یقینا بھاری ہے مگر اللہ سے ڈرنے والوں پر، مطلب یہ کہ جو اللہ سے ڈرنے والے نہیں ہیں ان کے لئے نماز بہت بھاری ہے ، اس آیت سے بھی یہی بات واضح ہوتی ہے کہ اس سے مراد نماز کی ادائیگی نہیں ہے بلکہ نماز کے پیغام کو زندگی میں قائم کرنا ہے ، کیونکہ نماز کی ادائیگی کے عمل میں ایک بھی چیز ایسی نہیں ہے جس کو ادا کرنا بہت بھاری ہو نہ تکبیر تحریمہ کی ادائیگی بھاری ہے نہ قیام و قرآت رکوع و سجود و قعدہ کی ادائیگی بھاری ہے یہی وجہ ہے کہ نبیﷺ کے دور میں منافقین بھی نماز ادا کرتے تھے، کیونکہ جو ایمان کے دعویدار نماز ادا نہیں کرتے تھے وہ ایمان والوں میں شمار نہیں ہوتے تھے اور اسلام کا یہی اصول قیامت تک کے لئے ہے لیکن چونکہ اس وقت دنیا میں اسلامی خلافت قائم نہیں ہے اس لئے نماز ادا نہیں کرنے والے مسلمان بھی ایمان والوں میں شمار ہوتے ہیں۔
لیکن ان بے نمازی مسلمانوں کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ شمار بھی صرف دنیا کی زندگی میں ہو سکتا ہے آخرت کی زندگی میں اپنے آپ کو مومنین میں شامل کرنے کے لئے پنجوقتہ نمازوں کی ادائیگی کے ساتھ ان نمازوں کے پیغام کو اپنی زندگی میں قائم کرنا بھی ضروری ہے اور اس تحریر کا اصل مقصد بھی یہی ہے کہ نماز ادا کرنے والے صرف نماز کی ادائیگی کو آخرت کی کامیابی کے لئے کافی نہ سمجھیں بلکہ نماز کے قائم کرنے کو بھی ضروری سمجھیں اور مذکورہ آیت میں اسے قائم کرنے کے عمل کو ہی بھاری کہا گیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا گیا ہے کہ جن کے دلوں میں اللہ کا ڈر ہے ان کے لئے نماز کے پیغام کو اپنی زندگی میں قائم کرنا بھاری نہیں ہے کیونکہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر جان دینا بھی آسان ہوتا ہے نماز کا یہی وسیع تصور حضرت شعیب ؑ کی دعوت کے حوالہ سے قرآن میں بیان کیا گیا ہے چنانچہ سورہ ہود میں حضرت شعیبؑ کے مخالفین کے اعتراض کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے ۔قَالُوْا یٰشُعَیْبُ اَصَلٰوتُکَ تَاْ مُرُکَ اَنْ نَّتْرُکَ مَا یَعْبُدُ اٰبآ ئُ نَآ اَوْ اَنْ نَّفْعَلَ فِیْ اَمْوَالِنَا مَا نَشٰوُء ا اِنَّکَ لَاَ نْتَ الْحَلِیْمُ الرَّشِیْدُ (ھودآیت ۸۷) ترجمہ : انہوں نے کہا اے شعیب کیا تیری نماز تجھے حکم دیتی ہے کہ ہم ہمارے باپوں کے معبودوں کو چھوڑ دیں یا ہمارے مالوں میں اپنی مرضی کو چھوڑ دے توُتو بڑا نیک راست باز ہے۔
مذکورہ آیت میں بھی نماز کا لفظ نماز کے پیغام کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے ورنہ ظاہر ہے حضرت شعیبؑ اپنی قوم کو حالت نماز میں معبودان باطل کی عبادت سے نہیں روکتے ہوں گے بلکہ نماز کے علاوہ روکتے ہوں گے لیکن خصوصیت کے ساتھ یہ کہہ کر روکتے ہوں گے کہ میری نماز مجھے یہ حکم دیتی ہے کہ میں تمہیں جھوٹے معبودوں کی عبادت سے منع کروں اسی طرح مالوں میں بھی تمہاری مرضی کے تصرف سے منع کروں، لیکن آج کے دور کے نمازیوں پر افسوس ہے کہ ان کی نماز انہیں اللہ کے علاوہ معبودوں سے واقف بھی نہیں کراتی اس کی بھی اصل وجہ یہی ہے کہ آج کے دور کے نمازیوں نے صرف نماز کی ادائیگی کو ہی کامل نماز سمجھ لیا جب کہ وہ نماز کو علمی و عملی لحاظ سے قائم کرنے کی ایک مشق او ر نظم ہے اور کسی بھی چیز کی مشق اور کسی بھی چیز کا نظم اسی لئے کیا جاتا ہے کہ وہ زندگی کا حصہ بنے، جس طرح مختلف جماعتیں اپنے افراد کو جماعت سے فکری علمی ،عملی و تنظیمی لحاظ سے جوڑنے کے لئے یومیہ ہفتہ واری ماہانہ اور سالانہ اجتماعات کا نظم کر تی ہیں لیکن ان جماعتوں کے پیش نظر صرف اتنا نہیں ہوتا کہ لوگ اجتماع میں آکر کچھ وقت کے لئے بیٹھ جائیں اور بات سن لیں بلکہ مقصود یہ ہوتا ہے کہ لوگ اجتماع میں بیان کی ہوئی باتوں کو سمجھیں اور اجتماع کے بعد ان باتوں پر عمل کریں یہی وجہ ہے کہ جو افراد ان اجتماعات میں شرکت کے باوجود اجتماع میں بیان کی ہوئی باتوں کو سمجھتے نہیں اور نہ اجتماع کے بعد ان باتوں پر عمل کرتے ہیں تو خود یہ جماعتیں ایسے افراد کو اپنی جماعت کا فرد نہیں سمجھتی اور اگر ایسے افراد اجتماع میں بیان کی ہوئی باتوں کے خلاف عمل کریں تو پھر یہ جماعتیں ایسے افراد کو اپنا مخالف اور دشمن سمجھتی ہیں اور اپنے لئے بدنامی کا ذریعہ سمجھتی ہیں اورلوگوں میں یہ اعلان کردیتی ہیں کہ ان افراد سے ہماری جماعت کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
ٹھیک اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اسلام کی جماعت سے تمام مسلمانوں کو اسلام کی فکر، علم اور عمل سے جوڑے رکھنے کے لئے یومیہ اجتماع کے طور پر پنجوقتہ نمازوں کا نظم کیا ایک طرح سے یہ دن و رات میں پانچ اجتماعات ہیں اور ہر اجتماع دس سے بارہ منٹ کا ہوتا ہے، اور ہر اجتماع میں تکرار و تاکید کے ساتھ اللہ کی بڑائی اور سنائی جاتی ہے ساتھ ہی سیدھے راستہ پر چلنے کی تلقین اور گمراہی کے راستہ سے بچنے کی تلقین کی جاتی ہے اور قرآن مجید جو کہ اللہ کی تقریروں کا مجموعہ ہے وہ پڑ ھ کر سنایا جاتا ہے اور ہفتہ واری اجتماع کے طور پر نماز جمعہ کا نظم قائم کیا اور اس میں خصوصیت کے ساتھ خطبہ جمعہ بھی رکھا تاکہ جمعہ کا خطیب منبر پر کھڑے ہو کر حاضرین کو اللہ اور اس کے رسول ؐکے خطبات کی روشنی میں خطاب کرے۔
واضح رہے کہ قرآن کا اصل تعارف یہ ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ان بیانات اور خطابات کا مجموعہ کلام ہے جو آنحضورﷺ پر تیئس (۲۳) سالوں میں نازل ہوئے اور جن کی روشنی میں آپؐ نے اپنی تئیس(۲۳) سالہ نبوی زندگی گذاری اس لحاظ سے آنحضورﷺ کے اقوال و افعال اللہ تعالیٰ کے مجموعہ کلام قرآن مجید کی علمی و عملی شرح ہیں اس لئے جس نے قرآن کو نہیں سمجھا اس نے اللہ کی تقریروں کو نہیں سمجھا اور یہ بات ایک مسلمان کے لئے کتنی تعجب خیز ہے کہ وہ انسانوں کی تقریروں کو تو سمجھے لیکن اللہ کی تقریروں سے نا سمجھ رہے، نماز جمعہ اور خطبہ جمعہ ایک طرح سے دنیا کے تمام مسلمانوں کے لئے ہفتہ واری تعلیمی تربیتی اور تنظیمی اجتماع ہے ۔سالانہ اجتماع کے طور پر اللہ تعالیٰ نے نماز عید الفطر اور نماز عیدالاضحی کو رکھا اور ان دونوں اجتماعات میں بھی خصوصیت کے ساتھ خطبہ عید الفطر اور خطبہ عید الاضحی رکھا تاکہ یہ دونوں اجتماعات بھی مسلمانوں کی تعلیم و تربیت و تنظیم کا ذریعہ بن سکے سالانہ اجتماع کے طور پر اللہ تعالیٰ نے ایک اور اجتماع رکھا اگرچہ اس میں تمام مسلمانوں کی شرکت لازمی قرار نہیں دی گئی بلکہ جو جسمانی و مالی لحاظ سے مکہ جانے کی استطاعت رکھتے ہیں ان پر ہی اس اجتماع میں شرکت لازمی قرار دی گئی اس اجتماع کو حج کا اجتماع کہتے ہیں جس کی حیثیت دنیا کے تمام مسلمانوں کے لئے ایک عالمی اجتماع کی ہے اور اس اجتماع میں بھی خطبہ رکھا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعہ عالمی سطح پر مسلمانوں کی رہنمائی کی جاسکے۔
اسلام کے مذکورہ اجتماعات کی تفصیل کو دیکھ کر کیا کوئی سوچ سکتا ہے کہ پھر بھی کوئی مسلمان فکری علمی، عملی اور تنظیمی لحاظ سے اسلام سے دور رہے گا ؟ اور اگر وہ پھر بھی اسلام سے دورر ہے تو یہی کہا جائے گا کہ وہ ان اجتماعات میں شریک نہیں ہوتا یا شریک ہوتا ہے تو اجتماع میں پڑھی اور سنی جانے والی باتوں کو سمجھتا نہیں یا صرف دکھاوے کے لئے شریک ہوتا ہے ان اجتماعات میںسب سے اہم اجتماعات روزانہ کے پانچ اوقات کے اجتماعات ہیں جو نماز فجر ، ظہر ، عصر، مغرب اور عشاء کے نام سے منعقد ہوتے ہیں، ان اجتماعات کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ مساجد میں ایک امام کی قیادت میں منعقد ہوتے ہیں جس سے ان اجتماعات کی افادیت بڑھ جاتی ہے ، مجبوری اور شرعی عذر کی صورت میں یہ اجتماعات مسجد کے علاوہ دوسری جگہ بھی منعقد کئے جا سکتے ہیں لیکن ان اجتماعات میں جماعت کی اتنی اہمیت ہے کہ اگر دو فرد بھی ہو چاہے مسجد میں ہو یا مسجد کے علاوہ دوسری جگہ پر تو حکم ہے کہ وہ جماعت سے نماز پڑھے جس میں ایک امام ہو اور دوسرا مقتدی ، ان اجتماعات کے اوقات کی تعیین بھی کچھ اس انداز سے کی گئی ہے کہ جہاں یہ اجتماعات اہل ایمان کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بن سکے وہیں یہ اجتماعات تمام انسانی و اسلامی مسائل کے حل کا ذریعہ بھی بن سکے۔چنانچہ ان پانچوں اجتماعات میں سے سب سے پہلا اجتماع رات کے اختتام اور دن کے آغاز میں صبح صادق کے فوراً بعد سورج نکلنے سے پہلے نماز فجر کے نام سے رکھا گیا ہے تاکہ دن کا آغاز اللہ کی عبادت اور قرآن کی تعلیم سے ہو ۔یہی وجہ ہے کہ نماز فجر میں دیگر نمازوں کی بہ نسبت قرآن کی تلاوت زیادہ رکھی گئی ہے،ساتھ ہی اس فجر کے اجتماع سے یہ بھی مقصود ہے کہ محلہ اور بستی میں عشاء کی نماز کے بعد سے رات میں کیا مسئلہ پیش آیا ،کس کے گھر چوری ہوئی ،کس کے گھر میت ہوئی ،وہ محلہ اور بستی کے تمام لوگوں کو سورج نکلنے سے پہلے ہی معلوم ہوجائے تاکہ اس مسئلہ کے حل کے سلسلہ میں ہر فرد اپنا کردار ادا کرسکے ،کیونکہ کسی بھی مسئلہ کے حل کے سلسلہ میں سب سے پہلے اس کا علم ضروری ہے اور یہ علم بھی ایک جماعت کو ہونا ضروری ہے کیونکہ بہت سے انسانی اور اسلامی مسائل ایک دو فرد سے حل نہیں ہوتے بلکہ ان کے لئے بہت سے افراد کی ضرورت پڑتی ہے یہی وجہ ہے کہ محلہ بستی اور شہر میں رات میں رونما ہونے والے واقعات کا علم نماز فجر کے اجتما ع میں آنے والے افراد کو سب سے پہلے ہوتا ہے۔دوسرا اجتماع آدھے سے زیادہ دن گزرنے کے بعد دوپہر کو سورج ڈھلنے کے بعد نماز ظہر کے نام سے منعقد ہوتا ہے تاکہ ضروریات زندگی کے کام کاج اور کاروبار سے ذہن پر جو غفلت طاری ہوتی ہے وہ غفلت دور ہو جائے ساتھ ہی محلہ بستی اور شہر میں نماز فجر کے بعد سے کیا مسئلہ پیش آیا وہ سب کو اجتماعی طور پر معلوم ہوجائے ،فجر اور ظہر کے وقت کے درمیان میں چونکہ زیادہ کاموں کی ضرورت پڑتی ہے اس لئے دونوں اجتماع کے درمیان میں زیادہ فاصلہ رکھا گیا ہے تاکہ یکسوئی کے ساتھ کام انجام دیئے جا سکے۔تیسرا اجتماع اس کے دو تین گھنٹے کے بعد نماز عصر کے نام سے منعقد ہوتا ہے تاکہ ظہر کے بعد سے ذہن پر جو غفلت طاری ہوئی وہ دور ہو جائے ساتھ ہی معاشرہ میں ظہر کے اجتماع کے بعد سے جو حالات پیش آئے وہ عصر کے اجتماع میں تمام اہل ایمان کو اجتماعی طور پر معلوم ہو جائے ، اگرچہ ظہر اور عصر کے اجتماع کے درمیان میں وقفہ فجر اور ظہر کے درمیان سے کم ہے لیکن یہ وقفہ اسلئے کم اور مناسب ہے کہ کاموں کا زور بھی کم ہو جاتا ہے اور جسم و ذہن بھی پہلے وقفہ کی بہ نسبت زیادہ تھک جاتا ہے ، اسلئے کم وقفہ میں جسمانی و ذہنی آرام کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ نماز جہاں ایک طرف عبادت و تعلیم کا ذریعہ ہے وہیں دوسری طرف جسمانی و ذہنی آرام کا بھی ذریعہ ہے۔
چوتھا اجتماع نماز مغرب کے نام سے منعقد ہوتا ہے تاکہ عصر اور مغرب کے درمیان کے وقفہ میں شیطان اور غلط ماحول نے ذہن پر جو غفلت طاری کیا ہے وہ دور ہو جائے ساتھ ہی عصر اور مغرب کے اجتماع کے درمیان میں معاشرہ میں جو حالات پیش آئے اس کا علم تمام شرکاء اجتماع کو رات کے اندھیرا ہونے سے پہلے ہی ہو جائے ، یقینا عصر اور مغرب کے درمیان کا وقفہ بہت کم ہے جو گھنٹہ سو ا گھنٹہ کا ہوتا ہے لیکن نظام زندگی کے حوالہ سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ نہ صرف یہ کہ اتنا ہی وقفہ کافی ہے بلکہ اتنا ہی وقفہ ضروری ہے کیونکہ یہ اجتماع سورج غروب ہونے کے بعد منعقد ہوتا ہے اور سورج غروب ہونے کا مطلب دن کا رخصت ہونا اور رات کا آنا ہے اور معاشرہ میں بے شمار لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے محلہ بستی اور شہر سے کاموں کے سلسلہ میں نماز فجرکے اجتماع کے بعد سے روانہ ہوتے ہیں، اوران کی ظہرو عصر کی نمازیں سفر، کھیت اور جنگل میں ادا ہوتی ہیں ،اور وہ اپنے مقام پر مغرب ہی میں پہونچ پاتے ہیں اسلئے سورج غروب ہونے کے فوراً بعد یہ چوتھا اجتماع رکھ دیا گیا تاکہ سفر ،کھیت اور جنگل میں جانے والوں کو محلہ اور بستی کے دن بھر کے حالات کا علم رات کا اندھیرا چھانے سے پہلے ہی ہو جائے ساتھ ہی وہ نماز مغرب میں امام صاحب سے قرآن کی جہری قرآت کو سن کر دین کی تعلیم حاصل کرے اور اپنے ذہن کی غفلت کو دورکرے۔ یومیہ لحاظ سے پانچواں اجتماع نماز عشاء کے نام سے منعقد ہوتا ہے اگرچہ اس میں بھی وقفہ کم ہوتا ہے یعنی مغرب اور عشاء کے درمیان گھنٹہ دیڑھ گھنٹہ کا وقفہ ہوتا ہے، اگرچہ وقت کے لحاظ سے عشاء کا وقت بہت طویل ہوتا ہے جو صبح صادق تک رہتا ہے۔لیکن ادائیگی کے لحاظ سے عشاء کی نماز مغرب کی نماز سے دیڑھ دو گھنٹہ کے بعد ہی ادا کرلی جاتی ہے تاکہ عشاء کی نماز کی جماعت کیں لوگوں کی شرکت بھی زیادہ ہو اور سونے سے پہلے اللہ کی عبادت بھی ہو جائے اور نماز عشاء میں امام صاحب سے قرآن سن کر دین کی تعلیم بھی حاصل ہو جائے ۔ مغرب ،عشاء اور فجر کی نمازوں میں قرآن کی تلاوت بلند آواز میں رکھی گئی ہے تاکہ تمام مقتدیوں کو امام صاحب کے ذریعہ قرآن کی تعلیم ملے جو ان کی تربیت کا ذریعہ بن سکے ان تینوں نمازوں میں قرآن کی تلاوت بلند آواز میں رکھنے کی ایک مصلحت یہ بھی ہو سکتی ہے چونکہ مغرب عشاء اور فجر کی نمازوں کا شمار رات کی نمازوں میں ہوتا ہے اور رات کو نزول قرآن سے ایک خاص نسبت ہے ا سلئے کہ قرآن لیلۃ القدر میں نازل ہوا، اور اس لئے بھی کہ رات کا وقت یکسوئی اور خاموشی کا ہوتا ہے اور یکسوئی و خاموشی میں جو بات کہی اور سنی جاتی ہے وہ ذہن و دل پر زیادہ اثر کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ آنحضورﷺ کو بھی خصوصیت کے ساتھ رات میں قرآن پڑھنے کا حکم تھا ، چنانچہ سورئہ مزمل کے شروع میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ۔ یٰاَ یُّھَا الْمُزَّمِّلُ (۱) قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا(۲) نِصْفَہُ اَوِ نْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلاً (۳)اَوْ زِدْعَلَیْہِ وَ رَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِیْلاً ۔ (ترجمہ : اے چادر اوڑھنے والے اٹھیئے رات کو مگر تھوڑا، آدھی رات یا اس سے کم یا اس پر اضافہ کردیجئے اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھئے۔ )
مذکورہ آیت میں آنحضورﷺ کو جہاں قیام لیل کا حکم دیا گیا ہے وہیں قیام لیل کا مقصد بھی بتا دیا گیا اور وہ ہے قرآن مجید کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا، اسی طرح سورہ بنی اسرائیل میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُ لُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیْلِ وَ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْھُوْدًا ۔ وَمِنَ الَّیْلِ فَتَھَجَّدْ بِہِ نَافِلَۃً لَّکَ عَسٰیٓ اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَاماً مَّحْمُوْداً (آیت ۷۸۔۷۹) قائم کیجئے نماز سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک اور فجر کا قرآن بھی قائم کیجئے بیشک فجر کا قرآن گواہ بنایا گیا ہے اور رات میں (قرآن) کے لئے کوشش کیجئے یہ آپؐ کے لئے زائد ہے قریب ہے کہ آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر فائز کرے۔ مذکورہ آیات میں جو ہدایات ہیں وہ تمام مومنین کے لئے ہیں صرف ان میں سے تہجد میں قرآن پڑھنا آنحضورﷺ کے لئے ضروری تھا اور مومنین کے لئے نفل ہے، مذکورہ آیت میں جہاںپانچوں نمازوں کے قائم کرنے کا حکم ہے وہیں نمازوں کو قائم کرنے کے مطلب کی وضاحت بھی ہے ، سورج ڈھلنے سے لے کر رات کے اندھیرے تک میں ظہر، عصر،مغرب ،عشاء چار نمازیں آگئیں، اور قرآن الفجر میں فجر کی نماز آگئی یہ فجر کی نماز کا صفاتی نام ہے کیونکہ اس میں دیگر نمازوں سے قرآن زیادہ پڑھا جاتا ہے ، اور اس نماز میں قرآن زیادہ رکھنے کی وجہ بھی بتلادی گئی وہ یہ کہ فجر کا قرآن پڑھنا او رسننا دن بھر گواہ کا کام انجام دیتا ہے مطلب یہ کہ نماز فجر کا قرآن پڑھنا اور سننا نمازی کو دن بھر یہ یاد اور احساس دلاتا ہے کہ توُنے نماز فجر میں قرآن پڑھا اور سنا اس لئے تجھے قرآن کے خلاف کوئی کام نہیں کرنا چاہئے لیکن اس ہدایت پر عمل اسی وقت ہو سکتا ہے جب کہ قرآن پڑھنے اور سننے والا قرآن کو سمجھے ، اس لئے نمازی کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ نماز میں پڑھی اور سنی جانے والی سورتوں کو سمجھنے کی کوشش کرے اور یہ بھی نماز کے لازمی تقاضوں میں سے ایک اہم تقاضہ ہے لیکن افسوس ہے کہ ابھی ستر(۷۰) اسی (۸۰) سالہ پنجوقتہ نمازیوں نے بھی نماز کی سورتوں اور اذکار کو سمجھنا اپنی ذمہ داریوں میں شامل نہیں کیا جس کی وجہ سے دن بھر میں ان سے اپنی نماز کے خلاف سینکڑوں کام سرزد ہو جاتے ہیں لیکن انہیں ذرا بھی احساس نہیں ہوتا کہ انہوں نے خود اپنی نماز کے خلاف کام کیا ،ورنہ اگر نماز ی اپنی آدھی رکعت کو بھی سمجھ لے تو یہ آدھی رکعت بھی نمازیوں کی مکمل اصلاح کے لئے کافی ہو جائے، آدھی رکعت کا لفظ سورہ فاتحہ کے متعلق استعمال کیا گیا ہے اس لئے کہ سورئہ فاتحہ پڑھنے سے مکمل ایک رکعت کی قرآت نہیں ہوتی بلکہ آدھی رکعت کی قرآت ہوتی ہے سورئہ فاتحہ کے ساتھ کوئی سورت یا ایک بڑی آیت یا تین چھوٹی آیات پڑھنے سے ایک رکعت کی قرآت مکمل ہوتی ہے ، اب اگر کسی نمازی کو سورہ فاتحہ کا مفہوم و مطلب معلوم ہو جائے جس میں پورے دین اور قرآن کا خلاصہ ہے تو صرف یہی ایک سورت تمام نمازیوں کی ہدایت کے لئے اور گمراہی سے بچنے کے لئے کافی ہو جائے، کیونکہ ہر نمازی سورئہ فاتحہ میں اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیمَ ، صِرَاطَ الَّذِینَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الَّضَآلِّیْنَ ۔ پڑھتا اور سنتا ہے سیدھے راستہ کی رہنمائی میں زندگی کے تمام شعبوں میں اسلام کا راستہ اختیار کرنے کی تلقین آگئی ، چاہے وہ عقائد کا شعبہ ہو یا عبادات کا ،یا معاملات کا ،یا سیاسیات کا، ساتھ ہی سیدھے راستہ کی ہدایت کی دعا سے ہر نمازی پر یہ بات عائد ہو گئی کہ وہ زندگی کے تمام شعبوں میں سیدھے راستہ کا علم حاصل کرے اور اس پر عمل کرے اب اگر وہ زندگی کے تمام شعبوں میں اسلام کا علم حاصل نہیں کرتا ہے تو گویا اس نے ابھی اپنی نماز کے آدھی رکعت کے تقاضہ کو پورا نہیں کیا، اسی سورہ فاتحہ کی دعا میں غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الَّضَآلِّیْنَ ہے مطلب یہ کہ ہر نمازی اپنی نماز میں اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہا ہے کہ مجھے ان لوگوں کے راستہ پر مت چلا جن پر تیرا غضب نازل ہوا، اور جو گمراہ ہو گئے ، اب اس دعا میں زندگی کے تمام شعبوں میں اللہ کی نافرمانی سے بچنے کی دعا شامل ہو گئی چاہے وہ عقائد کا شعبہ ہو یا عبادات کا، یا معاملات کا،یا سیاسیات کا، اس لحاظ سے اب ہر نمازی پر یہ بات عائد ہو گئی کہ وہ زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق گمراہی کا علم حاصل کرے اور اس سے بچے ، اور اگر اس نے زندگی کی تمام شعبوں کے متعلق گمراہی کو نہیں جانا تو اس نےاپنی نماز کی آدھی رکعت کو نہیں جانا، اور ظاہر ہے جس نمازی نے ابھی آدھی رکعت کا علم حاصل نہیں، کیا ایسے نمازی سے یہ کیسے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ پوری نماز پر عمل بھی کرے گا ، اس لئے اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ نمازیوں میں یہ تحریک و دعوت زور و شور سے چلے کہ نماز پڑھنے والے اپنی نمازوں کا علم حاصل کریں، تاکہ ان کے لئے زندگی میں نماز قائم کرنا آسان ہو جائے ، اور جو بے نمازی ہیں وہ بھی نماز ادا کرنے والے اور نماز قائم کرنے والے بنیں۔اگر نمازیوں نے اپنی نمازوں کا علم حاصل نہیں کیا اور نہ ہی نمازوں کے تقاضہ پر عمل کیا تو ایسے نمازیوں کے لئے قرآن میں سخت ترین و عید ہے ، چنانچہ سورئہ ماعون میں اللہ کا ارشاد ہے ۔ فَوَیْلُ لِّلْمُصَلِّیْنَ (۴) اَلَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ صَلَاتِھِمْ سَاھُوْنَ (۵) اَلَّذِیْنَ ھُمْ یُرَ آئُ وْنَ (۶) وَ یَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ (۷)(ماعون آیت ۴تا ۷) ۔ ترجمہ : پس خرابی ہے اُن نمازیوں کے لئے جواپنی نمازوں سے غافل ہیں، جو دکھا وا کرتے ہیں ،اور ضرورت کی چیزیں نہیں دیتے، )مذکورہ آیت میں جن نمازیوں کے لئے خرابی ناکامی اور تباہی کی وعید سنائی گئی ہے ان کا تعارف ہی مُصَلِّیْنَ یعنی نماز پڑھنے والوں کے طور پر پیش کیا گیا ہے، مطلب یہ کہ وہ نماز ادا کرنے والے توہیں لیکن وہ ابھی نماز قائم کرنے والے نہیں ہوئے، اگرچہ اس سے مراد اولین طور پر دور نبوی کے منافقین ہیں لیکن یہ وعید عام ہے جن نمازیوں میں بھی ،مذکورہ آیات میں بیان کی ہوئی تین صفات ہوں گی ان تما م نمازیوں کے لئے یہ وعید اور تنبیہ ہے اس لئے آیات میں بھی بغیر منافقین کے تذکرہ کے وعیدسنائی گئی ہے۔
جن نمازیوں کے لئے ناکامی کی وعید سنائی گئی ان کی پہلی صفت سَاھُوْ نَ بیان کی گئی ہے جس کے لفظی معنی بھولنے اور غفلت کے ہیں مطلب یہ کہ جو کچھ انہوں نے نماز کی ادائیگی میں قرآن پڑھا اور سنا نماز کے باہر کی زندگی میں اس کے پیغام کو بھلا دیا اور اس سے غافل ہو گئے ، جبکہ نماز اس لئے ادا کروائی گئی تھی کہ وہ نماز کے باہر کی زندگی میں قرآن کی تعلیم کی یاد دہانی کا ذریعہ بن سکے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں نماز کے ایک اہم مقصد کو ان الفاظ میں بیان فرمایا وَ اَقِمِ الَّصلٰوۃٰ لِذِکْرِیْ (طہٰ ۱۴) اور نماز قائم کیجئے میرے ذکر کے لئے ، لفظ ذکر قرآن مجید میں قرآن کے صفاتی نام کے طور پر بیان ہوا ہے اسی طرح اللہ کی پہلی کتابوں کیلئے بھی صفاتی نام کے طور پر بیان ہوا ہے ، جیسا کہ خود قرآن میں قرآن کے لئے بیان ہوا ہے۔ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الْذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہ لَحٰفِظُوْنَ (حجر آیت۹) یعنی بیشک ہم ہی نے ذکر یعنی قرآن نازل کیا اور بیشک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ مذکورہ آیت میں ذِکْر سے مراد تمام مفسرین کے نزدیک قرآن ہی ہے اسی طرح جو توریت اور انجیل کا حقیقی علم رکھتے تھے ان کا تعارف قرآن میں اہل ذکر کے طور پر ہی پیش کیا گیا ، چنانچہ قرآن میں ایک مقام پر فرمایا گیا ، فَسْئَلُوْا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(سورئہ انبیاء آیت ۷) پس اہل ذکر یعنی توریت اور انجیل کے حقیقی علماء سے پوچھو اگر تم نہیں جانتے ہو مذکورہ آیت میں ان لوگوں کے سامنے ایک تجویز رکھی گئی جو آنحضورﷺ کی نبوت میں شک کرتے تھے یا نہیں مانتے تھے ،مذکورہ دونوں ہی آیات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ لفظ ذکر اللہ کے کلام کا صفاتی نام ہے ذکر کے معنی نصیحت و یاددہانی کے ہے چونکہ قرآن مجید یا د دہانی و نصیحت کا سرچشمہ ہے اس لئے اس کا نام ذکر ہے ۔ (جاری)
مشمولہ: شمارہ جون 2016