۲۰۱۴ء کے عام انتخابات کے بعد ملک میں جو سیاسی منظر نامہ بنا ہے ، اس نے ملک کے مستقبل کے حوالے سے مسلمانوں کے اندیشوں اور تشویش کو بڑھادیا ہے۔انتخابی عمل کے دوران اور پھر اس کے نتائج کے بعد مسلمانوں کی ذہنی اور جذباتی کیفیت کاایک اندازہ اخباری مضامین ، بیانات، جلسوں اور پروگراموں کی خبروں سے ہوتا ہے۔یہ اندیشے یقیناً بے جا نہیں ہیں اور نہ انہیں غیر ضروری اور لاحاصل سمجھ کر نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ جس سیاسی جماعت کو ملک کا اقتدار حاصل ہوا ہے۔ اُس کے عزائم پوشیدہ نہیں ہیں۔ مسلمانوں کی نمائندہ جماعتیں، سرکردہ شخصیات ، دانشور حضرات اور ان کا نمائندہ پریس نئی سیاسی صورت حال پر جس ردعمل کا اظہار کررہا ہے وہ بالکل فطری ہے ۔عام مسلمانوں پر جو مایوسی کی کیفیت دکھائی دے رہی ہے وہ بے بنیاد نہیں ہے۔اس صورت حال کا تاریخی تناظر میںتجزیہ کرنے کی ضرورت ہے اور اس کی روشنی میں مستقبل کے لئے مشترکہ طور پر ایک جامع لائحہ بنانے کی کوشش ہونی چاہئے۔
آزادی کی جدوجہد کے دوران ہندستان ایک کشمکش میں مبتلا تھا۔یہ کشمکش آزادی کے بعد ہندستان کے مستقبل کی صورت گری کے سلسلے میںتھی۔ اس کشمکش میں تین فریق تھے:ہندو، مسلمان اور قدیم ہندستانی آبادی کے پسماندہ طبقات۔اس طبقے سے اٹھنے والے دانشور لوگ خود کو غیر ہندو کہتے تھے۔ لیکن ہندولیڈران انہیں ہندو ہی باور کرتے اور کراتے تھے۔ ہندستان کے مستقبل کی صورت گری کو لے کر ان کے درمیان بڑ ی شدید آویزش تھی لیکن ہندو قائدین نے ان سے مفاہمت کرلی تھی آئندہ سیاسی نظام میں انہیں مراعا ت دینے اور سیاسی و سماجی حقوق کو بحال کرنے کا وعدہ کرکے شناخت سے جڑے رہنے کے لئے آمادہ کرلیا تھا۔اس مفاہمت کے بعد یہ سہ فریقی کشمکش بنیادی طور پر ہندئووں اور مسلمانوں کی کشمکش بن گئی تھی۔
ہندوئوں اور مسلمانوں کی اس کشمکش نے شدت پکڑی تو تین سیاسی محاذ بنے۔ ایک ہندو قوم پرستی کے قائلین، ایک ہندستانی قوم پرست اور ایک مسلم قوم پرست۔ہندستانی قوم پرستوں کا محاذ انڈین نیشنل کانگریس کے جھنڈے تلے تھا،اس میں ہندو اور مسلمان دونوں تھے۔ محاذ ہندوقائدین کی پیش رفت سے بنا تھااور مسلمانوں نے اس کی پکار پر لبیک کہا تھا۔ انڈین نیشنل کانگریس میں مسلمانوں کی عبقری شخصیات نے بے شک اہم مقامات حاصل کئے۔لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس میں مسلمانوں کا رول ثانوی رہا اس کی سیاسی پیش رفت مسلمانوں کی خواہشات کے علی الرغم ہندو لیڈروں کی کوششوں کے مطابق ہی ہوئی۔ یہ ہندستانی قوم پرستی کانعرہ لگانے والے ہندوئوں کی ایسی تنظیم تھی جو مسلمانوں کو ساتھ لے کر آزادی حاصل کرنا چاہتی تھی۔مستقبل کے ہندستان میں ایک ہندستانی قوم۔البتّہ برابر کا معاملہ کرنے کو تیار نہیں تھی ہاں مسلمانوں کو اپنا مرہون منت بنانا چاہتی تھی۔ اس تنظیم کو معلوم تھاکہ ہندستان جب آزاد ہوگا، ایک آدمی ایک ووٹ کا نظام نافذ ہوگااور ووٹوں کی اکثریت سے حکومت بنا کرے گی تو سیاسی غلبہ ہندوئوں کو ہی حاصل رہے گااور مسلمان اپنی قلت تعداد کی وجہ سے سیاست کے ترازو میں برابر کا پلڑا نہیں بناسکیں گے۔ لہٰذا ہندستان کا دستوری نظام جتنا بھی لبرل بنایا جائے مسلمانوں کو برابر کی حیثیت نہیں مل پائے گی۔ چنانچہ مسلمانوں کی دور اندیش اور حساس قیادت نے مستقبل کے ان حالات کا اندازہ کرکے مسلمانوں کے لئے جداگانہ حلقہ انتخاب یا سیاسی، اقتصادی، تعلیمی اور سماجی تحفظات کی ضمانت کا مطالبہ کیاتو کانگریس نے اسے منظور نہیں کیا۔یہیں سے پھر وہ کھینچ تان شروع ہوئی جس کے نتیجہ میں پاکستان بنا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ مسلم قوم پرستی اور پاکستان کی تشکیل کانگریس کی شاطرانہ چالوں، مسلمانوں کے لئے مستقبل کے مفادات کی ضمانت کا دستوری انتظام نہ کرنے کا ردعمل تھی۔ پاکستان کے قائد اعظم ، جنہیں تقسیم کا سب سے بڑا ذمہ دارکہا اور سمجھا جاتا ہے، ایک آزاد خیال اور جدید تعلیم یافتہ لندن پلٹ بیرسٹر تھے ۔ نہ وہ کوئی خصوصی طور پرمذہبی آدمی تھے نہ کسی دقیانوس اور تنگ نظر گھرانے کے فردتھے۔ ان کے نزدیک ہندو مسلم تفرقہ پسندی کوئی شے نہیں تھی۔ وہ سیاست میں آئے تو کانگریس سے ہی وابستہ ہوئے تھے اور ہندستانی قومیت کی بات کرتے تھے۔البتّہ وہ ایک کٹر اصول پسند اور غیور شخص تھے ۔ کوئی بات تھی کہ انھوں نے کانگریس چھوڑ کر مسلم لیگ میں شامل ہونا پسند کیااور جب وہ مسلم لیگ کے صدر بنے تو مسلم لیگ کانگریس سے مفاہمت قائم کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ بہرحال یہ مسلم قوم پرست طبقہ تو آزادی کے بعد پاکستان چلا گیا اور پھر ہندستان میں دو سیاسی طاقتیں رہ گئیں ہندستانی قوم پرست اور ہندو قوم پرست۔ مسلم قوم پرستی اور تقسیم کے مخالف مسلمان ، جنھوں نے ہندستان میں رہنا ہی پسند کیاوہ ہندستانی قوم پرست سیاسی محاذ (کانگریس ) سے چمٹے رہے اور کانگریس سے اس توقع کا رشتہ انھوں نے بنائے رکھا کہ وہ آزاد ہندستان میں انہیں عزت و وقار کی زندگی جینے میں تعاون دیتی رہے گی۔کانگریس کے جو رنگ ڈھنگ رہے، اس نے مسلمانوں کی اکثریت کو اس سے بد ظن کردیا۔ کانگریس کا بنیادی خمیر یا مزاج تھاقیام پاکستان کے بعد دو آتشہ ہوگیا تھا۔جو کانگریس تقسیم سے پہلے مسلمانوں کی مجموعی آبادی کو خصوصی مفادات کی ضمانت دینے کی روادار نہیں تھی و ہ بھلا پاکستان بننے کے بعد ہندستان میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے مہربان کیوں کر ہوسکتی تھی۔ کانگریس کے جو لیڈران اپنے خاص مزاج ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ ذرا خندہ پیشانی سے پیش آنے کا رجحان رکھتے تھے انہیں بھی بدلے ہوئے حالا ت کے دبائو کو قبول کرنا پڑا۔ اس کے باوجود ہندو قوم پرست طبقہ کو ان پر اعتماد نہ ہوا۔
آزادی کے بعد جدید ہندستان کی تعمیر ایک لبرل، سیکولر ، سوشلسٹ ریپبلک کے طورپر شروع ہوئی۔ملک کے نئے سیاسی نظام کے لئے یہ اصول ہندستان کو ایک کامیاب اور مضبوط جمہوریت بنانے کے لیے اپنائے گئے تھے، ان میں سے کوئی بھی اصول ، بطور خاص ’سیکولرزم ‘کو محض مسلمانوں کی رعایت میں نہیں اپنا یا گیا تھا، بلکہ یہ ملک کی گوناگوں سماجی ترکیب اوررنگارنگ معاشرت کی ناگزیر ضرورت کے ادراک اور جدیدسیاسی نظریات کے دبائو میں اپنائے گئے تھے۔ ان کے بغیر اس ملک کو چلانا مشکل تھا ، چاہے اس میں مسلمان ہوتے یا نہ ہوتے۔
لیکن ہندو فرقہ پرست عناصرنے ، جو اس ملک کو ہندو ئوںکی ایک قومی ریاست بنانے کے لئے کوشاں تھے،ملک کے سیکولر کردار کو اور دستور کے بنیادی ڈھانچہ کو دل سے تسلیم نہ کیا جس میں ہر فرد اور ہر ثقافتی، لسانی اور مذہبی گروہ کے لئے برابری کا اصول رکھا گیا ہے۔اس گروہ نے سیکولر زم کو مسلمانوں کی منھ بھرائی باور کرانے کا پروپیگنڈا جاری کیااور کانگریس یا اس کی کوکھ سے جنم لینے والی دوسری پارٹیوں کو اتنا زچ کیا کہ سیکولرزم واقعی صرف مسلمانوں کی رعایت کا نام بن کر رہ گیا اور جملہ سیاسی پارٹیوں نے مسلمانوں کا استحصال کرنے کے لئے ہی اس کاڈھونگ رچانے کی روش اپنائی۔
ملک میں ایک طویل عرصہ تک کانگریس کو بلا شرکت غیرے اقتدار حاصل رہا۔ کانگریسی اقتدار کا جائزہ بتاتا ہے کہ اس دوران ملک کوکسی بھی مذہبی فرقہ کے تئیں غیر جانب دار ریاست(سیکولر اسٹیٹ) بنانے کے بجائے ہندئووں کو مستحکم کیا گیا۔ ملک کی سرکاری ثقافت، سرکاری اداروں کی تشکیل، ملک کا داخلی نظام،ملک کی خارجہ پالیسی، ملک کا دفاعی نظام سب کچھ اِسشناخت کے مطابق ہی مرتب ہوا۔ مخصوص رسم و رواج کو سرکاری رسوم و رواج میں اپنا لیا گیا۔ سرکاری اداروں میں ریاست کے غیرمذہبی کردار کی عکاسی ہونے کے بجائے مذہبی علامتوں اور طور طریقوں کا نفاذ ہوا۔ ہندستانی قوم پرستی کی علمبردار کانگریس کے طویل اقتدار کے دوران مسلمانوں کو بتدریج زوال سے دوچار اور بے دست و پا کیا گیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آزادی اور تقسیم کے بعد ہندستانی مسلمان سماجی، معاشی اور تعلیمی لحاظ سے جس سطح پر تھے، بقیہ ہندستانی سماج کی طرح وہ بھی اس سطح سے اوپر اٹھتے اور ملک نے ترقی کا جو سفر طے کیا ہے اس میں وہ بھی برابر کے راہی ہوتے ۔ لیکن جب بھی مسلمانوں کی صورت حال کاجائزہ لیاگیایہ سامنے آیا کہ وہ پہلے کے مقابلے زیادہ پستی میں چلے گئے ہیں۔ مسلمانوں کی صورت حال کا جائزہ لینے والی یہ رپورٹیں بظاہر اس مقصد سے سامنے آئیں کہ ان کی روشنی میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے اقدام کئے جائیں ، لیکن فی الواقع یہ مسلمانوں کی پستی کی رفتار جانچنے کا ذریعہ بنیں۔
ایک طرف مسلمانوں کو ترقی سے الگ رکھا گیا اور دوسری طرف انہیں داخلی سلامتی کے لئے ایک خطرہ بتایاگیا۔مسلم علاقوں میں اسکول ، اسپتال اور شہری سہولیات کے ادارے کم اور پولس تھانے زیادہ قائم کئے گئے۔پولس اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کا رویہ اس ذہنی تربیت کا نتیجہ ہے جوبے ضابطہ طریقے سے ملتی ہے اور اس کی حوصلہ افزائی حکومت کے عملی رویہ سے ہوتی ہے۔
کانگریس اور اس کی قیادت والی حکومتوں کے زیر اقتدار ہندستان کی ترقی کا سفراسی سمت میں ہوا جس سمت میں ہندو قوم پرست اسے لے جانا چاہتے تھے ،وہ مسلسل منصوبہ بندی کے ساتھ کام کرتے رہے، حکومت سے باہر رہتے ہوئے انھوں نے حکومت پر دبائو ڈالا۔ انتظامی مشینری کے لئے اپنے افراد حکومت کو فراہم کرتے رہے اور سیاسی اقتدار براہ راست ہاتھ میںلینے کے لئے بھی کوشاں رہے۔ ۲۰۱۴ء کے عام انتخابات کے بعد ملک کی سیاست ہندستانی قوم پرستوں کے ہاتھ سے نکل کر ہندو قوم پرستوں کے ہاتھ میں آگئی تویہ کوئی سمت کی تبدیلی نہیں ہے۔ یہ اچانک رونما ہونے والی تبدیلی نہیں ہے۔درحقیقت یہ محض ڈرائیور اور انجن کی تبدیلی کی مانندہے۔اس سے حالات میں جو فرق آئے گا وہ رفتار، کیفیت اور طور طریقوں کی جارحیت کا فرق ہوگا جسے ہم اعتدال پسندی اور انتہا پسندی کا فرق کہہ سکتے ہیں ۔
ان حقائق کی روشنی میں دانشوروں اور علماء کو مستقبل کی فکر کرنے کی ضرورت ہے۔وقتی اور جذباتی ردعمل ظاہر کرنے کے بجائے دانش مندی اور بصیرت کے ساتھ لائحہ عمل بنانے کی ہے۔ ضرورت ہے مسلم جماعتیں اور دانشور حلقے عصبیت اور خود پسندی کی دیواروں کو توڑ کرخلوص نیت کے ساتھ ایک لائحہ عمل وضع کرنے کے لئے سر جوڑ کر بیٹھیں۔یہ بات پیشِ نظر رہے کہ سیکولر، جمہوری ہندستان نے ۶۸سال کی مدت میں ایک ہندو ملک بننے کی طرف پیش قدمی کی ہے اور اب اس سمت میں ایک لمبی جست لگادی ہے ۔مستقبل کی حکمت عملی وضع کرنے کے لئے اجتماعی پلیٹ فار م کی ضرورت ہے۔اس طرح کی پیش رفت اگرجلد از جلد نہیں ہوگی تو نقصان دہ ہوگا۔ صورت حال کوعالمی تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ تقریبا پوری دنیا میدان جنگ بن چکی ہے۔ افریقہ و ایشیا سے لے کر، یوروپ و آسٹریلیا تک اہل اسلام کے خلاف مختلف عنوانات سے شدید یلغار جاری ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے انتخابی نتائج کا اعلان ہوتے ہی اپنی مسرت کا اظہارکیا۔
ملت اسلامیہ ہند کو اپنا ایک مشترکہ لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے ۔دوسری طرف اپنے فریضہ منصبی کویک سوئی سے انجام دینے کی کوشش کرنی چاہئے۔ حق کی دعوت، باطل کارداور اعلائے کلمتہ اللہ کی جدوجہد مسلمانوں کا مقصد وجود ہے۔ اسی میں ان کی بقا ہے اور یہی ان کی عزت و عظمت کا راستہ ہے۔ عام مسلمانوں میں اس کا شعور بڑھانے کی کوششیں تیز ہونی چاہئیں۔ زیادہ خود اعتمادی کے ساتھ اس دعوت کو عام کرنا چاہئے۔دنیا کے سامنے استقامت کے ساتھ اللہ کی بندگی کی طرف بلائیں۔ ’’یا قوم اعبدوا اللہ ما لکم من الٰہ غیرہ(اے میری قوم کے لوگو!اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمھارا کوئی الہ نہیں ہے۔)
موجودہ صورت حال میں حضرت موسیٰ کے زمانہ کی قوم بنی اسرائیل سے سبق حاصل کرناچاہیے۔ نبیوں کی وارث قوم اپنی خرابی اعمال کی بدولت کمزور ہوگئی تھی اور مصر کی قدیم قبطی قوم کے تحت آچکی تھی۔ قبطیوں کے بادشاہوں نے بنی اسرائیل کوپسماندگی اور ذلت میں مبتلا کررکھاتھااور عملااپنی قوم کا غلام بنالیا تھا۔ قرآن کے الفاظ میں ’’فرعون زمین میں بڑا بنا ہوا تھااور وہاں کے باشندوں کواس نے گروہوں میں تقسیم کررکھا تھا، ان میں سے ایک فرقہ کواس نے کمزور بناکر رکھا۔ وہ ان کے بیٹوں کو ذبح کردیتا تھا اور ان کی عورتوں کو جینے دیتا تھا،بلا شبہ وہ ایک فساد ی آدمی تھا۔ اور ہم چاہتے تھے کہ جن لوگوں کو ملک میں دبالیا گیا ہے ان پر مہربانی کریں، انہیں امام بنائیں اور زمین کا وارث بنائیں۔‘‘ (القصص:۴،۵)
اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کو پیدا کیاخود فرعون کے گھر میں انھوںنےپرورش پائی۔ پھر جب اللہ نے حضرت موسیٰ کو نبوت بخشی اورکار نبوت کے فرائض سمجھائے۔ اپنی قوم کو فرعون اور آل فرعون کے چنگل سے نجات دلانا اور دوسرا فرعون کو اللہ کی بندگی کی دعوت دینا۔ان امور کے لئے اللہ نے حضرت موسیٰ کو اسلوب خطاب سکھایا۔ فرمایا کہ’’ جائو فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہوگیا ہے ، اس سے نرمی سے بات کرناشاید کہ اسے نصیحت ہو یاوہ ڈرجائے ۔۔۔ جائو اس کے پاس اور کہو اس سے کہ ہم تیرے رب کے بھیجے ہوئے ہیں، بنی اسرائیل کوہمارے ساتھ بھیج دے اور انہیں اذیت مت دے۔ــ‘‘ (طٰہٰ:۴۳،۴۴،۴۷) اور دوسری طرف یہ نصیحت کی کہــ’’ جائوفرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہوگیا ہے اور اس سے کہو کہ کیا تو اس کے لئے تیار ہے کہ پاکیزگی اختیار کرے اور میں تیرے رب کی طرف تیری رہنمائی کروں کہ تو اس کا خوف کرے‘‘(النازعات:۱۶تا۱۹)
ملت اسلامیہ ہند کے ارباب دین و دانش کے لئے اس میں سبق موجود ہے۔ ملت اسلامیہ کو پسماندہ بناکر رکھنے کی کوششوں کے خلاف جدوجہداور اہل اقتدار کے سامنے اعلان حق اور انہیں ان کے تزکیہ کی طر ف متوجہ کرنا۔
حکیم الامت علامہ اقبال نے کہا تھا
صحبت پیر روم سے مجھ پر ہوا یہ راز فاش
لاکھ حکیم سربجیب، ایک کلیم سر بکف!
مثل کلیم ہو اگر معرکہ آزما کوئی !
اب بھی درخت طور سے آتی ہے بانگ لا تخف ــ
مشمولہ: شمارہ اگست 2014