تاریخ تمدن و تہذیب

دراز بود حکایت بحرفے چند گفتم

رنگ جما کے اٹھ گئی کتنے تمدنوں کی بزم

یاد نہیں زمین کو بھول گیا ہے آسماں

اصل لذت کچھ داستان سرائی میں اتنی نہیں ہے جتنی خود داستان میں ہے۔کہانی دل چسپ اور دل کش ہوتی ہی ہے وہ آپ بیتی ہویا جگ بیتی۔لیکن اگر وہ کائنات کی کہانی ہو تو اس طول شب فراق کا ناپنا کسی بھی ریاضی دان کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ اپنے حال اور احوال سے بلند ہو کرجگ بیتی کا سننا اور دنیا کی تاریخ کا اور تہذیبوں کا مطالعہ کرنا اور اس کے لیے وقت نکالنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ یہ ان ہی کا کام ہے جن کے حوصلے ہیں زیاد۔ ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں تاریخ عالم پر روشنی ڈالی ہے، نامور مورخ ٹوائن بی نے ‘ہسٹری آف دی ہسٹری’ لکھی اس عظیم الشان کتاب کا دنیا کی کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا اسی طرح ‘ ہسٹری آف سیویلایزیشن ’آموس ڈین کی کتاب ہے اسی طرح فلپ کارٹ کی کتاب بھی اسی نام سے ہے اسی طرح سے پروفیسر ان جایا پلان کی کتاب ہسٹری آف ورلڈ سویلائزیشن ہے۔  عربی میں ایک انگریزی کتاب کا ترجمہ تاریخ الحضارہ کے نام سے شاید بیس جلدوں میں ہے لیکن اردو کا دامن ابھی عالمی تہذیبوں کی تاریخ سے کم از کم بہت مالا مال نہیں ہے البتہ اسلام کی مفصل تاریخ پر کتابیں ہیں اور ہندوستان کی تار یخ پر بھی کتابیں ہیں، لیکن بساط عالم پر کن کن تہذیبوں نے اپنا رنگ جمایااور اپنا جلوہ دکھایا اس پر بہت زیادہ مواد اردو میں شاید نہیں ہے۔ایک موضوع جو کئی جلدوں کی کتاب میں پوری طرح سما نہ سکے اسے ایک مضمون میں بیان کرنا دریا کو کوزہ میں بند کرنا ہے۔ایک مضمون سے پوری دنیا کی تاریخ کوجاننا قطرہ میں دریا کا مشاہدہ کرنا ہے لیکن کچھ نہ جاننے سے کچھ جاننا بہرحال بہتر ہوتا ہے، ہمیں اس مضمون سے یہ اندازہ ہوجائے گا کہ وہ گھرجس میں ہم سب آج رہتے ہیں ہزاروں سال سے اس میں بہت سے لوگ رہتے آئے ہیں ان کی تہذیب وتمدن کو جاننا دل چسپی سے خالی نہیں اگرچہ یہ مفصل تاریخ نہیں لیکن اس کی حیثیت فلم کے ٹریلرکی ہے جس سے فلم کے کچھ گوشے سامنے آجاتے ہیں اور فلم کے بارے میں تھوڑا اندازہ ہوجاتا ہے۔

یہ کائنات ایک سربستہ راز ہے۔ انسان اس سربستہ راز کو جاننے کی کوشش کرتا رہتا ہے لیکن اس کی چشم حیراں کی حیرانی نہیں جاتی۔اس کی تلاش اسے چاند ستاروں اور کروڑوں نوری سال کی کہکشاؤں تک لے گئی ہے۔  انسان ایک مفروضہ تیار کرتا ہے جب انسان کا علم کچھ اور آگے بڑھتا ہے تو پرانا مفروضہ غلط ثابت ہوجاتا ہے اور نیا مفروضہ اس کی جگہ لیتا ہے۔ کائنات کے وجود میں آنے کا ایک اہم نظریہ بگ بینگ کا نظریہ ہے کہ سائنس دانوں کے مطابق تمام مادہ ایک دھماکا جیسی صورت حال کے بعد انتہائی تیزی سے ایک دوسرے سے دور ہونے لگا اور خلا میں پھیل گیا۔ بگ بینگ وہ دھماکا ہے جس سے ہماری یہ کائنات وجود میں آئی ہے۔ پہلے یہ مادہ انتہائی مختصر جگہ میں جو سوئی کی نوک سے بھی بہت کم ہے قید تھا۔یہ مادہ ایک دھماکا کے بعد نہایت تیزی سے ایک دوسرے سے دور ہونے لگاسائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اس واقعہ کو پیش آئے ہوئے ۱۳ ارب ستر کروڑ سال سے زیادہ ہوچکے ہیں اس زمین کی طرح بہت سے ستارے وجود میں آئے اور ستاروں سے کہکشائیں وجود میں آئیں،نہایت اعلی درجہ کی جو خلائی دور بینیں ایجاد ہوئیں ان سے یہ معلوم ہواکہ قدیم ترین کہکشاں ۱۳ ارب سال نوری کی دوری پر واقع ہے۔ نوری سال فاصلہ کا پیمانہ ہے۔ایک نوری سال دس کھرب کلومیٹر کے برابر ہوتا ہے۔روشنی کی رفتار معلوم کرنے کے بعد یہ پتہ چلایا جاتا ہے کہ سیارہ کی روشنی کتنے عرصہ میں زمین تک پہنچتی ہے۔۱۳ ارب سال پہلے نہ یہ سورج تھا نہ یہ ستارے نہ یہ نظارے نہ یہ کہکشاں نہ یہ آسماں،بلکہ دھماکے کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے ہائیڈروجن کے گولے تھے، دہکتے ہوئے انگارے کے مانند۔یہی گرم گولے ہیں جنھوں نے سکڑ کر ستاروں کی شکل اختیار کی اور اسی تھیوری کے مطابق کہکشائیں وجود میں آئیں۔ بگ بینگ کا یہ نظریہ کہ یہ کائنات ایک عظیم دھماکے سے وجود میں آئی اسلام کے خلاف بھی نہیں ہے۔،علما کہتے ہیں کہ قرآن کے بیان سے اس نظریہ کی تصدیق ہوتی ہے۔قرآن میں ہے او لم یر الذین کفروا ان السماوت والارض کانتا رتقا ففتقناہما اس آیت سے معلوم ہوا کہ زمین اور آسمان دونوں ملے ہوئے تھے اللہ نے ان کو الگ کردیا۔اور بھی آیتیں ہیں جن سے بعض علما کے نزدیک بگ بینگ نظریہ کی تصدیق ہوتی ہے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ ابتداء میں دنیا یعنی یہ کرہ زمین بگ بینگ کے واقعہ کے بعد آگ کا ایک گولہ تھی۔جیسے کہ آج بھی بہت سے گولے فضا میں موجود ہیں اور ابھی ٹھنڈے نہیں ہوئے ہیں،یہ سن کر آگ بگولہ ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ سائنس داں یہی کہتے ہیں،دلیل میں زمین کے اندر موجود آتش فشاں لاوے کو پیش کرتے ہیں۔جب تک کہ کوئی دوسری دلیل سامنے نہ آجائے ماننے کے سوا چارہ نہیں۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ آج بھی لاکھوں آگ کے گولے آسمان کی پہنائیوں میں موجود ہیں اسی طرح زمین بھی آگ کا گولہ تھی جو ٹھنڈی ہوگئی پھر اس میں بہت سے موجودات کا نمو ممکن ہوا۔ہماری زمین پر اب بھی بہت سے آتش فشاں پہاڑ موجود ہیں جو لاوا اگلتے رہتے ہیں۔قدرت کو اس زمین پر انسانوں کو بسانا تھا اس لیے آگ کے اس گولہ نے زمین اور پانی کی شکل اختیار کرلی۔ اللہ نے انسان کو جنت سے نکالا تو اس کے رہنے اور بسنے کا کوئی انتظام تو کیا ہوگا۔اس آگ کے گولے نے زمین کی شکل کب اختیار کی تھی سائنس داں چٹانوں اور پتھروں پر تحقیق کرکے کچھ حساب لگاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ہزاروں کروڑسال پہلے کی بات ہے۔سنی حکایت ہستی تو درمیاں سے سنی۔نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم۔جس طرح انسان چلو سے سمندر کو ناپ نہیں سکتا ہے اسی طرح سے بڑے سے بڑا ریاضی داں اپنی عقل سے بالکل ٹھیک ٹھیک یہ نہیں بتاسکتا کہ اس زمین کو بنے ہوئے کتنے ہزار کروڑ سال گزر گئے۔ اشرف المخلوقات حضرت آدم کے ہبوط کے لیے جو اسٹیج تیار ہوا اس کی تزیین وآرائش میں ہزاروں کروڑ سال لگ گئے۔ اللہ تعالی احسن الخالقین ہے۔اس پر ایمان لانا ضروری ہے۔قرآن نے ہبوط آدم کاقصہ سنایا ہے اور بتایا ہے کہ آدم اور حوا کی نسل سے یہ کرہ ہستی آباد ہوا پھر انسان کو حقیقت حال سے اور دنیا کے مآل سے باخبر کرنے کے لیے اللہ نے پیغمبروں کا سلسلہ قائم کیا۔

سائنسداں کہتے ہیں کہ کرہ ارضی کی موجودات ارتقا پذیر رہی ہیں،بہت سے بے ڈول بے ہنگم، جسامت کے لحاظ سے بہت اونچے اوربہت بڑے حیوانات ہوا کرتے تھے جن کا زمین پر ایڈجسٹمنٹ یعنی ان کے رہنے اور بسنے کا امکان مشکل تھا اس لیے قدرت نے جو لا لے کی حنا بندی کرتی ہے اور مخدوم انسان کے لیے سردی اور گرمی کا توازن پیدا کرتی ہے ان حیوانات کومعدوم کردیا،لیکن کہیں کہیں اب بھی دنیا میں ان معدوم جانوروں کے ڈھانچے پائے جاتے ہیں۔جن سے کچھ اہل علم کو دنیا کی تاریخ کا سراغ مل جاتا ہے۔ان بے ہنگم جانوروں میں جب ارتقا ہوا تو ایسے جانور وجود میں آئے جن کی بناوٹ انسان کی بناوٹ سے قریب تھی جنھیں بن مانس کہا جاتا ہے یہ بعض سائنس دانوں کے نظریات ہیں جنھیں فلسفہ ارتقا کہا جاتا ہے۔ مذہب بتاتا ہے کہ حضرت آدم کو جنت سے بھیجا گیا جن سے دنیا آباد ہوئی۔سائنس میں بتایا جاتا ہے کہ دنیا کی زمین جو پہلے آگ کا گولہ تھی ایسی ٹھنڈی ہوئی کہ زمین کے اوپرکا بڑا حصہ برفستان بن گیا اور بہت بعدمیں جب یہ برف گھلی اور پگھلی تو ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر وجود میں آئے۔ بعد میں سطح زمین پر نباتات اور جنگل وجود میں آئے ان جنگلوں میں آگ بھی لگی اس طرح حضرت انسان کے لیے آگ دریافت ہوئی جس سے کھانا پکانا انسان نے سیکھا ورنہ پہلے درختوں کے پھل پھول اورپتے توڑ کر کھایا کرتا تھا اور جانوروں کے کچے گوشت نوچ نوچ کر کھا لیا کرتا تھا دنیا کے اہل علم اور سائنس دان تہذیب وتمدن کے ارتقا کی ظنی اور تخمینی داستان کچھ اسی انداز سے سنا تے ہیں، اور پھر بڑھا بھی دیتے ہیں کچھ زیب داستاں کے لیے۔بالکل یقینی علم تووہی ہے جو آسمانی صحیفوں سے ملے گا اور آسمانی صحیفوں کا موضوع انسان کو راہ نجات بتانا ہے دنیا کی تاریخ بتانا نہیں ہے۔آخری آسمانی صحیفہ نے ہستی انسان کی ابتداء کی کہانی آدم اور حوا سے بتائی ہے اور یہی سب سے معتبر قصہ ہے باقی بن مانس سے ترقی کرکے انسان کے وجود میں آنا افسانہ ہے ‘‘ چوں نہ دیدند حقیقت رہ افسانہ زدند‘‘۔

یہ زمین جس پر ہم سب رہتے بستے ہیں اس پرایک زمانہ میں طوفان آیا تھا،یہ طوفان نوح تھا لیکن اس کا ذکر صرف قرآن میں نہیں بلکہ بائبل میں بھی ہے پرانی قوموں کی روایتوں میں بھی ایک طوفان کا تذکرہ ہے جس میں تھوڑے سے لوگوں کے سوا سب ڈوب گئے تھے۔ طوفان کی فلک نما لہروں کے تھمنے کے بعدزندگی پھر سے جمنی شروع ہوئی۔ دریائے نیل کی وادی میں زندگی کے آثار ہویدا ہوئے، جنوبی عراق میں انسانوں کی آبادی نے جنم لیا، ہندوستان میں دریائے سندھ کے کناروں پرتہذیب نے بال وپر نکالے، چین میں بعض دریاؤں کے کنارے آبادیاں نمودار ہوئیں، زیادہ تر آبادیاں جو بسیں وہ آبی علاقہ کے قریب بسیں، جن لوگوں نے گھر دریاؤں سے دور بسائے ان میں زیادہ تر خانہ بدوش تھے جو اپنا گھر اپنی پیٹھ پر اٹھائے ہمیشہ نقل مکانی کے لیے تیار رہتے تھے اور اپنے مویشی اپنے ساتھ رکھتے تھے، تہذیبیں بھی اسی طرح انسانوں کے ساتھ سفر کیا کرتی تھیں۔ عراق مصر شام فلسطین میں اور ہندوستان اور چین میں اور شمالی افریقہ میں تہذیب کے مرکز بنتے گئے اور بگڑتے گئے۔مصر اور عراق کی تہذیبوں کے بارے میں مورخین کی رائے ہے کہ وہ دس ہزار سال پرانی ہیں،آریاوں کی نسل تقریباپانچ ہزار سال پرانی ہے اور اس نے ایران عراق اورہندستان پر قبضہ کر لیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ وسط ایشیا سے نکل کر پھیلے تھے۔آریوں کی حکومت ایران شام سے لے کر در یائے سندھ تک پھیلی۔ یونان کا بادشاہ سکندر بھی آریائی نسل کا تھا۔ اس کی فاتحانہ یلغار نے ان حکومتوں کی چولیں ہلادیں۔ ہندوستان میں اس کے بعد موریا سامراج کی بنیاد پڑی۔دنیا کے ایک دوسرے کنارے پررومی سلطنت تاریخ کی بساط پر نمودار ہوئی۔اس طرح کے اور واقعات بھی ہیں جو حضرت عیسی علیہ السلام سے پہلے پیش آئے حضرت عیسی علیہ السلام سے پہلے ایک اور جلیل القدرپیغمبر حضرت موسی علیہ السلام تھے مصر میں ان کے زمانہ کا بادشاہ فرعون تھا مصر میں کئی فرعون ہوئے اور فراعنہ کے زمانہ کی تہذیب کی یادگار مصر کے اہرام ہیں جو آج بھی موجود ہیں۔مصر عراق اور ہندوستان اور بحر روم کے ساحل پر شہری تہذیب نمودار ہوئی،سات آٹھ ہزار سال پہلے تحریر کا فن وجود میں آیا اور لوگوں نے بتدریج مذہب اور قانون اور علم کے سایہ میں زندگی بسر کرناشروع کی،ان دیکھی طاقتوں کے خوف نے اور امید وطمع نے بہت سی دیو مالائی کہانیوں کو وجود بخشا،کچھ علمی اور صنعتی ترقیوں کی نشان دہی بھی کی جاتی ہے،آب پاشی کے لیے قدیم تہذیب میں بند بھی بنائے گئے۔ الغرض انسان آج سے سات آٹھ ہزار سال پہلے بتدریج علم وانکشاف کے میدان میں ترقی کررہا تھا۔کچھ قوانین بھی بنے تھے جو پتھروں پر کندہ کیے جاتے تھے ہندوستان میں اشوک کی لاٹ کئی جگہ دستیاب ہوئی ہے اگرچہ اشوک کا زمانہ گم شدہ تاریخ کے بالکل آخر کا زمانہ ہے یعنی اس زمانہ پر تاریخ کی فلیش لائیٹ نہ سہی لیکن ہلکی روشنی پڑتی ہے۔قانون اور مذہبی احکام پتھروں پر نقش کیے جاتے تھے۔

قدیم تہذیب میں عورتوں کا سماجی درجہ ایک جیسا نہیں تھا۔ ہندوستان میں وہ شوہر کے مرنے کے بعد ستی کی جاتی تھی بیوہ کی کوئی عزت نہیں تھی لیکن حضرت عیسی علیہ السلام سے دس ہزار سال پہلے ملکہ سبا حکومت کرچکی تھی جس کا نام یہودی لٹریچر میں بلقیس تھا اس زمانہ میں اجرام فلکی کی عبادت کی جاتی تھی ملکہ سبا حضرت سلیمان پر ایمان لائی اور شرک سے تائب ہوئی اس نے جب اپنا تخت حضرت سلیمان کے پاس دیکھا تو حضرت سلیمان کے اس معجزہ نے اسے ایمان لانے پر مجبور کردیا ہر دور میں معجزوں سے اور مافوق العادات سے انسان متاثر ہوتے رہے ہیں اور اپنا مذہب تبدیل کرتے رہے ہیں۔ حضرت عیسی علیہ السلام سے پہلے مصر کی ایک طاقتور ملکہ قلوپطرہ کے نام سے ہوئی تھی،اس نے سازشوں کے ذریعے بہت سے لوگوں کو شکست دے کر تخت حکومت پر قبضہ کیا تھا اس کا حسن بے مثال تھا۔ بعد کی تاریخ میں ترک نزاد خاتون شجرۃ الد ر نے مصر میں حکومت کی اورہندستان میں مسلم حکم ران خاتون رضیہ سلطانہ تھی جسے فنون حرب میں بڑی مہارت حاصل تھی۔ یعنی ایسا نہیں تھاکہ دنیا میں عورت ہر جگہ ذلیل اور بے عزت ر ہتی آ ئی تھی،دلوں پر حکومت کرنے کے ساتھ ساتھ اس نے تخت حکومت پر بیٹھ کر بھی حکومت کی ہے لیکن اللہ تعالی نے دلوں پر حکومت کرنے کی صلاحیت اسے زیادہ عطا کی ہے اسی لیے ہر جگہ ایسے عمر رسیدہ شعرا ملیں گے جو اعتراف کرتے آئے ہیں کہ ان کی جوانی جاچکی لیکن غزل خوانی نہیں جاتی۔

قدیم زمانہ میں عورتوں کے حقوق سے قطع نظر تمدنی ترقیاں بھی موجود تھیں۔ صنعت بھی تھی زراعت بھی تھی اور آبپاشی کا بہت اچھا انتظام تھا۔آج سے کئی ہزار سال پہلے مصر اور بائبل میں لکھنے کا طریقہ ایجاد ہوا، شروع شروع میں افہام اور ترسیل کے لیے تحریر کے بجائے چیزوں کی تصویر بنائی جاتی تھی پھر تصویر ی کتابت نے ترقی کی اور حروف ایجاد ہوئے۔فینقی حروف تہجی نے ترقی کی اور کتابت کا فن وجود میں آیا، فینقی قوم تاجر تھی اس نے پورے پورے لفظوں کا اختصار حرفوں میں کیا تھا۔ فینقی نسل کے لوگ سامی اقوام سے تعلق رکھتے تھے۔ نوح علیہ السلام کے بعد ان کی نسل جو پھیلی ان ہی میں فینقی بھی تھے جو کنعان، عراق اور شام وفلسطین میں آباد ہوئے۔تاریخ میں ان کی صنعتی ترقیوں کا، سمندری اسفار کا، مراسلت کا اور تحریر کے فن کا تذکرہ بہت آتا ہے۔ تحریر کے فن نے فینقی عہد میں اسی طرح بتدریج ترقی کی۔ انسان زبان سے جو بولتا تھا اس کے لکھنے پر بھی قادر ہوگیا۔ پہلے پتھروں پر اورمٹی کی تختیوں پر تحریریں کندہ کی گئیں پھر چمڑوں پر اور درخت کی چھالوں پر لکھنے کا رواج ہوا۔ پریس کی ایجاد چند سو برس پہلے کی بات ہے۔لکھنے پڑھنے کے علاوہ اور بھی علوم حضرت انسان نے ایجاد کرلئے، وقت کو سال میں اور سال کو مہینہ میں تقسیم کیا اور مہینہ کو ہفتہ میں اور ہفتہ کو دنوںمیں اور دن کو پہروں میں۔ بابل اور عراق کے لوگوں نے دھوپ گھڑی بنائی اور ستاروں اور برجوں کے نام بھی انھوں نے رکھے۔ مصریوں نے جنتری بنائی حساب اور اقلیدس ( جیومیٹری) میں انھوں نے کمال حاصل کیا۔ ان کے اس کمال کا اندازہ اہرام مصر سے بھی ہوتا ہے۔ اہرام مصر دنیا کے عجائبات میں سے ہے جیسے تاج محل دنیا کے عجائبات میں فن تعمیر اور حسن تعمیر کا عجوبہ ہے۔تاج محل حال کے زمانہ کی تایخ کی عمارت ہے اور اہرام مصر ہزاروں سال پہلے کی عمارت ہے، یہ اہرام سیکڑوں من وزنی پتھروں سے بنا ہے انھیں ایک جگہ سے تعمیر کی جگہ پر منتقل کرنا اور انھیں بغیر چونے مسالے کے ایک دوسرے پر اتنی صفائی کے ساتھ رکھنا کہ جوڑ نظر نہ آئے فن کا کمال ہے۔یہ عمارت نیچے ۷۴۸ مربع فٹ ہے اور اس کی بلندی ۴۴۰ فٹ ہے یعنی قطب مینار سے بھی زیادہ بلند۔جن لوگوں نے یہ پتھر تراشے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ لے گئے اور پھر انھیں ایک دوسر ے پر رکھا وہ تہذیب اور تمدن کی تاریخ کے باکمال لوگ تھے۔ ان لوگوں کے پاس کوئی کمی تھی تو صحیح مقصد حیات کے شعورکی کمی تھی اور اسی صحیح مقصد حیات کو بتانے کے لیے جسے ابلیس نے نظروں سے چھپا رکھا تھا اللہ تعالی نے ہر قوم کے پاس پیغمبر بھیجے کیوں کہ پیغمبر کے بغیر قومیں نہ مقصد حیات کو سمجھ سکتی ہیں اور نہ مرنے کے بعد کی زندگی کا ادراک انھیں حاصل ہوسکتا ہے، کیوں کہ یہ سب غیب کے معاملات ہیں۔ اور غیب کے معاملات تو اللہ کے فرستادہ پیغمبر ہی بتاسکتے ہیں۔ غیب کے معاملات حضرت انسان کو معلوم نہ ہوسکیں یہی کوشش ابلیس اور اس کی ذریت کی ہمیشہ سے رہتی آئی ہے تاکہ جو انجام ابلیس کا ہو وہی انسان اور اس کی ذریت کا بھی ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ ابلیس شیطان کی قسمت میں ناکامی آئی ہے وہ ہر دور میں کام یاب رہا ہے اور تھوڑے ہی لوگ خوش قسمتی سے اس کے دام ہم رنگ زمیں سے بچ پائے ہیں۔جن کو عباد اللہ الصالحین کہا جاتا ہے۔ لیکن کوئی بھی انسان چاہے تو اپنی کوشش سے اور اللہ کے فضل سے اپنا نام ان خوش قسمت انسانوں کی فہرست میں درج کراسکتا ہے۔

کہا جاتا ہے اہرام مصر کی طرح ایک فلک نماعمارت ملک بابل میں بھی بنائی گئی تھی یہ ملک دریائے فرات کے کنار ے حضرت عیسی علیہ السلام سے چار ہزار سال پہلے آباد تھا اور اب اسے عراق کہا جاتا ہے یہ عمارت بھی فن تعمیر کا شاہ کار تھی اور اہرام مصرکی طرح بہت بلند تھی لیکن آسمان کو اس پر رشک آیا اور اس نے بجلی گراکر اسے ہم رتبہ زمیں کردیا۔یہ سب تاریخ کی کہانیاں ہیں جن کی تصدیق کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔

جب دنیا میں ایسی فلک نمارشک آسماں بادلوں کی ہم عناں عمارتیں بن سکتی ہیں تو خوب صورت اور مزین عمارتیں کیوں نہیں بن سکتی ہیں چناں چہ ہڑپا اور مہنجودارو اور مصر وعراق کے شہروں میں اور کریٹ میں جو یونان کا جزیرہ ہے بارونق شہر اور بازار ہوا کرتے تھے کئی منزلہ عمارتیں ہوتی تھیں، نہایت آراستہ بازار ہوا کرتے تھے،برتن اور زیور خوشنما تھے، یہ تہذیبیں بھی ہزاروں سال پرانی اور ہزاروں سال تک باقی رہنے والی تھیں۔ ہمیں یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ بس ہم ہی ہم ہیں اور ہم سے پہلے دنیا میں کچھ نہیں تھا، دنیا میں تہذیبیں موجود تھیں۔ خدا کا اقرار بھی تھا،اور خدا سے انکار بھی تھا یعنی جیسا کچھ آج ہے پہلے بھی تھا۔ پہلے بھی نفاست تھی پہلے بھی حسن ذوق کی تسکین کا سامان معاشرت میں موجود تھا جسے تہذیب کہتے ہیں۔ دریا اور باغوں کی سیر بھی ہوتی تھی، دعوتیں بھی ہوتی تھیں اور محفلیں بھی منعقد ہوتی تھیں۔اہل فن بھی تھے خطابت بھی تھی اور شاعری بھی تھی۔

ہندوستان میں جو ہندو ہیں وہ آریہ نسل کے ہیں جووسط ایشیا سے نکل کردنیا کےکئی حصوں میں پھیل گئے۔ وہ ایران گئے یونان اور ایشیائے کوچک بھی گئے۔ آریوں کے اثرات بہت دور دور تک پہنچے۔ صرف سامی نسل کے لوگ ان کے اثرات سے کسی حد تک بچ سکے۔ ہندوستان کی قدیم نسل ڈراورڈ تھی اور اس کا بڑا عمدہ تمدن تھا۔ ہڑپا اور مہنجو دارو کے خرابے اورزمین کے نیچے دبے ہوے آثار قدیمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم بہت متمدن تھی اورباہر سے آنے والے آریاوں نے ان پر اتنا ظلم کیا کہ ان کوہجرت کرنی پڑی اور ہندوستان کے وسطی علاقوں سے نکل کر وہ سندھ کے علاقوں میں جا بسے۔ ان کو آریاؤں نے حقیر اور ذلیل سمجھا اور ان کو اچھوت بنا دیا۔ آریہ نسل کے لوگوں نے ہندوستان اور یونان دونوں جگہ نسلی برتری کو اتنا رواج دیا کہ اس نسلی برتری کو قانون میں شامل کردیا۔مذہبی رسوم ادا کرنے کے لیے پروہت ہوتے تھے انھوں نے پیشوں کی اور کام کی تقسیم کی، مذہبی رسوم کی ادایگی کےلئے الگ ذات اورسپہ گری اورجنگی خدمات کے لیے الگ ذات اور خدمت کے لیے معمولی پیشوں کے لیے الگ ذاتیں۔پھر ذات پات کے اس نظام کو مذہب کا جزو بنا دیا گیا۔آریاؤں نے نسلوں کی جو تقسیم کی اسے دنیا کی دوسری قوموں نے تسلیم نہیں کیا۔ ہندوستان میں بدھ مذہب نے شام وفلسطین میں عیسائیوں نے اور جزیرۃ العرب میں اسلام نے انسانوں کو برابر قرار دیا۔ عیسائی مذہب نے اس نابرابری کی تقسیم کو دبا نے کی کوشش کی لیکن جدید دور میں ہٹلر نے اعلان کردیاکہ آریائی اور غیر آریائی برابر نہیں ہوسکتے۔ امتیاز نسل وخاندان کو جو آریائی قبائل کا امتیاز تھا آسمانی مذاہب نے مسترد کردیا۔ عیسائیت اور اسلام دونوں نے اسے خلاف عقل اور خلاف فطرت قرار دیا۔ہندوستان میں بدھ مت نے بھی اس ظالمانہ اور غیرمنصفانہ نظام کی مخالفت کی۔

تمدن وتہذیب کی تاریخ میں مشرق ومغرب کے الگ الگ امتیازات پائے جاتے ہیں۔ مشرق کو فخر رہا ہے اور بجاطور پر فخر رہاہے کہ وہ دنیا میں آسمانی مذاہب کا مہبط رہا ہے۔ تہذیب کے جتنے اخلاقی سرچشمے ہیں وہ سب روحانیت سے پھوٹتے ہیں اور روحانیت کا منبع اور اس کا مصدر فیضان مذہب ہے۔ مغرب کو اس بات پر فخر رہا ہے کہ سیاست میں جمہوری قدروں کی افزائش اور علم کی دنیا میں نت نئے انکشافات سب سے زیادہ مغرب میں ہوئے۔ جمہوریت اور سائنس اورصنعت کی ابتدا مشرق میں ضرور ہوئی لیکن یہ پودا مشرق میں جلدکمھلا گیا اور وہاں کی آب وہوا اسے زیادہ راس نہیں آئی۔تاریخ میں مشرق ومغرب کے الگ الگ امتیازات ہیں جن کو سمجھنا ضروری ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سارے اہل مغرب مذہب کے خلاف رہے ہیں یاسب اہل مشرق عقل کے خلاف۔دونوں طر ف کے سمندر کی موجیں ایک دوسرے سے ملتی بھی ہیں اور اپنی امتیازی شان بھی برقرار رکھتی ہیں بینہما برزخ لا یبغیان۔

مغرب کا ایک چھوٹا سا ملک یونان رہا ہے وہ اپنے رقبہ کے اعتبار سے چھوٹا اور علم وادب کے کمالات کے اعتبار سے بہت بڑا ملک ہے۔ بقامت کمتر اور بقیمت بہتر اور برتر۔یونان نے بڑے بڑے جہاز بنائے تھے اور صنعت کو خوب ترقی دی تھی،زمین کے اندر دھاتوں کا جو خزانہ دفن تھا اسے نکالنے کا فن اس نے دریافت کرلیا تھا لیکن یونان کو جس چیز نے سب سے زیادہ شہرت دی وہ وہاں کافلسفہ ہے یعنی یونانیوں کو عقل ودانش سے بہت محبت تھی انھوں نے کائنات کو مذہب کے بجائے عقل ودانش کے حوالے سے جاننے کی کوشش کی۔ یونانیوں کی ذہانت اور فطانت سب سے زیادہ فلسفہ کے شعبہ میں ظاہر ہوئی اس کے فلسفہ کی پذیرائی ہندوستان کے دینی مدارس تک میں ہونے لگی۔ اس کے فلسفہ میں اتنی طاقت تھی کہ صدیاں گزر گئیں اس کا زور ختم نہیں ہوسکا۔ اس کی ایک وجہ ہماری درسگاہوں کا جمود بھی ہے۔ یونانی فلسفہ کا آغاز حضرت عیسی علیہ السلام سے چھ سوسال پہلے ہوچکا تھا سقراط کے شاگرد افلاطون نے فلسفہ میں نام روشن کیا اسے فلسفہ کا باوا آدم سمجھا جاتا ہے اس نے ادب شاعری مصوری ان سب کی مخالفت کی۔ لیکن ارسطو نے افلاطون کے خیالات کی تردید کی۔ اس نے ادبی تنقید پر پہلی کتاب لکھی بوتیقا جس کی شہرت ادب کی دنیا میں ہر جگہ ہے، ڈراما تو اہل یونان کی ایجاد ہے،فن تعمیر سنگ تراشی اور مصوری میں یونان کا ایک خاص مقام ہے۔ادب فلسفہ اور آرٹ میں یونان نے جو نقوش چھوڑے وہ لافانی ہیں۔

حضرت عیسی علیہ السلام سے ۶۔۷ سوسال پہلے کا زمانہ ہر میدان میں یونان کے عروج کا زمانہ ہے۔ بادشاہ سکندر اعظم کے سر میں دنیا کو یک قطبی بنانے کا سودا سمایا ہوا تھا، وہ پوری دنیا کو فتح کرنے کے ارادہ سے نکلا۔اس نے روم کو شکست دی، اس نے ایران کو شکست دی پھر شام اور فلسطین ہوتا ہوا مصر گیا۔وہ دنیا کو فتح کرنے کے ارادہ سے نکلا تھا۔ وہ یونانیوں کی تہذیب سے پوری دنیا کو فیض پہنچانا چاہتا تھا لیکن اس کاشمار دنیا کے بڑے سفاک فاتحین میں ہے۔ بقول اقبال

اسکندر و چنگیز کے ہاتھوں سے جہاں میں

سو بار ہوئی حضرت انساں کی قبا چاک

سکندر کے بعد کوئی سکندرکا وارث نہیں ہوا۔ظلم اور سفاکی کا الزام پوری دنیا نے سکندر پر لگایا اور وہ روم جسے سکندر نے میدان جنگ میں رسوا کیا تھا سکندر کے دو سو سال کے بعد ایک طاقتور فاتح کے طور پر نمودار ہوا۔اس نے اٹلی اور کئی ملکوں پر قبضہ کرلیا۔ یونان پر پہلے ہی اس نے قبضہ کرلیا تھا۔ یونان جو پہلے روم کا فاتح تھا اب روم کا مفتوح بن گیا۔ رومیوں کی حکومت چار سو برس تک قائم رہی۔ وہ نہایت بے رحم تھے اوران کے پاس وہ تہذیب بھی نہیں تھی جو اہل یونان کے پاس تھی اوران کا کوئی مذہب بھی نہیں تھا۔ وہ اتنے بے رحم ہو گئے تھے کہ برائے تفریح عورتوں بچوں اور غلاموں کو درندوں کے سامنے ڈال دیا کرتےتھے۔ جب کہ یہی وہ قوم تھی جس کادعوی تھا کہ اس نے دنیاکو منظم سیاسی زندگی کا سبق پڑھایا تھا اور یہی وہ زمانہ تھا جب مشرق میں چین کی حکومت عروج حاصل کرہی تھی اور ہندوستان میں موریا حکومت کے قدم جم رہے تھے۔

حضرت عیسی علیہ السلام سے تقریبا دوسو سال پہلے چین کی تہذیب اوج وعروج سے سرفرازاور عالم افروز تھی،یونان اور روم نے اگر مغرب میں علم و ادب اور تہذیب میں ناموری حاصل کی تھی تو مشرق میں چین نے مختلف میدانوں میں حیرت انگیز ترقی کی تھی اور تہذیب کی تاریخ میں اپنا نام اور کام درج کرایا تھا۔اس نے مشرقی تہذیب وتمدن کی بنیاد رکھی لیکن اس کا اتنا اعتراف نہیں کیا گیا جتنا روم اور یونان کی تہذیبوں کا اعتراف کیا گیا۔ ممکن ہے اس میں مشرق کو نظر انداز کرنے کے مزاج کو دخل ہو۔  یہ اس لیے کہ چین کی ایجادات اور کمالات کا ذکر اتنا نہیں ملتا جتنادوسری تہذیبوں کے احسانات کا ذکر ملتا ہے۔اسلام نے ضمنی طور پر چین کے علم کا اعتراف کیا ہے ایک حدیث ہے اگرچہ اس کی صحت مشکوک ہے وہ یہ کہ ‘‘ علم حاصل کرو خواہ تمھیں اس کے لیے چین جانا پڑے‘‘معلوم ہوا کہ چین کا ملک تہذیب اور ایجادات کے لیے ایک اہم حوالہ کی حیثیت رکھتاتھا۔چین نے سب سے پہلے زلزلہ کی شدت ناپنے والاآلہ دنیا کو دیا۔یہ اس لیے کہ چین میں زلزلے بہت آتے تھے جن سے بسا اوقات دریاؤں کے رخ بدل جاتے تھے۔چین نے راستہ بتانے کے لیےسمت نما آلہ ایجاد کیا تھا جو ہرجگہ جنوب کی سمت کدھر ہے بتادیتا تھا۔ مسافروں کو راہ گیروں کو او رجہاز رانوں کو اس سے بڑی سہولت ہوتی تھی۔چینیوں نے خاص طرح کے کیمیکل بنائے تھے جس کو پینٹ کیا جاتا تھا اور پھر وہ چیز ایک لمبے عرصہ کے لیے محفوظ ہوجاتی تھی۔چین میں حنوط کی ہوئی لاشیں بھی ملی ہیں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ہزار سال قبل مسیح کی لاشیں ہیں۔ چینیوں نے آلات ظرو ف میں بھی بڑی شہرت حاصل کی تھی۔ چینی برتن آج تک مشہور ہیں۔ میٹل انڈسٹری بھی چین میں بہت عروج پر تھی کاغذاورموم بتی کی صنعت بھی چین کی مشہور رہی ہے۔تجارت کی منڈیوں میں چین کا خاص مال تجارت ریشم تھا۔ چین کی سب سے مشہور چیز‘‘ دیوار چین‘‘ ہے کہنے والوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ چاند سے طاقتور دوربین سے زمین پر نظر آنے والی کوئی عمارت ہے تو وہ دیوار چین ہے۔چینی تہذیب کا شمار دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں ہوتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ لباس میں پور ے جسم کو چھپانے کی روایت دنیا کی تہذیبوں میں پہلے چین سے شروع ہوئی ورنہ دنیا ادھورا لباس استعمال کرتی تھی جس سے پورے طور پر ستر پوشی نہیں ہوتی تھی۔دنیا میں لباس کے نام پر صرف ایک چادرکا استعمال ہوتا تھا۔چین نے کرتا اور پائجامہ دنیا کی تہذیب کو دیا۔ لکھنے والوں نے چینیوں کے اخلاق میں تواضع کا تذکرہ خاص طور پرکیا ہے۔یعنی ان کے یہاں غرور وتکبر اور خود پسندی نہیں تھی۔

دنیا کی قدیم تہذیبوں میں بھارت کی تہذیب کا بھی شمار ہے۔ آریہ نسل کے لوگ تو باہر سے آئے تھے ہندوستان کے اصل باشندے ڈراورڈ تھے جن کو آریہ نسل کے لوگوں نے غلام بنالیا تھا،ان کی توہین کی تھی، انھیں شودر کہا گیا تھا، ان کا کام خدمت کرنا مقرر کیا گیا تھا،برہمن کے ساتھ وہ بیٹھ نہیں سکتے تھے اور برہمنوں کی کتاب وید وہ پڑھ نہیں سکتے تھے، سن نہیں سکتے تھے اور اگر کوئی سن لے تو اس کے کان میں پگھلا ہوا سیسا ڈال دینے کا حکم ہندو شریعت میں تھا۔مہنجودارو اور ہڑپا میں کھدائی سے جو مدفون تہذیبی آثار برآمد ہوئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت کے قدیم باشندے آریاؤں کے آنے سے پہلے بہت متمدن اور ترقی یافتہ تھے۔ عرب اور دنیا کے دوسرےملکوں سے ان کے تجارتی روابط تھے۔تہذیب وتمدن کے میدان میں وہ دنیا کے قدم بقدم چل رہے تھے۔لیکن باہر سے آنے والوں نے ان پر ظلم کیا اور وہ دنیا کی محفل سے اٹھ کر چلے گئے۔ ان کے مقابلہ میں باہر سے آنے والے آریوں کا کلچر کھیتی باڑی کرنے والوں کا اور چرواہوں کا کلچر تھا، وہ جسمانی طور پر طاقتور تھے۔ ان کے خیال میں ان کے علاوہ دوسروں کو جینے کا حق نہیں تھا اوراگر انھیں زندہ رہنا تھا تو غلام اور خدمت گار بن کر۔ آریہ نسل کے لوگوں کا یہی مزاج تھا اور اپنے مزاج کو انھوں نے دھرم کی شکل دے دی تھی۔ وہ اپنے آپ کو قدرت کاچہیتا سمجھتے تھے اوراپنے کو سب کچھ سمجھتے تھے باقی دوسرے لوگ ان کے نزدیک‘‘ اور تھے اور کچھ بھی نہیں‘‘۔ آریہ باہر سے آئے اور ملک پر قابض ہوگئے تھےاورجو اصل باشندے تھے وہ غیرتھے اور غلام تھے۔انھوں نے اپنے لیے بہت سی پیچیدہ مذہبی رسمیں ایجاد کرلی تھیں اور ان کو اپنی اجارہ داری میں رکھا اور خود کوسب سے اونچے منصب پر فائز کرلیا تھا۔بے شمار دیوی دیوتا پرستش کے لیے بنا ڈالے ان میں درخت بھی تھے اور جانور بھی۔ کچھ لوگوں کوسپاہی بنا دیا اورکچھ دوسروں کے ہاتھ میں تجارت دے دی اور ان کے سوا بھاری اکثریت کو غلام کا درجہ دیا۔اس عدم مساوات اور طبقاتی تفریق کے خلاف ملک کے سماج میں شدید بغاوت ہوئی۔ مہاتما بودھ اس اونچ نیچ پر مبنی سماجی نظام کے خلاف کھڑے ہوئے۔ ان کی تعلیم تعصبات سے پاک تھی اور آریائی مذہب کے خلاف بغاوت تھی۔گوتم بدھ کی تعلیمات میں دیوی دیوتاؤں کی پرستش نہیں ہے اور نہ طبقاتی نظام کی تائید ہے۔ ان کی تحریک برہمن واد کے خلاف بغاوت تھی۔مہا بودھ کی مخالفت کے باوجود بھی دیوی اور دیوتاؤں پر وشواس رکھنے والوں کا مذہب زندہ ہے اور طبقاتی نظام بھی موجود ہے، لیکن مہاتما بودھ کے ماننے والے بھی کروڑوں کی تعداد میں ملک کے اندر بھی ہیں اور ملک کے باہر بھی ان کی تعداد بہت ہے۔ بوھ مذہب میں اسلام کی طرح اخلاقی تعلیمات بھی ہیں،اعتدال بھی ہے اور خاک ساری بھی ہے۔ لیکن اس بہترین انسان کو بعدکے دور میں لوگوں نے خدا بنادیا اور پھر گوتم بدھ انسان سے دیوتا بن گئے۔

بھارت میں تہذیب وتمدن کی تاریخ مہنجودارو اور ہڑپا سے شروع ہوتی ہے پھر باہر سے آریوں کی آمد اور گپت عہد کی شہری تہذیب اور پھر اس دور میں مذہبی خیالات جن کے مجموعے اپنشد میں اور رگ وید میں اور گیتا میں ملتے ہیں۔بھگوت گیتاہندو مذہب کاسب سے مقدس آسمانی صحیفہ ہے اس میں ۱۸ ابواب اورسات سو اشلوک ہیں۔کتاب دراصل مہا بھارت کا ایک باب ہے، اس کی زبان سنسکرت ہے، اس کا فارسی میں بھی منظوم ترجمہ ہوچکا ہے۔ اس میں شری کرشن کے اپدیش ہیں، مہا بھارت کی جنگ میں کوروں اور پانڈو کی لڑائی کی داستان ہے، اس میں کرشن جی نے ارجن کو جو اپدیش دیا ہے، اس میں اخلاقی فلسفے بیان کیے گئے ہیں۔گیتا نے د نیا کے بہت سے مفکروں کو مبہوت کیا ہے۔ ہندوستانی تہذیب کے ذکر میں کالی داس کی نظمیں ہیں جن میں ہندوستان کے موسم کا اور فضاؤں کا تذکرہ ہے۔ ان کتابوں کے کینوس میں ہندوستان کی تہذیبی تصویر تیار ہوتی ہے اس تصویر میں مذہبی فلسفہ بھی ہے، شاعری بھی ہے، پوجا پاٹ کی رسمیں بھی ہیں، تہذیب کے کینوس میں آریہ بھٹ اور برہم گپت کے علوم وآداب بھی آجاتے ہیں، ہندوستان کی تہذیب میں پنج تنتر کی کہانیاں بھی ہیں جو جانوروں کی زبان سے انسانوں کو تعلیم دینے کے لیے ہیں جس کا عربی ترجمہ کلیلہ و دمنہ تمام عرب دنیا میں مقبول ہوا۔ اجنتا اور الورا کی مصوری بھی تہذیب کا حصہ ہے، جس کے عجائبات نے سیاحوں کو مبہوت کر رکھا ہے۔دنیا کی بہت سی تہذیبوں میں بھارت کی بھی تہذیب تھی جس پر بھارت والوں کو ناز ہے۔ اس تہذیب میں اساطیری کہانیاں بھی داخل ہیں، رامائین میں اور دوسری کتابوں میں ان کہانیوں کا ذکر ہے اورجن پر یقین کرکے یہ دعوی لوگ کرتے ہیں کہ پراچین کال میں بھارت کی تہذیب بہت اونچی تھی، ہوائی جہاز بھی تھے جس پر رام چندر جی اڑ کر کے جاتے تھے، میڈیکل سائنس نے بھی ترقی اتنی تو کرلی تھی کہ آپریشن سے انسان کے جسم میں ہاتھی کاسر لگایا جا سکتا تھا۔ آج بھی بہت سے لوگ اس پر یقین کرتے ہیں۔ آج بھی ایسے لوگ ہیں جن کو آرزوئیں جھولا جھلاتی ہیں اور اس پراچین کال کو واپس لانا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے سنگٹھن بناتے ہیں اور تحریکیں برپا کرتے ہیں او رسروں میں نخوت اوربالادستی کا ایساسوداسما دیتے ہیں جس کا نام ہندتو رکھا جاتا ہے۔رامائین سنسکرت کی ایک رزمیہ نظم ہے جس میں ۲۴ ہزار اشعار ہیں رام اور اس کی بیوی سیتا اور اس کے بھائی لکشمن اور ان کی جلاوطنی کی داستان اس کتاب میں ہے رامائین میں ہمیشہ اضافے ہوتے رہے ہیں آخر میں وہ رامائین جو سترہویں صدی میں تلسی داس نے مرتب کی تھی اس کے نسخے انڈیا آفس لائبریری اور ایشیاٹک سوسائٹی میں موجود ہیں۔

ہندو تہذیب میں بت پرستی کا عنصر بہت نمایاں ہے اگرچہ ویدوں میں توحید کے اشلوک متعدد ہیں اسی لیے ہندوؤں میں آریہ سماجی بت پرستی کے مخالف ہیں اور توحید پر یقین رکھتے ہیں، لیکن سناتن دھرمی لوگوں کے نزدیک بت پرستی درست ہے اوربعض کے نزدیک ۳۳۰ کروڑخدا ہیں۔ جتنے کنکر اتنے شنکر۔مجموعی طورپر قوم کامزاج یہ بن گیا کہ جس کے لیے احسان مندی کاجذبہ پیدا ہوتا ہے اس کو خدا مان لیا جاتا ہے جیسے گائے دودھ دیتی ہے تو معبود بن گئی، سانپ کو دیکھ کر انسان ڈر گیا تو وہ بھی معبودبن گیا۔چاند سورج درخت در یا سب خدا ہیں، بن دیکھی حقیقت کو خدا ماننا ان کے لیے مشکل ہے پیکر محسوس کا ہونا ضروری ہے۔ ہندو مذہب میں جو لوگ مذہب کو نہیں مانتے ہیں اورخدا پر یقین نہیں رکھتے ہیں وہ بھی اپنے آپ کو ہندو کہتے ہیں اسی لیے ہندوازم مذہب کم اور تہذیب زیادہ ہے۔اس تہذیب میں مذہب بھی ہے رقص وسرود بھی ہے موسیقی بھی ہے بہت سے تہوار ہیں،تعمیر بھی ہے سائنس بھی ہے فلسفہ بھی ہے۔ہندو مذہب کی متعین تعریف مشکل ہے۔ جو خود کو ہندو کہے بس وہ ہندو ہے، چاہے وہ ایک خدا کو مانتا ہو چاہے بہت سے خداؤں کو یا کسی خدا کو نہیں مانتا ہو۔ہندو مذہب میں ایک مشترک عقیدہ آواگون کا عقیدہ ہے یعنی مرنے کے بعد انسان دوبارہ پیدا ہوتا ہے انسان کی شکل میں یا حیوان کی شکل میں۔ ہندو ازم کسی عقیدہ سے زیادہ ایک خاص تہذیب کا نام ہے۔ ہندوستانی تہذیب سے قوم کے خدوخال کا،طرز زندگی کا اور معاشرت کا رسم ورواج کا اندازہ ہوتا ہے یہاں تہذیب سے مراد زندگی گزر بسرکرنے کا طریقہ ہے۔یعنی وہ پیدا ہوگا تو کسی نہ کسی مندر میں جاے گا، ہولی اورد یوالی منائے گا،مرے گا تو اس کی چتا کو جلادیا جائے گا۔ (جاری)

مشمولہ: شمارہ جون 2022

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223