اس سلسلہ مضامین میں ہندتوا کی فکری اساسیات کا جائزہ لینے کے بعد ،ہم نے کانگریس اور اس کے بطن سے نکلنے والی سیاسی تحریکوں نیزبائیں بازو، سماج واد اور دلت تحریکوں کے اُن فکری و عملی رویوں کا جائزہ لیا جن کی وجہ سے ہندتوا کے فکر کی توسیع اور اُس کی سیاسی مقبولیت کی راہیں ہم وار ہوئیں۔آج ہم اسی طرح کا جائزہ مسلمانوں کی سیاسی تحریکوں اور سیاسی افکار کے سلسلے میں لیں گے۔
ہمارے خیال میں،ہندوستان میں مسلم سیاست کا سب سے بڑا مسئلہ واضح سیاسی وژن کے فقدان کا مسئلہ ہے۔ کسی اجتماعی گروہ کی پہلی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی حیثیت متعین کرے کہ وہ کیا ہے؟ اسی حیثیت سے اُس کے سیاسی رجحان و فکر کی تشکیل کی بنیادیں فراہم ہوتی ہیں اور اُس کے سیاسی بیانیے میں ہم آہنگی اورسیاسی عمل میں تسلسل پیدا ہوتا ہے۔ یہ سیاسی کام یابی کی نہایت اہم ضرورت ہے۔ حیثیت و پوزیشن ہی میں کنفیوژن ہو اور واضح سیاسی نصب العین موجود نہ ہو تو سیاست کٹی پتنگ بن جاتی ہے۔ ایک ماہر سیاسیات کی درج ذیل بات ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی صورت حال کی بہت درست ترجمانی کرتی ہے:
سیاست دراصل تبدیلی ہی کا نام ہے۔سیاسی افکار کا مقصد ہی یہ ہونا چاہیے کہ وہ ہم کو(تبدیلی کے کسی وژن پر)مجتمع کریں اور یہ یقین پیدا کریں کہ ہم اپنا مستقبل خود تشکیل دے سکتے ہیں۔ سیاسی وژن نہ ہو تو ہم محض حالات کے دھارے میں اپنے بہاؤکے تماشائی بن کر رہ جاتے ہیں۔[1]
یہ بات بھی واضح رہے کہ سیاسی عمل یا سیاسی بیانیے سے ہماری مراد صرف انتخابی سیاست (electoral politics) اور اس کی مہم یا اس کے متعلقات نہیں ہیں۔ سیاسی عمل (political process) پبلک پالیسی کو متاثر کرنے اور اسے اپنے فکر و نظریے کے مطابق مناسب رخ دینے کی کوشش کا نام ہے۔ انتخابی سیاست، اس کوشش کا ایک حصہ ہوسکتی ہے۔اصل چیز وہ مطلوب تبدیلی ہوتی ہے جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔اس تبدیلی کے لیے اصلاً لوگوں کی سوچ اور پبلک اوپینین کو بدلنے کی کوششیں کی جاتی ہیں۔ بعض اوقات انتخابی سیاست، اس مطلوب تبدیلی کے لیے مفید ہوتی ہے اور بعض اوقات مفید نہیں بھی ہوتی۔اگلی سطروں میں بعض مثالیں ہم ایسی دے رہے ہیں جن کا تعلق راست الیکٹورل پالیٹکس سے نہیں ہے لیکن چوں کہ پبلک پالیسی کو متاثر کرنے کی وہ سنجیدہ کوششیں تھیں اس لیے ہم سیاسی عمل اور سیاسی بیانیے کی مثالوں کے طور پر انھیں زیر بحث لائے ہیں۔ آج بھی راست الیکٹورل سیاست کے مواقع مسلمانوں کے لیے محدود ہوسکتے ہیں لیکن عوامی رسوخ حاصل کرنے کے ایسے بہت سے طریقے ان کے پاس موجود ہیں جن کے ذریعے وہ اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرسکتے ہیں۔ ان موضوعات کو اگلی قسطوں میں ہم تفصیل سے زیر بحث لائیں گے۔ ان شاء اللہ
ہم اگلی سطروں میں واضح کریں گے کہ آزاد ہندوستان میں مسلمان اپنی حیثیت کے بارے میں بھی کنفیوژن کے شکار رہے اور سیاسی بیانیے کی تشکیل اور سیاسی عمل کی منصوبہ بندی میں بھی اُن کے درمیان طرح طرح کے باہم متضاد رجحانات کارفرما رہے۔ اس صورت حال کا ہندتوا قوتوں نے بڑی چابک دستی اور مہارت سے استحصال کیا اور اسے اپنی کام یابیوں کا زینہ بنایا۔
تاریخی پس منظر
اس بحث کو آگے بڑھانے کے لیے مناسب ہوگا کہ ہندو فرقہ پرستی اور مسلم سیاست کے تعلق کے تاریخی پس منظر پر ایک نگاہ ڈالی جائے۔ جدید فرقہ پرستی کی تاریخ کا آغاز 1857 کی پہلی جنگ آزادی سے ہوتا ہے۔ یوں تو اس تحریک میں مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں نے بھی حصہ لیا تھا، لیکن انگریزوں کے غیض و غضب کے نشانہ خاص طور پر مسلمان بنے۔اس وقت تک شمالی ہند میں خوشحال مسلم معیشت کا بڑا انحصار، سرکاری عہدوں و نوکریوں اور زمین داری پر تھا۔ انگریزوں نے منظم و منصوبہ بند کوشش کی کہ مسلمانوں کی سیاسی، معاشی، تہذیبی و سماجی، ہر طرح کی قوت کو پوری طرح کچل دیا جائے۔ اس پالیسی نے مسلمانوں میں انگریزوں سے ہی نہیں بلکہ اُن کی تہذیب ، تعلیم اور نوکریوں سے بھی شدید نفرت پیدا کردی اور مسلمان ہر محاذ پر پچھڑتےچلے گئے ۔ ہندو رہ نماؤں کی ایک بڑی تعداد نے انگریزوں سے قربت پیدا کی اور تعلیمی و معاشی ترقی کے جو مواقع انگریزی اقتدار نے پیدا کیے تھے اُن کا بھرپور استعمال شروع کردیا۔ نتیجتاً ملک میں مسلمان پہلی بار اس صورت حال سے دو چار ہوئے کہ مختلف فرقوں کے لوگ ہر محاذ پر نہ صرف ان کے مقابلے میں کھڑے تھے بلکہ ان کو پیچھے چھوڑ کر تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے۔ ایک طرف مسلمانوں میں اس کا فطری رد عمل تھا اور دوسری طرف ہندوؤں کے بعض طبقوں کے لیے یہ صورت حال مسلمانوں کو پیچھےکرنے اور بدلہ لینے کا موقع تھی۔ انگریزوں نے جنگ آزادی (جسے انگریز غدر کہتے تھے) کے انتقام میں سرکاری ملازمتوں کے دروازے مسلمانوں کے لیے بندکر رکھے تھے۔اُن کو کھولنے کی کوششیں ہوئیں تو بعض ہندو دانش وروں نے اس کی سختی سے مخالفت کی۔ یہ جدید فرقہ وارانہ کشمکش کا آغاز تھا۔ انگریزی اقتدار کی بقا کے لیے بھی ضروری تھا کہ یہاں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان کشمکش کی فضا بنی رہے۔اس کشمکش کو استعمال کرکے انھوں نے لڑاؤ اور حکومت کرو ، پالیسی کے بیج بونا شروع کردیے۔جلد ہی یہ کشمکش مذہبی دائرے میں بھی داخل ہوگئی۔ مغربی تہذیبی یلغار کے رد عمل میں اور جدید مغربی تعلیم کے نتیجے میں،ہندو سماج میں اصلاحی تحریکوں کا آغاز ہوا۔بعض ہندو مصلحین نے اسلام کی تعلیمات کو بھی نشانہ بنانا شروع کیا۔[2] جواب میں مذہبی مناظروں کی وہ تحریک شروع ہوئی جس کا مقصد افہام و تفہیم کم اور ایک دوسرے پر اپنی برتری ثابت کرنے کی کوشش زیادہ تھا۔ سیاسی انتقام کی آرزو، معاشی کشمکش اور مذہبی مناظروں نے مل کر وہ صورت حال پیدا کردی جس کے اثرات نے شمالی ہند میں دونوں فرقوں کے خصوصًا خوشحال طبقات کے درمیان گہری خلیج پیدا کردی۔
اس خلیج کو بنگال کی سیاست اور وہاں انگریزوں کی پالیسیوں نے اور گہرا کردیا۔ بنگال میں اٹھارہویں صدی کے آغاز ہی میں انگریزوں نے ایک ظالمانہ قانون (Permanent Settlement Act 1793)منظور کرکے غریب کسانوں کی زمینوں پر بڑے جاگیرداروں کو مستقل قبضہ دلادیا تھا۔[3]کسانوں میں اکثریت مسلمانوں کی اور زمین داروں میں اکثریت اعلیٰ ذات کے ہندوؤں کی تھی۔ کسانوں کی مزاحمتی کوششوں کو ہندو مسلم کشمکش بنادیا گیا۔1905میں بنگال کی تقسیم کا اعلان کیا گیا جس سے مسلم اکثریتی مشرقی حصہ اور ہندو اکثریتی مغربی حصہ، دو الگ الگ صوبے قرار پائے۔[4] اس سے خوش حال ہندوؤں کے مفادات متاثر ہورہے تھے۔ اُن کے احتجاج پر، مسلمانوں کی مخالفت کے باوجود، اس تقسیم کومنسوخ کردیا گیا۔ ان متواتر واقعات نے ایسی صورت حال پیدا کردی کہ مسلمانوں کے معاشی و سیاسی مفادات، ہندوؤں کے مفادات سے متصادم سمجھے جانے لگے۔ بعد میں ملک کی سیاست نے اور خاص طور پر تقسیم ہند نے اس تناؤ میں اور شدت پیدا کردی۔[5] یہ سوال مسلم رہ نماؤں کے درپیش ہوا کہ ملک میں مسلمانوں کے بہتر سیاسی مستقبل کی راہ کیا ہے؟
اس سوال نے مسلم سیاسی ڈسکورس کو دو بڑے خانوں میں تقسیم کردیا۔ ایک طرف وہ مسلمان تھے جو متحدہ قومیت کے نظریے میں یقین رکھتے تھے اورنہرو و گاندھی کی قیادت میں چل رہی کانگریس کی پالیسی ہی کو مسلمانوں کے لیے مفید سمجھتے تھے۔ دوسری طرف مسلم لیگ کی قیادت میں علیحدہ قومیت کے تصور پر یقین رکھنے والے مسلمان تھے جو ‘ مسلمان قوم’ کے حقوق کی لڑائی لڑرہے تھے۔ عام طور پر مسلم سیاست اور مسلم ڈسکورس انھی دو خانوں میں بٹا ہوا تھا۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان معتدل آوازیں بھی تھیں، جن پر وہ توجہ نہیں دی گئی جس کی وہ مستحق تھیں۔ ان میں ایک نمایاں آواز مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ کی تھی۔اس مضمون کے قارئین اُن بحثوں سے واقف ہیں جو مولانا مرحوم نے ترجمان القرآن میں چھیڑی تھیں۔تحریک آزادی کے آخری دور میں مولانا مرحوم نےمسلمانوں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ ملک میں ایک ایسے نظام کی کوشش کریں جو مکمل دارالاسلام نہ ہو تو کم از کم شِبہ دارالاسلام ہو یعنی جہاں اسلام کے ماننے والے ، ملک کی حکومت میں مسلمان ہونےکی حیثیت سے حصّے دار ہوں اور دین و تہذیب سے متعلق بعض اہم معاملات میں انھیں حقِ خود اختیاری حاصل ہو۔[6] آزاد ہندوستان کے لیے جو خاکے آپ نے تجویز فرمائے اس میں پہلے خاکے میں ایسے انتظام کی تجویز تھی جس میں ملک ‘متوافق قوموں کی ایک ریاست’ کی شکل میں کام کرے۔ [7]مولانا نے اسی طرح کا مشورہ حیدرآباد کے قاسم رضوی کو دیا تھا۔ ان کو لکھے گئے تفصیلی خط میں مولانا مرحوم نے مسلمانوں کے زوال کا مختصر لیکن بڑا بصیرت افروز تجزیہ بھی کیا تھا:
عیش دنیا میں انہماک، فوجی طاقت اور سیاسی اقتدار پر انحصار،اسلام کی دعوت پھیلانے سے تغافل اور انفرادی سیرتوں اور اجتماعی طرز عمل میں اسلام کے اخلاقی اصولوں سے انحراف کا یہ نتیجہ ہوا،کہ ان علاقوں کی عام آبادی غیر مسلم رہی،مسلمان ان کے درمیان آٹے میں نمک کے برابر رہے اور دلوں کو مسخر کرنے کے بجائے معاشی اور سیاسی دباؤ سے گردنیں اپنے سامنے جھکوانے پر اکتفا کرتے رہے۔ پھر جب سیاسی اقتدار ان سے چھنا اور ایک غیر ملکی قوم ان پر مسلط ہوئی،تب بھی انھوں نے اور ان کے رہ نماؤں نے اُن اسباب کو سمجھنے کی کوشش نہ کی،جن کی بنا پر وہ حاکم سے محکوم بن کر رہ گئے تھے،بلکہ انھوں نے غیر ملکی حکم رانوں کے بل پر جینے کی کوشش کی اور اپنے سیاسی مطالبے اور دعوے کو ہمسایہ اکثریت کے مقابلے میں اس تیسری طاقت سے،جس کے اقتدار کو بہر حال عارضی ہی ہونا تھا،منواتے رہے۔ اس تمام مدت میں زندگی کی جو مہلت مسلمانوں کو ملی تھی،اس میں اپنی اخلاقی اصلاح کرنے اور اپنے بزرگوں کی غلطیوں کی تلافی کرنے کے بجائے، مسلمان محض معاشی اور سیاسی فائدوں کے لیے غیر مسلم اکثریت کے ساتھ کشمکش کرکے بظاہر یہ سمجھتے رہے کہ وہ اپنے جینے کا سامان کر رہے ہیں، لیکن در اصل اپنی قبر کھود رہے تھے۔ آخر کار آج ہماری بد قسمت آنکھوں نے دیکھ لیا کہ بہت سے اس قبر میں دفن ہوگئے اور بہت سے زندہ درگور ہیں۔[8]
اس تجزیے کی بنیاد پر مولاناؒ نے جناب قاسم رضوی کو مشورہ دیا تھا کہ وہ لاحاصل ٹکراؤ کی سیاست ترک کرکے، باعزت معاہدے کے ساتھ انڈین یونین میں انضمام قبول کرلیں۔ مولانا مرحوم نے اس سلسلے میں مفاہمت کے لیے پانچ نکات بھی تجویز فرمائے تھے۔ [9]
آزادی کے کافی عرصہ بعد ایک موقعے پر ہندوستانی مسلمانوں کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا مرحوم نے فرمایا:
ہندو (فرقہ پرستی) کا مقابلہ اگر آپ مسلم قوم پرستی سے کرنا چاہیں گے تو یہ غلطی ہوگی۔ایسی چیزوں سے ہندو قومیت کو غذا ملے گی۔ ہندوؤں میں آپ کو ‘مسلمانوں کے مطالبات’ کے بجائے ‘اسلام کے مطالبات’ لے کر کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ اسلام کو ساتھ لے کر ہندوستانی مسلمان موجودہ مراحل سے گزرتے چلے جائیں تو ان شاء اللہ صورت حال بدل جائے گی اور آج کے مسلمان آئندہ نسلوں کے لیے بہتر حالات پیدا کرنے میں کام یاب ہوجائیں گے۔ہندوؤں میں جو لوگ مسلمانوں کے خلاف فتنے کھڑے کرکے فساد برپا کررہے ہیں، ایک وقت آئے گا کہ وہ خود اس صورت حال سے بے زار ہوجائیں گے۔ [10]
ایک اور طاقت ور آواز وہ تھی جو بہار سے بلند ہوئی تھی۔ مولانا ابوالمحاسن سجادؒ باقاعدہ جمیعت العلماء سے وابستہ تھے لیکن ان کی پالیسیاں اور اپروچ نیشنلسٹ سیاست سے کافی مختلف تھا۔ مولانا ؒ کو اسلامی سیاسیات کے کلاسیکل لٹریچر پر بھی عبور تھا اوروہ اسلامی مراجع سے حوالوں کے ساتھ اپنے اقدامات کی توجیہ کرتے تھے، اسی طرح جدید علم سیاسیات سے بھی واقفیت تھی، پھر عملی و زمینی سیاست سے گہرا تعلق بھی تھا۔ عین آزادی کی جنگ میں جب کہ ملک ایک فیصلہ کن مرحلے میں تھا انھوں نے جہاں مسلم لیگ کےدو قومی نظریے سے پیدا ہونے والی عصبیت کی سیاست کی شدید مخالفت کی،وہیں کانگریس کی متحدہ قومیت کی سیاست میں اکثریتی بالادستی کے امکانات کے سدباب کی بھی کوشش کی۔
مولاناابوالمحاسن سجاد مرحوم نے پہلے تو امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ کے تحت، پھر مسلم یونٹی بورڈ کے نام سے اور آخر میں انڈیپینڈنٹ پارٹی (Independent Party) قائم کرکے جس سیاسی بیانیے کی تشکیل کا کام شروع کیا تھا ،وہ بلاشبہ ایک منفرد کام تھا۔ انھوں نے اسلام کی عادلانہ تعلیمات کو بنیاد بناتے ہوئے سماج کے تمام طبقات کی فلاح وبہبود کا واضح پروگرام تجویز کیا۔ انڈیپنڈنٹ پارٹی کا منشور، اسمبلی میں ان کے قائدین کی تقاریر، اور اس کی انتخابی مہم کی تفصیلات کا ریکارڈ موجود ہے۔ اس کے مطالعے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کا ڈسکورس نہ تو کانگریس کی سیکولر سیاست کا چربہ تھا اور نہ مسلم حقوق کی تکرار یا وقتی مسائل کے دفاع و رد عمل تک محدود تھا، بلکہ تمام طبقات کے لیے عدل کے اسلامی تصور کے رخ پر سیاست کو آگے بڑھانے کی کوشش تھی۔ ان کے پروگرام میں ‘انگریزوں کی غلامی سے آزادی’ اور ‘ ملک کے وسائل کی اہل ملک میں منصفانہ تقسیم ‘ جیسے اہداف بھی شامل تھے وہیں مسلم لیگ کی سیاست اور تقسیم ملک کی شدید مخالفت کے ساتھ ‘مسلمانوں کے نظام ملت کے احیا’ کا پروگرام بھی شامل تھا۔
بہار میں سجاد صاحبؒ کی پارٹی کو تیزی سے مقبولیت حاصل ہوئی اور اس نے مختصر عرصے کے لیے بیرسٹر محمد یونس کی سربراہی میں حکومت بھی تشکیل دی۔اس حکومت نے مختصر عرصے میں کئی اہم کام کیے جن میں ایک نہایت اہم کام انقلابی زرعی و اجارہ اصلاحاتagrarian and tenancy reforms کی شروعات ہے۔ [11]مولانا نے جمہوری سیاست میں اصلاحات کی جو تجاویز پیش کی تھیں وہ بھی بہت اہم تھیں۔اسلامی نظام کے دو اجزا کرکے انھوں نے تفصیل سے واضح کیا تھا کہ کچھ باتیں وہ ہیں جن کا تعلق عدل و انصاف، امن و امان اور دیگر معروف قدروں سے ہے جو مسلم و غیر مسلم رعایا کے لیے یکساں ہیں اور کچھ وہ احکام ہیں جن کا خاص تعلق مسلمانوں سے ہے۔ اس بنیاد پر آزاد ہندوستان میں اہل اسلام کی آزادی کی ایک ‘کم سے کم سطح’ انھوں نے تجویز کی تھی۔[12] یہ کم و بیش وہی بات تھی جو مولانا مودودیؒ نے شِبہ دارالاسلام کے عنوان سے بیان کی تھی(جس کا ذکر اوپر آچکا ہے)۔ بعد میں مولانا سجادؒکے اچانک انتقال کے بعد اور بہار کی سیاست کے بعض مخصوص ڈائنامکس کی وجہ سے،اس متبادل سیاست کا شیرازہ بکھر گیا۔ [13]ہمارے خیال میں یہ ایک تعمیری سیاسی رجحان تھا۔ اس رخ پر اگر ہمارا مذہبی طبقہ، آزادی کے بعد مسلمانوں کی سیاسی رہ نمائی کرتا تو شاید حالات کو بہتر بنانے میں اس سے مدد ملتی۔
آزادی ہند کے بعد
آزادی کے ساتھ ہی، تقسیم ملک کی شدید تلخیاں ہندوستان کے، خاص طور پر شمالی ہند کے مسلمانوں کے حصے میں آئیں۔ مسلمانوں کا سیاسی مستقبل نہایت غیر یقینی حالات کا شکار ہوگیا بلکہ کچھ وقت کے لیے، مسلمان خوف و ہراس اور مایوسی و ناامیدی کی ایسی کیفیت میں آگئےکہ اس میں کسی سیاسی جدوجہد کا تصور بھی ان کے لیے مشکل تھا۔ ان حالات میں 27 اور 28 دسمبر 1947کو لکھنو میں وہ کانفرنس منعقد ہوئی جسے آزاد کانفرنس کہا جاتا ہے۔ مولانا آزادؒ اور جمیعت العلماء کے رہ نماؤں نے مسلمانوں کو علیحدہ سیاسی جماعتیں نہ بنانے اور کانگریس میں شامل ہونے کی ہدایت کی۔ مولانا حفظ الرحمنؒ نے اس موقع پر جو خطاب کیا، اس کے یہ جملے اکثر نقل کیے جاتے ہیں۔ ان سے بدلے ہوئے حالات میں مسلم سیاست کا رخ سمجھ میں آتا ہے۔
کانفرنس نے تمہیں مشورہ دیا ہے کہ مشترک سیاست میں حصہ لو، کسی بھی سیاسی جماعت میں شرکت کرو جو ہندو مسلمانوں کی مشترک ہو، میں کہتا ہوں تم کانگریس میں شرکت کرو کیوں کہ اس سے بہتر کوئی جماعت ہمارے سامنے نہیں ہے۔[14]
یہ صرف ہنگامی حالات کا اعلان نہیں تھا بلکہ ایک لمبے عرصے تک مسلمان اسی پالیسی پر عامل رہے ۔ آزاد کانفرنس کے کچھ ہی دنوں بعد 20 مارچ 1948کو جمیعت نے تیس سالہ سرگرم پارلیمانی سیاست سے دست برداری کا اعلان کیا اور کہا کہ ‘وہ اب اپنی صلاحیتیں، تعلیمی و تہذیبی سرگرمیوں کے لیے وقف کردے گی’ [15]۔ اگرچہ مولانا آزاد نے کانگریس کی کاسہ لیسی سے منع کیا تھا لیکن، اس کے بعدعملاً مسلمان کانگریس کے ساتھ غیر مشروط طور پر وابستہ رہے۔ کانگریس میں صرف نہرو اور آزاد نہیں تھے بلکہ متشدد فرقہ پرست عناصر بھی تھے۔ ملکی سیاست پر، نہرو و آزاد کی موجودگی کے باوجود ان متشدد عناصرکے خاصے اثرات تھے اور شمالی ہند کی ریاستیں تو عملاً انھی کے کنٹرول میں تھیں۔ ان حالات میں یہ کوشش بھی نہیں ہو سکی کہ کم ازکم کانگریس کے اندرہی کوئی پریشر گروپ بنایا جاتا۔ حالاں کہ اس کا اس وقت اچھا خاصا رواج تھا۔ خود نہرو نے کانگریس کے اندر کانگریس سوشلسٹ پارٹی بنا رکھی تھی۔[16] اس طرح کانگریس پر مکمل تکیے نے متبادل سیاسی بیانیے کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رکھی۔حالاں کہ آزادی و تقسیم ملک کے بعد یہ موقع حاصل ہوا تھا کہ مسلمان، پورے ملک کی فلاح و بہبود کے ٹھوس پروگرام کے ساتھ آگے آتے۔ اور علیحدگی پسند گروہ کی اپنی تصویر مٹاکر ملک کے تمام انسانوں کے خیر خواہ کی حیثیت مستحکم کرتے۔
جماعت اسلامی ہند برابر اس بات کی طرف مسلم جماعتوں اور قائدین کو متوجہ کرتی رہی۔ ۱۹۶۱ میں جب، دلی میں مسلم کنونشن، منعقد ہوا تو اس کی کارروائی پر اظہار مایوسی کرتے ہوئے مرکزی مجلس شوری کی قرار داد میں کہا گیا:
مجلس شوری کو اس بات پر نہایت افسوس ہے کہ کنونشن میں مسلمانوں کے مسائل پر غور کرتے ہوئے اس بات کو نظر انداز کردیا گیا کہ مسلمانوں کی اصل حیثیت ایک عالمگیر اصولی پارٹی کی ہے جس کا اصل مقصد وجود ہی امر بالعروف و نہی عن المنکر ہے نہ کہ معروف معنوں میں کسی اقلیت کی۔جس کا نتیجہ صرف یہی نہیں ہوا ہے کہ مسلمانوں کا یہ اجتماع جس میں علما و مشائخ بھی کثیر تعداد میں شریک تھے، مسلمانوں کے اصل فرض منصبی کا کوئی حق ادا نہیں کرسکا بلکہ اس کی وجہ سے دنیوی پہلو سے بھی مسلمانوں کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچ سکا بلکہ کنونشن سے پہلے وہ اپنے آپ کو جس عدم تحفظ کی حالت میں پارہے تھے، اس میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔[17]
اس رخ پر امید کی کرن ۱۹۶۷ میں پیدا ہوئی۔ پیہم فسادات اور ناانصافیوں نے مسلمانوں میں کانگریس سے شدید مایوسی پیدا کردی تھی اور ملک بھر کے مسلمانوں پر خوف و ہراس اور مایوسی کی بڑی تباہ کن کیفیت طاری تھی۔ ان حالات میں بعض مسلمان قائدین کی دعوت پر ، لکھنو ہی میں وہ کنونشن منعقد ہوا جس میں مسلم مجلس مشاورت کے قیام کا فیصلہ ہوا۔ اس طرح ۱۹۴۷کی لکھنو کانفرنس یا آزاد کانفرنس سے مسلمانوں کے جس سیاسی دور کا آغاز ہوا تھا وہ ختم ہوا اور لکھنو ہی میں ہونے والے ایک اور کنونشن (۱۹۶۷) نے ایک اور سیاسی راہ دکھائی۔
لکھنو کنونشن کی ملک کی مسلم سیاسی تاریخ میں بڑی اہمیت ہے۔ اس نے ایک متبادل سیاسی بیانیےکے لیے نہایت مضبوط بنیادیں فراہم کی تھیں۔واضح طور پر یہ اعلان کیا گیا تھا کہ مسلمان اپنا ایک مذہبی و تہذیبی تشخص رکھتے ہیں اور اس کی حفاطت کے لیے وہ جدوجہد کریں گے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور امن و امان کو مسلم سیاست کا ایک اہم موضوع بنایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ فلاحی ریاست(welfare state)، متناسب نمائندگی اور نظام تعلیم کی اصلاح جیسی باتیں بھی اس کے بیانیے میں شامل تھیں جن کا تعلق ملک کے تمام باشندوں سے تھا۔اس کانفرنس کے پس منظر اور مشاورت کے پہلے صدر ڈاکٹر سید محمود ؒ کی بے چینی اور ان کے خیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے معروف عالم دین حضرت مولانا ابوالحسن ندویؒ لکھتے ہیں:
ڈاکٹر صاحب پر جو خیال سب سے زیادہ طاری تھا وہ یہ کہ اس ملک میں اخلاقی قیادت کا ایک خلا ہے، جو صرف مسلمان ہی قرآنی تعلیمات اور اسوہ رسول کی مدد سے پُر کرسکتے ہیں، مسلمانوں کو اس قیادت کی ذمے داری قبول کرنی چاہیے۔ وہ کہتے تھے کہ افسوس ہے کہ اکثریت اس قیادت سے دست کش ہوگئی ہے اور اس نے اپنی اخلاقی ناکامی کا ثبوت دے دیا ہے۔ ان کا اس پر پورا عقیدہ تھا کہ یہ ملک کی اولین ضرورت ہے، اس کے بغیر اس ملک میں جو کام کیا جائے گا وہ سراب اور نقش بر آب ہے— وہ دوڑ دوڑ کر لکھنو آتےاور ہم کو دلی بلاتے۔ دہلی میں ان کا مفتی صاحب، مولانا ابواللیث صاحب اور مسلم صاحب سے برابر رابطہ قائم تھا۔[18]
یہ کسی پر جوش خطیب کی لفاظی یا کسی واعظ کی خوش بیانی نہیں تھی بلکہ ڈاکٹر محمودؒ جیسے ایک جہاں دیدہ عملی سیاستدان (جو آزادی کی لڑائی میں نہرو اور گاندھی کے ساتھ پہلی صف میں شامل تھے اور برسوں کانگریس ورکنگ کمیٹی کے سکریٹری اور مرکزی وزیر رہ چکے تھے) کا تجزیہ تھا۔مولانا ابواللیثؒ ، مولانا علی میاں ؒاور محمد مسلم صاحبؒ جیسے علما و دانش ور ، اس معاملے میں ڈاکٹر صاحب مرحوم کے ساتھ تھے۔ ذیل کے اقتباسات سے اُس طرز فکر کا اندازہ ہوتا ہے جسے اس کانفرنس نے فروغ دینے کی کوشش کی تھی۔
ڈاکٹر سید محمود ؒنے اپنے صدارتی خطبے میں فرمایا:
یاد رکھیے، جو انسانی گروہ جتنا عظیم ارادہ لے کر اٹھتا ہے، اسی تناسب سے اپنے مزاج اور افکار و خیالات کو بھی ڈھالنا ہوتا ہے۔ کوئی بڑا کام کیا ہی نہیں جاسکتا جب تک کہ اپنا ذہن ٹھنڈا اور اپنا دل وسیع نہ کریں۔اللہ تعالی نے آپ کو خیر امت قرار دیا ہے۔یہ محض لقب نہیں ہے جسے فخر و پندار کے طور پر استعمال کیا جاسکے بلکہ ذمے داریوں اور فرائض کا ایک بوجھ ہے جو اس منصب کے واسطے آپ کے سر عائد کردیا گیا ہے۔میرا خیال یہ ہے کہ جب بھی اپنی اس حیثیت کو ہم نے فراموش کیا ہے اس وقت تاریکیوں اور پریشانیوں نے ہم کو گھیر لیا ہے۔اس لیے میں آپ سے عرض کروں گا کہ اپنی اس حیثیت کو ہمیشہ نگاہ میں رکھنے کی کوشش کیجیے اور ایک نئے عزم و ارادے کے ساتھ آگے بڑھیے۔ایسے عزم و ارادے کے ساتھ جو قطب مینار سے زیادہ بلند، لال قلعے سے زیادہ مضبوط و مستحکم اور تاج محل سے زیادہ خوب صورت اور صاف ستھرا ہو۔ [19]
خطبہ استقبالیہ معروف عالم دین ، مولانا ابوالحسن ندویؒ کا تحریر کردہ تھا۔مولانا فرماتے ہیں:
ہم نے اس ملک میں رہنے کا فیصلہ کیا ہےاور جب میں آپ کے سامنے یہ الفاظ کہتا ہوں تو میرا ضمیر خود میرے دل میں چٹکی لیتا ہے اور کہتا ہے کہ رہنے کا فیصلہ کیا معنی ، ہم یہاں پیدا ہوئے اور یہاں ہیں، ہماری موجودگی قائم و استوار ہمالیہ اور رواں دواں گنگا سے زیادہ حقیقی اور پائیدار ہے۔ ہماری عمر اس تاج محل اور قطب مینار سے زیادہ بڑی ہے اور ہمارا حق اس سےز یادہ ثابت ہے جتنا ان قابل فخر یادگاروں کا جن کو ہماری ہی صلاحیتوں نے وجود بخشا۔ ہم یہاں کے ہر مسئلے کو حل کریں گے۔ ہم یہاں کی قومیت، یہاں کی ثقافت اور یہاں کے تمدن میں اس طرح پیوست ہیں کہ ہم کو جدا نہیں کیا جاسکتا۔ہم حکومت سے ہزار بار شکایت کریں گے۔ہم ہزار روٹھیں گے اور منیں گے۔ہم ہر ہندوستانی کا گریبان پکڑ سکتے ہیں اور اسی طرح دوسرے کو بھی یہ حق دیتے ہیں کہ وہ ہمارا گریبان تھامے اور ہم کو ہماری غلطی پر ٹوکے۔لیکن بہر حال ہم کو اسی ملک میں رہنا ہےاور تمام خصوصیات اور تشخصات کے ساتھ رہنا ہے۔ ہم اس ملک کو تباہی، فرقہ پرستی اور فسطائیت کے راستے پر کبھی نہیں دیکھ سکتے۔[20]
ہم نے بطور نمونہ دواقتباسات پیش کیے ہیں۔ کانفرنس کی تفصیلات اور اس کی قرارداد وغیرہ کا ریکارڈ دیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی زندگی کے اس مرحلے میں مسلم رہ نماؤں کے سامنے ایک واضح وژن تھا۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ اب امت کو بڑی سیاسی جماعتوں کا ضمیمہ بن کر نہیں رہنا ہے اور وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ امت کا کام صرف اپنی حفاظت اور اپنے معاشی و مادی مسائل کے حل تک محدود نہیں ہے۔ وہ امت کو ایک ایسے گروہ کے طور پر آگے بڑھانے کے خواہشمند تھے جو ایک متبادل وژن، اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں متبادل تصورات کے ساتھ پورے ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرے۔ اس اجلاس کی تفصیل، اس کی قراردادوں اور کارروائی کے ریکارڈ کے علاوہ اس خصوصی مضمون سے بھی واضح ہوتی ہے جو اجلاس کے ایک نہایت اہم منصوبہ ساز مولانا ابواللیث اصلاحی ندویؒ نے ماہنامہ زندگی کے ادارتی کالم ‘اشارات’ میں لکھا تھا۔ مولانا الفاظ کے استعمال میں بہت محتاط تھے، اس کے باوجود انھوں نے اس اجلاس کو ‘تاریخ کا اہم جز’اور ‘اہم اور عظیم واقعہ’ قرار دیا اور اجلاس کی قراردادوں اور کارروائیوں پر کھل کر ستائشی تبصرہ کیا اور اجلاس پر جو اعتراضات ہورہے تھے ان کا جواب دیا۔ [21]مولانا کے درج ذیل جملوں سے بھی اس اجلاس کے سیاسی وژن کی وضاحت ہوتی ہے:
اسلام ایک وسیع اور زمانے کے ساتھ چلنے والا مذہب ہے اور وہ اپنے ماننے والوں میں صحیح جمہوریت اور وسعت و رواداری کے حقیقی جذبات کی پرورش کرتا ہے اور ہمیں اس بات کا پورا یقین ہے کہ اگر مسلمانوں نے صدق دل سے اجتماع کے مشوروں پر عمل کیا تو ان شاء اللہ تھوڑے ہی عرصہ بعد ہمارے برادران وطن کو بھی نظر آجائے گا کہ وہ مشورے اور ان پر عمل در آمد خود ملک کے لیے کن کن پہلوؤں سے کتنا مفید ہے۔ اسلام نسل و نسب اور ذات پات کی تفریق کا قائل نہیں ہے۔ وہ تمام بنی نوع انسان کو ایک ماں باپ کی اولا د قرار دے کر ان کو ایک رشتہ اخوت میں منسلک کرنا چاہتا ہے۔۔وہ خداترسی اور آخرت طلبی کا جذبہ پیدا کرکے انسانوں کو صحیح معنوں میں انسان بناتا ہے۔ قلب و نظر کو وسعت اور اخلاق کو پاکیزگی و گہرائی عطا کرتا ہے۔اور یہی وہ چیزیں ہیں جن کا ہمارا ملک اس وقت ہر چیز سے زیادہ محتاج ہے۔[22]
ماہنامہ زندگی میں مدیر زندگی (مولانا سید احمدعروج قادریؒ) کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ ان سنجیدہ اہل علم نے بھی ، جو اس اجلاس میں شریک نہیں تھے، اس سے بڑی امیدیں وابستہ کی تھیں ۔ مولاناؒ لکھتے ہیں۔
دراصل یہی عزم و یقین، یہی حوصلہ و و لولہ، یہی خود شناسی اور اس ملک میں امت مسلمہ کی یہی افادیت، وہ چیز ہے جو ہمارے مسائل کے جنگل کو صاف کرسکتی ہے۔اگر دس بیس لاکھ مسلمان بھی اس عزم و یقین کے ساتھ متحد ہوجائیں تو عزت و وقار کی منزل کچھ زیادہ دور نہیں ہے۔ [23]
مشاورت کا وژن اُس مشہور مقالے سے بھی واضح ہوتا ہے جو ڈاکٹر سیدمحمودؒ نے اعظم گڑھ میں مسلم اکابر اور اہل فکر کی ایک منتخب محفل میں پڑھا تھا۔ اس میں مرحوم نے جو لائحہ عمل تجویز کیا تھا وہ چار نکات پر مشتمل تھا۔ ایک، اپنی پسماندگی دور کرنے کی کوشش؛ دو، خدمت خلق کے ذریعے ہندو ماس کنٹیکٹ پروگرام، یہاں تک کہ بستی بستی، محلہ محلہ ایک اخلاقی ماحول ابھر جائے؛تین، دعوت و تبلیغ کے ذریعے اسلام کا وسیع تعارف، اس طرح کہ وہ ایک فرقے کی جائیداد کے بجائے انسانیت کی میراث کی حیثیت سے سامنے آئے؛ اور چار، سیاست میں حریفانہ مقام سے ہٹ کر ملک و سماج کو فائدہ پہنچانے والے امور کی بنیاد پر معاہداتی سیاست جس کا مقصد یہ ہو کہ ریاست اور سماج اخلاقی طور پر بلند ہو اور فلاحی ریاست مستحکم ہو۔[24]
اس بحث سے واضح ہوتا ہے کہ آزاد ہندوستان میں نظریاتی سیاست کی بات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مسلم مجلس مشاورت کا قیام اسی سوچ کی بنیاد پر ہوا تھا۔[25] مشاور ت کی ابتدائی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان مخلص رہ نماؤں نے ان خطوط پر (غیر انتخابی) عوامی سیاست کی ایک پوری زبان تشکیل دے ڈالی تھی۔الیکٹورل سیاست کے تعلق سے رایوں میں اختلاف تھا لیکن اس بات پر بڑی حد تک اتفاق تھا کہ غیر انتخابی سیاسی بیانیہ اور سیاسی عمل کے ذریعے ملک کی سیاست کو متاثر کرنے کی سنجیدہ کوششیں کی جانی چاہیے۔ بعد میں مرحوم ڈاکٹر عبد الجلیل فریدی نے انھی خطوط پر انتخابی سیاست کا بھی تجربہ کیا تھا۔ (یہ سیاست بروقت تھی یا نہیں اور اس کی ناکامی کے کیا اسباب تھے، اس بحث کو اس وقت ہم نہیں چھیڑ رہے ہیں) لیکن مسلم مجلس مشاورت زیادہ دنوں تک ایک بااثر عوامی گروہ کی حیثیت برقرار نہیں رکھ سکی اور جلد ہی اندرونی مسائل کی شکار ہوکر بے اثر ہوگئی۔ [26]
جو صدا مسلم مجلس مشارت نے بلند کی تھی اور جس متبادل سیاست کا خواب اس نے دکھایا تھا اس کے ہلکے پھلکے اثرات لمبے عرصے تک باقی رہے۔ مسلم لیگ کے رہ نما و سابق رکن پارلیمان مرحوم محمودبنات والاؒ نے ۱۹۸۹ میں ایک انٹرویو میں ‘قیام عدل اور ملی تشخص کی حفاظت’ کو ہندوستان میں مسلم سیاست کا نصب العین قرار دیا ۔ وہ فرماتے ہیں:
مسلمانوں کی مجموعی خوشحالی اور اقتصادی، تعلیمی و سماجی ترقی کا کام بڑی اہمیت رکھتا ہے لیکن مسلم سیاست کا مقصد اس قدر بودا نہیں ہوسکتا کہ مسلمان کسی اور کے مقابلے میں اپنی مانگوں کی ایک فہرست و چارٹ لیے محض اپنے دنیوی مفاد کی خاطر اٹھ کھڑے ہوجائیں۔مسلم سیاست بالا تر اور عظیم مقصد رکھتی ہے—اسلامی نظام کی روح عدل ہے۔ اس کی خصوصیت یہ ہے کہ انسانی زندگی سے ظلم و جور ختم ہو—یہودیت نے فرض پر زور دیا، عیسائیت نے محبت، ہندو مت نے اہنسا اور بدھ دھرم نے نروان پر زور دیا ہے۔ اسلام عدل پر زور دیتا ہے۔ اور یہی مسلم سیاست کا مقصد ہونا چاہیے۔[27]
اگر یہ سلسلہ آگے بڑھتا تو شاید ایک متبادل سیاسی بیانیہ وجود میں آتا اور مسلم سیاست کے لیے ٹھوس بنیادیں فراہم ہوتیں اور ان خطوط پر اگرمسلمان سیاست کی کوشش کرتے تو وہ دیر سویر ملک کی آبادی کو متوجہ کرنے میں یقینا ً کام یاب ہوجاتے۔خصوصا دلتوں، او بی سی اور دیگر پچھڑے ہوئے طبقات کے لیے ایک نظریاتی کشش ضرور پیدا کرلیتے۔ اس زمانے میں اس کے لیے خاصا اسپیس بھی موجود تھا۔ اس سے ہندتوا کی قوتوں کو روکنے میں بھی مدد ملتی۔ لیکن بعد میں مشاورت کے دیے ہوئے بعض نعرے تو باقی رہے لیکن وہ اصل سیاسی ڈسکورس کی بنیاد نہیں بن سکے۔
مسلم سیاست کے دو اپروچ
بعد میں مسلم سیاست نے کم و بیش وہی دو رخ اختیار کرلیے جو آزادی سے پہلے تھے۔ ایک طرف وہ سیاست داں یا سیاسی مسائل پر لکھنے اور بولنے والے لوگ ہیں جو سیکولر خیمے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ سیاست داں ، سیکولر سیاسی پارٹیوں میں رہ کر ملت کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ اوقاف ، جان و مال کا تحفظ، اردو زبان، عبادت گاہوں اور قبرستانوں کا تحفظ، شادی خانوں، حج ہاؤس یا اردو ہالوں کی تعمیر و غیرہ جیسے امور پر وہ اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کی پالیسی کے دائرے میں مسلم مفادات کے تحفظ کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی سیاسی جماعتیں بھی ان ہی ‘ آپٹکس’ (optics) تک ان مسلم رہ نماؤں کو محدود رکھتی ہیں۔ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ حکومت میں مسلمانوں کے نمائندے نہیں بلکہ مسلمانوں میں حکومت کے نمائندے ہیں۔حکومت ملنے پر ان مسلم رہ نماؤں میں سے کسی کو اوقاف یا اقلیتی امور کی وزارتیں مل جاتی ہیں ۔ سچر کمیٹی کے بعد ادھر حالیہ برسوں میں تعلیمی و معاشی ترقی کی کچھ نمائشی سرگرمیاں بھی شروع ہوئی ہیں۔ کوئی بڑا نیتا مسلمانوں کی کسی محفل میں جائے تو اس کی گفتگو بھی عام طور پر انھی امور تک محدود ہوتی ہے۔اس طرز نے مسلم سیاست کو چند مسائل تک محدود کردیا ہے، ملک کی پالیسی کے وسیع تر مباحث سے مسلمانوں کو بے تعلق کردیا ہے اور اس تاثر کو تقویت پہنچائی ہے کہ مسلمانوں کو ملک کے عام انسانوں سے یا ان کے مسائل سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ اسی کو بی جے پی ووٹ بنک پالیٹکس یا مسلم اپیزمنٹ (Muslim appeasement) یا سیڈو سیکولرزم (pseudo secularism) کہتی ہے۔ عام ہندوؤں میں مسلمانوں کے تئیں اجنبیت اور بے اعتنائی کے فروغ میں اس پالیسی کا بھی کلیدی کردار ہے۔
سیکولر سیاست ہی کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ کچھ مسلمان بائیں بازو کی جماعتوں کے ساتھ مل کر فاشزم کی مخالفت کی سیاست میں مصروف ہیں۔ ان میں لیفٹ جماعتوں کے باقاعدہ ارکان کے علاوہ ایسے دین دار لوگ بھی ہیں جو باقاعدہ لیفٹ سیاست کا حصہ تو نہیں ہیں لیکن فرقہ پرستوں کی مخالفت اور ان کے اقدامات کے خلاف احتجاج میں وہی زبان اور لب و لہجہ اختیار کرتے ہیں جو ان مفکرین کے یہاں سے ملتا ہے۔حالیہ دنوں میں دلتوں کی ‘مول نواسی’ سیاست بھی بعض حلقوں میں فروغ پائی ہے۔یہ لوگ ذات پات کی سوشل انجینئرنگ میں مسلمانوں کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان تحریکوں کا سابقہ شمارے میں ہم جائزہ لے چکے ہیں اور ان کی کم زوریاں اور نقصانات واضح کرچکے ہیں۔
دوسری طرف چھوٹی بڑی’مسلم پارٹیاں’ ہیں۔ یہ پارٹیاں مسلمانوں کا نام لے کر، ان کے حوالے سے اور ان کے مسائل کی نمائندگی کے دعوے کے ساتھ سیاست کرتی ہیں۔ یا جدید اصطلاح میں شناخت کی سیاست (identity politics) کرتی ہیں۔شناخت کی سیاست کے کئی پہلو ہیں لیکن ہمارے ملک میں اس سیاست کا جو طرز سامنے آتا ہے وہ زیادہ تر رد عمل کی سیاست ہوتی ہے۔ جذباتی نعرے، اشتعال انگیز بیانات اور حقیقی یا خود ساختہ دشمنوں کے خلاف غیض و غضب اور نفرت کا ہیجانی اظہار، اس ملک میں ہیرو اور لیڈر بننے کا شارٹ کٹ راستہ ہے۔یہ لیڈر بھی قرآن و سنت کی بات ضرور کرتے ہیں اور مسلمانوں کے لیے خیر امت وغیرہ کی اصطلاحات بھی استعمال کرتے ہیں، لیکن عملاً مسلمانوں کو محض ایک نسلی گروہ سمجھ لیتے ہیں اور دیگر ذاتوں یا نسلی گروہوں کی طرح ان کی سیاسی دل چسپی کو صرف ان کے تحفظ و ترقی کے مسائل تک محدود کردیتےہیں۔
یہ سیاست کوئی نئی سیاست نہیں ہے۔ آزادی سے بہت پہلے سے مختلف مرحلوں میں یہ سیاست مختلف شکلوں میں سامنے آتی رہی ہے۔ ہر مرحلے میں مسلمانوں نے اس سے شدید نقصان پایا ہے۔ لیکن افسوس کہ ہر آزمائشی مرحلے میں مسلمانوں کی نئی نسلیں اسی دھوکے کی شکار ہوجاتی ہیں۔
آئیڈنٹی ٹی پالیٹکس کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں آئیڈنٹی ٹی کا سوال بہت پیچیدہ ہے۔ یہاں ہر فرد کے ساتھ متعدد شناختیں وابستہ ہیں۔ ہم نے گذشتہ شمارے میں دلت پالیٹکس کا جائزہ لیتے ہوئے کہا تھا کہ جب دلت پالیٹکس ذات پات کی کشمکش بن گئی تو سنگھ پریوار نے دلتوں کی متعدد ذیلی ذاتوں کو اور ان کی شناختوں کو ابھارا اور ان کے درمیان سوشل انجنیئرنگ کے ذریعے جگہ پیدا کرلی۔ یہی کام اب مسلمانوں میں بھی ہورہا ہے۔
سیاست کے یہ دونوں طرز، یعنی سیکولر جماعتوں میں شمولیت اور شناخت کی سیاست، بظاہر ایک دوسرے سے متضاد ہیں، لیکن دونوں کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ مسلمان عام سماج سے الگ تھلگ ایک ایسا گروہ بن جاتے ہیں جن کی ساری دل چسپیاں صرف اپنے فرقے تک محدود ہیں بلکہ اپنے فرقے کے بھی چند گنے چنے مسائل تک محدود ہیں۔ دونوں طرز ہائے سیاست اس بات کا موقع فراہم نہیں کرتے کہ مسلمان اپنے دین اور اپنے اخلاقی تصورات کے مطابق باقی اہل وطن کے لیے کسی تعمیری ایجنڈے کے نمائندہ بن سکیں۔‘ووٹ بنک’ اور ‘سیڈو سیکولرزم ’کی جن اصطلاحات پر دائیں بازو کے عناصر نے پورا ایک ڈسکورس کھڑا کیا ہے، ان کی بارآوری کا میدان یہی صورت حال ہے۔ اب یہ بات متعدد مطالعات سے ثابت ہوچکی ہے کہ ہندتوا کی قوتوں نے اپنے عروج کے لیے ، مسلمانوں کی اس تصویر کا بہت کام یابی سے استحصال کیا ہے۔ [28]
کیا مسلمان ایک پالیٹکل کمیونٹی (Political Community) ہیں؟
یہ سوال ماہرین سیاسیات کے درمیان کافی عرصے سے بحث کا موضوع ہے کہ کیا مسلمان ایک پالٹیکل کمیونٹی ہیں؟ پہلے پالیٹکل کمیونٹی کی اصطلاح کسی قومی ریاست کے معنوں میں استعمال ہوتی تھی، لیکن اب علم سیاسیات میں یہ اصطلاح، اُن افراد کے گروہ کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے جن کے سیاسی مقاصد، قدریں اور مفادات مشترک ہوں۔[29]
سیاست دانوں اور دانش وروں کی ایک بڑی جماعت مسلمانوں کو پالیٹیکل کمیونٹی تسلیم نہیں کرتی۔ ان کا خیال ہے کہ مسلمانوں کے نہ مفادات مشترک ہیں اور نہ خیالات۔ مسلمانوں میں بھی اونچی ذاتیں اور نچلی ذاتیں ہیں۔ نچلی ذات کے مسلمانوں کے مفادات نچلی ذات کے ہندوؤں کے ساتھ زیادہ اشتراک رکھتے ہیں بہ نسبت دیگر مسلمانوں کے۔ مسلمان مزدور ، مسلمان سرمایہ دار کے مقابلے میں ہندو مزدور سے زیادہ قریب ہے۔ اسی طرح جو علاقائی مسائل ہیں ، اُن میں ہندو مسلمان سب شریک ہیں۔ اس لیے مسلمانوں کو کوئی علیحدہ پالیٹکل کمیونٹی ماننے کا کوئی جواز نہیں ہے۔[30] آزادی سے پہلے بھی بائیں بازو کے مفکرین یہ نظریہ پیش کرتے تھے کہ مسلمانوں کا مفاد مشترک نہیں ہے۔[31] جس چیز کو مسلم مفاد بناکر پیش کیا جاتا ہے وہ اصلاً اعلی ذاتوں کے مسلمانوں یا ‘ اشراف ‘ کا مفاد ہے۔ اب مسلمانوں کے اندر پسماندہ طبقات کی تحریکیں شمالی ہند میں ہر جگہ نہایت سرگرم ہیں۔ وہ اپنی آئیڈنٹی ٹی کو اپنی ذات کے ساتھ وابستہ کرتی ہیں۔ گذشتہ دو دہوں میں اتر پردیش کی مسلم سیاست جگہ جگہ ذاتوں کی بنیاد پر منقسم ہوکر بے اثر ہوگئی ہے۔ذات کے علاوہ اب مسلمانوں کے مذہبی فرقوں، علاقائی عصبیتوں وغیرہ کو بھی شناخت کی بنیاد بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ علمی حلقوں میں مارکسی مفکرین کا کلاس یا طبقے کا اپروچ بھی خاصا مقبول ہے جو مسلمانوں کو غریبوں اور امیروں کے درمیان تقسیم کرکے دیکھتا اور دکھاتا ہے۔
دوسری طرف جو لوگ پالیٹکل کمیونٹی مانتے ہیں وہ کمیونٹی کی بنیاد صرف مفادات کو قرار دیتے ہیں۔ بلکہ مفادات میں بھی چند گنے چنے مسائل ہیں جن کو وہ مسلم پالیٹکل کمیونٹی کی بنیاد سمجھتے ہیں اور ان ہی کی بنیاد پر سیاسی ڈسکورس کی تشکیل کی کوشش کرتے ہیں۔ اس تصور میں مسلمان ، اس ملک کی دیگر ذاتوں کی طرح محض ایک ذات یا کاسٹ بن جاتے ہیں۔ جس طرح یادو ایک کمیونٹی ہیں، اسی طرح مسلمان بھی ایک کمیونٹی ہیں۔ چناں چہ ان کا تحفظ مطلوب ہے۔ فسادات میں ان کی حفاظت درکار ہے۔ان کے مذہبی مقامات اور مذہبی حقو ق کی حفاظت ہونی چاہیے۔ ان کو ریزرویشن چاہیے۔ مادری زبان اور دیگر تہذیبی علامتوں کی حفاظت چاہیے۔مذہب کے معاملے میں بس یہ کہ ان کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچنی چاہیے اور زیادہ سے زیادہ یہ کہ ان کی تعلیمی و معاشی ترقی بھی چاہیے۔ اس سے زیادہ ان کو کچھ نہیں چاہیے۔ [32]
ہم نے اوپر پالیٹیکل کمیونٹی کی تعریف میں یہ بات لکھی ہے کہ پالیٹکل کمیونٹی کی تشکیل کی بنیاد صرف مفادات نہیں ہوتے بلکہ مقاصد اور اقدار بھی ہوتے ہیں۔ کیا مسلمانوں کا کوئی منفرد سیاسی نظریہ بھی ہے جو ان کو پالیٹیکل کمیونٹی بناتا ہے؟ کیا ملک کے باقی لوگوں کی فلاح و بہبود اور پورے ملک کی تعمیر و ترقی کا اُن کا اپنا کوئی منفرد وژن ہے؟ کیا ان کی اپنی سیاسی قدریں ہیں جن کی ترویج کا وہ عزم رکھتے ہیں؟
ڈاکٹر ہلال احمد کی کتاب سیاسی مسلم[33] حالیہ دنوں میں بہت مشہور ہوئی۔ اس میں ان کی اصل بحث یہی ہے کہ مسلمان ایک متجانس گروہ (homogeneous group)نہیں ہیں اور ان کا کوئی مشترک مفاد نہیں ہے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلم تجانس (Muslim homogenity) کی تخلیق ہی نے ہندتوا قوتوں کو یہ موقع دیا کہ وہ مسلمانوں کے سلسلے میں اجنبیت کے تصور کو فروغ دیں اور متجانس مسلم فرقے کے مقابلے میں متجانس ہندو فرقے کے لیے کوشش کریں۔
سیاست کے دونوں طرز یعنی سیکولر اور مسلم سیاست بلکہ مول نواسی سیاست نے بھی مسلم سیاست کا جو روپ سامنے لایا ہے، اس کے پس منظر میں، ہمار ے خیال میں،ڈاکٹر ہلال کا مذکورہ اعتراض بہت معقول ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اس صورت حال کا اصل سبب مسلم تجانس کو‘ نسل’ یا ‘مفاد’ کی بنیاد پر تشکیل دینے کی غیر فطری کوشش ہے۔ یہ کوشش اس لیے مشکلات و الجھنوں کا باعث ہے کہ اس میں وہ بنیادی بات نظر انداز کی جاتی ہے جو اقبالؒ نے عرصہ پہلے کہی تھی
اپنی مِلّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
مسلمان نہ ایک نسلی گروہ ہیں اور نہ ان کے مادی مفادات مشترک ہیں۔ان کے اشتراک کی بنیاد ان کا ‘نظریاتی مفاد’ ہے۔ مسلمانوں کو جوڑنے والی چیز ان کی نسل نہیں ہے بلکہ ان کے اصول و عقائد ہیں۔ اصول و عقائد کی بنیاد پر سیاست کا مطلب صرف ‘جے شری رام’ اور ‘وندے ماترم ’کی سیاست کا دفاع نہیں ہے بلکہ اُس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں مسلمان عدل، انسانی مساوات، اعلیٰ اخلاقی اقدار وغیرہ کے نمائندے بن کر ابھریں اور یہ ان کی سیاست بنے۔ یہی ان کو جوڑ سکتی ہے۔
مسلم سیاسی ڈسکورس کا بڑا انحصار اسی بات پر ہے کہ ہم خود کو کیا سمجھتے ہیں؟ اگلے شمارے میں ان شاء اللہ اس موضوع کو ہم تفصیل سے زیر بحث لائیں گے۔
ہندتوا اور نظریاتی ڈسکورس
جب نظریے کی بات کی جاتی ہے تو یہ کہاجاتا ہے کہ یہ خیالی و نظریاتی باتیں ہیں۔ہندوستان میں سیاست ذات پات اور فرقوں کے تعصبات کے استحصال کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔حالاں کہ یہاں سماج واد اور کمیونسٹ نظریاتی سیاست کی طویل تاریخ رہی ہے اور تاریخ کے بعض ادوار میں اُن کے تجربات بہت کام یاب بھی رہے ہیں۔ اب ہند تو کے عروج نے اس بات کو پھرغلط ثابت کردیا کہ ہندوستانی سیاست میں ، نظریات کی اہمیت نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان قوتوں کی حالیہ تیزرفتار کام یابیوں کی پشت پر جذباتی نعروں، فرقہ وارانہ تفریق اور سوشل انجینئرنگ کا بڑا رول ہے لیکن دوسری طرف اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہندتوا کے فروغ کی اصل بنیاد ٹھوس نظریاتی تبدیلی ہے جو سماج میں لانے میں وہ کام یاب ہوئے ہیں۔ لوگوں کی سوچ بدل کر انھوں نے ہر سطح پروفادار رائے عامہ کی پائیدار بنیاد تیار کی اور پھر دیگر طریقوں سے جمہوری سیاست میں درکار نمبروں کی ضرورت پوری کی۔ ایک طرف ہندتوا کی حامل قوتیں ملک کے سیاسی انتظام کے بہت ہی بنیادی پہلوؤں پر عام ہندوؤں کی سوچ میں تبدیلی لارہی تھیں،[34] حتی کہ دیہی عوام کو بھی ایک متبادل ہندوستان کا خواب دکھا رہی تھیں[35] اور دوسری طرف مسلمان صرف اپنے محدود مسائل کے دائرے میں محدود تھے۔
اب اصل سوال یہ رہ جاتا ہے کہ فرقہ وارانہ مفادات اور وقتی دفاع و رد عمل سے پرے مسلمانوں کا سیاسی بیانیہ کیا ہونا چاہیے؟ اس سوال کو ہم اگلے ماہ سے تفصیل سے زیر بحث لائیں گے۔ مسلمانوں کی حیثیت یا ان کی پالیٹکل کمیونٹی پوزیشن کی اصل بنیاد کیا ہے؟ پہلے اس سوال پر غور کریں گے اور پھر ان موضوعات پر گفتگو کریں گے جن کو بنیاد بناکر ایک ٹھوس پالیٹیکل ڈسکورس کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔n
حواشی و حوالہ جات
- Michael Ignatieff as quoted in Mullan, P. (2017). Creative Destruction: How to Start an Economic Renaissance. United Kingdom: Policy Press. Page 279
- اس سلسلے کی سب سے اہم اور بااثر کتاب دیانند سرسوتی کی ستیارتھ پرکاش ہے۔ اس میں خصوصاً اس کے چودہویں باب میں اسلامی تعلیمات پر قدیم مناظراتی اسلوب میں سخت تنقید کی گئی ہے۔
Light of Truth(English Translation of Satyarth Prakash); Swami Dayanand Saraswati; (Tr. Dr. Chiranjeeva Bharadwaja) Sarvadeshik Arya Pratinidhi Sabha; New Delhi; pages 649 onwards.
- Humayun Kabir(1969) Muslim Politics, 1906-47: And Other Essays. Calcutta: Firma KL Mukhopadhyay
- تقسیم بنگال کی سیاست کو سمجھنے کے لیے دو اہم تحریریں
Peter Hurdy(1972) The Muslims of British India. 13. London: Cambridge University Press.
John McLane (1965) ’’The decision to partition Bengal in 1905.‘‘ Indian Economic ‘ Social History Review 2 (3): 221–237.
- اس پس منظر کی مختصر لیکن بڑی واضح عکاسی پروفیسر مشیر الحق کے اس مقالے میں ملتی ہے:
Mushirul Haq(1989) Religion and Muslim Politics in Modern India. In Iqbal Ansari (Ed.)
The Muslim Situation in India. Sterling Publishers. New Delhi
- مولانا سید ابو الاعلی مودودی (۱۹٦۳) تحریک آزادی ہند اور مسلمان، اسلامک پبلیکیشنز، لاہور، حصہ اول ص ۶۷تا ۷۲
- حوالہ سابق ص ۴۸۵تا ۴۹۴
- یہ خط متعدد مجموعوں میں شامل ہے۔ فی الحال ہم نے اقتباس اس ماخذ سے نقل کیا ہے۔
ڈاکٹر عمر خالدی؛ ڈاکٹر معین الدین عقیل(۱۹۹۸) سقوط حیدرآباد؛ دارلاشاعت کل ہند مجلس تعمیر ملت؛ حیدرآباد
- ایضاً
- رفیع الدین ہاشمی (۲۰۲۱) مجالس سید مودودی؛ منشورات؛ نئی دہلی۔ ص۱۵۵ و ۱۵۶
- اس مختصر حکومت کی کارکردگی اور اس کی پالیسیوں کو سمجھنے کے لیے دیکھیں، مولانا کے ایک اہم معاصر کی کتاب
اصغر امام فلسفی (۱۹۸۷) بیرسٹر محمد یونس کے دور وزارت کا ایک عکس؛ سید ایڈورٹائزنگ، نئی دہلی۔
زرعی اصلاحات کی تفصیل کے لیے دیکھیں
Dr. Mohammad Sajjad (2012), Mohammad Yunus, the pioneer of Agrarian Reform, in Milli Gazette; New Delhi; May 28,2012
- مولانا منت اللہ رحمانی؛’ مولانا اور مجالس قانون ساز ‘ بحوالہ انیس الرحمن قاسمی(1998) ؛حیات سجاد؛ شعبہ نشر و اشاعت؛ امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ؛ ص ۱۴۱
- ابوالمحاسن سجاد صاحب کے افکار اور مسلم انڈیپنڈنٹ پارٹی کی سیاست کو سمجھنے میں درج ذیل کتابیں مددگار ہوسکتی ہیں
مولانا مسعود عالم ندوی (۱۹۴۱) محاسن سجاد، کتب خانہ عزیزیہ دہلی
اختر امام عادل قاسمی (۲۰۱۹) حیات ابوالمحاسن، جامعہ ربانی، منورہ شریف سمستی پور خصوصاً صفحات ۵۷۳ تا ٦۹۸
طلحہ نعمت ندوی (2018) حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد ؛ ابجد پبلیکیشنز، نئی دہلی۔
- اسیر ادروی(۱۹۸۳) تاریخ جمیعۃ العلماء ہند،شعبہ نشر و اشاعت، جمیعت علما ہند، دہلی ص ۲۱۰
- حوالہ سابق ص ۲۸۰، ۲۸۱
- C. P. Bhambhri and C. P. Bhamber, NEHRU AND SOCIALIST MOVEMENT IN INDIA (1920-47), The Indian Journal of Political Science, Vol. 30, No. 2 (April—June 1969), pp. 130- 148
- شعبہ تنظیم جماعت اسلامی ہند؛ (۱۹۹۷) مرکزی مجلس شوری کی قراردادیں؛ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز؛ نئی دہلی ص ۳۲۱
- مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی (۲۰۱۰) پرانے چراغ، حصہ اول؛ مکتبتہ الشباب العلمیہ؛ لکھنو ص ۳۴۹
- مولانا عروج قادری، لکھنو کا مشاورتی اجتماع؛ ۔ ماہنامہ زندگی، رام پور، اکتوبر ۱۹٦۴؛ ص ۵٦
- ایضا ً ص ۵۵، ۵٦
- مولانا ابواللیث اصلاحی ندوی؛ اشارات،ماہنامہ زندگی، رام پور؛ ڈسمبر ۱۹٦۴
- ایضاً ص 10
- مولانا عروج قادری، لکھنو کا مشاورتی اجتماع؛ ۔ ماہنامہ زندگی، رام پور، اکتوبر ۱۹٦۴؛ ص ۵٦ص ۵۵
- بحوالہ سید علی، افکار ملی (مسلم سیاست نمبر) ؛ اگست ستمبر ۱۹۸۹؛ نئی دہلی؛ ص ۳۶
- اس زمانے میں مشاورت کی سرگرمیوں اور اس کے ڈسکورس کا سنجیدہ تجزیہ مولانا ابوالحسن ندوی کی تحریروں میں ملتا ہے۔ دیکھیے۔
مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی ؛کاروان زندگی (حصہ اول) مکتبہ اسلام لکھنوص ۵۰۳ تا ۵۰۸
مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی ؛پرانے چراغ (حصہ اول) مکتبتہ الشباب العلمیہ ؛ لکھنو، ص ۳۳۵ تا ۳۹۹
- مسلم مجلس مشاورت کی تاریخ کو سمجھنے کے لیے دیکھیں:
محمد علم اللہ (۲۰۱۵) مسلم مجلس مشاورت، ایک مختصر تاریخ؛ فاروس میڈیا، نئی دہلی
- افکار ملی (مسلم سیاست نمبر) ؛ اگست ستمبر ۱۹۸۹؛ نئی دہلی؛ ص ۱۵،۱٦
- اس کو سمجھنے کے لیے ہلال احمد کی محولہ بالا کتاب کے علاوہ درج ذیل اسٹڈی بھی معاون ہوسکتی ہے۔
Prashant Waikar)2018) Reading Islamophobia in Hindutva: An Analysis of Narendra Modi’s Political Discourse; in, Islamophobia Studies Journal , Vol. 4, No. 2 (Spring 2018), pp. 161-180
- Masolo, Dismas A. “Community, identity and the cultural space”, Rue Descartes, vol. 36, no. 2, 2002, pp. 19-51
- مثلا یہ بحث دیکھیں جس میں یہ کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کو ایک فرقہ مان کر ڈیل کرنے سے سارے فائدے مسلمانوں کے اندر ایک چھوٹی سی خوشحال اقلیت وصول کرلیتی ہے اور کم زور ذاتیں اور غریب لوگوں کا استحصال ہونے لگتا ہے۔
Sheth D.L. (2018) Minority Politics: The Shifting Terms of Policy Discourse. In: deSouza P. (eds) At Home with Democracy. Palgrave Macmillan, Singapore
- ]مثلا پروفیسر مشیر الحسن نے آزادی سے قبل کے ایک مارکسی مفکر کنور محمد اشرف کے خیالات کا جائزہ لیا ہے۔
Mushirul Hasan; The Muslim Mass Contact Programme in Economic and Political Weekly; Vol 21, No52, 27-12-1986, page 2274
- سیاسی وژن اور کمیونٹی کے بارے میں یہ کنفیوژن اس مضمون میں بہت واضح ہو کر سامنے آتا ہے جس میں فاضل مصنف نے مختلف مسلم قائدین سے بات کرکے ان کے تصورات معلوم کرنے کی کوشش کی ہے۔
Hilal Ahmed; Muslims as a Political Community; in Seminar October 2009
- Hilal Ahmed (2019). Siyasi Muslims: A Story of Political Islam in India. India: Penguin[33] Random House India Private Limited. New Delhi.
- [34]ہندتو کی حالیہ کام یابیوں میں نظریے اور نظریاتی تبدیلیوں کا کیا رول ہے، اس کو سمجھنے کے لیے ایک اہم اسٹڈی:
Pradeep K. Chhibber and Rahul Verma ) (2018) Ideology and Identity: The Changing Party Systems of India. Oxford University Press. New Delhi.
- شمالی ہند میں دیہاتوں کی سطح پر کیا تبدیلی واقع ہورہی ہے اور کیسے لوگوں کے خیالات بدل رہے ہیں اس کی تفصیل کے لیے ایک دل چسپ ایتھنو گرافک اسٹڈی، اس ہندی کتاب میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔ خاص طور پر اس کا دوسرا(लोकतंत्र की किमिया गिरी) اور پانچواں باب बहुजन धर्मिकता: धर्म का नया स्वरूप)) ضرور پڑھنا چاہیے۔
Satendra Kumar (2018). बदलता गाँव बदलता देहात: नयी सामाजिकता का उदय. India: Oxford University Press; New Delhi
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2021