انسانی حقوق

اسلام اور مغرب کے تناظر میں

انسانی حقوق کا تاریخی پس منظر

دورِ حاضر میں انسانی حقوق کی بات ایک نعرے کی صورت اختیار کر گئی ہے تاریخ میں باربار سوال پیدا ہوتا رہاہے کہ انسان کے بنیادی حقوق کیا ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی ہدایات سے بے نیاز ہوکر ظالم افرادنے اپنی ہی جنس پر ظلم ڈھائےہیں۔ آج تک شاید حیوانات نے اتنے انسانوں کی جان نہیں لی جتنی انسانوں نے صرف دوسری جنگِ عظیم میں لی ہیں ۔ بہت سے انسانوں کو بنیادی حقوق کی کوئی تمیز نہیں ہے۔ خالق کائنات نے اس سلسلہ میں انسانوں کی رہبری کی ہے اور پیغمبروں کی وساطت سے انسانی حقوق کی واقفیت بہم پہنچائی ہے۔انسان اجتماعی شعور رکھنے والی مخلوق ہے ۔ اجتماعت کا تقاضایہ ہے کہ فرائض کا تعیین اور  اس کے مطابق عمل ہو۔ اس کےبغیر کوئی اجتماعیت، نہیں چل سکتی۔ عہد حاضر میں مغرب میں انسانی حقوق کا آغاز میگنا کارٹا(Magna carte)  سے ہواہے۔ مغربی دنیا کی اس تحریک کا منتہائے ارتقاء اقوامِ متحدہ کے منشور انسانی حقوق ۱۰دسمبر۱۹۴۸ء کو قرار دیا جاتا ہے۔

انسانیت کے محسن اعظم حضرت محمد ﷺکے عطا کردہ حقوق انسانی کے منشورکو دنیا ’’خطبہ حجتہ الودوع‘‘ کےنام سےجانتی ہے۔ تمام انسانی  منشوروں کے مقابلے میںوہ تاریخی اولیت اور ابدی فوقیت کا حامل ہے۔ انسانی حقوق کا یہ مثالی منشور رہتی دنیا تک کے تمام انسانوں اور انسانی معاشروں کے لیے ہدایت فراہم کرتا ہے۔

مغربی دنیا کے بیان کردہ حقوق میں وقتی تقاضوں اور مصلحتوں کی وجہ سے اضافے اور تنسیخ کا عمل جاری رہتا ہے اور یہی اُن کے نقص کی دلیل ہے۔ انسانی عمل نقائص سے پاک نہیں ہوتا، مشاہدہ اس کی دلیل ہے۔ انسانی حقوق کے مغربی علمبر داروں کے قول و فعل میں تضاد بھی ہے جس کے نتیجہ میں دنیا  میں آج ہرجگہ انسان کی قدرومنزلت پامال ہورہی ہے۔

رحمتِ عالم نے’’ خطبہ حجۃ  الوداع‘‘ کی صورت میں’’انسانی حقوق‘‘ کا منشوراہم تاریخی موڑ پیش کیا۔ جب مغربی دنیا انسانی حقوق  انسانیت اور انسانیت نوازی سے حد درجہ دور تھی۔ اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے یورپ کا نامور دانش ور مورخ رابرٹ بریفالٹ (Robert Brieffalt) لکھتا ہے:

’’پانچویں صدی عیسوی کے آغاز سے دسویں صدی کے اختتام تک یورپ پر گہری تاریکی چھائی ہوئی تھی اور یہ تاریکی تد ریجا زیادہ گہری اور بھیانک ہوتی جارہی تھی اس دور کی وحشت و بربریت زمانہ قدیم کی وحشت وبربریت سے کئی درجہ زیادہ تھی۔‘‘(۱)

عہد حاضر میں’’ انسانی حقوق‘‘ (Human Rights) کے موضوع کی اہمیت ،اہل علم وتحقیق پر مخفی نہیں آج دنیا کا اہم موضوع بحث’’انسانی حقوق‘‘ ہے۔ مغربی دنیا اپنے تئیں انسانی حقوق کی علمبردار اور ترجمان ظاہر کرتی ہے۔ اس حوالہ سے اقوامِ متحدہ کے منشور انسانی حقوق کی تشہیربھی خوب کرائی گئی جبکہ اس کا نفاذ عملاً بہت کم ہوا ہے۔ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ خطبہ حجتہ الوداع کو موضوع تحقیق بنایا جائے۔ اس کی اہمیت وافادیت واضح کی جائے۔

انسانی حقوق کا مفہوم

انسانی حقوق بنی نوع انسان کے حقوق اور آزادیوں سے عبارت ہیں۔ اصطلاحی طور پر انسانی حقوق کا استعمال نسبتاً نیا ہے ۔ یہ اصطلاح ’’فطری حقوق‘‘ کے متبادل کے طور پر وجود میں آئی ۔

حقوق کے بغیر انسان اپنی شخصیت کے اظہار اور ضروری نشوونما سےمحروم رہتا ہے ۔ وہ اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار نہیں لا سکتا۔ لفظ حق اہل لغت کے ہاں مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے۔

حق کے معانی

علمائے لغت نے حق کے کئی معنی بیان کیے ہیں ۔حق کے عام معنی لازم کے ہیں۔ واجب اور جائز کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔(۲) اور اس سے مراد وہ ذمہ داری ہوتی ہے جو کسی آدمی پر عائد ہوتی ہے۔ حقوق و فرائض کا گہرا تعلق ہے اگر ایک کے حقوق ہیں تو وہی دوسرے کے فرائض بن جاتے ہیں ۔ قرآن کریم میں لفظ ’’حق‘‘ اور لفظ ’’انسان‘‘ کا ذکر متعدد آیات میں موجود ہے۔ قرآن کریم میں ہے:

’’وَ لاَ تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ‘‘(۳)(سورۃ بقرہ ۴۲)

سورہ عصر میں ہے:

وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ(۴)(سورۃ عصر ۳)

’’اور وہ آپس میں حق کی وصیت کرتے ہیں اور صبر کی وصیت کرتے ہیں‘‘۔

اور یہ لفظ حق، حقت، بحق، استحق، حقا، حقہ، حق، حقیق جیسے کلمات کی صورت میں استعمال ہوا ہے۔ (لفظ حق ۲۲۶ جگہوں اور باقی جگہوں میں واحد اور تثنیہ کی صورت میں جبکہ سنت نبویہ میں ۲۵۸ احادیث میں (ح،ق،ق) کے مادہ کے تحت لفظ حق استعمال ہوا ہے۔((۵)اسی طرح قرآن کریم میں ’’انسان‘‘ کا ذکر سورۃ نساء سے سورۃ عصر تک ۶۵ جگہوں پر آیا ہے۔ قرآن کریم میں ہے:

وَ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًا(۶) (سورۃ نساء ۲۸)

’’اور انسان کمزور پیدا کیا گیا ہے‘‘۔

انسانی حقوق کی اصطلاح کا وسیع تر مفہوم انسانی زندگی، شرف و وقار کے تحفظ اور اس سے متعلقہ معاملات کا احاطہ کرتا ہے۔ ماہرین قانون  نے اپنے اپنے انداز سے انسانی حقوق کا تصور دینے کی کوشش کی ہے۔ مشہور مغربی مفکر لاسکی (Laski) کہتا ہے۔

“The more equal are the social rights of citizens, the more likely they are to be able to utilize their freedom in realms worthy of exploration.”(7)

(کسی ریاست میں شہریوں کے سماجی حقوق جتنے مساوی ہوں گے وہ زندگی کے مختلف دائروں میں اتنا ہی زیادہ آزادی سے متمتع ہو سکیں گے۔)

آغا ز و ارتقا__ تاریخی جائزہ

مغرب میں انسانی حقوق کی جدوجہد کا آغاز گیارھویں صدی عیسوی میں برطانیہ سے ہوا۔ ۱۰۳۷ء میں شاہ کانریڈ دوم (Conrad II) نے ایک منشور جاری کر کے پارلیمنٹ کے اختیارات متعین کیے۔

۱۱۸۸ء میں شاہ الفانسو نہم(Al Fonso IX) سے حبس بے جا روکنے کا اصول تسلیم کرایا گیا۔

۱۲۱۵ء میں میگنا کارٹا (Magna Carta) جاری ہوا جسے وولیئر نے منشور آزادی قرار دیا۔(۸)

میگنا کارٹا (منشور اعظم ۱۲۱۵ء)

انگلستان کا شاہ جان (King John)  ۱۱۹۹ء سے ۱۲۱۶ء میں اپنی معزولی تک برطانیہ کا حکمراں رہا۔وہ ظالم و جابر حکمراں تھا اسی لیے تاریخ میں اسے (John The Tyrant) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

امراء (Barons) کے دباؤ کے تحت اس نے ۱۵ جون ۱۲۱۵ء کو اس منشور پر دستخط کر دیے جو تاریخ میں ’’منشورِ اعظم‘‘ کے نام سے مشہور ہے اور جسے انگلستان کے دستوری ارتقا میں سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ اس منشور میں حکمرانی کے بنیادی اور مسلمہ اصول کو بیان کیا گیا ہے جس کی پابندی بادشاہ اور امرا ہر دوپر لازم تھی۔ اس میں انفرادی آزادی   شامل ہے کہ کسی شخص کو مقدمہ چلائے بغیر سزا نہیں دی جا سکتی اور عوام کو جو آزادیاں حاصل ہیں وہ برقرار رہیں گی۔ نیز امرا کے مشورہ کے بغیر بادشاہ کو من مانے طریقہ پر رقم خرچ کرنے کا اختیار نہ ہو گا یہ منشور گویا انگلستان کے عوام کی آزادی کا پروانہ تھا اور انگلستان کی جمہوریت کے لیے بنیادی حیثیت کا حامل تھا۔

چنانچہ ۱۲۱۵ء میں جب انگلستان کی پارلیمنٹ رسمی طور پر معرض وجود میں آئی تو اس منشور کی بنیاد پر دستوری قانون منظور ہوا۔یہ انگلستان کے امراء کی اس مجلس اعلیٰ کی ترقی یافتہ شکل تھی جو  داناؤں کی مجلس کہلاتی تھی اور پارلیمنٹ کے وجود میں آنے سے پہلے بادشاہوں کے لیے اس کے مشورے  پرعمل کرنے کی پابندی لازمی تھی اس پر منشور اعظم کے ذریعہ تصدیق ثبت کر دی گئی۔((۹)

منشور اعظم میگنا کارٹا کی آئینی حیثیت

اس میں شک نہیں کہ ’’میگنا کارٹا‘‘ برطانیہ میں بنیادی حقوق کی اہم اور تاریخی دستاویز ہے لیکن اس کا یہ مفہوم بہت بعد میں اخذ کیا گیا ہے۔اس کے اجرا کے وقت اس کی حیثیت محض امراء اور شاہ جان کے درمیان ایک معاہدہ کی سی تھی۔ جس میں امرا کے حقوق کا تحفظ کیا گیا تھا عوام کے حقوق سے اس کا قطعاً کوئی تعلق نہ تھا۔

مغربی دنیا کے نام نہاد منشور اعظم میگناکارٹا مجریہ ۱۲۱۵ء کی حقیقت و حیثیت (جسے مغربی دنیا کی تاریخ انسانی حقوق کا اہم قدم اور نقطہ آغاز قرار دیا جاتا ہے)خود مغربی دانش ور مقنن ہنری مارش (Hanry Marsh) کے تبصرہ کی روشنی واضح ہو جاتی ہے۔

’’متمول جاگیرداروں کے ایک منشور کے سوا اس کی کوئی حیثیت نہ تھی۔‘‘(۱۰)

قانونی چارہ جوئی

۱۳۵۵ء میں برطانوی پارلیمنٹ نے ’’میگنا کارٹا‘‘ کی توثیق کرتے ہوئے قانونی چارہ جوئی کا حق منظور کیا۔ جس کے تحت کسی شخص کو عدالتی چارہ جوئی کے بغیر زمین سے بے دخل یا قید نہیں کیا جا سکتا اور نہ اسے سزائے موت دی جا سکتی تھی۔اس کے بعد قابل لحاظ عرصےتک یورپ پر میکیاولی کے نظریات کا غلبہ رہا جس نے آمریت کو استحکام بخشا۔ ۱۷ ویں صدی عیسوی میں انسان کے فطری حقوق کا نظریہ قوت سے ابھرا۔۱۶۷۹ء میں برطانوی پارلیمنٹ کے ذریعے حبس بے جا کے خلاف قانون منظور ہوا جس نے عام شہریوں کو بلا جواز گرفتاری سے تحفظ فراہم کیا۔

امریکہ کا اعلان آزادی۱۷۷۶ء

۱۲ جولائی ۱۷۷۶ء کو امریکہ کا اعلان آزادی جاری ہوا اس کا مسودہ تھامس جیفرسن(Thomas Jeffersson) کا تحریر کردہ تھا۔ اس اعلان کے ابتدائیہ میں فطری قانون کے حوالہ سے کہا گیا ہے کہ تمام انسان یکساں پیدا کیے گئے ہیں۔ انہیں ان کے خالق نے غیر منفک حقوق عطا کیے ہیں جن میں تحفظ زندگی، اور تلاش مسرت کے حقوق شامل ہیں۔

۱۷۸۹ء میں امریکی کانگریس نے آئین کے نفاذ کے ۳ سال بعد اس میں ۱۰ ترمیمات منظور کیں جو قانون حقوق کے نام سے مشہور ہیں۔ اسی سال فرانس نے منشور انسانی حقوق منظور کیا۔۱۷۹۲ء میں تھامس پین(Thomas Paine) نے مشہور کتابچہ ’’حقوق انسانی‘‘ (The rights of man) تحریر کیا۔ جس نے مغرب میں انسانی حقوق کی جدوجہد کو آگے بڑھایا۔ ۱۹ ویں اور ۲۰ ویں صدی میں ریاستوں کے دساتیر میں بنیادی حقوق (Fundamental Human Rights) کی شمولیت ایک عام روایت بن گئی۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد جرمنی اور متعدد یورپی ممالک کے دساتیر میں ’’بنیادی حقوق‘‘ شامل کیے گئے۔اگست ۱۹۴۱ء میں منشور اوقیانوس (Atlantic Charter) پر دستخط ہوئے جس کا مقصد بقول چرچل انسانی حقوق کے تحفظ کے ساتھ جنگ کا خاتمہ تھا۔

’’دوسری جنگ عظیم کے بعد تحریری دساتیر میں بنیادی حقوق کی شمولیت مزید عام ہو گئی۔ فرانس نے اپنے ۱۹۴۶ء کے دستور میں ۱۷۸۹ء کے منشور انسانی حقوق کو شامل کیا اسی سال جاپان نے بنیادی حقوق کو دستور کا حصہ بنایا۔ ۱۹۴۷ء میں اٹلی نے اپنے دستور میں انسانی حقوق کی ضمانت دی۔‘‘(۱۱)

اقوامِ متحدہ کا حقوق انسانی کا منشور ۱۹۴۸ء

مغربی دنیا میں انسانی حقوق کی ان کوششوں کے نتیجہ میں جنرل اسمبلی نے ۱۰ دسمبر ۱۹۴۸ء کو حقو ق انسانی سے متعلق عالمی اعلان منظور کیا۔ جس کے تحت حقوق انسانی کے تحفظ کی ذمہ داری بین الاقوامی برادری نے قبول کی۔ یہ اعلان ۳۰ دفعات پر مشتمل ہے اور ان دفعات کا تعلق شہری، سیاسی، اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق سے ہے۔

اعلان کی دفعات تین سے اکیس تک شہری اور سیاسی حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے ۔ ان میں زندہ رہنے کا حق شامل ہے۔ فرد کی آزادی، غلامی سے آزادی، حکومت میں شریک ہونے کی آزادی اور سرکاری ملازمت کے حصول کے حقوق تسلیم کیے گئے ہیں۔

دفعات ۲۲ تا ۲۷ کا تعلق اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق سے ہے۔ اعلان کی آخری دفعات ۲۸ تا ۳۰ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ہر شخص کو ایسے سماجی اور بین الاقوامی نظام میں  رہنے کا حق ہے۔ جس میں حقوق اور آزادی کو تسلیم کیا گیا ہو۔(۱۲)

ہندوستان کی حالتِ زار

ہندوستان ایک قدیم ملک ہے ہندوستان کی تہذیب کو دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ یہاں طبقاتی تقسیم کا تصور ابتدامیں معمولی صورت میں موجود تھا۔ غالباً تقسیم رنگ کی بنیاد پر تھی۔ آریہ اقوام سفید رنگ کی تھیںاور مقامی لوگ جو غیر آریہ تھے وہ سیاہ رنگ والے تھے اس لیے پہلی تقسیم آریہ اور غیر آریہ کی صورت میں سامنے آئی۔

مسٹرWinternitz اس تقسیم کی وجہ بتاتے ہیں:

’’اپنے سے کہیں زیادہ مقامی آبادی کو آریاؤں نے اپنے سے کم تر گردانا اور خدشہ محسوس کیا کہ اگر انھوں نے مقامی لوگوں سے باہمی شادیوں پر پابندی نہ عائد کی تو وہ بہت جلد اپنی شناخت کھو دیں گے۔ ایک یا دو صدیوں میں وہ بھی مقامی آبادی کا جز بن جائیں گے لہٰذا پہلی تقسیم رنگ کی بنیاد پر کی گئی۔‘‘(۱۳)

بعد میں ہندوستان میں برہمنیت کو اعلیٰ درجہ حاصل ہوا۔ ان کو فوق الانسانی حقوق ملے گویا دیگر انسانیت صرف ان کی خدمت گزاری کے لیے تھی۔

 یونان وروم

دنیا کی تاریخ میں یونان وروم کا نام بہت مشہور ہے لیکن جدید تحقیق نے ان سلطنتوں کی بربادی کی داستان بھی ہمارے سامنے رکھ دی ہے۔

ڈاکٹر حمید اللہ اس بارے میں لکھتے ہیں:

’’یونان کے سب باشندے ایک ہی نسل کے تھے لیکن الگ الگ شہروں میں رہتے تھے اپنے ہی ہم نسل یونانیوں سے برتاؤ کے متعلق یونان کی شہری ریاستوں میں کچھ متعین قواعد تھے۔ قدیم یونان کے معاشرے کو انہیں قواعد کے تحت تین طبقوں میں تقسیم کیا گیا: ۱۔بادشاہ، ۲۔امرا، ۳۔عوام۔‘‘(۱۴)

جو اقوام خود مختلف طبقات میں تقسیم کا شکار ہوں وہ کبھی یکسانیت کے ساتھ حقوق ادا نہیں کر سکتیں اور نہ ہی حق کی حقیقت سے آشنا ہو سکتی ہیں۔

روم میں حقوق کی صورتِ حال

رومی سلطنت مسلمانوں سے قبل دنیا کی عظیم سلطنت تھی۔ زمانہ حال کے علماء سیاست اپنی حکومتوں کا سلسلہ روماہی سے ملاتے ہیں اور کہتے ہیں:

’’دنیا ایک انگشتری تھی اور روما اس کا نگینہ‘‘(۱۵)

رومی معاشرہ دنیا کے دوسرے معاشروں کے مقابلے میں زیادہ متمدن اور مہذب تھا۔ لیکن یونان کی طرح طبقاتی تقسیم یہاں بھی پائی جاتی تھی۔ سلطنت روما کی آبادی دو حصوں میں منقسم تھی۔ ۱۔امراء، ۲۔ عوام۔

امراء خوشحال تھے۔ مگر عوام کو کوئی حق حاصل نہ تھا۔ ان تاریخی شواہد کے ساتھ جب اسلام اور اس کے منشور انسانی حقوق پر طائرانہ نظر ڈالی جاتی ہے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ سب سے پہلے روئے زمین پر حقوق انسانی کی ترویج و اشاعت اسلام نے کی۔

ِ اسلام اور انسانی حقوق

انسانیت کے محسن اعظم، حضرت محمدﷺ نے انسانیت کی عظمت، احترام اور حقوق پر مبنی واضح تعلیمات و ہدایات دیں۔ ’’حقوق انسانی‘‘کے متعلق دائمی تصور حقوق و فرائض عطا فرمایا۔ یہ منشور انسانی حقوق کی حتمی اور دائمی دستاویز کی حیثیت رکھتا ہے۔

محسن انسانیت ﷺ کی پوری حیات طیبہ انسانیت نوازی اور انسانی حقوق کی پاس داری سے عبارت ہے ۔بطورِ خاص ’’معاہدہ حلف الفضول‘‘ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ سرزمین عرب بالخصوص مکہ کی ریاست میں عرب تاریخ میں پہلی مرتبہ قیام امن، بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ اور مظلوموں کی داد رسی کا تاریخ ساز معاہدہ کیاگیا ۔

معروف محقق اور قانونِ بین الاقوام کے ماہر ڈاکٹر حمید اللہ لکھتے ہیں:

’’حلف الفضول میں شریک ہونے والے رضا کار متحدہ طور سے اپنے شہر مکہ میں ظالموں کا ہاتھ روکتے اور مظلوموں کو اُن کا حق دلاتے۔‘‘(۱۶)

حضرت محمد مصطفیﷺ کی حیاتِ طیبہ اور سیرتِ مطہرہ میں (معاہدہ الفضول، ۳۷ قبل ہجری)، میثاقِ مدینہ (۱ھ۔۶۲۳ء)، خطبہ فتح مکہ (۸ھ۔۶۳۰ء)، خطبہ حجۃ الوداع (۱۰۹ھ۔۶۳۲ء) کو انسانی حقوق کے لیے کی جانے والی جدوجہد کےمراحل کہا جاسکتا ہے۔

ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ پیغمبراسلام ﷺ کی پوری حیاتِ طیبہ انسانیت نوازی اور انسانی حقوق کے عملی نفاذ سے عبارت ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے روایت کیا ہے کہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’الخلق عیال اللّٰہ، فاحب الخلق الی اللّٰہ من احسن الی عیالیہ‘‘(۱۷)

(پوری انسانی) مخلوق اللہ کا کنبہ ہے، پس اللہ کے نزدیک مخلوق میں بہتر وہ ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ احسان کرے‘‘۔

معاہدہ حلف  الفضول مظلوموں کی امداد کا پہلا تاریخی منشور ہے جو کہ نبی کریم ﷺ کی طرف سے پیش کیا گیا تھا’’حلف الفضول‘‘، ’’ حلف‘‘ یہ لفظ’ح‘ کے زیر اور زبر دونوں طرح استعمال ہوتا ہے اور حلف کے معنی قسم کے علاوہ معاملہ کے بھی ہیں۔(۱۸)

علا مہ فیروزآبادی ’’ معاہدہ حلف الفضول‘‘کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

وقد سمت قریش ھذاالحلف حلف القفول لا نھم تحالفو اعلی ان لایترکواعند احد فضلا لظیمہ احد (الا یتر کون بقیہ حق لمظلوم مند ظالمہ) الا اخذوہ لہ منہ(۱۹)

’’قریش نے اس حلف کو اس سے اس لیے موسوم کیا۔ کہ انہوں نے یہ حلف اٹھایا تھا کہ وہ کسی کے پاس یہ اختیار نہیں چھوڑیں گے کہ وہ کسی پر ظلم کر سکے(یعنی کسی مظلوم کا حق ظالم کے پاس نہیں چھوڑیں گے)لیکن اسے ہر حال میں واگزار کرائیں گے‘‘۔

میثاق مدینہ انسانی حقوق کی دستاویز ہے۔ انسانی حقوق کا جامع نظریہ پیش کیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی حفاظت کی مؤثر تعلیمات وہدایات جاری کی گئی ہیں۔ انہیں نافذ العمل بنا کر اسلامی مملکت کے دستورکا جزو قرار دیا گیا ہے۔ میثاق مدینہ ریاستی حقوق کے حوالے سے پہلا تاریخ ساز دستور ہے۔ اسی طرح ’’فتح مکہ‘‘کے موقع پر اعلانات کو انسانی حقوق کے حوالے سے بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ یہ خطبہ۸ ہجری۱۰ رمضان کودیا گیا۔

بنیادی حقوق کا جامع عکس ’’خطبہ حجتہ الوداع‘‘ میں ہے۔ یہ خطبہ تاریخی اولیت رکھتا ہے حقو ق کی تلقین کسی سیاسی مصلحت کی بنا پر نہ تھی اور نہ کسی وقتی جذبہ کی پیداوار یہ محسن انسانیتﷺ کا انسانیت کے نام آخری اور دائمی پیغام تھا جس میں انسانی حقوق کے بنیادی خطوط متعین کیے گئے اور حقوق کا مثالی اور ابدی منشور عطا کیا گیا۔

حوالہ جات

  1. Robert briffault:The making of humanity london,1919,P,164

۲۔       ابن منظور، محمد بن مکرم انصاری، لسان العرب، بیروت: داراحیاء التراث العربی، الطبعۃ الاولیٰ، ۱۹۹۵ء۲؍۳۲۷                       ۳  ۔البقرہ: ۴۲           ۴۔العصر:۳

۵۔   ابی ونسک،معجم المفھرس لالفاظ الحدیث النبوی،بیروت: داراحیاء التراث العربی، الطبعۃ الاولیٰ، ۱۹۹۵ء

۶۔  النسآء:۲۸

  1. Laski, Harald J.liberty in the modern state, Harper and bothers 1930,P,8

۸۔   محمد صلاح الدین، بنیادی حقوق،ترجمان القرآن، لاہور:س ن ۱۹۷۸،ص۴۲

۹۔    ول ڈیورنٹ، آرٹیل ڈیورنٹ، مترجم: محمد بن علی باوہاب،کارپوریشن کراچی: یونائیٹڈ بک، ۱۹۹۶ء،ص۱۷۴

  1. Henry Marsh, documents of library, England, 1971,P,51

۱۱۔                               محمد صلاح الدین، بنیادی حقوق،ص۴۵

۱۲۔                            اقوامِ متحدہ کے متعلق بنیادی حقائق، مطبوعہ دفتر اطلاعاتِ عامہ، اقوامِ متحدہ اسلام آباد، ۱۹۷۳ء،ص۸۸۔۸۹

  1. Winternitz M:History of Indian literature,64؍1

۱۴۔                            حمید اللہ، ڈاکٹر، اسلامی ریاست، دارالاشاعت،لاہور، ص ۶۵

۱۵۔                            حامد الانصاری، اسلام کا نظامِ حکومت،دہلی: ندوۃ المصنفین،۱۹۵۶ء،ص۴۲۳

۱۶۔                             حمید اللہ،ڈاکٹر، رسولِ اکرمﷺ کی سیاسی زندگی،لاہور: ادارہ ثقافتِ اسلامی، ص۵۸

۱۷۔                           خطیب بغدادی ،مشکوۃ المصابیح، کراچی: میر محمد کتب خانہ،رقم الحدیث،۱۴۲

۱۸۔                            اردو دائرہ معارفِ اسلامی،لاہور: دانش گاہ پنجاب،۱۹۷۳ء،ص۸؍۵۱۲

۱۹۔                              الفیروز آبادی، القاموس المحیط، مصر: المطبعۃ الحسینیہ،۱۹۱۳ء،ص۴؍۳۱

مشمولہ: شمارہ اپریل 2018

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau